حقانی القاسمی
تخیل میں تحیر، اظہار میں استعجاب ہو توایسی شاعری سے قاری کا طلسمی رشتہ قائم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ فہیم جوگاپوری کے یہاں ’تحیر‘ کی وہ تمام تجلیات اور کیفیات ہیں جن کی وجہ سے ان کی شعری رہ گزر ’اوروں‘ سے الگ ہوگئی ہے۔
یہی تو پیاس میری چاہتی ہے
لبِ ساحل سمندر ٹوٹ جائے
یہ تواچھا ہوا بادل نے ہمیں روک لیا
ورنہ نکلے تھے سمندر کوجلانے ہم بھی
دیکھ کر سوکھ گیا کیسے بدن کا پانی
میں نہ کہتا تھا مری پیاس سے دریا کم ہے
ہم اہل غم کو حقارت سے دیکھنے والو
تمہاری نائو انہی آنسوؤں سے چلتی ہے
آپ کے سر پہ جو یہ تاجِ حشم رکھا ہے
ہم فقیروں نے اسے زیر قدم رکھا ہے
ایسے اشعار پڑھتے ہوئے قاری معانی کی لہروں میں ڈوبتا ابھرتا خود کو ایک ایسی تخلیقی کائنات میں محسوس کرتا ہے جہاں ’معروض‘ کی صورتیں بدلی ہوئی نظر آتی ہیں اور فنتاسی، ایک نئی حقیقت میں منقلب ہوتی ہوئی کہ شاعری تخیل کی زبان ہوتی ہے اور تخیل میں کوئی بھی معروض، حقیقی نہیں ہوتا بلکہ خیالات اور احساسات اس ’معروض‘ کی صورت اور معنویت متعین کرتے ہیں۔
تخیل کی سطح پر تحیر کی اسی آمیزش نے فہیم جوگاپوری کے اظہار کو جدت اور ندرت عطا کی ہے اور ’سوچ تحیر‘ کے یہی سلسلے نئی زمینیں تلاش کرتے رہتے ہیں اور یہی جستجو تخلیق کار کے باطن میں ایک نیا لینڈ اسکیپ خلق کرتی ہے۔
فہیم جوگاپوری کا اپنا تخلیقی لینڈ اسکیپ ہے جس میں ان کے تجربات اور تعاملات (Interactions) کے رنگ واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں اور ’سکوت‘ میں بھی ’صدا‘ کو محسوس کیا جاسکتا ہے:
شام خاموش ہے پیڑوں پہ اجالا کم ہے
لوٹ آئے ہیں سبھی ایک پرندہ کم ہے
اپنے مہمان کو پلکوں پہ بٹھا لیتی ہے
مفلسی جانتی ہے گھر میں بچھونا کم ہے
کشتیاں درد کے ساگر میں بھٹک جائیںگی
ہوگئی شام چراغوں کو جلالو پہلے
کردار دیکھنا ہو تو صورت نہ دیکھئے
ملتا نہیں زمیں کا پتہ آسماں سے
جس نے چھپا کے بھوک کو پتھر میں رکھ لیا
دنیا کواس فقیر نے ٹھوکر میں رکھ لیا
یہ کائنات کے ادراکی مشاہدات پر مبنی تخیلی، تخلیقی عمل ہے، جس سے قاری کے ذہن کی زمین کو بھی نئی روئیدگی ملتی ہے اور خیال کے افق کو نئی تابانی بھی کہ اس شاعری میں صرف ذات کاانعکاس نہیں ہے بلکہ ارتعاش بھی ہے۔ یہ شاعری فہیم جوگاپوری کے وجود کی داخلی و خارجی کائنات کا عکس نامہ ہے اور ان کے مزاجی تاثر Dispositional Affect کا اشاریہ بھی۔ ان کے درون کے نفی و اثبات کی پیمائش بھی اسی سے ہوسکتی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ ان کے ہاں کتنی مثبت تاثریت Positive Affectivity ہے اور کتنی Negative یا نفی و اثبات کی سطحوں کا تناسب کیا ہے؟ کون سے برین کیمیکل زیادہ متحرک ہیں۔ ایک تخلیق کار کے Neurochemical Systems سے آگہی بھی ضروری ہے کہ ہم Brain Biochemistryکے عہد میں جی رہے ہیں اوریوں بھی جذبے کی شدت، حدت اور قوت کا اندازہ ’نظام دماغ‘ کو جانے بغیر ممکن نہیں ہے کہ تخلیق بھی دماغ کے کیمیائی عناصر کے امتزاج سے ہی وجود میں آتی ہے اور کیمیاوی اثرات کے تحت ہی اپنا رنگ بدلتی ہے۔ اس لیے ’تخلیق‘ میں موجود کیمیائی عناصر کے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ تخلیق کار کے برین میکانزم کا مکمل طور پر پتہ چل سکے۔
فہیم جوگاپوری کی شاعری/ تخلیق کے کیمیائی تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ’تخلیقی نظام‘ پر کوئی ایک کیمیائی عنصر حاوی نہیں ہے۔ ان کا تخلیقی ذہن، موسم، ماحول، وقت اور حالات کے اعتبار سے نئی نئی تجرباتی زمینوں اور ادراکی سطحوں کا لمس حاصل کرتا رہتا ہے۔ ان کا ذہن ایک ہی نقطہ یا احساس پر مرکوز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک ہی لہجہ یاآہنگ نہیں ہے، بلکہ مختلف آہنگ کا امتزاج ہے اور وہ بھی انفرادی نزہت و نکہت لیے ہوئے:
واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
کھنکتی چوڑیاں، خوشبوئیں، پیاری باتیں
تمام وصل کے ہیں استعارے شام کے بعد
ہم فقیروں نے کبھی بیچا نہیں اپنا ضمیر
درہم و دینار سے دستار کا سودا نہ کر
کھلا تھا سامنے اک روز باب شہر بدن
کسے بتائیں جو دیکھے نظارے شام کے بعد
ان اشعار میں احساس کی سطح پر جو تضاد اور تخالف ہے، وہ فہیم جوگاپوری کے فکری تنوع کے ساتھ اس بات کا بھی پتہ دیتے ہیں کہ ان کے مشاہدات کی سمتیں کیا ہیں۔ کائنات کے اشیاء اور حقائق کی تفہیم یا تعبیر کے باب میں ان کا زاویہ نظر کیا ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن کے فکری جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہ شاعری اس بات کا بھی پتہ دیتی ہے کہ فہیم جوگاپوری کے یہاں اپنے عہد کی حسیت کے انعکاس، ہم عصر حقیقتوں کے اکتشاف و اظہار، عصری واردات اور مسائل سے اموشنل انٹی میسی کے ماسوا ماضی کی قدروں کی گمشدگی اور معصومیت کی جستجو ملتی ہے:
ماتھے پہ شکن آنکھوں میں جنگل کی اداسی
دیکھو تو ذرا عہد یہ میرا تو نہیں ہے
پرانی قبر سے لپٹا ہے پاگلوں کی طرح
یہ کون شخص ہے مٹتی ہوئی لکیر کے ساتھ
ستارو آؤ بدل آفتاب کا ڈھونڈیں
دیار غم سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈیں
فہیم جوگاپوری کی شاعری میں صرف جذبے کی داخلیت نہیں ہے، بلکہ زبان کی داخلیت بھی ہے۔ جذباتی اظہاریت اور زبان کی داخلیت نے اس شاعری کو قوت وتاثیر عطا کی ہے۔ یہ ایسی شاعری ہے جس کے وجود کی دیواریں نہ خستہ ہیں اور نہ ہی کسی ستون یا نقد ستارہ کی دست نگر۔ اس شاعری میں خیال کی پرآہنگ لہریں نثریت کے انتشار کو مربوط کرتی ہوئی شعری پیکر میں ڈھل کر نئی کیفیات خلق کرتی ہیں اور یہی کیفیات قاری کی باطنی دنیا کو شاداب کرتی ہوئی اپنے مکمل معنوی تلازمات کے ساتھ قاری کے شعور و احساس کا حصہ بن جاتی ہیں اور تب ایک نئی زمین و زماں قاری کے روبرو ہوتے ہیں اور ان میں تحیرات کے فانوس جھلملا رہے ہوتے ہیں، یہی ’فانوس تحیر‘ فہیم جوگاپوری کا تخلیقی شناس نامہ ہے۔
یہ کنڈوم نما (Condomonius)مکانات میں محصور شاعری نہیں ہے بلکہ کھلی فضا اور تازہ شگفتہ ہوا کی شاعری ہے جس کی وجہ سے گھٹن اور حبس کا احساس نہیں ہوتا۔ اس شاعری میں روایت کی مہک بھی ہے اور جدیدیت کا جمال بھی۔ اس شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں خارجی معروضات کے ساتھ داخلی احساسات کا نہایت خوبصورت اشتراک ہے۔ لفظیاتی نظام کے تعلق سے بھی فہیم جوگاپوری اپنی الگ سخن کائنات آباد کیے ہوئے ہیں۔ ’فارمل‘ کے بجائے انہوں نے ’’نیچرل‘ زبان استعمال کی ہے۔ ان کے لفظ آسان اور ترسیل و تاثیر کی قوت سے معمور ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں علاقائی الفاظ نے بھی ان کے لفظیاتی نظام کو لذت کے ساتھ جدت عطا کی ہے۔
’ادھوری بات‘ تشنگی کا استعارہ ہے ۔ میر تقی میر کی تشنہ لبی کی طرح۔ اور یہی احساس تشنگی تخلیق کو ’تکمیل‘ سے ہمکنار کرتا ہے اور تخلیق کار کے اس اضطراب اور تہیج کو زندہ رکھتا ہے جو نئے تخلیقی کینوس کی جستجو کے لیے ضروری ہے۔
E-mail: h_qasmi@rediffmail.com
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں