وزیر آغا
ہیئت اور موضوع سے قطع نظر، نظم اور غزل میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جہاں نظم میں محبوب کی شخصیت انفرادیت کی حامل ہے وہاں غزل میں وہ بعض عمومی صفات سے ہم آہنگ ہوکر ایک مثالی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں نظم گوشاعر کی محبوبہ ایک ایسی گوشت پوست کی ہستی ہے جو شاعر کی زندگی میں واقعتاً داخل ہوتی ہے اوراس کے جذبات واحساسات کو برانگیختہ کرتی ہے۔ یہ محبوبہ ایک ایسی عورت ہے جو اپنے خدوخال، چال ڈھال، اپنے انداز واطوار کے لحاظ سے دنیا جہان کی عورتوں سے مختلف ہے۔ گویا اس کی ایک واضح انفرادیت ہے جسے نظرانداز کرنا یا جھٹلانا ممکن نہیں۔
اس کے برعکس غزل کا محبوب ایک ’روایت‘ ہے۔ وہ ایسا پیکر ہے جس کی ہیئت، لباس اور گفتار ہی نہیں بلکہ مزاج اور طریق کار بھی عمومی اورمثالی ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ ولیؔ سے لے کر فراقؔ تک محبوب کی صفات میں کوئی تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی بلکہ صرف یہ کہ غزل کے ہر دور میں غزل گوشعرا نے جس محبوب سے رابطہ استوار کیا ہے وہ ایک ایسا روایتی پیکر ہے جو اپنی مخصوص صفات اور عادات کے باعث آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے۔
اردوغزل کے محبوب میں شخصی خصوصیات کے بجائے عمومی خصوصیات کی نمودغزل کے بنیادی رجحان کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ وہ اس طرح کہ غزل اپنی داخلیت کے باوصف ایک ایسا آئینہ ہے جس میں زندگی کا مجموعی نقش منعکس ہوتا ہے اور غزل گوشاعر تجزیاتی مطالعہ کے بجائے ایک اجمالی نظر کا قائل ہوتا ہے۔ نتیجتاً غزل کے شعر میں بڑی سے بڑی حقیقت اور طویل سے طویل کہانی بھی محض ایک علامت یا استعارے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور شاعر کم سے کم الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کودوسروں تک منتقل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس طریق کار نے غزل گوشاعر کے سارے جذباتی اوراحساسی ردعمل کومتاثر کیا ہے اور زندگی کی طرف اس کی پیش قدمی کوایک خاص نہج عطا کی ہے۔ چنانچہ وہ صداقت کی تلاش میں حقیقت کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ ایک حقیقت کو دوسری حقیقت کے ساتھ ملاکر ایک مجموعی تاثر کو ترتیب دیتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں غزل تجزیاتی مطالعہ کی نہیں بلکہ اجتماعی محاکمہ کی ایک صورت ہے اور اس کے زیراثر زندگی کے مظاہر کرداروں یا ٹکڑوں کے بجائے مثالی نمونوں یا ثابت حقیقتوں کے پیکر میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کا محبوب کسی ایسے کردار کی صورت میں ظاہر نہیں ہوا جس کی بعض شخصی خصوصیات اسے دوسرے کرداروں سے ممیز کرسکیں بلکہ اس نے ایک روایت، ایک مثالی نمونے کی صورت اختیار کی ہے اور اس میں ہمیشہ نہ صرف زمانے کی مقبول عام ’عورت‘ کے خصائص جمع ہوئے ہیں بلکہ اس میں ماحول کے بعض مقبول رجحانات بھی سمٹ آئے ہیں۔
اردوغزل کے بارے میں عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فارسی غزل کے سائے میں جوان ہوئی تھی۔ یہ بات ایک بڑی حد تک درست ہے اور اس کا ثبوت وہ بہت سی تلمیحات اور صنائع بدائع ہیں جو فارسی غزل سے مستعار ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردوغزل نے بہت جلد ماحول کے اثرات کو قبول کرنا شروع کردیا تھا اور ولیؔ سے غالبؔ تک پہنچتے پہنچتے اس کا حلیہ ایک حد تک بدل گیا تھا۔ غزل گوشعراکے عشقیہ کلام میں بالخصوص یہ تبدیلی بہت واضح ہے۔ چنانچہ جہاں اردو کے اولین غزل گوشعرا کے ہاں امردپرستی کا رجحان ملتا ہے جو یقیناً فارسی غزل سے مستعار ہے، وہاں درمیانی دور کے شعراء کے کلام میں ہندوستانی عورت کے نقوش صاف نظر آنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سارے دور میں عشق کے رجحانات بعض خارجی رجحانات سے شدید طورپر متاثر بھی ہوئے ہیں۔ اس قدر کہ محبوب کی وضع قطع اورمزاج کے بیان میں بھی بعض خارجی مظاہر کاپرتو صاف دکھائی دیتا ہے۔
اردو غزل کا یہ ابتدائی اور درمیانی دورمغل سلطنت کے زوال کا زمانہ تھا۔ سیاسی طورپر ہی نہیں سماجی طورپر بھی سارا معاشرہ ایک کٹھالی میں آگرا تھا۔ بعض قوتیں دم توڑ رہی تھیں، بعض نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا اورملک کے ایک عام باشندے کومسلسل انتشار، قتل وغارت گری، بدامنی اورطوائف الملوکی نے خوفزدہ کردیا تھا۔ اس دور میں ’فرد‘ کا ہیروبادشاہ ہے۔ بادشاہ جو اس کی جان ومال کی حفاظت کا ذمہ دار ہے لیکن جس کے ظلم اورجبر کی بھی کوئی انتہا نہیں اور جو اگرچہ اپنا پہلا ساوقار اور دبدبہ کھوچکا ہے تاہم جس کی طرف اب بھی سب کی نگاہیں اٹھی ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں عوام ایک عجیب سی نفسیاتی الجھن میں مبتلا تھے۔ وہ بادشاہ کی خوشنودی بھی حاصل کرنا چاہتے تھے اوراس کے مظالم سے نالاں بھی تھے۔ گویا ان کی نظروں میں بادشاہ بیک وقت رحمت اور موت کا فرشتہ تھا۔ اس صورت حال نے غزل گوشاعر کو بھی متاثر کیا اوراس کے عشقیہ جذبات پر واضح اثرات مرتب کیے۔
چنانچہ غزل کے اس دور میں شاعر نے اپنے ’محبوب‘ کا سہارا لے کر ایک کشادہ خلیج کو پاٹنے اور اپنے ہیرو سے ہم کلام ہونے کی سعی کی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا ہے کہ غزل کے محبوب میں وہ تمام صفات مرتکز ہوگئی ہیں جواس زمانے کے بادشاہ اور اس کی مطلق العنانی کی علامت یعنی سپاہی میں موجود تھیں اور غزل کے شاعر کے ردعمل میں اس عام فرد کے ردعمل کی صدائے بازگشت صاف سنائی دینے لگی ہے جوبادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا متمنی ہے لیکن جسے بادشاہ کے آستانے تک پہنچنے کے تمام راستے بند دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل اس دور کے فرد کے عزائم اور اس کی منزل کے درمیان بعض سنگین دیواریں حائل ہیں، جن میں خاص طورپر بادشاہ کی بلندی اور فرد کی پستی، نیز بادشاہ کی تخریب پسندی اور فرد کی کم مائیگی بڑی نمایاں دیواریں ہیں اور غزل کے شاعر نے ان دیواروں کو اپنے اشعار میں پوری طرح منتقل کرلیا ہے۔ اتنے وسیع پیمانے پر معاشرے کے بعض نمایاں حقائق کو عشق کی تلمیحات کی صورت میں منتقل کردینا شاعری کے کسی اور دور میں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ چند مثالیں قابل غورہیں۔
نکلا ہے وہ ستم گر تیغ اداکوں لے کر
سینے پہ عاشقوں کے اب فتحیاب ہوگا
ولیؔ
زخمی کیا ہے مجھ تیری پلکوں کی اَنی نے
یہ زخم ترا خنجر بھالاں سے کہوں گا
ولیؔ
آبروؔ کے قتل کوحاضر ہوئے کس کے کمر
خون کرنے کو چلے عاشق کو تہمت باند ھ کر
آبروؔ
یار کا مجھ کو اس سبب ڈر ہے
شوخ ظالم ہے اور ستمگر ہے
شاہ حاتمؔ
کج کلاہ تیغ بکف چین برابر وبیباک
یا الٰہی یہ ستم گار کہاں جاتا ہے
فغاں ؔ
جب خیال آتا ہے اس دل میں ترے اطوار کا
سر نظر آتا نہیں دھڑ پر مجھے دوچار کا
سوداؔ
زیر شمشیر ستم میرؔ تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
میرؔ
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندۂ زرخرید کے مانند
میرؔ
کیا اس نے قتل جہاں اک نظر میں
کسی نے نہ دیکھا تماشہ کسی کا
مومنؔؔ
آغوش گور ہوگئی آخر لہولہان
آساں نہیں ہے آپ کے بسمل کو تھامنا
مومنؔ
دیکھ کر میری طرف ہنس کے کہا یہ دم قتل
آج تو دیکھ لیا آپ نے پیماں میرا
شیفتہؔ
ناشکیبا، مضطرب، وقف ستم ہم کب نہ تھے
بے مروت، بے وفا، مصروف کںا تو کب نہ تھا
شیفتہؔ
وفا کیسی، کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
غالبؔ
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگرکے پار ہوتا
غالبؔ
مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
دہان زخم سے خوں ہو کے حرف آرزو نکلا
ذوقؔ
ان اشعار کے مطالعہ سے غزل کے اس دور کے محبوب کی مکمل تصویر نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ محبوب ایک کج کلاہ، تیغ بکف، چین برابرو ہستی ہے جو ماحول پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالتی ہوئی گزرتی چلی جارہی ہے، اور لوگ ہیں کہ اس کے قدموں پر پامال ہونے کے لیے بیتاب ہورہے ہیں۔ ان ہی لوگوں میں شاعر بھی ہے جو مظلومی اور وفاداری کا مجسمہ ہے۔ دراصل یہاں شاعر عوام کا نمائندہ ہے اوراس کی وفاداری، مظلومیت اور تشنگی اس زمانے کے عوام کی روایتی وفاداری، کم مائیگی اور تشنگی سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس کے برعکس محبوب ظلم و جبر کا نمائندہ ہے اور اس بادشاہ کی طرح ہے جس کے ایک ادنیٰ اشارے پر سیکڑوں سر اڑا دیے جاتے ہیں اورجس کی ایک نظرکرم کے لیے لوگ اپنی زندگیوں کی بازی لگا دیتے ہیں۔
لیکن ان اشعار کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ شاعر نے محبوب کو کھلے بندوں ’ظالم‘ اور ’بدخو‘ کہہ کر اپنے دل کا غبار ہلکا کیا ہے۔ وہی بات جسے اس زمانے کے فرد کے لیے لب پر لانا بھی مشکل تھا، شعر کا لبادہ اوڑھ کر ظاہر ہوئی ہے اور فرد کے انتقامی جذبات کی تسکین کا سامان بہم پہنچاگئی ہے۔ اس دور کے آخر میں تویہ انتقامی روش خاصی نمایاں ہوئی ہے۔ غالب کا شعر،
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
توپھر اسے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
اس رجحان ہی کی غمازی کرتا ہے۔ اسی طرح شیفتہؔ کا یہ شعر بھی محبوب کے ظلم پر طنز کی حیثیت رکھتا ہے۔
ناشکیبا، مضطرب وقف ستم ہم کب نہ تھے
بے مروت، بے وفا مصروف کںے تو کب نہ تھا
بہرحال اردوغزل کے اس طویل دورمیں محبوب کی صفات میں حاکم وقت کی صفات کا پرتو صاف دکھائی دیتا ہے۔ نہ صرف چال ڈھال اور وضع قطع کے لحاظ سے بلکہ عادات واطوار اورمزاج کے اعتبار سے بھی بادشاہ اور محبوب میں ایک شدید مماثلت عیاں ہے۔ تاہم اس ایک نکتے سے قطع نظر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے دور میں محبوب کا کوئی ایسا کردار نہیں ابھرا جس پر انفرادیت کی چھاپ ثبت ہو اور جس کے مطالعہ کے بعد ہم یہ کہہ سکیں کہ واقعی شاعر کے کلام میں ایک خاص عورت ایک خاص انداز سے چلتی پھرتی یا ہنستی روتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ وجہ اس کی وہی ہے جس کا پہلے بھی ذکرہوا کہ زندگی اور اس کے مظاہر کی طرف غزل گوشاعر کاردعمل ایک خاص فرد کے ردعمل سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی اس میں ذاتی غم، اجتماعی غم کے تابع اور ذاتی مسرت، اجتماعی مسرت کے تابع ہوجاتی ہے اوراسی نسبت سے اس کا عشق بعض اجتماعی محرکات سے متاثر ہوکر اپنی وضع بدل لیتا ہے۔
اس مقام پر ایک یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ شہردہلی بادشاہ کا پایہ تخت تھا اور دہلی کے شعرا کو ایک بہت بڑی حد تک سماجی اورسیاسی طوفانوں سے گزرنا پڑا تھا۔ نیز بادشاہ کے کرم اور عتاب کی لہریں بھی انہیں ہمیشہ مس کرکے گزرتی تھیں۔ اسی لیے ان کے ہاں محبوب کا جو تصور ملتا ہے اس کے نقوش میں ان خارجی محرکات کا اثر بالکل واضح ہے۔ لیکن دہلی سے کچھ دور لکھنؤ کے شعراء کا قصہ قدرے مختلف ہے۔ لکھنؤ ایک ننھی سی ’’جنت‘‘ ہے، جس کے مکینوں نے دانستہ یا نادانستہ ان تمام حقائق کونظرانداز کردیا ہے جو ایک عظیم الشان سلطنت کو کھوکھلا کرچکے ہیں۔ ان لوگوں پر عافیت کوشی، تن آسانی اور تعیش پسندی کے سارے رجحانات مسلط ہیں اور وہ عظیم الشان درباروں اور وسیع میدانوں کے بجائے چھوٹے چھوٹے دیوان خانوں میں سمٹ آئے ہیں۔
اس دور میں ایک عام فرد پر ’انفعالیت‘ کا غلبہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ شاعری میں ریخیق کا عروج اس انفعالیت کے رجحان ہی کا ایک واضح نمونہ ہے اوراس کے زیراثر شعرانے نہ صرف شاعری کی زبان بلکہ اپنے سراپا پر بھی نسوانیت کو مسلط کرلیا ہے لیکن عام شاعری میں بھی جہاں تک عشق کے معاملات کا تعلق ہے، ایک واضح انفعالیت کارفرما ہے۔ شاید اسی لیے اس دور میں غزل کے محبوب میں قوت، وجاہت، دبدبہ اور تحکم کے ساتھ ساتھ ناز وغمزہ، بیباکی، چھیڑچھاڑ اور چہل کے عناصر بھی ملتے ہیں۔
اس کے علاوہ محبوب کے انداز واطوار، چال ڈھال، وضع قطع اور عادات وخصائص میں بھی ایک ایسی عورت کا پرتو دکھائی دینے لگا ہے جوگھروں میں اور محل سراؤں میں قید نہیں بلکہ ایک ایسی جگہ رہتی ہے جہاں پائلوں کی جھنکار اور پائل کا شور ہے اورجہاں ہر شخص آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ بے شک اس دور کی غزل میں اس ’’عورت‘‘ کا مثالی کردار پوری طرح نہیں ابھرا (اوریہ شاید اس لیے کہ غزل نے ہمیشہ روایت کا احترام کیا ہے اور وہ کسی انقلابی تبدیلی کو فوراً قبول کرنا پسند نہیں کرتی) تاہم اس رجحان کے شواہد ضرور ملتے ہیں۔ اس ضمن میں جراؔت، انشاؔ اورمصحفیؔ کے یہ اشعار قابل غور ہیں،
کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تواشارات کہیں اور
بال ہیں بکھرے، بند ہیں ٹوٹے، کان میں ٹیڑھا بال ہے
جراتؔ ہم پہچان گئے کچھ دال میں کالا کالا ہے
کیا رک کے وہ کہے ہے جو ٹک اس سے لگ رہوں
بس بس پر ے ہو شوق یہ اپنے تئیں نہیں
فرصت جو پاکے کہیے کبھو درد دل تو ہائے
وہ بد گماں کہے ہے کہ ہم کو یقیں نہیں
جراتؔ
عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا
گر نازنیں کے کہنے سے مانا برا ہو کچھ
میری طرف تو دیکھئے میں نازنیں سہی
انشاءؔ
انگڑائی لے کر مجھ پر اپنا خمار ڈالا
کافرکی اس ادا نے بس مجھ کو مار ڈالا
اٹھنے سے تیرے شور قیامت بھی گیا بیٹھ
اے فتنہ برخاستہ از بہر خدا دیکھ
کسی کو گرمیٔ تقریر سے اپنے لگا رکھا
کسی کو منہ چھپاکر نرمیٔ آواز سے مارا
مصحفیؔ
جرأتؔ، انشاءؔ اور مصحفیؔ کے ہاں معاملہ بندی کا یہ رجحان لکھنؤ کے اس دور کا واحد رجحان نہیں، کیوں کہ غزل کی ایک مضبوط روایت کے زیراثر ان شعرا کے کلام میں وہ رجحانات بھی کافی نمایاں ہیں، جنہیں متقدمین نے فروغ دیا تھا۔ تاہم ان شعرا نے ایک ایسے نئے رجحان کو ضرور مہمیز لگائی جو بدلتے ہوئے معاشرے میں روز بروز نکھر رہا تھا۔ یعنی انہوں نے محبت کی سنجیدگی، سپردگی اور انہماک کو چھیڑچھاڑ، بذلہ سنجی اور برجستہ گوئی میں تبدیل کردیا اور زندگی کی المناک اور سنجیدہ کیفیات کو تبسم کی جگمگاہٹ سے نرم اور گداز بنا دیا۔ اس کا فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔ نقصان اس طرح کہ محبت میں سطحیت سی آگئی اور آگے چل کر بعض شعراء مثلاً داغؔ اورحسرتؔ کے ہاں محبت محض معاملہ بندی کے اظہار تک محدود ہوکر رہ گئی اور فائدہ یوں کہ محبت محض قنوطیت کے حصار میں قید نہ رہی بلکہ اس میں نرمی، گھلاوٹ اور سبک روی کے عناصر داخل ہونا شروع ہوگئے اور ایسے شعرا منظرعام پر آنے لگے جو زندگی اورمحبت کی الم ناکی کو خندۂ استہزاء میں اڑا دینے کی طرف مائل تھے۔ غالبؔ کے ہاں یہ کیفیت اپنے بھرپور انداز میں ظاہر ہوئی۔
بہرحال جہاں تک اردوغزل کے محبوب کا تعلق ہے، جرأت اورانشاء کے زمانے سے اس کے اندازواطوار میں تبدیلی کا احساس ہوتا ہے اوراگرچہ اب بھی وہ ایک مخصوص کردار کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتا بلکہ ایک علامت کے طورپر ہی قائم رہتا ہے، تاہم یہ تبدیلی آئندہ دور کے بہت سے شعرا کے کلام میں صاف نظرآنے لگتی ہے۔
دل کو پوچھا میں نے وہ بولے
کہیں ہوگا میری بلا جانے
ناسخؔ
کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو مقابل کبھی حباب آیا
آتشؔ
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہرآن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مومنؔ
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر سے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
غالبؔ
البتہ ان شعراء میں مومنؔ کے ہاں ایک ایسی پردہ نشین عورت بھی نظرآتی ہے جس کے عشق میں مومنؔ نے بعض نہایت پرخلوص شعر کہے ہیں لیکن شاید غزل کی روایت سے مجبورہوکر مومنؔ نے بھی اس عورت کوغزل کے محبوب کی بہت سی صفات تفویض کردی ہیں۔ چنانچہ بعض انفرادی خصوصیات کے باوصف بحیثیت مجموعی مومنؔ اس زمانے کی غزل کے محبوب سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
شاعری کے ایک دور کو دوسرے دور سے جدا کرنا، اس لحاظ سے ایک کٹھن کام ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسی نئی تحریکیں جنم لے رہی ہوتی ہیں جوآنے والے دور کا طرۂ امتیاز قرار پاتی ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مختلف اور متنوع کیفیات و تحریکات کے باوجود ہر دور کا ایک مخصوص ’مزاج‘ ہوتا ہے جس کے باعث اسے دوسرے ادوار سے متمیز کیا جاسکتا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے پہلے کی غزل میں محبوب کی تصویرکشی اور محبت کے جملہ پہلوؤں کے بارے میں متعدد رجحانات ملےت ہیں۔
مثلاً امردپرستی کا رجحان جس کے زیراثر محبوب کو ایک خاص وضع قطع کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح خالص داخلیت کا رجحان جس کے تحت شاعر نے زیادہ تر ان قلبی واردات کو پیش کیا جو محبوب کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہیں۔ پھر خالص تصویرکشی اورمعاملہ بندی کا رجحان جسے لکھنؤ کے بعض شعراء نے فروغ بخشا اور جس کے تحت محبت میں چھیڑچھاڑ اور بذلہ سنجی کے عناصر داخل ہوئے تاہم بحیثیت مجموعی اس سارے دور میں اہم ترین رجحان وہی ہے جس کا شروع میں ذکر ہوا، یعنی اس دور میں محبوب کی صفات میں بادشاہ کی صفات منتقل ہوگئیں اورمحبوب کی روایتی بے نیازی اور ایذارسانی کے ساتھ ساتھ عاشق کی وفاداری اور ایذاپسندی کے رجحانات منظر عام پر آئے۔
یہ کیفیت غدر تک قائم رہی لیکن غدرمعاشرتی یا سماجی نقطہ نظر سے دوادوار کا مقام اتصال نہیں تھا کیونکہ غدر سے پہلے ہی ہندوستانی سماج کی بالائی سطح کے نیچے بعض نئی تحریکات نے جنم لے لیا تھا۔ تاہم اس لحاظ سے یہ ایک اہم واقعہ تھا کہ اس کے باعث ہندوستان کی مغل بادشاہت کا چراغ گل ہوگیا اور اس چراغ کے ساتھ ہی بہت سی ایسی روایات بھی داستان پارینہ بن کر رہ گئیں جو اس سے قبل ہندوستانی معاشرے میں اہم خیال کی جاتی تھیں۔ تفاصیل سے یہاں بحث نہیں البتہ موضوع زیربحث کے ضمن میں یہ بات قابل غور ہے کہ نئے دور میں اردو غزل کے محبوب میں وہ پہلی سی خونخواری، ایذارسانی اور بے نیازی کی کیفیات باقی نہ رہیں اوران کی جگہ بے باکی، چھیڑچھاڑ اور طعن و تشنیع کے عناصر واضح طورپر ابھر آے۔
چنانچہ فی الواقعہ نئے دور میں غزل کا محبوب ایک ’طوائف‘ہے۔ طوائف جو شائستہ اور مہذب لیکن ساتھ ہی بے باک اور چالاک عورت بھی ہے۔ اردو غزل کے محبوب میں طوائف کے کردار کی نمود سے جہاں یہ فائدہ پہنچا ہے کہ غزل گو شاعر واقعتاً ایک ’عورت‘ سے آشنا ہوا ہے وہاں طوائف کے مخصوص کردار کے باعث اس کی محبت میں سطحیت اور سستاپن بھی نمودار ہوا ہے اوراس کے جذبات محبت، محبوب سے چھیڑچھاڑ، فقرہ بازی اور طعن وتشنیع تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ بے شک غزل میں اس روش کا آغاز لکھنؤ کے زمانہ عروج میں ہوگیا تھا تاہم یہ اپنے بھرپور انداز میں غدر کے بعد ہی منظرعام پر آئی۔ داغؔ، ریاضؔ، حسرتؔ اور بالخصوص داغؔ کے شاگردوں کے ہاں غزل کے محبوب کا یہ نیاانداز بہت نمایاں ہے۔ یہ چند اشعار لیجئے،
انکار مے کشی نے مجھے کیا مزہ دیا
سینے پہ چڑھ کرے اس نے خم سے پلا دیا
پھر خدا جانے کہاں تم، ہم کہاں
عیش و عشرت کی یہی اک رات ہے
تم کو ہے وصل غیر سے انکار
اور جو ہم نے آکے دیکھ لیا
اک نہ ا ک ہم لگائے رکھتے ہیں
تم نہ ملتے تو دوسرا ملتا
اس کا کوچہ ہے کہ ایک عرصہ محشریارب
سیکڑوں طالب دیدار چلے جاتے ہیں
گالیوں میں ادا نکالی ہے
بات میں بات کیا نکالی ہے
داغؔ
غلط ہے آپ نہ تھے ہم کلام خلوت میں
عدو سے آپ کی تصویر بولتی ہوگی
میں اپنے خون کا بیڑہ اٹھاؤں خود کیوں کر
وہ پان دیتے ہیں شوخی سے مسکرا کے مجھے
گود میں جھٹ سے بس اٹھا لیجئے
چھم سے گھر میں کوئی آجائے
دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور ہوچکے
ریاضؔ
آنکھوں کے تبسم نے سب کھول دیا پردہ
ہم پر نہ چلا جادو اے چین جبیں تیرا
جب دیا تم نے رقیبوں کو دیا جام شراب
بھول کر بھی میری جانب کو اشارہ نہ کیا
جام اول وہ پی کے خود بولے
جام ثانی تجھے مبارک ہو
امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تیری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے
حسرتؔ موہانی
داغؔ کے کلام میں طوائف بہت نمایاں ہے۔ یوں بھی حجاب اور دوسری طوائفوں کے ساتھ داغؔ کے تعلقات کوئی رازہائے سربستہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کی محبت میں کسی انوکھی بلندی یا گہرائی کا سراغ لگانا بے کار ہے، بلکہ یہ کہنا ممکن ہے کہ ان کی محبت محض چھیڑچھاڑ، فقرہ بازی اورجنسی روابط تک محدود ہے اور اس میں سنجیدہ عناصر کا فقدان ہے۔ ریاضؔ کی محبوبہ بھی داغؔ کی محبوبہ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں اور ریاضؔ کی محبت میں بھی سطحیت کا احساس ہوتا ہے۔ رہے حسرتؔ موہانی تواگرچہ ان کے کلام کے مطالعہ سے مجموعی تاثر یہی مرتب ہوتا ہے کہ ان کا روئے سخن بھی ایک ایسی عورت ہی کی طرف ہے، جس پر طوائف پن مسلط ہے تاہم حسرتؔ کے ہاں پہلی بارایسی عورت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں جو محبت کو محض کاروباری نقطہ نظر سے نہیں دیکھتی بلکہ خودبھی محبت میں گرفتار ہے اور محبت کی کیفیت وکمیت کو بخوبی سمجھتی ہے۔ حسرتؔ کے کلام سے اس نئی عورت کی جھلکیاں دیکھئے،
میں بے خبر غم تھا مگر وہ دم رخصت
دیکھا کیے مڑمڑ کے مجھے حد نظر تک
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال توشرما کے رہ گئے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بیباک ہوجانا مرا
اور تیرا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
آگیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق
وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے
بیسویں صدی میں اردوغزل کا محبوب ایک بالکل نئے روپ میں منظرعام پر آتا ہے۔ یہ نیا روپ ایک ایسے نئے معاشرے، ایک ایسی نئی تہذیب کا پرتو ہے جو بیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی برق رفتاری سے پھیلنے لگی ہے۔ اب نہ صرف جمہوریت اور حب الوطنی کے ایک مضبوط تصور نے بادشاہت کے تصور کی جگہ لے لی ہے بلکہ عورت بھی صدیوں کی گہری نیند سے گویا بیدار ہوگئی ہے اوراس کے انداز واطوار سے خودداری او ر وقار مترشح ہورہا ہے۔ چنانچہ نئی صدی میں طوائف سوسائٹی کا مرکز نہیں رہی اور اردو غزل کے محبوب میں ایک عورت کا پرتو صاف دکھائی دینے لگا ہے۔ حسرتؔ کے کلام میں اس نئی عورت کے وجود کا احساس ہوتا ہے اور ان کے بعد دوسرے غزل گوشعرا کے ہاں تواس نئے رجحان نے ایک واضح اور قطعی صورت اختیار کرلی ہے۔
یہ نئی عورت حرم کی چاردیواری کے اندر رہنے والی ایک روایتی ’گونگی‘، ’اندھی‘ اور’بہری‘ عورت نہیں۔ اس کے برعکس اس عورت کو نہ صرف احساس حسن ہے بلکہ وہ زندگی کی دوڑ میں بھی خود کو مردکا ہم پلہ سمجھتی ہے اورزندگی کی مسرتوں میں خود کوبرابر کا حصہ دار قرار دیتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ بھی ہے اور طرار بھی۔ اس میں محبت کرنے کی صلاحیت بھی ہے اوراس نے نئی روشنی کے تحت نئے رجحانات کو قبول بھی کرنا شروع کردیا ہے۔ اردوغزل نے اس نئی صورت حال اور اس نئی عورت سے واضح اثرات قبول کیے ہیں اوراس کے محبوب میں نئی عورت کے بہت سے میلانات سمٹ آئے ہیں۔
نئی عورت کی ذہنی بلندی، نزاکت اور شعریت کے پیش نظر غزل گو شاعر کو اظہار عشق میں کسی سپاٹ یا بے حد جذباتی طریق کے بجائے ایک ایسا پیرایہ بیان اختیار کرنا پڑا ہے جس میں لطیف اشاراتی عناصر کی فراوانی ہے۔ اس سے بیشتر اوقات شاعر کے جذبات محبت میں عجیب سے ضبط و امتناع کا احساس بھی ہوتا ہے، جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خودشاعر کے ہاں سوچ کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں غزل گو شاعر کے ہاں جذبے اور فکر کا ایک خوشگوار امتزاج رونما ہوا ہے، جس کے باعث جذبات محبت میں ضبط، توازن اور رفعت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ چند اشعار قابل غور ہیں۔
اک فسوں ساماں نگاہ آشنا کی دیر تھی
اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے
فراقؔ
کبھی تم یاد آتے ہو کبھی دل یاد آتا ہے
ہر اک بھولا ہوا منزل بہ منزل یاد آتا ہے
حفیظؔ ہوشیارپوری
حسن پابند رضا ہو مجھے منظور نہیں
میں کہوں تم مجھے چاہو مجھے منظور نہیں
حفیظ جالندھری
خیر ہو تیری کم نگاہی کی
ہم کبھی بے نیاز غم نہ ہوئے
باقیؔ صدیقی
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
فیضؔ
جذبات محبت کے اظہار میں یہ سمٹا سمٹا سا انداز اس بات پر دال ہے کہ شاعر بتدریج محبت کے ایک محدود ماحول سے اوپر اٹھ کر عشق کی ارفع اور وسیع تر فضا میں سانس لینے لگا ہے اوراس کے ہاں ایک گہری لگن اور کسک سطح کے نیچے چلی گئی ہے۔ اس کے دوضمنی نتائج بھی برآمدہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض غزل گو شعرا کے ہاں محبوب ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کی منزل نہیں رہا، کیوں کہ محبوب سے قرب کے باوصف شاعر کی ذہنی تشنگی بدستور قائم ہے۔ اس سے غزل میں محبوب کی مرکزی حیثیت کوایک صدمہ پہنچا ہے۔ دوسروں کے ہاں محبوب نے واضح طورپر ایک نصب العین یا آئیڈیل کاروپ دھار لیا ہے اورانہوں نے اپنے مسلک کے اظہار میں محبوب کومحض روایتاً مخاطب کیا ہے۔ یہ چند اشعار ان نئے رجحانات کی غمازی کرتے ہیں،
تیرا کرم کرم ہے مگراس کا کیا علاج
ہم نامراد خاک بسر مطمئن نہیں
احسان دانشؔ
مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
معاملات من و تو نکل ہی آتے ہیں
تاثیرؔ
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
فیضؔ
خبر نہ تھی کہ غم یار جس کو سمجھے تھے
اسی کا روپ غم روزگار ٹھہرے گا
عابدؔ
آپ اسے جو چاہیں کہہ لیں عشق کبھی کہتے تھے لوگ
ہم سے دل کی بات جواب پوچھو تو ایک کسک تک ہے
قیوم نظرؔ
ہمارے عشق سے درد جہاں عبارت ہے
ہمارا عشق ہوس سے بلند وبالا ہے
ظہیرؔ کاشمیری
بحیثیت مجموعی غزل کے جدیدترین دور میں محبوب نے یقیناً ایک نیا روپ اختیار کرلیا ہے، تاہم قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جدید دور میں بھی غزل کی ایک مضبوط اورپائیدار روایت کے زیراثر محبوب کے سراپا میں کوئی ایسی جیتی جاگتی عورت نظر نہیں آتی جس کی اپنی ایک انفرادیت ہواور جو اس انفرادیت کے باعث انبوہ سے قطعاً علیحدہ نظر آرہی ہو۔ چنانچہ جدید دورمیں بھی غزل کا محبوب ایک مثالی ہستی ہے اور اس میں نہ صرف اس دور کی ایک ’مثالی عورت‘ دکھائی دیتی ہے بلکہ اس میں چند ایسی صفات بھی ہیں جو شعرا کے اجتماعی ردعمل سے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ صورت حال غزل کا تاریک ورق نہیں ہے بلکہ اس سے غزل کے اس بنیادی رجحان کا پتہ چلتا ہے جس کے زیراثر غزل گو شاعر نے حقیقت کے تجزیاتی مطالعہ کے بجائے اس پر ہمیشہ ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے اور زندگی کو کرداروں یا ٹکڑوں کے بجائے مثالی نمونوں یا ثابت حقیقتوں کے پیکر میں پیش کیا ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں