ڈاکٹر مقبول احمد مقبول
ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبۂ اردو
مہارشٹرا اُودے گیری کالج
اس دنیائے آب وگل میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کے درمیان چند ایسے نفوسِ قدسیہ کا بھی ورود مسعود ہوتا ہے جن کے عظیم الشان اور پُر نور کارناموں سے اوراقِ تاریخ منور اور قوم مجلّا ہوتی ہے۔ سر سید احمد خاں کا شمار بھی ایسے ہی نفوسِ قدسیہ میں ہوتا ہے۔سر سید انیسویں صدی کی ایسی عبقری شخصیت کا نام ہے جن کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب ومعاشرت ،ذہن وفکراور ان کے علم وادب میں زبردست انقلاب آیا۔غدر ۱۸۵۷ء کے حالات ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں تھے۔یہ وہ سال ہے جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کے تقریباً ایک ہزار سالہ دورِحکومت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد ہندوستان میں چند ایک چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں تھیں لیکن وہ سب انگریزوں کے رحم وکرم پر تھیں ۔مسلمانوں کی سب سے بڑی اور مرکزی حکومت یعنی مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہو چکا تھا۔مسلمانوں سے جاگیریں ،عہدے اور مناصب چھین لیے گئے تھے۔مسلمان انگریزوں کی نظر میں سب سے بڑے مجرم تھے ۔کیوں کہ انھیں کی طرف سے انھیں کے علما کے فتاوے کی روشنی میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑکے تھے۔ چنانچہ اس وقت اہلِ ہند میںانگریزوں کے سب سے زیادہ معتوب ومقہور ہندوستانی مسلمان ہی تھے۔
سلطنت ختم ہو گئی ،جاگیریں ضبط کر لی گئیں،عہدے اور مناصب بھی ختم کر دیے گئے ۔نتیجے کے طور پر ہندوستانی مسلمان مایوسی،پژمردگی اور نکبت وافلاس کا شکار ہو گئے۔تعلیمی پس ماندگی تو تھی ہی اب اقتدار چھن جانے کے بعد معاشی پس ماندگی کا شکار بھی ہو گئے۔ گویا ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا ۔کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ہر طرف مایوسی اور ناکامی کے بادل منڈلاتے نظر آرہے تھے۔ ایسے مایوس کن اور پُر آشوب حالات میں ایک مردِ خداٹھتاہے اور سوتوں کو جگانے اور جاگتوں کو دوڑانے کی سعیِ مشکور کرتا ہے۔ اس کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی سید احمد خاں ہے۔
سر سید احمد خاںنہایت ذہین وفطین ،دور اندیش،زبردست مدبر ومفکر اور سچے مصلحِ قوم تھے۔انھوں نے دیکھا کہ اب انگریزوں سے ٹکرلیناگویا دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔اب اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم وفنون اور انگریزی تعلیم حاصل کریںاوراپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام برائیوں کا خاتمہ کریں۔ اس کے لیے انھوں نے ایک منظم اور زبردست تحریک شروع کی جو تاریخ میں’’علی گڑھ تحریک ‘‘کے نام سے مشہور ہے۔یہ تحریک بہ یک وقت تعلیمی بھی تھی اوراصلاحی بھی ۔اس تحریک نے ہندوستانی مسلمانوں کی فکر ونظر کی تبدیلی میں انتہائی اہم رول ادا کیا ہے۔ تعلیم وتربیت ،زبان وادب ، تہذیب و ثقافت، مذہب و صحافت اور تاریخ وتحقیق، غرض ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیںتھا جس پر اس تحریک نے دور رس اثرات مرتسم نہ کیے ہوں۔سر سید نے یہ معلوم اور محسوس کر لیاتھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ان کے نظامِ تعلیم، زبان وادب، تہذیب ومعاشرت اورمذہبی خیالات کی اصلاح کر کے ان میں بھی مثبت تبدیلی لانا ضروری ہے۔چنانچہ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے ان تمام اداروں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا جن سے ان کا تھوڑا بہت بھی تعلق تھا۔
سر سید کی یوں تو تمام خدمات مفید ،کار آمد ،قابلِ فخر، لائقِ تحسین و ستائش اور یادگار ہیں؛ لیکن ان میں ان کی تعلیمی اور اصلاحی خدمات سب سے زیادہ عظیم الشان ہیں۔ہندوستانی مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے سر سید نے جو کوششیں کیں وہ یقیناً آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔وہ نبّاضِ وقت تھے ۔غور وفکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کا نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم فرسودہ ہوچکا ہے ۔ اس میں جدید کاری کی ضرورت ہے۔آج فلسفہ اور منطق کی نہیںبلکہ سائنسی تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔سر سیدکو اس بات پر یقین واثقِ ہو گیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی مادی ترقی وکامرانی اور ان کی فلاح وبہبودی کا راز جدید علوم کے حصول میں پوشیدہ ہے اور جدیدعلوم کا سارا خزانہ ا نگریزی زبان میں ہے ۔لیکن ہندوستانی مسلمان کچھ تو انگریز وں سے نفرت اور کچھ مذہبی تنگ نظری کی وجہ سے انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے بدکتے تھے۔ ان کے نزدیک انگریزی زبان کا سیکھنا کفر سے کم نہ تھا۔
سر سید نے ہندوستانی مسلمانوں کو اس تنگ نظری کے خول سے باہر نکالا۔انھوں نے ان کے اذہان کو روشن خیالی اور مثبت اندازِ فکر کی طرف موڑا۔ انھوں نے کہا کہ تمھیں انگریزوں سے نفرت ہو سکتی ہے ان کی زبان سے نفرت کیوں؟سر سید نے واضح،مدلل اور پُر زور انداز میں کہا کہ اب انگریزی زبان سیکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس زبان کو سیکھے بغیر ہم پر ترقی کی راہیں نہیں کھلیں گی۔انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے ناواقفیت کی وجہ سے ہندوستانی مسلمان حکومت کے نظام کا حصہ بھی نہیں بن پا رہے تھے ۔اس کی وجہ سے حکومت تک ان کی کوئی بات موثر انداز میں نہیں پہنچ پا رہی تھی جس سے ان کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو رہا تھا۔ اس نقصان کی تلافی کے لیے بھی جدید علوم کا سیکھنا ضروری معلوم ہو رہا تھا۔چنانچہ سر سیدنے اس جانب اپنا سارا زورِعمل صرف کیا ۔قوم کی مخالفتیں سہیں ،گالیاں کھائیں،زندیق وکافرکی تہمتوں کو خوشی خوشی سے برداشت کیا لیکن اس مردِ خدا نے ہمت نہیں ہاری۔ اس کے لیے انھوں نے جو جو قربانیاں دیں وہ ان کے قوم کے تئیں جذبۂ صادق کی دلیل ہیں۔ایسی بے غرضی اور بے لوثی کی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سر سید نے اپنی ساری طاقت وتوانائی اورروپیہ پیسہ ہندوستانی مسلمانوں میں جدید تعلیم کو فروغ دینے میں لگا دیا۔ اسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ہندوستانی مسلمانوں کی فلاح وبہبودی کے لیے وقف کر دی تھی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اعلیٰ درجے کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی غرض سے انگلستان کے تعلیمی ادراروں کا معائنہ کرنے کے لیے سر سید انگلستان گئے،اور باریک بینی سے وہاں کی تعلیمی سرگرمیوں اور تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا۔ہندوستان واپس آکر ’’محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیادڈالی جوآج ’’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔یہی نہیں بلکہ ’’مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ نامی ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا جس کا مقصد ملک بھر میں تعلیمی ادارے قائم کرنا تھا۔تعلیمِ نسواں کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کیا۔نتیجے کے طور پر ہندوستانی مسلم خواتین کی تعلیم کے لیے ماحول سازگار ہوا۔سر سید نے اپنے ناقدین کی مخالفتوں کی پروا نہ کرتے ہوے جس اولو العزمی اور ثابت قدمی سے اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا وہ ان کی زبردست خود اعتمادی اور قوتِ ارادی کی مظہر ہے۔اکبر ؔ الہ آبادی (جو ان کے کٹر ناقدین میںسے ایک تھے) کو آخر کار سر سید کی خدمات کا اعتراف کرنا ہی پڑا۔چنانچہ سر سید کی موت پر انھوں نے کہا :
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کوئی کچھ بھی کہے میں تو یہی کہتا ہوں اے اکبرؔ
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
تہذیب وتمدن اور اخلاق ومعاشرت کے موضوع پر سر سید کے ڈھیروں مضامین اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہیں کہ سر سیدنے اپنے ان مضامین کے ذریعے مسلم معاشرے کی اصلاح کا زبردست کام لیا۔ہندوستانی مسلمانوں میں پھیلے ہوئے غیر ضر ور ی اور غیر شرعی رسم ورواج اور بدعات کا قلع قمع کیا۔قومی منافرت ،مذہبی تنگ نظری ،سستی اور کاہلی کی مذمت کی اور انھیںجہدو عمل کے نئے نئے راستے سجھائے۔ہندوستانی مسلمانوںمیں بلند حوصلگی اور اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ بیدار کیا۔ان میں صبر وضبط اور قوتِ برداشت کا مادہ پیدا کیا۔ان کی معاشرتی زندگی کو باوقار اور معیاری بنانے کی پُرخلوص کوشش کی۔ رسالہ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ اسی مقصد کے لیے جاری کیا گیا تھا جس کے بیشتر مضامین وہ خود لکھتے تھے۔
سر سید سے پہلے اردو زبان مفرّس ومعرّب رنگ کی حامل مشکل اور ادق تھی۔ سر سید نے اسے عام فہم بناے کی پُر زور وکالت کی ۔اردو نثر مسجع ومقفّی اسلوب سے زیر بار تھی۔سر سید نے اسے اس بوجھ سے آزاد کرایا۔اگر چہ اس قسم کی کوششیں سر سید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کے تصنیفی اور تالیفی دور میں بھی ہوئیں،لیکن سر سید نے اپنے رفقائے کار کی مدد سے اسے ایک نئی جہت دی جس میں اخلاص کا بڑا دخل ہے۔ادب کو بامقصد اور کار آمد بناے کی سعیِ مشکور کی ۔شعروادب کو تعلیم وترقی اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر اپنانے کی تلقین کی ۔ مافوق الفطرت عناصر سے معمور داستانوں اور مثنویوں کی جگہ اصلاحی ناول اور قومی اور نیچرل شاعری کی طرف توجہ مبذول کروائی۔سر سید نے اگرچہ تنقید میں کوئی باضابطہ کتاب تو نہیں چھوڑی تاہم انھوں نے اردو میںتنقید کی راہیںضرور ہموار کیں ۔کیوں کہ وہ زبردست تنقیدی ذہن کے مالک تھے ۔سر سید کا ذہن سائنسی تھا اور فکر منطقی تھی۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سر سید اردو میں سائنٹی فک تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہیں۔ شعرو ادب سے متعلق ان کے تنقیدی خیالات ان کے مختلف اصلاحی اور صحافتی مضامین میں بکھرے ہوے ہیں۔بہر حال اردو شعرو ادب کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی سر سید نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔
سر سید نے جب صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو انھوں نے صحافت کو بھی ایک معیار اور وقار عطا کیا۔ چنانچہ اردو صحافت بھی ان کی منت کش ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں سائنسی شعور بیدار کرنے اور ان میں سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے مقصد سے’’ سائنٹی فک سوسائٹی‘‘ قائم کی اور اس کے تحت ایک اخبار بنام ’’اخبار سائنٹی فک سوسائٹی ‘‘ جاری کیا۔سائنٹی فک سوسائٹی کے زیرِ اہتمام سر سید نے کئی ایک سائنسی کتابوںکا انگریزی سے اردو میںترجمہ کر کے شا ئع کیا۔ سائنٹی فک سوسائٹی کی سائنسی خدمات اور’’ اخبار سائنٹی فک سوسائٹی‘‘ کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں میں کئی مثبت تبدیلیاں آئیںاور ان میں سائنسی تعلیم کے حصول کا جذبہ پیدا ہوا۔
دین ومذہب سر سید کی دلچسپی کا ایک اور اہم ترین موضوع تھا۔ اس میدان میں بھی انھوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے۔ سر ولیم میورؔ نے جب ’’لائف آف محمد‘‘ نامی کتاب لکھ کر حضور اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور ان کے کردار کو داغدار کرنے کی مذموم کوشش کی اور اسلام پر بے جا اعتراضات کیے، تو وہ سر سید ہی تھے جنھوں نے اس کتاب کا مدلل ومسکت جواب ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ کے نام سے تحریر کیا اور زرِ کثیر صرف کر کے اس کو شائع بھی کیا۔ولیم میورؔ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا ۔وہ حکومتِ کا ایک بااثر فرد تھااور جس وقت سر سید ا س کی کتاب کا دندانِ شکن جواب لکھ رہے تھے وہ یو۔ پی کا گورنر تھا۔سر سید نے سرکاری ملازمت میں ہونے کے باوجود ولیم میور ؔسے مرعوب ہوے بغیر اس کے اعتراضات کی تردید کرنے کی ٹھانی۔گویا اک طرح سے اس سے ٹکر لی۔یہ بڑے ہمت اور حوصلے کی بات تھی۔یہ اقدام ایمانی حرارت اور عشقِ رسول کے بغیر ممکن نہیں۔ کتاب کے لیے درکار مواد کی فراہمی کے لیے انھوں نے انگلستان کا سفر کیا۔اس تالیف کی سر سید کے نزدیک کیا اہمیت تھی اس کا اندازہ محسن الملک کے نام تحریر کردہ ایک مکتوب کے اس جملے سے ہوتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’اگر میری یہ کتاب تیار ہو گئی تو میں لندن میں آنا دس حج کے برابر اور باعث اپنی نجات کا سمجھوں گا‘‘(بحوالہ ثریا حسین، سر سید اور ان کا عہد،ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ ،۱۹۹۳ء ص۱۱۲) ا
سر سید کے بعض مذہبی خیالات کے پیشِ نظرہمارے بعض حلقوں کی جانب سے ان پر طعن وتشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو’’خطباتِ احمدیہ‘‘ کے ذریعے سر سید سچے عاشقِ رسول اور دینِ اسلام پر اٹل ایمان رکھنے والے مسلمان کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔اس سلسلے میں سر سید کے دو نعتیہ شعر نقل کرنا بر محل ہوگا جن سے ان کا جذبۂ عشقِ رسول ثابت ہوتا ہے۔کہتے ہیں:
فلاطوں طفلکِ باشد بہ یونانے کہ من دارم
مسیحا رشک می آرد ،زدرمانے کہ من دارم
خدا دارم دلے بُریاں،ز عشقِ مصطفیﷺ دارم
نہ دارد ہیچ کافر، سازو سامانے کہ من دارم
مسلمانوں میں عقلیت پسندی کے رجحانات کو فروغ دینے کی کوشش کے طور پر قرآن مجید کی تفسیر لکھی ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی خیالات کی اصلاح کی غرض سے کئی مفید مضامین اور رسالے لکھے۔دین کو افراط تفریط سے پاک کرنے کی مبارک کوشش کی۔ کورانہ تقلید کی برائیوں سے آگاہ کیا ۔ہر معاملے میں غور وفکر اور تعقل وتدبر سے کام لینے کی تلقین کی۔اگرچہ سر سید کے بعض مذہبی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور کیا گیا ہے لیکن ان کے اخلاص پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔وہ پیغمبر نہیں ایک ریفارمر تھے ۔ان سے اجتہاد کی غلطی ہو سکتی ہے۔لیکن اس اجتہاد کے پیچھے جو خلوص کا جذبہ کار فرما تھا اس کی بہر حال قدر کرنی چاہیے۔مذہبی معاملات پر تحریر کردہ سر سیدکے کئی چھوٹے بڑے رسائل اس بات کے گواہ ہیں کہ ان میں زبردست اجتہادی اور تحقیقی صلاحتیں موجود تھیں۔ ان کے تحقیقی مقالات و مضامین سائنٹی فک نقطۂ نظر کے حامل ہوتے تھے۔
سر سید نے اردو ادب ،تاریخ نگاری ا ورسیرت نگاری میں سائنٹی فک اندازِ نظر کوپروان چڑھانے اور تحقیق کی راہیں ہموار کرانے میں اہم رول اد اکیا ہے۔ بلا شبہ وہ ایک اچھے اور سچے محقق کی حیثیت سے بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ہندوستانی مسلمانوں میںسائنسی وژن،علمی بصیرت اور دانشوری کو فروغ دینے میں ان کی جو خدمات رہی ہیں انھیں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ نگاری کے میدان میں بھی سر سید نے نہ صرف اپنے نمایاں نقوش چھوڑے ہیںبلکہ اس راہ میں بھی انھوں نے رہبری کا فریضہ انجام دیا ہے۔اس سلسلے میں’’ جامِ جام‘‘ ’آثار الصنادید‘‘ ’’سلسلۃ الملوک‘‘ ’’تصحیح آئینِ اکبری ‘‘ ’’تصحیح تاریخِ فیروز شاہی ‘‘ اور ’’تصحیح توزکِ جہانگیری‘‘وغیرہ کتب تواریخ کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
سر سید نے نہ صرف خود تصنیف و تالیف کا کام کیا بلکہ عالمانہ اور محققانہ ذہن کے حامل اہلِ قلم کی ایک پوری ٹیم تیار کی جن میں حالی ،شبلی ،ڈپٹی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ،نواب محسن الملک،وقارالملک اور مولوی چراغ علی کے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں۔سر سید کے یہ رفقائے کاراپنے رشحاتِ قلم سے اردو زبان وادب اور ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب ومعاشرت میں کئی اہم ترین اور مثبت تبدیلیاں لائیں۔ اس کا سہرا کسی نہ کسی حیثیت سے سر سید کے سر جاتا ہے۔کیوں کہ ان تما م دانشوروں اور اہلِ قلم کی قوتِ تحریک کا سرچشمہ سر سید ہی تھے۔
بلا تامّل یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج ہندوستانی مسلمانوں میں تھوڑی بہت جو کچھ تعلیمی ترقی ہے،جو روشن خیالی ہے اور جو تعقل پسندی ہے وہ ساری کی ساری سر سید کی دین ہے ۔اگرسر سید نہ ہوتے یاا نھوں نے وقت کی ضرورت کے پیشِ نظراپنی تعلیمی و اصلاحی تحریک شروع نہ کی ہوتی تو آج ہندوستانی مسلمان تعلیمی پس ماندگی کے انتہائی گہرے گڑھے میں گرے ہوتے۔اگرچہ موجودہ صورتِ حال بھی کچھ زیادہ اطمینان بخش نہیں لیکن جو بھی ہے وہ غنیمت ہے اور اس کا سارا سہرا سر سید احمد خان کے سر جاتاہے۔بلا شبہ سر سید ہندوستانی مسلمانوں کے محسنِِ اعظم تھے۔آج قوم کو پھر ایک بے لوث سر سید کی ضرورت ہے۔ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم سر سید کی تعلیمی تحریک کو پھر سے زندہ کریں۔ان کی ان عظیم الشان خدمات کی قدر کریں اور ان کے کردار وعمل سے روشنی حاصل کریں۔
سر سید احمد خاںکی قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کاقیمتی اثاثہ، نشانِ امتیاز اور باوقار تعلیمی ادارہ ہے ۔ اس سے ہندوستانی مسلمانوں کی اٹوٹ روحانی اور ذہنی وابستگی ہے۔اصل میں اس کی حیثیت مسلم اقلیتی تعلیمی ادارے کی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی ایک عرصے سے کوشش کی جارہی ہے اور وقفے وقفے سے نئی نئی سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں۔ بلا تفریقِ مسلک وعلاقہ آج تما م ہندوستانی مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردا رکے تحفظ کی کوششوں کو بارآور بنانے میں اپنا جو بھی تعاون ہو سکتا ہے وہ دیں۔ اس سازش کے خلاف صدائے احتجاج بلندکریں اور ایک زندہ اور باضمیر قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
اٹھو! وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں