شہاب ظفر اعظمی
شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی
ظفرؔ کمالی ایک جامع کمالات شخصیت کا نام ہے۔ ان کے کمال کی جہتیں مختلف ہیں، مگر مجھے جو جہت سب سے زیادہ متوجہ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ ظفر کمالی پیش پا افتادہ اور پامال راستوں سے گریز کرتے ہوئے نسبتاً مشکل، نئی اور سنگلاخ راہیں اختیار کرتے ہیں۔ نثر میں اپنے کمال کا اظہار کرنا چاہا تو مضمون نگاری، تنقید اور تاثراتی تبصروں کے بجائے تحقیق جیسی محنت طلب، صبر آزمااور پتا ماری والی صنف کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور فن تحقیق پر عبور کا اظہار کیا۔ شاعری میں ہنرمندی کا معاملہ آیا تو انہوں نے عمومی غزل گوئی اور نظم گوئی کے بجائے میدان ظرافت کو وسعت بخشا کہ اس میدان میں قدم رکھنے کے لیے جس بذلہ سنجی، لفظی بازی گری اور نشتر زنی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر شاعر کے پاس نہیں ہوتی ، ورنہ رضا نقوی واہیؔ کے بعد بہار کی شاعری اس سے محروم نہ رہتی۔ ظفرؔ کمالی نے اس میدان میں ’’ون مین آرمی‘‘ کی طرح کام کیا اور تنہا اس خلا کو پر کردیا جو واہیؔ کے بعد دبستان بہار میں پیدا ہوگیا تھا۔ کہتے ہیں بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنا بڑوں کے لیے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے سے قبل بڑوں کو بچہ بننا پڑتا ہے۔ یعنی بچوں کی نفسیات، ان کی شرارتیں اور ان کے طرز فکر کے ساتھ اپنی سطح سے نیچے اتر کر ایک خاص ڈکشن پر مشتمل ادب تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ اتنا مشکل کام ہے کہ بڑے بڑے ادیب بھی اس سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ جناب ظفر کمالی نے اس مشکل رہ گزر پر بھی اپنے نقش ثبت کئے ہیں اور ادب اطفال کی تخلیق کو نسبتاً زیادہ سنجیدگی سے اپنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساہتیہ اکادمی نے گذشتہ دنوں ان کے اس کمال کا اعتراف کیا اور ان کی کتاب ’’حوصلوں کی اڑان‘‘ پر ادب اطفال کا انعام عطا کیا۔ ان مشکل راستوں کے علاوہ ظفر کمالی نے جن اصناف ادب میں اپنے کمالات کا اظہار کیا ہے ان میں تنقید، رباعی، خاکہ، تذکرہ اور تبصرہ جیسی اصناف بھی ہیں۔ وہ اپنی ہر تحریر میں اپنے مطالعے، ریاضت، ذہانت اور انہماک کا ایسا سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ تحریر نہ صرف معتبر ٹھہرتی ہے بلکہ ان اصناف میں طبع آزمائی کرنے والوں کے لیے مشکل راہ بھی ثابت ہوتی ہے۔
ظفرؔ کمالی سے میرا تعارف ’’ظرافت نامہ‘‘ کے ذریعہ ہوا تھا جو ۲۰۰۵ء میں انہوں نے کمال محبت کے ساتھ نوازا تھا۔ میں نے اس پر ایک تبصرہ پندرہ روزہ ’’سیکولر محاذ‘‘ میں لکھا تھا اور ’’ظرافت نامہ‘‘ کے حوالے سے ظفر کمالی کے امتیازات پر مبنی کئی نکات قلم بند کئے تھے۔ افسوس تلاش بسیار کے باوجود وہ تبصرہ نہ مل سکا ورنہ انہیں ضرور نقل کرتا۔ ظفر کمالی بنیادی طور پر طنز و ظرافت کے شاعر ہیں اور مجھے یقین ہے ادب میں ان کی شناخت اسی سے قائم رہے گی۔
ظریفانہ شاعری پر مشتمل ظفر کمالی کے چار مجموعے ’’ظرافت نامہ‘‘، ’’ڈنگ‘‘، ’’نمک دان‘‘ اور ’’ضرب سخن‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان مجموعوں میں جن موضوعات کو برتا گیا ہے ان میں ادب، معاشرت، سیاست، انسانی اقدار، مذہبی عناصر، قومی و بین الاقوامی مسائل اور خود ان کی ذات بھی شامل ہے۔ طنز و ظرافت ایک اسلوب ہے جس میں اظہار کے کئی وسائل استعمال کئے جاتے ہیں، جن کی مدد سے قلم کار مختلف افراد، کسی صورت حال یا زندگی کی ناہمواریوں پر اپنے تاثرات اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی ناپسندیدگی کا اظہار شگفتہ پیرائے میں ہوتا ہے اور وہ پیرایہ نثر اور نظم دونوں ہوسکتا ہے۔ طنز و مزاح کی بنیاد میں سماج کی اصلاح کا ایک تعمیری رجحان پوشیدہ ہوتا ہے۔ اکثر ایک بھرپور طنز یا تمسخر کئی تقریروں سے زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ناگواریوں پر دل کی بھڑاس نکالنا بھی ہے۔ ظفرؔ کمالی نے ہر موضوع کو ظریفانہ رنگ دے کر اس سے وابستہ سفاک حقیقتوں کو بڑی ہنرمندی کے ساتھ آشکار کیا ہے۔ انہوں نے ادب و معاشرت کے ان زخموں پر نشتر چلایا ہے، جو بڑی تیزی سے ناسور بنتے جارہے ہیں۔ ظفر کمالی کی شاعری میں مزاح کا عنصر کم ہے اور طنز کی نشتریت زیادہ ہےکیوںکہ ان کا مقصد محض مزاحیہ کیف پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ صورت حال پر تیکھا طنز کرنا ہے، جو لبوں پر تبسم تو پیدا کرے مگر سینے کے اندر ایک تلخ چبھن بھی پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے ’’ظرافت نامہ‘‘ کے فلیپ پر عام رسم کے مطابق کتاب اور صاحب کتاب کی تعریف میں کچھ لکھوانا چاہا تو ارسطو، افلاطون اور ٹی ایس ایلیٹ کے ناموں کا انتخاب کیا۔ یہ نہ صرف ان کی جدت طبع کا مظہر ہے بلکہ طنز کا ایک خوبصورت نمونہ بھی ہے۔ ہمارے یہاں روایت ہے کہ فلیپ پر کسی بزرگ ناقدو ادیب سے تعریفی جملے لکھوا لئے جاتے ہیں یا خود ہی لکھ کر ناشر کے نام سے شائع کردیئے جاتے ہیں۔ ظفر ؔنے اس خود نمائی پر ایک تیز، انوکھا اور تیکھا طنز کیا ہے کہ جب بڑے ناموں کے ذریعہ ہی خود نمائی اور اہمیت حاصل کرنی ہے تو ارسطو، افلاطون اور ایلیٹ سے زیادہ معتبر نام کون ہوسکتے ہیں؟
ظفرؔ کمالی کا سب سے محبوب موضوع شعر و ادب اور اس کے متعلقات ہیں۔ انہوں نے ادبی معاشرے کی بے اعتدالیوں، ادب کے نام پر اپنائے جانے والےحربوں اور ادبی معاشرے کی بے اعتدالیوں پر خوب خوب تیر برسائے ہیں۔ ان کی نظموں میں متشاعر، میر ادیوان، پیر ادب، ادب اور سی بی آئی، اردو نامہ، سخن فروش، رسم اجرا، تاریخ گو، شاعر اعظم، نقاد، ادب کے لالہ جی، بزم بے ادب، ظریفانہ شاعری، جہالت نامہ، استاد زمانہ، اجرتی شاعر، بڑا مدیر، متشاعر کی دعا اور استاد جی وغیرہ کے عنوان سے ہی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ظفرؔ کمالی کو ادب اور اس کے انسلاکی موضوعات سے کس قدر شغف ہے۔ ان نظموں میں یا اس طرح کی دیگر نظموں، قطعات اور رباعیات میں شعر وادب کے موجودہ ماحول کی تصویر کشی جس عمدہ اور زندہ طریقے سے کی گئی ہے، اس میں ظفرؔ کمالی کے عمیق مشاہدے اور ذاتی تجربے کا بھی عمل دخل رہا ہے۔ مثلاً ’’متشاعر‘‘ اور ’’متشاعر ۔۲‘‘ کو نگاہ میں رکھئے۔ ان نظموں کے ذریعہ شاعر نے ایک ’’کردار‘‘ خلق کیا اور اس کی ایسی تفصیلات پیش کیں کہ وہ کردار زندۂ جاوید ہوگیا۔ اب ’’متشاعر‘‘ کا لفظ سنتے ہی وہ کردار ہماری آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ اردو شاعری کی روایت میں نقلی شعرا ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں، جو اساتذہ کے ہاتھوں سے مختلف حربے اپناکر غزلیں حاصل کرلیتے ہیں اور ان کی بدولت محفلوں میں جگہ پالیتے ہیں۔ کسی نے یہ کوشش نہیں کہ کہ ایسے متشاعروں کی پہچان کی جائے اور ان کے حربوں، چالوں سے دنیا کو آگاہ کرتے ہوئے ان نشانات سے بھی آگاہ کیا جائے جو متشاعروں کی پہچان متعین کرتے ہیں۔ ’’متشاعر‘‘ سیریز کی پہلی نظم سے یہ بند یکھئے:
کبھی بات بنتی ہے پپسی پلاکر
کبھی دال گلتی ہے مچھلی کھلاکر
کبھی کام چلتا ہے باتیں بناکر
کبھی گڑگڑا کر کبھی بلبلا کر
کسی سے غزل یا کہ قطعات مانگوں
یتیم ادب ہوں تو خیرات مانگوں
ہو پٹنہ کہ دلی، دکن ہو کہ پونا
نہ جاؤں اگر میں تو جلسہ ہو سونا
جو افسر ہیں ان سے کماتا ہوں دونا
ہمیشہ لگاتا ہوں اردو کو چونا
اسے پیٹتا ہوں اسے کوٹتا ہوں
لٹیرا ہوں اردو کو میں لوٹتا ہوں
’’متشاعر ۔۲‘‘ میں یہ اعتراف اس طرح مزید نمایاں ہوجاتا ہے کہ اس کے ہر بند میں متشاعر کا اقبالیہ بیان موجود رہتا ہے۔ ؎ ضمیر بیچ کے دولت کما رہا ہوں میں ۔ اس نظم میں متشاعر کی پہچان نسبتاً زیادہ نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔ اس کے ذریعہ لوگوں کو بے وقوف بنانا، باتیں بنانا، محفلوں پر قبضہ کرنا، سچے شاعروں کے کلیجے پر مونگ دلنا، معصوم قاری کو اپنے دام میں لینا، بڑے شاعروں کو مسکا لگاکر ان سے کلام حاصل کرنا اور اردو زبان کی تجارت کرنا، اس کے ایسے کام ہیں جن سے اس کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ اسی کی زبان سے سنیئے:
ادب کی شاخ پہ بیتال بن کے بیٹھا ہوں
میں کھوٹے سکوں کی ٹکسال بن کے بیٹھا ہوں
سخن کے تخت پہ دجال بن کے بیٹھا ہوں
مشاعروں کا میں دلال بن کے بیٹھا ہوں
سبھوں کو خون کے آنسو رلا رہا ہوں میں
ضمیر بیچ کے دولت کما رہا ہوں میں
فضیلتوں کی میں دستار ساتھ رکھتا ہوں
سفر کے واسطے رہوار ساتھ رکھتا ہوں
چھپا ہوں جس میں وہ اخبار ساتھ رکھتا ہوں
ہمیشہ دان کے اشعار ساتھ رکھتا ہوں
ادب کی قبر پہ چادر چڑھا رہا ہوں میں
ضمیر بیچ کے دولت کما رہا ہوں میں
بغیر شعر کہے چل رہا ہے میرا کام
بغیر شعر کہے ہو گیا ہے میرا نام
مشاعروں میں مچاتا ہوں ہر جگہ کہرام
سمجھ رہا ہوں میں خود کو ادب کا بابا دھام
جو مستند ہیں انہیں منہ چڑا رہا ہوں میں
ضمیر بیچ کے دولت کما رہا ہوں میں
ظفر کمالی نے مصنوعی شاعروں کو ہی نہیں، ناقدوں، محققوں، ریسرچ اسکالروں، افسانہ نویسوں اور مختلف اصناف کے ماہرین کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ۱۱۶؍ اشعار پر مشتمل ان کی مثنوی نما نظم ’’ادب اور سی بی آئی‘‘ پڑھئے تو محسوس ہوگا کہ یہ نظم اردو ادب اور ادیبوں کی موجودہ صورت حال پر خاموش احتجاج ہے۔
کچھ عجب اردو ادب کا حال ہے
نثر ہوشاعری فٹ بال ہے
ہر طرف جاری ادب کا میچ ہے
پگڑیوں کا بھی اچھلتا کیچ ہے
ہیں ادب میں بھی گھوٹالے اس قدر
سلطنت اردو کی ہے زیر وزبر
اور پھر ان ادبی گھوٹالوں کی مختلف تصویریں انہوں نے اس طرح دکھائی ہیں کہ طنز کی کاٹ لئے بڑے بڑے حقائق ہمیں انگشت بدنداں کردیتے ہیں۔ شاعروں اور ان کے شعری مجموعوں سے آغاز ہوتا ہے۔
فاعلاتن فاعلن سے بیر ہے
جہل کی ان کے اسی میں خیر ہے
شعری مجموعوں کی پھیلی ہے وبا
جس کی بو سے پرتعفن ہے فضا
باندھ کر احباب تعریفوں کے پل
صاحب تصنیف کو دیتے ہیں جل
اور پھر پی ایچ ڈی کے لیے لکھے جارہے مقالوں اور مقالہ نگاروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں تحقیق کی صورت حال پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں، ہر صاحب نظر اس حقیقت سے واقف ہے۔ بس آپ زہر خند صورت حال اور طنز کی کاٹ ملاحظہ کیجئے:
دس ہزاری تھیسس اب بکنے لگی
گائے جو بھی بانجھ تھی ٹکنے لگی
شاد کے گھر میں تھے کتنے جانور
لکھ کے اس پر بن گیا اک ڈاکٹر
مٹھیوں میں درہم و دینار گرم
سرقۂ بالجبر کا بازار گرم
اور چھپتا ردیوں کا ڈھیر ہے
یوں ادب کے نام پر اندھیر ہے
اسی طرح سرکاری اداروں میں کرسی اور منفعت کے لیے بکتے ہوئے کرداروں، ناقدوں، افسانہ نویسوں، سفر نامہ نگاروں، خود نوشت نگاروں اور محققوں کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ظفر کمالی کا مشاہدہ بہت تیز ہے۔ انہوں نے اردو ادب میں جن بوالعجبیوں کا مشاہدہ کیا ہے ان کا نظارہ تمام تر جزئیات کے ساتھ قاری کو اس طرح کرایا ہے کہ ان میں پوشیدہ طنز کی زہرناکی اسے بے چین کردیتی ہے۔
ظفرؔ کمالی نے ’’رسم اجرا‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اس میں بھی شہرت وناموری کی ہوس کو کتاب کی رونمائی کی شکل میں ’’وبا‘‘ قرار دیا ہے۔ اس وبا کی اصل وجہ دولت کی بجائے شہرت کی بھوک ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ تیزی سے پھیلتی اس وبا کا محاسبہ بھی شاعر نے بڑی ایمانداری اور سچائی کے ساتھ کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
شکل اس کی ہوگئی ہے یوں وبائے عام کی
جیسے طاری ہو ادب پر کیفیت سرسام کی
نام پر تقریر کے ہوتی ہیں وہ خرمستیاں
آسمانوں تک پہنچ جاتی ہیں ذہنی پستیاں
گویا ظفر کمالی نے ادب اور ادبی معاشرے کے تقریباً تمام گوشوں پر اپنی پینی، باریک بیں نگاہ ڈالی ہے اور اس کے تاریک گوشوں سے قارئین کو روشناس کرایا ہے۔ ’’ادب کے لالہ جی‘‘ میں ادب کے چودھریوں کی خبر لی گئی ہے تو ’’امریکا پلٹ‘‘ میں ادب کے مافیاؤں کو لتاڑا گیا ہے۔ ’’میں اور میری میں‘‘ میں ادب کے طرم خان کے چہرے سے نقاب اتارا گیا ہے تو ’’بزم بے ادب‘‘ کے ذریعہ ادب کے نام پر موٹی کمائی کرنے والے اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے۔ ’’استاد زمانہ‘‘ نظم میں اردو کی جڑیں کھودنے والے اساتذہ کو ہدف بنایا گیا ہے تو ’’استاد جی‘‘ میں نااہل اساتذہ کی کرتب بازیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ شاعر اعظم، نقاد، شاعر کا خط مدیر محترم کے نام، بڑا مدیر، متشاعر کا دیوان اور انعام مبارک ہو جیسی نظمیں ادبی سماج اور ادبی معاملات کی ایسی بے شمار صداقتوں کو طشت از بام کرتی ہیں جو اردو ادب و صحافت میں بیماری کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ ان نظموںمیں طنز و مزاح کی حسین اور متوازن آمیزش کے ساتھ فکر کی توانائی بھی پائی جاتی ہے۔ شاعر کے مزاح میں فطری مزاح کا پہلو پایا جاتا ہے، جو فکر کی بنیاد پر طنز کے نشتر کو مقصدی اور افادی بنا دیتا ہے۔ شعروادب اور صحافت کے مسائل جنہوں نے عصر حاضر کی ادبی و صحافتی زندگی میں ایک بحران پیدا کر رکھا ہے، ان کا تجزیہ ظفر کمالی کی شاعری میں بڑے فنکارانہ انداز میں ملتا ہے اور یہ تجزیہ صرف نشتر ہی نہیں لگاتا بلکہ ذہن کو اصلاح حال کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ ہماری ادبی معاشرے کا کینوس اپنے معاملات و مشاغل کے اعتبار سے بہت پیچیدہ اور پہلودار ہے۔ اس لحاظ سے نامعقولیت کے تضادات کا میدان بھی کشادہ ہوگیا ہے۔ ان پر سنجیدگی اور ہمدردی سے نگاہ رکھتے ہوئے اپنے کام کا مواد تلاش کرنا اہل ظرافت کا اصل منصب ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ ظفر کمالی اس منصب سے پوری کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آ ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی نظموں میں ادبی و صحافتی شعبدہ بازیاں، اردو اداروں کی ناہمواریاں، ادیبوں و شاعروں کی مضحکہ خیزیاں، اساتذۂ اردو کی کارگزاریاں اور اردو مدیران کی صحافتی آلودگیاں کمال فنکاری سے پیش کردی ہیں۔ اور کمال یہ ہے کہ شاعر نے اپنی فنکاری کو ابتذال اور پھکڑپن سے بچانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
معیاری ظریفانہ ادب معاشرے میں پائے جانے والے مسائل اور امراض کی بھی نشاندہی کرتا ہے اور ذمہ دار افراد وجماعت پر شگفتگی کے ساتھ طنز کرتا ہے تاکہ طنز کا نشتر مادۂ فاسد کے اخراج کا سبب بنے اور نشتر زنی کی اذیت قابل برداشت رہ سکے۔ طنز و مزاح کے بڑے شاعر رضا نقوی واہیؔ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ طنز و مزاح کا تعلق معاشرتی مسائل سے ہے۔ یہ گہرے عرفان حیات یا معاشرے کے شعور سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔ ظفرؔ کمالی نے ادبی معاشرے کے ساتھ ساتھ زندگی اور سوسائٹی کی بے اعتدالیوں پر بھی ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے اور ان پر جی کھول کر قہقہہ لگایا ہے۔ اس عمل میں خود ہم اور ہمارا معاشرہ بے نقاب ہورہے ہیں۔ اپنے ہی زخموں کو کرید کر قہقہہ لگانا بڑے دل گردے کی بات ہے، مگر ظفر میں یہ جرأت ہے اور اس لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس ضمن میں ان کی معرکۃ الآرا نظم ’’ظفر کمالی‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
ہمیشہ رہتے ہو تنہائی کی فضا میں گم
ظفر کمالی عجوبہ سے کم نہیں ہو تم
تمہارے دل کی تمنا ہے نیک نام بنو
ادب کی بزم میں عالی صفت امام بنو
مگر جو اس کا طریقہ ہے وہ تو آتا نہیں
جو عہدِ نو کا سلیقہ ہے تم کو بھاتا نہیں
کسی کی پیٹھ میں گھونپا نہ آج تک خنجر
چلا سکے نہ عزیزوں پہ تم کبھی پتھر
تعصبات کا پیالہ نہیں پیا تم نے
کسی کی قبر نہ کھودی تو کیا کیا تم نے
اچھالتے ہی نہیں ہو کہیں جب اپنا نام
ملے گا تو کو بھلا کس طرح کوئی انعام
کبھی زمانہ کے استاد تم بنے ہی نہیں
جہاں ضروری تھا سننا وہاں سنے ہی نہیں
ملا کسی کو کہاں جاکے تم نے روغنِ قاز
جہانِ علم میں کیسے تمہارا ہو اعزاز
نئے ہیں لوگ نئی سوچ کا زمانہ ہے
نیا زمانہ خوشامد کا کارخانہ ہے
بٹے جو کھیر تو آگے تمہاری تھالی ہو
کمال اپنا دکھاؤ اگر کمالی ہو
اپنا مذاق خود اس طرح کون اڑا سکتا ہے۔ یہ وہی کرسکتا ہے جس کو سچائی سے پردہ اٹھانے کی للک ہو۔ اس نظم کے پردے میں ظفرؔ کمالی نے آج کے معاشرے کی حقیقت پیش کی ہے اور ہمارے سماج کی جم کر کھلی اڑائی ہے، جس نے معیار قدر ومنزلت کے ایسے پیمانے وضع کررکھے ہیں۔
ظفرؔ کمالی نے ادبی معاشرے کے علاوہ سماجی و سیاسی نظام پر بھی خلوص دل کے ساتھ مہذب اور شائستہ طنز کے تیر چلائے ہیں، جس کے پیچھے پوشیدہ اصلاحی و افادی پہلو کو بڑی آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ معاشرتی مسائل پر ان کی طنزیہ نظمیں، جن کا دائرہ وسیع ہے، انسانی احساس کو بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ عرب کی کمائی، بیوٹی پارلر، جہالت نامہ، خاندانی پیر، ماڈرن رخصتی، ابن عظیم، نئے سال کا جشن، خوشامد، نمک دان، کلرک، ڈنک، تختہ پلٹ، دیس بھکتی، زعفرانی عقل اور رام راج وغیرہ میں سیاسی، سماجی، معاشرتی ادراک اور عصری تقاضوں کا احساس موجود ہے۔ مثال کے طور پر معاشرے میں پھیلے بھرشٹاچار کو انہوں نے جس زہرناکی کے ساتھ اپنی نظم ’’ڈنک‘‘ اور ’’نمک دان‘‘ کے قطعات میں پیش کیا ہے، اس میں ظرافت کی مٹھاس کے ساتھ تلخی اور زہرناکی ہمارے ہونٹوں سے مسکراہٹ کو چھین لیتی ہے۔
بھلا یہ بات ہے کوئی کہ آم کو چوسو
جو چوسنا ہو تو بھولے عوام کو چوسو
رکھو مفاد کو اپنے ہمیشہ پیش نظر
کوئی نظام ہو تم اس نظام کو چوسو
نظام چلتا ہے دنیا کا اس طرح ہی ظفرؔ
بنے ہوئے ہو جو آقا غلام کو چوسو
مارتا ہے کارواں کو قافلہ سالار ڈنک
دوستوں کو مارتے ہیں اس کے یار غار ڈنک
مارتے ہیں قوم کو اس قوم کے غمخوار ڈنک
دور نو کے ہر بشر کا ہوگیا کردار ڈنک
دیدۂ حیراں لیے ہم سخت حیرانی میں ہیں
ہر طرف بچھو ہی بچھو شکل انسانی میں ہیں
جس کو دیکھو کررہا ہے وہ سیاست ڈنک کی
اب وزارت ڈنک کی ہے اور سفارت ڈنک کی
سر پہ چڑھ کر ناچتی ہو جب جسارت ڈنک کی
کیوں نہ چاروں سمت سے اٹھے قیامت ڈنک کی
جاؤ جس میدان میں جاری اسی کا کھیل ہے
پاس جو اس میں نہیں وہ زندگی میں فیل ہے
ظفرؔ کمالی کے یہاں واقعاتی مزاح نہ کے برابر ہے، اس لیے ان کے یہاں چٹکلوں، لطیفوں یا کہانیوں سے ظرافت پیدا کرنے کا حربہ نہیں ملتا۔ وہ نہ بے مقصد قہقہہ لگاتے ہیں اور نہ بے ضرورت قاری کو ہنسنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ ان کے یہاں تبسم زیر لب کی کیفیت ملتی ہے جو لفظوں کے ہیر پھیر اور ترکیبوں کی ندرت سے پیدا ہوتی ہے۔ ’’عرب کی کمائی‘‘ سے یہ بند دیکھئے:
چڑھی بن کے تپ جب ریالوں کی حدت
تغیر کی زد میں تب آئی جبلت
طبیعت میں شدت خیالوں میں جدت
الگ ان کا دوزخ الگ ان کی جنت
لگے یوں کہ وہ ماورائے بشر ہیں
چلیں ایسے جیسے خدائے بشر ہیں
موضوعات کی کثرت اور تنوع کے ساتھ ساتھ ظفرؔ کمالی کے اسلوب و اظہار میں تنوع اور رنگا رنگی کا احساس بھی کم نہیں۔ ظفرؔ کے یہاں مختصر، طویل ، بیانیہ، مکالماتی، مقفی، مثنوی، مسدس، قطعہ، رباعی، پیروڈی، غزل ہر ہیئت کے کلام موجود ہیں۔ مگر زیادہ تر انہوں نے اختصار کے بجائے تفصیل کو ترجیح دی ہے، اس لیے ان کی نظموں میں حقائق کے ساتھ مبالغے اور خیال آرائی کے رنگ ملتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ طوالت ان کی نظموں کا عیب ہے۔ ان کے اشعار اتنے مربوط اور مسلسل ہوتے ہیں کہ اکثر ایک الگ ہی لطف، تجسس اور دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے یہاں بھرتی کے اشعار بالکل نہیں ہوتے، اس لیے انتخاب کرتے ہوئے یہ مشکل درپیش آتی ہے کہ کس شعر کو چھوڑیں اور کسے پیش کریں۔ دوسری خوبی ان نظموں کی یہ ہے کہ اشعار اکہرے اور سادہ نہیں ہوتے۔ یعنی غزل کی طرح ان کی نظموں کے اشعار بھی تہہ دار اور کئی معنوی جہات کے حامل ہوتے ہیں۔ بظاہر سادہ اور مانوس الفاظ سے پہلی نظر میں یک رنگی کا احساس ہوسکتا ہے، مگر ذرا غور کریں تو وہ گنجینۂ معنی کا طلسم ثابت ہوں گے۔ ان کی نظمیں اپنے اندر معنوی روشنیوں اور ذہنی تجلیوں کا بھرپور سامان رکھتی ہیں۔ اس وصف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی نظموں کے ایک تجزیہ کار عبد الوہاب قاسمی لکھتے ہیں:
’’ظفرؔ کمالی کی شاعری میں لفظوں کی نفاست، سلیقگی اور اس کےتشکیلی عمل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے یہاں لفظوں کے استعمال میں تہہ داری کا جو سب سے اہم سرا ہاتھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ الفاط کے انتہائی معنی اور شدت کو متشکل کرتے ہیں۔ ہم اپنے کردار اور عملی مظاہرے سے جن الفاظ کے معانی کی اہمیت کو عام نظریے سے دیکھتے ہیں وہ ان کے یہاں عام نہیں رہتا بلکہ غیر معمولی احساس میں ڈھل جاتا ہے‘‘۔ (ظفر کمالی کی گیارہ نظمیں: ص۲۴۵)
مختصر یہ کہ ظفرؔ کمالی کی ظریفانہ شاعری کمال کی ہے۔ اس میں اگرچہ طنز کی نشتریت زیادہ اور مزاح کا عنصر کم ہے، مگر لطف زبان وبیان وہ وصف ہے جوطنز کی زہرناکی پر مرہم کا کام کرتاہے۔ ظریفانہ شاعری میں طنز کا پہلو تیز اور پہلودار ہونا چاہئے یہ درست ہے، مگر مزاح اور لطف زبان بھی ضروری ہے، جو موضوع میں شگفتگی، دلچسپی اور مطالعیت پیدا کرسکے۔ ظفرؔ کمالی اس ہنر سے واقف ہیں اور اس کا استعمال بخوبی کرکے انہوں نے نہ صرف اپنے پیش روؤں اکبرؔ الہ آبادی اور رضا نقوی واہیؔ کی سچی وراثت کا حق ادا کیا ہے، بلکہ اس کے وزن و وقار میں اضافہ بھی کیا ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں