پروفیسر شہپر رسول
دل میں شعلہ تھا سو آنکھوں میں نمی بنتا گیا
یاد کا بے نام جگنو روشنی بنتا گیا
ایک آنسو اجنبیت کا ندی بنتا گیا
ایک لمحہ تھا تکلف کا صدی بنتا گیا
کیا لبا لب روز و شب تھے اور کیا وحشی تھا میں
زندگی سے دور ہوکر آدمی بنتا گیا
کب جنو ں میں کھنچ گئی پیروں سے ارض اعتدال
اور اک یوں ہی سا جذبہ عاشقی بنتا گیا
زندگی نے کیسے رازوں کی پٹاری کھول دی
آگہی کا ہر تیقن گمرہی بنتا گیا
شہر کا چہرہ سمجھ کر دیکھتے تھے سب اُسے
اور وہ خود سے بھی شہپرؔ اجنبی بنتا گیا
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں