محمد حسن
غزل کی روایات پر نظرکیجیے تو یہ علامتیں ایک مخصوص ذہنی اورجذباتی بلکہ تہذیبی رویے سے جُڑی نظر آئیں گی، اس رویے کو ایک لفظ میں قلندرانہ کہا جاسکتا ہے، اس میں دنیوی جاہ و حشم پر بے مایگی اور فقر و فاقہ کو ترجیح دینے کا میلان بھی شامل ہے اور خود ملامتی اورکسی قدر خود اذیتی کا رجحان بھی ہے، جس کا ذکر آگے آئے گا۔
دوسری طرف ان علامتوں میں بھی ایک جہان معنی آباد ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ علامتیں کن معنوں میں استعمال ہوئیں خود ایک خاص قسم کے تہذیبی سیاق و سباق سے تعلق رکھنے والی علامتوں کا انتخاب بھی قابل توجہ ہے، خاص طرز زندگی سے تعلق رکھنے والی علامتیں خود کسی مخصوص تہذیب کے خط و خال واضح کرتی ہیں۔ تیسری طرف ان علامتوں کے پیچھے بدلتے ہوئے معانی اور تبدیل ہوتے ہوئے ذہنی تلازموں کی دھوپ چھاؤ ہے یہ تبدیل ہوتے ہوئے معانی اور تلازمے بدلتے ہوئے سماجی اور اقتصادی محرکات کی داستان سناتے ہیں اور اس دور کے مخصوص ذہنی اور جذباتی تقاضوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ اردو غزل نے یہ علامتیں فارسی غزل کے اثر کے طور پر قبول کیں اول تو اردو غزل نے فارسی کے بہت سے اثرات قبول نہیں کیے، یہی اثر کیوں قبول کیا دوسرے اس اثر کے ہندوستان میں مقبول ہونے کے جب تک اقتصادی اور تہذیبی اسباب موجود نہ ہوں اس وقت تک محض فارسی کی تقلید ان علامتوں کی مقبولیت کی سند نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ان علامتوں کی وجہ جواز لازمی طور پر کچھ ایران کے اور کچھ ہندوستان کے اقتصادی حالات میں تلاش کرنی ہوگی۔
مزید درجہ بندی کی جائے تو ایک ذخیرہ تو ان علامتوں کا ہے جودیہی زندگی سے متعلق ہیں۔ دوسرا صنعتی زندگی، یا یوں کہیے حرفت و تجارت کی زندگی کا ہے، تیسرا ایوان و قصر کا ہے جن کا لازمی جزو پائیں باغ بھی ہوتا تھا اور محفلیں اور شبستان بھی، چوتھا سپہ گری یا تادیب و سیاست سے متعلق ہے اور پانچویں میں ذاتی حلیہ، لباس یا اعضائے جسمانی کے سلسلے کی علامتیں ہیں اور کچھ بے جا نہ ہوگا اگر اس پر غور کیا جائے کہ مقبول علامتیں زندگی کے انھی شعبوں سے کیوں منتخب کی گئیں اور ان شعبوں میں تبدیلی کے اثرات ان علامتوں کے معنوی درو بست پر کس طرح اثر انداز ہوئے۔
خوش قسمتی سے اس مسئلے پر ہمارے لیے مولانا شبلی کے خیالات سے استفادہ ممکن ہے وہ لکھتے ہیں، ’’ایران نے جس زمانے میں شاعری شروع کی قومی زندگی تمام تر فوجی زندگی تھی، فتوحات کا زور و شور تھا، ہر طرف لڑائیاں برپا تھیں۔ ترک، ویلم، سلجوق نئی نئی قومیں اسلام کے حلقے میں آتی جاتی تھیں اور اس لئے ہر حکومت کواپنی بقا کے لئے ہمہ وقت تیغ بکف رہنا پڑتا تھااس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچہ بچہ سپاہی بن گیا۔ (شعر العجم۔ جلد سوم صفحہ ۱۴۹)
’’چھٹی صدی میں فوجی جذبات میں تنزل شروع ہوا یہاں تک کہ چنگیز خان نے ایران و عراق کو بالکل بے چراغ کردیا۔ اس واقعے نے شاعرو ں پر گونا گوں اثر ڈالا۔ شعرا تو اس سے پہلے بھی یعنی عین جنگی جوش کے زمانے میں عشقیہ جذبات سے خالی نہ تھے اور موقع بہ موقع اس کا اظہار کرتے تھے۔۔۔ تاہم اس زمانے تک چونکہ فوجی قوت باقی تھی اس لیے ان باتوں کا اثر عام نہیں ہوا تھا بالکل اسی طرح جس طرح آج یورپ ہر قسم کی عیش پرستی اور مے خواری میں مبتلاہے۔ تاہم وہی شخص جو رات کو لیڈیز کے ساتھ ناچتا ہے دن کو اسی طرح مردانہ اشغال میں مصروف رہتا ہے کہ گویا نغمہ و سرود سے گوش آشنا بھی نہیں لیکن جب تاتاریوں نے فوجی طاقت کا استیصال کردیا تو عشقیہ جذبات کے سوا اور کچھ نہ رہا۔ اب یہ حالت ہوگئی کہ درو دیوار سے یہی صدا آنے لگی۔‘‘ (صفحہ ۱۶۶)
’’گویا فوجی زندگی نے جو علامتیں غزل کو دیں ان میں آہستہ آہستہ عشقیہ رنگ داخل ہوگیا اور محبوب کے لئے فوجی زندگی کی علامتیں اور لوازم صرف کیے جانے لگے۔ مولانا شبلی نے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ’’ترک غلام جو عموماً حسین ہوتے تھے گھر گھر پھیل گئے تھے اور مجالس عیش میں ساقی گری اور بزم آرائی کی خدمت ان ہی سے متعلق تھی وہ جلوت و خلوت، سفر و حضر میں ساتھ رہتے تھے اور بزم آرائی کی خدمت انھی سے متعلق تھی‘‘ (ص ۱۵۶)
ان علامتو ں پر گفتگو کرتے ہوئے یہ تذکرہ شاید نامناسب نہ ہوگا کہ اٹھارہویں صدی میں یک بیک شمالی ہندوستان کا ادبی ذریعہ اظہار برج اور اودھی سے تبدیل ہوکر ریختہ قرار پایا جس کی بنیاد کھڑی بولی پر تھی۔ برج اور اودھی میں بھی غزل کی علامتیں کہیں کہیں برتی گئی ہیں اوربہاری کی ست سئی میں تو ان کا عمل دخل صاف دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ریختہ کی شاعری کی طرف توجہ منتقل ہونے کے اسباب پر ابھی تک پوری طرح بحث نہیں کی گئی ہے، اتفاق یہ ہے کہ شمالی ہندوستان میں اس قسم کی علامتوں کا رواج ریختہ کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ہوا اوران علامتوں پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان پر دیہات سے کہیں زیادہ مدنیت کا غالب رنگ ہے۔ شہر کا لفظ یوں تو شاید پہلی بار قلی قطب شاہ کی شاعری میں ملتا ہے لیکن جس کثرت سے میرؔ نے اسے برتا اور علامت کے طور پر برتا اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ’نگر‘ کے لفظ کی بھی یہی صورت ہے۔
ان علامتوں کا روپ رنگ دیکھنا ہے تو میرؔ کی غزلیات کے پہلے دیوان ہی کو ایک نظر دیکھ لینا کافی ہوگا۔ جو علامتیں استعمال ہوئی ہیں ان میں زیادہ مروج مندرجہ ذیل ہیں،
’’سبزہ، لالہ، نرگس، خزاں، روش، غنچہ، باد بہار، گل، چمن، سنبل، بہار، چمن کے سلسلے کی علامتیں ہیں۔‘‘
دوا، مسیحا، طبیب۔
شراب، شیرہ خانہ، کباب، نشہ، ساقی، معہ بچہ، ساغر، خم، شراب خانے کے سلسلے کی علامتیں ہیں جو شہر ہی کا ادارہ تھا۔
زنجیر، زنداں، عدالت اور جزا و سزا کی اصطلاحیں ہیں جو شہر ہی سے متعلق ہیں۔ مرجان، لعل، جوہریوں کے سلسلے کی علامتیں ہیں جو شہر ہی سے متعلق ہیں۔
شہر، قریہ، گلی، دیر، مسجد، کعبہ، بت خانہ، واعظ، ناصح، زاہد، امام، تعمیر، گھر، آبادی، درو دیوار،
تلوار، شمشیر، خنجر۔
قافلہ، راہ گزر، غبار، منزل، سیروسفر، کارواں، سراب، جرس
رقیب، پاسباں، یاد، غم خوار، ندیم۔
نامہ بر، قاصد، مکتوب۔
گور، تُربت، لحد
میدان، بیاباں، صحرا، وادی، ویرانہ۔
آئینہ، شانہ، غازہ۔
اس کی سب سے واضح صراحت چمن کے متعلقات اور علامتوں سے ہوتی ہے جنہیں میرؔ نے طرح طرح سے برتا ہے لیکن میر نے چمن کی جتنی تصویریں کھینچی ہیں وہ پکار کر کہہ رہی ہیں کہ یہ پائیں باغ کی تصویریں ہیں جو مغلوں کے طرز تعمیر میں گھر کا لازمی جزو تھا اور اس پائیں باغ کی نفاست اور لطافت فطری اور خود رو نہیں بلکہ اس کے ہر پہلو پر تہذیب کی مہریں اور انسانی کاوش اور ارتقا کی آیات نمایاں ہیں۔ مثال کے لئے صرف ’گل‘ کی علامت کا استعمال میرؔ کے دیوان اول کے چند اشعار ملاحظہ ہو،
سحر پاے گل بے خودی ہم کو آئی
کہ اس سست پیماں میں بو تھی کسی کی
(گل بمعنی محبوب)
بوے گل رنگ گل دونوں ہیں دل کش اے نسیم
لیک بقدر یک نگہ دیکھیے تو وفا نہیں
(گل بمعنی عالم)
یہ عشق گر نہیں ہے یاں رنگ اور کچھ ہے
ہر گل ہے اس چمن میں ساغر بھرا لہو کا
(گل بمعنی دل یا انسان)
نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہوگا
مر رہتے جو گل بن تو سارا یہ خلل جاتا
نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا
گلِ پژمردہ کا نہیں ممنوں
ہم اسیروں کا گوشۂ دستار
(گل بمعنی انعام)
ہم وے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے گل
مت کر خراب ہم کو تو اوروں میں سان کر
(گل بمعنی آراستہ)
حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
اک برگِ گل گرا نہ جہاں تھا مراقفس
(گل بمعنی مسرت)
سو بار ہم نے گل کے گئے پر چمن کے بیچ
بھردی ہیں آب چشم سے راتوں کی کیاریاں
(گل بمعنی نعمت)
شوق قامت میں ترے اے نونہال
گل کی شاخیں لیتی ہیں انگڑائیاں
(گل بمعنی خوب رو)
ذکرِ گل کیا ہے صبا اب کے خزاں میں ہم نے
دل کو ناچار لگایا خس و خاشاک کے ساتھ
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
مدنیت کا عکس یہاں گل اور گلزار کے ہر تذکرے پر ملتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر ہے کہ گل کے پردے میں میرؔ نے نئے تاریخی اور تہذیبی زندگی کے نئے رخ سمو لیے ہیں۔ ان دونوں باتوں پرکسی قدر زیادہ توجہ درکار ہے۔
مدنیت کے سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ شہر کا تصور عہد وسطی میں آج کے شہروں کی طرح صنعت و حرفت یا دفاتر، سنیما گھروں اور قہوہ خانوں سے عبارت نہ تھا بلکہ شہر یا تو بادشاہی لشکر کی قیام گاہ تھا یا صوبے دار اور منصب داروں کے لشکروں کا صدر مقام۔ یہ صراحت یہاں تحصیل حاصل ہے کہ عہد وسطی میں لشکر کے صدر مقام کے معنی لازمی طور پر یہ تھے کہ وہاں لشکر کی ضرورت کی سبھی چیزیں ملتی تھیں اور لشکر کے کام آنے والی چیزوں کے بنانے والے وہاں آباد ہوتے تھے۔ نعل بند، گھوڑوں کے تاجر، سوداگر، آتش باز، خیاط، خیمہ دوم، غرض لشکرکے گرد ایک نگر آباد ہوجاتا تھا اوریہی اس شہر کی آبادی، رونق، انتظامی استحکام اورامن و سکون کا مرکز بن جاتا تھا۔ دھیرے دھیرے یہی شہر صناعوں کے مرکز بن گئے اور متعلق علاقوں کے بہترین دست کار، صناع، تاجر اوراہل حرفہ وہاں جمع ہونے لگے اور متعلق امرا کی سرپرستی میں تہذیب کا فروغ شروع ہوگیا۔ ان شہروں میں صنعتی اور اقتصادی سرگرمیاں تیزی پکڑنے لگیں۔ اس طریقے کے مختلف لشکری اور اقتصادی مراکز شہر کہلانے لگے۔ اکبر اعظم کے بعد کے دور میں یہ عمل خاص تیز ہوگیا اور ان مراکز کی تعداد، وسعت، تجارتی اور اقتصادی اہمیت بڑھ گئی اور ایک نئی تہذیب جنم لینے لگی و اس دورکی دیہی معاشرت سے مختلف تھی اورجس کا تعلق لشکرک ی قربت تجارت کی ضرورت اور معیشت کے تقاضوں کی وجہ سے حکومت وقت سے خاصا قریبی تھا۔ تجارتی ضرورتوں کے سلسلے میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ افغانستان اور ایران سے شمالی ہندوستان کے تجارتی اور سیاسی رشتے خاصے مستحکم تھے اس لحاظ سے بھی ہندوستان میں ایک ایسی مدنی تہذیب ابھرنے لگی جو علاقائی وفاداریوں سے آگے قدم بڑھانا چاہتی تھی اور ایک وسیع تر قومی دائرہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
وسیع تر قومی دائرے کی طرف بڑھنے کے محض جغرافیائی لوازم نہ تھے اس کے ساتھ ساتھ تہذیبی لواز م بھی تھے، ان میں ایک ایسے مزاج کی تشکیل کا مسئلہ بھی تھا جو وسیع تر اقتصادی ضروریات کو پورا کرسکے اور تنگ جغرافیائی اور مذہبی دائروں سے نکل سکے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اکبر کے زمانے ہی سے ایک ایسی آواز بھی ابھرنی شروع ہوئی جو اس مدنیت کی تہذیبی، ادبی اور فکری تفسیر تھی۔ اکبرؔ کا دین الہٰی تو محض اس کا ایک روپ تھا جوبہت کارگر نہیں ہوا مگر بھکتی تحریک اور تصور کے وہ اَن گنت میلانات جو سکہ بند مذاہب اور ان کے ظاہری رسوم و عبادات، برأت اور بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔ بھکتی اور تصوف کے زیر اثر آزادانہ زیست کرنے کا ایک ایسا قلندرانہ تصوف ابھرنے لگا جو مذہب کی تنگ نظری سے دور تھا اور رام کرشن مکرجی نے The Rise and fall of E۔ I۔ Co میں اکبر کے دور کے اس میلان کا رشتہ تجارت میں شہنشاہ کی دلچسپی اور صنعت و حرفت کی ترقی اور اس کے لئے ایک وسیع تر قومی دائرے کی تشکیل کی کوشش سے ملایا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس ابھرتی ہوئی مدنی تہذیب کا ادبی اظہار ان بولیوں میں ممکن نہ تھا جو یا تو جغرافیائی اعتبار سے محدود تھیں یا کسی خاص مذہبی دائرے سے اپنے کو متعلق کرچکی تھیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ا س دور کے بعد کے معاشرتی تقاضوں کو برج بھاشا کی شاعری پورا نہ کرسکی جو اکبر کے پایہ تخت آگرہ کی زبان ہونے کے باوجود اپنا رشتہ سور داس کی کرشن بھکتی سے ملا چکی تھی اور اس پر مذہبی دیومالا کا رنگ غالب آچکا تھا۔ ہر چند اس زبان کو خانخاناں نے سیکولر اور اخلاقی شاعری کے لئے اپنایا لیکن اس کا دائرہ اثر اتنا وسیع اور اس کا فکری افق اتنا غیر جانبدار (Natural) نہ تھا کہ وہ نئے تقاصوں کو سمو سکتا۔ اودھی کا بھی یہی حال تھا جس کا دائرہ جغرافیائی اعتبار سے بھی محدود تھا اور اس کا ذہنی اورجذباتی تعلق رامائن اور رام بھکتی سے بہت قریبی تھا، لازمی طور پر ان کی جگہ ایک ایسی زبان نے لے لی جو وسیع تر دائرے میں کارآمد ثابت ہوسکے اوران علامتوں کو کام میں لاسکے جواس زمانے میں برسراقتدار طبقے میں رائج تھیں۔ یہاں پروفیسر کوسمبھی کا یہ قول نقل کرنا بے محل نہ ہوگا جسے انہوں نے تاریخ ہندوستان کے ارتقا کے اصول کے طورپر بیان کیا ہے،
The entire course of Indian History Shows tribal elements being fused into a general society۔
چونکہ اکبر کے دور کی عام معیشت تہذیب اورسماج ان مختلف النوع عناصر کی ایک نئی تدوین اور ترتیب کی متقاضی تھی، اس لیے ایک ایسی مدنی فضا کا قیام لازمی تھا جو نئے اقتصادی تقاضوں کوپورا نہ کرسکے۔
ان علامتوں کے پیچھے محض نئے مدنی کلچر کی آواز اورنئے اقتصادی تقاضوں کی باز گشت ہی نہیں تھی بلکہ ان کے معانی مفاہیم اور تلازمات بھی مختلف ادوار میں مختلف رنگ ڈھنگ اختیار کرتے رہے اور ان کے ذریعے جو عصری صداقتیں اور حقیقتیں بیان ہوتی رہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان علامتوں میں تعمیم اور تجرید کی کتنی گنجائش اورکیسی سمائی تھی۔
غزل کی علامتوں میں عصری صداقتوں کی عکاسی اور ایسے معاملات کے بیان کی مثالیں تحصیل حاصل ہیں جن کا رشتہ مخصوص معاملات اور واقعات سے ہے۔ یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ علامتوں کے لغوی معنی یا کوئی متعین معنی سمجھنا کتنا غلط ہے کیونکہ Permanent Red میں برژر Berger نے جو بات مصوری کے بارے میں کہی ہے وہ شاعری کے باب میں بھی صحیح ہے کہ فن Entities سے نہیں Processes سے بحث کرتا ہے، وہ واقعات کی بیان سے اتنا غرض نہیں رکھتا جتنا ان واقعات کے پیچھے کارفرما سلسلوں اور ان کے باہمی رشتوں سے۔ غزل کی علامتوں کے متفرق اورحیرت انگیز طورپر مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہونے کی صرف چند مثالیں کافی ہوں گی، ایک راجا رام نرائن موزوں کا شعر جو سراج الدولہ کی شہادت پر کہا گیا جس میں علامتیں، صحرا، مجنوں اور ویرانے کی ہیں اور بظاہر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا جوج سراج الدولہ کی طرف ذہن کی رہبری کرسکے لیکن سرا جالدولہ کے انتقال کے وقت ہندوستان کی ذہنی کیفیت کی پوری طرح عکاسی کرتا ہے،
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
ظاہر ہے کہ غزال، مجنوں، دِوانہ اور ویرانہ سبھی علامتیں روایتی ہیں لیکن اس عام روایتی انداز کے پیچھے جو کیفیت بیان ہوئی ہے اور جو مفہوم ادا ہوا ہے وہ عصری حقیقت اور ایک ایسی کیفیت کا بیان ہے جس میں شاعرانہ کیفیت ہی نہیں، تاریخی صداقت بھی موجود ہے۔
غزل کی ان علامتوں کے پیچھے جو سماجی محرکات مضمر ہیں ان کی صراحت مختصراً اس طرح کی جاسکتی ہے،
الف۔ یہ علامتیں ایک ایسے شہری کلچر سے مستعار ہیں جو دستکار اور اضلاع طبقے کا ہے اور جس پر ایک طرف کوچہ و بازار کی اور دوسری طرفایوان اور دیوان خانوں کی پرچھائیاں نمایاں ہیں۔
ب۔ یہ علامیہ مذہبی رسم پرستی اور مرکزیت کے خلاف ایک قسم کی آزاد، سیکولر اور رنگین زندگی کی نمائندہ ہیں جو ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے لئے گویا مرکزی اسلامی خلافت سے رشتہ قائم کرنے کے بجائے ایک آزادانہ سیاسی خود مختاری کی قائل ہیں۔
ج۔ ان علامتوں میں حسی پہلو ماروائی پہلو سے زیادہ نمایاں ہے اور اسی حسی پہلو کے ذریعے ماورائیت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو عجمی اورآریائی مزاج کی خصوصیات میں شامل ہے۔
غزل کی یہ رمزیت ہر عہد میں نئے سماجی محرکات کے زیر اثر مختلف معنویت اختیار کرتی رہی، اس سلسلے کا ایک اہم سنگ میل لکھنؤ ٹھہرا۔ یہاں غزل کی رمزیت کو نیا رخ ملا جو متصوفانہ ماورائیت کے بجائے مادی زندگی سے زیادہ قریب تھا۔ یہاں غزل کو طبل و علم، بام و در، کواڑ اور دروازہ، شجر سایہ دار، کی نئی علامتیں ہی نہیں ملیں، پرانی علامتوں کی توسیع بھی ہوئی۔ یہاں ان علامتوں میں متصوفانہ کے بجائے تہذیبی معنویت پیدا ہوگئی مثلاً انیسؔ کے سلام میں ایک ہی علامت کے ذریعے پورے تمدن کی نفاست، شائستگی اور زوال آمادگی کو اسیر کرلیا ہے۔
یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ دست پیری نے
چنا ہے جامہ اصلی کی آستینوں کو
یا آتش کے اشعار میں دیوان خانے اور ایوانوں سے دور راہ گزر، سفر اور عام زندگی کی علامتیں کس کس طرح ابھرتی ہیں،
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
ان علامتوں کو بہادر شاہ ظفرؔ، غالبؔ اور مومنؔ نے جس طرح برتا ان کی تفصیل الگ مقالے کی طالب ہے۔ یہاں علامتوں کو ایک دوسری نہج مل گئی جو بہ یک وقت ان کے ذاتی احساسات کی بھی آئینہ دار تھی اوراس تہذیبی بحران کو بھی ظاہر کرتی تھی، جس سے اس دور کا تمدن گزر رہا تھا۔ غالبؔ کی کئی محبوب علامتیں ہیں: شمع، داغ، زخم، آتش، زنجیر۔ پھر ان کا اپنا ہنر ہے کہ وہ ان علامات کو اضافت کے ساتھ دوسری علامتوں یا کیفیات سے ترکیب دے کر ان سے پورا آئینہ خانہ سجا لیتے ہیں، جو اس دور کی توسیع کے لئے تڑپنے والے وجود کا ایک عکس ہے۔
بعد کے ادوار میں اقبالؔ کے یہاں ان علامتوں سے بالکل مختلف انداز سے کام لیا گیا۔ ایک طرف تو اقبال کے ہاتھوں ان علامتوں کی توسیع ہوئی اب شاہین، کبوتر، ممولا، کنجشک جیسی علامتیں آئیں جن کا تعلق ایوان کے بجائے کھلی فضا سے تھا۔ دوسری طرف پرانی علامتوں کی فلسفیانہ توجیہہ کی جانے لگی۔ اقبال کے لئے علامتیں ایک فکری Correlative کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی کئی پرتیں موجودہوتی ہیں۔
اقبالؔ نے جس طرح علامتوں کو نئی فلسفیانہ معنویت بخشی اس سے وہ چیلنج صاف ظاہر ہوتا ہے جو برطانوی قبضے کے بعدہندوستان کے سامنے در پیش تھا اور جس کا احساس اقبال کو بار بار سورج، مشرق، دہقاں، کھیت، شرار (افلاطون) جیسی علامتوں کو استعمال کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
اس دور تک آتے آتے ترقی پسند غزل نے ان علامتوں کو سیاسی معنویت دے دی جو فراقؔ، جگرؔ، جذبیؔ، مجروحؔ، فیضؔ سے لے کر تاباںؔ، خورشید احمد جامیؔ، کلیم عاجزؔ، شمیمؔ کرہانی تک ہوتا آیا ہے اوربرابر جاری ہے۔ فیضؔ کے ہاں علامتوں کا استعمال اس ڈھنگ سے ہوا ہے کہ اگران علامتوں کا سیاق و سباق واضح نہ ہو تو غزل کے اس شعر سے پوری طرح لطف حاصل نہیں کیا جاسکتا،
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
یہ شعر راولپنڈی سازش کے مقدمے کے سیاق ہی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ جب فیضؔ پر اشتراکی انقلاب کے لئے مسلح سازش کا الزام لگایا گیا تھا۔
یا اسی طرح اسی مقدمے کے سلسلے میں عوام دوستی اور جمہوریت اور اشتراکیت کو عزیز رکھنے کی پاداش میں گرفتاری کا منظر جو ارباب اقتدار کی نظر میں رسوائی تھا اور عوام کی نظر میں قابل احترام قربانی اس شعر کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے،
وہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر راہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر کوئے یار چلے گئے
یہاں یار عوام ہیں داغ لباس پر لکھی ہوئی سیاہی ہے اور یہ سیاہی جیل کے لباس پر پڑے ہوئے نمبر ہیں یا وہ رسوائی ہے جو ان سے متعلق ہے۔
فیضؔ کی تازہ غزل کے دو شعر ہیں،
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر سے ہوں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبّے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
بہ ظاہر ان اشعار میں روایتی علامتوں کا دروبست بہت نمایاں ہے۔ آشنا، اجنبی، بہار، سبزہ، سبھی پر روایتی علامتوں کی مہریں لگی ہوئی ہیں، لیکن اگر کسی صورت سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ اشعار فیضؔ نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعداپنے ملک کے وزیراعظم کے ساتھ پہلی بار ڈھاکہ جانے پر کہے تھے تو ان استعاروں کی معنویت اوربلاغت کسی دوسرے رنگ ہی میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
یا جذبیؔ کے اس شعر میں بجلیوں سے مراد وہ سامراجی ممالک ہیں جو ترقی پذیر ملکوں میں سازشوں کا جال بچھائے ہوئے ہیں،
ان بجلیوں کی چشمکِ باہم تو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے
یا مجروح کا یہ شعر،
ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
یا شمیم کرہانی کا یہ شعر،
سکوت وقت مورخ ہے لکھ لیا اس نے
جو پتھروں نے کہا بے خطا جبینوں سے
یا کلیم عاجزؔ کا یہ شعر،
کام آئے گی یہ دولت کل جشن بہاراں میں
دامن کو بچا لینا خوشبو جو صبا مانگے
وہی ہماری تباہی کی عمر بھی ہوگی
ترے شباب کا یہ کون سال ہے پیارے
(یہ شعر تقسیم ہند کی پچیسویں سال گرہ کے موقع پر کہا گیا اور ۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر کے بغیر اسے سمجھنا دشوار ہے۔)
ترقی پسند غزل کے بعد نئی غزل نے ان علامتوں کو اور بھی وسعت دی۔ اب یہ علامتیں کوچہ و بازار کے گردو غبار میں نکل آئی ہیں۔ ریت، سمندر، پتے، مٹی، دھول، زہر، کتاب، غرض عام زندگی کی نہ جانے کتنی علامتیں ہیں جو اب نئی معنویت اختیار کرتی جارہی ہیں، ان کے پیچھے بھی سماجی محرکات کے کئی سلسلے کارفرما ہیں۔
مختصر یہ کہ غزل کی علامتیں اپنے دورکی کہانی اپنے انداز میں بیان کرتی ہیں اوران کے پیچھے عوامل و محرکات کا ایک جہان آباد۔ بے انصافی ہوگی اگر علامتوں کے لغوی معنوں سے گمراہ ہوکر یہ سمجھ لیا جائے کہ اردو غزل صرف عشق و عاشقی یا شراب و شباب ہی کی شاعری ہے اور گہرائی، بصیرت اور آگہی سے خالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان علامتوں کے پردے کے پیچھے کارفرما سماجی محرکات تاریخ اور تہذیب کے وہ شواہد ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے آپ کو پہچان سکتے ہیں اوراپنے طرزِ احساس کی تشکیل کرنے والے عوامل و محرکات کی شناخت کرسکتے ہیں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں