نیر مسعود
’’میرا ارادہ ہے کہ دو سو صفحات پرمشتمل ایک کتاب لکھوں۔ ’’ادبی تحقیق کے اصول اورطریق کار‘‘ کے نام سے۔ خاکا بھی بنا لیا ہے لیکن کام کب شروع ہوگا، اس کی خبر نہیں۔ بات یہ ہے کہ اب جی نہیں لگتا۔ کبھی کبھی تویہ سارا کاروبار فضول معلوم ہونے لگتا ہے اور ساری بحث ’’غریب اکبر کی پردے کی بحث‘‘ معلوم ہوتی ہے۔ اچھے اچھے اساتذہ بے ایمانی اوردنیاداری میں لگےہوئے ہیں اوران کے شاگرد بھی استاد کے نقش قدم پر چلنا سیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں اصول وضوابط کی کسی کوضرورت نہیں، اوریہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ لکھنے کے متعدی مرض میں مبتلا ہیں۔ اس احساس کے ساتھ کوئی مربوط کام کیسے ہوگا؟‘‘
’’دیکھئےصاحب، میرا اصل میدان تھا ٹریڈ یونین کا کام۔ زندگی کے چھ سال سال اس کی نذرکئے۔ یہ سلسلہ ۴۶ میں ٹوٹ گیا۔ دوسرا ذوق تھا اسپورٹس کا: ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹیبل ٹینس اور باسکٹ بال۔ ۱۵، ۲۰ سال خود بھی ہاکی کھیلی ہے۔ اب آج کل میرا زیادہ وقت اسی کھیل کودکی نذر ہوجاتاہے۔ مزاج من ازحالِ طفلی نہ گشت۔۔۔ اور کچھ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ پہلے بھی اسی طرح وقت کو صرف کرنا چاہیےتھا۔‘‘
’’صاحب !میں تو دعاگو ہوں اورجو کچھ ملے، اس پرشکر گزار، لہٰذا میری ناخوشی یا ناراضی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پٹھان اب شیخ جی بن چکا ہے۔‘‘
’’جلسہ ۷ بجے ہے۔ اگر آپ کچھ پہلے آجائیں تو خوب ہو۔۔۔ خدا جانے کیسے کیسے ہونقوں کاوہاں دیدارہوگا اورکون کون غلام صورت بقال سیرت براجمان ہوگا! ابھی سے گھبرا رہا ہوں۔۔۔ شام کو ذرا جلدی آجائیے گا۔ میرصاحب کے سفر اوربنیے کے ساتھ والی حکایت تو یاد ہوگی! وہی حال ہوگا وہاں۔‘‘
’’صائمہ کو پیار، بہت پیاری بچی ہے۔‘‘
’’محبی! بچی کی طبیعت اب کیسی ہے۔ آپ کا خط چوں کہ نہیں آیا، اس لئے تشویش ہے۔ براہ کرم صورت حال سے مطلع کیجئے۔‘‘
’’صائمہ اب ٹھیک ہیں، اس سے بے حد مسرت ہوئی۔ خود آکر ان کی ضدیں دیکھوں گا۔‘‘
’’صاحب! اب آپ تویہاں آنے سے رہے۔ ایک دن فاروقی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ ان سے میں نے کہا نیر صاحب آنے والے تھے، وہ اس طرح مسکرائے کہ گفتگو کا حق ادا ہوگیا بلکہ تشریح کا، اورکہا جی ہاں، وہ ضرور آئیں گے۔ مفہوم آپ سمجھ گئے ہوں گے۔‘‘
’’پرسوں دوگھنٹے ایک جملے کی نذرہوگئے۔ جی چاہتا ہے کہ آپ کوبھی اس مسرت میں شریک کروں جوحل کرنے کے بعد مجھے حاصل ہوئی تھی۔‘‘
’’سچی بات تویہ ہے کہ اس متن نے مجھے تھکا مارا ہے، اس قدر صبر آزما کام سے سابقہ نہیں پڑا تھا۔ معلوم نہیں یار لوگوں نے کس طرح اب تک اسے نپٹایا ہے اور اساتذہ نے پڑھایا ہے۔‘‘
’’تحریک کے خاص نمبر میں ’’غیرمعتبرحوالے‘‘ کے عنوان سے میرا ایک مضمون چھپا ہے، کیا آپ کی نظر سے گزرا؟‘‘
’’ہاں برادر! ۸ جولائی کواردو مجلس میں (پونے آٹھ بجے سے سوا آٹھ بجے شام) ایک تقریر ہے؟‘‘ ادب کا مقصد اخلاقی قدروں کا فروغ ’’میں نے اپنی بات کہی ہے اور جی چاہتا ہے کہ اسے آپ ضرورسن لیں۔ میں نے عنوان کے آگے سوالیہ نشان بنالیا ہے اور اسی کی تشریح کی ہے کہ یہ سب چوتیاپے کی باتیں ہیں۔‘‘
(مکاتیب رشید حسن خاں بہ نام نیر مسعود)
’’بھئی رشید حسن خان صاحب سے ضرورملنا ہے۔‘‘ میں نے شمس الرحمن فاروقی سے کہا اور وہ بولے، ’’ہاں ہاں، چلیے۔ میری بھی عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔‘‘
دہلی یونیورسٹی کے گائر ہال میں کئی غلط کمروں پر دستک دینے کے بعدآخر ایک دانائے راز نے صحیح کمرے کی نشان دہی کی۔ دستک دی گئی۔ کمرے کے اندر سے جواب ملا اور ہم لوگوں کواطمینان ہواکہ نئی دہلی سے پرانی دہلی تک کی لمبی دوڑ بے کار نہیں گئی۔
بیس پچیس برس پہلے ایک دن مرحوم اخترعلی تلہری صاحب میرے والد سے ملنے آئے تو ان کے ساتھ ایک سنجیدہ صورت جوان بھی تھے۔ بعدمیں والد صاحب نے بتایا کہ ان صاحب کا نام رشیدحسن خان ہے۔ پھران کی لیاقت اور ذہن کی رسائی کی تعریف کی اور ادبی قحط الرجال میں انہیں ایک استثنا قرار دیا۔ اس طرح رشید حسن خان کانام میرے کان میں پڑا رہ گیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً ان کی تحریریں نظر سے گزرتی رہیں جن میں ترقی پسند ادب سے متعلق تحریروں کا تیکھا پن دیدنی ہوتا تھا۔ ایک جملہ پڑھ کربہت لطف آیا تھا۔ یہ شعر درج کرکے،
امن کا جھنڈا اس دھرتی پر کس نے کہا لہرانے نہ پائے
یہ بھی کوئی ہٹلر کا ہے چیلا مار لے ساتھی جانے نہ پائے
کچھ اس طرح تبصرہ کیاگیا تھا، ’’خود دور ہی کھڑے پینترے بدل رہے ہیں۔‘‘
بعض کتابوں کے متعلق سننے میں آیا کہ دراصل رشیدحسن خان کی محنت کاثمرہ ہیں اگرچہ ان کتابوں پرمرتب یا مولف کی حیثیت سے ان کا نام درج نہیں ہے۔ پھر علی گڑھ تاریخ ادب اردوکی پہلی جلد پران کے طویل تبصرے کا غلغلہ ہوا اور یہاں تک مشہور ہوا کہ اس تبصرے کی وجہ سے تاریخ ادب کا وہ پورا منصوبہ ہی ختم ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ایک احتسابی نقاد اور محقق کی حیثیت سے رشیدحسن خان کی شہرت ہوگئی، اور اسی کے ساتھ یہ اندیشہ بھی پیداہ وا کہ اب ان کا قلم نکتہ چینی ہی کے میدان میں دوڑسکے گا، لیکن ’’اردواملا‘‘ جیسی ضخیم تالیف پیش کرکے انہوں نے اس اندیشے کو دور کردیا۔
۷۸ تک رشیدحسن خان سے میری کوئی خاص واقف کاری نہیں تھی، البتہ ۷۵ میں انہوں نے مرحوم کی تعزیت میں مجھے ایک خط لکھا تھا اور ۷۷ میں جب وہ کسی کام سے لکھنؤ آئے تو زبانی تعزیت کے لئے میرے مکان پربھی آئے تھے لیکن میں موجود نہیں تھا اس لئے ملاقات نہیں ہو سکی۔ ۷۸ میں انہوں نے مجھے رجب علی بیگ سرورکی کتاب ’’سرور سلطانی‘‘ جو توکل بیگ حسینی کے نثری خلاصہ شاہنامہ ’’شمشیر خانی‘‘ کا ترجمہ ہے اس کی طلب میں خط لکھا۔ رشید حسن خان اس زمانے میں غالباً ’’سرورسلطانی‘‘ کومرتب کرنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں میری ان سے کچھ خط و کتابت ہوئی۔ پھر انہوں نے اطلاع دی کہ وہ رجب علی بیگ سرور کی داستان ’’فسانہ عجائب‘‘ کی تدوین کررہے ہیں اور اس کتاب کے بعض لفظوں کے متعلق دریافت کیا کہ اہل لکھنؤ انہیں کس طرح بولتے ہیں۔ اسی دوران انہوں نے مجھے اپنی کتاب ’’ادبی تحقیق، مسائل اورتجزیہ‘‘ بھیجی۔ میں نے کتاب پڑھ کران کا شکریہ ادا کیا اور انہوں نے جواب میں میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے کتاب پڑھی۔
’’اردو کے (مجھ جیسے)مصنف کی مشکل یہ نہیں کہ کتاب کیسے چھپے، چھپ توجاتی ہے، کسی طرح سہی، مثلاًیہی کتاب چھپ گئی (بس یہ ہوا کہ ناشر نے معاوضہ نہیں دیا، ایک نیا پیسہ بھی نہیں، چھاپنے کی شرط یہ تھی)لیکن اس کی سب سے بڑی مشکل ہے پڑھنے والے کی تلاش۔ دانش گاہوں میں مشکل سے چارفیصد یا تین فیصد اساتذہ ایسے ہوں گے، جومطالعہ فرماتے ہیں، باقی سب ترقی کے ہجے کرتے رہتے ہیں۔ ایسے قحط کے عالم میں جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص نےکتاب پڑھی ہے تو کس قدر مسرت ہوتی ہے۔ اس کوصحیح طور پر بیان کرنا مشکل ہے۔ آپ نے کتاب پڑھی، اس کا شکریہ۔۔۔ ناشر سے طے یہ ہوا تھا کہ وہ معاوضے کے بدلے میں کچھ جلدیں دے دیں گے، اورانہوں نے اپنا وعدہ وفاکیا۔ میں نے یہ کیا کہ ان سب جلدوں کو ایسے لوگوں کے نام روانہ کردیا جن کے متعلق میرا خیال تھا کہ وہ اس طرح کی تحریروں کو پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ ایک جلد شمس الرحمن فاروقی صاحب کوبھی بھیجی ہے۔ مصنف کو اب اپنا قاری بھی تلاش کرناپڑتا ہے۔‘‘
ان سطروں میں بھی وہی ہمہ ناامیدی، ہمہ بدگمانی والی کیفیت محسوس ہوئی جو رشید حسن خان کے بیشتر مضامین میں محسوس ہوئی تھی۔ ان مضامین نے میرے ذہن میں ایک آزردہ اور برافروختہ نقاد کا نقش بنا دیا تھا۔ ان کےچبھتے ہوئے تنقیدی جملوں کی زہرآلودگی مجھے دلچسپ معلوم ہوتی تھی لیکن اسی اندازتحریر کی وجہ سے یہ بھی خیال ہوتا تھاکہ ان کی شخصیت زیادہ خوشگوار نہ ہوگی۔ ’’فسانہ عجائب‘‘ کے سلسلے کی خط و کتابت آگے بڑھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ اردو میں پہلی بار نثری متن کی تدوین کا حق ادا ہورہاہے۔ ہر دوسرے تیسرے خط میں رشیدحسن خان سرور کی چیرہ دستیوں کی شکایت کرتے (’’صاحب! اس متن نے تومجھے ناچ نچادیا‘‘) لیکن اس کے ساتھ ہی ’’فسانہ عجائب‘‘ کے کسی نہ کسی لاینحل مقام کے حل ہوجانے کا مژدہ بھی دیتے۔
غرض ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دن رات مرزارجب علی بیگ اور رشید حسن خان میں جنگ ہو رہی ہے جس میں کبھی مرزا سے مغفور غالب رہتے ہیں، کبھی خان موصوف اور یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ آخر آخر مرزا صاحب کو میدان چھوڑنا پڑے گا۔ خطوں میں اس محاذ جنگ کی تازہ ترین خبروں کے علاوہ رشید حسن خان خود بھی بتدریج نشر ہو رہے تھے جس سے خیال ہونے لگا تھا کہ وہ دلچسپ آدمی ہیں اور میں نے سوچا کہ ان سے ملنا چاہئے۔ چنانچہ ۱۹۸۰ کی گرمیوں میں دہلی جانے سے پہلے میں نے انہیں خط لکھ دیا کہ دہلی آرہا ہوں، شمس الرحمن فاروقی صاحب کے یہاں قیام ہوگا اور آپ سے بھی ملاقات کروں گا۔
کمرا حسب توقع ویسا ہی تھا جیسا رشید حسن خان کے کمرے کو ہونا چاہئے تھا، یعنی کتابوں سے بھرا ہوا۔ رشید حسن خان البتہ خلاف توقع کچھ بزرگ نما نظر آئے، لیکن کسی بھی شخص کو لمبے عرصے کے بعد دیکھئے تو سب سے پہلے اس پر جمی ہوئی ماہ و سال کی گردنظر آتی ہے جوذرا دیر میں چھٹ جاتی ہے۔ مزاج پرسیوں کے بعد ادھر ادھر کی باتیں شروع ہوئیں۔ میں نے ’’فسانہ عجائب‘‘ کی پیش رفت کے بارے میں دریافت کیا۔
’’جی ہاں! کام ہو رہا ہے‘‘ انہوں نے بے دلی سے جواب دیا اور موضوع بدل دیا۔
کچھ دیر بعد میں نے پھر انہیں ’’فسانہ عجائب‘‘ کی راہ پر لانا چاہا اور انہوں نے پھر سرسری جواب دے کر کوئی اور ذکر چھیڑ دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آیاکہ وہ اس گفتگو سے گریز کیوں کر رہے ہیں۔ یہ ادائیں تو پی ایچ ڈی کرنے والوں کی ہوتی ہیں۔ اتنے میں فاروقی صاحب نے کسی سلسلے میں میرا نام لیتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا۔ رشید حسن خان چونک کر بولے، ’’اچھا، آپ نیرمسعود صاحب ہیں؟‘‘
فاروقی صاحب نے قہقہہ لگایا اور میں نے پوچھا،
’’میراخط آپ کونہیں ملا؟‘‘
’’نہیں صاحب، ارے بھائی آپ سے توبہت سی باتیں کرناہیں۔ خوب، کب آئے؟ اس ’’فسانہ عجائب‘‘ نے تو۔۔۔‘‘
لیکن اس دن ’’فسانہ عجائب‘‘ کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں ہوئی۔ طے ہوا کہ خان فاروقی صاحب کے یہاں آئیں گے اور وہاں تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ مقررہ دن مقررہ وقت سے خاصی دیر کے بعد خان صاحب تشریف لائے۔ سبب یہ تھا کہ انہیں کالونی کا نام تو دیا تھا لیکن فاروقی صاحب کے مکان نمبر کا خیال نہیں رہا تھا، گویا حوالے میں کتاب کا نام تھا، صفحہ نمبر غائب تھا۔
’’پھر آپ یہاں کس طرح پہنچے؟‘‘میں نے پوچھا، ’’اتنی بڑی کالونی میں کوئی مکان تلاش کرنا۔۔۔‘‘
’’بھائی! ہر کالونی میں ایک مارکیٹ ضرور ہوتی ہے۔ بس میں سیدھا مارکیٹ پہنچا۔ وہاں جنرل مرچینٹ کی دکان پربیٹھے ہوئے سردارجی سے ترقی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر فاروقی صاحب کا مکان پوچھا۔ انہوں نے کھٹ سے بتا دیا کہ پچاسی نمبر ہے۔‘‘
اس طرح ان کی تحقیقی مہارت کام آگئی کہ انہوں نے مستند ماخذ تک پہنچ کر معتبر حوالہ ڈھونڈھ نکالا۔
فاروقی صاحب معذرت کرکے دفتر چلے گئے تو ہم لوگوں نے ’’فسانہ عجائب‘‘ چھیڑا۔
’’بھائی! متن کی تصحیح مکمل کرچکا ہوں۔ کاتب کو سامنے بٹھاکر کتابت کرا رہا ہوں۔‘‘ رشیدحسن خان نے چندکتابت شدہ صفحات دکھائے۔ آفسٹ کی کتابت میں اعراب اورعلامات اوقاف سے مزین عبارتیں دیکھ کر آنکھیں روشن ہوئیں۔
’’اساسی نسخہ آپ نے کسے قرار دیا ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’افضل المطابع کان پور کا ۱۲۷۶ والا ایڈیشن۔‘‘
’’لیکن وہ تو متداول ایڈیشن سے خاصا مختلف ہے۔ منشی نول کشور نے ’’فسانہ عجائب‘‘ کا حق اشاعت خریدکر جو ایڈیشن ۱۲۸۳ میں۔۔۔‘‘
’‘جی ہاں! متداول ایڈیشن تو اس پر مبنی ہیں، لیکن نول کشوری ایڈیشن دراصل ’’فسانہ عجائب‘‘ کی اولین اشاعتوں کے مطابق ہے۔ سرور عرصے تک اس کتاب میں رد و بدل کرتے رہے۔ اساسی متن اصولاً اس کو ہونا چاہئے جس میں مصنف نے آخری بار تبدیلیاں کی ہوں۔ اور وہ یہی ۱۲۷۶ ھ والے ایڈیشن کا متن ہے۔ مگر بھائی پوچھئے مت اس متن کی تیاری میں کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں۔‘‘
میں نے انہیں متن کا معرکہ سر کر لینے کی مبارک باد دی اوراس پر خوشی ظاہر کی کہ متن کی کتابت بھی صحت کے ساتھ ہورہی ہے۔ اب یہ کیسے پتا تھا کہ اس وقت عالم بالا میں مرزا رجب علی بیگ سرور کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ کھیل رہی ہے۔ چند ماہ پٹنے کے ایک سمینار میں رشیدحسن خان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کی اور ’’فسانہ عجائب‘‘ کی خیریت دریافت کی تو بولے، ’’ارے صاحب! عجیب حادثہ گزرا۔ سارے کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔‘‘
مجھے خیال ہواکہ شاید کتابت شدہ اوراق تک بارش کی سیلن پہنچ گئی۔ لیکن خان صاحب نے بتایا کہ پٹنے کی خدابخش لائبریری میں انہیں اسی افضل المطابع کا چھپا ہوا ’’فسانہ عجائب‘‘ کا ایک بعد کا ایڈیشن ملا ہے،
’’اور اس میں ظالم نے پھربہت سی تبدیلیاں کردی ہیں!‘‘
’’اناللہ، پھر؟‘‘
’’ساری کتابت اور محنت بے کار گئی۔ اب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ نئے سرے سے متن تیار کیجئے اور کتابت کرایئے۔ اس لئےکہ اساسی متن اصولاً اس کو ہونا چاہئے جس میں مصنف نے آخری بار رد و بدل۔۔۔‘‘
’’درست! خدا کرے جب اس نئے متن کو تیار کرکے آپ کتابت مکمل کرا لیں تو ’’فسانہ عجائب‘‘ کاایک ایڈیشن اس کے بھی بعد کا دست یاب ہوجس میں سرور نے ایک بارپھر رد و بدل۔۔۔‘‘
’’ارے صاحب! ایسی بددعا نہ دیجئے۔ کیا بتاؤں، اس تازہ دریافت سے جوکوفت ہوئی ہے، لیکن خوشی بھی ہوئی۔ اگر کتاب چھپنے کے بعدیہ ایڈیشن دریافت ہوتا تومیں کہیں کا نہ رہتا۔ پٹنے آنے کا یہ بڑا فائدہ ہوا۔‘‘
پٹنے کا وہ سمینار محمود شیروانی کی یاد میں اور تحقیق کے مسائل پر تھا۔ سمینار میں ایک مقالہ پڑھاجارہا تھا۔ رشیدحسن خان نے ایک پرچے پرکچھ لکھ کر میری طر ف بڑھایا۔ میں نے اس پر کچھ لکھ کر ان کی طرف اور انہوں نے کچھ لکھ کر پھر میری طرف بڑھادیا۔ جو صاحب مقالہ پڑھ رہےتھے انہوں نے تھوڑا رک کرتشویش بھری نظروں سے نامہ و پیام کی اس کارروائی کو دیکھا اورپھر مقالہ پڑھنےلگے۔ انہیں شاید یہ خیال ہوا کہ ان کے مقالےپرکوئی زبردست اعتراض وارد ہونے والا ہے۔ لیکن در اصل خان صاحب نے اس پرچے پر اپنے ایک محقق دوست کی شان میں ایک نیم فحش رباعی موزوں کرکے مجھ سے داد طلب کی تھی۔
سمینار کے ایک وقفے میں انہوں نے مجھ سے کہا، ’’بھئ عمدہ چائے کو جی چاہ رہاہے۔ چلئے شہر کے کسی اچھے ہوٹل میں چائے پی جائے۔‘‘
’’مگر معلوم نہیں اس اچھے ہوٹل میں چائے بھی اچھے ملے گی یا نہیں۔‘‘
’’ضرور ملے گی صاحب! رہبری کے لئے یہ فرشتہ رحمت جو موجود ہے۔‘‘
تب میری نطرقریب کھڑے ہوئے اس فرشتہ رحمت پرپڑی۔ خان صاحب نے معلوم نہیں کہاں سے ایک خوب رو نوجوان ڈھونڈھ نکالا تھا۔ یہ نوجوان ہمیں ایک صاف ستھرے ہوٹل میں لے گیا۔ چائے آئی۔ اس وقت سمینار کے اس اجلاس پر گفتگو ہو رہی تھی جس میں ایک مقالے پراعتراض کرتے ہوئے رشیدحسن خان نے کہا تھا کہ صوفیانہ مزاج تحقیق کے لئے مضر ہے۔ اس کا مطلب بعضوں نے یہ نکالا کہ وہ عمومی حیثیت سے تصوف پر معترض ہیں۔ میں نے اعتراض کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تصوف کی بنیاد یقین پرہوتی ہے اور خان صاحب تحقیق کی بنیاد شک پر رکھتے ہیں۔ تحقیقی مسائل کے حل کے لئے وہی مزاج زیادہ سودمند ہے جو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
رشیدحسن خان اس مباحثے پرکچھ تبصرہ کر رہےتھے کہ فرشتہ رحمت نے پیالیوں میں چائے انڈیل کر ان سے پوچھا، ’’کتنی شکر؟‘‘
’’صاحب! آپ اپنے ہاتھ سے چائے بنا رہے ہیں تو شکر کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ خان صاحب نے میٹھی میٹھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بڑے یقین کے ساتھ کہا۔ نوجوان نے مجھ سے شکر کو پوچھا۔
’’ایک چمچا‘‘ میں نے یقین پر شک کو ترجیح دیتے ہوئے کہا، ’’اور احتیاطاً آدھا چمچا خان صاحب کے یہاں بھی۔‘‘
ہم سمینار ہال کی طرف واپس جا رہےتھے کہ دیکھا کہ آگے آگے پروفیسر سید حسن صاحب بھی اسی طرف جارہے ہیں۔ سیدصاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور اُس دن انہوں نے سمینار میں شرکت سے معذوری ظاہر کر کے ہم لوگوں کو گھر آنے کی دعوت دی تھی۔
’’دیکھئے بالکل خیال نہیں رہا۔‘‘ رشید حسن خان نے سیدصاحب پرنظر پڑتے ہی کہا، ’’سوچا تھا واپسی میں سیدصاحب کے یہاں چلیں گے۔ بڑی محبت سے بلایا تھا انہوں نے۔‘‘
’’لیکن وہ تو یہاں آگئے ہیں، گھر پر ملتے ہی کب؟‘‘ میں نے کہا اور خان صاحب کے ذہن میں ایک تازہ مضمون آگیا۔
’’دیکھئے برادر، اس وقت دو بج کر دس منٹ ہوئے ہیں۔ سیدصاحب یہاں آنے کے لئے کوئی پندرہ منٹ پہلے گھرسے چلے ہوں گے، یعنی دوبجے سے کچھ پہلے۔ اورہم لوگ ٹھیک دو بجے ان کےیہاں پہنچے تھے۔۔۔ ٹھیک؟‘‘
’’ٹھیک‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر باہر رک کرہم ہال میں داخل ہوئے اور سید صاحب کو دیکھ کر چونک پڑے۔
’’قبلہ آپ یہاں ہیں؟‘‘خان صاحب نے شکایتی لہجے میں کہا، ’’اورہم لوگ سمینار چھوڑ کر آپ کے یہاں حاضر ہوئے تھے۔‘‘
’’ہیں؟ ارے! کب؟‘‘
’’آپ ہی کے یہاں سے آرہےہیں صاحب۔ ہم لوگ کوئی دوبجے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا آپ۔۔۔‘‘
’’دوبجے؟ ہائے ہائے، بس تھوڑی ہی دیرپہلے میں گھرسے نکلا ہوں گا۔‘‘
’’جی ہاں، یہی معلوم ہوا کہ آپ ابھی ابھی کہیں تشریف لے گئے ہیں۔‘‘
سید صاحب دیر تک متاسف اورشرمندہ رہے۔ لوگ یکے بعد دیگر ان کی مزاج پرسی اورسمینار میں تشریف آوری پر خوشی کا اظہار کررہے تھے اور وہ ہر ایک کے جواب میں ہم لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہےتھے، ’’دیکھئے، یہ بے چارے مجھ سے ملنے میرے گھر گئے اورمیں یہاں چلا آیا۔‘‘
پروفیسر نذیر احمد کا مقالہ تحقیق میں مستند اور غیرمستند شہادت کے مسئلے پر تھا۔ خان صاحب کوخیال آیا کہ اس سلسلے میں سید صاحب کے یہاں ہم لوگوں کی حاضری کے مسئلے کو بحث کا موضوع بنایا جائے۔ ظاہر ہے سیدصاحب اور ان کے حوالے سے بہت سے دوسرے مستند حضرات یہ شہادت دیں گے کہ آج دونیازمند سیدصاحب کے گھر گئےتھے، درحالے کہ نہیں گئےتھے۔ لیکن کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ ہوا کہ اپنے جھو ٹ کو طشت از بام نہ کیا جائے۔
اترپردیش اردو اکادمی کی جنرل کونسل میں نامزدگی اور اکادمی کی کچھ سب کمیٹیوں کی رکنیت کے بعد سے رشید حسن خان کو لکھنؤ آنے کا اکثر موقع ملتا ہے۔ جنرل کونسل کے اجلاس (اپریل 1981) میں ان کی شرکت کا خاصا چرچا تھا کہ وہ اس اجلاس میں بھی سخت گیرنقاد کے فرائض بہ احسن وجوہ انجام دیں گے اورانہوں نے حسب توفیق اس توقع کو پورا بھی کیا۔ اسی اجلاس میں کونسل کے ایک رکن نے خان صاحب کواپنی تازہ تصنیف پیش کی جسے انہوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ان کی نظر انتساب کے صفحے پر پڑگئی۔ کتاب اردو کے ایک نقاد کے نام معنون تھی، جو خاں صاحب کے معیار حسن پر پورے نہیں اترتے تھے۔ انہوں نے فورا قلم نکال کر نقاد کے نام پر خط کھینچا، لکھا، ’’خدا غلام بنائے، غلام صورت نہ بنائے۔‘‘ اورکتاب میری طرف بڑھادی۔
مصنف کتا ب میرے برابر والی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور اگرچہ میں نے کتاب فورا بند کردی لیکن تاثراتی تنقید کے اس قول فیصل پر ان کی نظر پڑہی گئی۔ کچھ دیربعد میں نے خان صاحب سے سرگوشی میں کہا، ’’آپ نے غضب کردیا۔ انہو ں نے پڑھ لیا۔‘‘
’’یہی تو میں چاہتا تھا،‘‘ خان صاحب نے بڑی آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
اس کے بعد انہوں نے سرگوشی میں دورحاضر کے ادبی کاروبار پر ایک ہوش ربا اور ہوش افزاتقریر کی اور الحمد اللہ کہ جوش میں آنے کے باوجود ان کی آواز بلند نہیں ہونے پائی اور مجمع سامعین کے فرائض میں تنہا انجام دیتا رہا۔ رشید حسن خان کی احتسابی تنقید میں جوالتہاب اور اشتعال نظر آتا ہے وہ دراصل اسی تقریر کے چند نسبتاً کمزور اور دوستانہ فقروں کی بدولت ہے۔ تقریر میں انہوں نے کئی مشاہیر ادب کے کارنامے بیان کئے جنہیں سن کر حیرت ہوئی کہ اپنی خاکستر میں ایسی چنگاریاں بھی موجود ہیں۔ یہ رشیدحسن خان کی محبوب تقریر ہے جو صرف بے تکلف صحبتوں میں کی جاتی ہے۔ تقریر میں ان مشاہیر کا تذکرہ تمام کرنے کے بعد وہ اپنی تحقیق و تنقید کا خلاصہ یوں پیش کرتے ہیں،
’’میں ان سب کو ’حرام زادگان ادب‘ کہتا ہوں۔‘‘
اور سننے والوں کو بھی ان غریبوں کی ادبی ولدیت مشکوک نظر آنے لگتی ہے۔
اسی موقعے پر رشید حسن خان میرے گھر تشریف لائے۔ آتے ہی انہوں نے میری بچی صائمہ سے دوستی کرلی۔ اوربچی بھی فورا ان سے مانوس ہوگئی۔ ان سے دیر تک باتیں کرنے کے بعد انہوں نے جیب سے ایک نوٹ نکالا۔ میں نے احتجاج کیا تو بولے، ’’آپ براہ کرم اس معاملے میں دخل نہ دیں۔ یہ کوئی تحقیقی مسئلہ نہیں، میرا اورصائمہ کا حسا ب کتاب ہے۔‘‘
اس کے بعد سے وہ تقریباً ہرخط میں صائمہ کو ضرور یاد کرتے ہیں اور جب بھی مجھ سے ملنے آتے ہیں، فوراً اس کو بلواتے ہیں، ’’ارے بھئی آپ کہاں تھیں۔ ہم اتنی دیر سے آپ کو پوچھ رہے تھے۔ آئیے ہمارے پاس بیٹھیے، یہ بات ہوئی۔ ہاں تو برادر ’’فسانہ عجائب‘‘ کا متن تین سو صفحوں میں آیا ہے، اور ملحقات چار سو صفحوں میں۔ اس صورت میں۔۔۔‘‘
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں