اسلم جمشید پوری
بہار کی سرزمین ادبی نقطۂ نگاہ سے خاصی زرخیز رہی ہے۔ ادب کی کوئی بھی صنف ہو، بہار کے مشاہیر نے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ جہاں تک فکشن اور فکشن تنقید کامعاملہ ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اردو ناول اور افسانے میں بہار نے اپنی مستحکم موجودگی درج کی ہے۔ شکیلہ اختر، اختراورینوی سے لے کر۱۹۷۰ کی نسل تک شین مظفر پوری، غیاث احمد گدی، احمد یوسف، منظر کاظمی اور پھر کچھ آ گے پیچھے شفیع مشہدی، حسین الحق، عبدالصمد، شوکت حیات، شفق کی شکل میں ایک پوری نسل موجود ہے جس کے ذکرکے بغیر اردو فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک فکشن تنقید کی بات ہے تو اختراورینوی، کلیم ا لدین احمد ، وہاب اشرفی، لطف الرحمان، ابوالکلام قاسمی،علیم اللہ حالی، اسلم آزاد،اعجاز علی ارشد، خورشید احمد، ارتضیٰ کریم سے یہ سلسلہ نئی نسل میں حقانی القاسمی، ہمایوںاشرف،احمد صغیر اور شہاب ظفر اعظمی تک پہنچتاہے۔
فکشن تنقید کے بتدریج ارتقا وار نئی نسل کے کردار پر غور کیاجائے تو شہاب ظفر اعظمی بہار کی نئی امید بن کر ابھرے ہیں۔ انہوں نے شعبۂ اردو ، پٹنہ یونیورسٹی میں فکشن تنقید کی روایت کو اسلم آزاد اور اعجاز علی ارشد کے بعد نہ صرف سنبھالا ہے بلکہ اسے نئی منزلوں سے روشناس کرا رہے ہیں۔
شہاب ظفر اعظمی کاتنقیدی سفر تقریباً بیس برس پرمحیط ہے۔ یوں ان کی پہلی تنقیدی کاوش اردو کے نثری اسالیب۱۹۹۹میں منظر عام پر آئی لیکن یہ فکشن تنقید کے زمرے میں نہیں آتی۔ فکشن تنقید کے طو رپر شہاب ظفر اعظمی کی پہلی کتاب بہار کے معروف فکشن نگار حسین الحق کے شاہکار ناول ’’فرات‘ کا تنقیدی مطالعہ تھا۔ یوں تو یہ کتاب’’فرات: مطالعہ ، محاسبہ‘‘ فرات پر تحریر کردہ مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جسے شہاب ظفر اعظمی نے منفرد طریقے سے مرتب کیاہے، لیکن کتاب میں آپ کی یہ تحریریں حرف آ غاز اور فرات :انسانی جبلّتوں کی مکمل تاریخ اور ناول نگار حسین الحق سے لیاگیا ان کا طویل انٹرویو بھی شامل ہے۔ کتاب کی ترتیب میں بھی شہاب ظفر اعظمی کاذوق نقد دکھائی دیتاہے۔ اس طرح ’فرات: مطالعہ ، محاسبہ‘ کی ۲۰۰۴میں اشاعت سے شہاب ظفراعظمی کے تنقیدی سفر خصوصاً فکشن تنقید کے سفر کی ابتدا ہوتی ہے اور گزشتہ تقریباً چودہ پندرہ برسوں میں شہاب کی فکشن تنقید پر پانچ کتب شائع ہوئی ہیں جو ان کی شناخت کے استحکام کامضبوط وسیلہ ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی اب تک کی معرکہ آرا کتاب’’ اردو ناول کے اسالیب‘‘۲۰۰۶میں منظر عام پر آئی۔ فکشن پر مضامین کا مجموعہ’’جہان فکشن‘‘ کے نام سے۲۰۰۸میں اور مختلف مضامین کاایک مجموعہ’’متن ومعنی‘‘ کے عنوان سے۲۰۱۴ میں شائع ہوا جس میں شاعری اور دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ ایک درجن مضامین فکشن سے متعلق ہیں۔ ’’صالحہ عابد حسین: فکری اورفنی جہات‘‘ ۲۰۱۶ میں شائع ہوئی جس میں صالحہ عابد حسین پر منعقدہ سیمینار کے مقالات کو حسن ترتیب سے جمع کیاگیاہے۔
فکشن تنقید کامیدان اب بھی، دیگر اصناف کے مقابلے کم آباد ہے، لیکن ادھر نئی نسل نے اپنی کاوشوں سے فکشن تنقید کو نئی زندگی بخشی ہے۔ شہاب ظفر اعظمی نوجوان ناقد ہیں۔ تنقید کے تعلق سے ان کا نظریہ بہت واضح ہے ،وہ تنقید میں بے جا تعریف، استہزا یا گنجلک عبارت کے قائل نہیں ہیں، وہ فن پارے کادیانت داری سے جائزہ لیتے ہیں۔ تنقید اور تخلیق کے تعلق سے ان کا نظریہ ملاحظہ کریں:
’’میں خواہ مخواہ نکتہ چینی، جارحانہ اظہار خیال اور استہزائی لب ولہجے کو سخت معیوب سمجھتاہوں۔ میں ہمدردانہ نقطۂ نظر کاحامی ہوںکیونکہ میراایقان ہے کہ مصنف یا ادیب اپنی تخلیقات میں زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کی عکاسی اپنے طو رپر بہتر سے بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کر تاہے اور وہ زندگی کے تجربات کواپنے نقطۂ گاہ سے پیش کرتاہے۔ وہ خود کو تجربات کی بھٹی میں جلاکرناکامیوں اور محرومیوں میں تپا کر اپنے زمانے کی نمائندگی کافریضہ انجام دیتاہے۔ یعنی اپنے افکار و تجربات کو تخلیقی اور فنکارانہ انداز میں پیش کرتاہے۔ ضروری نہیں کہ اس کی ہر پیش کش آپ کو مطمئن کرے یاآپ کے معیار پر پوری اترے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کا مذاق اڑاکریااس کی منفی نکتہ چینی کرکے اس کا حوصلہ پست کردیاجائے۔ اچھے نقاد کا فرض ہے کہ وہ تخلیق کے سیاہ وسفید اوراچھائی ، برائی سے مصنف کوآگاہ کرے مگراس طرح کہ اسے نقاد اپنا ہمدرد ار رہنما محسوس ہو۔‘‘
( جہان فکشن، شہاب ظفراعظمی، ص۔۱۴۔۱۳)
درج بالا اقتباس سے شہاب ظفر اعظمی کا تخلیق، تخلیق کار اور تنقید کے تعلق سے نظریہ بالکل صاف ہے۔ وہ بے جا تنقیدی رعب اور جارحانہ انداز کے خلاف ہیں۔اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ وہ تنقید سے سمجھوتہ کرتے ہیں، نہ ہی وہ صرف اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ بات کتنی ہی سخت اور حق ہو اس کا انداز ایسا ہو کہ کسی کو برانہ لگے۔ وہ اس بات سے بھی واقف ہیں اور تسلیم بھی کرتے ہیں کہ مصنف یا ادیب جوادب پیش کرتاہے ،وہ اس کے زندگی کے تجربات ہوتے ہی، جنہیں ضبط تحریر میں لانے سے قبل وہ کتنے آگ کے دریا پارکرتاہے تب کہیں اپنے افکار ونظریات کو ایک رخ عطاکرتاہے۔ ضروری نہیں کہ ادیب یامصنف جو کچھ لکھتاہے وہ سب کاسب معیاری ہویاآپ کی پسند پرکھرااترے۔ ایسا بڑے سے بڑے ادیب وشاعر کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔ ایسے میں نقاد کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ، اس کا انداز ، رویہ اور نقطۂ نقد ایساہو کہ مصنف کی صحیح رہنمائی کرسکے، تاکہ تعمیری ادب کی تخلیق میں مدد مل سکے۔
ہمارے یہاں فکشن تنقید کی روایت بہت پرانی نہیں ہے۔ ابتدائی زمانے میں سید وقار عظیم اور ممتاز شیریں کے بعد پروفیسر قمررئیس، شمس الرحمان فاروقی، پروفیسر گوپی چند نارنگ ، پروفیسر شمیم حنفی، وہاب اشرفی، لطف الرحمان تک فکشن تنقید پر خوب لکھاگیا لیکن اب بھی دیگر اصناف کے مقابلے بہت کم ہے۔ ان میں بھی بعض کاانداز ایسا عالمانہ اور غیر واضح رہاہے کہ پورے پورے اقتباسات کے مطالعے کے بعد بھی بات واضح نہیں ہوتی۔ ادھر نئی نسل نے اس طلسم کو توڑا ہے۔ شہاب ظفر اعظمی نئی نسل کے ایسے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں سے فکشن کی تفہیم کو عام فہم بنایاہے۔ فکشن ناقد اورفکشن تنقید کے تعلق سے بھی شہاب اپنا نظریہ ر کھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’فکشن تنقید صبر طلب اور نسبتاً مشکل کام ہے، کیوںکہ یہ ناقد سے متعدد تقاضے کرتی ہے۔ مثلاً پوری کہانی پر نظرہونا، کہانی کی جزئیات ، زبان ، قصہ پن اور فن قصہ نگاری سے واقفیت ، اسلوب اور موضوع میں ہم آہنگی وغیرہ فکشن کی تنقید کے اہم اجزا ہیں۔ جوناقد سے گہرے اور مسلسل توجہ کاتقاضا کرتے ہیں۔ کسی فکشن نگار کی قدر سنجی کیلئے اس کی جملہ تصانیف کے علاوہ پوری افسانوی ادب کا مطالعہ بھی خاصا دقت طلب اور پیچیدہ عمل ہے۔‘‘
(جہان فکشن۔ شہاب ظفراعظمی۔ ص۔۱۴)
شہاب ظفر اعظمی فکشن کی باریکیوں سے کماحقہ واقف ہیں۔ یوں بھی فکشن ناقد پرلازم ہے کہ وہ فکشن کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہو، کہانی ، قصہ، کردار، زبان، موضوع، قصہ پن، پلاٹ وغیرہ اجزا سے فکشن کی تکمیل عمل میں آتی ہے۔ شہاب کا خیال درست ہے کہ ان اجزا سے گہری وابستگی اوران پر عمیق نظر کسی بھی فکشن ناقد کو ، اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔
شہاب کا کمال یہ ہے کہ وہ ناول اور افسانے کے لازمی اجزا پر خصوصی توجہ صرف کرتے ہیں۔ ان کی فکشن تنقید کا بڑا وصف یہی ہے کہ وہ اپنی تحریر کی اساس انہیں پر قائم کرتے ہیں۔ ان میں سب سے ضروری اسلوب ہے کہ اچھے سے اچھا موضوع بھی اسلوب کے فقدان میں پھس پھسا ہوکررہ جاتاہے۔ اسلوب تحریر و تقریر کی جان ہوتا ہے۔ اس میں مصنف ومقرر کی بعض خوبیاں درآتی ہیں۔ یعنی مطالعہ اور زبان کی باریکیوں سے اس کی جانکاری، شہاب ظفرا عظمی نے’’اردو ناول کے اسالیب‘‘ لکھ کر ایوان ادب میں خاصا ہنگامہ بپا کیا۔ انہوں نے ناول کی تخلیق میں اسلوب کی اہمیت کو ثابت کیا۔وہ فکشن میں اسلوب کی اہمیت وافادیت پر یوں رقم طرازہیں:
’’ادب کی نثری اصناف میں بالخصوص فکشن لکھنے والوں کا اسلوب سے بڑا گہراتعلق ہوتاہے۔ کیوںکہ ’کہانی‘ داستان، ناول، یاافسانہ کسی شکل میں بھی لکھی جائے ، اس کی دلچسپی اور مقبولیت کی بنیاد اسلوب ہی ہوتاہے۔ بہتر سے بہتر کہانی ، سننے والے کواس وقت تک متوجہ نہیںکرسکتی جب تک اسے دلچسپ، پرتکلف اور مؤثر انداز میں نہ پیش کیاجائے۔ ایساانداز اور ایسا اسلوب جو سننے والے کو اپنی طرف کھینچے اورپھر کسی اور کی طرف نہ جانے دے۔‘‘(اردو ناول کے اسالیب، شہاب ظفرا عظمی۔ ص۔۳۸)
شہاب نے اپنی اس کتاب میں اسلوب کو لے کر خاصی طویل بحث کی ہے۔ انہوں نے پہلے اسلوب کی تعریف اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مغربی ناقدین اور دانشوروں کی اسلوب کے تعلق سے مختلف آرا اوران کے رموز کو پیش کیاہے۔ یہی نہیں شہاب ظفر اعظمی نے اسلوب کے آئینے میں اردو ناول کی روایت کا بتدریج جائزہ لیاہے۔ انہوں نے ڈپٹی نذیراحمد کے ناولوں سے ترقی پسند عہد تک کے اہم ناول نگاروں کے ناولوں کا ذکرکرتے ہوئے اسلوب کاجائزہ پیش کیاہے۔ اسی طرح ترقی پسند تحریک کے ہراول دستے سجاد ظہیر، عزیزاحمد، کرشن چندر، عصمت چغتائی سے بیدی، عزیزاحمد، عبداللہ حسین، اختراورینوی، حیات اللہ انصاری، سہیل عظیم آبادی سے لے کر جدید عہد کے انتظار حسین ،قرۃ العین حیدر، جیلانی بانو، جمیلہ ہاشمی، جوگندر پال، بانو قدسیہ سے نئی نسل یعنی غضنفر، عبدالصمد، حسین الحق، پیغام آفاقی، شموئل احمد، اقبال مجید، مشرف عالم ذوقی، سید محمد اشرف، آچاریہ شوکت خلیل اور محمد علیم، شاہد اختر، کوثر مظہری وغیرہ کے کل ملاکر تقریباً ایک صد ناولوں کا اسلوبیاتی جائزہ لیاہے جواپنے آپ میں ایک کمال ہے۔ شہاب کی یہ کتاب نہ صرف اسلوب کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں معاون ہے بلکہ یہ اردو ناول کی روایت کابھی ایک جائزہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ یہی نہیں شہاب نے اپنی اس کتاب میں اکیسویں صدی کے بھی کئی ناولوں کے اسلوب پر گفتگو کی ہے۔ یہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ اردو ناول کے اسالیب، ناول کی زبان، لفظیات، برمحل استعمال اور اسلوب کی باریکیوں ، موضوع کی ہمہ رنگی اور ناول کے مرکزی خیال کوسمجھنے کیلیے( پوری اردو ناول کی راویت) اہم اور دستاویزی حیثیت کی کتاب ہے۔
شہاب ظفر اعظمی نے فکشن تنقید کے حوالے سے متعدد فکشن نگاروں پربھی مضامین قلمبند کئے ہیں۔ ناول نگاروں کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاروں پر تحریر کردہ ان کے مضامین ، ہندوپاک کے معتبر ادبی رسائل کی زینت بنتے رہے ہیں۔ ان کے ایسے مضامین کے دو مجموعے’جہان فکشن‘ اور’متن اور معنی‘ شائع ہوچکے ہیں۔
شہاب ظفراعظمی کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ انہوں نے جہاں ہماری ادبی روایت کے امین بڑے ناول اور افسانہ نگاروں پرقلم اٹھایاہے وہیں وہ نئے اور بالکل نئے فکشن نگاروں پر بھی سیرحاصل مضامین تحریر کئے ہیں۔ ان کے مضامین کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ شہاب کسی تخلیق سے مرعوب نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس تحریر کا متوازن جائزہ پیش کرتے ہیں۔ انہیں کسی بھی تحریر میں جو خوبی وخامی نظرآتی ہے ، وہ اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ یہی باعث ہے کہ شہاب کے تنقیدی رویے، انہیں نئی نسل کے فکشن ناقدین میں ممیز وممتاز کرتے ہیں۔ ان کا قلم نہ تو بزرگ فکشن نگاروں پر تنقید کرتے ہوئے لرزتا ہے اورنہ ہی اپنے معاصر فکشن نگاروں پر لکھتے ہوئے وہ بے جاتنقیدکے شکار ہوتے ہیں۔ان کی تحریر کا توازن ہی ان کاایسا وصف ہے جوانہیں انفرادیت بخشتا ہے۔ ان کے فکشن تنقید کے دو تین نمونے ملاحظہ ہوں:
انورامام کے مجموعے’’ ہمزاد‘‘ پرتحریر کرد اپنے مضمون میں یوںرقم طراز ہیں:
’’ان کے مجموعے’’ ہمزاد‘‘ میں جوچیزیں سب سے پہلے متوجہ کرتی ہیں وہ ان کے افسانوں کاتنوع ہے۔ یہ تنوع موضوع کابھی ہے، اسلوب کا بھی اور تکنیک کابھی۔ تنوع کی یہ کثرت نہ صرف رنگا رنگی کا احساس پیدا کرتی ہے بلکہ انور امام کی اس کوشش کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ انہوں نے افسانے کے فن کے ارتقائی مرحلوں ، زندگی اور اس کے بدلتے رنگوں اور زبان وبیان کے بدلتے روپ کو نہ صرف دیکھاہے بلکہ ٹھہرٹھہر کر اس سے رو برو ہونے کی بھی کوشش کی ہے۔ چنانچہ مذکورہ افسانوں میں نثر کاآہنگ ہرجگہ ایک جیسا نہیں،کہانی کاانداز بھی ایک جیسا نہیں۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہ نکالاجائے کہ افسانہ نگار اپنا سلوب تلاش نہیں کرسکاہے بلکہ یہ ہے کہ افسانہ نگار تجربات اور مشاہدات کے بعد زندگی اور فن کے تعلق سے اپنانقطۂ نظر تبدیل کررہاہے۔ مشاہدے کی صورت میں حاصل ہونے والی زندگی میں مشاہدات کی بوقلمونی برقراررہتی ہے۔‘‘
( متن اور معنی،شہا ب ظفر اعظمی،ص۔۴۰۔۲۳۹)
جمیلہ ہاشمی کے معروف ناول ’’ تلاش بہاراں‘‘ کے تعلق سے دوٹوک لفظوں میں اپنی رائے کااظہاریوں کرتے ہیں:
’’فنی نقطۂ نظر سے ’’تلاش بہاراں‘‘ میں جس عنصر ی شدید کمی ہے وہ ہے نفس و حدت، ایک اچھے ناول میں سارے اجزائے ترکیبی کچھ اس طرح مربوط ہوجاتے ہیں کہ فنی طورپر وہ ایک مکمل اکائی کی حیثیت اختیا ر کرجاتاہے۔’’تلاش بہاراں‘‘میں اچھے کردار، واقعات کی فنی و منطقی پیش کش، خاص طور پر انسانیت کا درد اور انسان کے آفاقی مسائل اور وہ سب کچھ جوایک عظیم تخلیق کے اجزا اعظم ہیں ، مل جاتے ہیں لیکن فنی وحدت کے فقدان کے باعث یہ ناول قاری کے ذہن پر ایک عظیم تخلیق کا اثر قائم نہیں کرپاتا۔‘‘
(جہان فکشن، شہاب ظفر اعظمی، ص،۲۷۱)
غیاث احمد گدی کا ناولٹ’پڑاؤ‘ جب منظر عام پر آیاتو ادبی گلیاروں میں خاصا موضوع بحث بنا۔ شہاب ظفر اعظمی نے اپنے معتدل تنقیدی رویے کااظہار کرتے ہوئے ناولٹ پر لکھا:
’’ کہانی بظاہر سیدھی سادی ہے اس میں کوئی ندرت یا انوکھا پن نہیں ۔ غیاث احمد گدی افسانوں میں پیچیدہ اور گٹھے ہوئے قصے بیان کرتے ہیں۔ اس لئے یہ سوال اٹھتاہے کہ انہوں نے ناول کیلئے ایک سیدھی سادی سپاٹ کہانی کاانتخاب کیوں کیا؟‘‘
آگے چل کر شہاب ناولٹ کے اسلوب کے حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے ناولٹ کامحاکمہ اس طور کرتے ہیں:
’’یہ استعاراتی اور رمزیاتی اسلوب نے کہانی میں کہیں کہیں ابہام پیداکیاہے۔ کہیں نفسیاتی کشمکش توکہیں شعور ولاشعور کی باہمی چپقلش ، کہیں خود کلامی تو کہیں تمثیلی فضابندی ابہام کو مزید گہرا کردیتی ہے اورکہانی کی رفتار میں رخنے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ مگر اچانک اس ابہام کو چیر کر کہانی پھرندی کے بہاؤ پر چل پڑتی ہے، اسی لئے پیچیدگی گراں نہیں ہوتی بلکہ تجسس کو انگیز کرنے کاسبب بن جاتی ہے۔ مبہم ہوتے ہوئے کہانی سے دلچسپی غائب نہیں ہوتی اور قاری پوری طرح کہانی اور بیان کی گرفت میں رہتاہے۔‘‘
(جہان فکشن، شہاب ظفراعظمی، ص۔۱۵۱)
درج بالا اقتباسات سے واضح ہوتاہے کہ شہاب تنقید میں غیرجانبدار رہ کر اظہار کرتے ہیں۔ وہ تحریر کی خوبی کا ذکرکرتے ہیں تو خامی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ وہ اپنا نظریہ تھوپنے کی بھی کوشش نہیں کرتے بلکہ چیزوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ دودھ کا دودھ اورپانی کاپانی ہوجاتاہے۔ انور امام کے افسانوی اختصاص پرقلم اٹھاتے ہوئے انہوں نے حق بجانب تجزیہ کیاہے۔ شہاب بہت جلد افسانوں کی کلید تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ انورامام کے معاملے میں جوان کا تجزیہ ہے وہ حق بجانب ہے کہ وہ ان کے افسانوں کی بوقلمونی کاجواز بھی ڈھونڈ ڈالتے ہیں۔ ویسے انور امام جیسے افسانہ نگار جو آج کل ناکے برابر لکھ رہے ہیں جدیدیت کے زمانے کی پیداوار ہیں۔ اوران کے یہاں اشکال اور ابہام اور اسلوب کی پیچیدگیوں کادرآنا عین فطری ہے لیکن ا نور امام کی تحریر یں ابہام اور اسلوب کی پیچیدگی کے باوجود، ترسیل میں کمی واقع نہیں ہوتی اور یہ ان کا اختصاص ہے جسے شہاب ظفر اعظمی نے اپنی تحریر سے ثابت کردیاہے۔ شہاب انورامام کے زندگی کے تجربوں اور مشاہدوں سے زندگی میں آنے والے تغیر کو بھی مثبت طو رپر سامنے لاتے ہیں ، یہ ایک اچھے ناقد کا طریقہ کارہے۔
جمیلہ ہاشمی کامعروف زمانہ ناول’ تلاش بہاراں‘ پرشہاب نے جس تنقیدی بصیرت کا اظہارکیاہے وہ ان ہی کاحصہ ہے۔ وہ کبھی بھی نام یا تحریر کی عظمت سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ تلاش بہاراں میں تمام اوصاف کے باوجود فنی وحدت کے فقدان کاجوذکر شہاب نے کیاہے وہ شہاب کو انفراد بخشتا ہے۔ ورنہ ہمارے متعدد اکابرین نے اس ناول کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ یہاں یہ بھی ہے کہ شہاب نے ناول کے مثبت پہلوؤں کی طرف بھی بھرپور اشارے کئے ہیں بلکہ یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ شہاب ناول کی تعریف میں دو قدم ا ٓگے بڑھ گئے ہیں۔ بہرحال اس ناول کے تجزیے میں شہاب نے بہتر نتائج اخذ کیے ہیں۔
جہاں تک غیاث احمد گدی کے ناولٹ’پڑاؤ‘ کا معاملہ ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیاث احمد گدی اردو میں اپنے طرز کے منفرد افسانہ نگار ہیں۔ افسانہ نگاری میں انہوں نے اپنی جوشناخت قائم کی تھی وہ جدیدیت اورترقی پسندی کے درمیان کی ایک کڑی کے طور پر تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان کے افسانے جہاں جدید لب ولہجے اور اسلوب سے مزین ہیں ،وہیں ان کے موضوعات اور ان کاTreatment ترقی پسندانہ تھا۔ بطور افسانہ نگار انہیں جوشہرت حاصل تھی ، وہ کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، لیکن ناول یاناولٹ کامعاملہ الگ ہے۔ ہمارے متعدد ایسے افسانہ نگار ہیں جو ناول یا ناولٹ کی دنیا میں اتنے کامیاب نہیں ہوپائے، کم و بیش یہی معاملہ غیاث احمد گدی کابھی ہے۔ شہاب ظفر اعظمی نے ان کے ناولٹ پر جو مضمون تحریر کیاہے، وہ اعتدال پسند تنقید کے زمرے میں آتاہے۔ ایک طرف شہاب ناولٹ کی کہانی یا قصہ کو بالکل سادہ قراردیتے ہیں تو اسلو ب کی ثقالت کو ترسیل میں مانع بتاتے ہیں۔ ابہام ناولٹ کو بندکردیتاہے مگر قصہ میں روانی تھی اسی لئے وہ ندی کے بہاؤ کی طرح واپس آجاتی ہے اور ناول کااختتام با معنی ہوجاتاہے۔ شہاب کی تنقید پڑاؤ کا صحیح تجزیہ پیش کرتی ہے۔
شہاب ظفر اعظمی کی فکشن تنقید کے حوالے سے ایک جملے میں کہاجاسکتاہے کہ شہاب نئی نسل کے ایسے ناقد ہیں جو اعتدال پسندی کے ساتھ ساتھ غیر جانبدارانہ رویہ رکھتے ہیں اور غلط کو غلط کہنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ شہاب کا یہ رویہ نقد انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتاہے۔ ایک امید جاگتی ہے کہ بہارمیں فکشن تنقید کی راویت، محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں