افسانہ نگار : مانو کول
ہندی سے ترجمہ: رضوان الدین فاروقی
اپنے گھر کو تقریباًمیں بیس دفعہ پھر سے جما چکا ہوں، پھر بھی لگتا ہے کہ کہیں کچھ چھوٹ گیا ہے۔ اب پچھلے پندرہ منٹ سے اس کھڑکی کے پردے کو لے کر پریشان ہورہا ہوں۔
اسے لگا ہی رہنے دوں یا کھلا چھوڑ دوں؟ کھلا ہی رکھتا ہوں۔
آج تین سال بعد، وندنا مجھ سے ملنے آرہی ہے۔ اچھا ہی ہے کہ وہ اکیلی آرہی ہے، رشی اس کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ بتا رہی تھی، اس نے اپنے بال کٹوا لیے ہیں۔
کیسی دکھتی ہوگی، چھوٹے بالوں میں؟ سات سال ہم لوگ ساتھ رہے ہیں۔ ان تین سالوں میں وہ کتنا بدل گئی ہوگی؟ اپنی ساری پرانی پینٹنگز میں نے چھپا لی ہیں، صرف ایک پینٹنگ باہر رکھی ہے جو اسے بہت پسند تھی۔ سوچتا ہوں، یہ اسے دے دوں گا۔ آج اتنے سالوں بعد وہ مل رہی ہے۔ کچھ تو دینا ہی چاہیے نا! اس کے لیے میں نے کڑی چاول بنائے ہیں۔ اسے بہت اچھے لگتے تھے مگر ساتھ میں آلو گوبھی کی سوکھی سبزی بھی بنائی ہے۔ یہ ڈر کی وجہ سے بنائی ہے۔
پتہ نہیں کتنا بدل گئی ہوگی۔ پردہ بند کردیتا ہوں ،بہت زیادہ روشنی اندر آرہی ہے۔ نہیں، یہ تو کافی اندھیرا ہوگیا، تھوڑا کھلا رکھتا ہوں۔
کل اس کا فون آیا تھا۔ مجھے عجیب لگا، تین دن سے وہ اسی شہر میں ہے۔ تین دن بعد اس نے مجھے فون کیا ہے۔ شاید مصروف رہی ہوگی۔ پتہ نہیں، بہت کام کرتی ہے۔ کہہ رہی تھی، بس تھوڑی ہی دیر کے لیے آئے گی۔ میرے بہت ضد کرنے پر وہ ڈنر کے لیے تیار ہوگئی؛ اَرلی ڈنر۔ کہنے لگی، ڈنر کے وقت پر آؤں گی اور چلی جاؤں گی۔ یہ شاید کسی تعلق کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ آخری بار ہم لوگوں نے یہیں اسی کمرے میں ڈنر ساتھ میں کیا تھا۔ یہیں وہ میرے سامنے بیٹھی تھی، چپ چاپ اور آج تین سال بعد ہم یہیں ساتھ میں ڈنر کریں گے۔ ان تین سالوں میں میں نے تمھیں جتنا اکیلے جیا ہے اور جتنا تم نے مجھے یاد کیا ہے، ہم وہ سب ایک دوسرے کو واپس دے دیں گے اور پھر ہمارے رشتے میں ’ہے‘ کے سارے نشان مٹ جائیں گے۔
مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے۔ آخری بار ہم دونوں ڈنر ساتھ کر رہے تھے۔ تم کھانا کھا چکی تھی اور میری تھالی میں صرف آدھی روٹی بچی پڑی تھی، بنا دال بنا سبزی کے۔
میں چور نظروں سے بار بار تمھیں دیکھ رہا تھا اور تم تھالی میں پتہ نہیں کون سا نقش بنا رہی تھیں۔ کھانا کھانے کے بعد جب بھی تم تھالی میں اپنی انگلیوں سے نقش بناتی ہو تو پتہ نہیں کیوں میں بادلوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ شاید تمھیں پتہ ہے کہ تم تھالی میں اپنی انگلیوں سے کیا بنا رہی ہو مگر میں ان بادلوں کو دیکھ رہا ہوں، جنھیں کبھی تم گہرا کردیتی ہو تو کبھی ایک بھی بادل تمھاری تھالی میں نہیں ہوتا۔ تبھی تم نے گہری سانس اندر لی اور پھر چھوڑ دی۔ ’چپ رہوں یا کچھ کہہ دوں‘ جیسے خیالات کے بہت سے ہاتھی اور خرگوش بادلوں میں بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ پھر تھوڑی دیر میں تم نے اپنی انگلی ہٹا لی۔ ان بادلوں کو اکیلا چھوڑ دیا اور تھالی کے کناروں کو زور زور سے رگڑنے لگیں جیسے جو بادل ابھی ابھی تم نے بنائے تھے وہ بس برسنے ہی والے ہیں تبھی ایک بوند تھالی میں آکر گری اور سارے کے سارے بادل آکر بھیگ گئے۔
مجھے اس بوند کے گرتے ہی ایک سسکی سنائی دی۔ لیکن میں کافی دیر تک کچھ نہیں بولا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا مگر وہ مجھے دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔ تو تھوڑی دیر بعد مجھے کہنا پڑا۔
’پانی پی لو۔‘
میں یہ جملہ کافی دیر سے اپنے من میں دہرا رہا تھا۔ میری آواز سنتے ہی مجھے لگا میں نے وہ تار کاٹ دیا ہے جس کی وجہ ہم دونوں یہاں بندھے بیٹھے تھے۔ اس نے پانی نہیں پیا، اس نے اپنی تھالی اٹھائی اور اندر چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی میں اچانک ہلکا محسوس کرنے لگا۔ میں کافی دیر سے ہلا بھی نہیں تھا۔ ایک ہی طرح سے بیٹھے رہنے کی وجہ سے میرا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا۔
’شِو، میں اب الگ رہنا چاہتی ہوں۔‘
خاموشی اسی جملے سے شروع ہوئی تھی۔ اسی درمیان میرا جی چاہا تھا کہ چلا کر کہہ دوں۔
’تم پاگل ہو گئی ہو!‘
’یہ کیا کررہی ہو؟‘
’دیکھو میں…‘
مگر میں کچھ کہہ نہیں پایا۔ پھر میرا جی چاہا کہ کم سے کم ایک سگریٹ ہی پی لوں لیکن میں نے نہیں پی۔ ایسے وقت آپ کو وہ سب کچھ کرنے کی خواہش ہوتی ہے، جسے اس خاموشی نے باندھے رکھا ہو اور ایسے ہی وقت آپ کو اپنے نام سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ کاش! یہ ’شِو‘ میرا نام نہ ہوتا تو وہ کسی اور سے کہہ رہی ہوتی۔ ’شِو، میں اب الگ رہنا چاہتی ہوں۔‘ میں جب تمھاری تھالی میں ان بادلوں کو دیکھ رہا تھا، تمھارے ساتھ گزارے کتنے سال ان بادلوں میں مجھے پھر سے نظر آئے۔ میں نے انھیں پھرسے چکھا۔ تمھارے الگ رہنے کے اظہار کو چھوڑ کر باقی سب مزے دار تھا!
مجھے پتہ نہیں کیوں اس پردے سے نفرت ہو رہی ہے، اسے نکال دوں کیا؟ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ میں نے آج ہی خرید کر لگائے ہیں۔ لیکن اب جو ہے، سو ہے۔
مجھے ہماری پہلی ملاقات یاد ہے۔ مطلب، پہلی یادگار ملاقات۔ آئی سی ایچ (انڈین کافی ہاؤس) میں ہم دونوں بیٹھے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ میری پہچان کا کوئی یہاں نہ آجائے کیونکہ آئی سی ایچ ہمارا اڈہ تھاجہاں ہم اڈے باز روز شام کو ملا کرتے تھے۔
آئی سی ایچ کے ویٹر بھی کافی حیران تھے، کیونکہ انھوں نے پہلی بار مجھے کسی لڑکی کے ساتھ یوں اکیلے بیٹھے دیکھا تھا۔ میں سگریٹ پیے جارہا تھا اور تم خیالی کافی کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ میں تمھاری انگلیوں کو دیکھ رہا تھا اور تم پتہ نہیں کیا سوچ رہی تھیں۔
’تمھاری زندگی میں کسی ایک چھوٹی جگہ کے ایک کونے کو، کیا میں اپنے طریقے سے سجا سکتی ہوں۔‘
میں تمھاری انگلیوں کو دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ تم نے من میں یہ سوچا ہوگا، جب تم نے آخر میں صرف اتنا کہا، ’مجھے گھر سجانا اچھا لگتا ہے۔‘
پھر تم کچھ ماچس کی تیلیوں سے گھر جیسا کچھ بنانے لگیں۔ سچ، مجھے کچھ اور کہنا تھا۔ مجھے پتہ تھا، تمھارے جانے کا وقت ہو رہا ہے۔ میں کہنا چاہ رہا تھا کہ تھوڑی دیر اور رک جاؤ۔ صرف تب تک، جب تک ان ماچس کی تیلیوں کا گھر پورا نہ بن جائے۔ لیکن میں نے کہا، ’تمھیں دیر تو نہیں ہو رہی؟‘ تم نے فوراً اپنی انگلیوں سے گھر بکھیر دیا۔
’ہاں، مجھے چلنا چاہیے۔‘
’کل؟‘
’کل، میں کوشش کروں گی۔‘
’ٹھیک ہے۔‘
اب تم اپنا پرس اٹھاؤگی، ایک بار مجھے دیکھ کر مسکراؤگی اور چلی جاؤگی۔ میں کافی دیر یہیں بیٹھا رہوں گا۔ انھیں بکھری ہوئی تیلیوں کے ساتھ اور سوچتا رہوں گا۔ اس گھر کے بارے میں جو ان تیلیوں سے بن سکتا تھا۔
وندنا ٹھیک کہتی تھی، مجھے سچ میں رنگوں کا علم نہیں ہے، مطلب مصور ہوکر رنگوں کا علم نہیں ہے۔ اب یہ نیلی دیواروں کے گھر میں، کوئی اپنی کھڑکی پر لال پردے کیسے لگا سکتا ہے؟ پرانے پردے ہی ٹھیک ہیں، سوچا تھا نئے پردے لگاؤں تو اسے لگے گا کچھ بدل گیا ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا، کچھ بدلا ہے۔ پرانے پردے زیادہ ٹھیک ہیں، انھیں ہی لگاتا ہوں۔
اس کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کو جب یاد کرتا ہوں تو لگتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ وہ میرے اندر اس قدر زندہ ہے۔ مجھے ہمیشہ ایک بات پر حیرت ہوتی ہے، میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا مگر کبھی پوچھ نہیں پایا اور اب شاید پوچھ بھی نہیں سکتا ۔ لیکن میں سچ میں جاننا چاہتا تھا کہ اتنے سارے لڑکوں میں اس نے مجھے ہی کیوں منتخب کیا؟ شاید یہ اس کے لیے بچکانی بات ہو، مگر میرے لیے اسی بات نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ آئی سی ایچ میں سگریٹ کے کش کے ساتھ، دنیا بدل دینے والی باتیں پھیکی لگی تھیں۔ اپنی پینٹنگ مجھے بچکانی لگنے لگی تھی۔ میں اب پینٹنگ نہیں، عشقیہ نظمیں لکھنا چاہتا تھا۔ بس انتظار کرتا تھا ان دوپہروں کا جب وہ مجھ سے ملا کرتی تھی۔ کیا تھا یہ پہلا عشق، پہلا سیکس یا تمھاری انگلیاں، جو کہانیاں کہتی تھیں۔
’شِو، میں الگ رہنا چاہتی ہوں۔‘ کاش! میں نے اس سے شادی کرلی ہوتی تب وہ مجھ سے کہتی، ’شِو ، میں تم سے طلاق چاہتی ہوں۔‘ اور یہ کہنا ’الگ رہنا چاہتی ہوں‘ سے زیادہ مشکل ہوتا۔ جب وہ اپنی تھالی لے کر اندر چلی گئی تھی، تب میں اپنی تھالی میں بچی ہوئی آدھی روٹی کو دیکھ رہا تھا۔ ایک عجیب سا خیال آیا۔ آدھی زندگی گزار چکا ہوں، آدھی بچی ہوئی ہے؛ بنا سبزی، بنا دال کے تنہا جسے کوئی کھانا نہیں چاہتا۔ وہ شاید اندر بیڈ روم میں جاکر رو رہی ہوگی یا اپنی تھالی رکھنے کے بعد کچن میں ہی کھڑی ہوگی۔ پتہ نہیں، اگر میں تھالی رکھنے کچن میں گیا اور وہ وہاں مجھے کھڑی ملی تو بات اسے ہی شروع کرنی پڑے گی چونکہ میں کچن میں تھالی رکھنے آیا ہوں اور جا بھی سکتا ہوں۔ لیکن اگر وہ اندر بیڈروم میں چلی گئی ہوگی تو بات مجھے ہی شروع کرنی پڑے گی کیونکہ اس کے دائرے میں داخل ہونے کے بعد میں بنا بات کے نہیں جا سکتا ہوں۔ یہ کچھ عجیب سے قاعدے ہیں، جن کا حساب پورے وقت میرے دماغ میں ضرب تقسیم کر رہا ہوتا ہے۔
کچن میں تم نہیں تھیں۔ اس لیے، میں نے تھالی رکھی اور اندر تمھارے دائرے میں داخل ہوگیا۔
میرے پیر کچھ ڈھیلے پڑنے لگے تھے۔ تم دوسری طرف کروٹ لیے لیٹی تھی۔ یہ ایک طرح کا اشارہ تھا کہ تم مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ لیکن یہ سوال میری زندگی کا تھا، سو میرا بات کرنا بہت ضروری تھا۔ لیکن میں وہیں کھڑا رہا۔ میرے پیر آگے بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ تبھی میری نگاہ اپنے بیڈروم پر گئی۔ اس پورے بیڈروم میں، بیڈروم کی تمام چیزوں پر تمھارے ہاتھوں کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر ایک ریاضی جیسا سوال میرے ذہن میں آیا کہ اگر عدالت میں مجھے ثابت کرنا ہو کہ ’یہ بیڈروم جتنا تمھارا ہے، اتنا ہی میرا بھی ہے‘، تو کیسے ثابت کروں گا؟ اگر اس بیڈروم سے میں سگریٹ کا پیکٹ ہٹا لوں تو یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے، جو میرا ہے سوائے ایک بچی کی پینٹنگ کے، جس سے تم نفرت کرتی ہو۔
مجھے لگنے لگا، میرے جسم کے ساتھ ساتھ اس بیڈروم کا بوجھ بھی میرے پیروں پر ہی ہے۔ اچانک میرے گھٹنے ڈھیلے پڑ گئے، پیر اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔ سو، میں عجیب سا ہاتھوں کے بل، گھسٹتا ہوا جیسے تیسے پلنگ تک پہنچ گیا۔ وندنا، میری بغل میں دوسری طرف کروٹ کیے لیٹی تھی۔ میں اس سے اس کے دائرے کے اندر، اس کے علاقے میں اس سے بات کرنے آیا ہوں۔
لیکن کون سی بات؟ یہ کسی کیس میں جج کے فیصلہ سنا دینے کے بعد کی جرح جیسا ہے۔ کیس بند ہوچکا ہے، فیصلہ سنایا جا چکا ہے، عمر قید کی سزا ہو چکی ہے۔
اب بحث کیسی؟بات کیسی؟کون سی؟
میں سوچنے لگا اس پہلے لفظ کے بارے میں۔ پہلا لفظ کیا ہوگا، کیا کہوں گا یا پہلے تمھیں ہاتھ لگاؤں گا۔ کہاں، کندھوں پر یا بالوں میں؟ میرے ہاتھ لگاتے ہی تم پلٹ کر مجھے گلے لگا لوگی یا منھ چھپا لوگی یا پتہ نہیں، تم یہ بھی کہہ سکتی ہو، ’اتنا سننے کے بعد بھی تم بیڈروم میں آگئے، بے شرم!‘
میں نے بنا کچھ کہے وندنا کے کندھے پر ہاتھ رکھا، اسے دھیرے سے پلٹایا۔ وہ سو چکی تھی؛ گہری نیند… جیسے دن بھر کھیلنے کے بعد، شام کو بچے کھانا مانگتے ہیں نا، آپ ان کے لیے کھانا لاؤ، اس سے پہلے وہ سو چکے ہوتے ہیں۔ بچوں جیسی وندنا، میرے ساتھ کھیلنے کے بعد سو چکی تھی۔ گہری نیند۔ شاید وہ بہت دنوں سے یا مہینوں سے پتہ نہیں، شاید سالوں سے مجھ سے یہ کہنا چاہتی تھی کہ ’شِو، میں اب الگ رہنا چاہتی ہوں۔‘ آج اس نے کہہ دیا اور وہ سوگئی۔ گہری نیند۔
ہم نے شادی نہیں کی۔ یہی ایک بات تھی جس پر ہم دونوں ایک ساتھ راضی ہوگئے تھے مگر پہلی مرتبہ یہ خیال میرے دل میں آیا تھا کہ ہم ساتھ رہیں گےمگر شادی نہیں کریں گے۔ یہ اس وقت روشن خیالی جیسا کچھ تھا۔ اس میں ایک فلسفہ سا نظر آتا تھا لیکن اس کی ایک وجہ بھی تھی۔ جب میں تم سے پہلی بار ملا تھا، جب تم نے کہا تھا کہ تمھیں گھر سجانا اچھا لگتا ہے اور تم ماچس کی تیلیوں سے ایک گھر بنانے لگی تھیں، تب شاید پہلی بار میں نے پیار کو محسوس کیا تھا۔ تمھاری انگلیوں کو کہانی کہتے سنا تھا۔ مجھے لگا شادی کے بعد یہ ساری کہانیاں کہیں ختم نہ ہوجائیں۔ یہ سب کچھ بس اسی طرح بہت خوبصورت ہے، اسے بس ایسے ہی رہنے دو۔ میری خواہش ہوئی کہ ابھی اسی وقت وندنا کو جھنجوڑ کر اٹھاؤں اور کہوں کہ چلو ہم ابھی اسی وقت شادی کرتے ہیں اور پھر سے، ایک دم شروع سے، ایک نئی زندگی۔
جب میرے پہلی پینٹنگ کی نمائش لگی تھی، تب تم نے مجھ سے کہا تھا، ’تم اپنی روح پینٹ کرتے ہو۔‘ اس کے بعد اس نمائش کی بھیڑ میں، میں نے کچھ اور نہیں سنا۔
سب کچھ سست رفتار ہوگیا تھا، ایک دم سست اور ابھی کچھ سال قبل تم نے کہا تھا، ’تمھاری پینٹنگز میں تمھارا فرسٹریشن نظر آتا ہے۔‘
تب سے میرے ہاتھ کانپنے لگے۔ رنگ، کینواس کو چھونے سے ڈرتا تھا۔ ہر پینٹنگ کے بعد مجھجے لگتا تھا جیسے میری یہ پینٹنگ تمھارے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہو اور کہہ رہی ہو کہ ’پلیز اپنے خیالات بدل لواور وہ روح والی بات ایک بار پھر سے کہہ دو۔‘
’تم اپنی روح پینٹ کرتے ہو۔‘
اور ’تمھاری پینٹنگز میں تمھارا فرسٹریشن نظر آتا ہے۔‘
یہ ہمارا تعلق تھا اور یہ ہمارا تعلق رہ گیا تھا۔ یہ سب کچھ بچ سکتا تھا اگر تم میری بات مان لیتیں۔ اگر ہم دونوں کے بیچ ایک تیسرا ہوتا، ہماری بچی ورشا۔ ورشا، میں نے تو اس کا نام بھی رکھ لیا تھا۔ میں جانتا تھا تمھیں بچے اچھے نہیں لگتے مگر یہ شاید ہمارے تعلق کے لیے ضروری تھا۔ تم کتنا چڑ جاتی تھیں جب میں تمھیں کبھی کبھی ورشا کہہ کر پکارتا تھا! میں نے ورشا کی ایک پینٹنگ بنائی… ہماری خوبصورت ورشا… اور جان بوجھ کر اسے میں نے بیڈروم میں لگایا تھا۔ تمھیں قسم دی تھی کہ تم اسے کبھی نہیں نکالوگی۔ ورشا کے نہ ہونے کا، میں نے بس تم سے اتنا ہی بدلہ لیا تھا۔
میں کتنا بے وقوف ہوں! میں نے ساری پینٹنگز چھپا دیں مگر بیڈروم سے ورشا کی پینٹنگ نکالنا بھول گیا۔ تمھیں کیسا لگے گا، میں ابھی بھی ورشا کا بدلہ تم سے لینا چاہتا ہوں؟
اب سب ٹھیک ہے۔ گھر پورا جما ہوا ہے، کھانا بن چکا ہے۔ کڑی چاول اور ایک ڈری ہوئی آلو گوبھی کی سبزی۔ بس یہ کھڑکی کے پردے ہی تھوڑا کھٹک رہے ہیں مگر یہ پردے ان لال پردوں سے کہیں بہتر ہیں جو میں خرید کر لایا تھا۔ سوچتا ہوں، جو پینٹنگ تمھیں دینا ہے وہ یہیں سامنے ہی رکھ دوں۔ شاید تمھیں یاد آجائے کہ یہ وہی پینٹنگ ہے جسے دیکھ کر تم نے کہا تھا، ’تم اپنی روح پینٹ کرتے ہو‘ اور تم ضد کرنے لگو، ’’شِو، دیکھو یہ پینٹنگ میں لے جاؤں گی چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ نہیں میں کوئی بات نہیں سنوں گی۔‘
میں بھی تھوڑی ضد کروں گا۔ مگر بعد میں کہہ دوں گا۔
’ٹھیک ہے، لے جاؤ۔ مگر دیکھو یہ میری روح ہے، اسے سنبھال کر رکھنا۔‘
کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ وندنا ہی ہوگی۔ ایسا تو نہیں کہ وہ بہت دیر سے دروازہ کھٹکھٹا رہی ہو اور میں اپنے ضرب تقسیم کے چکر میں سن ہی نہیں پایا۔ دروازہ کھولنے کے ٹھیک پہلے، میں نے ایک سانس اندر لی۔ لمبی گہری سانس۔ وہ لمحہ آگیا جب میں اتنے سالوں بعد اسے پھر سے دیکھوں گا۔ دروازہ کھلتے ہی تم سامنے کھڑی تھیں۔ تم مسکرا رہی تھیں۔ میں نے ’اندر آؤ‘ نہیں کہا۔ میں شاید کہنا بھول گیا۔ تم اپنی مسکراہٹ لیے اندر چلی آئیں۔
اب یہ کیسے ہوسکتا ہے! تین سال پہلے بھی تم یوں ہی آتی تھیں۔ میں دروازہ کھولتا تھا اور تم مسکرا کر اندر چلی آتی تھیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور پورے گھر کو پتہ لگ جاتا تھا کہ کون آیا ہے۔ گھر میں پڑی ہوئی، ساری بے جان چیزیں بڑے عجیب طریقے سے اپنی اپنی جگہ جان دار ہوجاتی تھیں۔ یہاں تک کہ پنکھا بھی تھوڑٰی زیادہ ٹھنڈی ہوا پھینکنے لگتا تھا۔ یہ سچ ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے۔
کیسے ہو؟ وندنا نے مجھے دیکھے بنا پوچھا۔
’ٹھیک ہوں۔‘
میں جانتا ہوں، تم اس پورے گھر میں اس وقت کیا ڈھونڈ رہی ہو۔ تم خود کو ڈھونڈ رہی ہو، اپنے چھوٹے ہوئے خود کو۔ میں سچ کہتا ہوں وندنا، تم اپنے جسم کے نشانات ابھی بھی پورے گھر میں محسوس کرسکتی ہو۔ جس صوفے پر تم ابھی ابھی بیٹھی ہو، ٹھیک اس کی بغل میں اگر تم ہاتھ رکھ کر دیکھو، تمھیں لگے گا تم ابھی کچھ دیر پہلے یہیں سے اٹھ کر گئی ہو۔
’تم بیٹھوگے نہیں شِو؟‘ اس کے کہتے ہی مجھے پتہ لگا کہ میں گھر کے بیچ میں بڑے عجیب ڈھنگ سے کھڑا ہوں۔ ایک زبردستی کی ہنسی میرے چہرے پر آگئی۔
’میں تمھارے لیے پانی لاتا ہوں۔‘
’نہیں شِو، پانی میرے پاس ہے۔ شکریہ!‘
ایک بہانے سے میں کچن کی طرف جانا چاہ رہا تھا۔ پانی کی بوتل اس کے ہاتھ میں ہی تھی اور میں نہیں دیکھ پایا۔ یہ کیا کررہا ہوں میں۔ میں اپنے آپ کو کوسنے لگا۔ مجھے لگا، میں بچہ ہوگیا ہوں اور کسی بورڈ اگزام کا پیپر دے رہا ہوں۔ سارے سوال معلوم ہیں، سارے جواب معلوم ہیں، سال بھر اسی کی تیاری کی ہے مگر عین امتحان کے وقت کچھ بھی یاد نہیں آ رہا ہے۔
’بیٹھو بھی۔‘ وندنا نے اتنے اپنے پن سے کہا کہ میں بیٹھ گیا۔
میں اب چپ تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ میں جو بھی کروں گا، اس کے کرتے ہی پچھتانے لگوں گا۔ میں اس ضرب تقسیم سے پوری طرح تھک چکا تھا۔ تو، میں چپ چاپ وندنا کی طرف دیکھ رہا تھا… شاید وہی کچھ کہے، مگر وہ خاموش تھی۔ میں نے دیکھا، وندنا کافی بدل گئی ہے۔ عجیب سی بچوں جیسی موٹی ہوگئی ہے۔ کافی موٹی ہوگئی ہے۔ پھر میری نگاہ اس کی انگلیوں کی طرف گئی جو کہانیاں کہتی تھی، اب چپ چاپ اس کے گھٹنوں پر بس پڑی ہوئی ہیں۔ میں وندنا سے کہنا چاہ رہا تھا کہ تم پر یہ چھوٹے بال سوٹ نہیں کرتے۔
’تم اچھی لگ رہی ہو۔ صحت مند، مطلب کافی صحت مند۔‘
’ہاں شِو، میں پریگننٹ ہوں۔‘
’تمھیں دیر ہو رہی ہوگی نا، میں کھانا گرم کردیتا ہوں۔ آج میں نے تمھارے لیے…‘
’میں کھانا نہیں کھاؤں گی شِو۔ میں پریگننٹ ہوں۔‘
وندنا نے یہ تھوڑی اونچی آواز میں کہا اور میں چپ ہوگیا۔ اس کے بعد کیا ہوا مجھے ٹھیک سے پتہ نہیں۔ شاید وندنا مجھے کچھ سمجھانا چاہ رہی تھی یا بتانا چاہ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں، ہاتھ، انگلیاں سب کچھ مجھ سے کچھ کہہ رہی تھیں مگر میرے لیے ہر چیز ہلکی دھندلی ہو گئی تھی۔ اس دھند میں مجھے جتنا نظر آ رہا تھا، اتنا میں کہہ رہا تھا۔
پھر پتہ نہیں کیا ہوا پندرہ منٹ، آدھے گھنٹے کے بعد۔ میں نے خود کو کچن میں پایا۔ میں کچن میں کیا کررہا ہوں؟ ہاں، میں کچن میں چائے بنا رہا ہوں۔ وہ چائے نہیں پیتی۔ اسے چائے اچھی نہیں لگتی۔ میں خود اپنے لیے چائے بنا رہا ہوں۔
’پریگننٹ‘ لفظ میرے دماغ میں گھوم رہا تھا۔ اچانک مجھے یاد آیا۔ جب اس نے مجھ سے کہا کہ میں پریگننٹ ہوں، تو میں نے اس سے کچھ کہا تھا۔ ہم نے تھوڑٰی دیر بات کی تھی، کس بارے میں مجھے یاد نہیں مگر میں نے اسے دو تین بار وندنا کی جگہ ورشا کہا تھا۔
چائے بن چکی تھی، میں چھان چکا تھا پھر بھی میں یہیں کھڑا تھا۔ تبھی مجھے میرے بنائے ہوئے کڑی چاول نظر آئے اور ساتھ میں ڈری ہوئی آلو گوبھی کی سبزی۔ میں جب چائے لے کر باہر آرہا تھا، تب پہلی بار، پہلی بار میں نے بھگوان سے کچھ مانگا۔
’ہے بھگوان، جب میں باہر جاؤں تو وہ وہاں نہ بیٹھی ہو۔ وہ چلی گئی ہو۔‘
میں باہر آیا۔ وہ وہیں بیٹھی تھی۔ ایک بار پھر ایشور اپنے ہی معجزوں میں مصروف تھا۔ اب ہمارے درمیان بات کرنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ میں جلدی جلدی چائے ختم کرنا چاہ رہا تھا مگر چائے تھی کہ صرف میری زبان جلا رہی تھی۔ سب کچھ اتنا ساکت تھا کہ پہلی بار میں نے اپنی چائے پینے کی آواز سنی۔
’شِو، میں چلتی ہوں۔ مجھے دیر ہورہی ہے، رشی میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ ہم کل واپس جا رہے ہیں۔‘
وہ یہ کہتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔ میں بھی اس کے ساتھ دروازے تک گیا۔ دروازہ کھولنے کے ٹھیک پہلے وہ رک گئی۔ میں تھوڑا پیچھے ہی تھا۔ وہ تھوڑی دیر چپ چاپ کھڑی رہی۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔
یہ سب مجھے انجکشن لگنے کے پہلے کے درد جیسا لگتا ہے۔ جب ڈاکٹر تیاری کرتا ہے، سوئی کو ہوا میں رکھ کر پانی اچھالتا ہے پھر جہاں انجکشن لگانا ہے، وہاں گیلی روئی سے پونچھتا ہے اور پھر…
رخصت ہونے کے پہلے کے جملے مجھے کچھ ایسے ہی لگتے ہیں۔ میں نے اسے انجکشن لگانے کا وقت نہیں دیا۔ میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور کہا، ’تو ٹھیک ہے پھر۔‘
’ہاں ٹھیک ہے۔ چلتی ہوں۔‘
اور وہ چلی گئی۔
میں دروازہ بند کرکے واپس اپنی آدھی بچی ہوئی چائے کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ سامنے میری پینٹنگ پڑی ہوئی تھی، وہی پینٹنگ جسے دیکھ کر وندنا نے کہا تھا، ’تم اپنی روح پینٹ کرتے ہو۔‘
میں اپنی روح کے سامنے کافی دیر تک بیٹھا رہا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں