مہر فاطمہ
شمس الرحمن فاروقی اردو دنیا یا دنیا ئے ادب میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ان کو مشرقی و مغربی دونوں ادب پر یکساں عبور حاصل تھا۔اردو ادب میں شاعری،فکشن ،تنقید،تحقیق،داستان،لغت،عروض،اور ترجمہ غرضیکہ ہر میدان میں ان کے کارنامے سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔اثبات و نفی، لفظ و معنی،اردو کی ابتدائی زمانہ،انداز گفتگو کیا ہے،شعر غیر شعر اور نثر،افسانے کی حمایت میں،گنج سوختہ،لغات مرہ ،عروض آہنگ اور بیان ،تعبیر کی شرح ،تفہیم غالب اور میریات کے حوالہ سے سب سے اہم کتاب’ شعر شور انگیز‘(چار جلدیں)وغیرہ وغیرہ۔اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں ہیں جن میں سے ایک ’اردو غزل کے اہم موڑ‘ ہے۔جس کا موضوع کلاسیکی اردو شاعری کی شعریات ہے۔یہ کتاب غالب اکیڈمی میں پیش کئے گئے خطبہ پر مشتمل ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے ۲۷ جولائی ۱۹۹۶ کو یہ خطبہ پیش کیا تھا۔ ۸۶صفحات پر مشتمل اس خطبہ میں ایہام ،رعایت اور مناسبت جیسی کلاسیکی اصطلاحات پر تفصیل کے ساتھ بحث گئی ہے ۔اس کا پیش لفظ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کا لکھا ہوا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے کلاسیکی نظام شعر میں ایہام ،رعایت اور مناسبت کی بات کی ہے۔ابتدا میں انہوں نے’ معنی اور مضمون‘کے فرق کی وضاحت بالتفصیل کی ہے اور بتایا کہ پہلے یہ دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوجاتے تھے لیکن جب معنی آفرینی کی شاعری کی ابتدا ہوئی اس میں فرق کر لیا گیا۔اس ذیل میں انہوں نے مشرق و مغرب کے ادبا و شعرا کے تعلق سے بھی بات کی مثلا عبدالقادر جرجانی،قدامہ ابن جعفر،رچرڈس،ایمپسن اور صائب،بیدل،غنی، اور سودا وغیرہ ۔اسی بحث میں انہوں نے مضمون آفرینی کی بھی تعریف بیان کی ۔پھر رعایت کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ رعایت ہمیں زبان اور اس کے امکانات زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں ،معنی کے غیر متوقع پہلوؤں کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتی ہے اور زبان ہماری کائنات کااہم ترین عنصر ہے۔یعنی زبان نہیں تو کائنات نہیں۔کائنات کے بارے میں بیانات زبان ہی کے ذریعہ ممکن ہیں،اس لئے رعایت کو کثیر الاطلاق چیز ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک رعایت کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔بلکہ وہ رعایت کو بھی ایک طرح کا ایہام خیال کرتے ہیں۔رعایت اور ایہام کے درمیان انہوں نے یہ فرق بتایا ہے کہ رعایت میںقریب کے معنی مراد لئے جاتے ہیں اور معنی بعید اسی جگہ کے کسی اور لفظ یا فقرے سے مناسبت رکھتاہو۔یعنی رعایت کے دونوں معنی معنوی امکانات کو مضبوط کرتے ہیں۔جبکہ ایہام میں ایسا نہیں ہے۔میرنے اپنے تذکرہ ’نکات الشعراء ‘میں ایہام کی جو تعریف کی تھی وہ یہ ہے کہ’ معنی ایہام اینست کہ لفظے کہ بروے بنائے بیت بود آں دو معنی داشتہ باشد ،یکے قریب و یکے بعید وبعید منظور شاعر باشد وقریب متروک او‘۔شمس االرحمن فاروقی نے بھی’اردو غزل کے اہم موڑ ‘میں میر کی یہ عبارت نقل کی ہے اور اس عبارت پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے ایہام کی بھی کئی قسمیں بیان کی ہیں ۔مثلا ایہام تضاد ،ایہام تنا سب ،ایہام پیچیدہ ،ایہام صوت ،ایہام مساوات۔اس طرح ایہام سادہ کے علاوہ ایہام کی پانچ اور قسمیں ہو جاتی ہیں۔ایہام کے سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی نے سب سے اہم بات یہ اٹھائی ہے کہ اٹھارہویں صدی کے اوائل میں ایہام گوئی کے تعلق سے نہ تو کوئی تحریک قائم ہوئی اور نہ ایہام کوئی کی مخالفت میں کوئی تحریک چلائی گئی ۔ شمس الرحمن فاروق کے اس خیال سے قبل ایہام گوئی کے تعلق سے رائے یہی تھی کہ سترہویں صدی کے اوائل میں ایہام گوئی کی تحریک شروع ہوئی ۔انعام اللہ خاں یقین اور مرزا مظہر جان جاناں کی تحریک کی وجہ سے ایہام گوئی کا خاتمہ ہوا۔شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے کہ’ کلاسیکی روایت میں کسی طرز یا اسلوب کو من حیث الجماعت اختیار کرنے کی رسم کا وجود ہی نہیں‘۔وہ ایہام گوئی کی روایت کو ایک فیشن کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں اٹھارہویں صدی کے اوائل میں ایہام گوئی معنی یابی ،تلاش لفظ تازہ اور طرز تازہ اختیار کرنے کاوسیلہ تھی اور یہ کہ ایہام گوئی ایک فیشن تھا جو وقت کے ساتھ ختم ہوگیا۔
شمس الرحمن فاروقی نے جن ایہام گویوں کا ذکر کیا ہے بلا شبہ ایہام گوئی کی تاریخ میں ان کی خدمات اہم ہیں ۔ان کے زمانے میں جس طرح کی ایہام گوئی ہوئی تھی وہ بعد کے ایہام سے بہت مختلف تھی ۔آبرو ،ناجی ،یقین ،حاتم کے زمانے میں شعرا نے ایہام کو فریضۂ شعر بنا لیا تھا۔ایہام کو فریضہ شعر بنا لینے کا مطلب یہ تھا کہ شعر محض صنعت ایہام میں اپنی قدرت ظاہر کرنے کے لئے کہا گیا ۔ اس وجہ سے رکاکت اور ابتذال بھی شعر کا حصہ بنا ۔پامال اور اوچھے مضامین باندھے گئے ۔پھر یوں ہوا کہ شعر محض ایہام کے لئے ہی کہا جانے لگا۔لیکن اس کے باوجود بڑے شعرا یعنی آبرو ،یقین ،ناجی ،حاتم ،ان کے بعد میر،سودا اور درد وغیرہ کے یہاں ایہام سے خاطر خواہ کام لیا گیا۔ان کے یہاںقرأت کے عمل میں ایہام ابھرا ابھرا سا محسوس نہیں ہوتا۔ان لوگوں نے بعد میں صنعت ایہام کو نہا یت فنی چابک دستی سے استعمال کیا اور اس سے معنی آفرینی کا کام لیا۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس اقتباس کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایہام گوئی انعام اللہ خاں یقین اور مرزا مظہر کی تحریک پر ختم نہیں ہوئی ایہام گویوں کے رخصت ہونے کا ساتھ ساتھ ایہام گوئی کا فیشن دھیرے دھیرے ختم ہو گیا۔ تحریک ایہام گوئی کے نظریہ کے بالمقابل شمس الرحمن فارو قی کی یہ دلیل بہت مناسب معلوم ہوتی ہے۔ شمس الرحمن فارو قی کے نزدیک ایہام کلاسیکی غزل کی شعر یات کا اہم حصہ ہے بلکہ وہ تو رعایت کو بھی ایہام ہی کا ایک جز خیال کرتے ہیں ۔ایہام اور رعایت کے بعد شمس الرحمن فارو قی نے مناسبت کا ذکر بہت تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔مناسبت کو وہ ایہام اور رعایت دونوں کے مقابلہ میں زیادہ مشکل خیال کرتے ہیں ۔مناسبت کی خوبیوں کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں ۔
’’مناسبت کے معنی ہیں ایسے الفاظ کااستعمال جو کسی اور لفظ کے معنی کو زیادہ کرے یا اسے مزید قوت اور وسعت ،یا گہرائی عطاکرے‘‘
(اردو غزل کے اہم موڑ ،شمس الر حمن فاروقی غالب اکیڈمی،بستی حضرت نظام الدین ،ص۸۹)
ابتدائیہ میں انہوں نے رعایت اور مناسبت کے درمیان فرق بیان کیا ہے ۔اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں۔
’’مناسبت کو بھی پرانے لوگ رعایت کے عالم سے سمجھتے تھے ،کیونکہ مناسبت کی بھی شرط یہی ہے کہ کلام میں الفاظ یا فقرے ایسے ہوں جن کا آپس میں معنوی علاقہ ہو لیکن ان دونوں میں ایک بنیادی فرق بھی ہے۔رعایت میں الفاظ یا فقرہ کے مابین معنی کے علاقے کا محض گمان گزرتاہے اور مناسبت میں معنی کا علاقہ واقعی ہوتاہے۔مناسبت کے ذریعہ شعر کے معنی میں جو افزائش اور استحکام وجود میں آتاہے و ہ رعایت کے بس کا نہیں یعنی مناسبت کے معنی ہیں کلام میں ایسے الفاظ کا استعمال جو اپس میں معنوی علاقہ رکھتے ہوں اور جو کلام کے معنی میں اضافہ کریں،یا اسے مزید قوت ،وسعت ،یا گہرائی عطا کریں‘‘۔
شمس الرحمن فاروقی کا خیال ہے کہ اردو شعرا نے ایہام ،رعایت اور مناسبت جیسے معنی آفرینی کے طریقے خود دریافت کیے ہیں ۔پھر وہ یہ کہتے ہیں کہ کلاسیکی نظام شعر میں ان اصطلاحات کے رائج ہونے کے بعد تقریبا سو سال تک کوئی نیا موڑ نہیں آیا۔ان اصطلاحات کے بعد شمس الرحمن فاروقی خیال بندی کو ایک اہم موڑ خیال کرتے ہیں ۔شمس الرحمن فاروقی نے خیال بندی کو رائج کرنے کا سہرا شاہ نصیراور ناسخ کے سر باندھا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے بقا اکبرآبادی کا بھی نام لیا ہے۔کلاسیکی نظام شعر اور خیال بندی کے سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی ناسخ کو زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ فاروقی صاحب نے اس امکان بھی اظہارکیا ہے کہ شاہ نصیر نے اپنے اولین دور میں عام طرز شاعری اختیار کی ہو گی۔یعنی ان کی ابتدائی شاعری کا رنگ وہی ہوگا جو میر سودااور درد کی شاعری کا رنگ تھا۔امکان اس بات کا بھی ہے کہ شاہ نصیر کے کلام کا رنگ ابتدائی زمانے میں اس قدر واضح نہ ہوا ہوگا جتنا بعد میں ظاہر ہوا۔لیکن ناسخ کے کلام کا رنگ ابتدا ء سے ہی عام طرز شاعر ی سے بہت مختلف تھا ۔ مصحفی نے بھی اپنے تذکرے میں انہیں طرز نو کا موجد کہا ہے جبکہ شاہ نصیر کے تعلق سے مصحفی نے یہ بات نہیں کی ہے۔بہر حال خیال بندی کے حوالے سے کسے اولیت حاصل ہے اور کسے نہیں اس کا انحصار بہت حد تک مصحفی کے قول پر ہے اور حتمی طور پر کوئی بات کہنی محال ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے بھی اس سلسلے میں تشکیک کا اظہار کیاہے۔شمس الرحمن فاروقی خیال بندی کی اولیت کا سہرا ناسخ کے سر باندھتے ہیں ۔ ان کی رائے ہے کہ خیال بندی کے حوالے سے پہلا نام اگرچہ ناسخ کا نہ ہولیکن سب سے موثر نام ناسخ کا ضرور ہے۔جس زمانے میں خیال بندی رائج ہوئی وہ غالب کی پیدائش سے ۵،۷ سال قبل کا زمانہ تھا۔ظاہر ہے کہ ۱۷۹۷ غالب کی پیدائش کا سال ہے۔ ناسخ نے تقریباًغالب کی تاریخ پیدائش سے ۷ سال قبل ایک نئے طرز میں شاعری کا آغاز کیا۔اس طور سے غالب سے قبل ہی وہ زمین اور ماحول سازگار ہو چکا تھا جسے بعد میں غالب نے اپنے طور سے استعمال کیا۔شمس الرحمن فاروقی غالب کو کلاسیکی نظام شعر کا آخری شاعر خیال کرتے ہیں ۔یعنی وہ نظام شعر جو سترہویں صدی کے اواخر سے شروع ہوا تھا ، اٹھارہویں صدی اور نصف انیسویں صدی پر محیط تھا غالب کی وفات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ۔
شمس الرحمن فاروقی مجموعی طور آتش کے مقابلہ ناسخ کو زیادہ بڑا شاعر خیال کرتے ہیں ۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسخ کے کلام کو پڑھے اور سمجھے بغیر کوئی قاری کلاسکی شعر ی روایت کو نہیں سمجھ سکتا۔ان کے نزدیک آتش اور ناسخ ایک طرح کے شاعر اس وجہ سے ہیں کیونکہ دونوں کے کلام میں کلاسیکی نظام شعر کی پیروی کی گئی ہے۔اور پھر آتش کے مقابلے میں ناسخ کے مضامین زیادہ تازہ اور تجریدی ہیں۔ناسخ کے کلام میں جنسیت کم ہے ،حس مزاح اور خوش طبعی زیادہ ہے ۔دراصل شمس الرحمن فاروقی احساس اور کیفیت اور تاثر پیدا کرنے کے مقابلے میں شعر سازی کے عمل ہی پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں ۔ان کے نزدیک شاعر ی شخصیت کا اظہار نہیں ہے اور نہ اس میں زمانے وغیرہ کا عکس نظر آتاہے۔وہ شاعری اور شخصیت کو ایک ساتھ ملا کر دیکھنے کی طرف امادہ نہیں ہیں۔وہ اسی وجہ سے شبلی اور حالی کی تنقید سے نالاں ہیں کہ ان لوگوں نے شاعر ی اور شاعر کی شخصیت کو ایک وحدت کے طور پر دیکھا ہے۔ خود میر کی شاعر ی کو ایک زمانے تک دل اور دلی کا مرثیہ کہا گیا ۔میر کی شاعری میں ان کی شخصیت اور زندگی کا عکس تلاش کیا گیا ۔سودا کی معاشی صورت حال میر کے مقابلے بہت بہتر تھی ۔لہذا ان کی شاعر ی میں خوش طبعی اور خارجیت شعوری طور پر تلاش کی گئی۔شاعر کے کلام میں اس کی ذاتی زندگی کا عکس تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ اس کے کلام میں محض ا س کی زندگی ہی تلاش کی جائے یا اس کی زندگی کی روشنی میں اس شاعر کے کلام کو دیکھا جائے ۔محاسبہ کے اس عمل نے بھی شاعر ی کی تنقید کو خاصہ نقصان پہنچایا ہے۔
ناقدین نے اردو غزل کو زمانے اور سماج کی روشنی میں بھی دیکھا ہےلیکن جو غزل کی بنیادی شعریات تھیں ،غزل جن شعریات سے بنتی ہےیا جن شعر یات کی بنا پر غزل کا آغاز و ارتقار ہوا، اس طرف عموماً توجہ نہیں دی گئی۔اس طرف دیکھنے کی ضرورت تھی کہ غزل کے داخل میں کو نسا لسانی نظام کام کر رہا ہے۔اس پورے نظام کو شمس الرحمن فاروقی نے چند اصطلاحوں کے ذریعہ پیش کیاہے۔اس میں ایہام ، رعایت اور مناسبت وغیرہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔یہ پہلی بار ہوا تھا کہ پوری غزل کی صنف کو خاص طور سے کلاسکی اردو غزل کی روایت کو شمس الرحمن فاروقی نے نشان زد کیا۔کلاسیکی اردو غزل سمجھنے کے لئے ایک بنیاد قائم کی ۔کلاسیکی اردو غزل کے تعلق سے یہ اتنی بڑی عطا ہے کہ پھر اس کے سامنے کہیں اور نگاہ نہیں ٹھہرتی ۔ایک صنف جو اپنے مخصوص دور اور حالات میں پروان چڑھی اور اس کو نئے زمانے میں کیسے سمجھا جائے ۔
آج ہم کلاسیکی اردو غزل کی جتنی بھی تعبیریں کر لیں لیکن اس موقف سے ہم ہٹ نہیں سکتے جو ہمیں شمس الرحمن فاروقی نے بتایاہے۔کسی کو اس بات سے اختلاف ہو سکتاہے کہ ادب کی دنیا ایہام ،رعایت اور مناسبت جیسی اصطلاحات سے بہت آگے نکل جاتی ہے۔کوئی شاعر ان اصطلاحات کو برتنے کے لئے شاعر ی نہیں کرتا۔اس کا جواب خود شمس الرحمن فاروقی نے بھی کئی موقعوں پر دیا ہے کہ ایک نظام شعر ہے جس کی پیروی تمام کلاسیکی شعرا ء نے کی ہے۔اس عہد میں کوئی ایک ایسا شاعر نظر نہیں آتا جو اس نظام شعر سے علاحدہ ہو کر شعر کہہ رہا ہو۔یہ سلسلہ غالب تک چلتا رہا اور اس کے بعد بھی کئی نام ایسے ہیں جو کلاسیکی نظام شعر کے ذیل میں لئے جا سکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے اردو غزل کی جو شعریات مرتب کی ہیں اردو غزل کے مطالعے کا ایک نہایت اہم پہلو ہے۔جنہیں اس طور کے مطالعہ سے اختلاف ہے یا جولوگ اس طور سے اردو کلاسیکی غزل کو دیکھنے پر آمادہ نہیں ہیں، انہیں یہ آزادی ہے کہ وہ اپنے طور اردو غزل کو دیکھیں اور پڑھیں۔
شمس الرحمن فاروقی نے کلاسیکی اردو غزل کی ان خوبیوں ایک مرکزی فکر کے طور پر تلاش کیا اور انہیں بنیادوں پر کلاسیکی اردو غزل کو دیکھا۔ اس شعر یات کے تعلق سے نقادوں نے یہ بات بھی کہی ہے کہ یہ بہت جامد شعر یات ہے اور اتنے دن گزرنے کے بعد ہم اسے مستقل اس طور پر نہیں پڑھ سکتے ۔اس شعریات کے تعلق سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر ہم اتنے دنوں میں اس کی کوئی دوسری تعبیر نہیں کر سکے تو پھر اس شعر یات کی روشنی میں کب تک ہم کلاسیکی اردو غزل کو پڑھیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ’ اردو غزل کے اہم موڑ‘ در اصل ادب کو ادب کی طرح پڑھنے کا ایک زاویہ عطا کرتی ہے۔اس کے پس منظر میں بھی وہی فکر کارفرما ہے جسے ہم جدیدیت کے نام سے جانتے ہیں۔اس کتاب کو پڑھ کر بھی خالص ادب کا تصور ابھرتاہے۔ایہام ،رعایت اور مناسبت وغیرہ کا بنیادی تعلق زبان سے ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے کلاسیکی اردو غزل کی جو شعریات طے کی ہے وہ اسی جدیدیت سے تعلق رکھتی جسے ہم شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے جانتے ہیں۔
جو لوگ شمس الرحمن فاروقی سے یہ شکایت کرنے لگے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو جدیدیت کی طرف لگا دیا اور خود کلاسیکس کی طرف چلے گئے، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ شمس الرحمن فاروقی نے کلاسیکس اور جدیدیت کے درمیان ایک رشتہ قائم کیا ہے۔ان کی نظر میں جو کلاسیکیت تھی وہ اپنی قدامت کے باوجوداسی تصور کی حامل تھی جو تصور جدیدیت میں کارفرما ہے کہ ادب کو ادب کی طرح پڑھو او رادب بنیادی طور پر خود مختفی نظام ہے ۔اس میںسماجی شعور اور سماجی حسیت جیسی چیزیں اضافی حیثیت رکھتی ہیں۔ہم نے جدید زمانے میں یہ ساری اشیاء کلاسیکی غزل میں تلاش کرنے کی کوشش کی ورنہ توبنیادی طور پر جو ہماری کلاسیکی غزل ہے وہ کسی تجربے کا اظہار نہیں ہے،کسی زمانے کا عکس نہیں ہے،کوئی سماجی حسیت نہیں ہے بلکہ وہ تو بذات خود ایک خود مختفی نظام ہے۔مضمون پر مضمون بنانا اور پرانے مضمون کی روشنی میں نیا مضمون قائم کرنا ہی در اصل کلاسیکی غزل کی شعر یات ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں