شہناز رحمٰن
علی گڑھ
9458537513
shahnaz58330@gmail.com
حسب معمول رات کے دوسرے پہر اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ پھٹی آنکھوں سے بوسیدہ چھت کو گھورنے لگی۔فریدہ نے پوچھا، باجی کیا ہوا ؟ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو ؟
وہ ۔۔وہ ۔۔۔مسیح ۔۔۔
دادی بھی جاگ گئیں ۔۔کک ۔۔کا ہوا بٹیا ؟
دادی وہ مسیح ۔۔۔
باجی کیا ہوا مسیح کو ۔۔۔
فریدہ !میں بیٹھی مسیح سے باتیں کر رہی تھی کہ نیند کا ایک جھونکا آیا اور میری آنکھ لگ گئی ۔اتنے میں وہ غائب ہو گیا۔
بٹیا کیا ہوگیا ہے ۔مسیح کانام تو اب اس کے گھر والوں کے ذہن سے بھی اوجھل ہونے لگا ہے ۔تمہیں کیسے آئے دن وہ نظر آجاتا ہے ۔دادی نے کہا۔
لو باجی تم پانی پیو ۔اور دادی آپ بھی ناااا۔۔ بس شروع ہو جاتی ہیں ۔باجی نے مسیح کو خواب میں دیکھا ہوگا۔اس سے باتیں کرتے کرتے انھیں نیند آگئی ہوگی ۔
روبی اپنی سخت مزاجی یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ بد تمیزی کے لیے پورے خاندان میں مشہور تھی ۔رشتہ دار عورتیں اس کی حرکتوں پر جھنجھلا کر کہتیں کہ ’’اس لڑکی کا کہاں ٹھکانہ ہو گا۔ ‘‘بچپن سے ہی اس نے کسی کو منھ نہیں لگایا تھا ۔دنیا کی ہر اچھی چیز کی خواہش اتنی شدید تھی کہ اسے حاصل کرنے میں جی جان لگا دیتی ۔لیکن مجال ہے جو کبھی آسانی سے کسی کے کام آ جائے ۔اگر کبھی ایک تنکا ادھر سے ادھر کھسکا بھی دیا تو مہینوں احسان جتاتی ۔اس کی اسی بد مزاجی کی وجہ سے اسکول بدلے جاتے رہے ۔آخر کار ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے گھر والوں نے ہار مان لی ۔والد کے انتقال کے بعد تو اس کے اور ہی پر نکل آئے ۔بھائی ،بہنوں اور ماں سے ہر وقت الجھتی ۔دادی سے تو گویا خدا واسطے کا بیر ہو ۔وہ دوسروںمیں نقص نکال کر اپنی برتری ثابت کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرتی رہتی ۔اس احساس برتری کی بھی ایک وجہ سمجھ میں آتی تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ پورے گاؤں کی لڑکیا ں اس سے سلائی ،کڑھائی ،پینٹنگ اور دیگر گھریلو کام سیکھنے آیا کرتی تھیں ۔
روبی کی خودسری کے باوجود اس کی ا ماں کہتیں کہ ’’ہماری امر بیل کو ایک دیوار مل گئی اب یہ بدل جائے گی ۔‘‘
واقعی کچھ ایسا ہی ہوا ۔
لیکن اس کے مزاج میں تبدیلی کی نوعیت ماں کی امیدوں سے ذرا مختلف تھی ۔اس کے ارد گرد لڑکیوں کے ہجوم نے اسے اور زیادہ خود پسند بنا دیا تھا ۔ انھیں میں سے کسی شوخ چنچل نے اس کے دل میں خوبصورت احساسات کے لیے جگہ بھی پیدا کردی تھی۔اپنے بھائی کی شادی میں غیر متوقع طور پر وہ اپنی خالہ زادبہنوں کی دلجمعی سے آؤ بھگت کر رہی تھی۔ خوب بڑھ بڑھ کر بریانی ، چکن کوفتے ،چکن فرائی ،مٹھائیاں ،پھل وغیرہ ان کے سامنے پیش کررہی تھی ۔رشتہ دار عورتوں کو حیرت کے ساتھ جلن بھی ہو رہی تھی ۔وہ زیر لب کہہ رہی تھیں کہ ’’روبی جیسے پھرنگی ناچ رہی ہے۔‘‘۔پھوپھی تو خاص طور پر مستقل بھنا رہی تھیں کہ’’ دیکھو کیسے بچھی جات ہے۔ ‘‘ رفتہ رفتہ اس ناز برداری کی وجہ سمجھ میں آنے لگی ۔
مسیح ،روبی کا خالہ زاد بھائی تھا ۔بچپن سے ہی روبی کی والدہ نے دونوں کی شادی کے خواب دیکھے تھے مگر مناسب وقت کے انتظار میں تھیں ۔انھیں کیا معلوم تھا کہ صحیح وقت سے پہلے ہی روبی کے دل میں سات سمندروں کا شور برپا ہو جائے گا ۔زندگی کے ہر فیصلے کی طرح اس نے یہاں بھی اپنی من مانی کی ۔ہزار منع کرنے کے باوجود سندیسے اور خطوط کا سلسلہ چل نکلا ۔مسیح کی توجہ کے بعد تو اس کے دل میں وہ جگہ بھی جو کسی کے یہاں خدا کے لیے مختص ہوتی ہوگی، اس جگہ پر بھی مسیح کی حکمرانی ہو گئی۔کسی آسمانی پھول کی طرح اس کا چہرہ دمکنے لگا تھا۔وہ اس انہماک سے مسیح کے پیمانوں پر مکمل اترنے کی تیاری میں مصروف ہوئی کہ اسے اپنے وجود پرخط تنسیخ کھینچے جانے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
حد تواس وقت ہوئی جب وہ مسیح کی بہن شبو کی شادی میں شرکت کے لیے گئی اور پھر مستقل تین مہینے تک وہیں قیام پذیر رہی ۔سارے رشتہ دار یہ دیکھ کر حیران تھے کہ روبی جیسی لڑکی بڑی بڑی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے ۔مسیح کی ماں سے خاندان کی عورتیں تعریف کرتے نہیں تھک رہی تھیں کہ ’’ارے بہو نہیں ،ہیرا ملنے والا ہے ہیرا‘‘یہ جملے روبی کے کانوں میں پڑتے تو وہ پھولے نہ سماتی ۔
لیکن اس ہیرے کی قسمت میں چمکنا نہیں تھا ۔
مسیح کی دادی جو ساری زندگی مسیح کی ماں اور ان کے خاندان کی مخالفت کرتی رہیں، انھیں روبی اور مسیح کا رشتہ ایک آنکھ نہ بھایا ۔انھوں نے سارا زور لگا دیا کہ کسی طرح مسیح کے باپ کو اس رشتے کے خلاف بھڑکا سکیں ۔ایک طرف روبی کی جہد مسلسل خود کو ثابت کرنے کی اور دوسری طرف دادی کی مہم اسے ناکام کرنے کی، چلتی رہی ۔
’’ روبی کے کرائے تعویذ گنڈوں نے مسیح کو قابو میں کر لیا ہے ،وہ اپنی محنت کی ساری کمائی روبی کے یہاں بھیج رہا ہے ۔‘‘
مسیح کی دادی کے ذریعہ پھیلائی گئی اس افواہ نے کچھ ایساکام کیا کہ اس کے والد ہی نہیں، ماں سمیت بھائی بہن بھی اس رشتہ کو مستر د کرنے کے درپے ہو گئے ۔
روبی کی والدہ اپنی بہن کے سرد رویے سے بہت پریشان تھیں۔ مدتوں پہلے دیکھے ہوئے خواب کو وہ بھول جانا چاہتی تھیں ۔کیوں کہ آگے کا سفر انھیں ناممکن سا لگتا تھا۔
ٹھوکر کی لذت سے آشنائی ہوئی تو روبی کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا ۔مسیح اس کی ضد بنتا گیا ۔وہم کی زبان میں بیان ہونے والے قصوں کی پرواہ کیے بغیر اس نے مسیح کو حاصل کر ہی لیا۔جشن و چراغاں کے بغیر آنے والی اس خوشی نے اس کے وجود کو گلنار کر دیا تھا ۔
مسیح کی خاموش مزاجی نے اسے کبھی مطمئن نہیں ہونے دیا تھا لیکن اپنے گھر والوں کی بے رخی دیکھ کر مسیح نے عہد وفا نبھانے کی ٹھان لی اور روبی کو اعتماد میں لینے کے بعد اس سے ایک قربانی مانگی ۔
مسیح جب ریگ زاروں کی سفر پر روانہ ہوا تو روبی کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہ تھا سوائے تشنہ خوابوں اور مایوس لمحوں کی یادکے ۔وہ اس ساعت ِدشوار سے نبرد آزمائی کا فیصلہ کر چکاتھا، اس لیے اسے کوئی نہ روک سکا ۔ممبئی پہنچنے کے بعد کئی مہینے اسے سنبھلنے میں لگے ۔
طویل سناٹے کے بعد ایک دن ڈاکیہ نے دروازے پر دستک دی ۔ویران صحرا اور سنگلاخ زمینوں پر چلنے والے لہو لہان قدموں میں یکایک چھن چھن کرتے گھنگرو لگ گئے ۔روبی نے اس طویل عرصے میں پورے گاؤں میں ہونے والی شادیوں کے کپڑے سل کر ایک ریکارڈ قائم کر لیا تھا ۔ مستقل مشین چلانے کی وجہ سے اس کے پیروں میں درد رہنے لگاتھا ۔مسیح کی رفاقت کا خواب اتنا خوبصورت تھا کہ یہ تکلیفیں اس پر اثر نداز نہیں ہوتی تھیں ۔مسیح کا خط ایک طرف تو خوشی کا نوید لے کر آیا تھا لیکن دوسری طرف اسے غمگین بھی کر گیا تھا۔کیوں کہ وہ اپنے والدین کو خوش کرنے اور روبی کو سارے عیش و آرام مہیا کرنے کی خواہش میں مالی طور پر بہت مضبوط بننا چاہتا تھا ۔اس لیے وہ اپنے ایک دوست کی پیشکش کو رد نہ کر سکا جو دو سال عراق میں نوکری سے متعلق تھی ۔
مسیح اپنی دادی کی زبانی بچپن سے ہی اپنے دادا کی محنت و جانفشانی کے قصے سنتا آیا تھا کہ انھوں نے کن مشقتوں سے کویت میں زندگی بسر کی ۔مسیح کے دادا تھوڑے بہت پڑھے لکھے بھی تھے، اسی لیے جب چار چھ برس بعد کویت سے گاؤں لوٹتے تو بڑی آؤ بھگت ہوتی اور پھراس مشقت بھری زندگی کی ساری شکنیں وہیں اتار کر آتے تھے۔جب تک گاؤں میں رہتے ان کی کریزیں کھڑی رہتی تھیں ۔
مسیح کو عراقی فوجیوں کے کیمپ میں کھانا کھلانے کی نوکری کی خبر ملی تو پیروں تلے زمین نکل گئی ۔اس نے سوچا سانسوں کی قید سے آزاد ہوجاتا تو کتنا اچھا ہوتا ۔
کھانے کے وقت وہ گوش بر آواز رہتا لیکن اس کے ہاتھ اس قدر کانپتے کہ کبھی سالن تو کبھی دال گر جاتی۔ بھاری بوٹوں کی آواز سے اس کے کان پھٹنے لگتے تھے ۔ معمولی بات پر بھی چونک پڑتا ۔کھانے پینے اور رہنے کا انتظام اول درجہ کا ہونے کے باوجود اس کی حالت صلیب پر لٹکائے جانے والے قیدی کی سی ہو گئی تھی ۔فوجیوں کی تعداد دن بدن گھٹتی جاتی تھی ۔وہ کسی سے بات چیت نہیں کرتا تھا مگر اتنا بھی بے خبر نہیں تھا کہ کسی فرد کی غیر موجودگی کا احساس نہ ہو ۔بظاہر سخت جان اور آہنی بازوؤں والے فوجی جب آپس میں باتیں کرتے تو ان کے چہروں پر عاجزی کے آثار نمایاں ہوتے تھے ۔
جنگ جاری تھی!!
سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں کے وطن چھوڑنے اور ہلاک ہونے کی خبریں سن کر روبی کا دل دہل اٹھتا تھا ۔ لیکن وہ سوچتی کہ جب اسی سر زمین پر طوفانِ نوح آیا تھا تو خدا نے اپنے عزیزوں کو راہِ نجات دکھائی تھی ۔اب پھر اسی خطہ ارض پر مصیبت آن پڑی ہے تو خدا کیوں کر ساتھ نہیں دے گا ۔وہ رحیم ہے ،ضرور میرے مسیح کے لیے خضر کی صورت کسی کو بھیج دے گا ۔دعائیں کرتے اس کی زبان نہیں تھکتی تھی ۔
وہ اپنی دادی سے بھی ہزار منتیں کرتی کہ مسیح کی واپسی کی دعا کریں ۔دادی کے آنکھوں میں آنسو آجاتے اور کہتیں، ’’روبی میرا بچہ ،ایسا نہ کہا کرو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔‘‘روبی کی ساری لغزشیں بھول کر دادی اس کا خیال رکھنے لگی تھیں ۔
لیکن ایسے نازک وقت میں بھی مسیح کے گھر لن ترانیاں جاری تھیں۔
’’ارے ہم نے تو شروع میں ہی اعتراض کیا تھا ۔اس ملک کی معیشت پر ہمیشہ سے لٹیروں کا قبضہ رہا ہے ۔اور پھر خود وہاں کی عوام کیا کم خرافاتی ہے ؟تعصب کی بنیاد پر آپس میں ہی کٹتی مرتی رہتی ہے ۔اللہ میاں نے جس خزانے سے نوازا ہے، اسی کا غلط استعمال کر رہی ہے ۔اب یہی دیکھ لو! ایمان کی بات ۔ہمارے مسیح کو ویزا کس کام کا دیا گیا اور کمبخت ماروں نے لے جا کر جھونک کہاں دیا ۔‘‘
مسیح کی دادی سب کی باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہتیں،’’مسیح کے دادا بتاتے تھے کہ عراق انسانی تہذیبوں کی آماجگاہ تھا ۔ریاضی اور فلسفے کو یہیں سے پذیرائی ملی اور دنیا میں یہ تعلیمات عام ہوئیں ۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہمارے مولا علی نے اسی ملک کے ایک شہر کوفہ کو اپنا دار الخلافہ بنایا تھا ۔‘‘
ہاں مگر اس حقیقت سے کون منہ موڑ سکتا ہے؟
جب اپنی زمینیں تنگ ہو جائیں تو وجود کا بوجھ ہجرت کے حوالے کرنا ہی پڑتا ہے ۔ کچھ بد نصیب تو ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے یہ دنیا ہی تنگ ہو جاتی ہے۔
تارکین وطن کو گرفتار کر کے جیل منتقل کیا جا رہا تھا، جس کی وجہ سے ان کے ہمراہ آنے والے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر دیا گیا تھا ۔اپنے والدین کو آہنی پنجروں میں قید دیکھ کر بچے بلک بلک کر روتے تھے ۔کسی طرح بچ بچا کر مسیح فو جیوں کے کیمپ سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا تھااور اللہ کا نام لے کر مہاجروں کی بھیڑ میں شامل ہو گیا تھا۔
وطن عزیز اور اپنوں کی یاد اسے ہر لمحہ بے چین رکھتی تھی ۔اس نے سن رکھا تھا کہ عرب ممالک میں چھوٹے موٹے مجرموں کو چند روز کی قید کے بعد ویزا کینسل کر کے وطن بھیج دیا جاتا ہے ۔اسی لیے اس نے خون آلود عراق سے جان بچا کر عرب کا رخ کیا۔اپنے وطن کے بجائے انھیں ممالک میں سے کسی کو اپنی منزل سمجھ کر قدم آگے بڑھانے لگا ۔اس نہتے،اکیلے شخص کے لیے جگنوؤں کی فوج اور سمندروں میں تیرتی مچھلیاں راہبر ٹھہریں ۔
اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا جرم کتنا سنگین ہے اور اسی سنگینی کو مد نظر رکھ کر اس کے حق میں فیصلہ صادر کیا جا ئے گا۔اسی لیے تو جب وہ سعودی پہنچا تو خود کو پولیس کے حوالے کرنے کی ترکیبیں سوچتا رہا ۔ اپنے وجود کے علاوہ اس کے پاس اپنی کوئی شناخت نہ تھی ۔ جب وہ گرفتار ہوا تو متعدد چارجیز اس پر لگائے گئے ۔اِس قید سے آزادی کے لیے ایک بھاری رقم کی ضرورت تھی ،جس کی تیاری میں روبی اور اس کی ماں دن رات لگی رہیں ۔اپنی بساط بھر رقم اکٹھا کر کے انھوں نے ایک کرم فرما کے حوالے کر دیا۔
وسیع سمندر اور چمکتی ریت پر ایک کشتی نظر آتی ہے ،روبی افق کی آخری کرن اوجھل ہونے تک اسے دیکھتی ہے۔موت سے پہلے آنے والی ہچکیاں اسے روز آتی ہیں مگر وہ زندہ ہے ۔کیوں کہ مسیح کی واپسی کی امید ہنوز برقرار ہے ۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں