شیخ فرید
( رابعہ چوتھی صدی ہجری کی پہلی فارسی شاعرہ تھیں اورعصر حاضر میں ذکیہ بلوچستان کی پہلی شاعرہ ہیں )
ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ جو لوگ فارسی کا ذوق نہیں رکھتے وہ رابعہ سے ناآشنا ہیں،میرا ماننا ہے کہ جو لوگ فارسی کی شیرینی سے اپنا ذہن میٹھا نہیں کرتے، وہ شاعری کی مٹھاس سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتے، رابعہ 390ہجری کے دور کی شاعرہ تھیں مگر قدیم تذکرہ نگار اس دور میں کسی عورت کا ذکر تو درکنار برسر عام نام لینا بھی معیوب سمجھتے تھے، لیکن اہل علم و دانش جانتے ہیں کہ رابعہ کا نام لیئے بغیر ذکر سخن مکمل نہیں ہوتا۔
عصر حاضر میں اور بالخصوص بلوچستان میں شاعری کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اگر ہم ذکیہ کا ذکر نہ کریں تو بھی ہمارا ذکر شعر و سخن مکمل نہیں ہو پائے گا، رابعہ کو فارسی کی پہلی شاعرہ تسلیم کیا گیا ہے اور ذکیہ کو بلوچستان کی اولین شاعرہ مانا جاتا ہے۔
فارسی کے مشہور و معروف شاعر شیخ فرید الدین عطار نے الہی نامہ کا موضوع ہی رابعہ اور بکتاش کا عشقیہ قصہ رکھا ہے۔
کون ہے جس کے دل میں حسین و جمیل صوفیہ، فارسی، عربی کی نامور شاعرہ کے بارے میں جاننے کا شوق نہ ہوگا، اور کون ہے زیرق، دانا، تیز طبع، ذہین و فطین،پاک و صاف فہم و فراست رکھنے والی ناموراور شاعری کا بلند بام مقام رکھنے والی ذکیہ سے متعلق کچھ نہ جاننے کا ذوق نہ رکھتا ہو۔
رابعہ کا تعلق چوتھی صدی ہجری سے ہے قزدار ہی پیدا ہوتی، کعب نامی سردار کا ایک بیٹا حارث اور ایک بیٹی رابعہ تھی۔
حاجی فقیر حسین کے گھر کو 26 جون 1962ء میں منور کرنے والی حیادار، پابند صوم و صلواہ کی پابنداپنے نام کی طرح طاہرہ نے شعور کی آنکھیں کھولیں توذکیہ سے ذکیہ بہرو زذکی بنیں، 1979ء میں میٹرک کیا اور 1983ء میں پیا دیس سدھاریں۔
فدا حسین جو غالباً بزم خسرو کے بانی ارکین میں تھے، (فدا حسین نوشادکے نام)با ذوق شخصیت کے حامل ہونے کا باعث ذکیہ کو پرموٹ کیا۔
شعر و سخن کا شعوری سفر تیز تر ہوا،اور 1905ء میں دریچہ گل کھلا، پھول کھلے، رنگ بکھرے ایک مہک سی پھیل گئی۔
حاوی اعظم جیسے ماہر عروض سے اصلاح لینے والی اقبال کی دلدادہ ذکیہ نے بہت جلد اپنا مقام بنا لیا اور ڈاکٹر فاروق احمد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ذکیہ بہروز کی روح کسی قراۃ العین حیدر کی جمالیاتی تفہیم کی کوشش لگتی ہے۔
شہناز نور نے لکھا ذکیہ کی شاعری ایک وفادار پاک و پاکیزہ خیالات رکھنے والی خالص عورت کی شاعری ہے۔
پروفیسر عارف ضیاء کے بقول ذکیہ اچھے اشعار موزوں کرتی ہیں اور فن اورہنر کے جذبات احساسات اور مشاہدات کی کہکشاں سجاتی ہیں۔
سرور جاوید ذکیہ بہروز ذکی کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں،ذکیہ کا کمال ہنر یہ ہے کہ وہ اپنے خوابوں کا آنگن سجائے رکھتی ہیں میرا ماننا ہے کہ خوابوں کو سنبھال کر رکھنا تعبیروں کے یقین کے بغیر صرف ہنر نہیں عظمت ہے، اہل علم و دانش مشرقی عورت عظیم ہے، جو دل میں سمندر رکھتی ہے اور آنکھیں نم نہیں ہونے دیتی۔
ڈاکٹر علی کمیل قزلباش نے کیا خوب کہا کہ ذکیہ بلوچستان کی وہ بیٹی ہے جس نے اس مٹی سے باغبانی کی اور پھول کھلائے۔
بلوچستان میں رابعہ کے بعد ذکیہ ہی فارسی کی نمائندہ نمایاں شاعرہ ہیں۔ذکیہ بہروز نے اپنے مخصوص طرز و فکر اور زاویہ اظہار سے شعری روایات کو ہم آہنگ کیا، اور مشرقی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے شعر و سخن کا سفر جاری رکھا۔ذکیہ بہرروز کی اعلیٰ ادبی خدمات کے صلے میں 2008ء میں صوبائی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
2010ء میں خانہ فرہنگ ایران نے تعریفی سند پیش کی۔
2013ء میں بزم امیر خسرو کی جانب سے اعتراف فن ایوارڈ دیا گیا۔
2015ء میں علامہ اقبال صوبائی ایوارڈ ملا۔
اور 2016ء میں حکومت بلوچستان نے ایکسیلنس ایوارڈ کا مستحق قرار دیا۔
2017 ء میں ایرانی ایمبیسی اسلام آباد نے نشان سعدی و اقبال ایوارڈ دیا جو ان کے شایان شان ہی نہیں بلکہ ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ادب کسی بھی خطے کے فکری و ذہنی اتار چڑھاؤ کے مرتکب اظہاریے سمجھے جاتے ہیں، بلوچستان میں اظہار و ابلاغ کی تاریخ 1888ء سے شروع ہوتی ہے، چوتھی صدی ہجری کی فارسی شاعرہ رابعہ خضداری ہیں بلوچستان میں خواتین کی باضابطہ فکری اور علمی پیش رفت کا فاصلہ جدوجہد آزادی کے عہد فعال ہم عصر ہے۔
رابعہ سے ذکیہ تک مجھے بلوچستان کا ادب پھلتا و پھولتا نظر آتا ہے،یہ رابعہ کی برکت اور ذکیہ بہروز ذکی کی محبت کا ثمر ہے
وہ جس خدا نے مجھے قوت قلم بخشی اس رحیم نے حرف میں اثر رکھا
اس رب کبریا نے ہم کو جمال بخشا تخلیق کے عمل میں ہم کو کمال بخشا
میں دعا گو ہوں ذکیہ کے قلم کا اثر تا دیر قائم رہے اور ان کی شاعری کاجمال و کمال تا ابد رہے۔ امین
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں