(پریاگ راج ، الہ آباد سے صالحہ رشید کی رپورٹ) یونیسکو، اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم اور اندرا گاندھی نیشنل سنٹر فار دی آرٹس ، نئی دہلی ، وزارت ثقافت حکومت ہند کے اشتراک سے اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، چندرا شیکھر آزاد پارک ، پریاگ راج میں لائیبری ، میوزیم اور آرکائیوز میں آفات و ہنگامی حالات سے نپٹنے کے لئے Disaster Risk Managementعنوان سے پانچ روزہ بین الاقوامی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔یہ ورکشاپ ۱۸؍ نومبر سے ۲۲؍ نومبر تک چلے گی جس میں بشمول آسٹریلیا، انڈونیشیا، سنگاپور ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے مندوبین حصہ لے رہے ہیں۔ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس کی صدارت فرما رہے کلچرل انفومیٹکس ، اندرا گاندھی نیشنل سنٹر فار دی آرٹس ، نئی دہلی کے ڈائریکٹر پروفیسر پی ۔جھا نے اپنے خطاب میں شرکا ء کی توجہ ’ یاد داشتی اداروں Memory Institutionsکے علمی و ثقافتی ورثہ کے ڈجیٹلائیزیشن کی ضرورت ، اس کی حدود اور خطرات‘کی جانب مبذول کرائی۔انھوں نے فرمایا کہ ان اداروں میں موجود وراثتی اثاثہ کو طویل مدت تک محفوظ رکھنے کے طریقے تلاشنے ہوں گے۔حالیہ ڈجیٹیلائیزیشن اس بیش قیمت اثاثہ کے تحفظ کا طویل مدتی حل نہیں ہے۔ انھوں نے قرون وسطیٰ میں ہوئے حملوں اور حال کی جنگی تباہ کاریوں میں علمی اور ثقافتی ورثوں کی پامالی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے انھیں محفوظ کرنے کے بہتر طریقے تلاشنے کی تلقین کی اور نیشنل کلچرل آڈیو وژول آرکائیوز تیار کرنے کی اپنی کاوشوں پر مبنی پریزنٹیشن دیا۔
افتتاحی اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت فرما رہی آسٹریلین لائیبریری اینڈ انفارمیشن اسوسئیشن کی سربراہ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر ہیدر برائون جو فی الوقت یونیورسٹی آف سائوتھ آسٹریلیا کی لائیبریرین ہیں نیز انھوں نے یاد داشتی اداروں کے ڈزاسٹر مینجمنٹ ٹول کٹ تیار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ، ان کے مطابق آفات کے نازل ہونے کا انتظار نہ کر کے ہمیں اس کی پیش بندی پر توجہ دینی ہوگی تاکہ آفات سے ہونے والے خطرات کو قلیل ترین کیا سکے۔
پروفیسر سنجے جین سابق صدر شعبہ میوزیولوجی اور ڈین فیکلٹی آف فائن آرٹس، مہاراجہ سایا جی رائو یونیورسٹی، بڑودہ ، گجرات نے میوزیم کی اہمیت اور ان کے موجودہ منظر نامہ پر روشنی ڈالی۔ان کے مطابق ہماری نسلیں اپنی وراژت کے ذریعہ ہی اپنے ماضی کو جان سکتی ہیں اور مستقبل کا اندازہ لگا سکتی ہیں۔پروفیسر اچل پانڈیا ، سربراہ کنزرویشن ڈپارٹمنٹ، اندرا گاندھی نیشنل سنٹر فار دی آرٹس ، نئی دہلی اپنی وراژت کے تحفظ اور اس میں کام آنے والے ٹول کٹس پر اپے تجربات اور رائے پیش کیں۔پروفیسر بی۔ کے سنگھ لائیبریرین ، الہ آباد یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اس راہ میں چیلینج اور مشکلیں بے شمار ہیں اس لئے انھوں نے اپنی دسترس میں ہونے والے وسائل کے ذریعہ علمی اور ثقافتی وراثت کو بچانے نیز اس ورکشاپ کو سنجیدگی سے لینے کا مشورہ دیا۔ اس ورکشاپ کے روح رواں ڈاکٹر گوپال موہن شکلا ، لائیبریرین ، اسٹیٹ پبلک لائیبریری جنھوں نے لائیبریری کو اپنی کاوشوں سے اکیڈمک ہب میں تبدیل کر دیا ہے، انھوں نے بتایا کہ ہندوستان میں اس نوعیت کا یہ پہلا پروگرام ہے۔ انھوں نے تمام شرکاء و دیگر مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے ورک شاپ کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ نظامت کے فرائض مینجمنٹ کمیٹی کے ممبر سابق آئی اے ایس اور سرسوتی کے مدیر جناب روی نندن سنگھ نے انجام دئے جب کہ رسم شکریہ مینجمنٹ کمیٹی کے دوسرے اہم رکن سابق پرنسپل پروفیسر گووند داس نے ادا کی۔افتتاحی اجلاس میں پروفیسر صالحہ رشید رکن مینیجمنٹ کمیٹی، سنیرا بی بی از سنگاپور، ودیا تموکو آدی پتری ، انڈونیشیا و درون ملک کے دیگر سینیر لائیبریرین اور کنزرویشن سائنٹسٹ ، عمائدین شہر طلباء اور ریسرچ اسکالرس موجود رہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں