عرفان ستار کی غزلیں
مراسم کی ضرورت خندہ پیشانی کہاں تک ہے
رویّوں کی اذیّت ناک یکسانی کہاں تک ہے
ذرا آنسو رکیں تو میں بھی دیکھوں اس کی آنکھوں میں
اُداسی کس قدر ہے اور پشیمانی کہاں تک ہے
نہ جانے انکشافِ ذات سے خود مجھ پہ کیا گزرے
کسے معلوم تابِ چشمِ حیرانی کہاں تک ہے
کہیں تو جا کے سمٹے گا ترا کارِ جہاں بانی
کبھی تُو بھی تو دیکھے گا کہ ویرانی کہاں تک ہے
کبھی تو چند لمحے خود سے باہر بھی بسر کر لوں
ذرا دیکھوں تو وحشت کی فراوانی کہاں تک ہے
کسے معلوم بعد از باریابی کیا تماشا ہو
خبر کیا نا رسائی کی یہ آسانی کہاں تک ہے
کبھی وہ بے حجابانہ ملے تو پھر کھلے مجھ پر
کہ میرے بس میں آخر دل کی جولانی کہاں تک ہے
تلاطم خیزیٔ خواہش نہ تھی اُس کے تخاطب میں
مگر آنکھیں بتاتی تھیں کہ طغیانی کہاں تک ہے
کہاں تک دل کو میں اس یاد پر معمور رکھوں گا
مرے ذمّے ترے غم کی نگہبانی کہاں تک ہے
رفو گر! میں تو شہرِ عشق سے باہر نہیں جاتا
میں کیا جانوں کہ رسمِ چاک دامانی کہاں تک ہے
……
یہ بات اور کہ بے کار خواب دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرف لگاتار خواب دیکھتے ہیں
ہمارے خواب کبھی ٹوٹ ہی نہیں سکتے
کہ ہم تو پہلے سے مسمار خواب دیکھتے ہیں
ہم اور شب یونہی اک خواب پر نثار رکریں
سو حسبِ خواہش و معیار خواب دیکھتے ہیں
تمہارے خیمے تمہاری ہی ذمؔہ داری ہیں
نگاہ دار و عمل دار خواب دیکھتے ہیں
گمان تک نہ ہو جس پر سِوا حقیقت کے
ہم ایسے کامل و تیار خواب دیکھتے ہیں
امید و رنج کے رشتے کی سب ہمیں ہے سمجھ
سو جان بوجھ کے دشوار خواب دیکھتے ہیں
درندگی کا تماشا تو روز ہوتا ہے
یہ رنج چھوڑ، چل آ یار، خواب دیکھتے ہیں
یہ خود اذیؔتی شامل سرشت میں ہے سو ہم
بہ صد اذیؔت و آزار خواب دیکھتے ہیں
ہم ایسے لوگ ہمیشہ ہی ٹوٹتے ہیں میاں
ہم ایسے لوگ گراں بار خواب دیکھتے ہیں
پھر اِس کے بعد ابد تک عدم ہے، صرف عدم
ابھی وجود کے دوچار خواب دیکھتے ہیں
تھکا ہُوا ہے بدن، رات ہے، سو بستر سے
ہٹاؤ یاد کا انبار، خواب دیکھتے ہیں
ہمیں تباہ کیا صرف اِس نصیحت نے
کہ آگہی کے طلب گار خواب دیکھتے ہیں
تمہیں ہے کس لیے پرخاش ہم فقیروں سے
جو بے نیاز و سروکار خواب دیکھتے ہیں
ہے اپنی نیند بہت قیمتی کہ ہم عرفان
بہت ہی نادر و شہکار خواب دیکھتے ہیں
عرفان ستار
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں