عتیق اللہ
سابق پروفیسر، دہلی یونیورسٹی
شمس الرحمٰن فاروقی ان نقادوں میں سے ایک ہیں جن کی ذہنی تشکیل میں نیو کرٹسزم کے نظریہ سازوں کے بعض تصورات نے خاص کردار ادا کیا ہے۔ ان نقادوں کا اصرار فن پارے سے خود مکتفی وجود اور اس کے بغور مطالعے پر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ فن کا سیاق ہی ایک اپنی کائنات ہوتا ہے۔ جس کی فہم کے لیے کسی بھی سوانحی، تاریخی یا اخلاقی حوالے کی مدد کے معنی اس متن کے خود یافتہ معنی کو جھٹلانے کے ہیں۔ ان نئے نقادوں کا کوئی ایک تنقیدی طریقۂ کار نہ تھا لیکن ان کا اتفاق تنقید کے اصولوں کے ایک خاص زمرے پر ضرور تھا۔ فاروقی نئی تنقید کے جن نظریوں سے متفق ہیں انہیں اس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے۔
(۱) نظم ایک معروض کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ محض شاعری ہوتی ہے، شاعری کے علاوہ کچھ اور نہیں (ایلیٹ) تنقید کا اولین اصول یہی ہے کہ وہ معروضی ہو اور معروض کی ماہیت کا مطالعہ اور تجزیہ اس کا منصب ہے کیوں کہ ہر فن پارہ اپنی جگہ ایک خود مکتفی / خود کار وجود رکھتا ہے۔ (جان کراؤرین سم) جب نقاد معروضیت سے صرفِ نظر کرکے جذباتی تغلیط کا شکار ہوتا ہے تو سوانح، تاریخ، اخلاقی، سماجی صورتحال اور نفسیاتی حوالوں سے اپنے مطالعے کی اوریجنیلٹی کو خود اپنے ہاتھوں تہس نہس کردیتا ہے۔
(۲) ہر فن پارہ اپنے قاری سے مطالعہ بغور Close reading کا مطالبہ کرتا ہے جس کے معنی ہیں فن پارے میں مضمر ان ترکیبی اجزا و مشتملات کے ابہامات (تکثیر معنی) اور باہمی پیچیدہ رابطوں کا مفصل اور دقیق تجزیہ جو تدریجاً اس کی تشکیل اور تکمیل کرتے ہیں۔ آئی۔ اے۔ رچرڈز اور ولیم ایمپسن نے ادبی مطالعات کے ضمن میں انہیں بنیادوں پر فن پارہ کو اولیت دی ہے۔
(۳) نئی تنقید کی اصولی بحثوں میں لفظ کی حیثیت مرکزی ہے۔ کیوں کہ ادب میں زبان کے برتاؤ کی نوعیت علمی زبان کے برتاؤ سے قطعاً مختلف ہوتی ہے۔ رچرڈز نے اسے بالترتیب emotive یعنی جذباتی اور referential یعنی حوالہ جاتی کا نام دیا ہے۔ ادب کی زبان ترکیبی، خود رو، خود یافتہ اور تعبیری ہوتی ہے۔ سائنس اور منطق میں کام آنے والی زبان کا وہ جوہر اس میں مفقود ہوتا ہے جس سے ایک خاص تنظیم، ترتیب اور نتیجہ خیزی کی قدر نمایاں ہوتی ہے۔ تنقید کا اصل کام ہی یہ ہے کہ وہ معانی اور الفاظ کے باہمی عمل اور صنائع اور علامات کے تفاعل پر خاص توجہ مرکوز کرے۔ اسے معنی اور ساخت کی اس وحدت کو اپنا مسئلہ بنانا چاہیے جو نامیاتی ہوتی ہے۔ نقاد جب ان چیزوں یعنی معنی اور ساخت کی نامیاتی وحدت سے اپنی توجہ ہٹالیتا ہے تو ترجمانی کی بدعت heresy of paraphrase کا شکار ہوجاتا ہے کیوں کہ ترجمانی کے معنی ایک ہی چیز کو بہ الفاظ دیگر دہرانے کے ہیں۔ اس طرح یہ بھی ایک بھرم ہے کہ کسی نظم کی اپنے صحیح معنی میں ترجمانی ممکن ہے جب کہ نظم اپنے مفہوم میں جو کچھ کہ وہ کہتی ہے اس سے بہت کچھ زیادہ ہوتی ہے۔
(۴) مختلف اصنافِ ادب میں امتیازات و تخصیصات قائم کرنا لازمی نہیں ہیں۔ نئی تنقید کے نظریہ سازوں کا سارا زور شاعری کے متن پر تھا اور شاعری کے فنی اور تخلیقی لوازم ہی ان کے نزدیک تمام نثری اصناف کی قدر شناسی کے لیے کافی ہیں۔ ہر ادبی فن پارے کے ترکیبی اور تخلیقی مشتملات میں استعارہ، علامت اور پیکر کی حیثیت بنیادی ہے نہ کہ کردار، خیال یا پلاٹ کی۔ کیوں کہ ہر ادبی ہیئت خواہ اس میں کردار اور پلاٹ ہو یا نہ ہو بنیادی طور پر معانی کی ساخت ہی کہلائے گی۔ جو فکشن میں تھیمیاتی امیجری Thematic imagery اور علامتی عمل کے ساتھ نشوونما پاتی ہے۔
اس معنی میں رچرڈز کے معنیاتی مطالعوں کی بڑی اہمیت ہے جو علامتی زبان کی ماہیت پر زور دیتے ہوئے تخلیق کو ایک خود مکتفی لسانی تنظیم سے موسوم کرتا ہے اور شاعری میں استعمال میں آنے والی زبان کو اعلیٰ ترین زبان کا درجہ دیتا ہے۔ اس کا مشہور قول ہے کہ ’’جو آدمی شاعری کے تئیں کند اور ٹھس ہے وہ زندگی کے تئیں بھی کند اور ٹھس ہوگا‘‘ اتنا ہی نہیں بلکہ ’’شاعری کے تئیں ایک عمومی بے حسی اس بات کی دلیل ہے کہ تخیلی زندگی کتنی پست سطح پر پہنچ گئی ہے۔‘‘ رچرڈز کی نظر میں شاعری اور اس کی زبان کا جو وقیع تصور ہے فاروقی کی تنقید بھی اسے ایک بلند درجہ عطا کرتی ہے۔ البتہ فاروقی رچرڈز کے اس تصور پر کوئی گفتگو نہیں کرتے کہ آئرنی اعلیٰ درجے کی شاعری کا کردار ہے تو کیوں کر ہے؟
اس سے پہلے میں عرض کر چکا ہوں کہ نئی تنقید کے نظریہ ساز کئی وجوہ سے اور کئی معنی میں متفق الرائے نہیں تھے۔ لیکن فن پارے کے خود مکتفی وجود، اس کی نامیاتی لسانی تنظیم اور مطالعے پر اصرار کے تعلق سے ان کے یہاں اتفاق رائے ملتا ہے۔ رچرڈز اکثر سائنسی اصولوں اور شماریاتی طریقے پر زور دیتا ہے اس کے یہاں ایک مقام پر پہنچ کر ادبی تنقید دماغ کی نفسیات اور لسانیات کی سائنس بن جاتی ہے۔ (بلیک مُر) بلیک مُر یہ بھی کہتا ہے کہ شاعری اور اس کی زبان کی باریکیوں کا گہرا علم رکھنے کے باوجود رچرڈز کو ادبی نقاد بمشکل ہی کہا جاسکتا ہے۔ نفسیات اور زبان کے اطلاق کے ضمن میں کینتھ برک کے مطالعوں میں زیادہ گہرائی ہے۔ دونوں کا تقابل کرتے ہوئے مُر نے لکھا ہے، ’’رچرڈز ادب کو ایک زقند spring board یا اقداری فلسفے کے سائنسی طریقے کا سرچشمہ کہتا ہے جب کہ برک کے لیے ادب نہ صرف ایک تختۂ جست ہے بلکہ فلسفہ یا اخلاقی احتمال کی نفسیات کی آرام گاہ یا تفریح گاہ ہے۔ ایک دوسری جگہ وہ برک کی تنقید کو دماغ کا ایک عمومی اخلاقی کھیل بھی کہتا ہے۔
فاروقی اپنی تنقید میں اس امر سے ضرور انکاری ہیں کہ جمالیاتی اثر کے علاوہ فن کا کوئی اور بھی تفاعل ہوتا ہے لیکن انہیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ وہ کوئی قطعی خالص چیز ہوتی ہے، جو کسی بھی انسانی یا جذباتی صورتِ حال کی مظہر نہیں ہوتی۔ فن میں زندگی کے برتاؤ کے مقررہ یا پہلے سے طے شدہ اصول نہیں ہیں کیوں کہ فن میں زبان کی urge کی نوعیت معمول کی زبان سے مختلف ہوتی ہے اسی بناپر لفظ تو وہی ہوتے ہیں جنہیں ہم آپ بخوبی برتتے اور سمجھتے ہیں مگر ان کی معنیاتی ترتیب الٹ پلٹ جاتی ہے، ترجیح کی صوتوں میں فرق واقع ہوجاتا ہے اور زندگی ہمیں اس معنی میں دکھائی نہیں دیتی جس کا ہمیں ہر لمحہ سابقہ پڑتا ہے یا قطعی زندگی کے متوقع تجربوں کو ہم جونام دیتے ہیں نام دہی کی دقتیں ہی معنی فہمی کی دقتیں ہیں۔ فاروقی نے معنی فہمی کے ایک سے زیادہ طریقے بتائے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ معنی کی پیچیدگی یا کثرت وہیں واقع ہوتی ہے، جہاں شاعر لفظوں کو برتنے کے ایک سے زیادہ طریقوں پر قادر ہے یعنی وہ بدیعیات کے اس راز سے واقف ہو کہ فنی قدر ہی نظامِ معنی کو حرکت میں رکھنے کی ایک واحد کلید ہے۔
ہمارے دور میں فاروقی کی تنقید اسی طرح کی جامعاتی تنقید کا نمونہ ہے جیسی کہ یوروپ اور امریکہ میں کئی یونیورسٹیوں کے استاد ادب کے بھی گراں قدر نقاد ہیں اور جو تنقید کا درس دیتے ہیں۔ نئی تنقید کے بیشتر نظریہ ساز امریکی یونیورسٹیوں میں بھی ادب کے استاد تھے۔ ان کی تنقید استنباط نتائج میں جن کوششوں سے عبارت ہوتی ہے اور جس قدر وہ دقیق، تکنیکی اور محققانہ ہوتی ہے یا اس کا مقصد تازہ علم فراہم کرنا ہوتا ہے نیز یہ کہ احتساب اور انکار کی جرأتوں سے جو سرشار ہوتی ہے اگر اس کی کوئی ایک مثال ہمارے یہاں ہے تو وہ ہے فاروقی کی تنقید۔ فاروقی کے انکار میں ایک ضبط پایا جاتا ہے جو چیزوں کو ان کا ایک مقام دینا چاہتا ہے جب کہ وارث علوی کا انکار ایک دہشت پسند کا چیلنج ہوتا ہے جو اگر کسی چیز کو بحال کرتا ہے تو بحالی سے پہلے اسے پوری طرح تہس نہس کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
فاروقی نے جامعات سے باہر رہ کر جامعات کے لیے کام کیا ہے اس کا ایک بڑا مقصد ادب کے ذوق کی صحیح بنیادوں پر ترتیب ہے۔ نیز ادب کے طلباء اور قارئین میں ادب اور ادب کے فرق کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کا انہوں نے جو بیڑہ اٹھارکھا ہے، اس میں مجھے جامعات کے استادوں کی ذہنی تربیت کا مقصد بھی پنہاں دکھائی دیتا ہے۔ فاروقی نے ان معروف عالم اور مقبول عام تصورات کے جھوٹ اور سچ کو نشان زد کیا ہے اور انہیں مزید پھیلنے سے روکا ہے جو شاعری یا زبان اور اس کے بدیعی نظام کے تعلق سے روایت کے طور پر پچھلی کئی نسلوں سے منتقل ہوتے چلے آرہے تھے۔ ان کی تنقید ایک بلند سطح پر یہ درس دیتی ہے کہ تنقید ادب کا علم ہے جس کے اپنے تقاضے ہیں، ان تقاضوں کو سمجھے بغیر جو تنقید کی جاتی ہے وہ محض گزشتگان کے دعاوی کو دہراتی ہے یا ایک بے مشقت اور بے خطر قسم کی تھیمیاتی یا فلسفیانہ باز آفرینی پر قانع ہوجاتی ہے۔
وہ فاروقی ہی ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ علمی بنیادوں پر بلکہ عسکری اور میراجی کے مقابلے پر زیادہ قطعیت اور تفصیل وبسط کے ساتھ شعر کی ظاہری اور داخلی ہیئت، شعر کا ابلاغ اور ترسیل کی ناکامی، شعر غیر شعر اور نثر اور ادب کے غیرادبی معیار جیسے عنوانات کو موضوع بحث بنایا نیز ان مسائل کی طرف معاصر تنقید کو متوجہ کیا۔ چوں کہ فاروقی نے ان امور پر بحث کے دوران ادب کو صرف ادب کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے ان مباحث کی سب سے بڑی طاقت ان کے استدلال کا جوہر ہے۔ فاروقی کی ۷۵ء تک کی تحریروں میں مغرب کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی لیکن دوسرے دور میں ان کی توجہ مشرق اور بالخصوص ہمارے کلاسیکی نظامِ بلاغت، عروض، آہنگ اور بیان کے مسائل اور ادب و تہذیب کے رشتوں کی طرف ہوگئی۔
شعر شور انگیز (جلد اول) کے د یباچہ میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ مغربی شعریات ہمارے کام میں معاون ضرور ہوسکتے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مغربی شعریات سے معاونت حاصل کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن یہ شعریات اکیلی ہمارے مقصد کے لیے کافی نہیں۔ (کیوں کہ) اگر صرف اسی شعریات کو استعمال کیا جائے تو ہم اپنی کلاسیکی ادبی میراث کا پورا حق ادا نہ کرسکیں گے۔ پھر وہ کلاسیکی نظامِ بدیعیات یا شعریات کو یہ کہتے ہوئے ناگزیر بتاتے ہیں کہ فن پارے کی مکمل فہم و تحسین اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس شعریات سے واقف ہوں جس کی رو سے وہ فن پارہ بامعنی ہوتا ہے اور جس کے (شعوری یا غیرشعوری) احساس و آگہی کی روشنی میں وہ فن پارہ بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد وہ فن پارے کو تہذیب کا مظہر بتاتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ تہذیب کے کسی بھی مظہر کو ہم اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے اور نہ اس سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں جب تک کہ ہمیں ان اقدار کا علم نہ ہو جو اس تہذیب میں جاری و ساری تھیں۔
ظاہر ہے کہ کوئی بھی ادبی تخلیق کسی ایک مخصوص مہلت زماں میں واقع ہونے کے باوجود شعوری اور لاشعوری طور پر اس عظیم تہذیبی روایت کا بھی حاصل جمع ہوتی ہے جو اپنے تسلسل کے باعث کئی زمانوں کے نظام احساس کی تاریخ کہلاتی ہے۔ انسانی نظام احساس کی ترتیب و تشکیل میں تہذیبی عوامل کا ان معنوں میں بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے کہ تہذیب کا ایک داخلی اور روحانی عمل بھی ہوتا ہے اور وہ داخلی عمل، ظاہر کی نسبت زیادہ قوت کے ساتھ ایک دوسرے کی معاملات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمل کے صیغوں میں تہذیبی مظہر جس طرح کلیوں اور مفاہموں conventions میں بدل جاتے ہیں اس سے بھی زیادہ طاقت ور طریقے سے وہ نظام فکر برسر کار رہتا ہے اور ایک عظیم ذہن کی تخلیق کرتا ہے جس کے خمیر کی تشکیل میں لسانی تہذیبی آثار و سروکار خصوصیت کے ساتھ عمل آور ہوتے ہیں۔ تاریخ ماقبل تاریخ کی زبانوں میں موجود و مجتمع تجربات، لسانی و قواعدی ساختیں اور جذباتی سانچے زمانہ بہ زمانہ منجھتے اور نکھرتے ہوئے بالآخر کسی بڑی زبان کے نظام احساس میں حل ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کئی زبانیں تاریخ ہی کے کسی عہد میں مرچکی ہوتی ہیں اور ان کی جگہ دوسری کوئی زبان یا زبانیں لے لیتی ہیں۔
فاروقی کا یہ خیال یقیناً کسی حدتک درست ہے کہ ہر تہذیب اپنے طور پر طے کرتی ہے کہ ہم کس چیز کو ادب کہیں گے۔ سوال یہ اٹھتا ہے اور یہ سوال بھی اتنا ہی اہم ہے اور اپنا ایک محل رکھتا ہے کہ تہذیب کے جس تصور پر فاروقی کا زور ہے وہ کون سی ہے وہاں ان جغرافیائی کروں کو بھی بڑی اہمیت ہے۔ جن کے مبہم حدود میں وہ سرگرم ہوتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ اردو شعریات کی تشکیل جس تہذیبی کرے میں ہوئی ہے وہ خود مختلف چھوٹے چھوٹے خطوں میں بٹی ہوئی تہذیبوں کا ملک ہے۔ اگر بالغرض محال تمام تعصات و تحفظات کو ایک طرف رکھ کر ہم اسے ایک بڑی تہذیب یعنی ہندوستان (آریہ تہذیب، درواڑی تہذیب، آدی واسی تہذیب، پہاڑی تہذیب وغیرہ وغیرہ) تہذیب کا نام بھی دے دیں تو کیا ہماری شعریات کی جڑوں کو اس میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔
ظاہر ہے اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہماری شعریات جس وسیع تر cult اور ethos پر قائم ہے اس کے وسیلے وسط ایشیا سے لے کر عرب، عجم اور عرب و ایران سے لے کر ہندوستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ خود ہندوستانی فکر، لوک بولیوں اور ہندی زبان کی منجھی ہوئی شکل میں اس وسیع تر امتزاجی تہذیب کا گہرا اثر ملتا ہے۔ ہماری لسانی تہذیب ایک طرف ہند یوروپی خاندان سے متعلق ہے اور قدیم فارسی جس کے ذیل میں آتی ہے تو دوسری طرف اس عربی سے اس کے اساطیری اور روحانی سلسلے جاملتے ہیں جو عبرانی اور سریانی کی جانشین ہے اور جس کا تعلق سامی سلسلے سے ہے۔
اردو کی طرح فارسی زبان اور ادب کی شعریات بھی ان ہر دو اثر سے مغلوب ہے۔ ایک سطح پر ہندوستانی تہذیب کی روح نے ہمارے نظام احساس کو ایک خاص شکل دی ہے تو دوسری طرف وہ وسیع تر لسانی تہذیب ہماری شعریات، کو بنانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے جس میں عرب و ایران کے اساطیر، معتقدات، اوہام اور دینی فکر کا بھی ایک اہم کردار رہا ہے جب تک یہ شعریات ہمارے مذاق اور علم کا حصہ نہیں بنتی ہم یقیناً اپنے ادب کی باریکیوں، نزاکتوں اور حساسیت کو نہ تو اپنی فہم کا حصہ بناسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ باوجود اس کے فاروقی اس راز سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ایک سطح پر تمام عالمی زبانوں کی شعریات اور نظامِ قواعد اس قدر مشترک اور گڈمڈ ہیں کہ اسے ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش نہ صرف یہ کہ ہماری بد توفیقی ہوگی بلکہ اس طرح بڑی معصومیت کے ساتھ ہم نسل، رنگ، عقیدہ اور خطہ کی بنیاد پر ایک کو دوسرے سے علیحدہ کرنے کے جواز بھی مہیا کریں گے۔
اس پچاس سالہ دور میں جو بڑے اور بلند کوش ادبی کام ہوئے ہیں۔ ان میں فاروقی کے دیگر کاموں کے علاوہ شعر شور انگیز بھی ہے جس نے میر تقی میر کے منتخب کلام کی عصری تفہیم و تعبیر کا حق ادا کیا ہے۔ فاروقی نے میر فہمی کے ان بہت سے بھرم کو توڑنے کی کوشش کی ہے اور ان مقبولِ عام مغالطوں کو بالخصوص نشان زد کیا ہے اور ان پر سوالیہ نشان لگادیے ہیں، جو بغیر کسی دلیل یا نظرہائے ثانی کے فہم عامہ (Common sense) کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ گزشتگان کے جواز خالی از حقیقت و بصیرت تھے۔ ان میں یقیناً سچائی کا ایک عنصر ضرور تھا مگر عنصر کو ایک مطلق کل مان لیا گیا جس کی وجہ سے ہندوپاک کے سارے نصابوں میں میر محض ایک مرنجان مرنج شخص اور رونے بسورنے والے ایسے شاعر کی تصویر بن کرابھرتے ہیں جو عزلت نشین ہے۔ دروں بینی جس کی طبیعت کا خاصہ ہے اور جو مردم بیزار ہے۔ نیز جس کی شاعری سادہ و شفاف ہے اور اسی نسبت سے اس کے تفکر اوراشیاء فہمی کا دائرہ بھی محدود ہے۔ فاروقی نے بیک وقت ایسے تمام کلیوں کو علمی بنیادوں پر رد کیا اور میر کے توسط سے ہمیں اپنی شعریات کے زندہ حصوں سے متعارف کرایا ہے۔ اپنے صحیح معنی میں یہی ایک بہت بڑا کام ہے جو علم کے ساتھ شوق، لگن اور مضبوط ریڑھ کی ہڈی کا مطالبہ کرتا ہے۔
شعر شو انگیز اس ذہن کی دین ہے جس کی پرداخت میں ادب فہمی اور قرأت کے مغربی طریقوں اور تجزیے کی ان دقیق صورتوں نے سرگرم حصہ لیا ہے۔ جن میں استدلال، ضبط اور ارتکاز جیسی اقدار کی حیثیت مقدر سمجھی جاتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی ترجمانی اور تعبیر کی رو میں تعبیر کار ضروری اور غیرضروری، معتبر اور غیرمعتبر یا متعلق وغیرہ متعلق ایسے حوالوں کا سلسلہ قائم کردیتا ہے کہ معروض تو پردہِ غیاب میں چلا جاتا ہے اور تعبیر کار کی علمی فضیلت اور شخصیت پورے متن پر حاوی ہوجاتی ہے۔
زبان کے اس عمل سے تو ہم سب واقف ہیں کہ زبان اظہار ہی نہیں اخفا کا بھی کام کرتی ہے اور ادبی زبان میں تو، مہین ترین وقفوں، جابجا تخلیقی تاملات اور تعطلات کی بڑی گنجائش ہوتی ہے۔ ایک ایسا صاحبِ علم قاری ہی ان سکوتیوں silences کو اپنی بہترین تخیلی قوت سے پر کرسکتا ہے جس کا ذوق تربیت یافتہ ہو اور جو اشیا فہمی یا ادراکِ حقیقت کا ایک غیر معمولی مادہ رہا ہو۔ فاروقی کے صاحب علم ہونے میں کوئی شبہ نہیں لیکن علم کے اطلاق میں ہر جگہ عسکرانہ قطعیت کو تخیل و بصیرت پر ترجیح دینے سے خشکی، بے رنگی اور حبس کی صورت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ فاروقی کے طول کلام میں اجتہاد ہوتا ہے۔ مگر قیاسات کی بھرمار بھی ہوتی ہے۔ انہیں کسی ایک یا دو چار مفاہیم سے تسلی نہیں ہوتی۔ وہ پہلے شبہات قائم کرتے ہیں پھر سوال، پھر تقابل کی صورت نکالتے ہیں پھر درجہ بندی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان طول طویل بحثوں میں مشرق و مغرب کے زبان و بیان کے عالموں اور نقادوں کے حوالوں کے جھرمٹ میں جگہ جگہ میری یادداشت سے محو ہونے لگتے ہیں۔
پتہ نہیں یہ ہماری یادداشتوں کی کوئی کمزوری ہے کہ فاروقی کی کوئی کوتاہی۔ اتنا ضرور ہے کہ ان کے منتخب کردہ اکثر اشعار جن پر فاروقی نے بے حد محنت کی ہے اور ایسے ایسے نکتہ نکال کر لائے ہیں کہ دماغ عش عش کرنے لگتا ہے۔ جب لوٹ پلٹ کر اصل شعر کو پڑھتے ہیں تو وہ اپنے مجموعی تاثر میں انتہائی روکھا پھیکا معلوم ہوتا ہے۔ تقابل میں بھی وہ اشعار جنہیں وہ میر سے بہتر ثابت کرتے ہیں مجموعاً اپنے تاثر اور کہیں کہیں اپنے مفہوم میں میر سے کہیں بلند ہوتے ہیں۔ ممکن ہے یہ میں یا اس قسم کی رائے رکھنے والے میرے دوسرے احباب کے علم یا ذوق کی کوتاہی ہو۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ فاروقی جہاں اچھے اشعار کی متنوع خوبیاں اجاگر کرکے ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ د یکھو شعر فہمی اور شعر شناسی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے وہاں ان کا ایک سبق یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی برا، کمزور یا بے مصرف اور بے اوقات شعر کہے اور اسے بڑا اور برتر ثابت کرنا ہے تو اس کے بھی ایک نہیں ہزار طریقے ہیں۔ اب آپ کی صوابدید پر ہے کہ آپ کون سا طریقہ آزماتے ہیں۔ اپنے علم کو جا و بے جا مگر قدرے اعتماد سے کام میں لینے کا ہنر آپ کو آتا ہے تو پھر ساری چیزیں آسان ہیں۔
اس نوعیت کے کام کا آغاز کیمبرج کے مجلہ Scrutiny نے کیا تھا۔ جس نے شکسپیئر، جین آسٹن اور مارویل پر بعض گراں قدر مضامین بھی پیش کیے تھے۔ مگر آرویل کو اس نے قطعی توجہ کے لائق نہیں سمجھا تھا۔ اس نے جی گرین ڈلان تھامس اور ورجینا وولف کی اکثر تحریروں اور کاموں کو تقریباً مسترد کردیا اور بعد ازاں اسپینڈر اور آڈن کی شاعری کو بھی جارحانہ قسم کی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نتیجتاً ایف آر لیوس اور کیمبرج کے نئے نقادوں کا حلقہ آن کی آن میں امریکی اور برطانوی ادب معاشرے اور جامعات کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ لیوس کا شیلی کو غلط ٹھہرانا، ایلن لیٹ اور ایلیٹ کا ملٹن کو مسترد کرنا یا یا رین سم کی رومانی شاعری کو محض اس وجہ سے مذموم ٹھہرانا اور ناشاعری قرار دینا کہ وہ صرف دلی آرزومندی اور مایوسی کا خلاصہ ہے، کم فہمی سے زیادہ کج فہمی کی دلیل ہے۔ اس کے برعکس پوپ کو محض اس بناپر مابعد الطبیعاتی شعرا کی صف میں جگہ دی گئی کہ اس کے یہاں wit یعنی ذکاوت تھی۔ انہی جا و بے جا طرف داریوں کی بناپر فریڈرک پوٹل کو یہ کہنا پڑا تھا کہ،
’’نئے نقادوں نے اپنے شدید نزاعی تعصب کے باعث ان شاعروں کی قرأت ہی غلط کی یا ناکافی قرأت کی جن کی مقبولیت کی دھجیاں اڑانا ان کا مقصود تھا۔‘‘
فاروقی جب بھی ایک کا تقابل کسی دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں تو فاروقی کی تنقید کو دلچسپی سے پڑھنے والا طالب علم فوراً یہ سمجھ جاتا ہے کہ اب بجلی کس پر گرنے والی ہے۔ میر کے مطالعے کے دوران انہوں نے جتنے شعراء اور ان کے کلام کا حوالہ دیا ہے انہیں بڑے حسن و خوبی اور بڑے علمی اعتماد کے ساتھ میر کے سامنے چت کردیا ہے۔ مثلاً
فیض، فراق، مجاز یا افسانے کے بارے میں انہوں نے جو رائیں قائم کی ہیں اس نے بہتوں کو شدید صدمہ پہنچایا اور دراصل صدمہ پہنچانا ہی فاروقی کا مقصد بھی تھا۔ ممکن ہے فاروقی نے اپنی طرف
متوجہ کرنے کی غرض سے کہیں بلاشبہ ان کا مقصد بعض چیزوں کو رد اور بعض چیزوں کو بحال بھی کرنا تھا۔ وہ جھوٹ جو بالغ ہوچکے تھے اور جن کی جڑیں گہری پیوست ہوگئی تھیں انہیں اکھاڑنا بھی ضروری تھا لہٰذا انہوں نے یقیناً بہت سے مغالطے رفع کیے ہیں جیسا کہ میں اپنے ایک مضمون میں کہہ چکا ہوں کہ ہر بڑی تنقید جہاں بہت سے مغالطے رفع کرتی ہے وہاں کئی نئے مغالطے پیدا بھی کرتی ہے اور حالی، کلیم الدین اور عسکری کی طرح فاروقی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
فاروقی کے لیے تنقید کا بنیادی مسئلہ ہیئت (جس میں لفظ کی قدر بھی شامل ہے) اور معنی وقدر کا تفاعل ہے چوں کہ وہ اپنے بنیادی موقف میں موضوع اور ہیئت یا ہیئت اور مواد کو ہم بود و ہم وجود سمجھتے ہیں اس لیے یہ خیال ہی گمراہ کن ہے کسی خاص موضوع کے لیے کوئی خاص ہیئت ہی موافق ہوسکتی ہے یا بحیثیت مجموعی شعر کو کمال کے درجے تک پہنچاسکتا ہے، کلینتھ برکس نے نظم کے paraphrasing کو اسی لیے ترجمانی کی بدعت کہا تھا۔ دراصل ترجمانی کا عمل اس فریب کو خوشدلی سے تسلیم کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے کہ مواد اور ہیئت دو الگ الگ ہستیاں ہیں ان دونوں کے اشتراک کا نام نظم ہے اور علیحدہ کرنے کا نام ترجمانی۔ فاروقی نے ایک سے زیادہ بار اپنے اس موقف کی وضاحت کی ہے کہ شعر میں ہیئت اور موضوع بیک وقت وجود میں آتے ہیں۔ اس صورت میں تشریح کا عمل انہیں زیب نہیں دیتا کیوں کہ جب دونوں اقدار ایک دوسرے میں پیوست اور ایک جان ہیں تو انہیں علیحدہ کرکے دکھانے کے معنی ترکیب شعر میں وہ ہم بودیت کے قایل نہیں ہیں۔
یہاں پہنچ کر مجھے فارسٹرڈیمن کی ولیم بلیک کی شا عری پر لکھی ہوئی کتاب یاد آرہی ہے جس میں بلیک جیسے غیر معمولی طور پر مشکل شاعر کا محاکمہ کیا گیا ہے اس حقیقت سے تو آپ ہم سب ہی واقف ہیں کہ بلیک کی سادہ سے سادہ نظم بھی اتنی سادہ نہیں ہوتی جتنی بظاہر دکھائی دیتی ہے۔ بلیک کی نظم ان شارحین کے لیے ضرور کچھ آسانیاں فراہم کرتی ہیں جنہیں اس کے عمل تفکر
اور باطنی عقیدے کی سریت کا علم و احساس ہے۔ بلیک مرکہتا ہے کہ ڈیمن کو بلیک کے باطنی عقیدے کی سریت کا احساس تو ہے لیکن اپنی تشریحات میں اس کا اطلاق وہ اتنی سخت باقاعدگی کے
ساتھ کرتا ہے کہ بلیک تو درمیان ہی میں کہیں گم ہوجاتا ہے اور ایک ایسے نئے بلیک سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے جو اصل بلیک سے قطعاً مختلف ہے جیسے بلیک ایک بڑا مفکر تھا اور اس کی فکر ایک منظر اور منطقی ربط و ضبط رکھتی تھی۔
ظاہر ہے کہ بلیک کے یہاں ایسی کسی بھی فکر و دانش کی تلاش اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہی سمجھی جائے گی۔ یہ تو ڈیمن کی اپنی فضیلت علمی کی کرشمہ سازی تھی جس نے محض مفروضات کی بنیاد پر بلیک جیسے بے اصولے اور شعر کو انکشاف کے طو رپر اخذ کرنے والے شاعر کے کلام میں یکساں روی اور استحکام کی صفت تلاش کرلی۔ اس بحث سے یہی پتہ چلتا ہے کہ کس طرح فضیلت علمی کے جاوبے جا اطلاق کی کوشش حقائق کو مسخ کردیتی ہے۔ اگر واقعی اپنی شاعری میں بلیک اتنا ہی فکر انگریز، ربط و ضبط رکھنے والا اور عملِ تخیل میں مرتب اور تحفظ و احتیاط کا حامل ہوتا تو پھر وہ بلیک نہیں کچھ اور ہوتا۔ بلکہ موجودہ بلیک سے کچھ بلکہ بہت کچھ کم ہی ہوتا۔
فاروقی نے اکثر مقامات پر میر کو اسی طرح د یکھنے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح فارسٹرڈیمن نے بلیک کو دکھایا ہے۔ میر ایک بڑے شاعر ہیں اور ان کی خدائی کو کسی نے اس طرح جھٹلانے کی کوشش نہیں کی تھی جس طرح غالب کی کی گئی تھی۔ پھر بھی فاروقی اکثر جگہوں پر میر کا دفاع کرتے ہوئے اور اسے بحال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور بالآخر یہ ثابت کرکے اپنے یقین کو بھی بحال کرتے ہیں کہ اگر غالب ایک مشکل شاعر ہیں تو میر بھی ان سے کم مشکل شاعر نہیں ہیں۔
امبیر ٹواکو، رچرڈوارٹی، سٹائن بُرک روز اور اسٹینلی فش نے انٹرپریٹشن اور اووَر انٹرپریٹشن کے موضوع پر خاصی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اور ان مخفی معانی hidden meanings کی تحقیق و جستجو کو شرح نگاری کا خاص مقصد ٹھہرایا ہے جنہیں اپنے اصل سراغ میں نظریاتی اور سیاسی معتقدات سے نسبت دی جاسکتی ہے اور جو بظاہر جمالیاتی ہوتے ہوئے متن میں دب چھپ جاتے ہیں۔ بعض متون تشریح طالب اور بعض نسبتاً بلکہ زیادہ بلکہ بہت زیادہ تشریح طلب ہوتے ہیں۔ تاہم اسٹینلی فش یہ تنبیہہ کیے بغیر بھی نہیں رہتا کہ ادبی کارناموں یا متون کی تشریحات کی کئی اعتبار سے اپنی جگہ اہمیت ہے ان کی اپنی ایک حد بھی ہے لیکن ادبی مطالعات کے ضمن میں اعلیٰ تر مقصد کے طور پر ان کا شمار نہیں کرنا چاہیے۔
فاروقی کی تعبیرات چکاچوندھ کرنے والی ضرور ہیں اور وہ مرعوب بھی کرتی ہیں مگر اس طرح کے کام کے لیے اور بہت سے مناسب نام ہیں۔ اردو جیسی زبان، ہندوستان میں جس کے پڑھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد بدستور کم ہوتی جارہی ہے اور جس کے جاننے والوں میں بیشتر وہ لوگ ہیں جن کا علم دوسری زبانوں کے بارے میں کم سے کم ہے ان کے لیے اور ہمارے طلبہ اور اساتذہ کے لیے شعر شور انگیز کی قدر دہ چند بڑھ جاتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو دوسری بڑی زبانوں کے ادب سے کسی حدتک واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ تشریح و تفہیم کے بڑے سے بڑے کاموں کو کبھی تنقید کے اعلیٰ نمونوں سے یاد نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کا شمار ادبی تنقید کی تاریخ میں ہوتا ہے۔ تشریح ایک سطح پر تنقید کے عمل سے بھی سروکار رکھتی ہے لیکن تنقید کی تاریخ میں اس کا مقام متعین کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں