خلیق الزماں نصرت
ابتدا سے اردو شاعری میں حسن و عشق کی باتیں ہوتی آئی ہیں، یہ عام بات تھی خصوصااردو غزل تاریخی شواہد کے پس منظر میں زمینداری اور جاگیرداری دور کی پیداوار ہے، جبکہ اردو زبان تمدنی ضرورت کے تحت پیدا ہوئی ہے۔ اس زمانے میں جب فراغت تھی، فرصت میسر تھی۔ جب ’’بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے۔‘‘ کے بغیر وقت کاٹنا محال ہوتا تھا۔ اس وقت اربابِ نشاط سے ’’غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا‘‘ اورذرا عمر رفتہ کو آواز دینے کے لیے فراغت یاب زمیندار اور رنگین مزاج جاگیردار طبقہ اسی الّھڑ، چھیل چھبیلی صفِ سخن ’’غزل‘‘ کے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر خوش وقت اور خوش کام ہوا کرتا تھا لیکن مکمل ہندوستانیت کا شاعر صرف اور صرف نظیر اکبرآبادی کوکہا جا تاہے۔ہندوستانیت سے مرادوہ شاعری جس میں یہاں کے میلے،ٹھیلے، تہوار،موسم،کھانے پینے،مٹھائیوں،ہندؤں کے بھگوان،مسلمانوں کے پیر پیغمبر ،ندیوں کے کنارے،سوندھی سوندھی مٹی، پیری،آندھی ،طوفاں،بھونچال،بانسری اور مفلسی کے تعلق سے نظمیں پڑھنے کے بعد ہمارے سامنے سارے ہندوستان کا نقشہ ابھر کر آجاتا ہوجنہیں دوسرے شعراء نے کہیں کہیں ایک دو نظم یا شعر کہہ کہ مذکورہ عنوانات میں سے چند کا اظہار کیا ہے یا پھر ان سے قبل ایک آک نظمیں شائع کروا دی ہیں مگر نظیرنے بڑی طویل طویل نظمیں کہہ کر اس عنوان کے کئی پہلوؤں کو عوام کے سانے ر کھ د یا ہے۔صرف یہی نہیں نظیر نے ان میں سے کئی عنوانات پر موضوئی غزلیں بھی کہیں جو ان کی قادر الکلامی کا بھی پتہ دیتی ہیں۔ان کی کلیات میں ڈھیر سارے موضوعات تو ایسے ہیں کہ وہ ہندوستان کے لئے ہی ہیں۔مغرب میں اس کا تصور بھی نہیںکیا گیا ہے جیسے ہولی دیوالی،میلا،کنہیا کی بانسری، اس کے حسن و عشق کی باتیں، رام لچھمن،راون اور سیتا کے واقعات،شیو شنکر،گنیش کا وجود وغیرہ کو نظیر نے اپنی نظم میں بڑی خوبصورتی سے ڈھالا ہے ۔ ان نظموں میں خالص ہندستانی تلمیحات و استعارات سے انہوں نے شعر میں جان ڈال دی ہے ۔دوسری طرف انہوں نے مسلمانو ں کے سلیم چشتی ،عیسی،فرعون،آدم ،امیر حمزہ،جبریل اوریوسف کا ذکر بھی کیا ہے۔ چشمہء کوثر،خیبر،تخت سلیمان ،شبِ معراج،طوبی،طور کا شعلہ،عمرخضر،شہید کربلا کی طرح سیکڑوں تلمیحات کا استعمال کیا ہے۔اصل میں میکش اکبر آبادی کے اس تجزیہ سے میں یہ بات وثوق کے طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ سبھوں( ہندستانی عوام )کے شاعر تھے۔
” ۔۔۔نظیر ایک پاک باطن خوش باش مرنجان انسان ہے،اس کا دل ہر صداقت کی طرف جھک جاتا ہے۔ وہ سری کرشن ہوں ،گرونانک ہوں یا شیخ سلیم چشتی ۔۔۔ـ”
وہ اپنے عہد کے مسلم مقبول شاعر تھے۔وہ عوام کے پسندہدہ شاعر تھے ۔وہ ہندوئوں کے تہواروں میں بھی شریک ہوتے،بزرگوں کے مزاروں پر محفل سماع میں شامل ہوتے تھے۔ جذبات نگاری کے لئے نظیر اپنے معاصرین میں ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔نظیر اپنے اندر بیدار دل رکھتے تھے یہ سب سے مقدم چیز ہے۔
ڈاکٹر مجاور حسین رضوی نظیر کی ہندوستانی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’۔۔ان کی شاعری میں وہ معاشرہ نظر آتا ہے جوکھیتوں ،باغوں اور دریا کے کناروں پر پھول پھل رہا ہے۔اس معاشرے میں چھوٹے بچّے،جوان بوڑھے،مرد،عورتیں،ہندو مسلماں اور ازلی اور ابدی کچلے ہوئے طبقے کا آدمی بھی ہے۔ نظیر نے ہندوستانی زندگی کے ان پہلوؤں کو بھی اپنایا جو اس سے پہلے نظر انداز کر دئے گئے تھے اور ہندوستان کے مزاج اور خواص کے مطابق اسے قطعی ہندوستانی لہجے میں پیش کیا ہے۔۔۔‘‘۔
نظیر نے عوام کے بنیادی مسائل جو صرف ہندوستان جیسے غریب ملک کا خاص مسئلہ ہے،کو جگہ جگہ بیان کر کے پورے ملک کا ایک نقشہ کھینچا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ یہ سب باتیں آج تک ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ اسی لئے تو ترقی پسند شاعروں نے اپنے ازم کے لئے سب سے زیا دہ مسالہ نظیر کے کلام سے لیا تھا کیوں کہ یہ سب نظیر نے اپنے زمانے میں اپنے طور سے لکھ دیا تھا۔کچھ لوگ کہتے کہ یہ کون سی نئی بات بات ہے۔ان کئی نظمیں بر محل کے طور پر لوگوں کی زبان پر ہیں۔نصاب میں شامل کرکے انہیں اور زیادہ مقبول کر دیا گیا ہے۔
"در بیان مفلس "کا یہ بند دیکھیںاور ان کی حکیمانہ اور فلسفیانہ مطالعہ کی داد دیں۔انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی۔کس کس طرح سے اسکو ستاتی ہے مفلسی پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی ۔ بھوکا تمام رات سولاتی ہے مفلسی
ایک دوسری نظم آدمی نامہ ہے جو نظیر کی پہچان بن چکی ہے۔ہندستان کی شاید ہی کوئی یونیورسیٹی ہوگی جس میں یہ نظم شامل نہیں کی گئی ہو۔ اس کا آج بھی عوام میں وہی اثر ہے جو پہلے تھا۔اس نظم سے بہت استفادہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ ایک مکمل مضمون ہے،نظیر نے ہر زاوئے سے مفلسی کی تصویر کھینچی ہے۔یہ سترہ بند پر مشتمل بہت صاف ستھری نظم ہے۔اسے بچے بوڑھے کم پڑھے لکھے افراد بھی پڑھ سکتے ہیں۔ترقی پسندوں نے اس نظم کو اپنا لیا تھا۔
دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی۔اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی ۔ نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکرے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اسی طرز کی ایک او ر نظم پڑھتے چلیں لیکن جو لطف پوری نظم پڑھنے میں آئے گا وہ ایک بند میں نہیں ملے گا۔ نظم روٹیوں کی تعریف میں ایسے ایسے استعارے کا استعمال کیا گیا ہے کہ قارئیں دیکھ کے دنگ رہ جاتے ہیں۔
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں۔ پھولے نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری ر خوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں ۔ سینے اوپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
بنجارہ نا مہ
ٹک حِر ص و ہوا کو چھوڑمیاں، مت دیس بدیس پھر ے مارا فَزاّق اَ جَل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نَقاّرا
کیا ب َد ھیا ، بھینسا ،بیَل ُتر ، کیا گو ئیں پَلاّ ، سر بھَارا کیا گیہوں ،چاول مُوٹھ مٹر کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جا ئے گا ، جب لاد چلے گا بنجارہ
گرتو ہے لکھّی نبجارہ اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے اَے غافل تجھ سے بھی خیر ااک اور بڑا بیو پاری ہے
کیا شکر مصری، قند گری کیا سا نبھر میٹھا کھاری ہے کیا داکھ مُنقّی ، سو نٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جا ئے گا ، جب لادچلے گا بنجارہ
تو بد ھیا لا دے ، بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھا ٹا پاوے گا
فز اق اِجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا دَھن ،دولت، ناتی ،پوتا کیا اک کُنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جا ئے گا ، جب لادچلے گا بنجارہ
واقعی وہ قلندر صفت شاعر تھے۔مشہور شاعر اور داغ دہلوی کے چہیتے شاگرد جنہوں نے نثر بھی خوب لکھی ہیں ان کا کہنا تھا کہ "نظیر حقیقت نگار ہے۔ ـ” ساری عمر تمام مذاہب کے مذہبی روایات کا ذکر جو ہندوستان میں ہی نظیر نے دیکھے ، اسے لوگوں کی نذر کیا ہے۔ ان کی شاعری کامحور ہی ہندوستان کا دیہات ہے۔انسانی زندگی کے بچپن سے بڑھاپے تک کے اتار چڑھاؤکی باتیں جو ہندوستانیوں پر گذرتی ہیں انہیں نظم کیا ہے وہ بھی بڑے سیدھے سادے انداز میں جو لوگوں کے دلوں کو چھولیتی ہے۔یہاں کی غریبی کے ذکر میں ان کے حالات کا بیان بھی ہے اور اکثر جگہوں پر طنزبھی ہے۔یہ سب ہندوستانیوںکی داستان ہے جسے نظیر نے اپنے کیمرے میں لے لیاہے۔دیہاتوں کے وہ الفاظ جو ہندی میں ہیں،نظیر نے خوب استعمال کئے ہیں۔ان میں زیادہ ترناموں سے ہم آشنا ہیں ہاں چند نام ایسے بھی ہیں جو ان کے علاقے میں بولے جاتے ہیں انہیں سمجھناپڑتا ہے ۔شریف احمد قریشی کا بھلا ہو کہ انہوں نے نظیر کی ایک فرہنگ تیار کر دی ۔ لیکن اس پر بھی ناقد حضرات کا دھیان نہیں گیا۔جس کا مطالعہ کر کے ہم ایسے الفاظ جان جائنگے جنہیںہمارے بزرگ استعمال کیا کرتے تھے۔جیسے پائچہ، پائجامہ وغیرہ کا وہ حصہ جس میںپیر رہتا ہے،پنا،سبز رنگ کا جواہر(زمرد)،پوپلا،جس شخص کے دانت گر جاتے ہیں،پنہچی،ہاتھ کی کلائی پر پہننے والا زیور،پھنگی ،درخت کے شاخ کی چوٹی وغیرہ جیسے بے شمار الفاظ ہیںجن سے نا وافقیت کیوجہ سے ہم پرانی شاعری کا جائزہ نہیں لے پاتے۔ یہ تو ہمار ا اثاثہ ہے۔ آپ کو یہ پڑھ کر تعجب ہوگا کہ انہوں نے۱۳۷ پرندے ،پتنگے اور اڑنے والے کیڑے مکوڑوں کا اپنی نظموں میں ذکر کیا ہے۔۱۶ آتش بازی کی قسمیں،۵۶ باجے گاجے او ان سے تعلق رکھنے والی چیزیں، ۳۶ پھول کی قسمیں (بحوالہ فرہنگ نظیرص۔ ص۵۳۔۴۳)وغیرہ کا ذکر کر کے پڑھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ان میں سے زیا دہ سے زیادہ ہم۲۰۔۳۰ کے ہی نام جانتے ہوں گے۔ چند اچھوتے واقعات کو بھی انہوں نے نظم کر دیا بلبلوں کی لڑائی کا بیان پڑھ کر تعجب ہوا۔ میں نے ابتک مرغوں کی لڑائی کے بارے میں سنا تھا نظیر نے تو بلبلوں کی لڑائی،پودنے اور گڑھ پنکھ کی لڑائی وغیرہ کا واقعہ سنا دیا۔چند نظموں کے عنوات پڑھتے چلیں ،چوہوں کا آچار ، چڑیوں کی تسبیح ،کنکوے کی تعریف ازدہے کا بچہ اورریچھ کا بچہ ہیں ایک بات کو یاد دلاتا چلوں کہ تنقید کے اصول کے مطابق بھی اگر ہم کسی شاعر کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں توہمیں اسی کے زمانے میں جا کر دیکھنا پڑے گاتاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ وہ شاعر کس ماحول کا پروردہ ہے۔ہر غیر معمولی فنکار جس ادبی ماحول میں پیدا ہوتا ہے اس کے اطراف میں پھیلی ہوئی روایتیں اسے متاثر کرتی ہیں اور وہ ان روایتوں کی انگلی تھام کر چلنے لگتا ہے۔ اسی کے ساتھ علوم متداولہ اور نئے علمی اکتشافات کا بھی جائزہ لینا اس کے لیے ضروری ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے فارم کو سمت دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ نظیر نے اپنے اشعار میں فارسی کا استعمال نہیں کیا ہے۔میرے خیال سے بہت کیا ہے۔چند الفاظ دیکھتے چلیں۔تَرکش،تیر رکھنے کا خول،چشمہَ زلال،خانہ زیں،مہہ ِ کنعاںوغیرہ ۔ فارسی تراکیب پر بھی انہیں عبور تھا،مخمور اکبر آبادی نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ مرکبات بنانے اور اس کو شعر میں استعمال کرنے کاروا ج مومن اور غالب نے نہیں نظیر نے کیا ہے۔ صرف یہی نہیںغالب کے کئی اشعار پر نظیر کا اثر ملتا ہے۔ایسا غالب کے گہرے مطالعے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ۔طوالت کے خوف سے یہاں میں صرف ایک یا دو شعر کا حوالہ دے پائوں گا۔ غالب پر ناقدوں نے خوب لکھا او ر یہ بھول گئے یا پھر نظیر کے اشعار کو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ اس مفہوم کا شعر نظیر کے پاس پہلے سے تھا۔نظیر اکبر آبادی(۱۷۳۵ء ۔ ۱۸۳۰ء) تو غالب(۱۷۹۷،۔۱۸۶۹) کے بزرگ شاعروں میں سے تھے۔انہوں نے استفادہ بھی کیا ہے اور سرقہ بھی۔
نظیر: اس مہر پر انوار سے شبنم کی طرح ہم
گم ہوتے گئے ہم کو وہ جوں جوں نظر آیا
اسی خیال کاہو بہو عکس غالب کے شعر میں دیکھیں۔
پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں عنایت کی ایک نظر ہونے تک
ایک دو اشعار اس ضمن میں اور دیکھ لیتے ہیں۔
نظیر حاضر جوابی دیکھو کہ لب سے مرے ہنوز
نکلا نہیں سوال کہ وہاں ہو گیا جواب
غالب دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
غالب اور دوسرے کئی شعراء نے فارسی آمیز اشعار کہے اور شعر کو اتنا گنجلک کر دیا کہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے والی بات در آئی۔ فارسی کا صرف اثر ہی نہیں لیا اس زبان کے اشعار کا ہو بہو چربہ بھی کر دیا۔ ان کے ہمعصروںمیں اس بات کا چرچا ہو گیا۔اردو کے ابتدائی دور میں ہندستان میں شعر کہنے والے شعراء دو حصوں میں بٹ گئے ایک نے ہندی اور مقامی زبان کا اثر لیا دوسروں نے فارسی اور عربی کا ۔ یہاں افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ناقدوں نے نظیر جیسے شاعر کو فراموش کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے تذکرہ نگاروں نے اپنے انتخاب میں کنجوسی سے کام لیا ،فراخ دلی سے نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو نظیر پر آنے والی نسل کی توجہ ضرور ہوتی۔پھر ان میں وہ شعری جواہرات نکالتے۔ ایک اور بات، ہمارے ادب کا یہ شیوہ رہا ہے کہ کسی شاعر کو بڑا بتا کر اس عہد کے دوسرے شعراء کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ جس کو ہم نے بڑا کر دیا ہے اس کی عظمت پہ کہیں آنچ نہ آجائے۔غالب کو بڑ ا دکھانے کے لئے ذوق کو بالکل فراموش کر دیا گیا اور بہادر شاہ ظفر کو بالکل چھوڑدیا گیا ۔بلکہ اس پر ایک لیبل لگا دیا گیا کہ انہیں ذوق(استاد)شعر کہہ کر دیتے تھے۔آب حیات کے صرف ایک ذکر کو لوگوں نے اتنی اہمیت دی کہ بہادرشاہ ظفر کو شاعر ہی نہیں مانا ۔آب ِ حیات میں کئی واقعات اور جملے تحریر کئے گئے ہیں جن سے سچائی کا کوئی لگائو نہیں ہے۔اپنی نثر میں چاشنی پیدا کرنے کے لئے یہ گھڑلئے گئے ہیں۔ حالانکہ بہادرشاہ ظفر ذوق کی شاگردی سے قبل شعر کہتے تھے۔ان کی استادی کے ہر کوئی معترف تھے ۔نظیر پر یہ الزام ہے کہ ان کے شعر ہندی نما زیادہ ہیں۔ ان میں اردو کی چاشنی بہت کم ہے۔ میں اس کی تردید کرتے ہوئے مشہور محقق رام بابو سکسینہ کتاب تاریخِ ادبِ اردو کے چند جملے پیش کروں گا۔
” حقیقت یہ ہے کہ زبان اردو اس ہندی یا بھاشا کی ایک شاخ ہے جو صدیوں تک دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی جس کا تعلق سورسینی پراکرت سے بلا واسطہ تھا۔یہ بھاشا جس کو مغربی ہندی کہنا بجا ہے زبان اردو کی اصل اور ماں کہی سمجھی جا سکتی ہے۔۔۔زبان اردو کی صر و نحو ،محاورات اور کثرت سے ہندی الفاظ کا اس میں استعمال ہونا اس بات کی بین دلیل ہے کہ اس کی ابتدا ہی ہندی سے ہوئی۔۔”
میں اس میں ایک جملہ جوڑوں گا کہ تقریبا ہر علاقے میںکھڑی بولی جیسی زبان بولی جاتی تھی۔ ابتدائی دور میںاردو زبان اگرچہ ابھی سیاّلی حالت میں تھی ۔ الفاظ کا ذخیرہ کم تھا اور زبان ابھی تک اتنی خود کفیل نہ ہوئی تھی کہ اپنے بل بوتے پر ہر طر ح کے مضمون کو مکمل طر یقے پر پیش کر سکے لہذا ایک قسم کی کھچڑی زبان سے کام لیا جانے لگا۔ دکنی اردو نے شاہان دکن کی سر پر ستی میں بڑی تیزی سے تر قی کی مگر اس پر جنوبی ہند کی دراوڑی بو لیوں اور زبانوں کا گہرا اثر تھا ۔ فارسی کی بھی کسی قدر آمیزش تھی لیکن تلفظ اور لب و لہجہ اجنبیت کی وجہ سے شمالی ہند والے دکن کی طرف مُلتفتِ نہ ہوتے تھے چنا نچہ محمد قیام الدین قائم (بجنوری) شاگرد درد ؔ ، سودا ؔ (۱۷۲۲ تا ۱۷۲۶) کا دعوی تھا کہ ؎
قا ئم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
اک بات لچر سی بہ زباں دکنی تھی
اُردو کے ابتدائی نظم گو شعراء میں میاں ولی محمد نظیرؔ اکبر آبادی کا نام بہت مشہور ہے۔اُن کی تاریخ ولادت تقریبََا ۱۷۳۹ء اور تاریخ وفات ۱۸۳۰ء ہے۔ ان کے کلام کی بُو قلمونی اور بے تکلفی اور لہجے کی سادگی و معصومیت کو دیکھ کر ماننا پڑ تا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک عوامی شاعر تھے:کلام نظیر ؔ کا عمیق مطالعہ کر کے بطور خاص ان کی نظموں کا فتّی تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل نکات پر روشنی پڑتی ہے۔
(۱) کسی شاعر کا مطالعہ کرتے وقت اس کا ضرور لحاظ رکھنا چاہئے کہ اُس کے کلام کا کم از کم اتنا حصّہ ضرور پڑ ھ لیا جائے جس سے زندگی اور آرٹ کے متعلق اس کے نقطئہ نظر کا کا فی اندازہ ہو سکے یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے ۔ جب کلام کا وہ حصّہ پیش نظر ہو جس میں شاعر نے پورا پورا زور تخیل صرف کیا ہے۔
نظیر نے اسی وجہ سے اپنے اشعار میں ہندی الفاظ کا زیادہ استعمال کیا ہے۔وہ اپنے اشعار میں ہندوستان کی جھلک پیش کرنا چاہتے تھے۔ نظیر نے ہندستان کے ایک مشہورتہوار ہولی پر دس بڑی دل آویز طولانی نظمیں لکھی ہیں۔ ہم سب سے پہلے ایک نظم پر بات کرتے ہیں۔
ہولی کی آمد پر یہ اشعار
آجھمکے عیش وطرب کیا کیاجب حسن دکھایا ہولی نے
ہرآن خوشی کی دھوم ہوئی یوں لطف جتایا ہولی نے
ہر خاطر کو خرسند کیا،ہر دل کو لبھایا ہولی نے
دف رنگیں نقش سنہری کا جس وقت بجایا ہولی نے
بازار گلی اور کوچوں میں غل شور مچایا ہو لی نے
(معنی: خرسند کیا ۔ خوش کیا)
ہولی منانے میں لوگ خوش ہوتے ہیں ۔یہ لوگوں کے دلوں کو خوب لبھاتا ہے۔جب ہولی کا باجا بجتا ہے تو ہولی ہے ہولی ہے کا ورد کرتے ہوئے لوگ ناچتے ہیں۔بازار ،گلی اور کوچوں میں شورمچارہتا ہے۔
نظم کے دوسرے بند میں ہولی میں کس کس طرح خوشیاں مناتے ہیںاس کا ذکر ہے۔رنگ لگا کر ایک دوسرے سے لوگ گلے ملتے ہیں ۔عبیروں اور گلالوں سے پچکاری بھر کر لوگ ایک دوسرے پر پھینکتے ہیں۔عجیب سا منظر ہوتا ہے جب یہ دیوانوں جیسے ہوجاتے ہیں۔ اس روز گالیاں بھی دیتے ہیں ۔اس رسم کے موقعے پر اسکو برا نہیں سمجھتے ہیں ۔یہ مذاق جیسا ہوجاتاہے۔
ہولی پر ایک دوسری نظم میں بھی ’’ہولی کی بہار‘‘کے عنوان وہی بات کہی گئی ہے مگر نئے ڈھنگ سے۔
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں ، تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہار ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
محبوب نشے میں چہکتے ہیں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
تفصیل میں نہ جاکر اس نظم کے ٹیپ کے مصرعوں کو ہی آپ کو بتائیں گے اس سے سبھی بند میںکیاکیا ذکر کیا گیا ہے اس کا لطف آپ جان جائیں گے۔ ہاں اشعار کس طرح کے کہے گئے ہیں اس سے آپ محروم رہیں گے۔
کچھ گھنگرو تال پھنکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
کپڑوں پر رنگ چھڑکتے ہوںتب دیکھ بہاریں ہولی کی
سینوں سے رنگ ڈھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
کچھ کافر نہیں مٹکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
جب ایسے عیش مہکتے ہوںتب دیکھ بہار ہولی کی
ایک اور بند پڑھ لیں۔
ہر آن خوشی سے آپس میں سب ہنس ہنس رنگ چھڑکتے ہیں
رخسار گلالوں سے گل سے گلگوں کپڑوں سے رنگ لپکتے ہیں
کچھ آگ اور رنگ جھمکتے ہیںکچھ مے کے جا م چھلکتے ہیں
کچھ کودے ہیں کچھ اچھلے ہیں کچھ ہنستے ہیں کچھ بکتے ہیں
یہ طور ، یہ نقشہ عشرت کا ہر آن بنایا ہولی نے
ہولی کے موقع پر جو جلوس نظیر کے زمانے میں نکلتا تھا اس کے اظہار کی تائید میکش اکبر آبادی نے نظیر کے ایک محقق شہباز سے ذرا مختلف بتاکر کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ـ”بے نوائوں کا ذکر کا سوانگ جس کا نظیر نے ذکر کیا ہے وہ میںنے بھی دیکھا ہے۔یہ سوانگ دھول والے دن تاج گنج سے شہر آتا تھا،بیس پچیس آد می زرد کپڑے پہنے ہوئے مونہہ میں میں بھبوت ملے کانوں میں کنڈل ،گلے میں مالا اور کنٹھے ڈالے بے نوائوں کی فقیروں صورت بنائے ،میاں نظیر کی ہولیاں دف اور ستار پر گاتے ہوئے آتے تھے۔یہ سب مسلمان تھے،ان پر کوئی رنگ نہیں ڈالتا تھا یہ جلوس تاج گنج سے شروع ہوتا تھا۔۔۔اور پنڈت راج ناتھ صاحب کے مکان پر ختم ہوتا تھا۔وہاں اہلِ محلہ پھول پان سے ان کی خاطر تواضع کرتے تھے۔….. "دونوں قوموں کے اتحاد کی یہی تصویر تھی سارے ہندستان کی جس کو نظیر نے تہواروں میں اس زمانے میں دیکھا یا سنا تھا۔اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصددونوں قوموں کی یکجہتی کا نقشہ پیش کرنا تھا۔
نظیر نے اکثر ایسی بحروں کا استعمال کیا ہے جنہیں گاکر بھی سنائی جا سکتی ہے۔اس کی ایک وجہ انہیں موسیقی سے بھی لگائو تھا۔ نظیرکے چند واقعات کے بیان سے یہ بھی اس میں شامل رہتے تھے۔ نظیر کا سب سے پسندیدہ موضوع ہولی ہے اس لئے انہوں نے کئی طویل نظمیں کہی تھیں۔
دیوالی بھی ہندؤں کا بہت اہم تہوار ہے ۔ دوسرے کئی تہواروں کی طرح اس تہوار میںبھی خوب خوشیاںمنائی جاتی ہے۔تیل اور گھی کے دئے جلائے جاتے ہیں ۔گھر کو رنگ اوررو غن سے سجایا جاتا ہے۔لوگ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔
دوستو کیا کیا دیوالی میں نشاط و عیش ہے
سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایان ہے شے
اس طرح ہیں کوچہ و بازار پر نقش و نگار
ہو عیاں حسن ِ نگارستان کی جن سے خوب رے
مگر خاص بات نظیر نے اپنی نظم میں بتائی ہے کہ لوگ اس موقع پر جوا بھی کھیلتے ہیں ۔اس عیب کو نظیر نے ایک سماجی خدمت گار اور سماج سدھارک کی طرح پیش کیا ہے۔ ان کے تیکھے طنز کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔
کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری
جو کچھ تھی جنس میسر بنا بنا ہاری
کسی نے چیز کسی کی چرا چھپا ہاری
کسی نے گھڑی پڑوسن کی اپنی لا ہاری
یہ ہار جیت کا چرچا پڑا دوالی کا
جوا کھیلنے میں اس تہوار کی خوشیوں کا یہ حال ہے کہ اپنی بیوی کو بھی ہارنے سے نہیں چکتے ہیں۔
وہ اسکے جھو نٹے پکڑ کر کہے ہے مارونگا
ترا جو گہنا ہے سب تار تار اتارونگا
حویلی اپنی تو اک داؤ پر میں ہاروں گا
یہ سب تو ہارا ہوں خندی تجھے بھی ہاروں گا
(معنی : جھونٹے۔ عورتوں کے بال کا گچھا،خندی ۔ ایک گالی)
میرا خیال ہے ہندوستانی کلچر کا اظہار کرنے کے لئے نظیر نے اپنی پوری شاعری کو اس سانچے میں ڈھال دیا ۔دوسرے شاعروں میں یہ حصہ موجود ہے لیکن یہ سب دال میںنمک کے برابرملتاہے۔ دوسری بات ہمیشہ سے امراء اور بادشاہوں نے غزل کی شاعری کو پسند کیا اور ان کے دربار میں اسی صنف کو زیادہ فروغ ملا۔نظیر نے کسی بادشاہ کے زیرِ اثر رہنا پسند نہیں کیا۔ شاعری جب آگے بڑھی تو حالی، چکبست ،محروم اور اس گروپ کے شعراء نے نظیر اکبر آبادی کے خیالات پر اپنے اپنے طور سے نظمیں کہیں اور یہ مقبول بھی ہوئیں ۔چکبست تک آتے آتے اردو زبان صاف ستھری ہوگئی۔ ان شاعروں نے ہندی آمیز اردو کو چھوڑ کر فارسی کی آمیزش شروع کی ۔نظیرؔ کے بہت سارے الفاظ متروک کر دئے گئے ۔ مگر اس زمانے کے مطابق ان کی شعری اہمیت وہی رہی جو پہلے تھی۔
نظیر ہندی الفاظ پر عبور رکھتے تھے اور ہندو فلسفے اور نجوم کی گہری واقفیت کی وجہ سے ہندوستانی تہذیب کی عکاسی بڑی اچھی طرح کرتے تھے ۔ہندو کلچر میں کرشن کے بہت سارے واقعات گشت کر رہے ہیں۔کرشن کے کئی نام ہیں۔کنہیا جی ان میں سے ایک ہے۔نظم ’’کنہیا جی‘‘ کے چند بند دیکھتے ہیں۔ایک گنتی کے مطابق کرشن کے ۸۰ القاب ہیں جو نطیر نے اپنی تخلیقات میں استعمال کئے ہیں۔
قرآن میں جس طرح ظالم نمرود اور شداد کا ذکر ہے اسی طرح گیتا میں متھرا کے راجا کنس کا ذکر ہے۔اس ظالم بادشاہ کو ختم کرنے کے لئے کشن کوپیدا کیاگیا۔نظیر نے دو چار بند کہنے کے بعد اس خوبصورت بند میں اس پیشن گوئی کا اظہار کیا ہے جس میں راجا کنس کو کہا جاتا ہے کہ تمہیں برباد کرنے کے لئے ایک کرشن آئے گا۔اس واقعہ کو شعر میں بیان کرنے کے بعد ایک بند پڑھیں۔
وہ بولا متھرا نگری میں اک روز وہ جنم پاوے گا
جب سیانا ہوگاتب تجھ کو اک پل میں مار گراوے گا
؎ کرشن کنہیا کی پیدائش کا نقشہ اس طرح پیش کیا ہے۔۔۔۔
تھا نیک مہینہ بھادوں کا اور دن بدھ گنتی آٹھن کی
پھر آدھی رات ہوئی جس دم اور ہوا نچھتر روہنی کی
سب ساعت نیک مہورت سے واں جنمے آکر کشن جبھی
اس مندر کی اندھیاری میں جو اور اجالی آن بھری
آگے کے بندوں میںنظم کیا گیاکہ کرشن کی پیدائش کے فوراً بعد کرشن کی ماں دیوکی نے بسودیو سے یوں کہا اسے فوراً کوگل میں پہونچا دو ورنہ کنش اسے زندہ نہیں رہنے دے گا کیو ںکہ کرشن کی پیدائش کی سبھی باتیں وہ جان گیا ہے ۔صبح ہوتے ہی وہ آئے گا اور اسے مروادے گا۔ بچّے کو بدل دیا جاتا ہے اور کرشن کی جان بچ جاتی ہے۔
کرشن کی بانسری کا چرچا ہندوستان میں خوب ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ایک نظم ’’بانسری ‘‘ کے عنوان سے نظیر نے لکھی ہے۔اس میں بڑی روانی ہے ۔کسی شاعر کو پرکھنے کے لئے اس کی زبان کا مطالعہ ضروری ہے۔یہاں نظیر نے اپنی شاعری کے نمونے پیش کر کے اردو شاعری میں ایک مقام بنا لیا ہے جو اب اردو کا شاعر نہیں نظم کر پا پائے گا۔اردو کی قدیم زبان استعمال کرکے ہندی اور اردو کا ایک دلکش سنگم تعمیر کر دیا ۔ مرلی دھر (کرشن)جب اپنی بانسری بجاتے تھے تو اس کا کیا اثر ہوتا تھا یہ کئی بندوں میں نظیر نے اپنی بات کی ہے۔ایک جگہ وہ کہتے ہیں
گوالوں میں نند لال بجاتے وہ جس گھڑی
گودئیں دھن اس کی سننے کوہ رہ جاتیں سب کھڑی
گلیوں میں جب بجاتے تو وہ اس کی دھن بڑی
لے لے کے اپنی لہر جہاں کان میں پڑی
سب سننے والے کہہ اٹھے جے جے ہری ہری
ایسی بجائی کشن کنہیا نے بانسری
اب تک ہم نے دیکھا ہے نظیر ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کرتے رہے۔اس کی وضاحت چند جملوں میں پڑھیں۔
’’نظیر در حقیقت امیر خسرو اور کبیر کی قائم کردہ اس روایت کی توسیع تھے جس کے ڈانڈ ا تصوف اور بھگتی تحریک سے ملے جلے ہوئے تھے۔انہوں نے اپنا شعری مزاج ہندوستانی مٹّی سے تشکیل دیا تھا ۔غزل کے مقابلے میں نظم پر زیادہ توجہ دی اور زیادہ تر موضوعات ہندوستانی معاشرے سے منتخب کہے‘‘۔
(فن اور شخصیت کوائف نمبر ۱۹۹۴ سے۔)
ہندوستان ہمیشہ سے مشترکہ تہذیب کا علمبر دار رہا ہے۔مسلمانوں نے اگر ہولی اور دیوالی میں ہندؤں کے ساتھ ملکر تہوار منائے ہیں تو ہندؤں نے بھی عید اور محرّم جیسے تہوار وں میں شمولیت کی ہیں۔ ہم اگر ان کے تہواروںمیں شامل نہیں ہوتے تھے تو ایسے موقعوں پہ انہیں مبارکباد ہی دے دیا کرتے تھے ۔ کیوں کہ ہمارے اسکول ہماری رہاہشیںبھی تو ایک جگہ ہوا کرتی تھیں۔ میرا یک سچا واقعہ آپ کی نذر کر رہا ہوں جس سے آپ کو میرے ابتدائی دور میں کس طرح ہندو مسلم ملکر تہوار مناتے تھے کا پتہ چل جائے گا۔میں پانچویں یا چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اسوقت میں سائیکل کی سیٹ پر بیٹھ کر سائیکل نہیں چلا پاتا تھا۔اس سے آپ میری عمر کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ہم لوگ جس گورمنٹ کالونی میں رہتے تھے اسمیں ۱۰۰۰ بنگلہ نما مکانات تھے ، ان میں۱۰۰ گھر مسلمانوں کو بھی اِلوٹ کئے گئے تھے۔رمضان کے موقع پر ہندو دوست ہمارے ساتھ ملکر سحری کے وقت ہارمونیم، ڈھولک او ر دوسرے کئی ساز کو ٹھیلے گاڑی پر رکھ کر فلمی دھنوںمیں سحری کے نغمے گاکر لوگوں کو سحری کے لئے اٹھایا کرتے تھے،ہولی کے موقع پر جو لکڑی جلائی جاتی تھی اسکو اکٹھا کرنے کے لئے ،ہم لوگ ان کا ساتھ دیتے تھے۔لیکن فساد کے بعد ہم لوگوں کا ماحول بدل گیا۔ہم لوگ مسلمان بن گئے اور وہ ہندو۔حالانکہ ہندو پڑوسیوں نے ہم لوگوں کی جان بھی بچائی تھی۔ان کے اسکول الگ ہو گئے ،ان کے مذہبی ادارے الگ ہو گئے اور ایسے الگ ہوئے کہ عمر کے آخری حصے میں بھی آکر ان میں سے کسی ایک سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔
نظیر نے جس کلچر کی بات کہی ہے وہ کوئی انوکھی نہیں ہے۔وہ زمانہ تقریباً۲۰۰ سال سے بھی قبل کاتھا۔ خواص سے زیادہ انہوں نے عوام کو موضوع بنایااس لئے ہم جب ان کی نظمیں پڑھتے ہیںتو ہماری عمر کے لوگوں کو اپنا بچپنا یاد آ جاتا ہے ۔وہ تمام لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے تھے اوریہ ہندوستان اور ہندوستانی ان کا جوہر ِخاص ہے۔ نظیر نے جہاںہندو میتھولوجی کی باتوں سے دنیا والوںکو روشناس کرایا ہے وہاں ہندوستا ن کے دوسرے مذاہب کے بزرگوں کابھی ذکر کیا ہے۔میرا دعوی ہے کہ آج تک کسی مسلم شاعر نے نظیر سے زیادہ ہندو کلچر کے دیوی دیوتائوں اور ان کے تہواروں کا اتنا تفصیل سے ذکر نہیں کیا ہے۔اس لئے بھی ان پر لکھنے والوں نے ان کی اچھائی بھی چھپا دی۔
گرونانک سکھوںکے پیشواتھے۔انکے ماننے والوں کا یہ فقرہ واہے گرو،واہے گروقومی صداہے۔ اس نظم میں نظیر نے انہیں بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ان نظموں کے لکھنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ انہیں ہندوستان کی تمام قوموں سے عقیدت تھی۔ان کا یہ احترام دیکھ کرکوئی یہ نہیں کہے گا یہ(نظیر)کسی ایک فرقے یا مذہب سے ان کا تعلق ہے۔اس نظم کو کوئی سکھ پڑھے گا تو نظیر کا احترام ان کی نظروں میں بڑھ جائے گی، ہمارے لئے بظاہر اس میں سوکھاپن نظر آتاہے مگرپنجابیوںکی اصطلاحوں سے ایک عام آدمی واقف نہیں ہے اسی لئے ان کی نظر میں اس نظم کی اہمیت ویسی نہیں ہوگی جیسی پنجابی زبان جاننے والوں کی ہے۔نانک شاہ گرو کے عنوان کی اس نظم کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ،صرف ابتدائی بند ہم پیش کریں گے ۔
ہیں کہتے نانک شاہ جنہیں وہ پورے ہیں آگاہ گرو
وہ کامل رہبر ہیں جگ میں یوں روشن جیسے ماہ گرو
معقود مراد امید سبھی پر لاتے ہیں دلخواہ گرو
نت لطف و کرم سے کرتے ہیںہم لوگوں کا نرباہ گرو
اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو
سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو
(معنیٰ : ارداس ۔سر کو جھکانا)
مسلمانوں میں جیسے اللہ ہو اللہ کا ورد ہوتا ہے ویسے ہی سکھوں میں واہ گرو واہ کا استعمال ہوتا ہے۔اب ہم حضرت سلیم چشتیؒسے نظیر کی عقیدت دیکھتے ہیں۔ پہلے سید محمود رضوی مخمور اکبرآبادی کے تبصرے کا یہ حصہ پڑھ لیںجس سے آپکو اندازہ ہو جائے گا نظیر کاذہن کس طرح تعصب سے پاک ہے۔وہ دوسروں کے مسلک پیر و مرشد کی بھی کس قدر عزت کرتے تھے۔
’’حضرت سلیم چشتی ایک سپاس نام ہے۔ ایک ایسے شاعر کے قلم سے جس کا مسلک شیعہ ہوا یسی نظم کا نکلنا یہ طاہر انگیز ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ شاعر وہی ہے جو حسن کو حسن سمجھ کر دیکھے اورمذہب کا صحیح احساس رکھتا ہو ۔مذہب کبھی کسی بزرگ سے سوئے وطن نہیں سکھاتا ، محبت اور عقیدت کی تعلیم دیتا ہے اور احترام کی تلقین کرتا ہے۔‘‘
نوٹ : ۔نظیر اکبر آبادی کے کسی عمل سے ہمیں شیعہ ہونے کا ثبوت نہیں ملتا ہے۔ نظیر کا نظریہ ہم اس بند میں دیکھتے ہیں جس سے آپ مذکورہ بالا جملوںکی تائید کریں گے۔
کیا ہندو اور مسلماں کیا رند و گبرو و کافر
نقّاش کیا مصور کیا خوشنویس شاعر
جتنے بھی ہیں یہاں سب اک دم کے ہیں مسافر
رہنا نہیں کسی کو چلنا ہے سب کو آخر
دو چار دن کی خاطر یاں گھر ہوا تو پھر کیا
اب آئیے اب حضرت سلیم چشتی ؒ کا یہ بندہ پڑھتے ہیں۔
تم سب سے ہو معظم اور سب سے مکرم
خلقت ہوئی تمہارے سب نور سے مجسم
اور خوبیاں جہاں کی تم پر ہوئیں مسلم
ابر کرم سے تیرے دائم ہے سبز و خرّم
عالم کا سب گلستاں حضرت سلیم چشتی
یہ صوفیانہ شاعری کے زمرے میںبھی آتا ہے۔اکثر اشعار میں اس کی جھلک ملتی ہے۔خاص کر نظموں میں تو کچھ زیادہ ہے۔ معرفت کے رموز ،مشاہدہ ٔ باطن کے اسرار اور قلبی وار دات کا بیان بھی نظیر کے کلام میں موجود ہے ۔ نظیر کے کلام میں ہندوستانی رنگ و بو ہے۔ ان کی تشبیہات اور استعار ے اکثر ہندوستانی حالات کی ترجمان ہیں۔ نظیر اپنے شعروں سے تو ہندوستانی تھے ہی اپنے عمل سے بھی ہندوستانی تھے۔ ہندوستان کی دیگر قوموں کو بھی اس کا اعتراف کرناچاہیے کیونکہ کسی ادب کے جڑوں میں ہی توا نائی ہوتی ہے اور اس توانائی کی تلاش سبھوں کے لئے ضروری ہے۔ آج جب معاشرے کا شیررازہ بکھرا ہوا ہے ایسے میں اس لہجے کی زیادہ ضرورت ہے۔صرف شعور بڑھانے سے کچھ نہیں ہوگا،اس بڑھے ہوئے شعور کی بربادی کا حل بھی ڈھونڈ نا ہوگا۔ راستہ چاہے نظیر کے بتائے ہوئے ہوں یا کسی اور کے، لوگوں کو چاہئے کی اپنی تخلیق میں زیادہ سے زیادہ محبت اور اخوت پیش کریں جس سے لوگوں کے درمیان ہمدردی کا جذبہ فروغ پائے۔ یہ ملک ایک پرانی اور شاندار تہذیب کا گہوارہ ہے جس کو موجودہ زمانے نے مسل کررکھ دیا ہے ۔ مغرب کی نقالی نے ہندوستانی تہذیب ہی کی اہمیت کم کر دی ہے۔ ہندو مسلم میں دوریاں پیدا کر دی گئی ہیں۔کسی بھی سماج کی بنیاد علاقائی زبانیں،یا مذہبی نفرت سے بھری نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس نفرت پر بنے ہوئے سماج کا مستقبل تابناک نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں نظیر کے جیسے شاعر وں کی تخلیقات پر لکھ کر سماج کو آپس میں جوڑنا ہوگا۔ دونوں قومیں الگ الگ رہ کر نہیں جی سکتی ہیں۔
ان کی بیشتر نظمیں پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم ہندوستان میں جی رہے ہیں جن میں برسات کی بہاریں، گرمی کی امس اور ٹھنڈ کی شدّت کا ذکرسب ہمارے ملک کے ہیں ۔ انہیں اپنے ملک کی ہر شئے سے محبت ہے،۔اس لئے اپنی نظموں کے لئے انہوں نے ایسے عنوانات کااتخاب کیا ہے جن کا لگائو ان کے ملک ہندستان سے ہے۔ نظیر نے مناظرِ قدرت کا نظارہ بڑے خوبصورت انداز میںنظم کیا ہے جن سے ہم آج بھی محظوظ ہو رہے ہیں۔ ان نظاروں سے ہم ہندوستانی ہی لطف اٹھا سکتے ہیں کسی اور ملک میں یہ چیزیںایسی نہیں ہیں ۔ایسی نظموں کو پڑھ کر وہ مناظر آنکھوں کے سامنے گھومتے دکھائی دیتے ہیں جن میں نظیر نے ہندوستانی روح پھونک دی ہے۔انہوں نے اپنے موضوعات اسی میں سے چنے تھے، جہاںوہ رہتے ہیں ،جو نہ فرضی ہیں نہ خیالی ۔نظیر نے اپنی شاعری کے ذریعہ اپنے زمانے کی ہندوستانی ثقافت کی بھر پور عکاسی کی ہے ۔ اور اس کی شاعری میںہندستانی معاشرت کی ہر چھوٹی بڑی شئے کے عناصر موجود ہیں۔ ان کے کلام کے مطالعے کے بعدنظیراکبر آبادی کو شاعر ِ ہندوستان کا خطاب دیا جا سکتا ہے۔
کتابیات۔
کلیات نظیر،مرتب اورمرتب مولانا عبد الباری آسی ،مطبع نول کشور
فرہنگ نظیر ۔شریف احمد قریشی،نشاط آفسیٹ پریس ٹانڈہ
رُوح نظیرؔ مُولفٔہ سید محمد رضوی مخمور اکبر آبادی ۔اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنئو فروری ۱۹۷۸ء
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں