انیس اشفاق
لکھنؤ
(۱)
معاصرانہ معنویت
اسی سال کے آغاز میں ایسے ہی ایک دن جیسے اکثر میں اپنی کتابوں کی الماری سے کوئی پرانی کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں، مراثیِ انیس کی ایک جلد نکال کر کسی مرثیے کا انتخاب کیے بغیر اس کی ورق گردانی شروع کردی اور ایک جگہ ٹھہر کر ہزار بار پڑھے ہوئے بندوں کو پڑھتے وقت محسوس کیا جیسے میں اِنہیں پہلی بار پڑھ رہا ہوں اور اُسی وقت یہ بھی محسوس کیا کہ میں ان بندوں میں اُن دنیائوں سے بدلی ہوئی دنیائیں دیکھ رہا ہوں جنہیں اس سے پہلے پڑھتے وقت دیکھ چکا تھا۔ پھر میں نے سوچا یہ خوبی تو میر و غالب کی غزلوں میں ہے جنہیں جتنی بار پڑھیے معنی کی نئی دنیائیں منور ہونے لگتی ہیں۔ میں نظر کے سامنے آنے والے بندوں کو پڑھتا گیا، آگے بڑھتا گیا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کے دہانے پر ہوں اور اس وقت کئی سو برس پہلے گزرے ہوئے اس واقعے سے متعلق شاعری کو پڑھ کر مجھے کیا حاصل ہوگا۔ مرثیہ تو واقعاتِ کربلا کا اکہرا اور سیدھا سادھا بیان ہے۔ اس کی مکرر قرأت قرأتِ سابق سے کچھ مختلف نہ ہوگی۔ تو یہ جو میں انیس کے بندوں میں نئی دنیائوں کو دیکھ رہا ہوں، یہ میرا وہم ہے۔ معاً انیس کی یہ بیت میرے سامنے آئی:
فرمایا سر کٹے تو کٹے کچھ الم نہیں
لیکن کریں جو بیعتِ فاسق وہ ہم نہیں
بیت پڑھتے ہی میری نگاہ مشرق و مغرب کے بدلتے ہوئے منظرناموں کی طرف گئی۔ میں نے دیکھا ہر طرف دنیا خون میں ڈوبی ہوئی ہے اور چھوٹی بڑی طاقتوں کے مابین محاذ آرائی ہے۔ مغرب پہلے کی طرح پھر اپنے پائوں پھیلاکر مشرق پر اپنے تسلّط کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے اور ان میں ایک طاقت ایسی ہے جسے اپنے حدود میں کسی اور کی بلندی اور سرفرازی منظور نہیں۔ مشرق میں بھی مبارزانہ منظروں کی فراوانی ہے اور اس کا المناک پہلو یہ ہے کہ مسلک کو بنیاد بناکر کلمہ گویوں کے درمیان تیغیں کھنچی ہوئی ہیں۔ کربلا میں بھی یہی ہوا تھا۔ کلمہ گو دونوں طرف تھے۔ ’’دونوں طرف کی فوج میں غل تھا درود کا‘‘ لیکن حق کی شناخت اور اس کی تبلیغ میں ایک ہی طرف کی صف صحیح راہ پر تھی۔ حق نہ پہچاننے والے حق پہچاننے والوں کو اپنے زیرِ اطاعت لانا چاہ رہے تھے۔ لیکن کوئی تھا جو کہہ رہا تھا:
لیکن کریں جو بیعتِ فاسق وہ ہم نہیں
میری نگاہ اس بیت پر بہت دیر نہ ٹھہری تھی کہ مجھے اپنے چاروں طرف زرد پرچم لہراتے ہوئے لشکر دکھائی دینے لگے۔ فاتحانہ شان سے بڑھتے ہوئے ان لشکروں کے فرس اپنی راہ میں آنے والی ہر اس شے کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے جو انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کی سعی کررہی تھی۔ میں کیا جو بھی ان لشکروں کو دیکھ رہا تھا وہ ایک ان دیکھے خوف میں اسیر سرتاپا لرز رہا تھا۔ پیلے پرچموں کے بڑھتے ہوئے پروں سے پرے اچانک مجھے ایک آواز سنائی دی:
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
یہ آواز سن کر میرے دل کو ڈھارس ملی۔ مجھے یاد آیا یہ شعر تو اس شاعر کا ہے جس نے انیس کے مرثیوں سے تحریک پاکر اپنی شاعری کا ڈول ڈالا تھا۔ میرے کانوں میں اس شعر کی گونج ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ ایک دو آوازوں نے مجھے تسلی دی:
اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے
افتخار عارف
اُس وقت سے ظالم کے مقابل ہیں سو اب تک
بیعت ہے بڑی چیز اطاعت نہیں کرتے
عرفان صدیقی
ان شعروں سے مجھے حوصلہ تو ملا لیکن میری نگاہ سہم سہم کر دنیا کے لہو رنگ منظروں کو دیکھتی ہوئی اپنی زمین کی معرکہ آرائیوں پر آکر ٹھہر جاتی۔ اندیشہائے دور و قریب کے انہیں مرحلوں میں ایک آوازہ اُسی طنطنے کے ساتھ مجھے اپنی طرف آتا ہوا محسوس ہوا جس طنطنے کے ساتھ زرد پرچموں کا لشکر آگے آرہا تھا۔ یہ آوازہ لحظہ بہ لحظہ اونچا ہوتا ہوا ان الفاظ کے ساتھ میرے حواس پر چھا گیا:
تاریخ دے رہی ہے یہ آواز دم بہ دم
دشتِ ثبات و عزم ہے دشتِ بلا و غم
صبرِ مسیح و جرأتِ سقراط کی قسم
اس راہ میں ہے صرف اک انسان کا قدم
جس کی جبیں پہ کج ہے خود اپنے لہو کا تاج
جو مرگ و زندگی کا ہے اک طرفہ امتزاج
سر دے دیا مگر نہ دیا ظلم کو خراج
جس کے لہو نے رکھ لی تمام انبیاء کی لاج
سنتا نہ کوئی دہر میں صدق و صفا کی بات
جس مردِ سرفروش نے رکھ لی خدا کی بات
اونچے ہوتے ہوئے اس آوازے کو سن کر زرد پرچموں کا خوف میرے دل سے جاتا رہا۔ میں نے سوچا تاریخ کا سب سے بڑا سچ یہی سر ہے جس نے ظلم کو خراج دینے کے بجائے نیزے پر بلند ہونے کو اہم جانا۔ آج اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کے ظلمت فروز دہانے پر بیٹھے مجھ رنج کشیدہ کو ایک ہی روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ انکار کی روشنی اور اس کی شعاعیں اسی سر سے پھوٹ رہی ہیں جو سناں کی نوک پر سب سے نمایاں تھا۔ یہ سر، جب جب ظلم کی ظلمتوں کا سیل رواں ہوا ہے، صدق و صفا کا عشق لے کر اُس کے سامنے آگیا ہے اور اقبال کے اس مصرعے کو سچ کر دکھایا ہے:
ع عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
لیکن یہ سر جس کی بات ہم نے انیس کی ایک بیت سے شروع کی تھی (فرمایا سر کٹے تو کٹے کچھ الم نہیں) انیس نے اسے تاریخ کے بیانیے سے نکال کر ہزارہا نیزوں سے اونچا اٹھادیا اور اس کی سربلندی اور سرفرازی کو مزاحمت اور احتجاج کا روشن ترین استعارہ بنادیا۔ جوش ہوں کہ سردار یا بیسویں صدی کے نصف آخر کے شاعر، انکار کی منزل میں سر کا اعزاز بڑھانے کا سرچشمہ انہیں وہیں نظر آیا جہاں یہ مصرعہ موجود ہے: ع ’’لیکن کریں جو بیعتِ فاسق وہ ہم نہیں‘‘۔ تو ظاہر ہوا سردادگی کا یہ حوصلہ ہمیں اُسی انیس سے ملا جس نے صنفِ مرثیہ کو معتقدات کی چہاردیواری میں رکھنے کے باوجود واقعات کی منجمد وادیوں سے نکال کر معانی کی متحرک دنیائوں تک پہنچادیا۔
ظلم کی وہ خونریز اور ہولناک دنیا جس کے خلاف انیس نے سر کو ردِّظلم کا استعارہ بنایا تھا آج بھی ہمارے سامنے پوری شقاوت کے ساتھ موجود ہے اور زیادہ سیاہ قلبی کے ساتھ اپنی سفاکیوں کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ہر نئے وقت میں ہمیں ایک نئی کربلا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا ظلم سے نبردآزمائی کا سلسلہ نہ رکتا ہے نہ ختم ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم اُسی کربلا کی طرف دیکھتے ہیں، انیس نے جس کی معنوی تجسیم کی ہے۔ اب یہاں ٹھہر کر یہ بھی پوچھ لیجیے کہ ہم اُس کربلا کی طرف کیوں دیکھتے ہیں۔ اس لیے کہ باطل کے خلاف حق کا صحیح ادراک انیس یا مرثیے کی اسی شعری دنیا میں نظر آتا ہے۔ اگر آپ کو بے خوفی، بے باکی، حق شناسی اور خودآگاہی کو پوری طرح منور ہوتے ہوئے دیکھنا ہو تو کہیں نہ جائیے، انیس کے مرثیے ’’بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حر‘‘ کے اس بند پر ٹھہر جائیے جس میں حریت سے معمور حر لہجۂ حق کی سرشاری میں عمرِسعد کو یہ کہہ کر للکار رہا ہے:
عملِ خیر سے بہکا نہ مجھے او ابلیس
یہی کونین کا مالک ہے یہی راس و رئیس
کیا مجھے دے گا ترا حاکمِ ملعون و خسیس
کچھ تردد نہیں کہہ دیں کہ لکھیں پرچہ نویس
ہاں سوئے ابنِ شہنشاہِ عرب جاتا ہوں
لے ستمگر جو نہ جاتا تھا تو اب جاتا ہوں
اب ذرا حر کی کربلا سے نکل کر حال کے زمانے میں آئیے اورخوش ضمیروں کی صف میں کھڑے ہوکر اس حاکم (ٹرمپ) کی طرف دیکھیے جس نے ایک مخصوص مسلک کے لوگوں پر اپنی سلطنت کے دروازے بند کردینے کا اعلان کیا ہے۔ کیا آپ کا جی نہ چاہے گا کہ آپ اُس حق سوز حکمراں کی مملکت کی طرف دیکھ کر انیس کا یہ مصرعہ پڑھیں: ع ’’کیا مجھے دے گا ترا حاکم ملعون و خسیس۔‘‘
آگے مقالے کے دوسرے حصے میں ممکن ہے ہم انیس کے اُس کمالِ فن پر بھی گفتگو کریں جس کے ذریعے انہوں نے اس بند میں یہ تیور پیدا کیے ہیں۔ بات انیس کے تعلق سے اس سر کی ہورہی تھی جس نے خود کو جھکاکر نہیں، اٹھاکر حق کا معرکہ سر کیا۔ یہاں آپ کو فیض کا وہ مصرعہ یاد آگیا ہوگا: ع…’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے‘‘۔ اور اسی کے ساتھ انیس کا یہ سلام بھی: ع ’’چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے۔‘‘ یہ سر انکار کی علامت کے طور پر انیس کے یہاں طرح طرح سے دکھایا گیا ہے۔ اور انیس کے بعد ہماری نئی شاعری میں سر کا یہ سفر نئی معنوی روشنیوں کے ساتھ جاری ہے لیکن انیس یا مرثیے کی مرکزیت یہ ہے کہ جب بھی ظلم کے خلاف ہم سر کو نئی استعاراتی شکل میں لاتے ہیں تو متعلقات انیس ہی کے استعمال کرتے ہیں۔ ان متعلقات کے باہر ہم جا بھی نہیں سکتے کہ انہیں متعلقات کے ذریعے انیس نے مرثیے اور اس کے ذریعے کربلا کی معنویت کو نمایاں کیا ہے۔ دنیاے ظلم کی معاصرانہ صورتحال کو انیس کے متعلقات کے ساتھ ان شعروں میں دیکھیے:
فراتِ وقتِ رواں دیکھ سوے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسین کا ہے
کاسۂ شام میں سورج کا سر اور آوازِ اذاں
اور آوازِ اذاں کہتی ہے فرض نبھانا ہے
افتخارعارف
دولتِ سر ہوں سو ہر جیتنے والا لشکر
طشت میں رکھتا ہے نیزے پہ سجاتا ہے مجھے
کوئی شے طشت میں ہم سر سے کم قیمت نہیں رکھتے
سو اکثر ہم سے نذرانہ طلب ہوتا ہی رہتا ہے
ندی سے پھول نہ گنج گہر نکلتا ہے
جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں سر نکلتا ہے
عرفان صدیقی
سر دینے کی بات آئی تو سر دے دیا لیکن
جو ماننے کی بات نہیں تھی نہیں مانی
انیس اشفاق
یہ مثالیں ہمیں محسوس کراتی ہیں کہ جب جب اقتدار جویانہ قوتیں اپنا سر اٹھاتی ہیں، مرثیے کے بیانیے کا یہی سر ہمیں یاد آتا ہے اور اُس وقت بھی یاد آتا ہے جب ظلم کے سامنے ہم اتنا سہم جاتے ہیں کہ سر اٹھانے کی جرأت ہم میں باقی نہیں رہتی:
خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
نوکِ سناں پر سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
افتخار عارف
ایک اور حالتِ ظلم میں ہمارا ذہن اِسی سر کی طرف جاتا ہے۔ یہ وہ حالتِ ظلم ہے جب ہم مزاحمت سے پہلے ظلم کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ جوارِ ظلم میں جاں دادگانِ جور کی تاریخی فضلیت کیا ہے:
سروں کو ربط رہا ہے سناں سے پہلے بھی
گزر چکے ہیں یہ لشکر یہاں سے پہلے بھی
عرفان صدیقی
آپ نے دیکھا جہاں جہاں سر کا ذکر آتا ہے ہم رثائی شاعری کے متعلقات سے باہر نہیں نکل پاتے۔
میرے اب تک کے معروضات سن کر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے کربلا کے تعلق سے سر کی سرگزشت بیان کرنا شروع کردی ہے لیکن اسے کیا کیا جائے کہ اس بیانیے میں سر ہی سب سے نمایاں ہے۔
مرثیے بالخصوص انیس کے مرثیے کو آپ جیسے جیسے پڑھتے جائیں گے تین لفظ آپ کو بہت روشن نظر آئیں گے۔ سر، نیزہ اور انکارِ بیعت۔ انیس نے اپنی شاعری کی معنوی دنیا کو منور کرنے کے لیے انہیں تین بہت پرقوت علامتوں سے اپنے اُس مثلث کو تیار کیا ہے جس کے ذریعے نہ صرف انہوں نے اپنی شاعری کی معنوی دنیا کو وسیع کیا بلکہ بعد کی مزاحمتی شاعری کے آفاق کو بھی وسعت عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ انیس کے بعد ہمارے نئے شاعروں نے اعلانِ مزاحمت کا علامتی سرنامہ مخصوصاً انہیں تین لفظوں سے تیار کیا۔ یقین نہ آئے تو یہ شعر دیکھیے:
نوکِ سناں نے بیعتِ جاں کا کیا سوال
سر نے کہا قبول نظر نے کہا نہیں
شہسوارو اپنے خوں میں ڈوب جانا شرط ہے
ورنہ اس میدان میں نیزے پہ سر آتا نہیں
کوئی نیزہ سرفرازی دے تو کچھ آئے یقیں
خشک ٹہنی پر بھی آتے ہیں ثمر سنتا ہوں میں
عرفان صدیقی
وہ خاکِ پاک ہم اہلِ محبت کو ہے اکسیر
سرِ مقتل جہاں نیزوں پہ سر تو لے گئے تھے
افتخارعارف
ایک نیزہ مرے ہونے کی گواہی دیتا
سر علم ہوتا تو سب مہرِ منور لکھتے
انکار ہے انکار ہے انکار ہے انکار
بیعت نہیں بیعت نہیں بیعت نہیں کرتے
انیس اشفاق
دشتِ بے محبت میں تشنہ لب یہ کہتے ہیں
سارے شہسواروں میں کون اب کے سر دے گا
کشورناہید
ابھی کچھ دیر قبل ظلم کے سامنے سرنگوں ہونے پرہم نے افتخارعارف کا ایک شعر نقل کیا تھا… ’’خلق نے اِک منظر…‘‘ اب فیض کے اس مرثیے میں انکار کی لو کو منور ہوتا ہوا دیکھیے اور اس لو کو دیکھتے وقت اُس آمرانہ حکومت کو بھی نگاہ میں رکھیے، فیض جس کی اقتدار جوئی اور حق کشی کے مقابل ہیں:
پھر صبح کی لو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیرِ برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کے لیے آئینہ رو ہوگیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہوگیا صحرا
طالب ہیں اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل ہیں صداقت کے پرستار
انصاف کے نیکی کے مروت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکرِ دیں ہے
ظاہری سطح پر یہ کربلا کا منظرنامہ ہے لیکن باطنی سطح پر ظلم کے اس منشور کو مسترد کرنے کا اعلان ہے جو آوازۂ حق کو دبانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اور اس اعلان میں سب سے اونچی آواز انکار کی ہے۔
انیسؔ کے یہاں ہم جن تین پر قوت علامتوں سے ایک معنوی مثلث کے تعمیر ہونے کی بات کررہے تھے ان میں سر بشکل شمس نور کا استعارہ ہے، انکار ظلم کو مسترد کرنے کا اور نیزے سے مراد وہ سربلندی وسرفرازی ہے جو حرفِ انکار کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ ان تین علامتوں پر اصرار سے یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ انیس کے نظامِ شعر میں دوسرے متعلقات کی معنویت کو لائقِ توجہ نہیں سمجھا جارہا ہے۔ یہ تین لفظ دراصل انیس کے قصرِ معنیٰ کی وہ روشن محرابیں ہیں جن سے گزر کر آپ اُن کے یہاں بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں۔
توضیحِ موضوع کی اس تفصیل میں اپنے ساتھ آپ کو یہاں تک لانے سے قبل ہم نے اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں رونما ہونے والے کچھ ہولناک اور الم افروز منظروں کی طرف آپ کا ذہن منتقل کیا تھا۔ ان منظروں کو دیکھ کر سوچیے کہ ہم کس دورِ ابتلا میں ہیں۔ فاسق و باطل قوتیں آج ایک نئی شکل میں بیعت طلبی پر آمادہ ہیں۔ ان کا نعرہ وہی ہے جو کربلا میں ظلم کی صفوں سے بلند ہوا تھا: ’’یا ہماری بالادستی قبول کرو یا اپنے انجام کے لیے تیار رہو۔‘‘ خود ہماری زمین پر بھی یہی پیغام دیا جارہا ہے اور ہمارا حال عرفان صدیقی کے اس شعر جیسا ہے:
اب کدھر سے وار ہوسکتا ہے یہ بھی سوچیے
کل جدھر سے تیر آیا تھا اُدھر کیا دیکھنا
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری ہی صف کے جاہ پرست حق فروشوں نے ظالمانہ قوتوں کی اقتدار جوئی کو جائز ٹھہرا کر ظلم کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے اور زرد پرچموں کے سائے میں اپنے لیے عافیت کی نئی پناہ گاہیں ڈھونڈ لی ہیں:
اب زباں خنجرِ قاتل کی ثنا کرتی ہے
ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ خدا کرتی ہے
عرفان صدیقی
اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ میدانِ جنگ کی زعفرانی فضاؤں میں ہر سو کھیت پڑرہے ہیں اور ہم لہولہان ہورہے ہیں۔ ایک سیلِ زرد خیز ہے جو آگے بڑھتا چلا آرہا ہے۔ کچھ روز قبل جب میرے علاقے (اترپردیش) میں اس سیل کے آنے کا اعلان ہوا تو ایک تقریب میں میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک ہم مسلک صحافی نے مجھ سے پوچھا اب کیا ہوگا؟ میرا جواب تھا:
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
سردارجعفری
واضح رہے کہ اس شعر کو خلق کرتے وقت سردار کی سائیکی میں وہی واقعہ تھا جسے انیس نے انکار کا علامیہ بنادیا ہے۔
سردار کے شعر میں حوصلے سے بھری ہوئی بے خوفی سے ہٹ کر ذرا ایک اور منظر دیکھیے اور اس منظر کودیکھنے کے لیے چلیے شبِ عاشور کے اس منظر کی طرف جب امام حسین نے انصار پر سے اپنی بیعت اٹھاکر اور خیمے کی شمع کو بجھاکر کہا تھا: ’’کل جان کے جانے کا دن ہے۔ اس اندھیرے میں جس جس کو خیمے سے نکلنا ہے نکل جائے۔‘‘ لیکن جب دوبارہ خیمہ روشن ہوا تو سب کے سب نصرتی اپنی جگہوں پر جمے ہوئے تھے۔ گویا موت ان کی عادت ہو اور شہادت ان کی فضیلت۔ اب افتخارعارف کی ’’وہی پیاس ہے وہی دشت ہے‘‘ والی مشہور غزل کا یہ شعر دیکھیے:
صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے
اس شعر کا محلِّ نزول وہ ماحول ہے جہاں شورش کی وہی راتیں اور سوزش کے وہی دن ہیں جن سے ایک عبادت گاہ کے انہدام اور بہ رضائے ریاست ایک جمیعت کے قتل عام کے زمانے میں ہم آپ گزر چکے ہیں۔ گھمسان کا رن پڑنے کا احساس دلاکر راتوں رات جس جس کے جانے کی بات کی جارہی ہے یہ وہ لوگ بھی ہیں جنہیں اپنی جان کے چلے جانے اور دشمن کے غالب آجانے کا خوف ہے۔ یہ شعر دراصل حق کوشوں اور حق فروشوں کے درمیان پہچان کا پیمانہ ہے۔
اوپر ہم نے جاہ پرست باطل پسندوں کے ساتھ ساتھ سیاست کے معاصر منظرنامے سے ملول آزار و اضطراب میں مبتلا افراد کا بھی ذکر کیا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو محبّان اسلام بھی ہیں اور محبانِ حسین بھی۔ حق کے معدوم ہوجانے اور سچ کے مصلوب کیے جانے پر یہ سب فکرمند و ہراساں تو ہیں لیکن آوازِ استغاثہ بلند کرنے کی جرأت ان میں نہیں ہے:
کسی کے جور و ستم یاد بھی نہیں کرتا
عجیب شہر ہے فریاد بھی نہیں کرتا
افتخارعارف
عرفان صدیقی نے انہیں لب زدگاں سے اس شعر میں خطاب کیا ہے:
بہت کچھ دوستو بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے
فقط اُس خنجرِ دستِ جفا سے کچھ نہیں ہوتا
یہ کربلا کے ذکر میں اشک تو بہاتے ہیں لیکن ظلم کے سامنے آنے سے کتراتے ہیں۔ جوشؔ نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا:
داورا! ہلچل بپا ہے پھر میانِ مشرقین
ہر نفس ہے ایک ماتم ہر نظر ہے ایک بین
تخت پر سرمایہ داری ہے بصد اجلال و زین
اور ٹس سے مس نہیں ہوتے محبّانِ حسین
ہے یہی ایمان تو ایمان کو میرا سلام
اک فقط ایمان کیا قرآن کو میرا سلام
کربلا میں حق، ایمان کی صلابت اور قرآن کی حرمت کے لیے باطل کے سامنے آیا تھا۔ انیسؔ نے واقعۂ کربلا کے بیان میں اِسی حرمت و صلابت کو نگاہ میں رکھ کر بہ زبانِ امام یہ دو مصرعے کہے تھے۔
کیسے یہ کلمہ گو ہیں تعجب کا ہے مقام
اسلام اگر یہی ہے تو اسلام کو سلام
آپ دیکھتے آرہے ہیں کہ جوش کی انقلابی اور بعد کے شاعروں کی مزاحمتی شاعری میں وہی لہجہ اور وہی آہنگ سنائی دے رہا ہے جسے انیس نے اپنی دنیائے شعر میں تعمیر کیا تھا۔ انیس کے یہاں کربلا کا واقعہ کہنے کو اکہرا بیانیہ ہے لیکن لفظوں کی پرتیں اُلٹیے اور بیانِ واقعہ کا پردہ ہٹاکر دیکھیے تو آپ کو بظاہر اکہرے نظر آنے والے مصرعوں اور شعروں میں کثیر و کبیر معانی نظر آئیں گے اور ان میں اپنے عہد کے علاوہ آنے والے زمانوں کی معنوی شکلیں بھی دکھائی دیں گی۔ یہ شعر دیکھیے:
صف آرائی ہوئی تھی جب میانِ ظلمت و نور
بڑے تیور سے تیغِ تیز کا جوہر کھلا تھا
یہی مشقِ تیر و سنان و سنگ بہانہ کر
گہرِ کلاہِ امیرِ شہر نشانہ کر
افتخارعارف
بس اک حسین کا نہیں ملتا کہیں سراغ
یوں ہر گلی یہاں کی ہمیں کربلا لگی
خلیل الرحمن
زوالِ عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در بابِ التجا کے سوا
منیرنیازی
چاہتا یہ ہوں کہ دنیا ظلم کو پہچان جائے
خواہ اس کرب و بلا کے معرکے میں جان جائے
مظفرحنفی
اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن
اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا
عبیداللہ علیم
یہ فقط عظمتِ کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
سلیم کوثر
انیس کی شاعری میں تعمیر کیے ہوئے مزاحمتی لہجے کو نعرہ لگائے بغیر اگر بہت اونچی آواز میں دیکھنا ہو تو پندرہ سال قبل ہمارے ملک کے ایک خطے گجرات میں بہ رضائے ریاست ایک جمعیت کے قتلِ عام پر ’مکالمہ ما بینِ خدا وعرفان‘ کی شکل میں عرفان صدیقی کی یہ آخری مطبوعہ غزل دیکھیے:
حق فتحیاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا
تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا
جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر
برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا
وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام
دل بجھ گئے تو شورِ عزا کیوں نہیں ہوا
واماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں
دروازہ آسمان کا وا کیوں نہیں ہوا
وہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ تھے
اُن کی گلی میں رقصِ ہوا کیوں نہیں ہوا
جب وہ بھی تھے گلوئے بریدہ سے نعرہ زن
پھر کشتگاں کا حرف رسا کیوں نہیں ہوا
جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں
جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا
اس شکایت نامۂ عرفان میں جو طیش، جو قوت اور جو اثر ہے وہ بلند آوازی کے باوجود بڑے بڑے نعرہ کنانِ شعر کے یہاں نظر نہیں آتا۔ ملک میں ایک جماعت کے مائل بہ تشدد ہونے پر عرفان صدیقی کے یہاں مزاحمت کا یہ لہجہ آخر آخر بہت تند ہوگیا تھا۔ یہ اشعا ردیکھیے:
اب بھی صحرا سے آتی ہے کوئی صدا فیصلہ چاہیے فیصلہ چاہیے
قاتلوں سے قصاصِ جفا چاہیے بے بہا خون کا خوں بہا چاہیے
شام سے ہند تک ایک ہی کام ہے تیغِ مختار کا حرفِ عرفان کا
دل میں اک آگ ہے اور اس آگ کو لشکرِ اشقیا کا پتہ چاہیے
اس مقالے کے قائم کیے ہوئے ذیلی عنوان (معاصرانہ معنویت) کی وضاحت میں ہم نے احتجاج، مزاحمت اور محاربے کا انداز لیے ہوئے جو شعر اوپر نقل کیے ہیں ان سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ان شعروں کے لہجے اور معنی کا آہنگ کہاں سے کشید کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ آپ کو یہ بھی یقین آگیا ہوگا کہ اکہرے بیانیے کے باوجود مرثیے کی زمانی معنویت آج بھی قائم ہے۔ ظلم جتنا سر اٹھاتا جائے گا انیس کے بیانیے میں انکار کی علامت والا سر اتنا ہی نمایاں ہوتا جائے گا۔ فاسق و باطل قوتیں آج ہر طرف سے حملہ آور ہیں۔ وہ ہمیں اور آپ کو اپنے حصار میں لے کر ہمارے وجود کو ختم کردینا چاہتی ہیں۔ اس حصار کے اندر آپ کے پاس ایک سرمایہ سر کا ہے اور دوسری دولت دل کی۔ انیس نے اپنے مرثیوں میں کتابِ انکار والا باب انہیں دو لفظوں سے رقم کیا ہے۔
(۲)
فنکارانہ فراست
ہمارے عہد کی مزاحم قوتوں کو للکارنے اور انہیں اپنی حدوں میں رہنے کے لیے معاصر شاعری نے انیس کی لفظیات میں پوشیدہ جس مزاحمتی لہجے اور آہنگ کی پیروی کی ہے اسے اپنی کائناتِ شعر میں خلق کرنے کے لیے انیس نے جس شاعرانہ ذکاوت سے کام لیا ہے وہ دوسروں کے حصے میں کم کم آئی ہے۔
مرثیے کے میدان میں داخل ہونے سے قبل انیس نے اپنے معتقدات کے حدود میں رہ کر واقعۂ کربلا کے جہات وجوانب کی وسعتوں کو اچھی طرح دیکھ لیا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ وقوعوں سے بھرے ہوئے اس واقعے کو شاعرانہ سطح پر کس طرح بیان کرنا ہے۔ سو ایک طرف انہوں نے بیانیے کے علم سے واقف ہوئے بغیر اس کے رموز کو سمجھ لیا اور یہ بھی سمجھ لیا کہ شاعری کی جو دولت انہیں عطا ہوئی ہے اسے بیانِ واقع کے عمل میں کس طرح صرف کیا جائے۔ انیس کی اِن دو خصوصیتوں کو دو بڑے پیمانوں کی فہم کے بغیر ہم اچھی طرح نہیں پرکھ سکتے۔ ایک یہ کہ بیانیے کے مراحل کیا ہیں اور ہر مرحلہ کس ہنر کا متقاضی ہے۔ دوسرے یہ کہ بڑی شاعری کی شناخت کن فنّی تدابیر سے کی جاسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دوسرا پیمانہ انیس نے خود متعین کردیا۔ ان کے مشہور مرثیے ’’نمکِ خوانِ تکلّم…‘‘ کے ابتدائی تیرہ بندوں میں ہر اُس فنّی وسیلے کا ذکر کیا گیا ہے جس کے استعمال سے شاعری کمالِ فن کے درجے پر فائز ہوسکتی ہے۔ ان بندوں کے آخری معرکہ آرا بند (ہے کجی عیب…) کی بیت میں انیس نے حسنِ ترتیب اور خوبیِِ محل کو فن کا حاصل قرار دیا ہے:
داند آں کس کہ فصاحت بہ کلامے دارد
ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد
لطف کی بات یہ ہے کہ انیس نے اس مرثیے میں دونوں کمالوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک تو بڑی شاعری خلق کرنے کے آداب سے واقف کرایا اور دوسرے بیانیے کا ہنر بھی دکھایا۔
لیکن قصہ گوئی اور بیانیے کے اصل ہنر کو دیکھنا ہو تو بیانیے بالخصوص جدید بیانیے کو نگاہ میں رکھ کر انیس کے مرثیے: ’’جب نوجواں پسر شہِ دیں سے جدا ہوا‘‘ کو پڑھیے اور جدید قرأت کے ساتھ پڑھیے پھر دیکھیے آپ کو اس میں کیا کیا نظر آتا ہے۔ انیس جانتے تھے کہ مرثیے کی اصل روح اس کا بیانیہ ہے۔ وہ بیانیہ کے حکایتی رمز سے خوب واقف تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ کیا اور کہاں خود کہنا ہے اور کتنا کہنا ہے اور کہاں اور کیا دوسروں سے کہلوانا ہے اور کتنا کہلوانا ہے۔ کہاں واقعہ گو کی حیثیت سے خود آنا ہے کہاں دوسروں کو لانا ہے۔ کہاں مکالموں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھانا ہے اور کہاں بیان کے ذریعے۔ کہاں منظر سے ہٹ کر منظر میں رہنا ہے اور کہاں منظر میں رہ کر معدوم رہنا ہے۔ بیانیے میں انیس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیشتر مرثیوں میں راویِ راویان (Narrator of the Narrators) کا عمل انجام دیا ہے۔ وہ جو ابھی ہم نے کہا تھا کہ انیس جانتے تھے کہاں اور کیا دوسرے سے کہلوانا ہے اور کتنا کہلوانا ہے، اس تناسب کو قائم رکھنے میں انیس کو مہارت حاصل ہے۔ خاکسار متذکرہ مرثیے کا تفصیل سے تجزیہ کرچکا ہے۔ انیس نے اس مرثیے میں قصہ گوئی کے فن کو حدِّکمال تک پہنچادیا ہے۔ بارہ جزوں پر مشتمل اس مرثیے میں ایک مسافر کے میدانِ کربلا میں پہنچنے کی کہانی کئی راویوں کے ذریعے بیان کی گئی ہے اور ان کے بیان کیے ہوئے حصوں کا تعیّن اصل راوی کے ذریعے ہوا ہے۔ کربلا میں آنے والا یہ مسافر امام کو جانتا تو ہے لیکن پہچانتا نہیں ہے۔ اس نے امام کی شان و شکوہ والی تصویر اپنے ذہن میں بٹھا رکھی ہے اور وہ اُسی شکل میں انہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ اب قصہ پن سے بھرے ہوئے اِن بندوں کو ملاحظہ کیجیے:
جس روز تھا یہ حشر یہ ماتم یہ شور و شر
آ نکلا اک مسافرِ غربت زدہ اُدھر
نکلا تھا گھر سے شوقِ نجف میں وہ خوش سیر
چھوڑے ہوئے وطن اسے گزرا تھا سال بھر
بے خانما کو عشق خدا کے ولی کا تھا
مشتاق وہ زیارتِ قبرِ علی کا تھا
پہنچا جو کربلا میں تو دیکھا یہ اس نے حال
تنہا کھڑا ہے ایک مسافر لہو میں لال
فوجیں ستم کی گِرد ہیں آمادۂ قتال
چلتے ہیں تیر کرتا ہے پانی کا جب سوال
از بسکہ اہل درد تھا بیتاب ہوگیا
پانی کے مانگنے پہ جگر آب ہوگیا
مسافر کے تجسس کے نتیجے میں انیس نے مسافر کے سامنے امام کی پہچان ظاہر کرنے میں جو کمال دکھایا ہے اسے اس بند میں دیکھیے:
قدموں پہ لوٹ کر یہ پکارا وہ درد ناک
اظہارِ اسمِ اقدس و اعلیٰ میں کیا ہے باک
بتلائیے کہ غم سے مرا دل ہے چاک چاک
چپ ہوگئے تڑپنے پہ اُس کے امامِ پاک
فرما سکے نہ یہ کہ شہِ مشرقین ہوں
مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسین ہوں
انیس کی اس شہرۂ آفاق بیت پر شبلی نے خوب سردھنا ہے۔ اپنے موضوع کے بیان میں انیس کی خوبی یہ ہے کہ ایک ہی مرثیے میں انہوں نے کئی طرح کے ہنر دکھائے ہیں۔ خاکسار نے کہیں لکھا ہے کہ میر، انیس اور غالب ہمیں صحیح خوانی اور بہ اعتبارِ لہجہ قرأت کی سخت آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔ انیس ایک ہی بیان میں قرأتوں کی کرشمہ سازیوں کے ذریعے معانی اور کیفیت کی بہت سی طرفیں کھول دیتے ہیں۔ اوپر کی بیت اصلاً قرأت کی بیت ہے۔ آپ اسے اُسی طرزِقرأت کے ساتھ جو اس کے اندر موجود ہے، ’’میں حسین ہوں‘‘ کے فقرے کو پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ شہِ مشرقین کی جو صورت مسافر نے اپنے ذہن میں نقش کی ہے وہ اُس حسین سے کتنی مختلف ہے جو اس وقت سر جھکائے اپنی شناخت ظاہر کررہا ہے۔ اسی طرح یہ مصرعہ دیکھیے جسے سن کر شیفتہ بہت دیر تک سر جھکائے رہے تھے اور بقول نیّرمسعود اس مصرعے کی داد یہ کہہ کر دی تھی کہ ’’میرصاحب نے پورا مرثیہ کہنے کی زحمت کیوں کی یہ مصرعہ تو خود ایک مرثیہ ہے۔‘‘ شیفتہ کی داد والا مصرعہ ہے: ع ’’آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے۔‘‘ اس مصرعے میں لفظ ’کیا‘ کی قرأت بہ اعتبارِ لہجہ یوں کیجیے کہ ایک لہجے میں سوال ہو اور دوسرے لہجے سے جواب ملے۔ علیٰ ہٰذا القیاس ’’بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حر‘‘ میں بہ زبانِ حر اس مصرعے کو ملاحظہ کیجیے: ’’کچھ اڑھا دیجیے مولا مجھے نیند آتی ہے۔‘‘ سلیم احمد نے جب یہ مصرعہ پڑھا تو لفظ ’’کچھ‘‘ میں انہوں نے کچھ ایسا دیکھ لیا کہ انہیں کہنا پڑا۔ ’’اس نیند کو دیکھیے یہ موت ہے اور انیس نے اسے کیا بنادیا۔‘‘
مسافر کی کہانی والے جس مرثیے کا ذکر ابھی ہم نے کیا تھا اس میں قصہ گوئی کے ہنر کے ساتھ ساتھ انیس نے بلاغت کا جو ہنر دکھایا ہے اسے آپ دیکھتے رہ جائیں۔ یہ دو بند دیکھیے:
سینہ کشادہ تنگ کمر چست جوڑ بند
گردن میں خم ہلال کا اور اس کا سر بلند
جاندار، بردبار، عدوکش، ظفر پسند
بجلی کسی جگہ کہیں آہو کہیں پرند
سرعت ہے ابر کی تو لطافت ہوا کی ہے
اتنے ہنر فرس میں یہ قدرت خدا کی ہے
چرخ و نجوم و شمس و قمر شہر و دشت و در
سنگ و معادن و صدف و قطرۂ و گہر
اشجار و شاخ و برگ و گل و غنچہ و ثمر
رکن و مقام و باب و منا زمزم و حجر
جن و ملک ہیں انس ہیں غلمان وحور ہیں
کہہ دیں یہ سب کہ ابنِ علی بے قصور ہیں
نیّرمسعود نے متحرک منظرناموں کی مثال میں انیس کا ایک بند نقل کرتے ہوئے ان کی بلاغت کا ایک اور کمال دکھایا ہے۔ سختیِ سفر سے متعلق اس بند میں قافیوںکا کمال دیکھیے:
وہ گرمیوں کے دن وہ پہاڑوں کی راہ سخت
پانی نہ منزلوں نہ کہیں سایۂ درخت
ڈوبے ہوئے پسینے میں ہیں غازیوں کے رخت
سو نلا گئے ہیں رنگِ جوانانِ نیک بخت
راکب عبائیں چاند سے چہروں پہ ڈالے ہیں
تونسے ہوئے سمند زبانیں نکالے ہیں
یہاں سفر کی سختی کو ظاہر کرنے کے لیے انیس نے قافیے بھی سخت اور کرخت استعمال کیے ہیں اور یہی ان کی بلاغت ہے: یعنی موقع ہوجہاں جس کا عبارت ہو وہی۔
میرانیس کی فنکارانہ فراست کی مثال میں نیّرمسعود کا ایک اور انتہائی عمدہ مضمون ’’میرانیس کی شعری حرفت‘‘ کو پیش کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے اس تصور کو غلط ٹھہرایا ہے کہ انیس بند کی پوری قوت بیت میں لے آتے ہیں۔ بند کی یہ قوت ان کے یہاں کبھی دوسرے کبھی تیسرے اور کبھی چوتھے مصرعے میں آجاتی ہے۔
مرثیے کے معنوی مضمرات کے ضمن میں ہم انیس کی چند اور خوبیاں بیان کرنے کے بعد ان کے مجموعی کمالات کا احاطہ کریں گے پھر ماحصل کے طور پر ان کی ہمہ زمانی معنویت کا محاکمہ کیا جائے گا۔
کچھ دیر قبل درج بالا سطور میں ہم نے قصہ گوئی کے ذیل میں انیس کے جس مرثیے کا ذکر کیا ہے اس میں کہانی بیانیے کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ لیکن ۱۸۱بندوں پر مشتمل انیس کا ایک مرثیہ (کنعانِ محمد کے حسینوں کا سفر ہے) ایسا ہے جس میں انہوں نے صرف سادہ مکالموں کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔
اس مرثیے میں دوسرے مرثیوں کے برخلاف انہوں نے صنعتوں کا خال خال ہی استعمال کیا ہے اور بیانیہ یہاں برائے نام ہے۔ مدینے سے کربلا تک پہنچنے کی اس کہانی میں مکالموں کے استعمال کی گنجائشیں نکالنا آسان نہ تھا۔ لیکن انیس نے یہ گنجائشیں بہ سبیلِ احسن نکال لیں۔ اصلاً یہ کہانی بیانیے کی متقاضی تھی لیکن انیس کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے راوی اساس کہانی کو مکالمہ اساس کہانی بنادیا اور راوی کی مداخلت کو مسترد کردیا۔ اس مکالماتی کہانی کے دو محل ملاحظہ کیجیے۔ ایک محل وہ ہے جب مدینے سے چلتے وقت امام اپنی بیٹی جنابِ صغرا سے مخاطب ہیں:
گھر میں تمہیں چھوڑوں یہ نہیں دل کو گوارا
لے جائوں تو بچنا نہیں ممکن ہے تمہارا
بچوں میں کوئی تم سے زیادہ نہیں پیارا
مجبور ہوں بے ہجر نہیں اب کوئی چارا
فرقت میں سدا نالۂ و فریاد کروں گا
اتروں گا جو منزل پہ تمہیں یاد کروں گا
اور دوسرا محل وہ ہے جب امام کا راستہ روکنے کے لیے ان کے قافلے کی طرف آتے ہوئے حر کے لشکر کو جنابِ عباس للکار رہے ہیں:
بے خوف چلے آتے ہو باگوں کو اٹھائے
کیا ہو جو اِدھر سے بھی کوئی آنکھ دکھائے
پیغام ہے کچھ یا ہو عریضہ کوئی لائے
تم سب میں جو فہمیدہ و عاقل ہو وہ آئے
گر بے ادب آئے ہو تو جانا نہ ملے گا
ہتھیار بھی باندھے ہوئے آنا نہ ملے گا
نعرہ کیا ابنِ اسد اللہ نے بڑھ کر
کون آتاہے، بتلا، نہیں موت آتی ہے سر پر
تھرّا کے بڑھا ہاتھوں کو جوڑے وہ دلاور
کی عرض کہ میں، حر ہوں، غلامِ شہِ صفدر
کردیجے خبر ابنِ شہنشاہِ عرب کو
کچھ عرض ضروری ہے کہ میں آیا ہوں شب کو
انیس کا ہنر یہ ہے کہ اس بند کے دوسرے اور پانچویں مصرعے میں پورا ایک مکالمہ ہے لیکن یہ مکالمہ الگ الگ فقروں میں ادا ہوا ہے:
دوسرا مصرعہ : کون آتا ہے، بتلا، نہیں موت آتی ہے سر پر
پانچواں مصرعہ : میں، حر ہوں، غلامِ شہِ صفدر
بہ اعتبارِ موضوع مختلف موزوں مثالوں کے ذریعے انیس کی فنکارانہ فراست کو حسبِ توفیق نمایاں کرنے کی غرض یہ تھی کہ آپ انیس کی دنیاے فن کی وسعتوں اور نیرنگیوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں اور محسوس کرسکیں کہ اپنی شاعرانہ ذکاوت کے ذریعے انہوں نے کیا کیاکمال دکھائے ہیں۔ انیس اور مرثیے پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ان کمالات اور ان کے اندر پوشیدہ تنوعات پر سے پردے ابھی پوری طرح نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ راقم التحریر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ شبلی اور مسعودحسن رضوی نے مرثیے کی راہ میں جو چراغ روشن کیے تھے اُن کی روشنی لے کر ہم بہت دور تک نہیں آئے ہیں۔ بس اتنا ہوا کہ مسیح الزماں نے بہ استفادۂ سابقین اپنی مستقل تصنیفوں کی صورت میں اس کی روشنی تھوڑی سی تیز کردی۔ گزشتہ برسوں میں اگرچہ مرثیے پر بہت کچھ نیا لکھا گیا ہے لیکن بہ شکلِ تکرار لکھے ہوئے کے مقابل نیا لکھا ہوا بہت کم ہے۔ نئے لکھے ہوئے میں ہم گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، نیّرمسعود، شمیم حنفی، انتظارحسین، وزیرآغا، سلیم احمد، خالد جاوید ہلال نقوی اور فراست رضوی وغیرہ کے نام لے سکتے ہیں۔ لیکن بہت سا ایسا بھی نیا ہے جو نئے کے نام پر پرانے کی نقل ہے۔ یہاں ٹھہر کر ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ غیر رثائی تنقید کے مقابل رثائی تنقید کے جہات زیادہ کیوں نہیں کھل رہے ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ مرثیے کی جانب مستقلاً مائل مصنّفین مرثیوں کے خلق ہونے کی تاریخوں کے تعیّن اور بیتوں اور بندوں میں لفظوں کی اصل صورتوں کو بتانے کی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ جو نقاد غیر رثائی تنقید سے رثائی تنقید کی طرف آئے ہیں وہ مرثیے کی شعریات یا یوں کہیے کہ اس کی تعبیر کے مضمرات و مقدمات کو سمجھے بغیر اس راہ پر چل پڑے ہیں اور ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو طبعِ موزوں سے محرومی کی بنا پر مرثیے کی صحیح خوانی میں ناکام ہیں اور اسی کے ساتھ انیسی مرثیے کی قرأت کے پیچ کو بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں۔
ایک بات اور… صنفِ مرثیہ کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ اسے الگ الگ نگاہوں سے دیکھنے والوں کا بھی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اسے معتقدات کی چہاردیواری سے باہر دیکھنے کے بجائے اسے مجلسوں اور عزاخانوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ مصطفی زیدی نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا تھا:
غیر تو رمزِ غمِ کون و مکاں تک پہنچے
کربلا تیرے یہ غمخوار کہاں تک پہنچے
معروف مرثیہ شناس ڈاکٹر ہلال نقوی کے بقول ڈاکٹر احسن فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ کیٹس کو پڑھاتے وقت اس کے بعض حصوں کا تقابل انیس کے مرثیوں سے کررہے تھے۔ اس موازنے سے نامطمئن ایک انیس مسلک طالب علم ڈاکٹر فاروقی سے اختلاف کرتے ہوئے اتنے جذباتی ہوگئے کہ انیس کی ادبی وکالت کے بجائے مذہبی وکالت پر اتر آئے۔ ڈاکٹر فاروقی نے انہیں درمیان میں روکتے ہوئے کہا آپ تنقید کررہے ہیں یا نعرۂ حیدری لگارہے ہیں۔ دوسری طرف اس واقعے کے برعکس مرثیے کے درس کے دوران ایک طالب علم نے ہلال نقوی سے یہاں تک کہہ دیا کہ مرثیہ خلافِ شرع ہے اور ہر خلافِ شرع کام کی طرح اسے پڑھنا اور سننا بھی فعلِ حرام ہے۔ مرثیے کے معاملے میں اعتقادات کی سطح پر ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی ان دو انتہائوں پر کھڑے ہوکر ہم نہ اس صنف کے معنوی امکانات کو سمجھ سکتے ہیں نہ اس کے وسیع الاثر مضمرات کو۔ کربلا کا واقعہ شعری بیانیے کی صورت میں آکر اولاً ایک شعر پارہ ہے، ایک مختلف الرّنگ شعر پارہ۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو بڑی اور اعلیٰ شاعری کی شناخت ہے۔ اس مقالے کے دونوں جزوں میں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف اس صنف نے اپنے معانی کی توسیع کے ذریعے معاصرانہ معنویتوں کی راہ روشن کی ہے اور دوسری طرف ایک شعری بیانیے کے ممکنہ محاسن کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔ ابھی اس صنف کے اندر بہت کچھ ہے جسے کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ شبلی نے مرثیے کو پرکھنے کے ابتدائی اصول مرثیے کی دنیا میں دیر تک گھوم کر وضع کیے تھے لیکن بہت دور تک نہ دیکھ پانے کی وجہ سے وہ اس کے بہت سے علاقوں کی سیر نہ کرسکے۔ ہم جب جب مرثیے اور انیس کی شعری دنیا میں داخل ہوں گے ایک نئے حیرت خانۂ معانی سے متعارف ہوں گے۔
چلتے چلتے مرثیے کے باب میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اس صنف کو اپنے حدود میں زبان و بیان کی ایک بڑی دنیا آباد رکھنے والی شاعری کے طور پر دیکھیے، اسے معتقدات کے مقتل میں نہ لائیے۔ ایسا کرنے سے آپ عقیدے کو نہیں ایک لازوال شعری بیانیے کو دنیائے شعر سے بے دخل کردیں گے اور آپ کے ہاتھ سے وہ بڑی شاعری نکل جائے گی جس میں کائناتِ معانی کے بہت سے رنگ موجود ہیں۔ اپنی شاعری کے انہیں رنگوں کو نگاہ میں رکھ کر انیس نے کہا تھا:
گل ہائے مضامیں کو کہاں بند کروں
خوشبو نہیں چھپنے کی جہاں بند کروں
(نوٹ از مضمون نگار : اس مضمون میں اپنے مبحث کو مستحکم کرنے کی غرض سے معروف مرثیہ شناس ڈاکٹر ہلال نقوی کی ایک انتہائی عمدہ تحریر سے کچھ شعروں کو مستعار لیا گیا ہے، ان کا خصوصی شکریہ۔)
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں