مہر فاطمہ
قبرستان کا ذکر روز مرہ کی گفتگو میں عموماً کم ہی ہوتا ہے۔ ادب میں توشاذونادرہی موجود ہے۔ہاں !منٹو کی ایک کہانی کا عنوان’’ترقی یافتہ قبرستان‘‘ ہے۔مزید تلاش کے بعد ایک دوتحریریں اور نظر سے گزریں ،جن میں سے ایک کا عنوان تھا ’’ایک برطانوی قبرستان کی سیر‘‘ ۔اس سیر کو کوماز میں جلی حروف میں لکھا گیا تھا ،کیونکہ عموما قبرستان کی سیر ایک عجیب سا تاثر پیش کرتی ہے کہ بھلا سیر کی یہ کون سی جگہ ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عام زندگی میں لوگ اس کا ذکر کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، اور بسا اوقات اس کا نام سنتے ہی بعض لوگوں پر عابدی و زاہدی کا بخار چڑھ جاتا ہے( کچھ دیر میں ہوا بھی ہو جاتاہے)۔ ہاں !تو میں عرض کر رہی تھی کہ جس طرح کی وہ تحریر تھی کہ برطانوی قبر کی سیر بالکل ویسے ہی شہردہلی کے جامعہ نگر میں بٹلہ ہائوس نامی ایک مشہور علاقہ ہے ۔جس میں ایک مشہور قبرستان بھی ہے، جس کی ہم آج سیر کریںگے یا جس پرسیر حاصل گفتگو کریں گے۔ تو سنئیے صاحب!شہر غالب میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ دن میں کم از کم سو بار نہ سہی، پچاس بارقبرستان کا ذکر ضرور کرتے ہیں،اور اس کا استعمال مجازی معنوں میں نہیں بلکہ حقیقی معنی میں ہوتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کتنی عجیب بات کر رہی ہوں۔ جناب آپ کا تعجب بالکل بجا ہے۔ میں ابتدا میں حیرتستان اور تعجبستان کے سمندروں میں غوطہ لگا چکی ہوں۔ یہاں کوئی بھی کام بغیر قبرستان جائے بغیرمکمل نہیں ہوتا۔ مثلا کپڑے، جوتے،چپل، چادر، تکیے، بسکٹ،مٹھائی اور بریانی کچھ بھی خریدنا ہو یا کھانا ہو تو لوگ قبرستان جاتے ہیں۔ جب میں نئی نئی یہاں وارد ہوئی تھی(اس علاقہ میں آئی تھی) تویہ سن کر بڑا عجیب لگتا تھا کہ میں فلاں سامان لینے قبرستان جارہی ہوں، قبرستان سے کچھ چیزیں خریدنی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مجھے پہلے پہل بڑی الجھن ہوئی کہ یہ کیا بات ہوئی، یہ لوگ ہر چیز خریدنے کے لیے قبرستان کیوں جاتے ہیں۔کیا اب بازار کو قبرستان کہنے لگے ۔ اب آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ اس طرح کے جملے بولے جانے کا سبب یہ ہے کہ لوگ علامتی ہو گئے ہیں۔ قبرستان کو علامت بنا کر بازار کا ذکر کرتے ہیں۔ چہ!میں بھی کیا بے وقوفانہ باتیں کر رہی ہوں۔ دراصل یہاں دونوں طرف قبرستان ہے اور درمیان کی جگہ بازار ہے۔ اسی لیے لوگ بار بار قبرستان کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ ابتدا میں یہ سوال کرنے پر ہمارا مذاق تو خوب اڑا یا گیا۔انہوں نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ ایک دوسرے کو لطف لے لے کر بتانے بھی لگے۔ میں دل ہی دل میں خود کولعنت و ملامت کرنے لگی کہ کیوں پوچھا۔ ذرا صبر ہی کرلیتی ،پھر تو خود ہی پتہ لگ جاتا اور وہ بھی بغیر اس رسوائی کے۔۔۔۔
ایک بار ایک صاحبہ علی گڑھ سے دہلی آئیں وہ بھی ہماری طرح یہاں کی ان جگہوں کے پیچ وخم سے واقف نہیں تھیں۔ انہوں نے ملنے کے لیے پتہ معلوم کیا۔ میں کہہ دیا کہ آپ کسی سے قبرستان معلوم کر لینا میں وہیں مل جاؤں گی۔ میری اس بات کا مطلب انہوں نے کیا سمجھا یہ تو خدا ہی کو معلوم ،لیکن میری شامت آگئی۔ وہ چراغ پا ہو کر مجھ پر برس پڑیں کہ ہر بات میں مذاق سوجھتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور فون کاٹ دیا۔ اس کے بعد کس طرح سے صلح صفائی ہوئی اس کے لیے ہمیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے اس کا ذکر ہٹائیے،کبھی اور سہی۔۔۔۔
لیجیے اب مجھے اپنا دوسر اور دلچسپ واقعہ ستانے لگا، وہ بھی سناتی چلوں۔ باذوق لوگوں کو شاعری سے بڑی دل چسپی ہوتی ہے۔ اور کبھی کبھی کسی بے ذوق کو بھی اس سے دل چسپی پیدا ہو جاتی ہے (جیسے کہ میں)۔ لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ شاعری کے تئیں میری دیوانگی سامعین کو راس آہی جاتی ہے۔ اور ان کو خوش کرنے کا کوئی موقع میں ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیتی(دوسروں کو خوش کرنا بھی نیکی ہے) یہ الگ بات ہے کہ وہ میرا دل رکھنے کو خوش ہونے کی اداکاری کرتے ہیں، اور اکثر میری حوصلہ افزائی بھی فرماتے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اکثر و بیشتر بیت بازی مقابلوں میں ٹیم کے انعام کے ساتھ انفرادی انعام ضرور ملا(دل رکھنے کا عمل اتنا شدید بھی ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہ تھا)۔
بہرحال ایک بارابتدا میں ایک واقعہ اس کے بالکل بر خلاف ہوا۔ ہو ا یہ کہ بیت بازی کے پہلے ہی راؤنڈ میں میری ٹیم کو باعزت بری کر دیا گیا۔ اس کے بعد لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کہنا شروع کر دیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم زیادہ اچھا پرفارم کر رہی تھی اس کو مقابلے سے نہیں نکالنا چاہیے تھا۔ اسی دوران یہ بھی پتہ لگا کہ جج صاحب کے کالج کی ٹیم ہمارے سامنے تھی اس لیے ان کو سلیکٹ کرنے کے چکر میں ہم نکال دئیے گئے ہیں۔ بہر حال جتنا دکھ مجھے ہو رہا تھا اس سے کہیں زیادہ آڈیٹوریم میں موجود لوگوں کو ہورہا تھا۔وہ ہوٹنگ کر رہے تھے اور طرح طرح کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ اب توجج صاحبان فیصلہ آگیا ہے،اب ہم اس مقابلے سے تو باہر ہو ہی گئے ہیں،تو کیوں نہ جب تک مقابلہ چل رہا ہے گرما گرم چائے پی لی جائے۔ اس ارادے سے ہی باہر نکل ہی رہی تھی کہ ہمارے ایک استاد محترم نے دیکھ لیا۔ انہوں نے ریسرچ اسکالر سے کہا بھی کہ دیکھو ناراض ہو کر جا رہے ہیں۔ بہر حال ہم نکلے ،چائے پی۔جب تک اس ٹیم کا مقابلہ بھی ختم ہو گیا۔ ہمارے نکلنے سے شاید رونق نہ رہی ہو (یہ میری خوش فہمی ہے کیونکہ وقت مکمل ہو گیا تھا) ۔۔۔
اگلی بار پھر میں نے اسی انٹر یونیورسٹی کے مقابلہ میں حصہ لیا۔ اور پرانی بات کو یاد کر کے زیادہ قوت جمع کر کے اور زیادہ ہمت و حوصلہ سے رونا( اشعارپڑھنا) شروع کر دیا لیکن ہم جو کچھ سوچتے ہیں تو ہوتا کچھ اور ہی ہے لیکن جو کچھ ہوتا ہے اچھا ہی ہوتا ہے۔ آخری رائونڈ سے پہلے اتفاقاً پھر سے ایک بار پھر وہی جج تھے اور ہمارے سامنے وہی ٹیم،اور ہونا کیا تھا جج صاحب کی اپنی ٹیم سے محبت نے پھرجوش مارا اور ایک بار پھر ہماری ٹیم باہر،لیکن اس بار کچھ سینئیر لوگ جو اس واقعہ کو جانتے تھے، ایک ایک نکتے پر غور کر رہے تھے۔ اس بارانہوں نے اس میں مداخلت کرنا ضروری سمجھا اور کچھ لوگوں کی کوشش اور دوسرے سینئر اساتذہ کے مشورے سے ہمیں دوبارہ شامل کر لیا گیا۔ لیکن جب انہوں نے ہمیں باہر کرنے کا اعلان کیا تھا تبھی میری ایک ساتھی گھر جا چکی تھی۔ اب ہم دو کو ہی ان کا مقابلہ کرنا تھا۔ جیسے تیسے وہ راؤنڈ بھی ہو گیا اور فائنل راؤنڈ میں پہنچ گئے حالانکہ ٹیم کی ایک ساتھی کے نہ ہونے کی وجہ سے تھوڑی پریشانی بھی ہورہی تھی کیونکہ سامنے والی ٹیم تین لوگوں کی تھی اور ہم صرف دو۔اس لئے ہمارے اشعار کا اسٹاک بھی جلدی جلدی ختم ہوتا جارہا تھا۔خداخدا کرکے وہ راؤنڈ مکمل ہوا،اور ہم فائنل راؤنڈ میں پہنچ گئے ،اور ہماری خوش قسمتی دیکھتے جائیے کہ فائنل میں بھی وہی ٹیم اور وہی جج صاحب،چونکہ یہ رائونڈ الفاظ پر اشعار پڑھنے کا تھا،یعنی جج صاحب کے دئے گئے لفظ پرشعر پڑھنا تھا۔ انہوں نے ہمیں پہلا لفظ دیا ’’دلدل‘‘ اور میں نے بھی وہم وگمان میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس لفظ کا استعمال شاعری میں ہوتا ہوگا۔ جتنا وقت ملا اس میں یہی سوچتی رہ گئی کہ اس کا استعمال شاعری میں ہوتابھی ہے؟؟۔ لہٰذا ٹائم ختم۔۔۔۔ اب انتظار کر رہی تھی اگلے لفظ کا اور دعا بھی کر رہی تھی کہ اب ایسا لفظ آئے جس پر شعر یاد ہو یا نہ ہولیکن شاعری میں کہیں پڑھا یا سنا تو ضرور ہو۔ اور جب وہ لفظ دیا گیا جس کے لیے اتنی دعا مانگی وہ تھا’ ’ قبرستان‘‘ اور اسی کے ساتھ ہمارا بیڑا غرق ہو گیا۔ اس وقت کی کیفیت بیان کروں تو کئی اشعار ذہن میں آرہے ہیں مثلا:
لکھنا میرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
ارے اس شعر میں تو قبر آیا ہی نہیں،اسی طرح کے کئی اشعار د ل دل میں دوہرا لئے لیکن یہ کمبخت لفظ قبرستان کہیں فٹ ہوکر نہیں دے رہا ہے اور اسی کے ساتھ ٹائم ختم۔پہلا دوسرا اور تیسرایہاں تک کہ تینوں انعام سے ہی ہاتھ دھولیا ۔ لیکن شاید میری صورت دیکھ کر ترس کھا کر انفرادی انعام سے نوازا گیا۔ لیکن ’قبرستان‘ موٹے موٹے حرفوں میں میرے ذہن کے کسی صفحے پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو گیا۔
اب جب بھی کسی دیوان یا کسی بھی کلام کو پڑھتی ہوں اگر لفظ قبرستان نظر سے گذر جائے تو وہیں ٹھہر جاتی ہوں۔ اس کو دوبارہ پڑھ کر یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں تا کہ آئندہ اس قبرستان کی وجہ سے کبھی وہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔اس وقت تو میں نے اشعار ہی کیاقبرستان پر ہر زاویے سے غور کیا ۔اس دوران میرے دماغ میں یہ بھی بات آئی کہ شب برات کے دوران جب لوگ قبرستان جاتے اور مردے گھر آتے ہوں گے تو ان کی ملاقات توپھر بھی نہیں ہوتی ہوگی۔۔۔۔ ۔
اتنا ہی نہیں بلکہ اس بیت بازی کے بعد چند دنوں تک ہر بات کا جواب میں ایک ہی جملہ میں دیتی تھی:
’’ہم اپنا قبرستان ساتھ لئے پھرتے ہیں‘‘
سوال:کہاں جارہی ہو؟جواب:’ہم اپنا قبرستان ساتھ لئے پھرتے ہیں‘ ‘‘
اس پر ہی بس نہیں ہوئی بلکہ اس سے بھی واہیات واہیات لطائف یاد کر رکھے ہیں:
٭ایک چرسی قبرستان میں بیٹھاچرس پی رہا تھا۔پولیس آئی تو چرس ایک قبر میں چھپانے لگا۔پولیس نے پوچھا ادھر کیا کر رہے ہو؟چرسی:والد صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آیا تھا۔پولیس :لیکن یہ قبر تو بچے کی ہے۔چرسی:والد صاحب بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔
٭ایک پٹھان بیوی کو گھمانے کے لئے قبرستان لے گیا۔بیوی نے کہا:یہ بھی کوئی گھومنے کی جگہ ہے؟پٹھان نے کہا پاگل لڑکی!یہاں آنے کے لئے لوگ مرتے ہیں،تو نخرے کرتی ہے۔
ویسے اب قبرستان جانا میرا بھی محبوب مشغلہ ہے۔اب بھی کوئی بات بنتی نہیں ہے قبرستان جائے بغیر۔ ۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں