خلیق الزماں نصرت
تقریبا دس سال قبل امیر حمزہ ثاقبؔ اورعامرصدیقی صاحبان نے اپنے کالج (ویمنس کالج ،بھیونڈی )کے کانفرنس روم میں غالبؔ اور میرؔ کی ایک ہی زمین کی دوغزلوں پراظہارِ خیال کے لئے ایک روزپہلے مجھے فون پر مدعو کیا لیکن وہ کونسی غزلیں ہیں انہوں نے یہ نہیں بتایا۔ شاید سبھی شرکاء کو اسی طرح دعوت دی گئی تھی۔وقت مقررہ پر شہر کے چند باشعورشاعراور ادیب محفل میں حاضر ہوئے۔ محفل کی شروعات میں امیرحمزہ ثاقبؔ نے غالبؔ اور میرؔ کی دونوں غزلیں جو ایک کاغذ پر ٹائپ شدہ تھیں ،پڑھ کر سنائیں اور اظہارِ خیال کی دعوت بھی دی ۔ شہر کے مشہور اور باشعور پروفیسر عرفان فقیہ صاحب نے ایک لمبا چوڑا تجزیہ شرکاء کے سامنے پیش کیا۔ بقیہ لوگوں نے بھی اپنے اپنے حساب سے اپنی رائے دی۔ جب غزل والا کاغذ میرے سامنے آیا تو میں دیکھ کو چونک گیا کہ اس میں جو میرؔ کی غزل ہے وہ اصل میں میرؔ کی نہیں ہے۔ اب آپ بھی میرؔ کی وہ دیکھ لیں جو اس کاغذ پر تھی۔
۱۔ آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
۲ ۔چاک کرنا ہے اسی غم سے گریبانِ کفن
کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد
۳۔وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہرصبح
پہلے میں جاتا تھااور بادِ صبا میرے بعد
۴۔ تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
۵۔منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مرغانِ چمن
ہر روش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد
۶۔بعد مرنے کے مری قبرپہ آیا وہ میرؔ
یاد آئی مرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
میں نے اسے پڑھنے کے بعد کہا حضرات! ابھی جس غزل کے بارے میں آپ تمام لوگ باتیں کرچکے ہیں اس میں ہر زاویے سے میر تقی میرؔکی تعریف بیان کی گئی ہے۔کسی نے اس غزل کے حوالے سے میرؔکو بڑا شاعر بتایا ،کسی نے میرؔ کے اس اسلوب کواچھا بتا کر تقریر کی لیکن یہ غزل میرؔ کی نہیں ہے۔ اس میں ۱،۲ز۴،۵،نمبر شعر غافل ؔ کے ہیں اور دو شعر ہوسؔ کے ہیں۔ قوّال حضرات مصحفی کے دوشاگرد منورخان غافلؔ اور محمد تقی خاں ہوسؔ کے اشعار کویکجا کرکے سامعین کو سنایا کرتے تھے۔ منور خان افغانی مہاراجہ ٹکیٹ رائے کے دربار سے منسلک تھے۔ان کی پرورش لکھنؤ میں ہوئی ۔انہوں نے مصحفی سے استفادہ کیا ہے اور محمدتقی خاں ہوسؔ بھی مصحفی کے شاگرد تھے جنہوں نے ابتدا میں اپنا تخلص میرؔ رکھاتھااوراس زمانے میں ان کی تمام غزلیں میرؔ تخلص کے ساتھ چھپی تھیں۔ بعد میں جب وہ مصحفی کے شاگرد ہوئے تو ان کے مشورے سے اپنا تخلص ہوسؔ رکھ لیا۔ جب یہ غزل میرؔ کی ہے ہی نہیں تو پھر میر کے اسلوب بیان کو کیوں بدلا جائے۔ یہ تو سراسر غلط ہے۔ ایک یا دو شرکاء نے کہا کہ شاعر کا نام بدل دینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ، یہ بہت بڑا ظلم ہے۔اسے ادبی دیانتداری نہیں کہی جاسکتی ہے۔ میں نے شہر کے بزرگ شاعر شاکر ادیبیؔ کی طرف مخاطب ہوکرکہا، کیسے فرق نہیں پڑتا ہے ۔آپ شاکر صاحب کا ایک شعر اپنے نام سے تو کرلیں۔شاکر صاحب اور شہر کے لوگ کس طرح ہنگامہ برپاکریں گے یہ آپ انہیں سے پوچھ لیجئے۔ بہر حال امیر حمزہ ثاقبؔ اورعمران صدیقی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اور صدارتی خطبہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ شعر جس کا ہے اس سے منسوب کرکے پڑھا،سنا جائے ورنہ شاعر کا اسلوبِ بیان اور طرز بیان بدل جائے گا۔ اس طرح کا بیان دے کر عامرصدیقی نے بھی اپنی صدارتی تقریر میں ہوش مندی کا اظہار کیا ہے۔ امیرحمزہ ثاقب نے کہاکہ یہ غزل مجھے میرؔ کے نام سے نیٹ پر ملی۔
اب آئیے ہم غافل کی وہ غزل دیکھتے ہیں جو ۱۸۸۷۔ء کے کورس کی ایک کتاب ’’چمن بے خزاں کے‘‘ جو ۱۵۰؍سال قبل کی کتاب ہے۔صفحہ نمبر ۲۷ ؍پر چھپی ہے۔غافل اورہوس کا دیوان رضا لائبریری میں موجود ہے۔(ڈاکٹر وجہی اور شکیب) اس کے حوالے سے ۲۰۱۱ء کی میری کتاب برمحل اشعار حصہ ۱ میں چھپ چکی ہے مگر ریختہ نے اپنی روش کے مطابق اس کے ۱۲ سال کے بعد اس مشہور غزل کو شائع کیا ۔میری کتاب کے تمام اشعار کو استعمال کرکے پھر مجھ سے برائے نام اجازت لی ہے۔۲۰۲۱ء مشہور اشعار گمنام شاعر شائع اس کے ایک سال کے بعد میں نے یہ کتاب بھیج دی۔کئی بار گزارش کی لیکن ابھی تک نیٹ پر نہیں آیا ہے۔میں جانتا ہوں کہ جب وہ سبھی اشعار لوڈ کر لیں گے تب نیٹ پر ظاہر کریں گے۔اسی طرح دو ماہ قبل برمحل اشعار حصہ نمبر ۲ شائع ہوئی ۔ابھی یہ ادارہ باازار سے خرید کر اسی طرح کا کام کرے گا پھر دو چار سال مئجھ سے اجازت لے گا۔اب آئیے اس غزل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس میں سے چار اشعار ۱۔۲۔۳۔۵ آپ کی نذر کررہاہوںجو مذکورہ غزل میں شامل ہیں۔
آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
اسلئے کرتاہوں میں چاک کفن کو اپنے
کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد
غافل کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں تھوڑی تبدیلی کردی گئی ہے۔
چاک کرناہے ، اس غم سے غریبانِ کفن
وہ ہوا خواہ ِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
پہلے میں جاتا ہوں اور بادِ صبا میرے بعد
اس میں صرف ہوں کو تھا کردیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔چوتھا شعر
منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مرغانِ چمن
ہر روش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد
اس شعر میں کوئی تبدیلی نہیںہے۔ مرتب کی صلاحیت پر شک ہوتا ہے کہ اس نے غافل کے اس برمحل شعر کو کیوں چھوڑدیا۔
جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارے
یاد آوے گی تجھے میری وفا میرے بعد
اچھے اشعارکا ہی انتخاب کرناتھاتو رندؔ کا یہ شعر ضرور لینا چاہیے تھا۔ہوسکتاہے ان کے مطالعہ میں نہیں آیا ہو۔۔۔۔۔
اپنے مرنے کا اگررنج مجھے ہے تو یہ ہے
کون اٹھائے گا تیری جوروجفا میرے بعد
اس کے علاوہ غافل کے کچھ اور شعر بڑے اچھے ہیں۔حالانکہ یہ غزل بہت طویل ہے۔اس میں ۱۵ اشعار ہیں
گرم بازار محبت ہے مجھی سے ورنہ
کوئی لینے کو نہیں نامِ وفا میرے بعد
سن کے مرنے کی خبر یار مرے گھر آیا
یعنی مقبول ہوئی میری دعا میرے بعد
ذبح کرکے مجھے نادم یہ ہوا وہ قاتل
ہاتھ میں پھر کبھی خنجر نہ لیا میرے بعد
قتل تو کرتے ہو پر خوب ہی پچھتائو گے
مجھ سا ملنے کا نہیں اہلِ وفا میرے بعد
شرط یاری یہی ہوتی ہے کہ تو نے غافل ؔ
بھول کر بھی نہ مجھے یاد کیا میرے بعد
رندؔ کی غزل میں بھی ایک شعر غافل ؔکی طرح ہے۔مصرع ثانی تو لگتا ہے ۔مصرع طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔
کون بندھوائیگا ٹپکا لئے ہاتھوں میں کمر
کون کھولیگا تیرے بند قبا میرے بعد
مجھ کو مرجانے کا اپنے یہی غم ہے اے یار
کون دیکھے گا تیرے نازوادا میرے بعد
بھولے بیٹھے ہیں عبث حسن دو روزہ پہ وہ رندؔ
یاد آئیگی بہت میری وفا میرے بعد
میں اتنا لکھنے کا بعد مطمئن نہیں تھا ہمیشہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ آخر یہ غلطی کس سے ہوئی تھی اور اردو والے پریشان رہے۔کل یعنی ۲۵۔۸۔۲۴ کو بحرالفصاحت پڑھ رہا تھا تو پتہ چلا کہ اس بڑی کتاب کے مصنف سے غلطی ہو گئی۔اب میری اس تحقیق کے بعدلوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ بحرالفصاحت کے پیج نمبر ۷۷ جو غزل میر تقی میر کے نام سے ہے وہ میر کی نہیں ہے ۔
مذکورہ بحث والی غزل میں دو شعر ۴ ۱ور۶ ہوس کے ہیں۔۔ہوس مصحفی کے جب شاگرد ہوئے تو تخلص بدل لیا پہلے ان کا تخلص میر تھا۔
تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میرؔ
یا د آئی مرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد
(تقریبا دس سال قبل کا ایک ادبی معاملہ ۲۰۲۴ء میں حل ہوا)
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں