نظام الحسن
ریسرچ اسکالر
گورنمنٹ رضا پی جی کالج، رامپور
علم و ادب کے حوالے سے رامپور کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔1774ء میں بہ حیثیئت روہیلہ ریاست قائم ہونے ولا یہ شہر اپنی ڈھائ سو سالہ تاریخ میں انتہائ روشن اور تابناک منظر نامہ رکھتا ہے۔نواب فیض اللہ خاں بانئ ریاست رامپور کے زمانے (1774ء) سے تا حال‘علم و ادب کے میدان میں اس شہر نے ایسے گوہر نایاب پیدا کیے ہیں جن کی آب و تاب اور قدر و قیمت کا ایک زمانہ معترف ہے۔
رامپور کے ادبی پس منظر کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو عام طور سے اردو شاعری کا ذکر ہوتا ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ دہلی اور لکھنؤ جیسے بڑے شہروں کے بعد رامپور بھی اردو شاعری کا اہم مرکز رہا ہے ۔
تذکرہ رامپور کا دبستان شاعری سے اقتباس ملاحظہ ہو:
”اِس تمام گفتگو کا ما حصل یہ ہے کہ اُس عام مفروضے کے بر خلاف کہ 1857ء کے بعد دلی اور لکھنؤ کے شعراء کے اجتمع کے نتیجے میں رامپور میں ایک نیا رنگ سخن پیدا ہوا‘بلکہ اس کی ابتداء قیام رامپور 1774ء سے ہو چکی تھی اور 1857ء سے پہلے اسّی برس کے عرصے میں یہ دبستان وجود میں آ چکا تھا۔“1؎
لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہاں صرف شاعری ہی کو فروغ ملا۔ آغاز ریاست رامپورسے ہی یہاں علم و ادب کے ہر میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیے گئے البتہ شاعری کی کثرت رہی اسی لئے شاعری کو نمایاں طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
رامپور میں تذکرہ نگاری کی رِوایت بھی انتہائ قدیم ہے۔1774ء سے 1780ء کے درمیان دو اہم تذکروں کے نام ملتے ہیں جِن میں ایک کا تعلق رامپور سے براہ راست ہے اور دوسرے کا بالواسطہ۔ بالواسطہ تکمیل پانے والا تذکرہ مولوی قدرت اللہ شوقؔ کا ’’طبقات الشعراء“ ہےجِس کو شوقؔ نے لکھنؤ‘بدایوں‘آنولہ‘بریلی‘رامپور2 ؎ ا ور روہیل کھنڈکے دیگر شہروں میں رہ کر مکمل کیا۔چونکہ خصوصی طور سے رامپور میں یہ تذکرہ تکمیل کو نہیں پہنچا اس لئے اس تذکرے کو براہ راست رامپور کا تذکرہ کہہ دینا مناسب نہیں ہوگا۔لگ بھگ اُسی دور کا ایک اہم اور مشہور تذکرہ”مخزن نکِات“ کا زیادہ تر حِصہ مُصنّف نے آنولہ اور رامپور میں رہ کر ہی مکمل کیا ہے۔آنولہ 1774ء تک ریاست رامپور کا حصہ رہا جو بانئ رامپور نواب فیض اللہ خاں کے چھوٹے بھائ نواب محمد یار خاں کی جاگیر میں تھا ٗ چونکہ نواب محمد یار خاں امیرؔ انتہائ ادب نواز اور علم دوست شخص تھےاسی لئے ان کے حلقہ احباب میں مولوی قدرت اللہ شوقؔ‘قائم چاند پوری‘غلام ہمدانی مصحفیؔ اور دیگر مشہور شعراء تھے۔قائم نواب کے دربار میں حاضر باش رہتے تھے اور اسی دوران انہوں نے روہیل کھنڈ اور رامپور کے بہت سے شعراءکے احوال اپنے تذکرے میں شامل کیے لیکن اس کے باوجودہم ”مخزنِ نکات“کو خالص رامپور میں لکھا گیا تذکرہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس کے مختلف مندرجات دہلی‘اودھ‘اور شاہجہانپور میں رہ کر بھی قائم نے مکمل کیے تھے۔
بقول مصنف دبستان رامپور:
”قائم کو رامپور میں تذکرہ نگاری کا بنیاد گزار کہنا اسلئے مناسب ہوگا کہ انہوں نے 1755ء میں مخزنِ نکات کی تالیف کی‘اس میں اولین رامپوری شاعر اور اپنے شاگرد کی حیثیت سے نواب محمد یار خاں امیرؔ کا تذکرہ بھی کیا۔3؎
چونکہ ریاست رامپور کا قیام 1774ء میں عمل میں آیا اس لئے تذکرے کو رامپور سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ رامپور میں تحریر شدہ اولین تذکرے کے طور پر ”ہشت خلد“کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مولف”تذکرہ کاملان رامپور“ اور موجودہ دور کے سینئر اسکالر عتیق جیلانی سالکؔ وغیرہ کی روایت کے مطابق رامپور میں تکمیل پانے والا اولین تذکرہ ”ہشت خلد“ہے۔اس کے مولف روہیل کھنڈ اور رامپور کے استاد شاعر مولوی غلام جیلانی رفعتؔ ہیں۔
عتیق جیلانی سالک نے اپنی کتاب ”رامپور شناسی“ میں تحریر کیا ہے:
”نجّو خاں ولد مستقیم خاں ولد کبیر خاں نے مولوی غلام جیلانی رفعت سے شعرائے اردو کا تذکرہ ہشت خلد مرتب کرانا شروع کیا‘ غلام جیلانی کی وفات ہو جانے سے کا م رک گیا۔نجّو خاں نے تسلیمؔ(محمدکبیر خاں تسلیمؔ)‘ اکرمؔ‘عنبرؔ‘(عنبر شاہ آشفتہ و عنبر)جیسے علماء و شعراء کی ذمہ داری لگائ کہ تذکرہ مکمل کریں……..جب خود نجّو خاں جنگِ دو جوڑا (1796ء) میں شہید ہو گئے اور ان کے بھائ سپہ سالار سنّو خاں کو بھی نواب محمد یار خاں نے محاذ ِجنگ سے واپس بلا لیا تو انہوں نے …..اس تذکرہ کو 1210ھ/95-1796ء میں مکمل کیا۔4؎
اس کے بعد جو دوسرا تذکرہ تحریر کیا گیا اس کے مولف مشہور شاعر مولوی قدرت اللہ شوقؔ ہیں جنہوں نے 1244ھ/29-1828ء میں ”تکملتہ الشعراء المعروف جام ِجمشید“تالیف کیا‘ اس تذکرے میں شعرائے عرب و عجم کے حالات اور کلام کو جمع کیا گیا ہے۔یہ دونوں تذکرے فارسی زبان میں ہیں اور رامپور رضالائبریری میں بہ شکلِ مخطوطات موجود ہیں۔ ایک اور اہم تذکرہ”تذکرہ شعرائے رامپور“بھی ہے ‘اس کے مولف کپتان جارج فانتوم ہیں۔جارج فانتوم بنیادی طور پر فرانسیسی تھے اور رامپور میں نواب احمد علی خاں رندؔکے معالج کی حیثیت سے قیام تھا‘ان کو فارسی اور اردو میں غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔ان کا تذکرہ1275ء/59-1858ء سے قبل مکمل ہوا تھا۔5؎
2019ء میں اردو ترجمہ کی شکل میں اس تذکرہ کی اشاعت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئ دہلی سے ہو چکی ہے۔حالانکہ اس تذکرے میں بھی اردو شعراء کے احوال اور کلام کوجمع کیاگیا ہے البتہ مروجہ دستور کے مطابق اس کی زبان بھی گزشتہ دونوں تذکروں کی طرح فارسی ہے جب کہ نمونہ کلام اردو میں ہی درج کیا گیا ہے۔
تذکرہ نگاری کے حوالے سے رامپور میں سب سے سنہرا دورکہلانے کا مستحق نواب کلبِ علی خاں کا ہے۔نواب خود بھی شاعر تھے اور علم و ادب کے بے حدقدر دان بھی تھے۔ان کے دور میں حکیم وحید اللہ نے”تذکرہ حکومت المسلمین“کے نام سے رامپور‘ٹونک‘کنج پورہ‘شاہ جہانپور وغیرہ ریاستوں کی مختصر تاریخ لکھی ہے۔اس تذکرے کی زبان اردو ہی ہے اور یہ تا حال مخطوطے کی شکل میں رامپور رضالائبریری میں محفوظ ہے ۔ ”تذکرہ حکومت المسلمین“میں ریاست رامپور کے قیام سے لے کر نواب کلبِ علی خاں کے دور حکومت تک کی تاریخ اور اہم واقعات لکھے گئے ہیں۔
نواب کلبِ علی خاں کے دور کا ہی اہم ترین کارنامہ انتخاب یادگارہے۔ امیرؔمینائ نے نواب کی فرمائش پر شعرائے رامپور کے حالات اور کوائف جمع کرکے 1879ء میں یہ تذکرہ ترتیب دیا۔اس تذکرے میں صرف اردو ہی نہیں بلکہ رامپور کے ہندی گو شعراء بھی شامل کیے گئے ہیں جن کی تعداد چار سو پندراہ کے قریب ہے۔ یہ تذکرہ دو طبقات میں تقسیم ہے ایک تو وہ شعراء جو نوابین یا ان کے خاندان سے متعلق تھے اور دوسرے وہ جو عوامی حلقہ سے تعلق رکھتے تھے۔عوامی شعراء کے مقابلےمیں نوابین اور ان کے خاندان کے شعراء کے زیادہ تفصیلی حالات اور کلام شامل کیا گیا ہے۔
عتیق جیلانی سالک اپنی کتاب ”رامپور شناسی “میں لکھتے ہیں:
”یہ تذکرہ 4/ذی الحجہ 1297ھ مطابق 1879ء کو تاج المطابع میں زیور طبع سے آراستہ ہوا۔چونکہ امیر مینائ نے اسے نواب صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لکھا تھااسلئے اکثر عبارت آرائ کا کمال اور مبالغے کا مظاہرہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے شعراء کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ انتخاب یادگار کا دوسرا عکسی ایڈیشن 1982ء میں اترپردیش اردو اکادمی نے شائع کیاہے۔“6؎
انتخاب یادگار میں امیرؔمینائ نے قدیم تذکرہ نگاروں کی پیروی کرتے ہوئے مسجع و مقفیٰ عبارت لکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سے تذکرہ کا حسن متاثر ہوا ہے اور تذکرہ میں صرف عبارت آرائ کا کمال زیادہ نظر آتا ہے ۔ تذکرہ کے آغاز سے قبل تمہیدکے طور پر امیر مینائ نے روہیل کھنڈ اور رامپور کی تاریخ بھی درج کی ہے ۔
اس کے کچھ بعد کے دور میں ایک اہم تذکرہ”تذکرہ طورکلیم“ کے نام سے بھی ترتیب دیا گیا ہے‘۔اس کا آغاز قدرت علی خاں قدرتؔ رامپوری نے کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد منشی عتیق الرحمٰن کلیم نے ضروری حواشی اور شعراء کے کلام اور حالات کے اضافے کرکے اس کو مکمل کیا۔ اس میں بھی رامپور کے شعراء کے حالات لکھے ہیں۔تا حال یہ تذکرہ مخطوطہ کی شکل میں رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ہے۔
نواب حامد علی خاں کے عہد حکومت میں رامپور کی نامور علمی و ادبی شخصیت حافظ احمد علی شوقؔ نے ”تذکرہ کامِلان رامپور“ کے نام سے ایک اہم تذکرہ لکھا ہے جو رامپور میں لکھے گئے تذکروں میں سب سے زیادہ کارآمد سمجھا جاتا ہے اور بہت مشہور بھی ہے۔ اس تذکرے میں صوفیاء و مشائخ‘علماء‘اطباء‘شعراء اور دیگر اہم شخصیات کے کوائف جمع کیے گئے ہیں۔یہ تذکرہ 1929ء میں مولانہ محمد علی جوہرؔکے ہمدرد پریس دہلی سے شائع ہوا۔1986ء میں خدا بخش لائبریری پٹنہ سے اس کا دوسرا ایڈیشن چند حواشی اور اضافوں کے ساتھ منظر عام پر آیا۔اس میں آغاز ریاست رامپور سے نواب حامد علی خاں کے دور کی اکثر اہم شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔حالانکہ مولف کو اگر متعلقہ لوگوں کا تعاون حاصل ہوتا تو کئ اہم شخصیات شامل ہونے سے نہ رہ جاتیں۔
تمہید میں خود مولف نے تحریر کیا ہے:
”مجھے اس کتاب کی تالیف سے کوئ نام آوری مد نظر نہیں ہے بلکہ ابتدائے عمر سے یہاں کے اہل کمال کے حالات سن کر یہ خیال دامن گیر ہوا کہ یادگار کے لئے جہاں تک ممکن ہو بزرگوں کے حالات بہ طور یاد داشت لکھ دوں …. چھ سو خط چھاپ کر شہر اور بیرون جات میں تقسیم کیے تا کہ موجودہ اخلاف اپنے اسلاف کا حال بتائیں لیکن میری بدقسمتی دیکھئے کہ دس بارہ صاحبوں کے سوا کسی نے بھی مجھے جواب نہ دیا۔ مجبور ہوکر کتابوں کی ورق گردانی شروع کی اور اہل شہر سے زبانی روایات کو جمع کیا۔ 1914ء میں اس کام کو شروع کیا تھا اور آج یہ ہدیہ حاضر خدمت ہے۔“7؎
اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ احمد علی خاں شوقؔ حسب خواہ حالات جمع نہ کر پا ئے ورنہ تذکرہ ضخیم بھی ہوتا اور بہت سے اہم لوگ شامل ہونے سے نہ رہ جاتے۔ البتہ تذکرہ جس حالت میں بھی ہے وہ بھی بہت اہم اور قابل قدر ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئ اور تذکرہ ایسا نہیں ملتا جس میں اس قدر تفصیل اور کثرت کے ساتھ اہل فضل و کمال کو یکجا کیا گیا ہو۔ رامپور منظرنامہ تاریخ و تہذیب و ادب کی مصنفہ کے بقول:
”تذکرہ کاملان رامپور حافظ احمد علی خاں شوقؔ کی رامپور سے والہانہ محبت کا روشن ثبوت ہے۔انہوں نے یہ تذکرہ محض ادب دوستی کی غرض سے لکھا یعنی نہ تو والئ ریاست کے حسب فرامائش پر اس کی تصنیف کی گئ اور نہ ہی کسی ذاتی غرض کی تکمیل کے لئے۔ اس تذکرے کے وسیلے سے شوق نے بے شمار مشاہیر رامپور کے علمی و ادبی کارناموں کاوہ ریکارڈ محفوظ کر دیا جو ادبیات رامپور پر کام کرنے والوں کے لئے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔“8؎
رامپور کے آخری فرماں روا نواب رضا علی خاں(1947ء-1930ء) کے عہد اقتدار میں بھی کئ تذکرے لکھے گئے جن میں مولانا محمد علی خاں اثرؔ رامپوری کا تذکرہ”خُم کدہ شعر و سخن“ ہے۔ یہ تذکرہ در اصل مولانا اثر رامپوری کے شعرائے رامپور پر ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے انتہائ تحقیق اور عرق ریزی سے تحریر کیے تھے اور جو معارف‘نقوش اور دیگر ادبی جرائد میں شائع ہوئے تھے۔عرصہ تک یہ تذکرہ گمنامی میں رہا اور مسودہ کی شکل میں ادھر اُدھر منتقل ہوتا رہا لیکن چند سال قبل مولانا محمد علی خاں اثر کے فرزند ڈاکٹر شوق اثریؔ نے لکھنؤ سے اس کو شائع کر دیا ہے۔اسی دورکا ایک مختصر تذکرہ رازؔیذدانی رامپوری کا بھی ہے۔ انہوں نے نیاز فتح پوری کے رسالہ’نگارٗ میں ’رامپور کا ماحول شعر و سخنٗ کے نام سے کئ قسطوں میں ایک تفصیلی مقالہ لکھا تھا جس میں رامپور کی شاعری کے ادوار کا تعین نوابین رامپور کے دور حکومت کی نسبت سے کیاگیا ہے۔ یہ مقالہ بہت اہم ہے اور آج بھی دستاویزی حیثیت کا حامل ہے بعد کو یہی مقالہ ’تاریخ ادبیات رامپور ‘کے نام سے شائع ہوا۔
نواب رضا علی خاں کے دور حکومت میں ہی رامپور کے ایک بذرگ سید شمس الدین نے ”تذکرہ بذرگان رامپور“ کے نام سے ایک تذکرہ لکھا جس میں رامپور کے مختلف صوفیائے کرام کے حالات درج ہیں۔ اس تذکرہ کا سن تالیف 1935ء ہے۔حالانکہ یہ ایک مختصر تذکرہ ہے لیکن اپنے موضوع کی اہمیت کے اعتبار سے قابل ذکر ہےٗ اس کے دو نسخے ہیں ایک رامپور رضا لائبریری کے ذخیرہ مخطوطات اور دوسرا صولت پبلک لائبریری رامپور میں ۔ لگ بھگ اُسی عہد میں حشمت علی خاں رامپوری نے انساب کے حوالے سے ایک تذکرہ ترتیب دیا جس کا نام ”تخصیص الانساب معروف بہ بہار افغانیہ “ہے۔ بہار افغانیہ میں رامپور کے بہت سے خاندانوں کے تفصیلی حالات اور کوائف اور نسلی سلسلے درج کیے گیئے ہیں۔ بہار افغانیہ کو اپنے موضوع کی مناسبت سے ایک اہم تذکرہ کہا جا سکتا ہے۔
صاحب زادہ تجمل علی خاں علیگ رامپوری نے کراچی پاکستان سے ’اردو شاعری کا تیسرا اسکولٗ کے نام سے ایک تفصیلی تذکرہ لکھا جس میں ابتدائ دور سے سن 2000ء تک کے اکثر شعرائے رامپور کے حالات اور نمونہ کلام شامل کیے گئے ہیں۔اس تذکرے کے کراچی سے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ چونکہ صاحب تذکرہ خود نوابین کے خاندان کے ہی ایک فرد تھے اس لئے انہوں نے خاندان نوابین کے شعراء کو ہی نمایاں طور پر پیش کیا ہے البتہ اس تذکرے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رامپورسے 1950ء کے بعد ہجرت کرکے جانے والے وہ شعراء بھی شامل ہو گئے ہیں جن کے نام رامپور سے تحریر شدہ تذکروں میں نہیں ملتے۔ اس تذکرے کی اولین اشاعت 1982ء میں ہوئ تھی جب کہ دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن جوہر اکیڈمی‘ کورٹ روڈ کراچی پاکستان سے 2001ء میں شائع ہوا۔ شعراء کے نام اور نمونہ کلام کے اضافے کے متعلق مصنف نے خود بھی تحریر کیا ہے:
”ضمیمہ اردو شاعری کا تیسرا اسکول کی اشاعت ثانی میں شعراء ذیل کے حالات جو اشاعت اول میں دستیاب نہ ہو سکے تھےٗضمیمہ کی صورت میں شائع کیے جا رہے ہیں۔“9؎
اضافہ شدہ شعراء میں سید زین العابدین منصورؔ رامپوری‘ محسن برلاس‘ انجم شادانی‘ رضوان عنایتی‘ بشیر درانی‘رحمٰن خاور‘ شرر نعمانی‘شاہد عشقی‘انجم شیرازی رامپوری‘ سجاد سخن اور محمد ذاکر علی خاں شامل ہیں۔ ان تمام شعراء کے احوال رامپور سے متعلق کسی دیگر تذکرے میں نہیں ملتے۔
رامپور کے صاحب لہجہ شاعر ہوش نعمانی صاحب نے شعراء و نثر نگاروں اور چند علماء کے تعلق سے ایک منفرد حیثیت کا تذکرہ”ادب گاہ رامپور “لکھا ہے جس میں شامل لوگوں کے حالات کو منظوم پیرائے میں پیش کیا گیا ہے‘ اس تذکرے میں شعراء ہی نہیں بلکہ ہندی کوی اور نثر نگاران رامپور کو بھی جگہ دی گئ ہے جس سے اس تذکرے کی اہمیت بڑھ گئ ہے ۔1997ءمیں رامپور رضا لائبریری سے اس کی اشاعت ہو چکی ہے۔
1999ء میں ایک تذکرہ ”رامپور کا دبستان شاعری“ کے نام سے رضا لائبریری رامپور سے شائع ہوا۔ اس کے مولف رامپور کے مشہور ادیب و شاعر شبّیر علی خاں شکیبؔ ایڈوکیٹ ہیں۔ اس میں بھی شاعری کے ادوار کا تعین نوابین کے دور حکومت کی مناسبت سے ہی کیا گیا ہے۔ حالانکہ بہت سے اہم شعراء کے احوال اس تذکرہ میں رہ گئے ہیں لیکن پھر بھی اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس تذکرہ کا اصل مسودہ جو کافی ضخیم تھا اور رامپور رضا لائبریری میں اشاعت کی غرض سے جمع کیا گیا تھا وہ کہیں غائب ہو گیا اور پھر مصنف نے دوبارہ میسر شدہ شعراء کے کوائف اور کلام کے نمونے جلد از جلد تیار کرکے پھر سے رضا لائبریری میں داخل کیے جس کی اشاعت ہوئ۔
بقول مصنف رامپور کا دبستان رامپور:
”یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ رامپور کا دبستان شاعری کا واحد مسودہ چند سال ہوئے ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی افسر بکار خاص رضا لائبریری کو دیے جانے سے قبل کہیں گم گیا۔خرابی صحت کے پیش نظر دوبارہ لکھنا نا ممکن ہوتا تھا۔ لیکن احباب کے ہمت دلانے پر جس طرح بھی ہو سکا لکھ کر پیش کر دیا۔جو اب شائع ہو رہا ہے۔“10؎
ہوش نعمانی کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے رامپور کے ایک اور کہنہ مشق سینئر شاعر ڈاکٹر فرید صدیقی نے بھی”آئینہ رامپور“ کے نام سے قطعات پر مشتمل ایک تذکرہ چند سال قبل پیش کیا۔اس میں شعراء کے علاوہ ادباء‘علماء اور عام سماجی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
تذکرہ نگاری کے حوالے سے ہی چند سال قبل سلیم عنایتی اور مشہور شاعر اظہر عنایتی نے مشترکہ طور پر ایک تذکرہ بنام”دبستان رامپور“2013ء میں مرتب کرکے شائع کیا‘اس میں رامپور کے ابتدائ دور سے موجودہ دور تک کے شعراء کو شامل کیا گیا ہے۔ البتہ یہ تذکرہ کسی بھی شاعر سے متعلق تفصیلات سے خالی ہے کیونکہ اس میں صرف شاعر کا نام‘ تاریخ پیدائش‘ تاریخ وفات اور تلمذ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اس تذکرے میں 191 شعراء کو شامل کیا گیاہے اور اس تذکرے کا امتیاز یہ ہے کہ دو ایک شعراء کو چھوڑ کر باقی تمام شعرائے رامپور کی تصاویر بھی شامل کی گئ ہیں۔ اس طرح سلیم عنایتی کا مرتبہ ایک اور تذکرہ جس میں نمائندہ شعرائے رامپور کے احوال و کوائف جمع کیے گئے ہیں غیر مطبوعہ حالت میں ہے۔اس کے علاوہ”بقلم خود“اور”تذکرہ شعراء“بھی غیر مطبوعہ ہیں جس کے مصنف کا نام عبد اللہ خالد ہے۔ان دونوں تذکروں کے متعلق دبستان رامپور میں لکھا ہے:
”تذکرہ بقلم خود شعرائے رامپور(غیر مطبوعہ)عبداللہ خالد عبد اللہ خالد نے 2002ء میں شعرائے رامپور کا ایک تذکرہ بعنوان ”بقلم خود“ترتیب دینا شروع کیا تھا اس سلسلے میں تقریباً70/ شعرائے کرام سے ان کے کوائف اور نمونہ کلام تحریر کرائے تھے۔فی الحال یہ تذکرہ غیر مطبوعہ حالت میں مولف کے پاس محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک تذکرہ شعرائے رامپور عبد اللہ خالد کے زیر ترتیب ہے جس میں رامپور کے تقریباً دو سو شعراء کے احوال اور کلام درج ہیں۔“11؎
تذکرہ نگاری کے متعلق عتیق جیلانی سالکؔ کی کتاب”رامپور شناسی“ کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں رامپور کی متعدد علمی و ادبی اور سماجی شخصیات کے کوائف درج کیے گئے ہیں۔ رامپور شناسی کی اشاعت 2012ء میں شاہد پبلی کیشنر‘کوچہ چیلان‘دریا گنج نئ دہلی سے ہوئ ہے اور اس کے مشتملات میں ”امتیاز علی عرشی کے بعض مباحث‘کاظم خاں شیدا‘رامپور کا ایک ادبی رسالہ نیرنگ‘پدماوت کے اردو تراجم رامپور میں‘منے میاں صابر(رامپوری)اور ان کا کلام‘ دارالسرور میں غالب‘قدیم اخبارات اور ریاست رامپور‘رامپور کی صحافت پر سرسری نظر‘مومن خاں مومن اور روابط رامپور‘رامپور کے قدیم آثار اور تہذیبی صورت حال‘اردو کے فروغ میں رامپور کا حصہ‘میر مہدی مجروح اور روابط رامپور“وغیرہ ہیں۔ ان موضوعات پر سیر حاصل معلومات جمع کی گئ ہے اس کے علاہ شخصیات کے ذیل میں روہیلہ سردار عمر خاں بڑ مچھے‘عابد رضا بیدار‘شبیر علی خاں شکیب‘ڈاکٹر ابن فرید‘ہوش نعمانی‘ڈاکٹر شوق اثری‘بشارت علی خاں فروغ‘اظہر عنایتی‘پروفیسر حسن احمد نظامی‘شبیر علی خاں ضیائ‘سسٹر آصف جہاں‘مولانا فضل حق رامپوری‘مولانا عبد السلام خاں رامپوری‘مولانا وجیہ الدین خاں‘مولانا عبد الحئ وغیرہ پر تفصیلی معلومات درج کی گئ ہیں۔
حال ہی میں رامپور کے سینئر اسکالر اور ادیب و شاعر رضوان لطیف خاں نے دو تذکرے ”تذکرہ سخنوراں“اور ”دستک دیے بغیر“تالیف کیے ہیں‘اس میں تذکرہ سخنوراں حال ہی میں شائع ہو چکا ہے۔تذکرہ سخنوراں کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رامپور کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان میں مقیم بہت سے شعراء و شاعرات کے احوال درج ہیں۔ دوسرا تذکرہ ’دستک دیے بغیر‘ ایک مشہور مصرع طرح’دستک دیے بغیر مرے گھر میں آ گیا‘ پر مختلف شعراء کی طبع آزمائ کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے اور اس میں بھی ہندو پاک کے بہت سے شعراءو شاعرات کے احوال و مصرع طرح پر کلام موجود ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے زیادہ تر شاعری پر ہی کام کیاگیا لیکن دیگر موضوعات تصوف‘شکاریات‘نثر نگاری‘صنعت و حرفت کے تعلق سے بھی کئ اہم تذکرے لکھے گئے ہیں۔ تصوف کے متعلق شاہ محمد حسن صابری کا ”حقیقت گلزار صابری“معروف تذکرہ ہے جو 1960ء کے آس پاس ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رامپور کے شکاری اور شکاریات پر ناصر علی خاں علیگ کا ایک تذکرہ شائع ہو چکا ہے اور اسی موضوع پر رامپور رضا لائبریری نے مشہور افسانہ نگار مسعود الظفر خاں کا تذکرہ بھی شائع کیا ہے۔رضا لائبریری سے ہی صنعت و حرفت پر بھی”تذکرہ ہنر مندان رامپور“شائع ہو چکا ہے جس کے مولف مشہور ادیب و افسانہ نگار ابن حسن خورشید ہیں۔اس تذکرے میں بیشتر ایسے ہنر مند شامل ہیں جو یا تو ظروف سازی میں یکتا و یگانہ تھے یا پھر وہ ریاست کے ملازم تھے اور اسلحہ سازی مثلاً چاقو‘تلوار‘بھالا اور ڈھال وغیرہ بناتے تھے اور اپنے فن میں ایسے مکمل تھے کہ دور دور تک ان کی مشاقی اور مہارت کی تعریف تھی۔
نسبی اور خاندانی تذکروں میں ”احوال خاندان مولوی غلام جیلانی خاں“ مولف ارشاد اللہ خاں چیف جسٹس رامپور”آشیانہ رامپور“مولف امتیاز اللہ خاں اور ”نقش جمیل“مولف محمد طارق خاں جیسے مطبوعہ تذکرے بھی قابل ذکر ہیں۔ یہ تینوں تذکرے ایک ہی خاندان یعنی مولوی غلام جیلانی خاں رسالدار کے احوال و کوائف اور خاندانی سلسلے کے بیان پر مشتمل ہیں۔
فنی تذکرے کے بطور ”چہار بیت“از شبیر علی خاں شکیب ایڈوکیٹ‘1994ء میں خدا بخش لائبریری پٹنہ سے شائع ہوا ہے جس میں رامپور میں چہار بیت گوئ کے فن‘چہار بیت گواور چہار بیت خوانوں کے حالات اور منتخب چہار ابیات شامل کی گئ ہیں۔حالانکہ اس سے قبل صبرتسلیمی رامپوری کا اسی موضوع پر ایک تذکرہ”نوازش رضا“کے عنوان سے تالیف کیا جا چکا ہے لیکن وہ بہ شکل مخطوطہ رامپور رضا لائبریری میں محفوظ ہے ۔ خدابخش لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد رضابیدار کی تحریک پر شبیر علی خاں شکیب ایڈوکیٹ نے رامپور کے چہار بیت خواں اور چہار بیت گو شعراء کے حالات انتہائ تلاش و تحقیق کے بعدجمع کیے ۔ خدا بخش لائبریری کی جانب سے ہی”تذکرہ کاملان رامپور“کی جلد دوم اور سوئم بھی تیار کی گئ تھی جس میں رامپور کے بیشتر اصحاب کمال کے حالات ہیں لیکن ان دونوں جلدوں کے شائع ہونے کی نوبت نہ آئ بلکہ پروف کاپی کی شکل میں یہ جلدیں رامپور رضا لائبریری اور صولت پبلک لائبریری رامپور میں محفوظ ہیں۔
تاریخی تذکرےکے حوالے سے 2010ء میں نجّو خان شہید نامی ایک تذکرہ شائع ہو چکا ہے۔جس میں رامپور کے نامور روہیلہ سردار اور رامپور فوج کے سپہ سالار غلام مصطفٰی خاں عرف نجّو خاں کے حالات‘جنگ نجّو خانی 1794ء12 ؎ کا تصفیلی بیان اور نجّو خاں کے خاندان اور اولاد کا تصفیلی ذکر ہے۔
”رامپور تاریخ و ادب“ مولفہ سعود الحسن خاں روہیلہ اور ”رامپور منظر نامہ تاریخ و تہذیب و ادب“بھی تاریخی تذکرہ نگاری کے حوالے سے اہم کتب ہیں۔”رامپور تاریخ و ادب “ لاہور سے 2012ء میں شائع ہوا ہے جب کہ”رامپور منظر نامہ تاریخ و تہذیب و ادب“ نامی تذکرہ 2019ء میں آگرہ سے شائع ہوا ہے اس کی مصنفہ سعد یہ سلیم شمسی ہیں جنہوں نے اس تذکرے میں رامپور کی تاریخ‘نثر نگاران رامپور کا تفصیلی تذکرہ اور رامپور کے شعرائے کرام کا مختصر تذکرہ اور نمونہ ہائے کلام درج کیے ہیں۔194/ صفحات پر محیط یہ تذکرہ کئ لحاظ سے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے قبل رامپور کے نثر نگاروں کا اس طرح با قاعدہ کسی نے تفصیلی تذکرہ نہیں لکھا ہے۔
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں کہا جاتا سکتا ہے کہ رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے کافی اہم اور قابل قدر کارنامے انجام دیے گئے ہیں بلکہ گزشتہ سطور میں بیان کیے گئے تذکروں کی خاصی اہمیت ہے اور وہ رامپور ہی نہیں بلکہ بیرون رامپور کے اہل فضل و کمال کے لئے حوالہ جاتی حیثیت رکھتے ہیں۔
محدود رقبہ والی ایک چھوٹی سی ریاست رامپور میں تذکرہ نگاری کے حوالے سے اہم کارنامے انجام دیے گئے ہیں وہ یقیناً ادبی تاریخ میں تعریف و ستائش کے مستحق ہیں۔
حواشی:
1؎: رامپورکادبستان شاعری از شبّیرعلی خاںشکیبؔ۔ص40‘41
2؎ شعرائے اردو کے تذکرے(نکات الشعراءسےگلشن بےخارتک)ازحنیف نقوی۔ص 299، رامپورکادبستان شاعری از شبّیرعلی خاںشکیبؔ۔ص127
3؎: رامپور شناسی از عتیق جیلانی سالک۔صفحہ136۔ناشر:شارق خان عنایتی‘بریڈ۔کانپور۔2013ء
4؎: رامپور شناسی از عتیق جیلانی سالک۔صفحہ202(ناشر:مصنف۔رامپور۔2012ء)
5؎تذکرہ شعرائے رامپور از جارج فانتوم۔صفحہ XIX (اردو ترجمہ مصباح احمد صدیقی2019)، رامپور کے فارسی گو شعراء از ساجدہ شیروانی صفحہ XX(اشاعت 2020ء)
6؎ : رامپور شناسی از عتیق جیلانی سالک۔صفحہ205(ناشر:مصنف۔رامپور۔2012ء)
7؎: تذکرہ کاملان رامپوراز احمد علی خاں شوقؔ۔صفحہ 08۔(ناشر خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنا1986ء)
8؎: رامپور منظر نامہ تاریخ تہذیب ادب از سعدیہ سلیم شمسی۔سن اشاعت:2019ء۔ناشرسعدیہ سلیم شمسی۔غالب پورہ کلاں نذن سبھاش پارک‘ایم جی روڈ‘آگرہ۔صفحہ62
9؎: اردو شاعری کا تیسرا اسکول از تجمل علی خاں علیگ۔ناشرجوہر اکیڈمیٗ آر اے لائن‘ کورٹ روڈ ‘ کراچی ‘ پاکستان‘ اشاعت 2001ء۔صفحہ177
10؎: رامپورکادبستان شاعری از شبّیرعلی خاںشکیبؔ۔صفحہ10
11؎: دبستان رامپور از سلیم عنایتی واظہرعنایتی۔ناشرشارق خاں عنایتی۔ پریڈ کانپور۔2013ء۔صفحہ142
12؎: رامپورکادبستان شاعری از شبّیرعلی خاںشکیبؔ۔صفحہ22
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں