مہر فاطمہ
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
(مجاز)
اس شعر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا غور کریں کہ ہندوستان کی آزادی جو مختلف مذہبوں،قوموں، نسلوں اور علاقوں کی قربانیوں کا نتیجہ تو واقعی ہے لیکن اِس میں اگر مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی جوش وخروش کے ساتھ حصّہ لے کر آنچل کو پرچم نہ بنالیتیں تو کیا ملک کی آزادی کا خواب اِتنی جلد ی شرمندۂ تعبیر ہوپاتا۔ ایک صدی تک جاری رہنے والی اِس تحریکِ آزادی مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی قربانی کی شاندار روایات قائم کی اور تاریخ رقم کی۔اِن خواتین میں بلا تفریق ہندو اورمسلم دونوں شامل رہیں۔
ایک نظر تاریخ کے صفحات پر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ آزادی کی یہ تحریک جب آگے بڑھتی ہے، یہاں تک کہ بیسویں صدی آجاتی ہے اور آزادی کی جدوجہد عوامی شکل اختیار کرلیتی ہے، اُس وقت مہاتما گاندھی اپنے اخبار ’’ینگ انڈیا‘‘ کے ذریعہ عورتوں کو ستیہ گرہ میں حصّہ لینے اور چرخہ کاتنے کی ترغیب دیتے ہیں، جس پر ہزاروں کی تعداد میںخواتین اپنے گھروں سے باہر نکل آتی ہیں اور مختلف محاذوں پر کام کرنے لگ جاتی ہیں، گاندھی جی کی آواز پر صرف دہلی میں سولہا سو عورتوں نے ستیہ گرہ میں حصّہ لے کر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کیا، اس سے قبل بھی آزادی کی لڑائی میں جو شدت آئی اُس میں چند خواتین کا بہت اہم حصّہ رہا، اِن خواتین میں سرِفہرست بی اماں والدہ مولانا محمد علی شوکت علی کا نام ہے جو تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود سلیقہ مند اور بہادرخاتون تھیں۔ کچھ لکھنے پڑھنے کے بعد جب بی اماں تحریکِ آزادی میں شامل ہوئیں تو اُن کا شمار اچھے مقرروں میں کیا جانے لگا، عملی طور پر اُن کی سیاسی زندگی کا آغاز پہلی جنگِ عظیم سے ہوا، بعد میں خلافت تحریک کی وہ فعال کارکن بنیں، ملک کے مختلف حصوں میں جاکر نوجوان مردوں اور عورتوں میں آزادی کا جذبہ اُبھارتی رہیں، خواتین کانفرنس کی صدارت کی اور اپنے زمانہ کی دوسری سرگرم خواتین کستوربا گاندھی، سروجنی نائیڈو، اینی بسینٹ، انوسوئیابائی، سرلادیوی، اپنی بہو امجدی بیگم، نشاط النساء بیگم، بیگم سیف الدین کچلو وغیرہ کو اپنی شخصیت سے متاثر کیا، ساتھ ہی ان کے عزم و ارادہ سے مردوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۲ء میں آزادی کے لیے کام کرتے ہوئے وہ اِس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
تاریخ کے صفحات میں حضرت محل کا نام بھی جلی حروف میں لکھا ملے گا۔وہ حضرت محل جو اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم اور برجیس قدر کی ماں تھیں۔ اِس جانباز خاتون نے اپنے خاوند کی معزولی وگرفتاری پر سوگ منانے کے بجائے محل کا آرام و آسائش قربان کرکے انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کی تگ و دو میںخود کو جھونک دیا، بیٹے کو اودھ کا بادشاہ بنایا اور صرف گیارہ دن میں لکھنوسے انگریزوں کو نکال کر انقلابیوں کی قیادت خود سنبھال لی، ملکہ وکٹوریہ کے اعلان کے جواب میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان کی انتظامیہ کا حق چھین لینے کا اعلان کردیا، لکھنو پر انگریزوں کے دوبارہ قابض ہونے پر فیض آباد وغیرہ کے محاذوں پر انگریز فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے، سرحد پار نیپال چلی گئیں، نیپال کے ہی کسی گوشے میں حضرت محل کی زندگی کا چراغ گل ہوا، لیکن انگریزوں کے ہاتھ نہ آنے کا عہد پورا کرکے وہ ہندوستانی خواتین کے لیے مثال بن گئیں۔
دوسرا اہم نام جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا ہے، جن کے بارے میں آخر میں ہم تفصیلی گفتگو کریں گے۔اس سے قبل میں دیگر خواتین کا مختصر ا ذکر کردوں کیونکہ الفاظ کی قید ہے۔
۱۸۵۷ء کے انقلاب کی ایک اور نقیب رائے گڑھ موجودہ مدھیہ پردیش کے ضلع منڈلا کی حکمراں اونتی بائی ہیں، جن کے آنجہانی شوہر وکرماجیت کے دو بیٹے ہونے کے باوجود۱۸۵۱ء میں رائے گڑھ پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ اونتی بائی اِس ناانصافی کو برداشت نہیں کرسکیں، جیسے ہی ۱۸۵۷ء کے انقلاب کی گھن گرج شروع ہوئی، اُنھوں نے آس پاس کے راجاوں، ٹھاکروں اور جاگیرداروں کو ساتھ لے کر شنکرشاہ کی قیادت میں عین دسہرہ کے دن انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا، شنکرشاہ اور اُس کے بیٹے انگریزوں کے عتاب کا شکار ہوئے، جنھیں پکڑکر توپ سے اُڑادیا گیا لیکن اِس کا ردّعمل یہ ہوا کہ انگریز اِنفنٹری میں بغاوت ہوگئی، انگریز کمانڈر مقابلہ کرتے ہوئے زخمی ہوکر بھاگ گیا، رانی اونتی بائی کافی دن گڑھ منڈلا پر حکومت کرتی رہیں لیکن دوسرے محاذوں کی طرح یہاں بھی انگریز وں کی سازش کامیاب ہوئی اور آزادی کی متوالی اونتی بائی کو خودکشی پر مجبور ہونا پڑا لیکن اپنی جنگی صلاحیت اور بہادری کی وجہ سے تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب بن گئی۔
۱۸۵۷ء کا ہی زمانہ ہے ،جنگ آزادی کے شعلے بلند ہورہے ہیں ہر طرف انگریزوں کے خلاف بغاوت اُٹھ کھڑی ہوئی ہے، انگریزوں نے بندوق کی نال پر اِسے دبانے کی کوشش کی، دہلی کے قریب مظفرنگر میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اپنے گھروں سے نکل آئیں، کافی گرفتاریاں ہوئیں، گیارہ عورتوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا، آج کوئی تصور نہیں کرسکتا کہ کانپور کی ایک طوائف عزیزن بانو بھی جنگی لباس پہنے، بہادرشاہ ظفرؔ کا جھنڈا لہراتی میدان میں نکل آئے گی اور اودھ کی بیگمات کے ساتھ ساتھ جھانسی، ساگر، تلسی پور، منڈلا کی رانیاں اور کتنی ہی دوسری پردہ نشین عورتیں اپنے شانوں سے روایت کا بوجھ اُتارکر اپنے خون کی سرخی سے سرفروشی کی تاریخ رقم کریں گی۔ شیردل خواتین کی یہ انفرادی و اجتماعی شجاعت بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں تھی، اُن کا سوچا سمجھا اپنا فیصلہ تھا، جس پر انھوں نے خود عمل کیا اور اپنے شوہروں، باپوں اور بھائیوں کی غیرت کو جگایا۔ تحریک آزادی کی ایک اور جیالی خاتون میڈم کاما ہیں، جنہوں نے ۱۹۰۷ء میں پہلی بار ورلڈ سوشلٹ کانفرنس جرمنی میں ہندوستان کا قومی پرچم لہرایا اور نامور انقلابی مولانا برکت اللہ بھوپالی، شیام جی کرشن ورما اور لالہ ہردیال کی طرح ہندوستان کے باہر تحریکِ آزادی کے لیے دنیا کے انصاف پسند عوام کی حمایت حاصل کی۔
امجدی بیگم اہلیہ محمد علی جوہرؔ آزادی کے اُس متوالے مجاہد کی رفیقۂ حیات ہیں جس نے کہا تھا ’’جب وطن کا معاملہ ہے تو میں اوّل ہندوستانی ہوں بعد میں مسلمان ہوں اور اسلام کا معاملہ ہے تو میں پہلے مسلمان اور بعد میں ہندوستانی ہوں‘‘۔امجدی بیگم مولانا محمد علی جوہرؔ کے ساتھ اُن کی سیاسی زندگی میں شریک رہیں، اُنھوں نے ستیہ گرہ اور خلافت تحریک کے لیے بی اماں کے ساتھ کروڑوں روپے کا چندہ جمع کیا اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ممبر بھی بنیں، امجدی بیگم کی اِن تمام خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ۲۹نومبر ۱۹۲۱ کے ’’ینگ انڈیا‘‘ میں گاندھی جی نے ان پر ’’ایک بہادر خاتون‘‘ کے عنوان سے خصوصی مضمون لکھا۔
امجدی بیگم کی طرح تین خواتین اور ہیں جن کا آزادی کی جدوجہد میں قابلِ ذکر حصّہ رہیں۔اِسی سلسلہ میں بنگال کی کماری پریتی لتادادیکر کا نام قابلِ ذکر ہے، جس نے تیسری دہائی میں سرجیہ سین کی قیادت میں چاٹگام پر انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا اور آخر میں گرفتاری کے بجائے خودکشی کو ترجیح دی، اِسی طرح ماتنگی ہاجرا نے ’’عدم تعاون کی تحریک‘‘ سے ہندوستان چھوڑو موومینٹ‘‘ تک انگریزوں کا مقابلہ کیا، تاملوک میں گورنر کے ایک دربار میں ’’واپس جائو‘‘ کا نعرہ لگانے کی ہمت بھی دکھائی۔
۱۹۴۲ء کی ہندوستان چھوڑو تحریک میں تو خواتین کی تعداد اِتنی زیادہ تھی کہ اُن کے ناموں کی صرف فہرست بھی یہاں دینا ممکن نہیں، ان خواتین میں سروجنی نائیڈو اور ارونا آصف علی کے نام سرِفہرست ہیں، جنھوں نے برسرِ عام اور زیرِ زمین تحریکات میں حصّہ لے کر انگریز حکومت اور انتظامیہ کا ناطقہ بند کردیا، اروناجی کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر ایک بڑا انعام بھی رکھا گیا تھا۔ مردولاسارا بھائی بھی وہ جیالی خاتون ہیں جنھوں نے انگریزوں کے زمانے اور آزادی کے بعد ہندوستانی سماج خاص طور پر عورتوں میں بیداری لانے اور ان کے حقوق کے لیے اہم کام کیا۔ ان ہی کے ساتھ کستوربا گاندھی، راج کمار سورج کلا سہائے اور کماری امرت کور کے نام بھی آتے ہیں، اس کے علاوہ سیکڑوں ایسی بہادر خواتین ہیں جن کی قربانیاں تاریخ کا حصّہ نہیں بن سکیں لیکن تحریک آزادی میںان باہمت خواتین کا نہایت ولولہ انگیز کردار ہے:
عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے لیے سب سے لڑی ہوں
ظاہر ہے کہ ان سب خواتین نے اپنے اپنے اعتبار سے وہ کارہائے نمایاں انجام دئے کہ وہ تاریخ کے صفحات میں سنہرے حروف میں درج ہیں لیکن ان میں سے جو شخصیت بچپن سے میری دلچسپی کامرکز رہی ،وہ ہیں رانی لکشمی بائی یا جھانسی کی رانی وہ اُترپردیش کے وارانسی علاقے میں پیدا ہوئیں، اصلی نام منی کرنیکا ہے۔ جھانسی کے راجہ گنگا دھر راؤ سے شادی ہوئی،انہوں نے شوہر کی وفات کے بعد جھانسی کی باگ ڈور سنبھال لی، انگریزوں نے اُن کے لے پالک لڑکے دامودر راؤ کو وارث ماننے سے اِنکار کرکے ریاست سے بے دخل کردیا اور اُس پر قابض ہوگئے۔۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کا معرکہ گرم ہوا تو انگریزوں کی بدمعاملگی سے ناراض لکشمی بائی نے اُن کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا، اُنھیں نہ صرف جھانسی سے نکالا بلکہ آگے بڑھ کر مورانی پور اور بروا ساگر کے مقام پر شکستِ فاش بھی دی اور اِس طرح یہ بہادر خاتوناس وقت کی سب سے طاقتور قائد بن کر اُبھریں، اُن کی فوجی طاقت میں اُس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب پانپور اور شاہ گڑھ کے حاکم اُن سے آکر مل گئے، انگریزوں نے زبردست حملے کئے، دو ہفتہ تک رانی بے جگری سے مقابلہ کرتی رہیں آخر کالپی میں پناہ لی، وہاں راو صاحب اور تاتیاٹوپے اپنی افواج کے ساتھ آملے، کونچ اور کالپی میں دوبارہ انگریزوں سے مقابلہ ہوا، ناسازگار صورتِ حال میں گوالیار میں پناہ لی اور پیشوا کی حکومت وہاں قائم کی اور انگریزوں سے فیصلہ کن جنگ کے لیے عورتوں کا لباس اُتارکر مردوں کا لباس زیب تن کیا، فوجیوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لی، فتح قریب تھی کہ غدار دیوان دِنکر راؤ انگریزوں سے مل گیا، نتیجہ میں جنگ کا نقشہ پلٹنے میں دیر نہیں لگی، جواں مردی کے ساتھ لڑتے ہوئے شیردل لکشمی بائی نے دم توڑ دیا لیکن انگریزوں کے آگے سر نہ جھکایا یعنی یہ ایک ایسا کردار ہے جس نے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی ان کی بہادری کی داستان کالپی اور جھانسی کے ذرے ذرے میں مضمر ہے۔کہا جاتا ہے کہ انہوں خود کو آگ میں جلانے کا حکم دیا تاکہ انگریز ان کی لاش تک نہ پا سکیں
تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں
سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی بر سوں
( حبیب جالب)
میں اپنی بات General Hugh Roseکے اس قول پر ختم کروں گی جواسنے اپنی خود نوشت Sir Hugh Rose And The central indian campaign 1858 میں لکھا :
”Rani Laxmi Bai had been the most dangerous of all rebel leaders,best and bravest of all,only man among mutineers,”
٭٭٭٭٭٭٭٭
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں