پروفیسر کوثر مظہری
شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
وحید اختر کے پہلے شعری مجموعے ’’پتھروں کا مغنی‘‘ (۱۹۶۶ء) کی پہلی نظم’ پتھروں کا مغنی‘ سے یہ ٹکڑے ملاحظہ کیجیے:
مطرب خوش نوازندگی کے حسیں گیت گاتا رہا
اس کی آواز پر انجمن جھوم اٹھی
اس نے جب زخم دل کو زباں بخش دی
سننے والوں نے بے ساختہ آہ کی
عشق کے ساز پر جب ہوا ز خمہ زن
شور تحسیں میں خود اس کی آواز دب کی گئی
مطرب خوش نوا پھر بھی تنہا رہا
ہر طرف سے ملامت کے پتھر ملے
مطرب خوش نوا پتھروں سے پٹکتا رہا اپنا سر
پتھروں کو زباں تو ملی، پر تکلم نہیں
پتھروں کو ملے ہونٹ، لیکن تبسم نہیں
پتھروں کو ملی آنکھ، لیکن نظر کون دے
پتھروں کو خدو خالِ انساں ملے ، دولت در دو غم کب ملی
پتھروں کو حسیں صورتیں تو ملیں، دل نہیں مل سکا
مطرب خوش نوا پتھروں کو سناتا رہا در د دل
اپنا غم ان کا غم / سب کا غم
پتھروں نے سنا اور چپ چاپ ہنستے رہے
….پتھروں کی اسی انجمن کا معنی ہوں میں
(۱۹۵۹)
اس نظم میں’’ پتھروں‘‘ کو زندہ اور متحرک کردار بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے اور ان کرداروں کے درمیان نظم کا راوی ’’میں‘‘ خود ہی مطرب ِخوش نوا ہے جو اپنے اور دوسروں کے غموں کو نغموں میں ڈھالتا ہے۔ نظم کے آخری حصے تک نظم واحد غائب کے سہارے بڑھتی ہے لیکن آخری چار مصرعوں سے پہلے اس مصرعے پر پہنچ کر کہ’’ پتھروں کی اسی انجمن کا معنی ہوں میں‘‘ واحد غائب متکلم میں مدغم ہو جاتا ہے۔ یہ فکر کی سیالیت ہے جس کے سبب وحید اختر کی اس نظم میں ایک صیغہ اپنے افکار کے ساتھ دوسرے صیغے میں ڈھل گیا ہے۔ خیر یہ تو محض ایک نحوی عمل کا ذکر ہوا۔ مؤلف اور موضوع کے لحاظ سے اس نظم میں پوری سیاسی اور سماجی بصیرت سمو دی گئی ہے۔ نظم پڑھتے ہوئے روح عصر کی سچی عکاسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں پتھروں کی بہتات سے درشتی (Austerity) کے بجائے خیال کے ایک سیل تند کا احساس ہوتا ہے۔ کرب والم اور لطیف پیکر غم کی ایک ندی ہے جو پتھروں کے شہر میں رواں دواں ہے۔ یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ پتھر کے حسین و جمیل بت بھلے ہی تراشے جاسکتے ہیں لیکن انھیں تکلم، بصیرت اور غم کی دولت کبھی نہیں مل سکتی ۔ گویا آج کا انسان بھی اس بے حس و حرکت تراشیدہ بت جیسا ہے۔
وحید اختر کی اس نظم میں ایک طرح کی پاکیزہ اور مضطرب روح کی تڑپ ہے جو ایک مطرب خوش نوا کے نغمے میں ڈھل گئی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تخلیق کار کی آزمائش ہوتی ہے۔ اگر خود ضبطی اور توازن سے ذہن و دل خالی ہوں تو ایسے تجربے کا بیان یا تو تخلیق کی بھونڈی شکل اختیار کر لیتا ہے یا پھر چیستاں بن جاتا ہے۔ وحید اختر نے اپنی شاعری کو چیستاں نگاری سے بچائے رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ حالانکہ ان کے ہم عصروں اور جدیدیت کے عہد شباب میں کئی شعرا ایسے تھے جو ہوا بازی اور چیستاں گوئی میں مصروف تھے، بلکہ طاق تھے۔ افتخار جالب، شہزاد احمد ، عادل منصوری، احمد ہمیش اور محمد علوی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان کے بارے میں خود وحید اختر لکھتے ہیں :
’’احمد ہمیش کے یہاں تو الگ الگ ٹکڑوں یا مصرعوں کے کہیں کہیں معنی بھی نکل آتے ہیں مگر افتخار جالب کے یہاں معنی ڈھونڈنے کی ہر کوشش رائیگاں جاتی ہے ۔‘‘
ظاہر ہے Modern Sensibility کی ترجمانی میں اگر توازن نہ ہو تو تخلیقی قدم لا یعنیت (Absurdity) کی طرف بڑھ جاتے ہیں، جو نظم کے اندرون میں بے ربطی اور انتشار کا باعث ہوتے ہیں۔ وحید اختر کی نظموں میں ایسا کوئی منفی رویہ نظر نہیں آتا۔ ان کے یہاں رومانی طرز کی نظمیں بھی ملتی ہیں لیکن زیادہ تر نظموں میں زندگی کے خواب اور حقیقت کی آمیزش اور کہیں کہیں دونوں کی کشاکش دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک تخلیق کار دنیا کے غم کو بھی اپنی دولت سمجھتا ہے اور اس دولت کوفن پارہ بنانے کے لیے خون رونے کی ضرورت پڑتی ہے جس کااعتراف وحید اختر کو بھی ہے۔ نظم کا یہ ایک ٹکڑا:
میں کہ جنت نادیدہ کا افسانہ طراز
اپنے بچھڑے ہوئے خوابوں کو صدا دیتا ہوں
زخم کاری ہو تو قاتل کو دعا دیتا ہوں
نقرئہ و زر ہی میں تُلتا ہے جہاں ذوق نظر
قیمتِ حسن نظر اور بڑھا دیتا ہوں
کوئی دل ٹوٹے تو ہوتی ہے مرے دل کو خبر
کوئی بھی چشم ہونم، ہے وہ مرا دیدہ تر
اہل دل، اہل نظر قیمت فن جانتے ہیں
خون رونے ہی سے تخلیق پہ آتا ہے نکھار
آخری دو مصرعے پڑھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر بے ساختہ ہونٹوں پر آجاتا ہے:
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
یہی وہ زمانہ ہے جب جدیدیت اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وحید اختر پر اس کی فیشن پرستی اور بیجا ابہام و اعمال کا کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ اس لیے ان کے یہاں ترسیل کی ناکامی کا المیہ نہیں ملتا۔ یوں بھی وہ محض تجربے کی ترسیل کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ وہ اُس تاثر اور کیفیت کے ابلاغ کو ضروری تصور کرتے ہیں جو شعر کی روح ہوتے ہوئے بھی ماورائے سخن ہوتی ہے۔ (ص: ۱۵، پتھروں کا مغنی، پیش لفظ ) چونکہ وحید اختر کی نظموں میں خواب اور شکست خواب کا بہت ذکر ملتا ہے، ساتھ ہی ماضی کے دھند لکے بھی ان
کی شاعری کو روشنی عطا کرتے ہیں ، اس لیے ان کے یہاں محزونی کی کیفیت حاوی طور پر ملتی ہے۔ اختر الایمان کی طرح وحید اختر کے یہاں بھی ’’یادیں ‘‘حاوی رہتی ہیں۔ وہ خیال و خواب کے باہم مستحکم رشتے کا پاس رکھتے ہیں:
بہت دنوں سے خیال کا خواب سے کوئی سلسلہ نہیں ہے
خموش راتوں کی ہولنا کی میں نغمگی کا پتہ نہیں ہے
کتابیں کہتی ہیں زندگانی حسین خوابوں کا مدعا ہے
پیمبروں نے دیا ہے مژدہ زمین کا بھی کوئی خدا ہے
اٹھو ہم اپنے غموں کی لاشوں کو گہری قبروں میں دفن کر دیں
جہاں اندھیروں کے ناگ بیٹھے ہیں اُن درازوں کو ضو سے بھر دیں
آخر کار یہ نظم ان مصرعوں پر ختم ہوتی ہے :
ہم اپنی بے خواب جلتی آنکھوں میں زندگی کی چتا جلائے
جہاں بھی زندہ وجود ڈھونڈیں ملیں وہاں موت ہی کے سائے
کروڑوں لمحوں کی لاش اٹھائے ہر ایک دن تھک کے ڈوبتا ہے
اسی جلوس قضا کو لوگوں نے زندگی کا لقب دیا ہے
(عدم سے عدم تک ، ص : ۲۲ ، پتھروں کا مغنی )
وحید اختر کی شعری کائنات پر جو الم نا کی ہے وہ یادوں کی ہے۔ جو تخلیق کار اپنے ماضی کو اور ماضی کی یادوں کو بھلا دیتا ہے اس کی تخلیقی بصیرت میں روشنی کم ہو جاتی ہے بلکہ کبھی کبھی توایسے تخلیق کار کے باطن پر نزع کا سا عالم طاری ہو جاتا ہے۔ وحید اختر کے یہاں خواب بھی ہیںاور ماضی کی یادیں بھی۔ خوابوں کے گم ہو جانے پر جو خلش پیدا ہوتی ہے وہ تنہائی کو جنم دیتی ہے۔ اس کا ئنات میں کسی اور کائنات کے خواب کو تلاش کرنے کا عمل بھی دلچسپ اور حیرت ناک ہوتا ہے۔ وحید اختر ’’پتھروں کا مغنی ‘‘کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :
’’جو چیز ہاتھ آجائے وہ خواب نہیں رہتی۔ اپنے خوابوں کی گمشدگی اور دوری کا احساس ہی انسان کی ازلی اور ابدی تنہائی کا سبب ہے۔ میری نظموں میں تنہائی کا یہ احساس اکثر جگہ ملے گا۔ کہیں کم کہیں زیادہ ۔‘‘
ایک نظم کا یہ ٹکڑا:
مرا سنسان بے ترتیب کمرہ، قبر تنہائی
جہاں ایک ایک پل بھاری ہے یادوں کے رسولوںپر
جہاں شبنم ٹھہرتی ہی نہیں ہے آکے پھولوں پر
وہ کرسی جس کے دستے پر اَٹی ہے گرد مدت سے
حنائی انگلیوں کا نقش نازک ڈھونڈتی ہوگی
(مجموعہ: پتھروں کا مغنی، جلا وطن، ۱۹۶۱)
ایک دوسری نظم کا یہ ٹکڑا:
تنہائی کے صحرا میں کل آگ لگی ایسی
نیندوں کے دیاروں تک شعلوں کی زباں پہنچی
تنہائی کہ اک کوہِ آتش بہ ذہن بن کر
چپ چاپ تھی برسوں سے/ چپ چاپ تھی برسوں سے
پھوٹی ہے تو لاوے کی مدت نے جلا ڈالا/ ہر چیز بھسم کر دی
کون آگ بجھا سکتا /تنہائی کے صحرا سے ہر شخص گریزاں تھا
تنہائی کے ملبے میں ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں لاش اپنی کئی دن سے
(راکھ کا گھر ۱۳ فروری ۱۹۶۷ ، مجموعہ: شب کار زمیہ ۱۹۷۳ء)
یوں تو ہر شاعر کا کلام اس کی ذات اور تلاش ذات کا ایک طرح سے تتمہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ذات اور کائنات باہم مدغم ہو جاتی ہیں لیکن اس نقطۂ ادغام کا عرفان آسان نہیں ہوتا ۔ وحید اخترکو اپنے باطن کی طرف بار بار مراجعت کرنا اچھا لگتا ہے اور انسانی سرشت تک پہنچنے کی ان کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے۔ روح انسانی کے انتشار میں بھی انضباط و تزئین حیات کا راز پوشیدہ ہوتا ہے۔ دنیا کی فنا پذیری وجود انسانی کو تمام کرتی ہے لیکن یہ عمل بھی عمل تنفس کے ساتھ جاری و ساری ہوتا ہے جس کو حیطۂ تخلیق میں لانا ہر فنکار کے بس کی بات نہیں۔ وحید اختر کی نظموں میں اس عمل کو ضبطِ تحریر میں لانے کی سعی دیکھی جاسکتی ہے۔ لمحوں کے تسلسل اور تجربات کی سیالیت سے ہی تخلیقی چہرہ تیار ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہماری پوری شاعری روح انسانی اور ماضی کی بازگشت ہے، تو شاید غلط نہ ہوگا ۔ ہماری لاحاصلی بھی شاعری میں ”یافت‘‘ کا درجہ رکھتی ہے لیکن بود و نابود کو محض پردہ موجود پر دیکھنا ایک مثبت عمل ہے، یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی ماضی سے خوف بھی آتا ہے اور کبھی کبھی ہم کف افسوس ملنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وحید اختر کی ایک نظم ہے ’’چہل سال عمر عزیزم گزشت ‘‘جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے دو ٹکڑے ملاحظہ کیجیے:
چہل سال عمر گریزاں سراب رواں کی طرح میرے پیچھے ہیں پھیلے ہوئے
سراب رواں قطرہ قطرہ مری تشنگی کا حساب
سراب رواںلہر در لہر نا سودہ خوابوں تمناؤں کا التہاب
ما حصل اس سراب رواں کے سفر کا ہے کیا
چند ٹوٹے ہوئے لفظوں کی شعلہ افشاں زباں
چہل سالِ عمر گزشتہ حبابوں کی زنجیر میں
قہقہہ مار کر جو اٹھے تھے ابھی
پھوٹ کر ایسا روئے کہ موجوں میں گم ہو گئے
چہل سال روز و شب پر فشاں
دولت رائیگاں /حاصل عمر بے حاصلی کا بیاں
(مجموعہ : زنجیر کا نغمہ ۲ مارچ ۱۹۷۶ء)
ماضی ن م راشد، اختر الایمان ، مختار صدیقی، وزیر آغا، منيب الرحمن ، عمیق حنفی اور خلیل الرحمن اعظمی کی نظموں میں مختلف روپ میں آیا ہے۔ ماضی اور اس کے عوام و تناظر کو کسی بھی تخلیق کار کے لیے ذاتی تجربہ بنانا خون تھوکنے کے عمل سے کم نہیں۔ یوں تو ماضی کا ذکر’’ مسدس حالی ‘‘میں بھی ہے مگر ماضی وہاں تاریخ کی صورت میں آیا ہے جب کہ نئی شاعری میں صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ یہاں زمانی بعد ہے۔ اختر الایمان نے نیا آہنگ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ آج کا ٹوٹا ہوا آدمی کل کے آدمی سے مختلف ہے۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اختر الایمان کی نظمیں ایک لڑکا، بازآمد، پرانی فصیل، عہد وفا اس عہد میں کہی جاسکتی تھیں ۔ اس طرح راشد کی نظم’ حسن کوزہ گر‘ خلیل الرحمن اعظمی کی نظمیں ’آپ بیتی ‘اور’ بن لکھی کہانی، عمیق حنفی کی طویل نظم سند باد اور شہریار کی’ خطرے کا سائرن‘ جیسی نظمیں آج کی حسیت کی زائیدہ کہی جاسکتی ہیں۔ اس تناظر میں وحید اختر کی نظموں کو دیکھنے سمجھنے اور پر کھنے کی ضرورت ہے۔
ماضی ٹوٹے ہوئے انسان کو سہارا دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے ایک عام آدمی کے لیے ماضی اور اس کی یادیں بہت اہم نہ ہوں لیکن ایک تخلیق کار کے لیے اس کی اہمیت مسلم ہوتی ہے۔ مشہور شاعر شہر یار کی نظم’ ایک سالگرہ‘ (۱۹۶۲ء) کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے اپنی تیس سالہ زندگی پر نظر ڈالی ہے اور بچپن ، لڑکپن اور جوانی کے یادگار واقعات اور جہات کو لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ چند مصرعے:
ہاں یاد ہے اتنا میں اک دن
ٹافی کے لیے رویا تھا بہت
اماں نے مجھے پیٹا تھا بہت
ہاں یاد ہے اتنا میں اک دن
تتلی کا تعاقب کرتے ہوئے
اک پیڑ سے جاٹکرایا تھا
اسی طرح منیب الرحمن کی نظم ” خانہ متروک ‘‘سے یہ چند مصرعے:
دروازوں کے شیشوں سے لگی ہیں آنکھیں
ہر گوشے میں ماضی کی کمیں گاہیں ہیں
یادیں ہیں کہ بکھرے ہوں کھلونے جیسے
کچھ آہٹیں، کچھ قہقہے، کچھ آہیں ہیں
( شہر گمنام سے )
وحید کی شاعری میں انسانی وجود کی حقیقت، خموشی کا فلسفہ، ماضی کا عکس، تنہائی کے آثار، رات اور موت کی موشگافی جگہ جگہ ملتی ہے۔ یہ سب موضوعات انسانی زندگی کے چہرے ہیں۔ان چہروں سے صرف نظر کرنا وحید اختر جیسے تخلیقی فنکار کا شیوہ نہیں۔ وحید اختر کا ماننا تو یہ ہے کہ شاعر خواہ کسی ما بعد الطبعیاتی نظریے کو مانتا ہو، بنیادی طور پر خواب پرست ہوتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’خواب پرستی ادب اور شاعری، فلسفے اور فنون لطیفہ کا سر چشمہ رہی ہے، آج بھی ہے، مستقبل کی دنیا ئیں ماضی کے خوابوں میں ڈھل کر نکھرتی اور سنورتی رہی ہیں۔ یہی خواب جمالیاتی مسرت بھی بہم پہنچاتے ہیں اور عارفانہ بصیرت بھی ۔‘‘
وحید اختر کی نظموں میں جمالیاتی مسرت اور عارفانہ بصیرت کے مذکورہ بالا تلاز مے خوب ملتے ہیں۔ ماضی خود بھی ایک خواب ہے۔ ماضی کی یادوں کا شاعری میں مذکور ہونا بھی خواب پرستی کی مثال ہے۔ خواب جس طرح کبھی مسرت بداماں آتا ہے تو کبھی خوف اور دہشت لے کر ، ماضی کی یادوں میں بھی کبھی خوشیوں کی چمک ہوتی ہے تو کبھی غموں اور خوف کی تاریکی ۔ نظم ’رات: چہرہ در چہرہ‘ جو دس صفحات پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اپنے بیٹے حیدر کی موت کے بعد کہی تھی۔ اس میں’’ رات‘‘ کو بھی ایک کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ Personification کا عمل کبھی کبھی بے معنی ہو جاتا ہے لیکن وحید اختر کا گہرا مشاہدہ اور پختہ شعور اس عمل کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ نظم کے کچھ ٹکڑے دیکھیے :
ٹوٹتے بنتے حبابوں میں ہر اک چہرہ گم گشتہ سمٹ آیا ہے
سب ہی چہرے مرے لمحات رفاقت کے گریزاں چہرے
سبھی چہرے ہیں مرے اپنے پریشاں چہرے
کبھی ہنستے کبھی روتے کبھی حیراں چہرے
چہرہ در چہرہ ہے سیلاب قضا کی یہ رات
رات جو جسم کے باہر ہے وہی جسم میں ہے
رات جو روح کے باہر ہے وہی روح میں ہے
میرے ہی سینے کے تنور سے چھوٹا ہے یہ سیلاب بلا
میرے ہی سینے میں ہو جائے گا پابند یہ طوفان قضا
ضد تھی سیلاب کی ہر دل کو بہا کر لے جائے
میں نے اس رات کو سینے میں اتارا ہے کہ پھر رات نہ آئے
وحید اختر کی تخلیقی کاوش میں ان کا فکری ارتکاز واضح طور پر نظر آتا ہے۔ البتہ خواب اور ماضی کے منتشر لمحوں کو سمیٹنے کے عمل میں بے ربطی اور بے جہتی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ شاعر جب رات کو جسم کے باہر اور اندر بھی تصور کرتا ہے اور پھر یہ کہتا ہے کہ: ’’میرے ہی سینے کے تنور سے پھوٹا ہے یہ سیلاب بلا ‘‘تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شاعر کی اضطراری کیفیت سے ہی ایسے فکری ابعاد وضع ہوئے ہیں ۔ وزیر آغا نے لکھا ہے کہ فنی تخلیق اپنی جہت سے پہچانی جاتی ہے اور خواب اپنی بے جہتی سے۔‘‘ ۔ ( تخلیقی عمل ، ص: ۱۵۸)
آگے چل کر والیری (Valery) کے حوالے سے لکھا ہے کہ نراج (Choas) ذہن کی زرخیزی کی علامت ہے (ص: ۱۶۲) خواب کے حوالے سے وحید اختر کا موقف او پر گزر چکا ہے۔ یہاں میں یہ بات کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ خواب دیکھنے والا شاعر خواب نہ دیکھنے والے شاعر سے زیادہ بڑا خلا قانہ ذہن رکھتا ہے۔ البتہ خواب نے اگر ابہام کی موٹی چادر اوڑھ لی تو معنوی گہرائی مشکوک ہو جاتی ہے جیسا کہ جدیدیت کے کچھ شاعروں کے یہاں ایسی مثالیں مل جاتی ہیں۔ ’’نئے نام‘‘ کے حوالے سے خود وحید اختر نے ۱۹۶۸ء میں ایک طویل مضمون لکھا تھا اور اس انتخاب کے حسن و قبح پر کھل کر بحث کی تھی۔ فاروقی صاحب کے پیش لفظ بہ عنوان’’ ترسیل کی ناکامی کا المیہ ‘‘پر اچھا خاصا اپنا رد عمل پیش کیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اس مضمون سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جدید شاعری کاسب سے بڑا مسئلہ ترسیل کا ہی ہے، جب کہ یہ صرف ایک زاویہ ہے۔
ابہام سے سروکار ہر قدیم یا جدید شاعر کو رہا ہے لیکن بیانیے نے جس طرح ہماری شاعری میں اپنا اثر چھوڑا ہے اُسے بھلایا نہیں جاسکتا ۔ صرف اسے اکہرے پن کا تفاعل کہہ کر آگے بڑھ جانا مناسب نہیں۔ جدید شاعری میں بھی جس نے اس بیانیے کے اسلوب کو اپنایا ہے اس کو شعری ادب میں وقار کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ اسی سہارے طویل نظمیں وجود میں آتی ہیں ۔ ن م راشد کی ’حسن کوزہ گر‘ ساحر کی ’پرچھائیں‘ سردار جعفری کی’ نئی دنیا کو سلام ‘زبیر رضوی کی’ پرانی بات ہے‘ وزیر آغا کی’ آدھی صدی کے بعد‘ عمیق حنفی کی’صلصلۃ الجرس،‘ صوت الناقوس‘، سرگجا‘’ سند باد‘ وحید اختر کی ’شہر ہوس کی شہید صدائیں ‘، صحرائے سکوت، سلیم احمد کی’ مشرق‘ وغیرہ ایسی طویل نظمیں ہیں جن میں کہانی پن موجود ہے۔ بیانیہ کے اس طرز اظہار پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے یہ لکھا ہے کہ بیان کی شاعری یا ایسی شاعری جس میں شاعر کی حیثیت ایک سماجی مبصر کی بھی ہوتی ہے اُسے یہ رنگ شاید خاص طور پر راس آتا ہے۔‘‘
وحید اختر کی قدرے طویل اور طویل نظموں میں بیانیے کا رنگ پوری طرح غالب ہے کیونکہ طویل نظم اس کے سہارے آگے بڑھتی ہے۔ نظم کے لیے کہا جاتا ہے کہ اختتام سے پہلے اس میں کلائمکس ہوتا ہے۔ نظم کے لیے فکری ارتکاز بھی ضروری ہے۔ طویل نظم میں اس کی تلاش قدرے مشکل ہوتی ہے۔ فکری ارتکازکئی مقامات پر ہوتا ہے۔’’ صحرائے سکوت‘‘ میں بھی وہی ماضی اور اس کی یادوں کا ذکر ہے لیکن اس کے علاوہ زمانے کا مدوجزر اور معاشرے کی شکست و ریخت کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ نظم کے کچھ حصے ملاحظہ کیجیے:
اٹھے جو موج صدا خامشی کے دریا میں
تو مد و جزر بہت دیر تک نہیں تھمتا
سنے اگر کوئی بہتے ہوئے دلوں کی صدا
تو خامشی کی زباں داستان دہرائے
اب داستان شروع ہوتی ہے:
کئی برس ہوئے گزرے ہزاروں روز و شب
یہ بات ایسے دنوں کی ہے، جس کا ذکر بھی اب
خیال و خواب کی دنیا کا ذکر لگتا ہے
وہ دن کچھ ایسے تھے جیسے ہو عالم سکرات
سکوت غم پہ عجب بے حسی کا عالم تھا
اس کے بعد احساسات اور زمانے کے نشیب و فراز، جنگ و جدال وغیرہ کا ذکر ہے۔پوری نظم پر حزنیہ لَےکا اثر ہے جس سے شاعر کے یہاں رشتوں کی پاسداری اور اس کی عظمت کا پتہ چلتا ہے:
جہاں گلاب کا تختہ ابھی مہکتا تھا
وہاں چمکتا ہے کس کا یہ تازہ تازہ لہو
وہ آنکھیں جن میں محبت کی نرمیاں تھیں تمام
کہاں سے خوف کے آسیب ان میں در آئے
نظم آگے بڑھتی ہے اور شاعر خوف کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ حالانکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ خوف نے شاعر کو اپنے حصار میں لے لیا ہے:
یہ اور کچھ نہیں چلا رہا ہے ذہن کا خوف
وہ ذہن جس کے نہاں خانے میں بھری ہے آگ
یہ آدمی کی نہیں خوف کی صدائیں ہیں
جواپنی ذات سے مقتول بھی ہے قاتل بھی
یہ خوف ہی ہے جو قریہ بہ قریہ شہر بہ شہر
کہیں ہے بھوک کی کھیتی کہیں ستم کی دکاں
پھر شاعر ماضی کے حوالے سے واضح سچائی پیش کرتا ہے:
ابھی تو حال کے لمحات ہی میں جینا ہے
جو وقت گر چکا ماضی کے بحر اعظم میں
پلٹ پلٹ کے وہ طوفاں اٹھاتا رہتا ہے
کنارے حال کے کٹ کٹ کے گرتے رہتے ہیں
اس اندھے بحر کی آغوش میں جو ماضی ہے
اس طرح یہ نظم شاعر کے سینے میں’’ زہر دشت سکوت‘‘ کی صورت میں جاگزیں ہوتی ہے۔
وحید اختر بحران زدہ انسان اور معاشرے کی نفسیات کو اپنی نظموں میں پیش کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کے یہاں بھی بلند آہنگی اور طنز کی کاٹ تیز ہوگئی ہے۔ لیکن ایسا کم ہوا ہے اور اگر ہوا بھی ہے تو صورت حال نا مناسب نہیں۔ ان کی بلند آہنگی کو نرم و شگفتہ کرنے میں ان کا کلاسکی میلان معاون ہوتا ہے۔ سید محمد عقیل نے لکھا ہے:
’’ان کی گلاسری، اشاریت ، تشبیہات و استعارے سب کلاسکی روایات اور فضا ہی سے آتے ہیں۔ اسی وجہ سے موضوع کتنا ہی جہری (Vocal) اوربرہنہ کیوں نہ ہو وحید اختر کی شعری گرفت میں آکر Tame اور تابع(Subdued) ہو جاتا ہے ۔‘‘
انسان کو اس کا اصل چہرہ دکھانے میں وحید اختر کو تردد نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں الفاظ کے پیکر میں انسانی کمزوریاں بھی زیب دینے لگتی ہیں۔’’ کوہ ندا‘‘ کا یہ بند دیکھیے :
یہ لوگ ہیں بیزم نارشکم، تقدیر ان کی ہے در بہ دری
کام ان کا ہے تسکین معدہ یا چاک بدن کی بخیہ گری
ماں باپ نے جنما تھا جب انہیں یہ لوگ بھی تھے شاید انساں
اب ان کا وجود ہے محض عدم یا سلسلہ زنجیر گراں
(مجموعہ زنجیر کا نخمہ کو ہ ندا ، ۱۳ راپریل ۱۹۸۱ء)
یوں تو وحید اختر کی نظموں کی مزید مختلف جہتیں ہیں جن پر سیر حاصل گفتگو ہو سکتی ہے۔ خاموشی، الفاظ سیل ، صدا ، وجود، دشت ، موت ، نور، زنجیر جیسے کئی عوامل میں جو اپنی مختلف جہات بھی رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان کے اسلوب متن ، لسانی اور معنیاتی نظام کے حوالے سے بھی الگ سے تجزیاتی مضمون لکھے جانے کی پوری گنجائش موجود ہے۔
آخری مجموعے زنجیر کا نغمہ (۱۹۸۱ء ) تک آتے آتے ایک واضح تبدیلی جو سامنے آتی ہے وہ ہے ان کا مذہبی میلان ۔ اس نوع کی نظموں میں’ خلیفہ فی الارض‘، ’من عرف نفسہ‘ ،’ آدمی کی دعا‘،’ آگہی کی دعا ‘،’ تشنگی کی دعا ‘،’سفر کی دعا‘ ،’ شہر آتش بازاں‘ جو سورۃ انشقاق کی آیت ۱۶ تا ۱۹ کے تناظر میں کہی گئی ہے وغیرہ۔ ان نظموں میں انسانی شعور کی اعلی سطحیں ملتی ہیں۔ نظم کے ساتھ ایک قباحت یہ ہے کہ کسی نظم کا ایک ٹکڑا پیش کر کے اس میں پیش کردہ پورے تجربے کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ غزل میں اس کی پوری گنجائش موجود ہوتی ہے ۔ پھر بھی طوالت سے بچنے کے لیے پوری نظم کے بجائے ایک یا دو تین ٹکڑے پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ ذہین قاری انہی ٹکڑوں کی مدد سے پوری نظم کی پر اسرار دنیا اور اس میں پیش کردہ بوقلمونی حیات اور نشاط وکرب کے رموز تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ اخیر میں سجاد ظہیر کے اس موقف پر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:
’’وحید اختر اپنی شعری کادش میں اپنے روحانی کرب کی شدید ترین چبھن کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ذہن اور فکر اور شعور کی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانے اور اس فکر کو اپنے تخیل اور اپنے خوابوں کی بلند ترین پروازوں کے ساتھ مدغم کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ‘‘
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں