ابراہیم اعظمی
گولہ گنج لکھنو
بھوک کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، بیماری کی کوئی قوم نہیں ہوتی، بے بسی کی کوئی ثقافت نہیں ہوتی، دکھ کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا، غربت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ جہاں بھی چلے جائیں سب کچھ سمیٹ لیتے ہیں۔ایک طرف گھر کی زمداری تودوسری طرف بڑھتی عمر کا غم سینے میں دبائے یونس ہوٹل کے ٹیبل صاف کررہا تھا۔آج ہوٹل میں کافی بھیڑ تھی سب لوگ چائے پیتے ہوئے اپنے اپنے دکھ اور مسلے سلجھانے کی کوشش کررہے تھے۔چائے اور سیگریٹ یہ انسانی غم اور دکھ کو زائل کرنے کا ایک بہترین حربہ بن چکے ہیں۔ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی خاطر ہر کوئی اس نیم شرابی کا سہارا لیئے ہوئے ہے۔چائے بھی ایک نشہ ہے زیادہ دیر ہوئے تو طلب ہوجاتی ہے ۔
ہادی آج بہت دنوں بعد عاقل سے ملا تھا ۔دانش ہوٹل پر چائے پینے کہ غرض سے عاقل کے ساتھ گیا۔ایک سرسری نگاہ ڈالی تو دیکھا کوئی ٹیبل خالی نہیں ہے۔اسٹیشن کے سامنے ہونے کی وجہ سے اس ہوٹل پر بھیڑ دن رات رہتی ہے ۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر لکھنو سی ٹی اسٹیشن قریب ہے اور دوسری بات یہاں پر چائے بالائی کے ساتھ خالص بھینس کے دودھ سے بنی ہوئی دی ہے لکھنو شہر میں کچھ چیزیں بہت مشہور ہیںلکھنو کھانے کے معاملے میں پورے ہندوستان میں شہرت یافتہ ہے۔اگر چہ کہ یہاں کی زبان ان تمام اشیاء میں اور زیادہ مٹھاس ڈال دیتی ہے۔ کشادہ ہوٹل ہونے کی وجہ سے کثیر تعداد میں لوگ بیٹھے تھے عاقل کی نگاہ بائیں جانب گوشے میں پڑی جہاں پر ایک ٹیبل خلای تھی ہادی سے کہا چلو وہاں بیٹھتے ہیں۔ابھی دونوں بیٹھے کر اطمنان کا سانس بھی نہیں لے پائے تھے کہ یونس دبے قدموں سے مہذب انداز میں وارد ہوا:
’’جی بتائیں لیں گے آپ؟؟
’’ہادی نے دو چائے لانے کا آرڈر کر دیا اور مسکراتے ہوئے کہا محبت والے کپ میں لانا‘‘
’’جی ٹھیک ہے التجانہ انداز میں یونس نے کہا:اور کچھ ناشتہ وغیرہ؟؟
’’عاقل بڑے غور سے یونس کے انداز گفتگو کو دیکھ رہا تھا۔ جناب ابھی کچھ نہیں کچھ دیر کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو زحمت دی جائے گی‘‘
’’جی حکم کہہ کر یونس چلا گیا‘‘
’’یونس کے جانے کے بعد ہادی سے عاقل سے سوال کرنے لگا۔
’’یہ بتاو کہ تم نے اسے کیا کہا ہے محبت والی چائے۔اس کا کیا مطلب ہے؟؟
میرے بھائی یہ دراصل مہنگائی کا دوسرا نام ہے۔اب یہاں پر دس روپیہ سے کم کی چائے نہیں ملتی ہے مہنگائی اس قدر چوٹی پر ہے کہ ہوٹل والوں نے چائے کی مقدار کم نہیں کہ بلکہ چائے کا کپ چھوٹا کردیا۔اور یہاں پر زیادہ تر اسٹوڈنٹ گراہک ہوتے ہیں اس کپ کا نام کوڈ روڈ میں محبت والا کپ رکھ دیاگیا۔کسی کو برا بھی نہیں لگتا اور چائے بھی پانچ روپیہ میں پی لیتے ہیں۔
’’خیر یہ بتاو جاب کیسی چل رہی ہے؟؟
’’کیسی جاب؟؟ تعجب کرتے ہوئے ، ہمارے ہندوستان میں پچھلے دس سال سے کوئی جاب کا گمان نہیں ہے۔جو رہی سہی جاب تھی وہ سب ختم ہوچکی ہے۔ہادی ان اقتصادی حالات پر بحث کرتے ہوئے کہا:
’’یار عاقل ایک بات کہتا ہوں برا مت ماننا ۔
’’ہم ٹھہرے اردو کے طالب علم اور اردو زبان میں ہم چاہے پی ایچ ڈی کرلیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے‘‘
میں یہیں وزیر گنج میں کرائے کے روم پر رہتا ہوں اور میرا روم پارٹنر بی ٹیک انجینئر ہے چار سال جاب کیا اس کی اتنے سالوں میں بارہ ہزار تنخواہ تھی۔اس نے نوکری کرنا ہی بند کردیا۔اب گھر جا کر کھیتی کررہا ہے۔تو اب سوچوکہ ہم اردو والے کونسا تیر چلا لیںگے۔افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عاقل نے کہا:
’’ یار تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں بھی دہلی میں چار سال سے نوکوی تلاش کررہا ہوں کہیں کوئی سراغ نہیں ملا رہا‘‘
’’یار یہ زندگی کیسے کٹے گی سمجھ نہیں آرہا ہے۔اتنے میںیونس چائے لے کر حاضر ہوا‘‘
’’یہ لیجئے چائے آپ کی۔چائے لاتے ہوئے یونس عاقل کے الفاظ سن چکا تھا،زندگی کٹے گی کیسے؟؟؟؟؟
’’مسکراہٹ کے ساتھ یونس نے ایک بات بولا۔
’’بھائی جان ایک بات بولوں برا مت مانئے گا‘‘۔
’’میں بھی تعلیم حاصل کررہا تھا یہ سوچ کر کہ ایک بڑی سی آفس میں کام کروں گا۔گھر میں آسائشوں کا ریلا ہوگا۔اونچے گھر میں شادی ہوگی ،عیش کی زندگی گزاریں گے ۔مگر قمست کا کوئی بدل نہیں سکتا۔میں نے بی ایس سی کیا ہے۔اور بارہ سال سے اس ہوٹل پر کام کررہا ہوں اور آپ جیسے نہ جانے کتنے لوگ یہاں آکر چائے پیتے ہوئے نوکری تلاش کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ چلیں گے تو خوش رہیں گے۔اتنا کہہ کر یونس چلا گیا۔ برسات کاموسم ساون کا مہینہ ہو اور بارش نہ ہو ایسا ہو نہیں سکتا۔ ایک گرج آسمان میں کڑکی جسے سب نے محسوس کیا ۔ہو ٹل کے سارے لوگ ایک دفعہ سہم گئے۔لیکن ایک اور گرج عاقل سے دل میں اٹھی جس سے عاقل کے پانچوں ہواس باختہ ہوئے۔ یونس کے الفاظ اس کے دلو دماغ پر گردش کررہے تھے۔چائے کاگھونٹ اسے کڑوا محسوس ہونے لگا ۔باہر تیز بارش کی بوچھار ہورہی تھی راہ گیر بارش سے بچنے کے لئے ہوٹل کے باہل کھڑے تھے ۔دوسری طرف گھر والوں،پڑوسیوں،رشتہ داروں کے طعنے سے بچنے کے لئے نوابوں کے شہر میں خاک چھانتے ہوئے دو بے کس کے لئے کوئی سایہ نہیں۔خیالات کی دنیا میں کھویا ہوا عاقل ایک بار پھر ہادی سے کہا۔
’’ہادی تمہاری زندگی کیسی کٹ رہی ہے ہم تین سال بعد ملے ہیں‘‘
’’کھسیانی ہنسی منھ پر لادے ہادی نے کہا‘‘
’’یار میرا تو وہی پرانی روش ہے ہوم ٹیوشن پڑھاتا ہوں،اب اتنی آمدنی ہے نہیں کہ شادی بیاہ ہو نہ بیوی بچوں کی ذمہ داری سر پر آئے۔یہی ہماری زندگی ہے اس کی بات کاٹتے ہوئے عاقل بولا:
’’یار تعلیم حاصل کرنا ذہنی آزادی کا دوسرا نام ہے اور یہ ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا ہے ہم ذہنی اور ملکی طور پر آزاد تو ہیں لیکن نفسیاتی طور پر ہم آج بھی اپاہج اور غلام ہیں۔حکومت نے ہمیں ایسا بننے پر مجبور کردیا ہے۔ایک طرف موبائل کا نشہ دوسری طرف نفرت کی سیاست نے ہم سب کا گلا گھونٹ دیا ہے۔افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہادی نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو۔ہم سب کو آزادی کبھی نہیں ملی۔ابھی یہ دونوں بات ہی کررہے تھے کہ یونس مسکراتے ہوئے پھر حاضر ہوا۔
’’اور کچھ لائیں کھانے کے لئے‘‘
’’اس بار دونوں یونس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگے‘‘
اسکے چہرے پر ایک اطمینان تھا۔خوشی کی لہر تھی مسکراتا چہرہ،فربہ جسم،ہاف ٹی شرٹ جو نصف مٹ میلا،گھنگھرالے بار جو تیل اور کنگھا سے بے نیاز معلوم ہورے تھے۔ہاتھ میں ایک سفید گمچھا جو اپنی سفیدی کھو چکا تھا ،پیروں میں ہوائی چپل جو بائیں جانب سے گھس چکے تھے ایڑیاں اس بات کی شاہد تھیں کہ اس نے ایک ہفتے سے جسم کی صفائی کرکے پانی کو گندہ نہیں کیا۔لیکن چہرے پر جو سکون اور اطمینان تھا وہ قابل دید تھا۔
’’عاقل اسے گلاس دیتے ہوئے ترچھی نگاہ سے اسے دیکھ کر خود کا موازنہ کرنے لگا‘‘
’’میرے پاس ڈگریاں ہیں ،والدین ہیں، گھر ہے، کھیت ہے، سب کچھ ہے، پھر بھی مجھے اطمینان نہیں ہے۔یونس کے پاس سونے کے لئے اپنی چھت نہیں ہے، گھر گئے اس کو بارہ سال بیت گئے ،والدین کہاں ہیں اس کی کوئی خبر نہیں۔یہ جملہ پھر اس کے دماغ میں گردش کرنے لگا۔’’وقت کے ساتھ چلیئے خوش رہیں گے‘،ضرورے سے زیادہ شوچیں گے کچھ نہیںہوگا ‘
عاقل خیالات کے سمندر میں غوطہ خوری کررہا تھا اسی درمیان ہادی نے اس کی نظروں کے سامنے ہاتھ لہرایا۔
’’کیاہوا بھائی کہاں ہو؟؟۔
دیکھو بارش رک گئی ہے اگر مناسب ہو تو چلتے ہیں۔یار یہ بارش تو رک گئی ہے لیکن جو دل و دماغ میں سات سال سے بارش ہو رہی ہے وہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔زندگی کس راہ پر گامزن ہے کچھ کوئی ساحل کا نشان نہیں مل رہا ہے۔اب تو گھر جانے کے لئے رات کی تاریکی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔والدین کے خرچے کا بوجھ لئے اب مجھ سے سہا نہیں جا رہا ہے۔
میری بڑی بہن کی شادی میری نوکری کے انتظار میں رکی ہے۔پچھلے سات سال سے میں صرف امتحان کی تیاری کررہا ہوں۔پیپر کینسل ہوجاتا ہے۔ہر بار میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔
’’عاقل میری بات سنو:
’’اس طرح گھبرانے سے کچھ نہیں ہوگا۔جو ہونا ہے اپنے وقت سے ہوگا۔لیکن ہاں وقت سے پہلے کچھ نہیں ہوگاصبر کرو۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔میرے ساتھ رہوگے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاے گا۔یار تعلیم حاصل کرنا اس کامطلب یہ نہیں کہ نوکری ہی کریں۔ہم کچھ اور بھی کرسکتے ہیں۔لیکن سب سے پہلی ہم ایک اچھے انسان بنیں۔جب ہمارے اندر انسانیت زندہ رہے گی تو ہم بہت کچھ کر سکتے۔تمہارے خیال میں جنتے لوگ پڑھائی کرتے ہیں کیا وہ سب لوگ نوکری کرتے ہیںایسا نہیں ہے۔نوکری دو طرح کی ہوتی ہے ۔ایک سرکاری اور دوسری پرائیویٹ۔عاقل ذرا میری بات غور سے سننا۔
’’سرکاری نوکری کرنے والے دس فیصد ہیں باقی نوے فیصد غیر سرکاری ہیں۔اور پرائیویٹ نوکری میںپانچ سے لے کر پندرہ ہزار تک تنخواہ ملتی ہے۔اب بتاو اس مہنگائی کے دور میں دس بارہ ہزار کی نوکری میں کتنا پیسا بچا کر ہم شادی بیاہ،دکھ بیماری،بچوں کی فیس،کھانا،کپڑا کا انتظام کرلیںگے۔میری بات مان لو ایسا کرتے ہیں ہم دوسروں کو نوکری دیتے ہیں۔
’’حیرت کرتے ہوئے عاقل نے پوچھا ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
’’اطمینان کا سانس لیتے ہوئے ہادی نے کہا ہو سکتا ہے۔
’’بس ہم کو زندگی میں رزق لینا پڑے گا۔کیونکہ کوئی کام بنا رزق لئے نہیں ہوتا ۔اس دنیا میں سارے کامیاب لوگ اپنی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ کھویا ہے تب کہیں جاکر ان کی زندگی میں سکون میسر ہے ۔ابھی ہم لوگ جہاں بیٹھے ہیں یہاں سے صرف تین کلو میٹر کے فاصلے پر حضرت گنج ہے۔کبھی وہان گئے ہو۔کبھی ممکن ہوا تو میرے ساتھ چلنا اور دیکھنا کہ وہاں پر کیا ہو رہا ہے ۔
ابھی تم نے صرف شاپنگ مال دیکھا ہوگا۔سبزی منڈی دیکھی ہوگی،برتن منڈی،لکڑی منڈی،پھل منڈی،فروٹ منڈی دیکھی ہوگی موبائل لیپ ٹاپ کی منڈی دیکھی ہوگی۔میں تم کو وہاں پر تعلیم کی منڈی دکھاؤں گا۔اور وہاں جانے کے بعد تم کو اندازہ ہو جائے گا کہ نوکری کرنا ضروری نہیں ہے۔
اچھا ٹھیک ہے تو کل چلتے ہیں ۔اس کے بعد عاقل نے چائے کا پیسہ دیا۔دونوں ہوٹل سے باہر نکلے ۔ہادی اپنے روم کی طرف روانہ ہو گیا۔عاقل نے کہا کل انشاء اللہ بارہ بجے حضرت گنج چلتے ہیں۔
جاری
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں