مشتاق احمد یوسفی
آج پھر ان کے اعزاز میں حضرت رنجور اکبرآبادی، ایڈیٹر، پرنٹر، پبلشر و پروف ریڈر، سہ ماہی ’’نیا افق‘‘ نے ایک عصرانہ دیا تھا۔ جس دن سے پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم۔اے، بی۔ٹی گولڈ میڈلسٹ (مرزا سے روایت ہے کہ یہ طلائی تمغہ انہیں مڈل میں بلا ناغہ حاضری پر ملا تھا) یونیورسٹی کی ملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد بنک آف چاکسو لمیٹڈ میں بحیثیت ڈائرکٹر پبلک ریلیشنز اینڈ ایڈورٹائزنگ دھانس دیے گئے تھے، ان کے اعزاز میں اس قسم کے عصرانے، استقبالیے اور عشائیے روزمرہ دفتری زندگی کا جزو بلکہ جزو بدن بن گئے تھے۔ گھر پر اکل حلال تو صرف دورانِ علالت ہی زہر مار فرماتے تھے، ورنہ دونوں وقت ’’اعزازیہ‘‘ کھاتے تھے۔ بنک کی ملازمت پروفیسر موصوف کے لیے ایک عجیب تجربہ ثابت ہوئی، جس کی قیمت وہ بہر طور مہینے کی تیس تاریخ کو وصول کرلیتے تھے۔
معاف کیجیے، اس خاکے میں ہم انہیں پروفیسر ہی کہیں گے۔ بقول۔۔۔ آدمی ایک دفعہ پروفیسر ہو جائیے، تو عمر بھر پروفیسر ہی کہلاتا ہے، خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔ درس و تدریس تو ایک حیلۂ شرعی تھا، ورنہ بقول مولانا محمد حسین آزاد، پروفیسر کا ’’پیشہ توکل تھا اور بے دماغی سے اسے رونق دیتے تھے۔‘‘ وہ کسی کے دبیل نہیں تھے۔ دبنگ اور دلیر آدمی تھے اور خطرے سے ڈرنا یا بچنا تو کجا، بسا اوقات سانپ کو رسی سمجھ کر گتھ مرتے تھے۔ ان کی جرأت اب شجاعت سے گزر کر تہور، اور تہور سے گزر کر حماقت کی ماورائی حدوں میں داخل ہو چکی تھی۔ کوئی شخص ان سے ملازمت، بحث یا برج میں سبقت لے جائے تو اس کے پورے صوبے سے نفرت ہو جاتی تھی۔ برصغیر ہند و پاکستان کا کوئی صوبہ بچا ہوگا، جس سے ان کی ذاتی عداوت نہ ہو۔ بلکہ اب تو چھوٹی تھوٹی تحصیلیں آنکھیں دکھانے لگی تھیں۔
وائس چانسلر کو بھری میٹنگ میں ’’شٹ اپ!‘‘ کہنے کے بعد وہ تین مہینے کی رخصت لے کر گھر بیٹھ گئے۔ اور اجتجاجاً اخبار تک پڑھنا ترک کر دیا کہ اس میں گاہے ماہے وائس چانسلر کی تصویر چھپ جاتی تھی۔ یوں بھی انہوں نے زندگی بھر زبان کے علاوہ کسی دوسرے عضو کو تکلیف نہیں دی تھی، لیکن اب چوبیس گھنٹے میں ایک دفعہ بلا کی چستی دکھاتے تھے۔ وہ اس وقت جب دن بھر آرام کرسی پر اونگھتے رہنے کے بعد وہ شام کو آٹھ بجے سونے کے لیے بڑی پھرتی سے جست لگا کر پلنگ پر چڑھتے تھے۔ اپنے پیشے سے تنگ آچکے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارا خیال آجاتا ہے ورنہ اکثر جی میں آتا ہے کہ گھر (یہ گھر یونیورسٹی کا تھا۔ اور جس فرنیچر سے آراستہ تھا، اس کا سال بھر کا کرایہ چڑھا ہوا تھا۔ ) کو آگ لگا کر کسی غیر آباد جزیرے میں ایک لوٹا، ڈور، فروٹ سالٹ اور دیوانِ غالب لے کر چلا جاؤں۔
عالم بیزاری میں ایک دن پاک بوہمین کافی ہاؤس (PAK BOHEMAIN COFFFEE HOUSEجہاں مرزا روزانہ شام کو لونڈہار مچائے رکھتے) میں نتھنوں کی چمنی سے KING STORK سگرٹ کا دھواں خارج کرنے کے بعد کرسی پر اکڑوں بیٹھ گئے اور مٹھی بھینچ کر کہنے لگے، ’’اگر میں اس ملک کا پرائم منسٹر ہوتا تو۔۔۔‘‘
’’تو۔۔۔؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’تو یونیورسٹی میں نوکری نہیں کرتا۔‘‘ انہوں نے مٹھی کھول دی۔
وہ پرائم منسٹر ضرور ہونا چاہتے تھے، مگر جس مقدارمیں وہ ذہنی سکون اور فرصت چاہتے تھے، وہ ہمارے ہاں صرف پرائمری اسکول کے ماسٹر کا حصہ ہے۔ ’’فراغتے و کتابے‘‘ کا جہاں اتنا عمل دخل ہو تو آپ خود قیاس فرما سکتے ہیں کہ معلمی کا پیشہ چھڑوانے میں ہمیں کیسے کیسے سبز باغ دکھانے پڑے ہوں گے۔ لیکن اس کار ثواب میں ہمیں زیادہ جھوٹ نہیں بولنا پڑا، اس لیے کہ علم و ادب سے بیزار کرنے میں علمائے جامعہ نےایسا مؤثر کردار ادا کیا کہ پروفیسر کا دل اپنے کسب سے کھٹا ہوگیا۔ دوران رخصت خبر آئی کہ یونیورسٹی نے ان کے ایک ’’جونیئر‘‘ کو ۱۸۵۷ء میں دلی کے سودا بیچنے والوں کی آوازوں پر ریسرچ کرنے سات سمندر پار لندن بھیجا ہے۔ پروفیسرنے اسی وقت ہمارے بیٹے کی چار لائن والی کاپی پر استعفیٰ لکھ کر بیرنگ پوسٹ کردیا اور اپنا نا تمام تھیسس ’’چاکسو (خورد) کا دبستانِ شاعری‘‘ (جس کا موضوع ان شعرا کا کلام تھا، جن کی ولادت کہیں اور ہونے کے بجائے چاکسو خورد میں ہوگئی تھی) پھاڑ کر پھینک دیا۔ اس تھیسس کے پندرہ سال تک ادھورے رہنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بعض ایسے شعرا جن پر وہ تبصرہ کرنا چاہتے تھے، ان کے انتقال میں ابھی خاصی دیر معلوم ہوتی تھی۔
تو یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب پروفیسر اپنی بوسیدہ کشتی جلا ہی نہیں چکے تھے بلکہ امن کی راکھ سے تن پر بھبھوت رمائے مورکھوں کے من کی آنکھیں کھولتے پھرتے تھے۔ کلاس روم سے بنک تک پہنچنے میں پروفیسر کو کس صراط غیرمستقیم سے گزرنا پڑا، یہ ان کا دل جانتا ہے یا ہم۔ اس کا ذکر کسی نامناسب موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ بنک میں افسری سے ان کے کندھوں کا پروفیسرانہ خم تو دور نہ ہوا، مگر بہت سی اور خوشگوار تبدیلیاں، کچھ ازخود کچھ اوروں کے کہنے سننے سے، ان کی شخصیت میں پیدا ہوتی چلی گئیں۔
اب تک ان کی شخصیت SELF۔MADE (خود ساختہ) تھی۔ یعنی اس میں انہوں نے درزی، دھوبی، ڈاکٹر اور نائی کو اصلاح کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا تھا۔ پروفیسری کے ابتدائی ایام میں جب لڑکے بالکل لڑکوں ہی کی سی حرکتیں کرنے لگے تو ہم سب نے صلاح دی کہ لب و لہجہ میں ڈپٹ اور شخصیت میں رعب داب پیدا کرو۔ دوسرے ہی دن انہوں نے جوتوں میں پون اِنچ موٹا تلا لگوالیا اور اونچی باڑھ کی ٹوپی پہننی شروع کردی، جس سے قد تو خیر کیا بڑھتا، البتہ خودی اتنی بلند ہوگئی کہ ہم نے انہیں بادشاہی مسجد کے دروازے سے بھی جھک کر نکلتے دیکھا۔ رائی زورِ خودی سے پربت بن چکی تھی۔ کردار بھی ان کا اپنا نہیں رہا تھا۔ شاہین کی خصلت اختیار کرلی تھی۔ یعنی بار بار اپنے موضوع اور مخاطب پر۔۔۔ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا۔
جھوٹ کیوں بولیں ہم نے کبھی شاہین نہیں دیکھا۔ اللہ جانے، اس کے مونچھیں ہوتی ہیں یا نہیں۔ بہرحال انہوں نے رکھ لی تھیں جو برابر تاؤ دیتے دیتے کاگ کھولنے کے اسکریو جیسی ہوگئی تھیں۔ دائیں مونچھ ہمیشہ سفید رہتی تھی۔ اس لیے کہ بلیک بورڈ پر سفید چاک سے لکھتے لکھتے اسی چٹکی سے پانی دیتے رہتے تھے۔ اور یہ عادت اتنی راسخ ہوچکی تھی کہ حالانکہ بنک میں تقرر یا خط ملتے ہی مونچھ کا صفایا کردیا، لیکن بے چین چٹکی سے مہینوں اس جگہ کو تاؤ دیتے رہے جہاں کبھی مونچھ ہوا کرتی تھی۔ ان تبدیلیوں کایہ اثر ہوا کہ لڑکوں نے ان کے لیکچر کی فاش غلطیوں پر ہنسنا چھوڑ دیا۔ اب ان کے حلیے پر ٹھٹھے لگاتے تھے۔
تقرر کے تین مہینے بعد بنک نے پروفیسر کو تعلقات عامہ اور ایڈورٹائزنگ کی تربیت کے لیے چھ ہفتے کے کورس پر پیرس بھیجنے کے احکام صادر کیے۔ اور یہ بھی پیش کش کی کہ اگر آپ اپنی بیگم کو ہمراہ لے جائیں تو ہمیں عین مسرت ہوگی۔ دونوں کے فرسٹ کلاس ٹکٹ اور ہوٹل کے جملہ اخراجات بنک کے ذمے ہوں گے۔ خط ملتے ہی دماغ میں شہنائیاں بجنے لگیں۔ کراچی کی ان تمام خواتین کی، جن کے جملہ حقوق ہنوز غیر محفوظ تھے، ایک مکمل فہرست ہم سے بنوائی اور پھر پسر گئے کہ سردست ان میں سے کسی ایک سے دو بول پڑھوا دو تاکہ ٹکٹ بیکار نہ جائے اور ہنی مون مفت پڑے۔ اگر مرزا نے ایک ہی فقرے سے ان کے ذہن کی ساری گرہیں نہ کھول دی ہوتیں تو خدا جانے کب تک ہماری جان کو آئے رہتے۔ فرمایا، ’’بیوی کو پیرس ڈھوکر لے جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ایورسٹ سر کرنے نکلے اور تھرماس میں گھر سے برف کی ڈلی رکھ کر لے جائے!‘‘
پیرس (جسے اب وہ پیار میں ’’پیری‘‘ کہتے تھے) سے لوٹنے کو تو لوٹ آئے لیکن دماغ وہاں کے قہوہ خانوں اور دل قحبہ خانوں میں چھوڑ آئے۔ جسدِ خاکی کو پاکستان میں گھسیٹے پھر رہے تھے۔ سامنے نادہندوں کے بہی کھاتے کھلے پڑے ہیں، مگر آنکھوں میں وہی کتابی چہرے پھر رہے ہیں کہ دیکھیں جن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ۔
ایک ایک سے پوچھتے تھے پاکستان میں انقلاب فرانس کب آئے گا؟ اس انقلاب کی پذیرائی کے لیے وہ اپنی پتلون کی ’’کریز‘‘ استرے کی دھار جیسی بنائے رکھتے تھے۔ پرانی وضع کی غرارے نما پتلونوں کے پائینچے ان کی ہمشیرہ نے گاؤ تکیوں پر بطور غلاف چڑھا دیے اور ان کی اونچی باڑھ کی ٹوپی سے ایک خوبصورت ٹی کوزی بنائی، جسے اٹھاتے ہی ان کا سر یاد آتا تھا۔ پہلے اپنے والد ماجد کو بھی خط لکھتے تو آخر میں ’’تابعدار، پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم۔ اے، بی۔ ٹی، گولڈ میڈلسٹ‘‘ لکھ کر، گولڈ میڈلسٹ کے نیچے احتیاطاً خط کھینچ دیا کرتے تھے کہ بندہ بشر ہے، مبادا نظر چوک جائے، لیکن اب کاغذ پہ کلیجہ نکال کے رکھ دینے کے بجائے بینکروں کے طرز پر دستخط کی جگہ ایک جلیبی سی بنا دیا کرتے تھے، جس کی نقل کم از کم کاغذ پر کوئی حلوائی بھی نہیں کر سکتا۔ کالر میں دھوبی سے خاص طور پر کلف لگواتے۔ خود بھی انگریزی تلفظ میں خوب کلف لگانے لگے تھے۔ دلدر دور ہوتے ہی وقت کی پابندی بھی تکلیف دہ حد تک کرنے لگے۔ جب سے اندھیرے میں وقت بتانے والی قیمتی گھڑی خرید کر لائے تھے، انہیں دن سے سخت الجھن ہونے لگی تھی۔ فرشی نشست کے بچپن سے عادی تھے۔ وہ ترک تو نہیں کی، لیکن اب گاؤ تکیے کا سہارا لے کر نہیں بیٹھتے تھے۔ اسے گود میں لے کر بیٹھتے تھے۔ مختصر یہ کہ ’’پرسنیلٹی‘‘ نکل آئی تھی۔ بیل گاڑی میں جیٹ لڑاکا ہوائی جہاز کا انجن لگ گیا تھا۔
مدیر سہ ماہی ’’نیا افق‘‘ جنہوں نے یہ عصرانہ ترتیب دیا تھا، شعر کا عجب مذاق رکھتے ہیں۔ شعر کو غلط پڑھ کر اور غلط سمجھ کر بھی اس قدر لطف اندوز ہوتے ہیں کہ اچھے اچھے صحیح سمجھنے والے بغلیں جھانکتے رہ جاتے ہیں۔ روزمرہ بات چیت میں بھی خود کو راقم الحرف کہتے ہیں۔ جیسے ہی ہم ٹاٹ کا پردہ اٹھاکر ’’نیا افق‘‘ کے دفتر میں داخل ہوئے، مدیر موصوف نے ہمارے سلام کے جواب میں دو تین دفعہ اپنا ہاتھ بگلے کی گردن کی طرح موڑ موڑ کر ہمیں دکھایا، جسے ہم نے بدتمیزی سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ مگر جونہی ہمارا سر چھت سے ٹکرایا، ہماری سمجھ میں آگیا کہ رنجور صاحب نے جو ہاتھ کا بگلا بناکر ہمیں چڑایا تھا تو وہ در اصل سرگھٹنوں میں دے کر چلنے کا اشارہ تھا، کیونکہ دفتر کی چھت مشکل پانچ فٹ اونچی ہوگی۔ وہ تو خدا بھلا کرے مرزا کا، اگر وہ ہماری گردن میں لٹک کر ہمیں فی الفور دہرانہ کر دیتے، تو ہمارا کاسہ سر اوپر چلتے ہوئے پنکھے سے کب کا بڑی صفائی سے ترش کر ان کے قدموں میں جا گرا ہوتا۔ اور ہم تو کیا، ہمارے بیمے کی رقم تک خردبرد ہوچکی ہوتی۔
سر اتارنے کے علاوہ پنکھے کا ضمنی مصرف، بقول شخصے، گرم ہوا کو سارے کمرے میں بحصہ مساوی پھیلانا تھا تا کہ کوئی حصہ محروم نہ رہ جائے۔ جیسے ہی ہم سر اور تن کے نازک سے رشتے کی حفاظت کرتے ہوئے آگے بڑھے، مدیر سہ ماہی ’’نیا افق‘‘ نے اپنا بایاں ہاتھ مصافحہ کے لیے پیش کیا۔ ہم نے بھی اخلاقاً اپنا بایاں نکالا تو چاروں طرف سے کھی کھی کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم نے جھینپ کر جھٹ اسے دائیں جیب میں ٹھونسنے کی کوشش کی۔ پھر یاد نہیں، کون سی جیب میں سے اپنا دایاں کھینچ کر نکالا اور اسے ان کے بائیں سے ملوانے کی کوشش کی۔ کھی کھی۔ کھی کھی کی آوازیں اور تیز ہوگئیں۔ تڑپ کر انہوں نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور دونوں ہاتھوں سے ہماری دائیں کلائی مروڑ کے ہتھیلی کا رخ اپنی جانب کیا۔ پھر ہماری ہتھیلی کو اپنی ہتھیلی سے دوتین دفعہ خلوص سے رگڑا، جسے ہم ان حالات میں مصافحہ کہہ دیں تو مبالغہ نہ سمجھا جائے۔
در اصل بھول ہماری ہی تھی۔ اس لیے کہ ہر شخص جانتا تھا کہ رنجور صاحب دو سال سے بائیں ہاتھ سے مصافحہ کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ بارہ سال سے وہ بائیں ہاتھ میں ایک سوٹ کیس لٹکائے پھرتے تھے، جسے از راہِ انکسار بریف کیس کہتے تھے۔ اس میں بارہ سال کے سارے کرتوت، یعنی تمام خاص نمبر اور بیگم کے ہاتھ کی بنائی ہوئی گلوریاں بند رہتی تھیں۔ دونوں میں ایک دوسرے کی بوباس اس طرح رچ بس گئی تھی کہ مشتہرین کو ’’طوائف نمبر‘‘ کھول کر دکھاتے تو محسوس ہوتا گویا پاندان کھل گیا اور کبھی ورق نقرہ میں لپٹی، لکھنوی قوام اور سستی خوشبوؤں کے بھبکے مارتی گلوری کھلا دیتے تو لگتا کہ ’’طوائف کی پاپ بیتی‘‘ بلکہ خود اسی کو چبارہے ہیں۔ بریف کیس اٹھائے پھرنے سے ان کا بایاں کندھا مستقلاً جھک گیا تھا۔ اور اب یہ زنبیل ہاتھ میں نہ ہو تب بھی ان کا بایاں ہاتھ گھٹنے کو چھوتا تھا۔ جب انہیں دنیائے ادب میں LEANING TOWER OF PISA کے لقب سے یاد کیا جانے لگا تو شروع شروع بہت اتراتے پھرے۔ پھر ایک دن مرزا نے تخلیہ میں سمجھایا کہ اشارہ تمہارے سیاسی جھکاؤ کی طرف نہیں ہے تو چونک پڑے۔
’’اچھا! یہ بات ہے!‘‘ کندھوں کی بارہ سال پرانی کان نکالنے کے لیے مرزا نے یہ ورزش تجویز کی کہ آئندہ بارہ سال تک دوسرے ہاتھ سے اٹھاؤ۔ چنانچہ انہوں نے بریف کیس دائیں ہاتھ میں منتقل کردیا اور بائیں ہاتھ سے مصافحہ کی عادت ڈالی۔ گلوری بھی اب بائیں کے بجائے دائیں کلے میں رکھنے لگے تھے۔ یہ اسی زمانے کا ذکر ہے۔
متذکرہ مصافحہ ہو چکا تو پروفیسر نے ہمارا تعارف کرایا کہ آپ سے ملیے۔ آپ ہمارے ساتھ پانچویں جماعت میں دینیات کے پرچے میں نقل کرکے فیل ہوئے تھے۔ اس وقت دوچھتی کے نیچے دس بارہ آدمی بیٹھے ہوں گے، حالانکہ کرسیاں دو ہی نظرآ رہی تھیں۔ ایک کی ٹانگیں شرابی جیسی تھیں۔ اس پر میزبان یعنی مدیر ’’نیا افق‘‘ لڑکھڑا رہے تھے۔ دوسری کی پشت اور پایوں کا گھنا ہوا حصہ چھ چھ انچ کاٹ دیا گیا تھا۔ اس پیڑھی پر مہمان خصوصی کنڈلی مارے بیٹھے تھے۔ ان کی ٹھوڑی میز پر اس طرح دھری تھی جیسے میلوں اور قصباتی نمائشوں کے جادو گھر میں مداری کے جھمورے کا کٹا ہوا سر رکھا رہتا ہے۔ سامنے ’’نیا افق‘‘ کی ناقابل فروخت کاپیوں کے بنڈل دیوار کے ساتھ بڑے قرینے سے چنے ہوئے تھے۔ ان پر رسالے کے قلمی معاونین بٹھائے گئے تھے۔
یہ نہیں کہ میزبان کو اپنے عزیز مہمانوں کی بے آرامی کا احساس نہ تھا۔ ہر آنے والے کی آؤ بھگت وہ اس طرح کرتے کہ جھپاک سے اپنے نیچے سے روئی کی گدی نکال کر اسے پیش کرتے۔ اور ’’جی آپ! نہیں آپ! ارے صاحب! کیوں کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں؟‘‘ کی پرتکلف تکرار کے بعد اسے واپس اپنی ہی کرسی پر ڈھک دیتے کہ موخرالذکر میں ایک سوراخ تھا، جس میں سے دو فٹ بال بغیر رگڑ کھائے گزر سکتے تھے۔ دروازے کی بائیں جانب تین زنگیائے کنستروں پر دفتر کا سائن بورڈ رکھ کر بجتا ہوا صوفہ بنا دیا گیا تھا۔ یہ نشست نقادوں کے لیے مخصوص تھی۔ میں ناقابل اشاعت فحش افسانوں کے ایک پلندے پر بٹھایا گیا، جن کی گرمی بھی ابھی ٹھیک سے نہیں نکلی تھی۔
ملحقہ کمرے سے ہر عمر کے بچوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دفتر کی دیواریں دیکھ کر خیال ہوتا تھا کہ یہاں سلیٹ کا رواج نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد انہیں میں کا ایک بچہ ایلومینیم کا جگ لے کر آیا اور مشروب مشرق یعنی خالص پانی کا دور چلا۔ پانی واقعی نہایت شفاف تھا۔ اتنا شفاف کہ گلاس کا گندا پیندا صاف نظر آ رہا تھا۔ ذرا دیر میں سب چھک گئے تو پان پیش کیے گئے، جنہیں اس دفعہ گلوری کہنے میں اس لیے تامل ہے کہ وہ اتنے ننھے منے تھے کہ چھا لیا کے دانے ان میں سما نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا چھا لیا الگ سے پیش کی گئی۔ ہاں تمباکو وافر مقدار میں تھا۔ جس کا جتنا جی چاہے، کھالے۔ ان تکلفات کے بعد جلسے کی کارروائی شروع ہوئی۔ چار نامور نقادوں نے پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم۔ اے، بی۔ ٹی (گولڈ میڈلسٹ) کے مضمون، ’’موازنۂ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ و شیخ امام بخش ناسخ‘‘ پر مقالے پڑھے۔ یوں تو یہ مضمون پروفیسر موصوف نے پچیس سال پہلے اپنے زمانۂ طالب علمی میں سپرد قلم کیا تھا، مگر نقادوں نے اس پر بالکل نئے زاویوں سے روشنی ڈالی تھی۔
اخیر میں مرزا عبد الودود بیگ نے خطبۂ اختتامیہ پڑھ کر حق دوستی ادا کیا۔ انہوں نے ’’بینک آف چاکسوادبی انعام‘‘ کی ایک انقلابی تجویز بھی پیش کی۔ تجویز یہ تھی کہ کچھ قلم کے دھنی ایسے ہیں جو اگر لکھنے سے باز آجائیں تو اردو پر بڑا احسان ہوگا۔ بنک آف چاکسو پرائز انہی محسنوں کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ اس بات کی پوری چھان بین کرنے کے بعد کہ کس مصنف نے سال بھر واقعی کچھ نہیں لکھا ہے، جج سالانہ پھسلاوے کا اعلان کریں گے۔ انعام یافتہ مصنف اگر پرورش لوح و قلم سے سیدھی طرح باز آجائے تو ’’لائف پنشن‘‘ کا حقدار ہوگا جو بشرط نیک چلنی اسے ماہ بماہ ملتی رہے گی۔ اگر بروقت موت واقع ہوجائے تو بیوہ کے لیے معقول وظیفہ بھی مقرر کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ تمام غیرمطبوعہ تخلیقات جو مرحوم چوری چھپے کرتے رہے، ان کے ساتھ ہی دفن کردی جائیں۔ اس پر ہم نے زور زور سے تالیاں اور پاس والا کنستر بجایا۔ اور اللہ جانے، کب تک بجاتے رہتے اگر مرزا یکایک یہ اعلان نہ کردیتے کہ اس سلسلہ کے پہلے انعام کا مستحق سارے پاکستان میں ہم (یعنی راقم السطور) سے زیادہ اور کوئی نہیں!
ہماری یہ درگت ہفتے میں چار پانچ دفعہ ضرور بنتی تھی۔ اس لیے کہ ہفتے میں چار پانچ دفعہ پروفیسر کے اعزاز میں کہیں نہ کہیں استقبالیہ ہوتا تھا، جہاں پہلی صف میں تالی بجاتے ہوئے فوٹو کھنچوانے کے فرائص ہمارے ذمہ ہوتے تھے۔ (مرزا کہتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کی تقریر کے بعد تمہاری تالی بالکل الگ سنائی دیتی ہے۔) دفتر میں اپنی مصروفیت کے بارے میں دن بھر باتیں کر کر کے پروفیسر خود کو بری طرح تھکا لیتے تھے۔ ایک عمر نیکی و ناکامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد اب وہ جہاں نظر آتے، گوٹے کے ہار پہنے، افتتاحی فیتے کاٹتے نظر آتے۔ یہاں تک سننے میں آیا کہ ان تمام ضیافتوں کا خرچ پروفیسر خود اٹھاتے ہیں، صرف ایک استقبالیہ کا بار انہوں نے نہیں اٹھایا۔ اس کا مفصل حال ہم آپ کو سنا چکے ہیں۔
سات آٹھ مہینے تک تو ان کے تقرر کی خوشی میں دعوتیں ہوتی رہیں۔ اور اس کے بعد غالباً اس خوشی میں کہ وہ ابھی تک برخاست نہیں ہوئے تھے۔ ہو یہ رہا تھا کہ سستے اور فلمی رسالے بنک کے اشتہار کی گھات میں رہتے اور موقع پاتے ہی (جو پروفیسر مستقل فراہم کرتے رہتے تھے) نپا تلا وار کر جاتے۔ یعنی پروفیسر کا موازنہ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ وشیخ امام بخش ناسخ، جس میں انہوں نے ممولے کو شہباز سے لڑایا تھا، من و عن چھاپ دیتے۔ پروفیسر غریب اب ’موازنہ‘ کو جتنا دبانا اور چھپانا چاہتے، رسالے اتنا ہی اسے اچھالتے۔ گویا مصنف کو اسی کی تحریر سے بلیک میل کر رہے تھے۔ پروفیسر کو شہر کے ایک ایک بک اسٹال سے ایسے شماروں کی تمام کاپیاں بنک کے خرچ پر خرید کر جلانی پڑتیں تاکہ لوگ ’موازنہ‘ نہ پڑھ پائیں۔ اب وہ اپنے گڑے مردے کو اکھڑواکر روح پھنکواتے پھنکواتے عاجز آچکے تھے۔ مجبوراً موازنہ کی جگہ بنک آف چاکسو کے بارہ اشتہار بک کر کے ایڈیٹر کے منہ پر ایک سال کے لیے طلائی قفل لگا دیتے۔
پروفیسر کو ان کے ماضی کے ملبے سے کھینچ کر نکالنے کا سہرا مرزا کے سر ہے۔ ان کی ذہنی آبادکاری میں جو دشواریاں پیش آئیں، ان کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ پروفیسر کو نیک و بد کی تمیز ضرور تھی۔ اور اگر قوت باصرہ فرانس کی شمپین سے متاثر نہ ہو تو سیاہ و سفید میں بھی امتیاز کر سکتے تھے بشرطیکہ ان رنگوں کا تعلق نسوانی جلد سے ہو۔ مگر چھوٹے بڑے بیوپاری کی پہچان؟ یہ سوال انہیں ہمیشہ نصاب سے باہر معلوم ہوتا تھا۔ کسی کا ’’بنک بیلنس‘‘ ماتھے پر تو لکھا ہوتا نہیں۔ چنانچہ ایک دو مہینے تک یہ رویہ رہا کہ اگر کوئی شخص میلا مسلا کرتا پاجامہ پہنے، خط بڑھائے انگوٹھے اور کلمے کی انگلی سے باچھوں کی پیک پونچھتا بغیر کارڈ بھیجے کمرے میں منہ اٹھائے چلا آتا تو اسے دھکے دے کر تو نہ نکالتے مگر اس طرح پیش آتے کہ اس زحمت کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
غلط اردو بولنے والوں کو چائے تک کے لیے نہ ٹوکتے لیکن جب پہلی ہی بورڈ میٹنگ میں انہی میں کے چار اشخاص کو ڈائرکٹروں کی سرخ مخملی کرسیوں پر متمکن دیکھا (جن سے اپنے کمرے میں انہوں نے ہاتھ بھی نہیں ملایا تھا تاکہ بعد میں رگڑ رگڑ کر نہ دھونا پڑے) تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور چار ہندسے والی تنخواہ خطرے میں نظر آنے لگی۔ پھر تو دل میں ایسا ہول بیٹھا کہ سڑک پر کوئی بھی میلے کچیلے کپڑوں میں نظر آ جاتا تو فوراً سلام کر لیتے تھے۔
پروفیسر کی بوکھلاہٹ سے ان کی عظیم ذمہ داریوں کا اندازہ ہوتا تھا۔ اور ان عظیم صلاحیتوں کا بھی جن کے بغیر وہ بخوبی گزارہ کر رہے تھے۔ حواس مختل، زبان کھچڑی، لب و لہجہ اکھڑا اکھڑا۔ اور بات بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ غور تو فرمائیے۔ ابھی ملتان کے سوداگر چرم و پشم کے ساتھ اس پر شرط بدی جارہی ہے کہ حاجیوں کے پہلے جہاز کی واپسی پر تیزابی سونے کا بھاؤ کتنا گرے گا۔ اور اب FANNY HILL کے دوران خون کو تیز کرنے والے اقتباسات میز کی دراز سے نکال کر سنائے جانے لگے۔ پانچ منٹ پہلے ایک اشتہار کے طلب گار سے ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی کہ اس نے منہ بھر کر یوں کہہ دیا تھا کہ آپ ہر پھر کے اندھوں ہی کوریوڑی بانٹتے ہیں۔ اور اب یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ پانی کے دریاؤں (اس زمانے میں قرۃ العین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کا نام لوگوں کی زبان پر اس قدر چڑھا ہوا تھا کہ جب بھی اصلی دریا کا ذکر ہوتا تو پروفیسر موصوف ابہام سے بچنے کے لیے پانی کا دریا کہتے تھے۔) سے جو نقصان مشرقی پاکستان میں ہوا ہے، اس سے بنکوں کی شرح سود اور اردو رباعی پر کیا اثر پڑے گا۔
ایک ریسیور یہ کہہ کر رکھ دیا کہ ’’ذرا ایک منٹ توقف فرمائیے۔ میں ہانگ کانگ ڈالر کا بھاؤ ابھی معلوم کرکے بتاتا ہوں۔‘‘ دوسرے فون پر یکبارگی اپنا گیئر بدل کر کہنے لگے ’’واہ! واہ! کیا پھڑکتا ہوا مصرع نکالا ہے! ذرا پانچ منٹ بعد دوسرا بھی مرحمت فرمائیے گا۔‘‘ مگر مصرع ثانی والی گھنٹی پانچ کے بجائے دو منٹ بعد ہی بجنے لگی ’’ہیلو! ہیلو! واللہ! کیا تیور ہیں! بالکل مومن کا سا انداز ہے! ہائیں؟ کیا کہا؟ مومن ہی کا شعر ہے! لا حول و لا قوۃ! میں تو سمجھا آپ کا ہے! مگر مومن کی بھی کیا بات ہے! کبھی کبھی ظالم بالکل آپ ہی کے انداز میں شعر کہہ جاتا ہے!‘‘
کاروباری دنیا میں بالعموم شعر و شاعری کی گنجائش نہیں ہوتی مگر پروفیسر نے نکال لی تھی۔ مہینوں تک یہ حال رہا کہ ہر دو جملوں کے بعد ایک شعر جھاڑ دیتے تھے۔ اور یہ جملے بھی در اصل شعر ہی کی تمہید یا تعریف میں ہوتے تھے۔ ورنہ انہیں چھوٹ دے دی جاتی تو بنکاری کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ کا دوٹوک فیصلہ دیوانِ حافظ سے فال نکال کے کر سکتے تھے۔ مرزا ایک دفعہ ان سے ملنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ فارمیکا کی ہلال نما میز کے گرد خوش گلو و خوش خوراک شعرا اشیائے خوردنی کے ساتھ انصاف فرما رہے ہیں۔ اور بنک میں دن دہاڑے مشاعرہ لوٹ رہے ہیں۔ ٹیلی فون کا ریسیور اتار کر شاعر کے سامنے رکھ دیا گیا ہے تاکہ مشاعرے کی کارروائی صبغے تک ’’ریلے‘‘ کی جا سکے جو چار میل دور صدر میں اپنی کتابوں کی دکان میں ڈیڑھ گھنٹے سے بائیں ہاتھ میں فون لیے بیٹھے ہیں اور دائیں ہاتھ سے گاہکوں کو اس وقت کتابیں خریدنے سےمنع کر رہے ہیں۔ شاعر کو کبھی کبھی ریسیور کان سے لگا کر صبغے کی داد سنوا دی جاتی ہے اور وہ اٹھ اٹھ کر لکھنوا انداز سے فون کو آداب بجا لاتا ہے۔
مرزا غریب تو کسی کام سے گئے تھے۔ لیکن دروازے کی درز میں سے جھانک کر یہ نقشہ دیکھا تو سرکاری کام کو ان کی تفریح میں حارج پاکر الٹے پاؤں لوٹ آئے۔ شعر و شاعری سے مرزا کی طبع ناموزوں یوں بھی ابا کرتی ہے۔ اور مشاعروں سے تو وہ کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ خصوصاً بڑے مشاعروں سے۔ کہتے ہیں، ’’صاحب! جو شعر بیک وقت پانچ چھ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آجائے، وہ شعر ہو ہی نہیں سکتا۔ اس میں ضرور کچھ نہ کچھ کھوٹ نکلے گا۔‘‘ مرزا نے جب دیکھا کہ پروفیسر کو نثر میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں بڑی دشواری ہونے لگی ہے تو سمجھانے بیٹھ گئے،
’’پروفیسر! یہ ساہوکارہ سنسار ہے۔ صحیح اردو سے گجراتی سیٹھ بے حد رعب کھاتا ہے، مگر سودا بگڑ جاتا ہے۔ کسی نے مجھے بتایا کہ دو سیٹھ مختلف اوقات میں تمہارے بنک میں اکاؤنٹ کھولنے آئے۔ لیکن ایک میمن کو تو تمہاری سکریٹری نے گھسنے نہیں دیا۔ اور دوسرے چینٹوی بیوپاری نے، جو رقم جمع کرانے آیا تھا، تمہیں بنک میں دیکھ کر فوراً ارادہ بدل دیا اور اپنی جمع جتھا ٹوپی میں چھپاکے کہنے لگا کہ میں تو در اصل اوور ڈرافٹ لینے آیا تھا۔ کمال یہ کہ تم نے واقعی اسے اوور ڈرافٹ دلوا دیا، جس سے اس نےاسی وقت دوسرے بنک میں جاکر اکاؤنٹ کھول دیا اور یوں اہل درد کو پنساریوں نے لوٹ لیا۔‘‘
مرزا انہیں شعر سنانےسے باز رکھ سکتے تھے، لیکن شعر سننے پر کیسے پابندی لگائی جا سکتی تھی۔ پروفیسر سامنے بیٹھے ہوئے شاعر کا مصرع اٹھانے سے انکار کر سکتے تھے، لیکن ان کا منہ کیسے بند کرتے جو فرصت گفتگو غنیمت جان کر فون پر ہی خون تھوکنے لگتے تھے۔ ایک دن پروفیسر بری طرح بوکھلائے ہوئے تھے، کیونکہ آدھ گھنٹے بعد بورڈ آف ڈائرکٹرز کا اجلاس تھا، جس میں بنک کا پبلسٹی بجٹ برائے توثیق و گالی گلوج پیش ہونے والا تھا۔ ان کی صورت ایسی ہو رہی تھی جیسے اشتہاروں میں ان لوگوں کی ہوتی ہے، جن کو ’’ہارلکس‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میز پر کاغذات کا انبار لگا ہوا تھا۔ کمرے کے باہر لال بتی روشن تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ آج وہ واہی تباہی آدمیوں یعنی اپنے خاص دوستوں سے ملاقات نہیں کریں گے۔
اتنے میں سفید ٹیلی فون (یہ ان کا پرائیویٹ وی۔ آئی۔ پی نمبر تھا۔ جو ڈائرکٹری میں درج نہیں ہوتا تھا۔ اور جو صرف انتہائی اہم یا انتہائی بیہودہ گفتگو کے لیے مخصوص تھا۔ درمیانہ موضوعات سے معمولی ٹیلی فون پر نمٹ لیتے تھے۔ اندرونِ دفتر برا بھلا کہنے کے لیے سرمئی اورسننے کے لیے سیاہ آلہ استعمال کرتے تھے۔) کی بیٹھی بیٹھی آواز والی گھنٹی بجی اور دوسرے سرے سے گودام کیپر کی اسامی کے ایک امیدوار حضرت مدہوش مادھوپوری نے اپنے تخلص جیسے ترنم میں اپنی نو تصنیف مسدس سنانی شرع کی۔ ہرچند کہ یہ توڑ کا وقت تھا اور پروفیسر کو سگرٹ کی راکھ جھاڑنے تک کی فرصت نہ تھی، لیکن مسدس کے ابتدائی بند انہی کی مدح میں تھے۔ اور اللہ غنی! اس میں اس قدر غلو سے کام لیا گیا تھا کہ فون بند کرنے کو کسی طرح جی نہ چاہا۔ خدا جانے کب کالیا دیا آڑےآگیا کہ بیس منٹ بعد فون خود بخود خراب ہوگیا اور پروفیسر اپنی نیلی’بو‘ ٹھیک کرتے ہوئے بورڈ روم کی طرف بھاگے۔
اجلاس ایک بجے ختم ہوگیا مگر فون شام تک خراب رہا۔ پروفیسر نے قصداً اسے ٹھیک نہیں کرایا، اس لیے کہ وہ اپنی سکرٹری کو یکسوئی کے ساتھ میٹنگ کی کارروائی لکھوانا چاہتے تھے۔ ٹیلیفون آپریٹر نے بھی فون ملانے بند کردیے اور چند گھنٹے عافیت سے گزرے۔ وہ کارروائی لکھوا ہی رہے تھے کہ یکایک سفید فون کی گھنٹی آپ ہی آپ بجنے لگی۔ وہ اچھل کر اپنی سکریٹری کی گود میں جا پڑے اور دیر تک وہیں بے سدھ پڑے رہے۔ اسی عالم میں اس کے چٹکی لے کر دیکھا کہ جاگ رہا ہوں یا خواب میں ہوں۔ جب اس نے پٹاخ سے گالی دی تو انہیں یقین آیا کہ خواب نہیں ہے۔ ریسیور اٹھا کر بولے، ’’ہیلو! کاضی عبڈل کڈس ہیئر! ہیلو! ہیلو! کاضی دس سائیڈ!‘‘ اُدھر سے آواز آئی، ’’جی! بجا فرمایا! مگر میں تو مدہوش مادھوپوری عرض کر رہا ہوں۔ واللہ! صبح دس بجے سے آپ کا فون درست کرانے میں لگا ہوا ہوں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ دس جگہ شکایت نوٹ کرائی ہوگی۔ آخر جھک مار کر خود ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک ایک کی خبر لے ڈالی۔ جب کہیں جاکر پانچ بجے آپ کی گھنٹی بجی ہے۔ جی! تو عرض کیا ہے۔۔۔‘‘
اور وہ چھ بجے تک عرض کرتے رہے!
کوئی دن خالی جاتا ہوگا کہ خفت و آشفتہ خاطری کی کوئی نئی صورت پیدا نہ ہو۔ ایک دن (غالباً پیر کا دن تھا، جسے مرزا یوم سیاہ کہتے ہیں۔ اکثر پیش گوئی کرتے ہیں کہ دیکھ لینا، قیامت پیر ہی کے دن آئے گی) بنک میں اداس بیٹھےاپنے مخصوص انداز سے۔۔۔ یعنی پیالی ہونٹوں سے لگاتے وقت چھنگلیا اٹھائے ہوئے۔۔۔ فرنچ کافی پی رہے تھے۔ حسب عادت زور سے آنکھیں سکیڑ رکھی تھی، حالانکہ اس وقت روئے تاباں کے گرد سگرٹ کے دھوئیں کا ہالہ نہیں تھا۔ کافی کے ہر گھونٹ کے بعد بائیں ہاتھ سے اس خیالی دھوئیں کو ہٹاتے جاتے تھے تاکہ مچ مچی آنکھوں میں نہ گھسنے پائے۔ اتنے میں رسالہ ’’مینا بازار‘‘ کی ایڈیٹر آنکلیں۔ پروفیسر نےکہا کہ آپ پچیس سال سے بالکل ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ بہت خوش ہوئیں۔ حالانکہ پروفیسر کا مطلب در اصل یہ تھا کہ جیسی بدصورت آپ پچیس سال پہلے تھیں، ویسی ہی اب بھی ہیں۔ محترمہ نے ’’مینا بازار‘‘ کا تازہ شمارہ پیش کیا۔ پروفیسر سرورق پر کسی ایکٹرس کے بجائے اپنی تصویر دیکھ کر بھونچکے رہ گئے۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ تصویر بالکل ان سے ملتی تھی۔ بہتر نہ تھی۔
’’مینا بازار‘‘ میں اشتہار نکلنا تھا کہ تمام زنانہ رسالوں نے یلغار کردی اور پروفیسر سوچتے ہی رہ گئے۔۔۔ کھاؤں کدھر کی چوٹ، بچاؤں کدھر کی چوٹ۔ مدیر ’’آنچل‘‘ سے جو تاریخی مچیٹا ہوا، اس کے مکالمے پاک بوہیمین کافی ہاؤس کے بیروں تک کو ازبر ہیں۔ پروفیسر کو مدیر موصوف سے پہلی نظر میں نفرت ہوگئی۔ وہ تو خیریت گزری، ورنہ پروفیسر کا سینہ اگر ۳۴ انچ کے بجائے ۴۳ انچ ہوتا تو پہلی ہی ملاقات میں ان کا لِتھو (ایسی مار مارنا کہ اپنے بھی صورت نہ پہچان سکیں، جیسا کہ اردو لتھو کی چھپائی میں ہوتا ہے۔) بنا ڈالتے۔ یہ رسالہ پینتیس سال سے انہی خواتین کی خدمت کیے جا رہا تھا جو اس وقت پینتیس سال کی تھیں، جب رسالے کا پہلا شمارہ نکلا تھا۔ قصہ کہانی کی اوٹ میں یہی شریف بیبیاں اپنی ہم عمر بیبیوں کو مزید شریف رہنےکی تلقین کرتی رہتی تھیں۔ رسالہ ایسے عریاں افسانوں سے یکسر پاک تھا جن سے ہر شخص بقدر بدذوقی محظوظ ہو سکے۔
جنسی کہانیوں کے بجائے رسالے میں کنواریوں بالیوں کو پلنگ کی کوری چادر پر کروشے سے ’’خوش آمدید‘‘ کاڑھنے کی ترکیبیں سکھائی جاتی تھیں۔ ادبی مزاج اتنا بدل چکا تھا کہ جو شاعر ۲۵برس پہلے دنیا کو مایا کا جال سمجھتے تھے، وہ اب اسے سرمایہ کا جال کہنے لگے تھے۔ لیکن ’’آنچل‘‘ کے لکھنے والے آج بھی عورتوں کو مستوارت کہتے اور ماحول پر لاحول بھیجتے ہیں۔ نئی تراش کی چولی میں ان بزرگوں کو قرب قیامت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے مرزا عبد الودود بیگ تو الٹی تمنا کرتے ہیں کہ صاحب! قرب قیامت کی سچ مچ یہی نشانیاں ہیں تو پھر جلدی سے سورج سوا نیزے پہ آ جائے کہ زندگانی کا کچھ بھروسا نہیں۔ اور صاحب! زندگانی گر رہی تو نوجوانی پھر کہاں۔
موصوف نے آتے ہی فرمائش کی کہ ’’موازنہ‘‘ کی ٹکر کی کوئی چیز ’’آنچل‘‘ کے لیے عطا ہو۔ پروفیسر نے انہیں مطلع کیا کہ عدیم الفرصتی کے سبب وہ گزشتہ پچیس سال سے کچھ نہیں لکھ سکے۔ سلام روستائی کے بعد عرض خاص کا اظہار ہوا، اشتہار چاہیے۔ پروفیسر نے عذر کیا، سالانہ بجٹ ختم ہوچکا ہے۔ فرمایا، ’’چلیے، کوئی مضائقہ نہیں۔ بنک کے رجسٹروں اور فارموں کا سالانہ آرڈر ہی آنچل پریس کو عنایت فرمائیے۔‘‘ پروفیسر نے جواب دیا، ’’مگر سات لاکھ روپے کی اسٹیشنری آپ ایک ٹریڈل مشین پر دس برس میں بھی نہیں چھاپ سکیں گے۔‘‘ ارشاد ہوا، ’’تو پھر بنک سے پچاس ہزار کا، کلین اور ڈرافٹ، ہی دلوا دیجیے۔‘‘
پروفیسر کے صبر کا مختصر سا پیانہ لبریز ہوگیا۔ دفتری ضبط و احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرمایا، ’’آپ کے مطالبوں کی ترتیب بالکل الٹی ہے۔ بخدا! بالکل الٹی! چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے آپ پچاس ہزار قرض مانگتے۔ اس کے بعد اسٹیشنری کے آرڈر کی فرمائش کرتے۔ یہ بھی نہیں ملتا تو اشتہار مانگتے۔ پھر بھی میں انکار کرتا تو مضمون طلب کرتے۔ پھر میری ہمت نہیں ہوتی کہ انکار کرتا۔ شرما شرمی مضمون تو دے ہی دیتا۔‘‘ بولے، ’’ارے صاحب! یہی تو مجھے بھی اندیشہ تھا!‘‘
بچوں کے رسالے ہمیشہ سےنگاہِ التفات سے محروم تھے۔ آخر یہ کفر اس طرح ٹوٹا کہ رسالہ ’’بازیچہ اطفال‘‘ نےایک ضخیم ’’اشتہار نمبر‘‘ نکالنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد یہ رسالہ بھی بنک کے اشتہارات سے نوازا جانے لگا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ ’’اشتہار نمبر‘‘ پرر یجھ گئے یا اس کی مدیرہ آنسہ سمنتا فرزدق کی تیغ ابرو سے برضاد رغبت ڈھیر ہوئے۔ سفید شلوار، سفید قمیص، سفید دوپٹہ، سیدھی مانگ، ننگے ہاتھ، ننگے کان۔ ہمیں تو وہ کسی طرف سے ایسی نہیں لگتی تھیں کہ آدمی کے پانچوں حواس پر ڈاکہ ڈال سکیں یا پہلی ہی ملاقات میں پروفیسر کے قلعہ ایمان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ لیکن یاد رہے کہ پروفیسر کنوارے تھے۔ چالیس سال کے تھے۔ اور حالیہ مردم شماری میں اپنا شمار مردوں میں کروا چکے تھے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چالیے کہ ہمارے ہیرو نے آج تک کوئی عورت ایسی نہیں دیکھی، جس کو وہ ناپسند کر سکے۔ کنارے کو ترسا ہوا مانجھی ہر اتھلی کھاڑی میں لنگر ڈال دیتا ہے۔
آنسہ سمنتا نے آتے ہی مژدہ سنایا کہ انہوں نے ’’موازنہ‘‘ کو بچوں کے لیے آسان اردو میں منتقل کیا ہے۔ ہاں، عنوان میں تھوڑی سی تبدیلی کردی ہے۔ یعنی شیخ امام بخش ناسخ کے بجائے مولوی محمدؐ اسمٰعیل میرٹھی کو بھڑا دیا ہے۔ البتہ اشعار وہی رہنے دیے ہیں تاکہ مضمون کی اصل شان برقرار رہے۔ اب موصوفہ اس مقالہ کے ساتھ مصنف سے انٹرویو کی روداد مع تازہ تصویر شائع کرنا چاہتی تھیں اور اس سلسلے میں پروفیسر کو اپنے ہاں سنیچر کو چائے پر مدعو کرنے آئی تھیں۔ پروفیسر نے بہتیرا عذر کیا کہ سنیچر کی شام کو مجھے بہت کام ہے۔ تین کاک ٹیل پارٹیوں میں یکے بعد دیگرے شرکت کرنی ہے۔ لیکن وہ نہ مانیں۔ پیہم انکار سےان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ پروفیسر کو عورت کے آنسوؤں کی ذرا سہار نہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عورت کی کسی چیز کی سہار نہیں۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ پروفیسر تینوں کاک ٹیل پارٹیاں لشتم پشتم بھگتا کر ساڑھے سات بجے تک ان کے گھر پہنچ جائیں گے۔
پروفیسر کا اپنا بیان تھا کہ انہوں نےتینوں کاک ٹیل پارٹیوں میں اپنے ’’پروٹوکول‘‘ فرائض کی انجام دہی میں ’’اپنی طرف سے تو کوتاہی میں کوئی کمی نہیں کی!‘‘ مرزا کے کندھے پر اپنا سارا بوجھ ڈالے، وہ جم خانہ سے خمخانہ بکف و جمخانہ بدوش آنسہ سمنتا کے ہاں چائے نوش فرمانے پہنچے تو دس کا عمل ہوگا۔ جس وقت وہ اپنی تیس ہاتھ لمبی کیڈلک سے اترے ہیں تو مرزا کے بیان کے مطابق ان کا دایاں پاؤں اس جگہ پڑ رہا تھا جہاں بایاں پڑنا چاہیے تھا۔ اور جن حروف کی آوازیں ہماشما کے منہ سے نکلتی ہیں، وہ ان کی ناک سے بآسانی نکل رہی تھیں۔ گیلری سے گزرتے وقت انہوں نے ایک گرتی ہوئی دیوار کو اپنی پیٹھ سے سہارا دینے کی کوشش بھی کی۔ پھر انٹرویو شروع ہوا اور ٹیپ ریکارڈ چلنےلگا۔
مس سمنتا نے چند رسمی سوالات کے بعد پوچھا کہ آپ ابھی تک کنوارے ہیں۔ کس قسم کی بیوی اپنے لیے پسند کریں گے؟ پروفیسر نے جھومتے ہوئے فرمایا کہ مجھے روشن خیال بیوی بہت پسند ہے۔۔۔ بشرطیکہ وہ کسی دوسرے کی ہو۔ موصوفہ نے پلو منہ میں ٹھونستے ہوئے سن پیدائش پوچھا تو پروفیسر نے ۲۴۱۹ بتایا اور وضاحتاً A.D (بعد مسیح) بھی کہا تا کہ سننے والے کو مغالطہ نہ ہو۔ موصوفہ نے چندرا کر کہا، مگر آپ تو شکل سے صرف چالیس سال کے لگتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ پروفیسر نے جواب دیا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں چالیس ہی سال کا ہوں، پھر دوسری وجہ کی تشریح و تشہیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ناول نگار جارج مور سے کسی صحافی نےدریافت کیا کہ آپ اسی سال کی عمر میں بھی سرخ و سپید رکھے ہیں، اس کا کیا راز ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے شراب، سگرٹ اور ’سیکس‘ کو قطعی ہاتھ نہیں لگایا۔۔۔ تا وقتیکہ میں گیارہ سال کا نہ ہوگیا۔
ہمارے یک طرفہ بیان سے یہ نہ سمجھا جائے کہ پروفیسر ترنگ میں اپنی ہی خوبیاں ذہن نشین کراتے رہے۔ ان کی نظر دوسروں پر بھی تھی۔ مثلاً انہوں نے موصوفہ کی توجہ ایک ایسی خوبی کی طرف مبذول کرائی، جس سے وہ بالکل بے خبر معلوم ہوتی تھیں۔ ’’آپ کی پسند‘‘ کا سوال آیا تو پروفیسر نے، موتیا، مصحفی، سنیچر کی شام، ہنری ملر، مہاوٹ، دال بھرے گرم پراٹھے، ریشمی دولائی، نیگرو دوشیزہ کا ذکر کرتے کرتے، ’’بھئی! آپ کا دایاں کان سچ مچ بہت خوب صورت ہے!‘‘ ایسے سوکھے سے منہ سے کہا کہ موصوفہ کے بائیں کان کو یقین نہیں آیا کہ ان کا دایاں کان کیا سن گیا۔ مرزا کہتے ہیں کہ سمنتا فرزوق کے دونوں کانوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں تھا، لیکن پروفیسر نے دائیں کی تخصیص غالباً ازراہِ احتیاط کی تھی، اس لیے کہ اس وقت انہیں صرف دایاں کان ہی نظر آرہا تھا۔ بہرحال یہ جملہ بھی ریکارڈ ہوگیا اور اس کے ساتھ وہ ہچکیاں بھی جو ہر لفظ کے بعد ان کی سوانح خمری میں ’’فل اسٹاپ‘‘ لگا رہی تھیں۔
پروفیسر نے جب تیسری دفعہ یہ کلمات تحسین ممدوحہ کے کان میں انڈیلے تو انہوں نے ٹیپ ریکارڈ آہستہ سے ’’سوچ آف‘‘ کردیا۔ اور سفید دوپٹہ اپنے سر پر اس طرح لپیٹ لیا جیسے پرہیزگار بی بیاں نماز پڑھتے وقت لپیٹ لیتی ہیں۔ جیسے ہی وہ چائے لینےاندر گئیں تو مرزا کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگے، ’’ان کا دایاں واقعی بہت خوبصورت ہے۔‘‘ بیچ میں مرزا نے دوتین دفعہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اٹھنے کا اشارہ کیا تو پروفیسر نےاس طرح ہاتھ گھمایا جیسے چکی پیس رہے ہوں۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ وہیں مرزا کالتھو بنادیں گے۔
وہ میز پر ٹرے رکھنےکے لیے جھکیں تو دوپٹہ ڈھلک کر گلےمیں آگیا اور پروفیسر نے چپکے سے دائیں کان میں وہی جملہ دہرا دیا۔ اب کی دفعہ جو موصوفہ نے ڈھاٹا باندھا تو آخر تک نہیں کھولا۔ خدا خدا کرکے پونے بارہ بجے انٹرویو اپنے اختتام کو اس طرح پہنچا کہ پروفیسر کو بیچ جملے کے نیند آگئی۔ مرزا نے منہ پر پانی کے چھپکے دے کر جگایا۔ موصوفہ چند منٹ بعد موصوف کو کار میں سوار کرانے باہر تشریف لائیں۔ وقت رخصت آداب بجا لانے کے لیے انہوں نے اپنی صراحی دار گردن خم کی تو دوپٹہ کا اینڈوا پھر سینے پر آرہا اور پروفیسر نے جواب میں انگشت شہادت اٹھاتے ہوئے فرمایا، ’’آداب! اور بایاں بھی۔۔۔‘‘ اور وہ جھینپ کر دائیں بائیں کانوں پر ہاتھ رکھے اندر بھاگ گئیں۔
صبح مرزا نے پروفیسر کو ان کے اقوال و افعال شبینہ سےآگاہی بخشی تو انہیں یقین نہیں آیا کہ ایسی نالائقی کا صدور ان کی ذات سے ہو سکتا ہے۔ اسی وقت جاکر اس نیک بی بی سے معافی مانگنے پر بضد تھے۔ مرزا نے بمشکل تمام باز رکھا۔ اس رات انہیں مارے ندامت کے نیند نہیں آئی۔ نیند تو دوسری رات بھی نہیں آئی، مگر کسی اور وجہ سے۔ وہ وجہ یہ تھی کہ موصوفہ خود بنک میں تشریف لائیں اور کہنے لگیں کہ ایک پرزے کی خرابی کی وجہ سے اس رات انٹرویو ٹھیک سے ریکارڈ نہیں ہوا۔ لہٰذا دوبارہ چائے پر زحمت فرمائیں۔
اور ہاں! آج وہ (دونوں) کانوں میں موتیا کی کلیوں کی بالیاں پہنے ہوئے تھیں۔ کان کی لو نہ جانے کتنی بار گلابی ہوئی ہوگی کہ جب وہ رخصت ہوئیں تو ایک ایک کلی کھل چکی تھی۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں