پروفسیر کوثر مظہری
اناج سے لدی ہوئی گاڑی کو ریشم کی ڈور سے کھینچنا مشکل ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں اور نہ کوئی نظریہ ہے۔ میں یہاں چوں کہ غزل کے بجائے نظم کے حوالے سے گفتگو کرنے جارہا ہوں اس لیے شعور نقد بھی تھر تھراہٹ کا شکار ہے کہ نظم میں جس فکری گہرائی اور انداز پیش کش کو ہم آپ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، بہر حال اس کا ریشم کی ڈور ( یعنی غزل اور اسلوب غزل )سے علاقہ ذرا کم کم ہی ہوتا ہے۔
قیصر شمیم نے غزلیں بھی کہی ہیں اور کیا خوب کہی ہیں، لیکن ان کی نظموں میں جو کھردرے لہجے کا بانکپن اور فکری شعور ملتا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ انھیں نظم کے کینوس پر الفاظ و تراکیب اور شعور و افکار کا رنگ بھرنا خوب آتا ہے۔ ایسا ممکن اس لیے ہوا ہے کہ ان کی فکری جزیں اپنی ہی مٹی میں پیوست ہیں جس طرح اختر الایمان کی تھیں ۔ قیصر شمیم کی ایک نظم ہے جیون پچھ پڑ جسے پڑھتے ہوئے اختر الایمان کی نظم پگڈنڈی کی یاد آتی ہے۔
البتہ یہ نظم پگڈنڈی کی طرح طویل نہیں ہے۔ دو بند ملا حظہ کیجیے:
اونچے نیچے ٹیڑھے میڑھے
گھور اندھیرے جیون پتھ پر
ننھی منی آشاؤں کے
جلتے بجھتے دیپ لیے میں
جانے کب سے بھٹک رہا ہوں
آج اکیلے اندھیارے میں
ننھی منی آشاؤں کے جلتے بجھتے دیپ لیے میں
اپنی منزل ڈھونڈ رہا ہوں
ہر فنکار اپنے عہد یا پیش رو قریب کے فن اور اسلوب سے متاثر ہوتا ہے۔ متاثر ہونے کا عمل بھی جدا گانہ ہوتا ہے۔ اختر الایمان اپنے عہد کے شاعروں میں اور بالخصوص نظم نگاروں میں ایک بڑا نام ہے۔ اختر الایمان جیسا دکھ اور ماضی، اپنی زمین اورمٹی کی مہک قیصر شمیم کی نظموں میں موجود ہے۔
’سرِرا ہے‘ جو ایک مختصر سی نظم ہے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس عہد کے کرب کو، زندگی کے بدلتے رشتوں کو بڑی خوبصورتی سے قیصر شمیم نے اس چھوٹی سی نظم میں پیش کر دیاہے ۔ دس مصرعوں کی اس نظم سے کچھ مصرعے دیکھیے :
بعد مدت کے ملاقات ہوئی ہے تم سے
آؤ کچھ دیر کہیں بیٹھ کے ہم بات کریں
کیا خبر، پھر کسی منزل میں ملیں یا نہ ملیں
کیا خبر دوسرے دن زیست کہاں لے جائے
کیا خبر وقت بھلا دے سب کو
اور پھر ہم جو ملیں بھی تو نہ پہچان سکیں
آؤ کچھ دیر کہیں بیٹھ کے ہم بات کریں
یہاں بھی ’وقت‘ کو مرکزیت حاصل ہے۔ قیصر شمیم نے بھی اختر الایمان کی طرح وقت کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور اپنے فکر و شعور سے ہم آمیز کر کے اُسے منظوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اختر الایمان کی نظمیں ایک لڑکا، بازآمد ، تبدیلی، عہد وفا، پرانی فصیل، یادیں اس قبیل کی ہیں۔
تبدیلی کا یہ حصہ دیکھیے :
اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں
جو مجھے راہ چلتے کو پہچان لے
اور آواز دے او بے اوسر پھرے
دونوں اک دوسرے سے لپٹ کر وہیں
پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر
گھنٹوں اک دوسرے کی سنیں اور کہیں
آج وقت کس کے پاس ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگوں کے پاس وقت ہی وقت ہوا کرتا تھا۔ پوری پوری رات داستان سرائی میں گزر جایا کرتی تھی ۔ وقت کے ساتھ داستان بھی قصہ پارینہ بن گئی ۔ آج شاعر کو احساس ہے کہ آج اس کا عزیز دوست، محبوب بعد مدت کے ملا ہے تو اس سے کچھ دیر مل بیٹھ کر بات کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہے وقت کا ستم اور زمانے کا جبر ۔ قیصر شمیم کو خوف ہے کہ اگر اس وقت کو غنیمت جان کر ہم باتیں نہ کر لیں تو معلوم نہیں دوسرے دن زندگی ہمیں
کہاں لے جائے اور پھر ہم وقت کے جلوس سے نکل کر کہیں گم ہو جائیں۔ اس نظم میں وقت سے شاعر سراسیمہ ہے جو اس کا مشاہدہ ہے۔ اس تلخ تجربے اور مشاہدے نے قیصر شمیم کی نظم میں نئی حسیت اور سچائی کے عناصر بھر دیے ہیں۔
نظم ’چرواہے‘ میں قیصر شمیم نے شہر سے اکتا کر گاؤں کی طرف آنے والے کردار کو پیش کیا ہے۔ شہری آب و ہوا اور بوباس میں رچ بس کر آدمی خود غرض اور Introvert ہو جاتا ہے۔
شاعر گاؤں کی فضا پیش کرتا ہے۔ چرواہے کی عکاسی ملاحظہ کیجیے:
آؤ چلو چرواہی کرنے، چرواہے بن جائیں
باندھیں اپنے سر پہ مریٹھا اور گھٹنوں تک دھوتی
ایک ہاتھ میں پینی لے لیں، ایک ہاتھ میں سینی
کھونٹوں سے گایوں کو کھولیں، چنور کی اور ہنکائیں
آگے چل کر آخری بند میں شاعر کا احساس دیکھیے ، اس بند سے کچھ سطریں:
سچ پوچھو تو شہری دنیا، روپ کی ستیہ ناسی
شہر کو ہم تم دیکھ چکے، اب گاؤں کو بھی دیکھ آئیں
سب سے پہلے بند میں کہا گیا تھا:
میں بھی شہر کا باسی پیارے، تم بھی شہر کے باسی
ہم دونوں کی آنکھیں ، روحیں ستیہ روپ کی پیاسی
رو حیں ستیہ روپ کی پیاسی ہیں۔ اسی پیاس اور تشنگی کو مٹانے یا کم کرنے کی غرض سےگاؤں کی فضا کو سازگار تصور کیا گیا ہے۔ شہر چوں کہ روپ کی ستیہ نائی ہے اس لیے شاعر نے گاؤں کی سمت رخت سفر باندھنے کا قصد کیا ہے۔ گاؤں سے انسیت اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر کی فکر ناسٹلجیائی ہے یا پھر یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاعر کے مشاہدے نے طرز فکر میں ایک طرح کا تغیر پیدا کر دیا ہے۔
قیصر شمیم کی فنکارانہ نظر طبقاتی کشمکش پر بھی رہی ہے۔ پہاڑ کاٹتے ہوئے (۱۹۹۸ء) کےپیش لفظ ( دائرے ) میں لکھتے ہیں:
مجھے یاد ہے کہ جوٹ مل کے جس علاقے میں میں پیدا ہوا تھا، وہاںجی۔ ٹی روڈ کے ایک طرف مزدوروں کی بستی تھی جس میں مرغیوں کے
ڈربے جیسے چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔ ان میں اکثریت بانس اور مٹی سےبنے ہوئے ایسے گھروں کی تھی جو بیشتر اوقات بوسیدہ رہا کرتے تھے۔ میاں،بیوی، بیٹے، بیٹیاں یعنی پورا خاندان ایک ہی گھر میں ٹھنسا پڑا رہتا تھا … … دوسری طرف نہایت بلند و بالا چہار دیواری کے اندر ایک دوسری دنیا تھی جس میں جوٹ مل کے انگریز افسروں کے رہنے کے لیے عالی شان عمارتیں تھیں اور تفریح کے لیے ٹینس لان، کلب، ہال روم اور سنیما ہال تھے۔‘‘
انسانی زندگی کے یہ دو مختلف Shades تھے، جن کا قیصر شمیم کے ذہن و دل پر گہرا اثر پڑا۔ اس احساس کے نقوش ان کی شاعری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ نظم’ عید آئی ہے‘، مگر … کا آخری حصہ دیکھیے جس میں کارخانہ بند ہونے کے بعد ایک مزدور کے احساس کو پیش کیا ہے:
تیری دنیا میں خدایا
کیوں حصول رزق کا موقع ہمیں ملتا نہیں
کون سی منڈی میں جائیں، ہم جہاں پھر بک سکیں
جگمگائیں پھر ہمارے ہاتھ پر
دو چار ہی سکے سہی
جن سے ہم ننھوں کو اپنے خوش کریں
اور سمجھیں آج اپنی عید ہے
اس نظم کے تیور سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہیں، البتہ وہ مقصدیت واد بیت کے درمیان نیز اجتماعیت و انفرادیت کے درمیان معقول تناسب و توازن رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس خیال کا اظہار انھوں نے پیش لفظ ( دائرے ) میں کیا ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے ۔ مزدور اور کسان یا سماج اور سماجی مسائل کو شاعری میں پیش کرنا کوئی بری بات نہیں ،غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس میں شاعری اور شعریت کہاں تک ہے۔ محض پروپیگنڈہ تو نہیں۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر اس قدر زور دیا کہ انفرادیت مجروح ہو کر رہ گئی ۔ انسان کے کرب اور دکھ کو سمجھنے کے بجائے ترقی پسندوں نے انسان کے دکھ کو علم کے طور پر استعمال کیا اور انقلاب انقلاب چلا کر دکھ کی عظمت کو داغ دار کیا ۔ قیصر شمیم کی نظموں میں دکھ، دکھ ہی ہے ترقی پسندوں کا علم نہیں ۔
ایسا نہیں کہ قیصر شمیم کی فکری جہات محدود ہوں ۔ اگر ان کی نظم’ ہمارے اپنے لہو کا حصہ‘ کامطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک وسیع النظر فنکار ہیں ۔ ان کا مطالعہ و مشاہدہ وسیع ہے۔ اس نظم میں اپنی زبان کے تحفظ کو موضوع بنایا گیا ہے:
جلائے رکھنا چراغ اپنا
چراغ اپنا زبان اپنی
زبان اپنی ہے وہ نشانی
جو ماں نے بچپن میں ہم کو دی تھی
زباں ہے دودھ اپنی ماں کا
ہمارے اپنے لہو کا حصہ
نظم میں روانی اور دل کشی ملاحظہ کیجیے:
ہمیں ملی ہے زبان اپنی تو یوں ملی ہے
گلوں کو ملتی ہے جیسے خوشبو
گھٹا کو ملتا ہے جیسے پانی
شجر کو ملتا ہے برگ جیسے
زبان ہے چڑیوں کی چہچہاہٹ
زباں ہے پھولوں کی مسکراہٹ
یہ چہچہاہٹ یہ مسکراہٹ بچائے رکھنا
آگے چل کر تلمیحات کے بطور دیار حسانؔ ابن ثابت، دیار رومیؔ ، دیار چاسرؔ، دیار گوتمؔ اور ان سے متعلق انسلاکات کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح جسم سے جان کا رشتہ ہوتا ہے اسی طرح مذکورہ بالا دیار اور ان کے تلازموں سے ہماری زبان کا رشتہ ہے۔ آخر میں اپنی زبان کی شناخت پر مہر استحکام ثبت کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
زبان اپنی نہیں ہے کوئی لباس کہنہ
بدلتے فیشن کو دیکھتے ہی جسے بدن سے اتار پھینکیں
زبان اپنی نہیں ہے ماضی کا داغ کوئی
جسے چھپانے کے سوجتن ہوں
زبان سے ہے شناخت اپنی
بچائے رکھنا شناخت اپنی
چراغ اپنا جلائے رکھنا
قیصر شمیم کی نظموں کے انسلاکات و موضوعات سے ان کی فکری جہات کا اندازہ ہوتا ہے۔ نظم کے لیے زبان و اسلوب کی حد تک جس سنجیدہ ڈکشن کی ضرورت ہوتی ہے، قیصر شمیم کی نظموں میں موجود ہے۔ ان کا تہذیبی شعور اور فنی اسلوب ان کی نظموں کو منفرد بناتا ہے۔
(۲۸ نومبر ۲۰۰۴ ، جشن پذیرائی ، انجمن ترقی اردو، دیلی )
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں