ڈاکٹرعبد الرزاق زیادی
اردو لیکچرار(گیسٹ)
جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول, جامعہ ملیہ اسلامیہ, نئی دہلی-25
E-mail: arziyadi@gmail.com
Mobile No. +919911589715
اردو شاعری ہی نہیں بلکہ اردو فکشن میں بھی کئی ایک ایسے تخلیق کار و فنکار مل جائیں گے جن کی طرف تنقیدکی وہ توجہ نہیں ہو سکی جس کے وہ حقدار تھے ۔اس کی وجوہات خواہ جو بھی رہی ہوں مگر اس ضمن میں جن باتوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ان میں ناقدین کا دانستہ و نادانستہ طور پر ان تخلیقات تک عدم رسائی یا پھر خود ان تخلیق کاروں کی نگارشات کا بہت دیر سے منظر عام پر آنا ہے ۔اردو ادب کی تاریخ میں تا ہنوز اس نوع کی کئی ایک شخصیات اور ان کے کارنامے تحقیق و تنقید کے منتظر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید تحقیقات جوں جوں سامنے آرہی ہیں اردو زبان و ادب اور اس کی تاریخ میں وسعت و پھیلاؤ آتا جا رہا ہے ۔اردو شعر و ادب کی تاریخ میں انھیں گم کر دہ شعراء وادباء شخصیات میں سے ایک اختر مدھوپوری بھی ہیں ۔ کئی شعری مجموں کے خالق ہونے کے باوجود بھی بہت سے خود اردو ادب کے ادباء و شعراء بھی ان کے نام سے واقف نہیں۔اس کی بنیادی وجہ شاید یہ کہی جا سکتی ہے کہ ناقدین نے نہ تو انھیں کبھی در خور اعتنا سمجھا اور نہ ہی ان کے کلام کو تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا ہی گیا۔ حالانکہ انھوں نے جس علاقے اور عہد میں شعر و ادب کی قندیل جلانے کا کام کیا تھا وہ حد درجہ قابل تحسین اور صد آفریں ہے۔
اختر مدھوپوری (1929-1996)کا شمار اپنے عہد کے ممتاز شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق جھارکھنڈ کے ایک چھوٹے سے شہر مدھوپور سے تھا اسی لیے اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ مدھوپوری کہلائے۔ مدھوپور سے ہی اختر مدھوپوری نے اپنی ابتدائی اور ثانوی درجات کی تعلیم حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ پٹنہ چلے گئے۔ ابھی انھوں نے انٹرمڈیٹ کا امتحان بھی نہیں پاس کیا تھا کہ ان کو ریلوے میں ملازمت مل گئی اور وہ اپنی پوسٹنگ کے ساتھ لکھنؤ چلے گئے ۔ وہاں کچھ سال گزارنے کے بعد وہ جلد ہی واپس بہار چلے آئے اور جمال پور ( پٹنہ ) میں سکونت پذیر ہو گئے ۔اختر مدھوپوری کے خمیر میں شعرو شاعری شامل تھی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اسکول کے زمانے سے ہی شعر گوئی شروع کردی تھی۔اس کے علاوہ جس چیز نے ان کی شاعری کو بال و پر عطا کیے وہ ہے لکھنؤ اور جمال پور کی ادبی فضا۔اختر مدھوپوری کی شخصیت سازی اوراس کے ادبی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے قیصر ضیا قیصر لکھتے ہیں:
’’اختر مدھوپوری اپنے بھائیوں اور بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ انھوں نے 1946میں ایڈورڈ جارج ہائی اسکول مدھوپور سے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا اور آگے کی تعلیم کے لیے پٹنہ چلے گئے ۔لیکن اس سے پہلے کہ وہ انٹر میڈئیٹ کا امتحان دیتے اوٹی ریلوے سروس کمیشن کے امتحان میں شامل ہوئے اور اس میں کامیاب ہو کر ریلوے ملازم ہو گئے ۔ان کی پہلی پوسٹنگ لکھنؤ ہوئی لیکن بعد میں وہ ٹرانسفر ہو کر جمال پور ( بہار) چلے آئے ۔ اس زمانے میں وہاں شعرو ادب کا بڑا زور تھا۔ وہاں مختلف طرح کی ادبی انجمنیں فعال تھیں ۔ آئے دن مشاعرے ، مذاکرے اور شعری نشستوں کا اہتمام ہوتا رہتا تھا۔ یہاں آکر اختر مدھوپوری کی شعری و ادبی سر گرمیاں تیز سے تیز تر ہو گئیں۔‘‘ 1؎
گویا اختر مدھوپوری کے ادبی ذوق اور شعری شعور کی پرداخت میں ان کے گھریلو ماحول سے کہیں زیادہ لکھنؤ اورجمال پور کی تہذیبی فضا اور ان کی سرگرمیوں کا رول رہا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ہمیں وہ ادبی فضا ، رنگ و آہنگ اور شعری رکھ رکھاؤ نظر آتے ہیں جنھیں ہم مستند شعراء کے امتیازات تسلیم کرتے ہیں۔اختر مدھو پوری نے انھیں دو، یعنی لکھنوی اور عظیم آبادی اسکولوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی شاعری فضا تعمیر کی اور یکے بعد دیگرے کئی شعری مجموعے منظر عام پر لائے۔ غزلوں کا مجموعہ ’شہر نگاراں کے آس پاس‘ ان کی زندگی ہی میں 1995شائع ہو گیاتھا جبکہ دیگر شعری مجموعے مثلاً گنبدِ خضرا کے آس پاس(2004)، برق و شرر(2004)، غم دوراں غم جاناں(2004) ، پیار کی بو باس(2004) اور انتخاب اختر (2009) ان کی وفات کے کچھ سالوں بعد منظرعام پر آئے ۔ ابھی حال ہی میں ان کے تمام تر کلام کلیات کی شکل میں بھی منظر عام پر آچکے ہیں ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مرتب نے اسے اردو کے علاوہ ہندی( دیو ناگری) اور انگریزی رومن میں بھی شائع کرا کے’’ کلیات اختر مدھوپوری‘‘ کو عام قارئین تک پہنچانے کا ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔
اختر مدھوپوری کے شعری سفرپر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کے ابتدائی ادوار میں نوح ناروی سے اصلاح حاصل کی تھی مگر یہ سلسلہ بہت دنوں تک جاری نہیں رہ سکا اور انھوں نے بہت جلد نوح ناروی کو چوڑ کرباقاعدہ طور پر ابرا حسنی نگینوی کی شاگرد ی اختیا ر کر لی۔اس حوالے سے خود اختر مدھوپوری کے ایک مضمون کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’سحابِ سخن حضرت علامہ ابرا حسنی دنیائے شعر و ادب میں صرف ہمہ گیر شہرت کے مالک ہی نہیں بلک اپنی فنی استعداد اور شاعرانہ وقار کے لحاظ سے مسلم الثبوت استاد تھے ۔ ان کو ہندوستان کے عظیم شاعر حضرت داغ دہلوی کے ارشد شاگر د حضرت احسن مارہروی سے شرفِ تلمذ تھا۔ ا ن کے کلا م میں وہی شگفتگی حسنِ خیال، وہ محاورہ بندی، وہ سلاست ، وہی لطافت اور وہی چشتی ترکیب پائی جاتی ہے جو ان کے کلام میں پائی جاتی ہے ۔ ان کے ہر ہر شعر سے استادانہ شان نمایاں ہے ۔ وہ علم و ادب کی روشنی کا ایک ایسا مینار تھے جس کی ضیا پاشیاںآج بھی بر صغیر ہند و پاک کے دور دراز تاریک گوشوں کو منور کر رہی ہیں۔‘‘ 2؎
اس طرح اختر مدھوپوری نے استاد شاعر ابرا حسنی سے تربیت پائی اور اپنے فکر و فن کو کمال تک پہنچایا۔چونکہ شاعری میں ان کا سلسلۂ نسب داغ سے جا ملتا ہے اس لیے ان کی شاعری میں بھی وہ اوصاف دیکھے جا سکتے ہیں جو اردو کے بزرگ اور استاد شاعروں کے خاصہ ہوا کرتے ہیں۔ تخیل کی بلند پروازی ، افکار و خیال کی ندرت، زبان و بیان میں سلاست و روانی ، الفاظ و محاورات کا بر جستہ استعمال، خوش سلیقگی ونغمگی اور برجستگی یہ سارے اوصاف شاعری خود اختر مدھوپوری کے یہاں دیکھے جا سکتے ہیں ۔بطور مثال چند اشعار ملاحظہ ہوں:
غم حیات نے مجھ کو لگا لیا ہے گلے
کبھی جو شہر نگاراں کے آس پاس گیا
فریب خوردہ ہے کس درجہ عہد نو کا بشر
بجھانے چاند کے جھر نوں پہ اپنی پیاس گیا
لہو کے شعلوں میں ڈھلتا دکھائی دیتا ہے
زمانہ رنگ بدلتا دکھائی دیتا ہے
یزید شام نے سورج کو قتل کر ڈالا
لہو کا چشمہ ابلتا دکھائی دیتا ہے
حصار ذات سے باہر نکل پڑا ہوں میں
سمجھ میں آج یہ آیا بہت بڑا ہوں میں
لالہ زار عارض پر پھوٹتے رہے چشمے
تھی وہ غم کی طغیانی ان کی نین جھیلوں میں
آئینہ ہوں تری تشہیر کا ساماں ہوں میں
ٹوٹ کر سیکڑوں ٹکروں میں بکھر جاؤں گا
ہر بڑے شاعر کی طرح اختر مدھوپوری نے بھی مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ نظم، غزل ، قصیدہ ،رباعی، حمد ، نعت، قطعہ وغیرہ متعدد اصناف میں ان کے کلام موجود ہیں مگر ان تمام میں ان کی شناخت ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔ انھوں نے اپنی شعرگوئی کاآغاز غزل سے ہی کیا تھا اور ان کی پہلی غزل کلکتہ کے ایک اردو رسالہ’’رومان‘‘میں شائع ہوئی تھی۔ وہ کون سی غزل تھی اور اس کا سن اشاعت کیا تھا تاہنوز یہ امر تحقیق طلب ہے لیکن 1956ء میں جب انھوں نے رحمانیہ ہائی اسکول ، آسنسول میں اپنی غزل پہلی بار مشاعرے میں سنائی تو پورامجمع جھوم اٹھا اور اسٹیج پر بیٹھے تمام شعراء نے بہت زیادہ سراہا اور ان کے مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔اختر مدھوپوری نے مشاعروں میں اپنے عہد کے جن ممتاز غزل گو شعرا کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا ان میں جگر مرآدآبادی،ابرا حسنی گنوری، کیف بھوپالی، سالک لکھنوی ، سوز سکندر پوری ، سہیل عظیم آبادی ، ظہیر غاز ی پوری ،شہود عالم آفاقی ، عر فان بنارسی، شمیم انولوی ، رونق نعیم وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر شعراء کے ساتھ ان کا اکثر اٹھنا بیٹھناتھا۔ آسنسول کے مشاعرے میں پیش کر دہ اس غزل کے چنداشعار آپ بھی دیکھیں:
ذرے ذرے میں وہ حسن لم یزل مستور ہے
جس کی چشم ناز میں پوشیدہ بر قِ طور ہے
عالم حسن وہ محبت کا عجب دستور
کوئی ہنستا ہے کسی کا شیشہء دل چور ہے
اختر مدھوپوری کی غزلوں اور ان کے دیگر کلام کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کی کلاسیکی روایت سے وہ نہ صرف واقف تھے بلکہ کلاسیکی شاعری سے ان کا بڑا گہرا رشتہ تھا۔ قدم قدم پربرجستہ طور پر استاد شاعروں کا کلام پڑھنا اور پھر انھیں کی زمینو ں میں شعرگوئی کی سعی کرنا ان کے تجربے میں شامل تھا۔اختر مدھوپوری کی شاعری میں گہرے مشاہدات و تجربات کے علاوہ اردو کی کلاسیکی روایت سے وابستگی کی بدولت ایک نیا جہان معنی نظر آتاہے۔ ان کے کلام میں ان تمام احساسات و جذبات ، مشاہدات و تجربات اور روایات و کیفیات کی عکاسی موجود ہے جسے موجودہ عہد کی دین یا اس کی ضرورت کہی جا سکتی ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مثل خوشبو میں زمانے میں بکھر جاؤں گا
زندگی میں کوئی کام ایسا بھی کر جاؤں گا
خود میں سمٹ سکوں نہ میں باہر نکل سکوں
کون اس طرح کی فکر و نظر دے گیا مجھ کو
یہ کیا کہ راستے کی طرح تم پڑ ے رہو
کچھ دیر صحن فن میں بھی آکر کھڑے رہو
لہو لہان سا منظر دکھائی دیتا ہے
یہ عصر نو مجھے محشر دکھائی دیتا ہے
مرے لہو میں نہا کر نکھر گیا ہو گا
بہت حسین جو خنجر دکھائی دیتا ہے
فکریں مری اڑان کے قابل نہیں رہیں
ان تتلیوں کا کاٹ کے پر کون لے گیا
ورق ورق مجھے پڑھنا محال تھا اختر
جو آیا پڑھ کے فقط میرا اقتباس گیا
یہ اورا س طرح کے اور بھی بہت سے ایسے اشعار مل جائیں گے جن سے اختر مدھوپوری کے شعری رنگ و آہنگ اور فکر وخیال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ان میں ان کے وہ مشاہدات و تجربات بھی شامل ہیں جن تک عام لوگوں کی نظر بہت کم پہنچ پاتی ہے۔ ان اشعار میں جہاں غم جاناں کا ذکر ہے وہیں ان میں غم دوراں بھی شامل ہے۔ ان اشعار کو پڑھنے کے بعد بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت آسان اور عام فہم اشعار ہیں مگر ہر طرح کے تجربات و مشاہدات کو شاعری میں ڈھالنا اپنے آپ میں ایک مشکل امر ہے بلکہ بقول معراج احمد معراج’ان تجربات کو شعری پیکر میں ڈھالتے ہوئے تو پسینہ چھوٹنے لگتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ شعر ایسا کہنا چاہیے جس میں آفاقیت کی نظارگی ہو یعنی وہ شعر جو صرف شاعرکی ذاتیات تک محدود ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس طرح شاعری میں محض آپ بیتی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس میں جگ بیتی بھی ہونی چاہئے یا شعر میں ایسا مضمون ہو جس کا تعلق تمام عالم انسانیت سے ہو۔
اختر مدھوپوری کے شعروں کے حوالے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شاعری صرف ان کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ذاتیات کے حصار سے باہر نکل کر آفاقیت کے دامن بے کرا ں میں پھیل گئی ہے۔ اختر مدھوپوری نے اپنے اشعار میں انسانی نفسیات کی ترجمانی بھی بہت شاعرانہ انداز میں کی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں انسانی نفسیات کا کتنا گہرا تجربہ تھا۔
شاعر انسان ہی ہوتا ہے لہذا وہ حسن و عشق کی رنگا رنگی سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے ۔ حسن وعشق کے موضوعات تو آفاقی ہیں اور جس شاعری میں جمال اور عاشقی کی بوقلمونی نہ ہو وہ شاعری بے جان اور بے رنگ معلوم ہوتی ہے ۔3؎‘ اختر مدھوپوری کے یہاں ہمیں بکثرت ایسے اشعار دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن میں حسن و عشق کے مسائل و معاملات بیان ہوئے ہیں ۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کسی کے عہد وفا توڑنے پہ حیرت کیا
یہ سانحہ یہاں اکثر دکھائی دیتا ہے
مری نظر میں تو وہ آدمی نہیں اخترؔ
کہ جس کے دل میں محبت کا کچھ وقار نہیں
چل پڑا ہوں رہِ محبت میں
گو کہ کٹھنائیاں ڈراتی ہیں
رس گھولتی سی کانوں میں آتی ہیں آہٹیں
ہر لمحہ کوئی ساز بجاتی ہیں آہٹیں
کس سے کہیں کہ ٹوٹتے لمحوں کا سلسلہ
تا عمر دیکھنے کو کھنڈر دے گیا مجھے
میں سوچتا ہوں ترے غم کا حال کیا ہوگا
دلِ ملول بہلتا دکھائی دیتا ہے
مذکورہ بالا اشعار میں اختر مدھوپوری نے اپنی دلی کیفیات و احساسات ، درد و غم ، مسائل حسن و عشق کا بیان جس خوبی اور فن کاری کے ساتھ کیا ہے وہ حد درجہ متاثر کن اور موجودہ معاشرے کے مسائل و معاملات سے میل کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان اشعار میں شاعر نے جن باتوں کو شعری پیکر عطا کیے ہیں وہ ہر قاری کو اپنے ہی معاملاتِ حسن و عشق اورداستانِ غم حیات معلوم ہوتے ہیں۔ انسانوں میں شاید ہی کوئی ایسا فر د ہو گا جو ان کیفیات سے دوچار نہیں ہو ا ہوگا۔ ذیل کی وہ غزل بھی دیکھیں جس کے بیشتر اشعار دل کا آئینہ معلوم ہوتے ہیں:
تجسس کوبہ کو ہے اور میں ہوں
تمہاری جستجو ہے اور میں ہوں
نظارہ بے تکلف ہو رہا ہے
کوئی آئینہ رو ہے اور میں ہوں
تصور میں نہیں ہے اور کوئی
فقط اک تو ہی تو ہے اور میں ہوں
ترا نقش قدم میری جبیں ہے
نمازِ بے وضو ہے اور میں ہوں
تمنا نے کہاں پہونچا دیا ہے
سرابِ آرزو ہے اور میں ہوں
زباں خاموش ہے تم سامنے ہو
نظر کی گفتگو ہے اور میں ہوں
محبت میں یہی پینا پڑے گا
تمنا کا لہو ہے اور میں ہوں
کسی کافر ادا کی زلف پُر خم
گھٹا ہر ایک سو ہے اور میں ہوں
قبائے زندگی ہے چاک اختر
غم فکر رفو ہے اور میں ہوں
اختر مدھپوری کی غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں بھی فکری و فنی اعتبارسے حد درجہ اہم ہیں ۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر بہت سی اہم اور کامیاب نظمیں کہی ہیں۔میرے پیارے وطن ، پھولوں کی رانیاں ،موسم برسات کا، اردو کی آوازِ احتجاج، کیف بھوپالی کی جنت دنیا، تاریخ زریں ، شہیدانِ جنگ آزادی کے نام ، چمن زارِ بہار، بھارت کی تقدیر، دو اکتوبر، عہد اور جہد، نگار یکجہتی، ارض بنگالہ سلام، قومی یکجہتی، اقرارِ بغاوت، پیغمبر کی صفت، آزادی کی شہزادی، عید کا چاند، ندی جم گئی وغیرہ ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ان نظموں میں بڑی ہی خوبصورتی اور پُر کاری کے ساتھ ہندوستان کی خوبیوں، یہاں کے موسم ، پھل پھول، حب الوطنی، قومی یکجہتی اور تہواروں کا ذکر کیا ہے۔ نظم ’’میرے پیارے وطن‘‘ کا یہ بند دیکھیں:
وطن خوش ہو کہ گردوں سے ہمالہ
تری عظمت کے قصے کہہ رہا ہے
عرب ساگر بہ انداز رعونت
تری دولت کے قصے کہہ رہا ہے
جدا ہوتے ہوئے بھی آج برما
تری راحت کے قصے کہہ رہا ہے
یہ بحر ہند موجوں کی زباں سے
تری سطوت کے قصے کہہ رہا ہے
میرے پیارے وطن ہندوستاں تو
مہکتا ہے جہاں میں بن کے خوشبو
اختر مدھوپوری نے اپنی عمر کے آخری ایام میں اپنی توجہ نعت گوئی کی طرف مر کوز کر دی تھی۔ ادب کے رمز شناس اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ نعت گوئی اپنے آپ میں ایک مشکل ترین صنف سخن ہے لیکن باوجود اس کے انھوں نے نعت گوئی کو نہ صرف ایک صنف کے طور پر برتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے توغلط نہ ہو گا کہ غزل کے بعد اختر مدھوپوری کی شاعری کا دوسرا میدان نعت گوئی ہی تھا۔ ان کے کلام کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انھوں نے بہت سے اپنے نعتیہ کام چھوڑے ہیں۔نعت گوئی ، اس کا فن ،اس کی زبان و بیان، اس کی راہ میں در پیش مسائل ومشکلات، اختر مدھورپوری کے نعتیہ کلام اور اس کے ا متیازات کا ذکر کرتے ہوئے ظہیر غازی پوری لکھتے ہیں:
’’شعری اصناف میں انھیں غزل نے اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ صنف نعت گوئی کے بھی وہ عاشق تھے ۔ شروع میں کم مگر عمر کی آخری منزلوں میں انھوں نے کثرت سے نعتیہ شعر لکھے جو رسائل و اخبارات کے زینت بنتے رہے۔ نعت گوئی کے لیے صاف ، آسان ، دھلی ہوئی ، مناسب اور استعارے کی زبان زیادہ مؤثر اور کار آمد ہوتی ہے اس کے باوجود صنف نعت گوئی اتنی آسان نہیں ہے ۔ فکری جست لگانے ،خیالات کی پنہائیوں میں پرواز کرنے اور عشق کی سرشاری و سر مستی سے ہم کنار ہونے کی عام اجازت تو ہے مگر بندشیں بھی بہت ہیں۔ راہ مسدود کرنے والی چٹانیں بھی زیادہ ہیں اور شریعت ، نبوت نیز ربوبیت کی حد بندیاں بھی بے شمار ہیں ۔ ان تمام سخت منازل سے گزر کر ہی صحیح معنوں میں نعت نگاری کا حق ادا کیا جا سکتا ہے ۔اختر مدھوپوری نے شعر گوئی کی مشکل ترین راہوں سے گزرنے کے بعد ہی نعت نگاری کا شرف حاصل کیا ہے ۔ ‘‘ 4؎
متذکر ہ بالا اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نعت گوئی کس قدر مشکل ترین صنف سخن ہے ۔ بعض ناقدین نے تو اسے تلوار کی دھارسے گزر نے والی صنف قرا ر دیا ہے ۔ مگر باوجود اس کے اختر مدھوپوری نے غزلوں کے بعد سب سے زیادہ توجہ جس صنف پر دی وہ نعت نگاری ہی ہے۔ دیگر شعری مجموعوں میں شامل نعتوں کے علاوہ محض نعتوں پر مشتمل ان کا ایک مجموعہ’ گنبد خضرا کے آس پاس‘کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور قارئین سے دادو تحسین حاصل کر چکا ہے۔مختلف نعتوں کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
محبوب کبریا ہیں ہمارے رسولِ پاک
کس درجہ خوش ادا ہیں ہمارے رسولِ پاک
کیا ہم سے رقم ایسے پیمبر کی ثنا ہو
اللہ نے جس کے لیے قران لکھا ہو
خدا کے بعد برتر آپ کی ذات
ہے کیا اللہ اکبر آپ کی ذات
جس وقت مری روح مرتے تن سے جدا ہو
یارب ہے دعا لب پہ محمد کی ثنا ہو
آنکھوں میں کھینچ دیتی ہے عکس جمال رب
کیا خوب آئینہ ہے رسولِ خدا کی یاد
ترا مقام کچھ اتنا بلند ہے احمد
کہ انبیاء تجھے سارے سلام کرتے ہیں
ان اشعار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اختر مدھوپوری کو نعت گوئی کی صنف میں کس قدر مہارت تھی اور انھوں نے اس صنف کو برتنے میں کتنی فنی چابکدستی سے کام لیا ہے ۔اختر مدھوپوری کا یہ کمال ہے کہ ان کے یہاں جہاں احتیاط ہے وہیں توازن بھی ہے ۔ عام طور پر نعت نبی لکھتے وقت شعرا عقید ت میں ا س قدر غلو کر جاتے ہیں کہ نبی کا مقام و مرتبہ خدا سے بھی بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ارتکابِ شر ک کر بیٹھتے ہیں مثلا مشہور صوفی شاعر آسی غازی پوری کا یہ شعر دیکھئے:
وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہو کر
اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفے ہو کر
مگر اس کے بر عکس اختر مدھوپوری کے یہاں ایک مستحکم اعتدال و توازن موجو د ہے۔ نعت گوئی میں ان کے یہاں ربوبیت اور نبوت کے درمیان ہمیشہ حد فاصل ملحوظ رہتی ہے ۔ ان کے نعتیہ کلام میں شاید ہی کوئی ایسا شعر نظر آجائے جو نعت گوئی کی ان حدود کو پار کرتا ہوا کفر و الحاد یا پھر شرک و لادینیت کے دائرے میں لے جاتا ہو ۔اس حوالے سے اختر مدھوپوری کا یہ شعر ملاحظہ ہو کہ یہ کس قدر موزو ں اور ربوبیت و نبوت کے دائرے میں معلوم ہوتا ہے:
خدا کے بعد بر تر آپ کی ذات
ہے کیا اللہ اکبر آپ کی ذات
اس طرح اختر مدھوپوری نے اپنی نعت نگاری میں اس صنف کے تمام رموز و نکات کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے نعتیہ شاعری کی وہ فضا قائم کی ہے کہ جس سے رسول عربی سے نہ صرف والہانہ عقیدت و وابستگی،احترام و تعلق اور دلی الفت و محبت اور اس کی سرشاری کا اظہار ملتاہے بلکہ اس سے رسول پا ک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تمام ترصفات حمیدہ بھی سامنے آجاتی ہیں جن کی بدولت وہ عام انسانوں سے ممیز و ممتاز تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اختر مدھوپوری اپنے اس فن میں نہ صرف حقیقت فہم اور فن سے آگاہ معلو م ہوتے ہیں بلکہ بقول ظہیر غازی پوری ’ وہ جانتے ہیں کہ نعت رسول دعا بھی ہے اور ایمان بھی اور زبان و مکان کی منزلوں سے بہت آگے ایک سرحد بقا بھی۔ اسی عرفان و آگہی نے انھیں نعت نگاری پر بھی مائل کیا اور درود و سلام لکھنے پر بھی مجبور کیا۔‘ 5؎
غر ض یہ کہ اختر مدھوپوری بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہندوستان کے ایک ایسے پسماندہ علاقے میں، جہاں دور دور تک ان سے قبل شعر و ادب کی کوئی روشنی نہیں دکھائی دیتی، ایک ایسے شاعر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتے ہیں جنھوں نے اپنی خاص توجہ سے شعر وادب کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی اور ان میں سے ہر ایک میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے اور غزل اور نعت گوئی اپنا خاص میدان بناتے ہوئے ان میں مجموعۂ کلام بھی بطور یاد گار چھوڑے ۔ لیکن اسے ان کی بد قسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ چند ایک قلم کاروں کے علاوہ کم ہی ناقدین و مصنفین نے ان کی طرف توجہ دی اور ان کے فکر و فن کو سامنے لانے کی سعی مسعود کی ہے۔ حالانکہ بلاشبہ اختر مدھوپوری کو سنتھال پرگنہ کا اولین صاحبِ کلیات شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ان کے مختلف اصناف میں متعدد شعری مجموعے بھی دستیاب ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اس کے ساتھ ہی آئندہ برسوں میں جہاں ناقدین ان پر قلم اٹھائیں گے وہیں دیگر ادباءو شعراء کی طرح ان پر بھی تحقیق و تنقید کے دروازے وا ہوں گے ۔ سرزمین جھارکھنڈ کا یہ روشن ستارہ 7؍ فروری 1996کو اگر چہ اپنے اہل و عیال اور چاہنے والوں کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہو گیا مگر ان کا نام ان کے متعدد شعری مجموعوں کی بدولت علم وادب کی تاریخ میں تاقیامت روشن و تابناک رہے گا۔
حواشی:
1- اختر مدھوپوری اور ان کی شخصیت ، قیصر ضیا قیصر مشمولہ کلیات اختر ،لاڈلی ڈجیٹلس، بردوان ،مغربی بنگال، ص: 11-12
ایضاً، ص: 12-13 2-
3- اختر مدھوپوری اور ان کی ادبی سرگرمیاں ، معرا ج احمد معراج مشمولہ کلیات اختر ،لاڈلی ڈجیٹلس، مغربی بنگال، ص: 233
4- اختر مدھوپوری کی نعت گوئی ، ظہیر غازی پوری مشمولہ گنبد خضرا کے آس پاس ،کہکشاں پبلی کیشنز، بردوان ،مغربی بنگال، ص: 12
5- ایضاً، ص، 16
٭ ٭ ٭
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں