اب ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے
بات ہوتی ہے مگر بات نہیں ہوتی ہے
جب سے اوڑھی ہے سیاہی نے سپیدی کی ردا
دن ہی دن ہے یہا ں اب رات نہیں ہو تی ہے
مدحیہ کوئی قصیدہ لکھو یا ہجو کہو
کوئی تبدیلیِ حالات نہیں ہو تی ہے
شاعری خوب کرو عشق میں برباد پھرو
اس سے کم عزتِ سادات نہیں ہو تی ہے
پہلے سے کہتے ہیں پھر اس پہ ڈٹے رہتے ہیں
لیکن اس سے گزر اوقات نہیں ہو تی ہے
فکر کو ضبط سے ہم لفظ کیا کر تے ہیں
ہم پہ عرفان کی برسات نہیں ہو تی ہے
طنز تو کرتے ہیں شکوے نہیں کرتے شہپر
اس سے عریانیِ جذبات نہیں ہو تی ہے
نغمۂ خامشی جو شور میں گا آتا ہے
ایک مشعل سی اندھیرے میں جلا آتا ہے ل
وقت اپنا ہو تو آواز کے پر لگتے ہیں
اُس سے پہلے تو یہاں اُس کا کہا آتا ہے
راہ تنہائی کا طعنہ نہیں دے پاتی مجھے
ساتھ میرے کوئی نقشِ کفِ پا آ تا ہے
اس کو سن کر ہی ملاقات سی کر لیتے ہیں
اب تو آواز میں وہ خود بھی چلا آتا ہے
کچھ اچانک سے جو ہو جاتا تھا’ ڈر جاتے تھے
آج ان باتوں کو سوچیں تو مزہ آتا ہے
اُڑ نے لگتا ہوں میں جیسے اُسے پڑھ کر شہپر
صفحۂ بادِ صبا پر جو لکھا آ تا ہے
ہم جو ہر بار ہیں فہرست میں آئندہ کی
داد دیتے ہیں تری چشمِ شمارندہ کی
سب بھلا بیٹھے تھے حق بات پہ جاں دیدینا
ہم نے مر کر ہی روایت تو کوئی زندہ کی
عقل سب شعر بنانے میں کھپا دیتے ہیں
بات کر تے ہیں سخن نامۂ آئندہ کی
خال و خط لمس و نظر جیسے چمک اٹھتے ہیں
یاد آ تی ہے جو اک لمحۂ رقصندہ کی
یہ جو لہجے کا فسوں ہے یہ غضب کرتا ہے
لفظ اب کے ہیں مگر گونج ہے آئندہ کی
جھوٹی آوازوں کا گنبد ہے ادب بھی شہپر
کون سنتا ہے صدا حرفِ نمائندہ کی
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں