صابر
اورنگ آباد
’’حواشی‘‘ میں سرمدی نے موضوعات کے تنوع، اندازِ بیاں کی ندرت، لفظوں کے انتخاب و در و بست کی سلیقگی، مصرعوں کی خوشنما آراستگی اور لسانی سانچوں کی ہنرمندانہ قطع و برید کے ذریعے جس طرزِ نو کو ایجاد کرنے کی سعی کی ہے، اس نے بہتوں کو خوشگوار حیرت میں ڈال رکھا ہے اور بہتوں کے لیے اپنی ہی ذات میں تشکیک کے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ ثانی الذکر ’’بہتوں‘‘ کے سر دوہری مصیبت آن پڑی ہے۔ اگر طنز و استہزا یا تنقیص سے کام لے کر اس طرزِ نو کے اثر و نفوذ کو گزند پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو بیچ بازار خود اپنی ہی پول کھل جانے کا امکان بلکہ یقینِ کامل ہے اور اگر برائے تکلف اظہارِ تحسین کرنا چاہیں تو ان کی زبانیں ان کا ساتھ دینے سے قاصر رہتی ہیں۔ الفاظ بہت نک چڑھے ہوتے ہیں۔ اُن میں اپنی انا اور غیرت ہوتی ہے۔ سرمدی کے فکری تجربوں کی کوکھ سے نظموں کی صورت میں ظاہر ہونے والے تخلیقی نتائج اپنی ترسیلی یا تبلیغی اکملیت کا اعتراف کروانے میں چاہے کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن ہر خاص و عام کے ذہن میں اپنی فنی جامعیت کا یقین یا شائبہ پیدا کرنے میں کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ جہاں تک اول الذکر ’’بہتوں‘‘ کا معاملہ ہے تو جس رفتار سے وہ سرمدی کے اس طرزِ نو سے ہم آہنگی پیدا کریں گے، اسی مناسبت سے ان کے لیے ابلاغ و تفہیم کے دائرے وسیع ہوتے جائیں گے۔ حالانکہ سرمدی کی ایجاد کردہ یہ طرزِ نو ابھی بھی اپنی آخری شکل میں نہیں ڈھلی ہے اور ہنوز تشکیلی دور سے گزر رہی ہے۔ بالفاظ دیگر ابھی بھی ایک آنچ کی کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔ فی الحال اسے کروٹ بدلتی فنی جمالیات کی آہٹ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان دو ’’بہتوں‘‘ کے درمیان بعض ایسی سادہ لوح روحیں بھی پائی جاتی ہیں جو اثبات و نفی کی جھنجھٹ نہیں پالتیں اور کسی بھی متن و مواد کو محض سونگھ کر صفحات سیاہ کرنے کی خداداد صلاحیت سے بہرہ مند ہیں۔ انھیں درگزر کرنا کارِ ثواب ہے۔
اب میں ایک ایسا جملہ لکھنا چاہتا ہوں جسے آپ کلیشے قرار دے سکتے ہیں کیونکہ آپ اسے پچاسوں نظم گو شعرا کے ضمن میں سینکڑوں مرتبہ پڑھ چکے ہوں گے لیکن یقین جانیے حواشی کی نظمیں اس کند کلیشے کو دوبارہ آبدار قولِ زریں کے منصب پر فائز کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ نہایت دیانتداری سے لکھ رہا ہوں کہ غزل کی زبان اور ڈکشن کی تند موجوں نے سرمدی کی نظمیہ شاعری پر چنداں اثر نہیں ڈالا ہے اور سرمدی نے غزلیہ جبر سے یکسر آزاد نظم کے خود مختار جمالیاتی معیار کی تشکیل میں اپنا کردار حتی المقدور ادا کر دیا ہے۔ حواشی کی نظموں میں در حقیقت معاصر اہلِ فن کے نام ایک غیر معلنہ پیغام بھی مخفی ہے کہ نظمیہ شاعری، تفکر و تخیل سے نمود پذیر نفسی واردات کو محض مروجہ شعری آہنگ کے سپرد کر دینے کا نام نہیں ہے بلکہ نئے خارجی زیر و بم کے ذریعے اچھوتے آہنگ کی دریافت سے عبارت ہے۔
موضوعات کے تنوع کی بات کریں تو سرمدی کبھی اپنی ذات کے گردونواح سے پھول چن لیتے ہیں، کبھی ذرا آگے بڑھ کر موتی اچک لاتے ہیں اور کبھی دور دراز جھلملاتے ستارے کو چُمکار کر قریب بلا لیتے ہیں۔ پھر انھیں ایسے بھینچ کر لِپٹتے ہیں کہ یہ منتخب پھول، موتی اور ستارے عملِ تقلیب سے گزر کر ان کی ذات میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ سرمدی بعض نظموں کے تانے بانے معروف تاریخی رجال اور واقعات کے سہارے بُنتے ہیں تو ایسے نئے اور دلچسپ فکری تسلسل اختراع کرتے ہیں جن سے فکری سطح پر اتفاق یا اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن نظمیں اپنے فنی تاثر اور خلاقانہ رویّے سے اپنے پڑھنے والے کے ذوق کی تسکین کا پورا پورا حق ادا کرتی ہیں۔ بعض نظموں کے کردار حکائی، افسانوی یا اساطیری ہیں جن کے نام پڑھتے ہی ہمارا ذہن کسی خودکار مشین کے انداز میں ان کی تجسیم گوشت و پوست کے نفوس میں کر دیتا ہے۔ ان کی عادات و اطوار کے ساتھ ساتھ ان کے حلیے اور رہن سہن کا تصور بھی ہمارے ذہن کے پردوں پر لہرانے لگتا ہے۔ مزید برآں بعض کردار غیر معروف، کم معروف یا تخئیلی بھی ہیں جو اپنی اجنبیت یا مبہم کیفیات کے سبب اپنی خیالی شبیہ اجاگر کرنے کے لیے کوئی خام مال مہیا نہیں کرتے تاہم اپنی موجودگی کا اعتبار حاصل کرنے میں پیچھے بھی نہیں رہتے۔
’’امراؤ بی‘‘ کے افسانوی کردار اور امیر زادوں کی تربیت کے تعلق سے کچی سماعتوں میں رس گھولنے والی چٹخارہ دار کہانیوں کے درمیان سے راستہ بنانے والی نظم ’’مرزا اچھن‘‘ کا یہ بند ملاحظہ فرمائیے:
ادھر مرزا چھن کو
امراؤ بی کا دوپٹا
وہ پلو اٹھا کر گرہ کھولنا
اور سبق یاد ہونے پر
خوش ہو کے اک آنہ مٹھی میں لینا
توجہ سے اطراف سر کے گھمانا
خموشی سے پھر چشم بد دور کہنا
نظر، بد نظر سے بچانا
یہ کہنا ’میاں خوش رہوـ‘
آج بھی یاد آ جائے تو
ان کی خشک آنکھوں میں
سانسیں تھم جاتی ہیں
نظمیہ شاعری میں ماضی کے اچھے برے اقدار اور رشتوں کے جذباتی ربط کو موضوعِ سخن بنانا اگرچہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن سرمدی کے دیرینہ قاری کے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔ خصوصاً ایک ایسے دور میں کہ جب عصری اذہان ان سارے حقائق کی معتبریت کو من گھڑت کہانیوں کی سحر انگیزی سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ شاعر سے عوامی زاویۂ نظر کے رد یا قبول کی امید کرنا ہمیشہ ہی سے ناقابلِ قبول رہا ہے۔ ذاتی فہم و اعتقاد سے اوپر اُٹھ کر شاعری کا اعتبار بلاشبہ شاعر کے استبصار پر قائم ہوتا ہے لیکن پھر بھی ایک معروضی نقطے پر فیصلے کی حتمیت طے پاتی ہے کہ شاعر اپنے فکری احساس کو شعری قالب میں ڈھالتے ہوئے زبان و بیان کی سطح پر کس حد تک کامیاب رہا ہے۔ ’’مرزا اچھن‘‘ ہر لحاظ سے سے ایک کامیاب نظم ہے۔
’’شیفرڈ روڈ – ایک جغرافیائی تصویر‘‘ میں نوسٹیلجیا بیتے ہوئے لمحوں یا کھوئی ہوئی چیزوں کی ترحم طلب کتھونی سے ماورا ہے۔ خواب جیسی پراسرار فضا میں نظم کا آغاز ہوتا ہے:
سادھو نے
اشارے سے بتایا
اُس طرف
دیکھا تو پایا
اس طرف ۔ ۔ ۔ یعنی
میں شیفرڈ روڈ پر تھا
شیفرڈ روڈ ایک ایسی کھلی نشانی ہے جو نظم کے مکاں کو کسی بڑے صنعتی و سیاسی شہر سے جوڑ دیتی ہے، وہیں جنکشن اور پٹرول پمپ جیسے لینڈ مارک ممکنہ زماں کا تعین کر دیتے ہیں۔ اگر شیفرڈ روڈ کو گلی/ سڑک سے بدل دیں تو ہر قاری (شہری یا قصباتی) اپنے ارد گرد کے ماحول اور محل وقوع کا تصور کرسکتا ہے اور شاعر کو یہ منظور نہیں ہے۔ ایک بڑے شہر کے تناظر میں سادھو اور بے ضرر کتے کی اپنی معنویت تشکیل پاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ سادھو کوئی بھبھوت رمائے جٹادھاری ہندو جوگی ہی ہو بلکہ یہ کوئی ایسا ذی فہم شخص بھی ہو سکتا ہے جس کی رائے کو متکلم کے پاس اعتبار حاصل ہو لہٰذا سادھو کے اشارے پر متکلم کے سمتِ سفر متعین کرنے کو کسی خوش عقیدگی یا بد عقیدگی سے تعبیر کرنے کی گنجائش بھی نہیں رہ جاتی۔ علاوہ ازیں یہ بھی ضروری نہیں کہ بے ضرر کتا چار پیروں والا ایک جانور ہی ہو، وہ فٹ پاتھ پر کراہتا کوئی لاوارث بھکاری بھی ہو سکتا ہے۔ رقص، رقصِ آوارہ بھی ہو سکتا ہے یا رقصِ پابجولاں بھی، کارخانے یا دفتر سے لوٹتے کسی تھکے ماندے مزدور یا بابو کی مضمحل قدمی بھی یا نشے میں دھت کسی من موجی کی بے پروا لڑکھڑاہت بھی۔ ان ساری عمومی کیفیات کے درمیان سے طلوع ہوتی ہوئی یہ نظم روشنی اور آواز پر مرتکز ہو جاتی ہے۔ دودھیا روشنی کو جینا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن گندمی آواز کو جینا؟ آواز کی رنگت کے نظارے کا بیان ماورائے حواس کے ادراک کا ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل پیش نہ کرتے ہوئے بھی شاعر اس کی موجودگی کو منوا لیتا ہے۔ جیسے یہ آواز بھی کوئی روشنی ہی ہو، گندمی چہرے سے پھوٹتی گندمی روشنی، جو نظم کی تخلیق کی سب سے زوراثر محرک قرار پاتی ہے۔ اس طرح نوسٹیلجیائی رجحان پراسراریت سے شروع ہوکر کچھ معمائی ہوتا ہوا رومان پروراختتام پر پہنچتا ہے اور اس نظم کو اس نوع کی ساری پیشرو شاعری سے الگ کر دیتا ہے۔
سرمدی کی بعض نظمیں معاصر سماج کے تلخ ترین حقائق سے معاملہ کرتی ہیں لیکن نہ تو تلخ نوائی کا شکار ہوتی ہیں، نہ کھردرے پن کا اور نہ ہی جھنجھلاہٹ کا۔جذبۂ تحقیر سے یکسر پاک اس رویّے کو آپ نئے طرز کی سماجی وابستگی بھی کہہ سکتے ہیں۔
منکوحہ:
اک طرف
قیل و قال ایک مولانا کی
دو گواہوں کی موجودگی
شورِ شہنائی میں
کاغذوں پر اترتا زبانی قبول
حرفِ دل سب فضول
اک طرف
اک سکوتِ مسلسل کا ذکرِ خفی
آیتِ عشق کا دو دلوں پر نزول
آسمان و زمیں کی گواہی
ندائے قبول
غيرِ حق سب فضول
اے خدا!
آج منکوحہ کا فیصلہ
تیرا ذمہ رہا
’’منکوحہ‘‘ تانیثی استحصال پر احتجاج یا مساویانہ حقوق کی وکالت کا روایتی بیانیہ نہیں ہے کیونکہ پہلے بند میں ’’کاغذوں پر اترتا زبانی قبول / حرفِ دل سب فضول‘‘ نے جبر یا بے دلی کی کیفیت کو جنسِ مخالف سے بھی جوڑ رکھا ہے۔ ایک ایسا سماج جس میں ایسے اہم باہمی رشتوں کا انسلاک ایسی بے رغبتی کے ساتھ اور باہر سے تھوپی ہوئی کسی رسم کا نپٹارا کرنے کے انداز میں کیا جا رہا ہو، وہاں ان کی پائیداری کا مشکوک ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ یہ نظم ہمارے اطراف پھیلی تنزل پذیر دنیا کے بس ایک کنارے کے ڈہ جانے کی خبر سرخی لگانے تک محدود نہیں ہے۔ البتہ سوال ایک ہی ہے جو خدا سے کیا گیا ہے لیکن یہ ایک سوال دیگر بہت سارے سوالوں کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے اور جوابدہ خدا کے سبھی نام لیوا ہیں۔
حواشی کی نظموں میں سرمدی کا اندازِ بیاں نثری آہنگ سے قریب ہے لیکن لسانی سانچوں کی قطع و برید کی وجہ سے روایتی شعری مزاج کے افراد کے لیے سرعت سے تبلیغ و تفہیم ممکن نہیں۔ اگرچہ یہاں نہ کوئی لسانی بے قاعدگی ہے اور نہ ہی گنجلک مصرع سازی لیکن ابہام ضرور ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ نظمیں واقعی تربیت یافتہ قاری کے لیے ہیں ورنہ عام قاری دیکھتے ہی دیکھتے ابہام کی سرحدیں پھلانگ کر اہمال کی اندھیری کھائی میں جا گرتا ہے اور غنائیت اور اثر پذیری کے فقدان کا نعرہ لگاتا ہے۔ سرمدی ہندی، سنسکرت، فارسی اور عربی الاصل الفاظ یا فقروں کا استعمال بھی بلا تکلف کرتے ہیں لیکن بلاضرورت نہیں کرتے۔ بلاشبہ یہ ثقالت سہل پسند طبائع کو سخت گراں گزرتی ہے لیکن اہل نظر سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا تخلیقی برتاؤ نظم کی تفکری فضا کو کس طرح گہری معنویت کا حامل بنانے میں کارگر ثابت ہوتا ہے۔ سہل نگاری سے سرمدی کا اجتناب شعوری ہے یا غیر شعوری، اس کا فیصلہ کرنا ایک قاری یا نقاد کے لیے اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب وہ سرمدی سے اس کا دیانتدارانہ جواب حاصل کر لے۔ تخیل شاعر کے انفرادی ذہن کی اپج ہے اور اس کی ترسیل بھی انفرادی ترجیحات و توفیقات پر منحصر ہے اس لیے اس کا اجتماعی فہم اول تا آخر اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے اگر شاعر کے تخیل کے مضمرات تک اجتماعی ذہن کی رسائی کروا دی جائے جو کہ کسی طور ممکن نہیں۔ حتی کہ تخلیق کے منصہ شہود پر آجانے کے بعد خود شاعر بھی ان تک مراجعت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا حواشی کی نظموں کے عام فہم نہ ہونے کی شکایت بجا ہے اور شکایت کرنے والوں کے لیے عرض ہے کہ ہر انفرادی تخیل اجتماعی ابلاغ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں