خلیق الزماں نصرت
برمحل اشعار اردو کے وہ بہترین اشعار ہیں جنہیں عام بول چال،تحریر و تقریر میں استعمال کئے جاتے ہیں۔اس کے استعمال سے تحریر و تقریر کا حسن نکھر جاتا ہے۔کسی موضوع پر کئی صفحات لکھنے کے بعد بھی جو خوبی پیدا نہیں ہوتی ہے، اس کے ایک شعر سے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔بڑے سے بڑے مجمع کا رخ صرف ایک شعر سے بدلا جا سکتا ہے۔یہ اشعار بالکل سادہ ،مگر بڑے پر اثر ہوتے ہیں ۔ ادھر شعر پڑھا ،اُدھر قارئین اور سامع کے دماغ تک بغیر کسی ذہنی جمناسٹک کے پہنچ جاتا ہے۔اشارے اشارے میں بڑی سے بڑی بات کی جاتی ہے۔ایسے اشعار کا نعم البدل نہیں ہوتا،یہ وہ اشعار ہیں جو اپنی سادگی و پرکاری میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں، اختصار، اختصاص اور معجز بیانی کے شاہکار ہو تے ہیں۔ایسے ہی مصرعوں اور اشعار کے بارے میں سردار جعفری نے لکھا تھا:
’’ایسے شعر پڑھتے وقت غیر محسوس طریقے سے بیک وقت ذہن سے کئی تصویریں گذرتی ہیںجو لطف اندوزی کا سبب بنتی ہیں ۔ کوئی سورج ،کوئی ستارہ، کوئی آئینہ ، کوئی گل، کوئی بہتا دریا،کوئی بازو،کوئی ہتھیلی،کوئی تلوار، کوئی موتیوں کی لڑی ،کوئی گاتا ہوا آبشار شعر آگہی کوسرو چراغاں بنا دیتا ہے اور قادری کا ذوقِ جمال جگمگا اٹھتا ہے۔‘‘
آج ہم ان میں سے چند اشعار آپ کی نذر کر یں گے ، جنہیں اردو کے شاعرات نے لکھے ہیں ۔ اب تک کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ شاعرات کے کہے ہوئے بر محل اشعار تعداد میں بہت کم ہیں مگر بڑے جاذب ہیں۔
امترالرؤف نسرین
آئینہ دیکھ کر یہ خیال آیا
تم مجھے بے مثال کہتے تھے
آزادی سے قبل نگار میں خوب شائع ہوتی تھیں ۔ نسائی لہجے کا یہ شعر بہت مقبول ہوا تھا۔
اداؔجعفری
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِالزام ہی آئے
ساز سخن ص ۶۵
تم پاس نہیں ہوتو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں
جدید اردو غزل ص۔۱۱۴
عزیز جہاں ادا جعفری ۲۲؍اگست ۱۹۲۴ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں ۔گھر کانام عزیز جہاں ہے ۔شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنا شروع کیا ۔پیدا تو ہوئیں عام ہندوستانی گھروں میں مگر بعد میں بہت بولڈ شاعرات میں شمار ہونے لگا ۔بہت کم عمری میں شاعری شروع کی ۔
ان کی شادی نورالحسن جعفری سے ہوئی ۔ازدواجی زندگی بڑی کامیاب تھی ۔پہلی کتاب ’’مَیں ساز دھنتے رہی ‘‘(۱۹۵۰ء)میں شائع ہوئی ۔ آدم جی ایوارڈ پاکرتمغۂ امتیاز بھی حاصل کیا ۔۱۹۹۷ءمیں قائد ِاعظم ایوارڈ سے نوازی گئیں ۔اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں ۔ان کی خود نو شت ’’جو رہی سوبے خبری رہی ‘‘میں ہندوستانی عورت کے جذبات و احساسات کا ذکر شامل ہے ۔
انہوں نے حرف شناسائی ,ساز سخن بہانہ ہے ,سفر باقی ہے ,غزالاں تم تو واقف ہو اور سازڈھونڈتی رہی ,شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ایک تذکرہ ’’غزل نما ‘‘تحریر کیا جو بہت مستند ہے ۔ادا ؔاکثر تقریبات اور مشاعرے میں آتی رہیں ۔انہیں مشاعرے میں خوب داد ملتی ہے ۔
طویل علالت کے بعد ۱۲؍مارچ ۲۰۱۵ءکو کراچی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔ہندوستان، پاکستان کے سبھی رسالوں اور اخباروں میں خبر چھپی تھی ۔
ساز سخن ادا جعفری ‘مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ,۱۹۸۸ء
پروین شاکر
وہ تو خوشبو ہے ہوائوں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے ۔پھول کدھر جائے گا
(ماہ تمام ص۱۸۸)
کمال ضبط کو خود بھی تو آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجائوں گی
(ماہ تمام ص۲۱۲)
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا
(ماہ تمام ص۲۴۱)
جگنو کو دن کے وقت پر کھنے کی ضد کریں
بچیبچے ہمارے عہدکے چالاک ہوگئے
(ماہ تمام ص)
پروین شاکر کی پیدائش ۲۴؍نومبر ۱۹۵۲ء کو کراچی میں ہوئی ۔ان کا خاندان چندن پٹّی دربھنگہ (بہار )سے ہجرت کرکے پاکستا ں میں جابسا ۔۱۹۷۲ءمیں انگریزی ادب میں ایم ۔اے کیا اور سول سرو س جوائن کر کے, ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئیں ۔آزاد خیال تھیں ۔انہوں نے اپنی غزلوں میں اپنے محبوب سے باتیں کی ہیں اور یہی ان کی امتیازی خصوصیت تھی ۔ان کا ایک ضخیم کلیات شائع ہوچکا ہے ۔انہوں نے Phdبھی کیا ہے ۔پہلے کچھ دنوں تک لیکچرر رہیں ۔ان کی پہلی کتاب خوشبو پر انہیں آدم جی ایورڈ ملا,ابتدا میں بینا کے نام سے بھی لکھا کرتی تھیں ان کے استاد احمد ندیم قاسمی تھے ۔آپ کی شادی ناصر احمد سے ہوئی ۔مگر طلاق ہوگئی۔
۲۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء کو سروس کے دوران انہیں ایک ٹرک نے اپنی زد میں لے لیا ۔اور وہ یہاں سے رخصت ہوگئیں ۔۱۹۷۲ءمیں انگریزی ادب میں ایم ۔اے کیا اور سول سرو س جوائن کر کے, ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئیں ۔آزاد خیال تھیں ۔انہوں نے اپنی غزلوں میں اپنے محبوب سے باتیں کی ہیں اور یہی ان کی امتیازی خصوصیت تھی ۔ان کا ایک ضخیم کلیات شائع ہوچکا ہے ۔انہوں نے Phdبھی کیا ہے ۔پہلے کچھ دنوں تک لیکچرر رہیں ۔ان کی پہلی کتاب خوشبو پر انہیں آدم جی ایورڈ ملا,ابتدا میں بینا کے نام سے بھی لکھا کرتی تھیں ان کے استاد احمد ندیم قاسمی تھے ۔آپ کی شادی ناصر احمد سے ہوئی ۔مگر طلاق ہوگئی۔
۲۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء کو سروس کے دوران انہیں ایک ٹرک نے اپنی زد میں لے لیا ۔اور وہ یہاں سے رخصت ہوگئیں ۔
ماہ تمام ۔پروین شاکر ۔فرید بک ڈپو ،دلی ۱۹۹۷ء مملوکہ نصرت
بسمل صابری
وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
کاروانِ غزل ص۔۴۹۱
بسمل اللہ بیگم بسمل صابری ۲۲؍ستمبر۱۹۳۲ءمیں پاکستان کے منٹگمری ساہِوال میں پیدا ہوئیں ۔ایم ۔اے کرنے کے بعد درس و تدریس کا کام کیا ۔کئی شعری مجموعے شائع ہوکر مقبول ہوئے ۔ترنم سے پڑھتی ہیں اور مشاعرے میں خوب کامیاب ہوتی ہیں ۔غالباً ۱۹۱۴ء میں بھیونڈی کی کسی بزم نے طرحی غزل کے لئے مصرع طرح دیا تھا’’عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے ‘‘ میں نے بھی اس پر غزل کہی تھی ۔
ؔشعبۂ تعلیمات سے وابستہ ہیں۔ساہیوال میں رہ رہی ہیں۔آزاد طبیعت لڑکیوں میں ان کا نام آتا تھا۔جیسے پروین شاکر وغیرہ ۔قتیل شفائی سے بہت قریب رہ کر شعری دنیا میں نام کمایا۔چند عرصے بعد ہی اکیلے مشاعرے پڑھنے جانے لگیں۔پتا نہیں اب کس عمر میں ہیں اور کیوں خاموش ہیں۔ایک بار کاروانِ ادب ،شعری مجموعہ سے فون نمبر لے کر میں نے سوال پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا۔
حجابؔ
ان سے کہدو کہ ہمیں تم سے یہ امید نہیں
وعدہ ہم سے رہو غیر کے گھر وصل کی رات
(بنگال میں اردو ؍ص۳۳)
منی بیگم حجاب
غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
( ہزار رنگ )
سحابؔ قزلباش
بجھ رہے ہیں چراغِ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
(بحوالہ شعرائے بھیونڈی،ص:۲۶)
سلطانہ سحاب قزلباش ہندوستان کے مشہور و معروف شاعر امیر آغا قزلباش کی صاحبزادی تھیں۔ 1934ء میں جھالا واڑ،راجستھان میں پیدا ہوئیں۔شاعرانہ ماحول اور شریف خاندان سے تعلق تھا۔آغا قزلباش کے بارے میں مشہور ہے کہ سیکڑوں غزلیں کہہ کر اپنے شاگردوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔دہلی آبائی وطن تھا۔یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعدآل انڈیا ریڈیومیں اناؤنسر بنیں۔بٹوارے میں پاکستان چلی گئیں، وہاں بھی ریڈیو سے ملازمت کی شروعات کی ۔اردو کے استاد شاعروں کا کلام انھوں نے خود سنا تھا۔پاکستان کے علاوہ ہندوستان کے اکثر مشاعروں میںشریک ہوتی تھیں۔ایک بار جب وہ ممبئی آئیں تو وہاں سے بھیونڈی(متصل ممبئی)کے ایک کل ہند مشاعرے میں بھی پڑھا۔وہ مشاعرہ جگرؔ مراد آبادی کی صدارت میں منعقد ہوا۔شہر بھیونڈی کے استاد شاعر حضرت بیتابؔ نظام پوری نے جو آرزوؔ لکھنوی کے شاگرد تھے جب سحابؔ نے مذکورہ شعر پڑھا’’بجھ رہے ہیں چراغِ دیر وحرم۔۔۔۔۔دل جلاؤکہ روشنی کم ہے، توفی الفور لقمہ دیا’’ سیکڑوں دل جلے ہیں محفل میں‘‘۔۔۔کون کہتا ہے روشنی کم ہے‘‘سنتے ہی محفل قہقہہ زار ہوگئی۔آج بھی اکثر شعرا کو یہ یاد ہے۔سحابؔ نے پاکستان کی سروس کے بعد بی۔بی۔سی۔ اردو، لندن کا رخ کیا۔مختلف ملکوں کا سفر کیا۔مشاعرے میں ترنم سے پڑھا کرتی تھیں۔لندن میں ہی ان کا انتقال27جولائی2004میں ہوا۔
گنا بیگم
نسیم بسمل نہ چھوڑ جاتا تھا
زخم ایک اور بھی لگانا تھا
(مجموعہ نغزص۱۴۵ )
طبیبوں کا احسان کیوں کر نہ مانوں
مجھے مار ڈالا دوا کرتے کر تے
(مشہور غزلیں)
گنا بیگم منت ،علی قلی خاں شش انگشتی کی بیٹی تھی،نواب عماد الملک کی حرم خاص تھی ۔خوبصورتی اور حسن و ملاحت میں بے مثال تھی ۔بحیثیت شاعرہ لوگ اس کو دیکھنے اور سننے کے گنا بیگم منت ،علی قلی خاں شش انگشتی کی بیٹی تھی،نواب عماد الملک کی حرم خاص تھی ۔خوبصورتی اور حسن و ملاحت میں بے مثال تھی ۔بحیثیت شاعرہ لوگ اس کو دیکھنے اور سننے کے لئے بے تاب رہتے تھے۔ انتہائی سلیقہ مند اور شستہ زبان شاعرہ تھی۔ پہلے منت تخلص تھا پھر کسی سے سنا کہ کوئی اور صاحب منت تخلص رکھتے ہیں تو اپنا تخلص چھوڑ دیا۔نواب عماد الملک اس پر فریفتہ اور اس کا شیدا تھا۔ دونوں کافی دنوں تک ایک دوسرے کے ساتھ داد عیش دیتے رہے ۔ایک مرتبہ سفر میں ساتھ جا رہے تھے کہ نورآباد جو گوہد اور گوالیار کے درمیان واقع ہے بیگم کی سواری نواب کی سواری سے پہلے پہنچی، پیاس لگی تو اسنے خادم سے پانی لانے کو کہا خادم نے راستے کے کنارے پر واقع کنویں سے پانی لاکر دیا جو شاید زہریلا تھا جسے پیتے ہی گنا بیگم کی موت ہو گئی، جب نواب کی سواری پہنچی تو بیگم کا انتقال ہو چکا تھا۔ نواب نے بہت کوشش کی مگر زہر کا اپنا کام کر چکاتھا۔آخر کار اس کی نعش دہلی بھجوائی گئی ( نصرت کافارسی سے آزاد ترجمہ ). -قاسم کے کہنے کے مطابق سوز اور سود نے بھی ان کے کلام پر اصلاح دی ہیں۔
جانی
کیا پوچھتے ہو ہمدم اس جسمِ ناتواں کی
رگ رگ میں ریش غم ہے کہیے کہاں کہاں کی
گلستان بے خزاں ص نمبر 61
بیگم جانی نواب قمرالدین خان کی بیٹی اور آصف الدولہ کی زوجیت میں تھی۔باطن نے اتنا لکھا ہے کہ اپنی بیماری کے دوران جانی نے یہ شعر کہا تھا.
دلہن بیگم
اتنے کم ظرف نھیں ہم جو بہکتے جاویں
مثل گل جاویں جدھر جاویں مہکتے جاویں
مجموعہ نغز، ص ۲۷۵
نواب بہو کے نام سے مشہور تھیں ، انکا اصل نام صبیہ ر ضیہ تھا، پاکباز اور پرہیز گار خاتون تھیں سلیم ا لطبع بہترین شاعرہ تھیں ۔ اکثر اپنے محل میں شعری محفلیں منعقد کروا تی تھیں۔
ضیا بیگم ضیا
میں ہوں وہ ننگ خلک کہ کہتی ہے مجھ کوخاک
اس کو بنا کے کیوں میری مٹی خراب کی
پسندیدہ اشعارص13
محمدیؔ
قفس میں مر گئی بلبل ترستی
نہ دیکھی ہائے پھر گلشن کی ہستی
(مسرت افزا،۱۴۶)
کشور ناہید
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
میں تجھ سے مخاطب ہوں ترا حال بھی پوچھوں
( مشہورغزلیں ص۔۱۰۰)
کشور ناہید ۱۹۴۰ءمیں بلند شہر ,ہندوستان میں پیدا ہوئیں ۔۱۹۴۹ءمیں اپنے والد کے ساتھ بٹوارے کے وقت پاکستان آگئیں ۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم ۔اے (اکنامکس )کیا ۔پاکستان نیشنل کونسل کی ڈائریکٹر جنرل رہیں ۔ایک رسالہ ’’ماہ نو ‘‘شائع کیا ۔آپ کی شادی یوسف کامران سے ہوئی ‘جو شاعر تھے انہوں نے لکھنے کے ساتھ ساتھ عملا بھی ترقی پسندی کا ساتھ دیا ۔پاکستان کے سیاست کے ہر اتار چڑھاؤ کو خوب غور سے دیکھا اور اسکے اچھے راستے تجویز کئے۔پوری دنیا پر انکی نظریں جمی رہتی تھیں ‘اور اس کا اظہار بہت بے باکانہ کرتی تھیں ‘بہت ساری کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔عورتوں کی آزادی کے لئے ہر لمحہ تیار رہتی تھیں ۔
پاکستان کا سب سے بڑا انعام ستارہ امتیاز پا چکی ہیں۔لب گویا پر ۱۹۶۹ءمیں آدمی جی ایوارڈ مل چکا ہے ۔
انجم رہبر
بستی کے لوگ ہی آتش پرست تھے
گھر جل رہا تھا اور سمندر قریب تھا
(راقم )
انجم رہبر ۱۷؍ستمبر ۱۹۶۲ءکو مدھ پردیش میں پیدا ہوئیں ۔گوالیار سے ام ۔اے کیا ۔۱۹۷۷ءمیں پہلا مشاعرہ پڑھا ۔اس کے بعد مشاعروں میں پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ابتک ہندوستان ,پاکستان اور دنیا کے مختلف مقامات کے مشاعرے میں اپنی غزلیں پڑھ چکی ہیں ۔
مشہور شاعر راحت اندوری سے شادی ہوئی ۔ان کے ساتھ اکثر مشاعرے پڑھتی تھیں ۔یہ شعر میں نے کئی بار ان کی آواز میں سنا ہے اور ان سے کئی بار میں نے اس کے مآخذ کے لئے فون پر بات کی تو انہوں نے بڑی لاپرواہی برتی ۔میرے خیال میں شاعر کو اتنا لاپرواہ نہیں ہونا چاہئے ۔اب مشاعرے میں نہیں جاتی ہیں ۔سنا ہے راحت ان سے الگ ہوگئے ہیں ۔
شوخ
جو دیکھا جانب غیر اس نے دل پکار اٹھا
نگاہ لطف کے امیدوار ہم بھی ہیں
نقوش غزل نمبرص۴۷۰
نام شہزادی جان اکبر آبادی تھا۔
نواب اختر محل
لکھ کر جو مرا نام زمیں پر مٹا دیا
ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا
نقوش غزل نمبرص۴۴۶؎
مذکورہ شاعرات جن کے حالات نہیں ہیں ان کے تذکروں میں صرف شعر اور نام ہی ہیں۔
*********************
861, Opp. Salahuddin Ayyubi School, Bhiwandi 421302
Maharashtra
cell: 9923257606
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں