مہر فاطمہ
کلاسیکی شعرا کے یہاں’’ وحشت‘‘ کا مضمو ن جا بجا ملتا ہے،حالانکہ وحشت کے مضامین کے تعلق سے یہ غلط فہمی عام ہے کہ یہ جدیدیت کے پیدا کردہ ہیں۔ حقیقتاً کلاسیکی شعرا نے وحشت سے متعلق کیفیات کو بیشتر اشعارمیں بیان کیا ہے۔ کلاسیکی شاعری کے مطالعے کے درمیان تواتر سے کئی اشعار وحشت سے متعلق گزرے،جس کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ اس موضوع کے بھی اشعار الگ کرکے دیکھا جائے ، لہذا اس مضمون سے متعلق اشعارکی تلاش شروع کی گئی،جس سے اندازہ ہوا کہ کم وبیش ہر شاعر کے یہاں یہ موضوع آیا ہے اورتمام شاعر وںنے اپنے تخیل کی مدد سے مختلف انداز میں اس کو باندھا ہے۔ اشعار الگ کرنے کے بعد یہ تجسس پیدا ہوا کہ آخر اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے یا نہیں؟جہاں تک میراخیال ہے کہ شایدایسا تفصیلا نہیں ہواہے۔ غالباً شاعری پر بات کرتے ہوئے اس موضوع کوتنقیدی وتحقیقی نظر سے دیکھا ضرور گیا ہوگا لیکن مکمل مضمون یا تفصیلاً ذکر شاذ و نادر ہی ملتا ہے ۔ اس وجہ سے جہاں تھوڑی سی مایوسی ہوئی،وہیں تھوڑی خوشی بھی ہوئی کہ کلام میر و غالب کے کلام میں اس مضمون کی بھی نشاندہی کرنے کا موقع ملا۔ اس مضمون کے متعلق بات کرنے سے پہلے وحشت کے معنی اور اس کے مفہوم پر بھی نظر ڈال لینا ضروری ہے:
فیروزا للغات میں وحشت کے یہ معنی ہیں مثلاً بے چینی، دم الٹنا، غیرمانوسی ،بھیانک پن اور ویرانہ پسندی وغیرہ۔ اس کے علاوہ دہشت ، خوف، ڈر اورہیبت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس سے غیر مانوسی، نفرت جیسی جنگلی جانوروں میں ہوتی ہے وہ بھی مراد لیا جاتا ہے۔وحشت کے مترادفات آوارگی، اداسی، اضطراب، بھڑک، جنوں، جہالت، حیوانیت، خوف ،دھڑکا، دہشت، دیوانگی، رسیدگی، سودا، ضبط، گھبراہٹ، نفرت اور ہیبت وغیرہ ہیں۔ وحشت سے متعلق کہاوت، محاورے اورضرب المثل وغیرہ کچھ اس طرح ہیں اپنے سایے سے وحشت کرنا، اپنے سایے سے وحشت ہونا، اپنے سایے سے بچنا یا بھڑکنا،سایے سے وحشت ہونا، وحشت برسنا اور وحشت ٹپکنا وغیرہ۔
کلاسیکی اردو شاعری میں عشق کی کیفیات سے متعلق یا جڑی ہوئی ایک کیفیت وحشت بھی ہے۔ اس مضمون کو تقریباً ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ اردو کی کلاسیکی شاعری میں وحشت کچھ اس معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ جب عاشق جنون اور دیوانگی کی آخر حد پر پہنچ جاتا ہے تو وحشت میں صحراؤں کی سیرکرتا پھرتا ہے ۔عاشق کی اسی کیفیت کووحشت سے موسوم کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی مد نظر رہے کہ ہر شاعر کے یہاں وحشت کی صورت مختلف ہے۔ اسی طرح ان کے یہاں الگ الگ مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے وقت اور حالات کے مطابق شاعر اس موضوع کو اشعار کے قالب میں ڈھال دیتا ہے۔ یہ اس کا اپنا منفرد انداز بیان ہوتا ہے۔ کوئی بھی شاعر کسی بھی مضمون کو باندھتا ہے تو اس میں اس کی شخصیت کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کا کلام اس کی شخصیت کاآئینہ ہوتا ہے۔ کسی شاعر کے یہاں عشقیہ جذبات میں بڑی توانائی ہے تو اس کے یہاں وحشت بھی اسی پائے کی موجود ہے۔ یہ شاعر پر منحصر ہے کہ وہ اس کو کس معنیٰ میں استعمال کرتا ہے؟اور اس میں کس طرح جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ وحشت کی کس منزل پر خود کو دکھانا چاہتاہے اور وحشت کے مضمون میں تخیل کی مدد سے کس طرح سے جدت پیدا کرتا ہے۔ اگر بات کریں میرؔ کی تومیرؔ کے اس مضمون سے متعلق تقریباً پچاس اشعار ہیں۔ جن میں سے کئی اشعار زیادہ مشہور ہیں۔
مثلاً بہت ہی مشہور شعر ہے:
سرزدہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
یعنی عاشق وحشت کی اس کیفیت میں بھی محبوب یامعشوق کی بے ادبی سے خوف کھارہا ہے۔ اس کو اسی بات کا خیال ہے کہ کہیں اس کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہوجائے۔ او رساتھ ہی کہ وحشت اس قدرطاری ہے کہ محبوب کی طرف بھاگاچلا جارہا ہے۔ اس حالت بے خودی میںاس کونہ اپنی خبر ہے نہ کچھ اور پتہ۔ لیکن اس کاخیال ہے کہ وہ محبوب کی عزت کا پاس ولحاظ کررہا ہے ،اور پاس ولحاظ تک ہی بات ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا وہ نہ صرف پاس ولحاظ کررہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ سجدہ بھی کرتا جارہا ہے۔دوسرے لفظوں میںیہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ وحشت کی اس کیفیت میں اس کو محبوب کے سوا ہر چیز کا خیال مٹ گیا ہے۔ وہ خود کو محبوب کے حوالے کرتا جارہا ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جنون کی وہ شدت ہے کہ شاعر محبوب کے راستے سجدہ کرتا جاتا ہے۔ اس میں جنوں کی شدت، وحشت کا کرب اور محبوب سے عشق کا ایک طاقتور اور توانا جذبہ موجودہے۔
چند اشعار مزید:
میں صید رمیدہ ہوں بیاباں جنوں کا
رہتاہے مرا موجب وحشت مراسایہ
دور بہت بھاگو ہو ہم سے دیکھے طریق غزالوں کا
وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا
وحشت سے بہت میرؔ کو مل آئیے چل کر
کیا جانئے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات
آگے ہمارے عہدسے وحشت کو جانہ تھی
دیوانگی کسو کی بھی زنجیر پا نہ تھی
وحشت زدوں کو نامہ لکھوں ہوں نہ کس طرح
مجنوں کو اس کے حاشیے پر میں دعا لکھوں
میرؔ کو وحشت ہے گی قیامت واہی تباہی بکتے ہیں
حرف وحکایت کیا مجنوں کی دل میں کچھ مت لائو تم
بدنامی کیا عشق کی کہئے رسوائی سی رسوائی ہے
صحرا صحرا وحشت بھی تھی دنیا دنیا تہمت تھی
عالم عالم عشق وجنوں ہے دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
اس طرح اشعار میں وحشت کی الگ الگ کیفیات بیان ہوئی ہیں،مثلاًکبھی خود کو وہ صیدرمیدہ کہا جو اپنے سائے سے ڈر ا ہوا ہے۔ کبھی غزالوں کی وحشت بیان کی گئی ، کہیںپر وحشت میں دور نکل جانے کا ذکر کیا ہے جہاں سے کچھ خبر نہیں آسکتی۔ کہیں وحشت میں مجنوں سے بھی سبقت لے جانے کا ذکر ہے۔ کہیں مجنوں کی وحشت کو اس قدر کم دکھایاگیا ہے کہ حاشیے میں یونہی ذکر کرکے دعا لکھ دیتے ہیں۔ کبھی وحشت میں اپنے سائے سے خوف کھانے کو خامہ سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جس طرح خامہ اپنے سایے سے بھاگتا ہے بالکل ویسے ہی اس عشق میں تمہیں بھی وحشت ہوجائے گی یا ہوگئی ہے۔وحشت میں واہی تباہی بکنے کا بھی ذکر ہے۔ بالکل یہی مضمون غالب کے یہاں بھی ہے لیکن وحشت کا استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ صرف جنوں کا ذکر کیا:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
اس مضمون یعنی وحشت کے تعلق سے بھی غالبؔ کے یہاں میرؔ سے بالکل مختلف صورت نظر آتی ہے۔غالب نے بھی انہیں تمثیلوں اور تشبیہوں کا استعمال کیا ہے لیکن بالکل منفر د اورنادر بات پیدا کی ہے۔ ظاہر ہے کہ غالبؔ کے تمام نقاد بھی اس امر میں متفق ہیں کہ ان کی سب سے بڑی خصوصیت ان کاانداز بیان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے اس کو ’’طرز ادا‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کسی نے ’’جدّت ادا‘‘ سے او رکسی نے’’جدّت طرازی‘‘ سے، کسی نے ’’طرفگی ادا‘‘ سے کسی نے ’’ادائے خاص‘‘ سے اور کسی نے ’’جدّت بیان ‘‘ سے دوسرے لفظوں میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ غالب کے یہاں وہ جدّت طرازی ہے جو زبان، تراکیب، خیالات، محاکات، الفاظ، تشبیہات، استعارات اور کنایات غرض کہ تمام لوازم شاعری میں پائی جاتی ہے۔یعنی وہ جو عام روش سے ہمیشہ الگ چلنے کا رویہ ان کے یہاں ملتا ہے وہ موجود ہے۔اس لئے انہوں نے اس مضمون کوبھی ایک نیا رنگ دیا ہے چند اشعار دیکھیں ؎
عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
غالبؔ کے یہاں دیگر شعرا کے مقابلے اغراق کا رنگ زیادہ نمایاں ہے۔ وہ مبالغہ کی حد تک کم ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اکثر وہ مضمون کو اغراق کی حد تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہی صورت ہے۔ کہتے ہیں کہ جوہراندیشہ کی گرمی کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وحشت کا خیال آتے ہی صحرا ہی جل کر راکھ ہوگیا۔ وحشت، صحرا اور گرمی سب ایک دوسرے کی رعایت سے لائے گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ کہ صحرا تو خیال صحرا نوردی سے ہی جل گیا اب میں اپنی طبیعت کی گرمی کا مظاہرہ کروں تو کیا کروں؟
چند اشعار اور دیکھیے:
احباب چارہ سازی وحشت نہ کرسکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
شب کہ ذوق گفتگو سے تیری دل بے تاب تھا
شوخی وحشت سے افسانہ فسون خواب تھا
نہ کی سامان عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی
ہو ا جام زمرد بھی مجھے داغ پلنگ آخر
یہ کیا وحشت ہے ارے دیوانے ازمرگ واویلا
رکھی بے جا بنائے خانہ ء زنجیر شیون پر
عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے
وحشت آتش دل سے،شب تنہائی میں
صورت دود،رہا سایہ گریزاں مجھ سے
پہلے شعر میں کہا کہ دوستوں نے میری وحشت کا ازالہ کرنے کے لئے مجھے محبوس کردیا۔ مگر قید سے چارہ سازی وحشت نہ ہوسکی۔ کیونکہ میں نے تصور میں صحرا نوردی شروع کردی۔ جسم، زنداں میں رہا تو کیا ہوا؟ خیال تو بیاباں نورد تھا۔ خیال کو بیاباں نورد کہہ کر جو انہوں نے افسانہ بنایا یعنی کہ قیدکی حالت میں میری وحشت ختم نہیں ہوئی۔ میں نے تصور میں صحرا نوردی شروع کردی۔ اس تصور کو انہوں نے خیال کو بیاباں نورد کہہ کے حقیقت میں بدل دیا کیونکہ خیال کسی کا بھی کسی ایک جگہ نہیں ٹھہرتا ہے۔ دیگر اشعار میں کہیں دنیا کو وحشت کدہ کہا اورخود کو مانند شمع اپنا سروسامان شعلۂ عشق کو قرار دیا۔ کہیں اپنی وحشت پر ہائے ہائے یعنی نالہ اور آہ وزاری ہے۔ کبھی شب تنہائی میں اپنے سایے کو خود سے مثل دھواں بھاگتے ہوئے بتاتے ہیں۔ میرؔکے یہاں بھی بالکل یوں ہے۔اسی مضمون کو باندھا ہے انہوں نے صورت خامہ سے تشبیہہ دی او رغالب نے صورتِ دود کہا۔غالب کے ہی دو اشعار مزید:
مانع وحشت خرامی ہاے لیلیٰ کون ہے؟
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا
عالم غبار وحشت مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیال طررۂ لیلیٰ کرے کوئی
پہلے شعر میں کہا کہ مجنوں کادروازہ چونکہ مجنوں کاگھر یعنی جنگل اور جنگل میں دروازہ ہی نہیں ہے کہ اسے بند کیا جایے تو لیلیٰ کو وہاں جانے آخر روکا کس نے۔ دوسرے شعر میں کہا کہ یہ عالم دراصل فریب نظر ہے جس کا حقیقی وجود نہیں۔ یعنی دیکھو تو نظر آتاہے لیکن غور کرو تو کچھ نہیں ہے۔ جس طرح شعلۂ جوالہ کی گرد ش سے اگرچہ دائرہ نظر آتاہے مگر اصل میں اس کا وجود نہیں۔ لہٰذا اے نادان تو کب تک اس امر معدوم(فریب نظر) کو اپنا محبوب سمجھتا رہے گا۔ اس شعر میں’’غباروحشت مجنوں‘‘ امر معدوم کا کنایہ ہے۔ وحشت کا غبار ایک اعتباری چیز ہے۔ اس طرح اس میں بے ثباتی عالم کی طرف اشارہ ہے۔
ربط یک شیرازہ وحشت ہیں اجزائے بہار
سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا
یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا
جادہ، اجزائے دوعالم دشت کا شیرازہ کھلا
یعنی جادۂ وحشت گویا شیرازہ ثابت ہوا جس کی بدولت دونوں عالم کے اجزائے پریشاں مجھ پر منکشف ہوگئے۔ یعنی عشق میں ساری کائنات مجھ پر عیا ںہوگئی۔ یہاں وحشت کوعشق کے کنایہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اور بہار کی مناسبت سے سبزہ،صبا اورگل کو اس شعر میں یکجا کیا گیالیکن تینوں کے شیرازہ کو بکھرتا ہو ا دیکھا یا اور اس کے لئے انہوں نے تینو ں کی خاص صفت استعمال کی یعنی سبزہ کے بیگانگی،صبا کے ساتھ آوارگی اور گل کے ساتھ نا آشنائی ۔یہ غالب کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اسی طرح میرؔ اور غالبؔ کے یہاں وحشت کا استعمال مختلف انداز میں ہوا ہے۔ وحشت دل پر بے شمار اشعارنظر سے گزرے ہوںگے مگران اشعار کا انتخاب بے ساختگی اور دیگر فنی خصوصیات کے مدنظر کیا گیا ہے۔ ان اشعار میں نہ تو کہیں کوئی بہت پیچیدہ بات آئی اورنہ ہی کہیں کوئی بھاری بھر کم تشبیہ واستعارہ کااستعمال ملتا ہے۔ میرؔ کے یہاں وحشت میں سایے سے بھاگنا، بگولہ کی تشبیہ خامہ سے تشبیہہ دی گئی۔ وہیں غالب کے یہاں دیگر مضامین وحشت کے پیرائے میں بیان ہوئے ہیں۔دونوں نے اپنے اپنے مخصوص انداز میں اس مضمون کو شعری پیکر عطا کیا ہے،یعنی ہم کہہ سکتے ہیں میرـؔ اپنی طرز خاص یعنی بے ساختگی اور سادگی کو کام میں لاتے ہیں ۔وہیں غالب اپنے مخصوص انداز جس کو ہم جدّت طرازی‘‘ ’’طرفگی ادا‘‘ ’’ادائے خاص‘‘ ’’جدّت بیان ‘‘ کہتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ غالب کے یہاں وہ جدّت طرازی ہے جو زبان، تراکیب، خیالات، محاکات، الفاظ، تشبیہات، استعارات اور کنایات غرض کہ تمام لوازم شاعری کا استعمال ملتا ہے۔انہی خصوصیا ت کی بنا پرتو میرؔ تقی میر اردو شاعری میں ؔ ’میر‘ ہوئے اور اسداللہ خاں غالب ،’غالب ‘بنے۔مختصرا یہ کہ وحشت کا مضمون ہمارے کلاسیکی شاعروں کے یہاں بھی موجود ہے۔ جس کی مثال میر اور غالب کی شاعری سے پیش کیا گیا اور اس مطالعے میں دونوں کے مخصوص انداز بیان پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ دونوں نے اس ایک ہی مضمون کو کس کس انداز سے باندھا ہے،وغیرہ وغیرہ۔اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے یہ ایک کلاسیکی مضمون ہے،جس میں جدید شاعر بھی اپنے انداز میں طبع آزمائی کرتا ہے اور اس خاص مضمون میں اپنے تخیل سے کوئی نیا پہلو نکالتا ہے جیسا کہ کلاسیکی شاعروں کے یہاں بھی موجود ہے میر و غالب کی مثال سے ہم نے تفصیلاً اس کا مطالعہ کیا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں