نام کتاب : اردو میں قصیدہ نگاری
مصنف : ڈاکٹر ابو محمد سحر
تبصرہ نگار : ذاکر انور
ناشر : مسز مونس اختر (اہلیہ ڈاکٹر ابو محمد سحر) مکتبہ ادب، مالویہ نگر’ بھوپال
تعداد اشاعت : 500
ایڈیشن : ساتواں 2012 ( پہلی اشاعت 1958)
صفحات : 296
قیمت : 200
لفظ قصیدہ سنتے ہی ذہن پرشکوہ الفاظ، مغلق تراکیب، مشکل پسندی، ادق علمی اصطلاحات، مدح و تعریف میں بے جا مبالغہ اور ایک حد تک غلو کی طرف منتقل ہوجاتا ہے یعنی "قصیدہ” سے۔ (موضوع کے اعتبار سے) ایک ایسی قدیم صنف سخن مراد لی جاتی ہے جس کا ہماری حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور پھر اس کے بعد ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس صنف سخن کا ہمارے آج کے دور میں کیا کام اور ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے – ان سوالات کے پیدا ہوتے ہی یہ خیالات بھی ذہن و دل کو کچوکے لگانے لگتے ہیں کہ کیا واقعتاً جس کو ہم قصیدہ کہتے ہیں اس کا دور ختم ہوچکا ہے۔
یہ سوالات اور ان جیسی بے شمار باتیں قصیدہ کے متعلق لکھی اور سنی جاتی رہی ہیں – لعنت و ملامت کا یہ سلسلہ زیر تبصرہ کتاب کے مصنف کے بقول "حالی کے دیوان کے مقدمے ( مقدمہ شعر و شاعری : 1893) سے شروع ہوتا ہے – ان کے بعد انھیں کی تقلید میں امدام امام اثر نے کاشف الحقائق(1897) میں قصیدے کے معائب کو بڑے شد و مد سے نمایاں کیا-” اگر ان اعتراضات کو یکجا کرکے دیکھا جائے تو ہدفِ لعنت و ملامت کا مرکزی دائرہ ” قصیدے کے محدود دائرہء مضامین، جھوٹی تعریف، مبالغہ آرائی” قصیدہ گویوں کی خوشامد پرستی، ضمیر فروشی،دربار پروری اور انعام و اکرام کی چاہ میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دینا وغیرہ ہیں – اس طرح دیکھا جائے تو قصیدہ ابتدا سے اپنے ارتقائی عمل کے دوران ایک مظلوم صنف سخن کی حیثیت سے سسکتا ہوا نظر آتا ہے – حالی نے تو اسے اپنی مسدس (مد و جزر اسلام 1879) کے ایک شعر میں "سنڈاس سے بدتر” سے تعبیر کیا۔
الطاف حسین حالی، امام امداد اثر یا بعد کے دوسرے نقادوں کی شدت پسندی کہیے یا حالات اور زمانے کے بدلاؤ کا اثر مگر بقول مصنف یہ بات کھلی ہوئی ہے کہ ’’قصیدہ ایک ایسی صنف سخن ہے جس کو جدید تنقید میں سب سے زیادہ ہدفِ ملامت بنایا گیا ہے۔‘‘
قصیدے کے تعلق سے مندرجہ بالا تنقیدی رجحانات کو سامنے رکھ کر زیر تبصرہ کتاب کے آخری عنوان "قصیدے کی تاریخی و ادبی حیثیت” کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان لعن طعن کی جڑیں کتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان اعتراضات کی وجوہات کیا تھیں۔ کیوں کہ مصنف نے اس عنوان کے تحت تقریباً تمام باتوں کا تسلی بخش جواب دے دیا ہے کہ مبالغہ آرائی اور شاعرانہ تخیل کی ضرورت کیا تھی، قصیدے کا اصل زندگی اور شعرا کی ذاتی و اجتماعی زندگی سے کیا تعلق تھا، انعام و اکرام سے کیا فائدہ حاصل ہوتا تھا، قصیدہ کس طرح سلاطین و امرا اور نچلے طبقے کے لوگوں کو جوڑ کر رکھتا تھا، دوسری اصناف سخن پر اس نے کیا اثرات مرتب کیے پھر آگے چل کر قصیدے کا دائرہ تنگ کیوں ہوگیا اور سودا کے دورِ عروج میں اسلوب کی شان و شوکت، مضامین کی گھن گرج اختیار کر لینے والی صنف سخن عہدِ ذوق کے بعد رفتہ رفتہ زوال پذیر کیوں ہوگئی – بلکہ ڈاکٹر ابو محمد سحر کے بقول تو "قصیدہ دراصل ختم ہوچکا ہے اور اس وقت اردو شاعری کا مقصد کسی پرانی صنف کو دوبارہ زندہ کرنا یا خواہ مخواہ برقرار رکھنا نہیں ہے – ” جب یہی بات ہے تو پھر کتاب کے آخری سطر میں یہ کہنا کہ "دیگر اصناف سخن کی طرح قصیدے سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے” دو متضاد باتیں نظر آتی ہیں کیوں کہ جس چیز کا وجود ختم ہوچکا ہے اس سے فائدہ حاصل کرنا "یاخواہ مخواہ برقرار رکھنا” کس طرح ممکن ہے – ان کمیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے دیکھا جائے تو "قصیدے کی تاریخ و ادبی حیثیت” کے زیر تحت جتنے امور کا احاطہ کیا گیا ہے وہ کتاب کے مغز کی حیثیت رکھتے ہیں – اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ان تمام اعتراضات اور اشکالات کو دور کرنے کی کامیاب کوششیں کی گئی ہیں؛ جو قصیدہ جیسی قدیم صنف سخن پر کیے جاتے رہے ہیں – گویا اس حصے کو کتاب یا اردو میں قصیدہ نگاری کا خلاصہ اور ڈاکٹر ابو محمد سحر کی شخصیت کو قصائد کی تحقیق و تنقید میں پذیرائی کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے – آپ کی تحقیق و تنقید کے خاص موضوعات جہاں "غالبیات، لسانیات، املا، رسم الخط، زبان اور لغت” رہے ہیں” وہیں قصائد کے میدان میں بھی آپ کی خدمات بہت وقیع ہیں – اس کا ثبوت "انتخاب قصائدِ اردو مع مقدمہ و حواشی” اور "اردو میں قصیدہ نگاری” جیسی اہم کتابیں ہیں – اول الذکر کے چھ اور مؤخر الذکر کے سات ایڈیشن اب تک شایع ہوچکے ہیں۔
مؤخر الذکر (زیر تبصرہ) کتاب "اردو میں قصیدہ نگاری” کا پہلا ایڈیشن 1958 میں ‘خیابان’ الہ آباد سے اور چھٹا ایڈیشن پچھلے ایڈیشنز کی طرح بہت کچھ رد و بدل اور اضافوں کے ساتھ ڈاکٹر ابو محمد سحر کی زندگی میں ہی ان کے”دیپاچہ” کے ساتھ 2000 میں شایع ہوا تھا – گویا "چھٹا ایڈیشن ان کی زندگی کا نظر ثانی شدہ آخری ایڈیشن” ثابت ہوا کیوں کہ 2002 میں آپ کا انتقال ہوگیا۔
زیر نظر کتاب کا ساتواں ایڈیشن 2012 میں اہلیہ ابو محمد سحر اور ان کے بیٹے کی کوششوں سے ‘مکتبہء ادب’ بھوپال سے شایع ہوا – جس میں "عرض حال” کے عنوان کے تحت ابو محمد سحر کی اہلیہ نے ان کی کتابوں کی اشاعت کے بارے میں مختصراً گفتگو کی ہے – جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ "اردو میں قصیدہ نگاری” پر مصنف نے بہت زیادہ محنت صرف کی ہے – کتاب کے "دیپاچہء طبع دوم : 1966” میں ہی یہ اشارہ مل جاتا ہے کہ شعرا کے ادوار کو قائم کرنے اور جو قصیدہ گو شعرا طبع اول میں چھوٹ گئے تھے ان کو شامل کرنے میں کتنی محنت اور سعی و کاوش سے کام لیا گیا ہے۔
ان عنوانات کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے – سب سے پہلے "قصیدہ صنف سخن کی حیثیت سے” اور "اردو قصیدے کا پس منظر” پیش کیا گیا ہے – اس میں قیصدے کی لغوی اور اصطلاحی تعریف، موضوع ‘مضامین’ ممدوحین اور خارجی شکل کے اعتبار سے قصیدے کی مختلف اقسام کا بیان، اشعار کی تعداد کا ذکر اور قصیدے کے اجزائے ترکیبی یعنی تشبیب، گریز، مدح اور دعا سے بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد عربی اور فارسی قصیدہ نگاری کے مختصراً جائزے سے اردو قصیدہ نگاری کی بحث کے لیے ایک فضا ہموار کی گئی ہے تاکہ یہ بات معلوم ہو سکے کہ عربی اور فارسی قصیدہ نگاری کے اثر سے ہی دکن میں اردو قصیدہ نگاری کا آغاز ہوا تھا اور اردو قصیدہ گویوں نے فارسی کے تتبع میں قصیدے کہے تھے۔ اس لیے کتاب کا اگلا عنوان ‘دکنی قصائد” رکھا گیا ہے – گویا قصیدہ نگاری کی تاریخ کا پہلا دور دکنی قصائد کا اور دوسرا دور شمالی ہند میں قصیدہ نگاری کی روایت پر مبنی ہے – پہلے دور میں سب سے قدیم قصیدہ گو محمد قلی قطب شاہ، غواصی، علی عادل شاہ ثانی، نصرتی اور ولی دکنی کو رکھا گیا ہے – چونکہ دکنی دور قصائد کے ابتدائی نمونوں کا ہے اس لیے اردو قصیدہ گوئی کی روایت میں دکن کے ابتدائی قصیدہ نگاروں کو فراموش کر دیا جاتا ہے مگر بقولِ مصنف "اس دور کی قصیدہ نگاری کی اہمیت کا خاطر خواہ اعتراف نہیں کیا گیا – لیکن اس میں شک نہیں کہ مثنوی اور غزل کی طرح قصیدے کی ترقی کا بھی یہ ایک اہم دور تھا ۔‘‘
قصیدہ نگاری کی باقاعدہ روایت کو چونکہ سودا سے تسلیم کیا جاتا ہے – اس لیے مصنف نے شمالی ہند کی قصیدہ نگاری کا پہلا دور” سودا اور ان کے معاصرین” کا رکھا ہے – اسی طرح بعد کے مشہور قصیدہ گویوں کے نام پر ہر دور کو تقسیم کیا ہے – جیسے کہ” انشاء و مصحفی کا زمانہ، ذوق اور ان کے معاصرین، منیر اور امیر کا زمانہ -” دورجدید کے قصیدہ گویوں کا ایک الگ عنوان "قصیدہ نگاری جدید دور میں” قائم کرکے مصنف نے اس کے تحت اسماعیل میرٹھی، حالی، نظم طباطبائی،صفی لکھنوی، محشر بدایونی، عزیز لکھنوی، اور دیگر قصیدہ نگاروں کا جائزہ پیش کیا ہے – سب سے آخر میں” قصیدے کی تاریخی و ادبی حیثیت” کا عنوان قائم کرکے پوری کتاب بلکہ اردو قصیدہ نگاری کا ایک نچوڑ پیش کر دیا گیا ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو پوری کتاب ایک منطقی ترتیب پر استوار نظر آتی ہے – سب سے پہلے قصیدہ کی تعریف، فن، موضوع، اقسام اور قصیدے کے اجزائے ترکیبی کے ذیل میں تشبیب، گریز، مدح، مدعا/دعا کا ذکر؛ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قصیدہ گویوں کے کلام کے مطالعے سے پہلے ان کو سمجھ لینا ضروری ہے – کیوں کہ پوری کتاب میں قصیدہ نگار شعرا کے کلام کا مطالعہ انھیں اصولوں کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے – دکنی قصائد کا معاملہ ہو یا شمالی ہند میں سودا، میر، میر حسن، مصحفی، انشا، رنگین، ممنون، ذوق، غالب،مومن، امیر مینائی اور محسن کاکوروی کے نعتیہ قصائد کی بات ہو؛ جگہ جگہ یہی طریقہء کار کار فرما نظر آتے ہیں – اس یکسانیت کو مصنف کی مجبوری پر محمول کیا جائے یا فن قصیدہ کی تنگ دامانی پر – مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ زیر نظر کتاب میں مصنف ایسا کرنے کے لیے ضرور مجبور رہے رہوں گے – کیوں کہ قصیدہ کے فن میں تعریف، موضوع،اقسام، اشعار کی تعداد اور اجزائے ترکیبی کے علاوہ بقیہ کسی اور چیز کی شمولیت مشکل سے ہو پاتی ہے – اس لیے قصائد کے مطالعے کے وقت ان امور کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے اور ڈاکٹر ابو محمد سحر نے ایسا ہی کیا ہے – ایسا کرنے میں اگرچہ جگہ جگہ ایک جیسا انداز بیان اور یکسانیت در آئی ہے اور یہ یکسانیت طبیعت کو بیزاری کی جانب مائل بھی کرتی ہے مگر جیسے ہی کتاب کا آخری عنوان "قصیدے کی ادبی و تہذیبی حیثیت ” شروع ہوتا ہے مطالعے کی ڈگر کسی اور نہج کی جانب پہنچ جاتی ہے – کیوں کہ مصنف نے عمر بھر کا مطالعہ، قصائد سے متعلق اپنی ساری معلومات اور تمام تر اعتراضات کا خلاصہ نپے تلے، سیدھے سادے اور استدلالی انداز میں اس میں پیش کر دیا ہے – اس حصے میں اسلوب بیان کی سادگی، سہل انداز اور معتدلانہ رایوں کا نکھار پوری طرح جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔
مصنف نے پوری کتاب میں کسی رائے کی تردید نہیں کی ہے اور نہ ہی شدت پسندی سے کام لیا ہے بلکہ فن قصیدہ اور اس کی روایت سے متعلق کام کی باتیں آسان زبان میں مثالوں کے ساتھ ایک روانی سے بیان کرتے چلے گئے – یہی وجہ ہے کہ کتاب کے مطالعہ کے بعد ایک اوسط درجے کا قاری بھی آسانی کے ساتھ صنف اور ہیئت میں فرق، قصیدہ سے متعلق بنیادی باتیں، اس کی روایت، قصیدہ کی ادبی و تاریخی اہمیت اور قصیدہ گو شعراء کے کلام اور ان کے ادوار سے ضرور آشنا ہوجائے گا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں