معصوم مرادآبادی
عہدساز نقاد اور ادیب شمس الرحمن فاروقی کے انتقال سے اردو دنیا میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔انھوں نے گزشتہ ۲۵ دسمبر ۲۰۲۰ کو الہ آباد میں آخری سانس لی ۔ان کا جانا اردودنیا کے لئے ایک بڑا سانحہ ہے۔ وہ اردو زبان وادب کے ایک ایسے سرخیل تھے جس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے جو علمی اور ادبی ورثہ یادگارچھوڑا ہے اس پر اردو دنیا ہمیشہ فخر کرے گی اور اس بات کی مثالیں دے گی کہ اس دور ابتلا میں بھی ہمارے درمیان ایسے ادیب اورمحقق پیدا ہوئے جنھوں نے اردو ادب کو عالمی ادب سے آنکھیں چار کرنے کے لائق بنایا ۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ فاروقی صاحب اگر انگریزی میں ایسا ادب تخلیق کرتے تو انھیں ادب کا نوبل پرائز ضرور ملتا۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ انھوں نے اپنے لئے ایسے دقیق موضوعات کا انتخاب کیا جنھیں چھوتے ہوئے ہمارے تن آسان ادیب خوف محسوس کرتے ہیں۔وہ ایک قطعی اوریجنل فن کار تھے ۔ انھوں نے اپنی محنت ، لگن، دقت پسندی اور دلچسپی سے جو ادب تخلیق کیا وہ اردو زبان کا بیش قیمت سرمایہ ہے ۔انھوں نے اپنا سفر ایک نقاد کے طور پر شروع کیا اور میرفہمی پر ایک ایسی معرکۃ الآراء کتاب تخلیق کی جس پر اردو والے آج تک سردھنتے ہیں۔چارجلدوں پر مشتمل میرتقی میر کی شاعری پر ان کا تنقیدی شاہکار’’ شعر شور انگیز‘‘ ہی اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اگروہ اس کے علاوہ کچھ اور نہ بھی کرتے تو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ اور تا بندہ رہتے۔ مگر انھوں نے جو ذہن پایا تھا اور جن ہاتھوں میں ان کی تربیت ہوئی تھی، اس نے ان کے اندر زندگی کے جہدمسلسل ہونے کا یقین صادق کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سرکاری ملازمت کی مصروفیتوں کے باوجود علم وادب کی گرہیں کھولتے رہے اور اس مقام کو پہنچے کہ موجودہ عہد میں دور دور تک ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔فاروقی صاحب کی مثال گزرے زمانے کے ان علماء سے دی جاسکتی ہے جن کے نزدیک علم ہی سرمایہ حیات ہوتا تھا اور جو کسی بھی صلے اور ستائش کی پروا کئے بغیر اس کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ اگر آپ فاروقی صاحب کی عملی زندگی کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور وہ ہمہ وقت کام میں مصروف رہے۔
فاروقی صاحب نے نہ تو اردو میں تعلیم حاصل کی اور نہ ہی کبھی کسی شعبہ اردو سے وابستہ رہے ۔ نہ انھوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کی اور نہ ہی اردو کوذریعہ معاش بنایا ۔ انھوں نے انگریزی میں تعلیم حاصل کی۔ یوپی ایس سی کا امتحان پاس کرکے محکمہ ڈاک کے اعلیٰ افسر بنے اور بہت ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ سرکاری ملازمت کا سفر مکمل کیا۔ وہ ایک ہمہ جہت فن کار تھے اور بیک وقت کئی اصناف ادب پر دسترس رکھتے تھے۔انھوں نے اردو زبان وادب اور خاص طور پر کلاسیکی ادب کو انگریزی سے متعارف کروایااوردونسلوں کی ذہنی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اردو شعر وادب کو پڑھنے اور سمجھنے کے نئے زاویے ایجاد کئے اور تحریر کو سب سے بڑی طاقت ثابت کردیا۔وہ ایک نہایت مربوط اور منظم ذہن کے مالک تھے اور موضوعات پر ان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بھی ان کی ہمسری نہیں کرسکا۔معاملہ غالب کی تفہیم کا ہو یا میرشناسی کا یا پھر داستان گوئی کا ۔ ان میدانوں میں ان کی کوئی ہمسری نہیں تھا۔ داستان گوئی کو تو انھوں نے ایک ایسے عہد میں زندگی بخشی جب وہ ایک متروک صنف سمجھی جانے لگی تھی۔ انھوں نے طویل ترین داستان ’’ داستان امیرحمزہ‘‘ پر جس جفاکشی اور محنت سے کام کیا ، وہ شاید ہی کوئی کرسکتا۔غرض یہ کہ کلاسیکی شعر وادب ، غزل کی شعریات، میرشناسی، داستانی ادب،لغت نویسی، فکشن، ادبی صحافت اور شاعری وہ کون سا میدان ہے جو ان سے اچھوتا رہا ہو اور جس سے وہ سرخرو ہوکر نہ گزرے ہوں۔انھوں نے کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھا بلکہ ان کی بعض تحریریں ایسی ہیں جن پر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی مگر وہ اپنے کام میں مگن رہے۔کسی نے درست ہی کہا ہے کہ فاروقی صاحب کی رحلت سے ادبی بساط الٹ گئی ہے۔
یادش بخیر!
یہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کا قصہ ہے۔راقم الحروف غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں فن خطاطی کا طالب علم تھا۔کلاس بعد دوپہر ہوتی تھی اور شام چھ بجے فراغت کے بعد ہم اکثرغالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں جاکر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ یہاں تقریباً روزانہ ہی کوئی ادبی محفل آراستہ ہوتی جس میں دہلی وبیرون دہلی کے مشاہیراہل قلم جمع ہوتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں اور غالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔جو لوگ ان محفلوں کی شان بڑھاتے تھے ، ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمررئیس، پروفیسر شمیم حنفی،پروفیسر محمدحسن،پروفیسر نثار احمدفاروقی، مجتبیٰ حسین، خواجہ حسن ثانی نظامی اور کنور مہندرسنگھ بیدی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔فاروقی صاحب ان دنوں دہلی کے ڈاک بھون میں تعینات تھے اوراکثر ان محفلوں میں تشریف لاتے تھے ۔ انھیں بڑے ادب واحترام کے ساتھ اسٹیج کی زینت بنایا جاتا۔ان کی جو ادا دوسروں سے انھیں ممتاز کرتی تھی، وہ ان کے پائپ پینے کانرالا انداز تھا۔ ہم نے پہلی بار کسی کو پائپ پیتے ہوئے دیکھاتھا۔آنکھوں پر موٹا چشمہ اور نہایت دیدہ زیب لباس ۔ جب وہ مہمان خصوصی یا صدر کے طور پر تقریر کرنے کھڑے ہوتے تو ان کی باتیں سن کر جی چاہتا کہ بس وہ بولتے ہی رہیں۔ ان کی زبان سے علم وفضل کے دریا بہتے تھے ۔ وہ تقریر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی غیر ضروری ہاؤ بھاؤ سے سامعین کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے بلکہ بے تکلف انداز میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر باتیں کرتے تھے ۔حالانکہ بہت سی باتیں ہمارے سر سے گزر جاتیں کہ اس وقت ہماری عمر ہی کیا تھی۔علمی مباحث اور تحقیق وتنقید کی بیشتر جہتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں ، لیکن فاروقی صاحب کی گفتگو میں ایسا جادو تھاکہ ہم انھیں بہت ذوق وشوق سے سنتے تھے ۔اس زمانے میں ہمارے پاس نہ علم تھا، نہ تجربہ اور نہ شعور۔ بس یونہی الہڑ سے نوجوان تھے ۔ اردو سے محبت تھی اور شعروشاعری سے عشق۔ اکثر ادبی محفلوں میں فاروقی صاحب کے دیدار ہوتے اور ہم انھیں حسرت بھری نظروں سے یہ سوچ کر دیکھتے اور سنتے تھے کہ آگے چل کر اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو بتائیں گے کہ
ہم نے بھی فاروقی کو دیکھا تھا
شمس الرحمن فاروقی ہماری علمی اور ادبی کائنات کا ایک ایسا روشن اور تابندہ ستارہ تھے کہ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے وہ کم ہے۔ان کی زند گی کا محور ومرکز علم کی تحصیل وترسیل کے سوا کچھ نہیں تھا۔ انھوں نے پوری زندگی علم وادب کی خدمت میں گزاری اور بے پناہ مقبولیت اور شہرت حاصل کرنے کے باوجود کبھی اس پر گھمنڈ نہیں کیا۔تحقیق وتنقید ہو، شعر وشاعری ، ترجمہ ہو یا ناول نگاری ، وہ جس میدان میں بھی اترے اپنے معاصرین کوپیچھے چھوڑتے چلے گئے۔ان کے بے مثال علمی اور ادبی کارناموں پر ہر اردو والے کو رشک ہونا چاہئے۔یوں تو انھوں نے اپنی زندگی میں چالیس سے زیادہ کتابیں لکھیں ، لیکن جن کتابوں کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی ان میں ’ شعر شورانگیز‘ کے علاوہ ان کا شہرہ آفاق ناول ’ کئی چاند تھے سرآسماں ‘ شامل ہے۔ مغل عہد کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مذکورہ عہد کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا کتنا گہرائی سے مطالعہ کیااور ایک لازوال ناول تخلیق کیا۔ یہ کیا کم ہے کہ اس اردو ناول کو انگریزی کتابوں کے ناشر ’ پینگوئن‘ نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ۔ غالباً اس ادارے سے شائع ہونے والی یہ پہلی اردو کتاب تھی۔بعدکو فاروقی صاحب نے اس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔یہ بھی فاروقی صاحب کا امتیازہے کہ انھوں نے جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی کی منتخب تحریروں کو انگریزی میں منتقل کیا جو کسی زمانے میں ان کے شہر الہ آباد سے نکہت پبلی کیشنز کے تحت ’جاسوسی دنیا ‘میں شائع ہوئی تھیں۔
یوں تو فاروقی صاحب کو دیکھنے اور سننے کے سیکڑوں مواقع ملے ، لیکن ان کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع اس وقت ملا جب ان کے چچا زاد بھائی اور ماہنامہ ’آج کل‘کے سابق مدیر محترم محبوب الرحمن فاروقی سے قربت ہوئی۔ ان کے خاندان ، عادات واطوار، رکھ رکھاؤ اور وضع داری کے بارے میں جو باتیں براہ راست علم میں آئیں، وہ یقینا ًبڑی متاثر کن تھیں۔ وہ ایک اعلیٰ خانوادے کے چشم وچراغ تھے اور ان کے اندر وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ذی علم اور باوقار لوگوں میں ہوتی ہیں۔برسوں پہلے مجھے ان کے بھتیجے محمود فاروقی کی شادی میں شرکت کا موقع ملا تو میں نے دیکھا کہ بارات اپنے مقررہ وقت پرروانہ ہوئی ۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب سمیت تمام باراتی شیروانی میں ملبوس تھے اور ایک خاص رکھ رکھاؤ تھا جو عام طور پر شادیوں میں نظر نہیں آتا۔نہایت سادگی کے ساتھ نکاح ہوا اور بہت اطمینان سے سب نے کھانا تناول فرمایا۔فاروقی صاحب سے آخری ملاقات بھی گزشتہ برس محبوب الرحمن فاروقی مرحوم پر ایک سیمینار میں ہوئی تھی جو اسی غالب اکیڈمی میں منعقد ہوا تھا ، جہاں ہم نے پہلی بار فاروقی صاحب کو دیکھا تھا۔
میں نے ۱۹۹۱ میں جب اپنا پندرہ روزہ اخبار’’ خبردار جدید‘‘ جاری کیا تو ا س کی اعزازی کاپی جن سرکردہ ار دو ادیبوں کو روانہ کی جاتی تھی ، ان میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام بھی شامل تھا۔عام طور اتنے مصروف لوگوں کے پاس جب اس قسم کے اخبارات ورسائل کی اعزازی کاپیاں آتی ہیں تو وہ اکثرردی کی ٹوکری کی نذرہوجاتی ہیں، لیکن مجھے یہ جا ن کر حیرت ہوئی کہ فاروقی صاحب میرے اخبار کے مستقل قاری تھے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں نے پروفیسر محمدحسن کی تجہیز وتدفین کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔ یہ اتنا عبرت انگیز تھا کہ ملک کے تمام ہی اخباروں نے اسے نقل کیا۔ اس سلسلہ میں ۸ مئی ۲۰۱۰ کو فاروقی صاحب نے ای میل کے ذریعہ جو خط مجھے ارسال کیا ، وہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’ برادرم معصوم مرادآبادی، السلام علیکم
ادھر کچھ دنوں سے آپ کا اخبار نہیں ملا۔میں امید کرتا ہوں کہ میرا نام ابھی فہرست میں ہوگا۔ اگر کٹ گیا ہے تو براہ کرم دوبارہ درج کرادیں۔ آپ چاہیں تو میں مناسب رقم کا ڈرافٹ بھیج دوں۔ مجھے آپ کا اخبار بہت پسند ہے۔
محمدحسن کے جنازے اور تدفین کے بارے میں آپ کا مضمون دیکھا۔آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ میں اسے اپنے ’ خبرنامہ‘ میں شائع کرنا چاہتا ہوں۔ اجازت مرحمت فرمائیے اور یہ بھی لکھئے کہ یہ آپ کے اخبار کی کس اشاعت میں شائع ہوا ہے۔
امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔
آپ کا
شمس الرحمن فاروقی
فاروقی صاحب نے ’’ شب خون ‘‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد ’خبرنامہ شب خون‘ کے عنوان سے ایک مختصر پرچہ جاری کیا تھا جو مخصوص لوگوں کو بھیجا کرتے تھے۔ اس خط سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری محنت رائیگاں نہیں جارہی تھی اور میں اپنا جو اخبار روانہ کررہا تھا وہ باضابطہ ان کے مطالعہ میں تھا ، درمیان میں ڈاک کی خرابی کے سبب جب اخبار ان تک نہیں پہنچا تو انھوں نے اس کی یاددہانی کرائی۔
ظاہر ہے یہ بھی چھوٹوں کو بڑابنانے کا ایک طریقہ ہے ۔فاروقی صاحب ان لوگوں میں ہرگز نہیں تھے جو محض علم وادب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے بڑا ہونے کاڈھونگ رچاتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں علم وادب کے رسیا تھے اور انھیں جہاں سے بھی حاصل ہوتا اسے بے تکلف حاصل کرتے۔ اس خط کے بعد جب وہ دہلی تشریف لائے تو انھوں نے مجھے یاد کیا اور میں نے جامعہ کے مجیب باغ میں ان کی بیٹی کے گھر پر تفصیلی ملاقات کی۔ کبھی کبھی ان سے فون پر بات ہوتی تھی ۔ وہ بنیادی طور پر ایک منکسر مزاج انسان تھے اور ان کے مزاج میں کسی قسم کی ایسی نرگسیت نہیں تھی جو ہمارے ادیبوں اور شاعروں میں معمولی شہرت کے بعد پیدا ہوجاتی ہے۔وہ اپنے سے کم حیثیت لوگوں سے ہم کلام ہونے میں بھی تکلف محسوس کرتے ہیں۔
فاروقی صاحب کی خوبی یہ بھی تھی کہ انھوں نے اردوزبان وادب کو دولت کشید کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ وہ اس پر اپنی جیب سے خرچ کرتے رہے۔وہ یو پی ایس سی کا امتحان پاس کرکے انڈین پوسٹل سروس سے وابستہ ہوئے اور چیف پوسٹ ماسٹر جنرل کے اعلیٰ عہدے تک پہنچے۔ وہ شخصی طور پر بھی نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل اور محبت واخوت کا پیکر تھے۔ دوسروں کے کام آنا بھی انھیں بے حد پسند تھا۔ اس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہوتا ہے۔جس زمانے میں وہ دہلی کے ڈاک بھون میں تعینات تھے تو اردو کے ایک معروف اسکالر ان کی خدمت میں ایک کام لے کر حاضر ہوئے۔محکمہ ڈاک میں ملازم ان کے ایک قریبی رشتے دار کا تبادلہ لکھنؤ سے گوہاٹی کردیا گیا تھا۔انھوں نے فاروقی صاحب سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو تبادلہ رکوادیں کیونکہ ان کا لکھنؤ میں رہنا ضروری ہے۔ فاروقی صاحب نے فوراً آسام کے پوسٹ ماسٹر جنرل کو فون ملاکرکہا کہ بھئی یہ میرے عزیز ہیں، انھیں آپ لکھنؤ میں ہی تعینات رہنے دیں۔فون رکھنے کے بعد فاروقی صاحب نے اپنے ملاقاتی اسکالر سے کہا کہ تبادلے کی کارروائی روک دی گئی ہے ۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب علم وادب کے معاملے میں ہی طاق نہیں تھے بلکہ انسانی رشتوں کی پاسداری بھی ان کے یہاں خوب تھی۔فاروقی صاحب کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ اعلیٰ انسانی اور اخلاقی صفات سے آراستہ تھے اور یہ صفات انھیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملی تھیں۔ان کے چچا زاد بھائی اور ماہنامہ ’آج کل ‘ کے سابق ایڈیٹر محبوب الرحمن فاروقی مرحوم نے مجھے ایک بار اپنے ایک خاندانی بزرگ کا قصہ سنایا تھا، جو گورکھپور کے ایک مدرسے میں مفتی اور مدرس تھے۔ اکثر لوگ مدرسے میں ان سے فتوے لینے آتے تھے۔ان کا یہ معمول تھا کہ جتنا وقت انھیں فتویٰ دینے میں لگتا اسے وہ اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیتے تھے۔جب پہلی تاریخ کو تنخواہ لینے منشی کے پاس جاتے تو فتویٰ دینے کے اوقات کو جوڑ کر کہتے کہ اتنے وقت انھوں نے بچوں کو پڑھایا نہیں بلکہ فتوے دئیے ہیں، لہٰذا اتنے وقت کی تنخواہ کاٹ لی جائے۔ ظاہر ہے یہ تقویٰ کی ایک اعلیٰ صفت ہے جس پر ان بزرگ نے ہمیشہ عمل کیا۔
شمس الرحمن فاروقی نے اپنی غیرمعمولی ادبی خدمات کے لئے ادب کے تمام ہی بڑے اعزازات حاصل کئے۔۱۹۸۲ میں تنقیدات میر پر چار جلدوں پر مشتمل ان کی غیرمعمولی تصنیف ’’ شعرشورانگیز‘‘ کوادب کا سب سے باوقار انعام ’سرسوتی سمان ‘ ملا۔ ۱۹۸۶ میں شاعری پران کی کتاب ’’ تنقیدی افکار‘‘ کو ساہتیہ اکادمی نے انعام سے نوازا۔۲۰۰۹ میں حکومت ہند نے ان کی ادبی خدمات کے عوض انھیں’ پدم شری‘ کے اعزاز سے نوازا۔۲۰۱۰ میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی اور دہلی اردو اکادمی نے انھیں اپنے سب سے بڑے اعزاز بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے سرفراز کیا۔یہ ان کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے کبھی ان اعزازات کو اپنے سینے پر نہیں سجایا۔ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ’ پدم شری ‘ نہیں لکھا۔ظاہرہے ان کی شناخت انعام واکرام نہیں تھے بلکہ وہ کام تھا جس کی بنیاد پر انھیں موجودہ عہد میں اردو کا سب سے بڑا ادیب تسلیم کیا گیا۔
۲۰۰۶ میں شائع ہونے والاان کا شہرہ آفاق ناول ’’ کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ منظر عام پر آیا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ہمارے عہد کے ایک بڑے فکشن نگار انتظار حسین نے ان لفظوںمیں اس ناول کا استقبال کیا’’مدتوں بعد اردو میںایسا ناول آیا ہے جس نے ہندوپاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچادی ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اس ناول نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے اور یہ اردو فکشن کی بہترین کتاب قرار پائی۔فاروقی صاحب نے اس ناول میں تاریخ اورفکشن کا بہترین تانا بانا بن کراپنے قارئین کو ماضی کا پیرہن اوڑھا دیا۔اس کی بے پناہ مقبولیت کے سبب خود فاروقی صاحب نے اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کرایا۔ بعد کو یہ ناول ہندی میں بھی شائع ہوا۔
فاروقی صاحب نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں جدیدیت کا علم اٹھایا۔۱۹۶۶ میں انھوں نے ایک منفرد جریدے ’’ شب خون ‘‘ کی داغ بیل ڈالی ، جس کی اشاعت تقریباً چالیس برس تک جاری رہی۔یہ دراصل ان ادیبوں کی پناہ گا ہ تھا جو ترقی پسند تحریک سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ اس دوران فاروقی صاحب کے نظریات پررنگ برنگے الزامات بھی لگے ۔ انھیں سی آئی اے کا ایجنٹ بھی قرار دیا گیا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’’ شب خون ‘‘ میں علی سردار جعفری، عصمت چغتائی اور راجندرسنگھ بیدی جیسے ترقی پسند ادیبوں کوبھی جگہ ملی۔جب اس کی اشاعت بند ہوئی تو انھوں نے ’’ خبرنامہ شب خون‘‘ کے نام سے کچھ عرصہ کے لئے ایک مختصر خبرنامہ بھی جاری کیا۔ان کی پیدائش۳۰ ستمبر۹۳۵کو اعظم گڑھ کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی۔وہ اپنے والدمولوی خلیل الرحمن فاروقی کی سب سے چہیتی اولاد تھے۔بچپن ہی میں انھیں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگیا تھااوراپنی بہن کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک ماہنامہ قلمی رسالہ’’ گلستاں‘‘ شائع کیا تھا۔پندرہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا ناول ’’ دلدل سے باہر‘‘لکھا۔ انھیں کمسنی میں ہی سینکڑوں اشعار یاد ہوگئے تھے۔اس طرح اردو شعر وادب کا ذوق ان میں اوائل عمری میں ہی پیدا ہوگیا تھا۔اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھپور کے مہا رانا پرتاپ کالج سے فرسٹ بیچ کے ساتھ بی اے کیا۔۱۹۵۵ میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور وہ بھی اس شان سے کہ پوری یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔اس کے بعد وہ درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے مگر ساتھ ساتھ سول سروس کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔۱۹۵۷ میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعدپوسٹل سروس سے وابستہ ہوگئے۔اس دوران ملک کے مختلف صوبوں میں انھیں تعیناتی ملی۔۱۹۹۴ تک وہ نئی دہلی میں چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور پوسٹل سروسز بورڈ کے ممبر رہے ۔سبکدوشی کے بعد وہ الہ آباد منتقل ہوگئے جہاں ان کی ذاتی لائبریری میں دس ہزاروں کتابیں ان کی منتظر تھیں۔ فاروقی صاحب نے باقی ماندہ عمر لکھنے ، پڑھنے اور سوچ بچار میں گزاری۔ وہ کبھی سستی شہرت اور ناموری کے پیچھے نہیں دوڑے بلکہ شہرت اور ناموری خود ان کا تعاقب کرتے رہے ۔ان کی سب سے بڑی خوبی جس نے انھیں اپنے دور کا سب سے بڑا ادیب ، محقق، نقاد، ناول نگار اور شاعر بنایا وہ دراصل ان کی ثابت قدمی اور پتہ ماری تھی۔ وہ جس کام کے بھی پیچھے پڑجاتے اسے اس کے انجام تک ضرور پہنچاتے تھے اور وہ بھی اتنے وقار اور معیار کے ساتھ کہ پڑھنے والے سردھنتے ہیں رہ جائیں۔ ان کا آخری شاہکار ناول ’’ کئی چاندتھے سرآسماں‘‘ اپنے نفس مضمون اور بیان کی قدرت کے اعتبار سے اس نوعیت کا ہے کہ اسے عالمی ادب کے زمرے میں شامل کیا جانا چاہئے۔فاروقی صاحب کے انتقال پر اردو حلقوں میں غم والم کی لہر دیکھ کر مجھے افتخارعارف کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پراناتھا
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں