تبسم کاشمیری
اردو ادب میں ادبی تاریخ نویسی کی روایت کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کا آغاز رام بابو سکسینہ کی کتاب ’ تاریخ ادب اردو‘ سے ہوتا ہے جو 1927 میں شائع ہوئی تھی اور اب ادبی تاریخ نویسی کی آخری مثال پر و فیسر وہاب اشرفی کی تاریخ ادب اردو ہے جو2006 میں شائع ہوئی ہے۔ سکینہ اور وہاب اشرفی کے کام کے دوران بہت سی تاریخیں شائع ہوئی ہیں جن کی تفصیلات گیان چند کی کتاب اردو کی ادبی تاریخیں، میں موجود ہیں۔ اس لیے اْن کو دْہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 1927 سے دور حاضر تک شائع ہونے والی ادبی تاریخوں کو میں نے دیکھا ہے اور اس خیال کے ساتھ دیکھا ہے کہ کیا ان تاریخوں میں ادبی تاریخ کے اصول، قواعد اور تصورات پر کبھی کسی ادبی مورخ نے کوئی بات کی ہے یا نہیں۔ اس کام کا جائزہ یہ خبر دیتا ہے کہ ہمارے ادبی مورخوں نے ادبی تاریخ میں نظریہ سازی کا کوئی کام نہیں کیا ہے۔ ہاں گیان چند کی ’تاریخ ادب اردو‘ میں تو نہیں مگر ’اردو کی ادبی تاریخیں‘ میں اس سلسلے میں کچھ کام ملتا ہے جس کا مناسب موقع پر میں ذکر کروں گا۔ اردو ادب کی تاریخ نویسی کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ رہا ہے کہ ادبی تاریخ سے کسی بھی مورخ نے یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ جس منصوبے پر کام کر رہا ہے، اس منصوبے کے اصولوں ، دائرہ کار، مسائل اور مشکلات وغیرہ کے بارے میں مختصر اً یا تفصیل کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر ہی کو قلم بند کر دے۔ مغرب میں جب بھی کوئی کام شروع کیا جاتا ہے سب سے پہلے اس کام کو Conceptualize کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ایک ایک پہلو، ایک ایک تصور اور ایک ایک جہت کی Conceptualization کی جاتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس کام کے اساسی تصورات کا خاکہ مہیا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد سارا کام اسی خاکے کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ کام کرنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے اسے کام کے لیے کس قسم کے مواد کی ضرورت ہے اور یہ مواد اسے کن سمتوں میں لے جائے گا۔ چنانچہ جب کام ختم ہو جاتا ہے تو پورے کام میں بہت واضح طور پر پہلے سے قائم کردہ اساسی تصورات اور عملی کام میں ایک ہم آہنگی کا احساس ہوتا ہے اس وجہ سے تحقیقی کام میں ایک علمی وقار نظر آتا ہے۔
ہمارے ہاں ادبی مورخین نے بھی یہ رحمت بھی گوارا نہیں کی کہ ادبی تاریخ لکھنے سے پہلے وہ یہ بھی سمجھ لیں کہ ادبی تاریخ آخر کیا چیز ہے؟ اسے کیا ہونا چاہیے؟ اور کیا ہمارے ہاں معیاری ادبی تاریخ لکھنے کے تصورات موجود بھی ہیں یا نہیں؟ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ان حضرات کے ذہن میں ان کی مجوز و ادبی تاریخ کا خاکہ اور اس کی ساخت کا تصور قائم نہ ہو سکا اور نہ یہ کہتا ہوں کہ ان کے ذہنوں میں ادبی تاریخ کے اْصولوں کا کوئی ضابطہ نہ ہوگا۔ ضرور ہوگا۔ آخر اسی کے حوالے سے انہوں نے کام کیا ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ادبی مورخین نے ادبی تاریخ کے مسائل اور تصورات کو کبھی Ratianalize کر کے نہیں دیکھا جو کچھ کیاRatianlization کے بغیر گیا۔ بالکل سیدھے سادھے طریقے پر۔
1965 میں میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند میں کام کر رہا تھا۔ اس وقت شعبہ نیا نیا بنا تھا۔ تاریخ ادب اردو کے ابتدائی خاکے میں نے اور میرے فاضل دوست محمد اکرام چغتائی نے تیار کیے تھے۔ یہ خاکے محققین کی مختلف کمیٹیوں کی نظر سے گزرے تھے، ان پر بہت ساری ترمیم ہوئی ، اضافے ہوئے اور بالآخر یہ اساسی خاکے قرار پائے۔ اس وقت اس کام کے نگران جنرل ایڈیٹر فیاض محمود تھے۔ موصوف محقق تو نہ تھے مگر ذہین نقاد اور جنرل ہسٹری کے ماہر تھے۔ اس وقت ادارے میں یہ بات طے شدہ تھی کہ جب او بی تاریخ لکھی جائے گی تو تاریخ، ثقافت اور ادب کے ربط اور اس کی معنویت پر روشنی ڈالی جائے گی۔ 1966 کے آس پاس اردو ادب کے نقادوں اور محققین حضرات کو مختلف ابواب لکھنے کے لیے خاکے ارسال کیے گئے۔ ہمارے ادیبوں کی یہ نسل ادبی تاریخ کے نئے تصورات سے آشنا نہ تھی۔ وہ لوگ ادبی تاریخ، جنرل ہسٹری اور تہذیب وثقافت کے شعبہ جاتی تصورات کو بھی نہ سمجھتے تھے۔ بس ان کے پاس کوئی ڈھیلا ڈھالا سا تصور موجود تھا۔ نتیجہ کے طور پر جو کچھ لکھا گیا وہ اوسط درجے کا بھی بہ مشکل ہی تھا۔ ان حضرات کے تنقیدی معیارات بھی معمولی تھے۔ سچ پوچھئے تو بڑے بڑے نامور ادیبوں کی تحریریں معمولی کلاس لکچرز سے زیادہ نہ تھیں۔ ادبی تاریخ کی بصیرت ان مقالوں میں عنقا تھی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت اگر ادبی تاریخ کے تصورات پر بحث کرلی جاتی اور ان کو با قاعدہ طور پر قلم بند کر کے مقالہ نویسوں کے پاس بھیج دیا جاتا تو شاید کچھ بہتر نتائج برآمد ہوتے۔ مگر مجھے یہ خیال بار بار آ رہا ہے کہ اپنی قدامت پرستی کے باعث ہمارے بزرگ ادیبوں کی وہ نسل ان تصورات پر کام کرنے کے لیے آمادہ ہی نہ ہو سکتی تھی۔ سطحی قسم کی روایتی تنقید استعمال کرنے والے ان لوگوں سے کسی قسم کے بہتر تنقیدی کام کی توقع نہ کی جاسکتی تھی۔
پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ ادب کے منصوبے کی کسی ایک جلد کو اٹھا کر دیکھ لیں اگر اس میں دس مقالے ہیں تو تنقید اور تحقیق کے اعتبار سے تمام کے تمام مقالے ایک دوسرے سے مختلف معیار کے حامل ہیں۔ ان مقالوں میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب مقالے ادبی تاریخ کے ارتقا، تسلسل اور روایت کے تصور سے عاری ہیں۔ ادبی تاریخ میں روایات کے ارتقا کی جو شکل بنتی ہے اور جس طرح سے روایت ایک دور سے دوسرے دور میں داخل ہوتی ہے، مقالہ نگاروں کے ہاں ادبی ارتقا کی یہ صورتیں موجود نہیں۔ اس لیے مختلف موضوعات پر لکھے گئے یہ مقالے ادبی تاریخ کی حرکت نہیں دکھا سکتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مختلف ابواب لکھنے والوں میں ادبی تاریخ کی حرکت کا واضح تصور موجود نہ تھا اور وہ ادبی سماجیات کے عمل کو سمجھنے سے بھی قاصر تھے۔ منصوبہ بندی کے تحت کیے جانے والے کام میں معیارات کو یکساں طور پر برقرار رکھنا مغرب میں تو ممکن ہے ہمارے ہاں نہیں۔ علی گڑھ تاریخ ادب اردو اور پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ اس قسم کی مثالیں پیش کرتی ہے۔
مشہور مورخ Gibbon نے کہا تھا کہ بہترین تاریخ کی توقع ہم اس شخص سے کر سکتے ہیں جو فلسفی مورخ (Philosopher Historian ) ہو۔ اس سلسلے میں جہاں تک ادبی تاریخ کا تعلق ہے۔ میرے خیال میں ایک اچھی ادبی تاریخ کی توقع ہم اس شخص سے کر سکتے ہیں جو فلسفی مورخ نہ ہومگر صاحب بصیرت مورخ ضرور ہو۔ ادبی مورخ ہونا ایک بات ہے اور ادبی مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب بصیرت ہونا دوسری بات ہے اور اگر کسی مورخ میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہوں تو وہ بہترین عالم ہو سکتا ہے۔ مندرجہ بالا بیان میں صاحب بصیرت ادبی مورخ کا جو تصور میں نے پیش کیا ہے میں اس کی کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ بجا طور پر مجھ سے دریافت کر سکتے ہیں کہ جناب یہ صاحب بصیرت ادبی مورخ کیا چیز ہے؟ اور کیا ہماری ادبی تاریخوں کے مورخ صاحب بصیرت کہلائے جانے کے مستحق نہیں ہیں؟ اگر وہ واقعتا مستحق نہیں ہیں تو آخر ایسا کیوں ہے؟ سوالوں کا یہ سلسلہ صاحب بصیرت ادبی مورخ کی تعریف کا مستحق ہے۔
ادبی مورخ جب ادبی تاریخ لکھتا ہے تو وہ ہر دور کی تہذیب و ثقافت اور سیاسی تاریخ کی تعبیر کرنے کے ساتھ ساتھ ادب کی تحسین اور تجزیہ کا کام بھی کرتا ہے۔ پھر یہ سارا کام ادب کی زمانی حرکت کے تصور سے معمور ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں صاحب بصیرت ادبی مورخ کسی روز کے ادب کو تہذیبی، ثقافتی ، سیاسی و سماجی حوالوں سے دیکھتا ہے اور پھر اس ادب کی تنقید تحسین یا تجزیہ کرتا ہے۔ اس عمل میں اس کی بصیرت ادبی تاریخ کے کسی دور کا ایک وژن پیدا کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے وژن کی مدد سے تاریخ کے غیر حاضر، یا نظر نہ آنے والے تصورات کو اپنی وژنری (Visionary) طاقت سے سامنے لاتا ہے۔ یہی خوبی اس کا طرہ امتیاز بنتی ہے۔ وہ تاریخ کے غیر حاضر تصورات کو زندہ کر کے حاضر کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اب اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں کہ صاحب بصیرت ادبی مورخ اْردو میں کون کون سے ادیب حضرات ہیں تو میں بلا تامل کہوں گا کہ رام بابو سکسینہ، اعجاز حسین، سلیم اختر، گیان چند، سیدہ جعفر، وہاب اشرفی وغیرہ اس زمرہ میں شامل نہیں۔ اردو ادب کی ایسی تاریخ ابھی لکھی جانے والی ہے۔ اکیسویں صدی ایک ایسی ہی تاریخ کا تقاضا کرتی ہے اور ہمارے مستقبل کے ادبی مورخین یہ فریضہ یقینا انجام دے سکیں گے۔
مجھے یہ بات کہنے کی اجازت دیجیے کہ ہمارے ادبی مورخ ابھی تک ادبی تاریخ کے واماندہ تصورات سے چھٹے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے جدید دور میں جہاں علوم و فنون Interdisciplinary میدان میں باہمی کشش اور جذب وقبول کی منزلوں سے گزر رہے ہیں، اگر ادبی مورخین ان کو دیکھ کر متاثر نہ ہوں یا آنکھیں بند کر لیں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس کا نتیجہ دیکھنے کے لیے گیان چند اور سیدہ جعفر کی تاریخ ادب کو دیکھ لیجیے جہاں اردو ادب کی تاریخ غیر تاریخی فضا میں سانس لے رہی ہے۔ اس قسم کی تاریخوں کا تاریخیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ ساری تاریخ پڑھ ڈالیے آپ کو ادب کی زمانی حرکت کا پتہ ہی نہیں چلے گا۔ یہ معلوم ہی نہ ہوگا کہ ایک دور کا ادب کس طرح سے اور کب دوسرے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ ادب کی تاریخ اگر زمانی حرکت سے بننے والی مختلف شکلوں کو اپنے ارتقا کی روشنی میں نہ دکھا سکے تو وہ تاریخ کہلائے جانے کی مستحق نہ ہوگی۔
مندرجہ بالا ادبی تاریخیں تاریخیت کے عناصر سے محروم ہو کر تاریخ ادب پر مختلف مقالوں کا ایک مجموعہ معلوم ہوتی ہیں۔ مگر تاریخ ادب معلوم نہیں ہوئیں۔
ادبی تاریخ کو محض روایتی ادبی تاریخ نہ ہونا چاہیے۔ اگر آپ ادبی تاریخ کو محض تاریخ ادب کی داستان تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں تو آپ اس کا دائرہ سکیٹر رہے ہیں۔ یہ ادبی تاریخ پرستم ہے۔ رام بابو سکسینہ، اعجاز حسین، علی جوادزیدی، سلیم اختر، گیان چند اور سیدہ جعفر اور اب آخر آخر میں وہاب اشرفی کی تاریخیں اپنے مصنفین کے اس ستم پر چیخ رہی ہیں کہ ان کا دائرۂ کار ادبی تاریخ کے روایتی طریق کی نذر کر دیا گیا ہے۔ ان تاریخوں میں جو بات نظر نہیں آتی وہ یہ ہے کہ ادبی پس منظر اور پیش منظر میں سیاسی تاریخ، تہذہبی تاریخ، جنرل تاریخ، فلسفہ و فکر اور سماجیات کا کس طرح کسی عہد کی ادبی تاریخ پر اثر پڑ رہا ہے اور ان اثرات کے کیا نتائج برآمد ہو رہے ہیں؟ ادبی تاریخ کی حرکت کس طرح متاثر ہو رہی ہے اور ادب کی Shaping اور Reshaping میں یہ عوامل کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مندرجہ بالا تواریخ ان باتوں کا جواب دینے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ وہ اس لیے کہ یہ تواریخ مصنفین کے سوانحی خاکوں اور مختصری ادبی تنقید کے علاوہ کوئی دوسرا تصور نہیں رکھتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس قسم کی تواریخ کو مکمل تاریخ کا درجہ دے سکتے ہیں؟ کیا یہ تواریخ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کر سکتی ہیں؟ میرے خیال میں جدید دور میں ادبی تاریخ نویسی اس مسئلہ پر از سر نو سوچ بچار کا مطالبہ کرتی ہے کہ شعبہ جاتی مطالعات Compartment Studies) ( کا دور بہت پہلے ہی ختم ہو چکا ہے اور اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ Inter Disciplinary Studies کا دور ہے۔ جب تخلیقی ادب اپنے دور تخلیق میں ہر قسم کے خارجی اثرات کو قبول کرتا ہے تو پھر ادبی تاریخ کو ایک تنگ گلی میں محدود کرنے کا کیا فائدہ ہے۔ ہمیں اس اس تصور کو سمجھ لینا چاہیے کہ ادبی تاریخ جس قدر تہذیبی ، ثقافتی ، سماجی اور فکری تاریخ کے قریب ہوگی اسی قدر زیادہ وقیع زیادہ بصیرت افروز اور زیادہ مفاہیم و مطالب کی حامل ہو سکے گی۔ اسی طرح سے تہذیبی و ثقافتی تاریخ ادبی تاریخ کے جس قدر زیادہ قریب ہو گی اسی قدر یہ زیادہ بامعنی اور زیادہ وسعتوں کی حامل قرار دی جاسکے گی۔ ادبی مثالیں اسے زیادہ موثر بنا سکیں گی۔ تہذیبی تاریخ میں ہم عصری ادب کی مثالوں کے اندراج سے تہذیب وثقافت کے متحرک مرقع دیکھے جائیں گے۔
اب آپ ایک اور نقطۂ نظر دیکھیے : اردو کی ادبی تاریخوں کے بارے میں ہمیں جو مسائل پیش آتے ہیں اْن کے بارے میں میں نے یہ کہا ہے کہ ہماری ادبی تاریخیں تاریخیت کے جوہر سے عاری ہیں اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ تاریخیت کے فقدان کے سبب ادبی تاریخیں، تاریخ ادب کے درجے پر نہیں پہنچ سگی ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخ کے علاوہ باقی تمام تر تاریخیں Unhistorical Historiography کی مثالیں ہیں۔ بظاہر یہ کتابیں تاریخ ادب نظر آتی ہیں اور ان کے مصنفین نے ان کو اردو کی ادبی تاریخ سمجھ کرہی تحریر کیا ہے اور ہمارے قاری اور نقاد اس نوعیت کی کتابوں کو ادبی تاریخ ہی کہتے رہے ہیں جیسا کہ گیان چند نے اپنی کتاب میں ایسی کتابوں کے ڈھیر کو ادبی تاریخیں کہا ہے۔ موصوف نے ان کتابوں کی تکنیکی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا کیوں کہ خود گیان چند کے اپنے ذہن میں ادبی تاریخ کی تکنیک کا کوئی باضابطہ تصور موجود نہ تھا۔ اس لیے انہوں نے اْردو کی روایتی ادبی تاریخوں کی تکنیک کے مسئلے پر کوئی سوال نہیں اْٹھایا۔ ان کی ساری دلچسپی اس چیز میں تھی کہ مصنفین نے اپنے بیانات میں کہاں کہاں غلطیاں کی ہیں۔
ادبی تاریخ نگاری کا ہمارے ہاں کرائسس نظر آتا ہے اور یہ کرائسس تکنیک کے مسئلے کی پیداوار ہے۔ تکنیک کی وضاحت نہ ہونے کے سبب ہمارے ہاں جواد بی تاریخیں لکھی گئی ہیں وہ Unhistorical Historiography کا نمونہ ہیں چونکہ یہ تاریخیں تاریخی شعور، تاریخیت اور ارتقا کے تصورات کے مطابق نہیں لکھی گئی ہیں اس لیے ان کی تکنیک کو Unhistorical Historiography کہا گیا ہے۔
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ادبی تاریخ ، ادب کے رجحانات اور ادبی اصناف کے ارتقا اور ادبی تجربات کی تاریخ کا نام ہے تو آپ ادبی تاریخ کے لیے بحران (Crisis) پیدا کر رہے ہیں۔ بات سوچنے کی یہ ہے کہ کیا اس دور میں ایسے محدود تصورات کی بنیاد پر کسی ادبی تاریخ کی تشکیل کی جاسکتی ہے؟ کیا اس عہد میں ادبی تاریخ کو علاحدگی Isolation اور Abstraction میں رکھا جا سکتا ہے؟ اگر ہم ان تصورات پر یقین رکھنا چاہتے ہیں تو یہ تصورات ادبی تاریخ کی علالت (Sickness) کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ہم ادبی تاریخ کی علالت برقرار کھنا چاہتے ہیں تو انہیں پرانے تصورات سے چمٹارہنا چاہیے۔ بہ صورت دیگر اگر ہم ادبی تاریخ کے بحران اور (Sickness) کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تصورات کو ختم کر کے ادبی تاریخ کے جدید تصورات کو اپنانا ہوگا جس سے ایک نئی اد بی تاریخ تشکیل پذیر ہو سکے گی۔
آئیے اب ہم ادبی تاریخ نویسی کے کچھ اور مسائل کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں۔ ادب کی تاریخ اور ادب کی تحقیق میں فرق برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ ادبی تاریخ اور ادبی تحقیق کے منصب کو واضح طور پرسمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بیشتر کام کرنے والے ان شعبوں کے تصورات کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ادبی مورخین کا ایک اہم گروہ تحقیقی حقائق کی دریافت کو ہی ادبی تاریخ سمجھتا ہے۔ اس لیے ان مورخین کی تواریخ میں تحقیقی حقائق بھی پر تمام توجہ مرکوز کر دی گئی ہے۔ مختلف شاعروں اور ادیبوں کے حالات و واقعات پر بہت محنت کی گئی ہے اور بہت سے تاریخی خلا پْر کیے جاسکتے ہیں۔ ایسی تواریخ سے بلاشبہ تاریخ ادب سے متعلق بہت سا خام مواد سامنے آجاتا ہے مگر ان تمام محاسن کے باوجودان تاریخوں میں تاریخیت کا عنصر غائب ملتا ہے یا بہت کم زور رہ جاتا ہے۔ ادبی تاریخ کے تدریجی عمل کی عدم موجودگی کے باعث ان تواریخ میں ادبی تاریخ کے تقاضے پورے نہیں ہو پاتے ہیں۔ اس لیے اردو ادب کی ایسی تاریخیں ، تاریخ نہیں بن پاتیں بلکہ وہ تاریخ کی دہلیز پر کھڑی نظر آتی ہیں۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ادبی مورخ کو اپنے کام میں ایک متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس رویے کو اپنا کر وہ اپنے کام میں حسن انتخاب کا رستہ اختیار کرتا ہے اور حسین انتخاب سے اس کے ہاں حسن نظر پیدا ہوتا ہے۔ یہ حسن نظر ہی ہے جو ادبی تاریخ جیسی خشک شے کو مطالعہ کے قابل بناتا ہے۔
اردو ادب کے مورخین کا یہ مسئلہ قابل توجہ ہے کہ یہ لوگ جوش تحقیق میں اس حقیقت کو فراموش کر جاتے ہیں کہ ان کا اصل کام تو ادبی مواد کی تحسین و تفہیم ہے۔ ادیبوں کے بارے میں صرف خام مواد فراہم کرتے چلے جانا اور حقائق بیان کرتے چلے جانا ان کا فریضہ نہیں ہے۔ یہ کام تو ادب کی تاریخ میں جزوی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے لیے بہتر میدان ادبی تحقیق کا ہے جو ایک الگ شعبہ ہے۔ اس نوعیت کی تحقیقی سرگرمیوں کو الگ کر کے شائع کرنا زیادہ بہتر ہے۔ ادبی تاریخ اس قسم کے مظاہروں کی ایک حد تک بھی متحمل ہو سکتی ہے۔ بہ صورت دیگر سارا کام غیر متوازن ہو جائے گا۔ تاریخی حقائق ابھر کر سامنے آجائیں گئے اور ادبی تاریخ کا میدان پس منظر میں چلا جائے گا۔ اس لیے ادبی مورخ کو ہر سطح پر ایک متوازن رویے کا حامل ہونا چاہیے۔
اس مقام پر میں ایک بات کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ادب کی تاریخ میں پیش کیے جانے والے حقائق (Facts) کی حیثیت خام مواد کی سی ہے۔ یہ ادبی تاریخ نہیں ہیں۔ جس طرح ایک ماہر تعمیرات اینٹ، سیمنٹ ، ریت بجری ، لو ہے اور لکڑی وغیرہ کو استعمال کر کے ایک مکان کی شکل دے دیتا ہے اسی طرح سے ادبی مورخ کا کارنامہ اس کی تاریخ ہے جسے اس کی ذہنی بصیرت تشکیل دیتی ہے۔ واقعات و حقائق اس کے لیے خام مال تھے جنھیں استعمال کر کے پہلے وہ ادبی تاریخ کا خاکہ تیار کرتا ہے اور پھر اس خا کے میں اپنے وژن (Vision) سے تاریخ نگاری کا عمل سرانجام دیتا ہے۔
ادبی تاریخ وہ ادب پارہ ہے کہ جسے کوئی ادبی مورخ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور پھر قاری کے دیکھنے کے لیے اس کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔
ادبی مورخ ، تاریخ لکھنے سے پہلے تاریخ کا سفر کرتا ہے۔ وہ تاریخ کے کرداروں سے ملتا ہے۔ ان کے ساتھ اْٹھتا بیٹھتا ہے، سوتا جاگتا ہے۔ ان کی صحبتوں میں شرکت کرتا ہے۔ وہ پرانے شہروں کا سفر کرتا ہے۔ گلیوں محلوں اور تاریخی مقامات کی سیر کرتا ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار کے طرز احساس، افکار اور نظریات کا جائزہ لیتا ہے۔ وہ ماضی کی ادبی روایات اور افراد کے بارے میں غور و فکر کے مراحل سے گزرتا ہے۔ وہ تاریخ کو مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے۔ تاریخی ادوار کا اْفقی اور عمودی سطحوں پر تجزیہ کرتا ہے اور ان ساری منازل سے گزرنے کے بعد ماضی کی تاریخ کے بارے میں روشنی حاصل کرتا ہے اور اس روشنی کو اس کے مطالعات کا حاصل کہا جا سکتا ہے اور اس کام کو انجام دیتے ہوئے خود بھی تاریخ کا ایک کردار بن جاتا ہے۔
ادبی تاریخ کا مورخ ادبی تاریخ کے تاریک ادوار روشن کرتا ہے اور یہ جگمگاہٹ اس کی بصیرت پیدا کرتی ہے۔ اس لیے میں اس نظریے کا قائل ہوں کہ ادبی مورخ کو صرف حقائق اور ان سے متعلقہ مباحث ہی میں نہیں الجھنا چاہیے اسے اپنے مطالعات سے تاریخ کی بصیرت بھی حاصل کرنی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ادبی مورخ کا ذہن قدرے تخلیقی ہونا بھی ضروری ہے۔ حقائق کی مدد سے وہ متخیلہ سے کام لے کر کسی دور کی اصل تخلیقی دنیا کا نظارہ کر سکتا ہے۔ اردو ادب میں اس قسم کے کام کی سب سے خوب صورت مثال ’آب حیات‘ ہے۔ آزاد کے انتہائی زرخیز متخیلہ نے دلی اور لکھنؤ کی ادبی محفلوں اور شعرا کے جو مرقع تیار کیے ہیں ان کے رنگ کبھی بھی نہیں مرجھا سکتے۔
اور اب کچھ باتیں تحقیق کے Cult کے بارے میں:
تحقیق کا Cult ادبی تاریخ کوکس طرح سے برباد کر دیتا ہے اس کے لیے گیان چند اور سیدہ جعفر کی تاریخ ایک مثال پیش کرتی ہے۔ موصوف گیان چند ادبی تاریخ کو کیا سمجھتے ہیں اس کی وضاحت کے لیے میں ایک اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں:
’’فی زمانہ ادبی تاریخ سے وہ سب مطالبے کیے جارہے ہیں جو در اصل ادبی تنقید کی ذمہ داری ہیں، لیکن یہ زیادتی ہے۔ ادبی تاریخ کو سب سے پہلے تاریخ ہونا چاہیے۔‘‘
اقتباس کا پہلا جملہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ادبی تاریخ اور ادبی تنقید کے تعلق پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ادبی تنقید کو ادبی تاریخ کے محاکمے کے فرائض سپرد کرنا نہیں چاہتے کہ یہ اد بی تنقید کا کام نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ادبی تنقید اگر ادبی تاریخ میں اپنا کردار ادا کرے تو یہ زیادتی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ادبی تاریخ کو سب سے پہلے تاریخ ہونا چاہیے۔ ادبی تاریخ ان کے نزدیک کیا ہوتی ہے اس کی وضاحت میں وہ کہتے ہیں:
’’اس میں صحیح سنین دینے پر خاص توجہ صرف کرنی چاہیے۔ کسی مصنف کا سنہ ولادت، سنہ وفات اور زندگی کے دوسرے اہم واقعات مثلاً ایک مقام سے دوسرے مقام پر ہجرت کی تاریخیں دینی چاہئیں۔ اس کے علاوہ اس کا مختلف تصانیف اور ان کے ایڈیشنوں کے سال بھی زیادہ سے زیادہ صحت کے ساتھ دیے جائیں اگر تخلیق کہیں اور سے ماخوذ ہے تو اس کے ماخذ اور مختلف تراجم کی نشاندہی کی جائے۔ قدیم ادب میں اس پہلو پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
گیان چند کسی نہ کسی طرح کوشش کرتے ہیں کہ تنقید سے دامن چھڑا لیا جائے (ادبی تاریخ کے) ’’تنقیدی جائزے میں اس شرح کی ضرورت نہیں جو تنقیدی کتب میں ہوتی ہے۔‘‘ گیان چند کسی مصنف کے سوانحی خاکے اور اس کی کتب کے مختلف ایڈیشنوں کو تاریخ ادب میں درج کرنے کے کام کو ادب کی تاریخ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تاریخ ادب اردو لکھی تو یہ تاریخ ان کے تصور کے عین مطابق تھی۔ ’ادبی تاریخیں‘ کے مقدمے میں گیان چند نے مغرب کے مختلف سکالرز کی وہ آرا درج کی ہیں جو ادبی تاریخ سے متعلق ہیں۔ مگران آرا کا کوئی اثر عملی طور پر ان کی تاریخ ادب میں نظر نہیں آتا۔ انہوں نے تاریخوں پر تنقید و تبصرہ کیا ہے۔ یہ تبصرہ کیا ہے؟ یہ بھی سن لیجئے۔ ہر ہر صفحے پر وہ زیر تبصرہ کتاب کے سنین ، واقعات اور اسی قسم کے دیگر معاملات پر بحث کرتے ہوئے حقائق کی اغلاط کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے سوانحی نوعیت کے حقائق پر پورا زور صرف کر دیا ہے۔ مگر انہوں نے کسی ایک تاریخ کو بھی اس نظر سے نہیں دیکھا کہ وہ تاریخ ہے بھی یا نہیں؟ اس لیے کہ سوائے حقائق کے Cult کے ان کے ذہن میں ادبی تاریخ کا کوئی واضح یا غیر واضح تصور موجود نہیں ہے اور حقائق کے اس Cult نے ان کی تاریخ ادب کو ادبی محاسن سے محروم کر دیا ہے۔
ایک اچھی تاریخ ادب وہ شخص نہیں لکھ سکتا جو صرف محقق ہو اور نہ ہی تاریخ ادب کی تصنیف کسی ایسے فرد کا کام ہے جو صرف نقاد ہو۔ اچھی تاریخ ادب صرف وہی ادیب لکھ سکتا ہے جو بہ یک وقت تحقیق و تنقید پر قدرت رکھتا ہو۔ میں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ ہمارے ہاں اچھی تاریخ ادب انفرادی یا اشترا کی سطح پر اس لیے نہیں لکھی جا سکی کہ یہ محققین کا کام سمجھا گیا تھا اور ہمارے محققین تنقید پر قدرت نہ رکھتے تھے۔ ہمارے تنقید نگار اس بھاری بھر کم پتھر کو اْٹھانے کے لیے ہرگز تیار نہ ہوتے تھے۔ وہ ہر قسم کی تنقید نگاری کا کام تو کرتے رہے مگر ادبی تاریخ کی تنقید سے دامن بچاتے رہے۔ نقادوں میں صرف ڈاکٹر محمد صادق اور احتشام حسین نے تاریخ ادب لکھنے کی جرات کی تھی اور اب حال اور مستقبل میں یہ فریضہ ان لوگوں کو انجام دینا ہو گا جو تنقید اور تحقیق کے امور میں یکساں طور پر یکساں قدرت رکھتے ہوں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ادبی مورخ کو محقق سے زیادہ نقاد ہونا چاہے۔ میں یہ بجھتا ہوں کہ اگراد بی مورخ کی تنقید کم زور ہے تو وہ کبھی بھی اچھی تاریخ ادب نہ لکھ سکے گا۔ ادبی تاریخ میں جو چیز بہت اہم ہے وہ کسی عہد، کسی ادیب، کسی شاعر، کسی نظریے یار جحان کا تنقیدی محاکمہ ہے۔ یہ تنقید ہی ہے جو کسی بھی مصنف کے ادبی مقام کا تعین کرتی ہے۔ تنقید ہی کسی فن پارے کے محاسن ، معاب اور تجزیے کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ اگر تاریخ ادب میں ان پہلوؤں پر توجہ نہ دی جائے یا اچھے تجزیے پیش نہ کر سکیں تو پھر ادبی تاریخ کا مقصدہی فوت ہو جائے گا۔ گیان چند سیدہ جعفر علی گڑھ تاریخ ادب اردو، پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ ادب وغیرہ ادبی تاریخ کا مقام چھونے سے قاصر رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان تواریخ میں ایک تو تنقید اور تحقیق کا توازن برقرار نہیں رہ سکا تھا۔ ان میں صرف تحقیق ہی غالب نظر آتی تھی اور دوسرے جہاں تحقیق و تنقید میں توازن تھا وہاں تنقید کم زور تھی۔
اکیسویں صدی میں یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ تاریخ ادب صرف حقائق کے Cult پر یقین رکھنے والوں کا کام نہیں ہے۔ حقائق کے Cult کو تاریخ سمجھنے والوں کا انجام کسی سے پوشیدہ نہیں رہا۔ اس گروہ نے تاریخ ادب کو تاریخ ادب نہیں بنایا بلکہ اسے تحقیقی تاریخ بنا دیا ہے۔ یوں ادبی تاریخ، ادبی تاریخ نہیں بن سکی حقائق کا Cult بن گئی ہے۔ حقائق کے اس Cult کا ادبی تاریخ اور ادبی روایت کے ارتقا سے تعلق نہیں بن سکا۔ اس گروہ نے تحقیقی مقالات کی صورت میں ابواب لکھ دیے ہیں۔ یہ ابواب اپنے طور پر تحقیق کے اچھے نمونے ہو سکتے ہیں۔ ان میں نئی معلومات نئے حقائق ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ ادبی تاریخ معلوم نہیں ہوتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس گروہ کے نزدیک تاریخ کے ارتقا کا کوئی واضح تصور ہی موجود نہ تھا۔ ان کے ذہنوں میں صرف حقائق کی صحت کا تصور تھا اور یہ لوگ اپنی تمام تر محنت اس تصور پر صرف کرتے رہے۔
ادبی مورخ حقائق کی صحت اور سند کے مسائل طے کرتا ہے۔ تمام ضروری سنین کی صحت کو پرکھتا ہے۔ تاریخ پیدائش سنہ وفات اور زندگی کے اہم واقعات کے سنہ فراہم کرتا ہے۔ گویا سب سے پہلے وہ سوانحی مواد حاصل کرتا ہے۔ پھر اس مرحلے کو طے کرنے کے بعد ادبی تاریخ کی روایت تسلسل، رجحانات ، نظریات اور ہر عہد کے ادبی ارتقا پر غور وفکر کر کے مصنفین کے کام کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ادبی مورخ ادبی تاریخ کے لیے اپنے پہلے مرحلے میں خام مال حاصل کرتا ہے۔ ان ضروری مصادر کے حصول کے بعد وہ ادبی تاریخ نویسی کی اصل منزل میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ تنقید و تحسین اور تجزیے سے کام لے کر ادبی تاریخ کے سفر کو طے کرتا ہے اور یہی اس کا بنیادی کام ہے۔ اس لیے یہ کام بہت توجہ چاہتا ہے۔ تاریخ کا یہ کام بیش از بیش تنقیدی ہوتا ہے۔ میری رائے میں اب مستقبل کی ادبی تاریخ بنیادی طور پر تنقیدی ہوگی۔ یوں دیکھا جائے تو ہمارے کلاسیکی ادبی مورخین کی نسل اپنا کام کر چکی ہے اور ان کا دور ختم ہو گیا ہے۔ مستقبل کے ادبی مورخین پرانے مورخین سے مختلف ہوں گے۔ وہ حقیقی تاریخ سے زیادہ سماجی ، تہذیبی اور فکری تاریخ پر توجہ دیں گے۔ جس سے ادبی تاریخ کا افق بہتر طور پر اجاگر ہو سکے گا۔ ادبی تاریخ کے جو مسائل ہمارے ہاں پیدا ہوئے ہیں ان میں ایک مسئلہ خصوصی طور پر ہماری توجہ چاہتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اردو ادب میں اب تک جو تواریخ قلم بند کی گئی ہیں ان میں تاریخیت کے کردار کو اہمیت نہ دینے کا سبب آخر کیا ہے؟ اس مسئلہ کو میں اس لیے اہمیت دے رہا ہوں کہ ادبی تاریخ نویسی میں تاریخیت کے کردار کو بہتر طور پر نہ بجھنے کی وجہ کیا ہے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ادبی تاریخ مختلف مقالوں کو جوڑنے سے نہیں بنتی ہے یا ادبی تاریخ تاریخی ترتیب سے لکھے گئے مقالوں کو کتابی صورت دے کر اور اس پر ’تاریخ ادب اردو‘ لکھ دینے سے یہ دستاویز ادبی تاریخ نہیں بن سکے گی۔ ادبی تاریخ تاریخ ادب کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر کس طرح سے ادب کی تاریخ بن سکتی ہے؟ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ ہماری نوے فیصد ادبی تاریخیں ادبی تاریخ کے تقاضے پورا کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ اس مرحلہ پر اب اس مسئلہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کمزوری کی نشاندہی کرنے کی بھی ضرورت ہے جس نے ادبی تاریخ کو اس کے صحیح مقام پر فائز ہونے سے محروم کیے رکھا ہے۔
ہماری ادبی تاریخیں جن ادیبوں نوے فیصدلکھی ہیں ان میں نوے فیصد ادیب، نقاد ایسے لئے ہیں جو ادبی تاریخ کے مورخ ہونے کے باوجود ادب اور تہذیب کے تاریخی شعور کا شعور نہ رکھتے تھے۔ ذرا سوچئے کہ ہم ماضی میں ادب کی حساسیت کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں؟ ماضی کے ادوار میں ہم تاریخی شعور کی رہبری کے بغیر کس طرح سے آگے بڑھ سکتے ہیں ؟ گم شدہ زمانوں اور ماضی کے ادبی قافلوں میں ہم کیوں کر شامل ہو سکتے ہیں؟ اصل چیز وہ روشنی ہے جو ادبی روایت کے ارتقا کو روشن کرتی ہے اور جہاں سب چیزیں اپنے تحرک کے ساتھ رواں دواں نظر آتی ہیں۔ مگر یہ سارا کچھ تاریخی شعور کی آگاہی اور روشنی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ تاریخی شعور ہی ہے جو ادبی روایت کے Context کو تلاش کرتا ہے۔ اسے معنویت سے مربوط کرتا ہے اور اس کی از سر نو تشکیل کر کے تاریخ کی تعمیر کرتا ہے۔ ہمارے ادبی مورخین نے ادبی تاریخ میں تاریخی شعور کو اہمیت نہیں دی ہے۔ یہ لوگ ہر ادبی دور کے ادب کو مقالوں کی صورت میں بیان کر دیتے ہیں، لیکن یہ مقالے ادبی تاریخ میں روایت کے سفر کی شکل کو واضح نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی تاریخی شعور کی منزلوں کا پتہ دیتے ہیں لہٰذا ایسی تاریخوں کو ہم کس طرح سے ادبی تاریخ کا نام دے سکتے ہیں۔
ادبی تاریخ کے بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ جہاں مورخین تاریخیت کا اظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اردو ادب کی تواریخ میں سے بیشتر تاریخیں ایسی ہیں کہ جو افراد کے انفرادی کارناموں پر مشتمل ہیں، گویا یہ افراد کے کارناموں کی ادبی تاریخ ہے۔ اس نوعیت کے ادبی مورخ کسی بھی تاریخی دور کے مصنفین کے حالات اور کارناموں پر نظر رکھتے ہیں اور ان کی خصوصیات کو قلم بند کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ افراد کے مجموعی کارناموں سے مرتب ہونے والی تاریخ کی حرکت کو بیان نہیں کرتے۔ افراد کے کام سے بننے والی کسی دور کی مجموعی ادبی روایت کے فروغ، زوال اور ایک نئی روایت کی نمود پر توجہ صرف نہیں کرتے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ انفرادی کام فرد کی انفرادی تخلیقی صلاحیت کا اظہار ہیں۔ ان انفرادی کاموں کو جب تک ادبی تاریخ کی حرکت کے مطابق نہ دیکھا جائے گا اس وقت تک تاریخ کا تصور پیدا نہ ہو سکے گا۔ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ تاریخ کا تصور تاریخ کی حرکت کو ریکارڈ کرنے میں ہے۔ تاریخ کا تصور تاریخی قوتوں کو دریافت کرنے میں ہے۔ ادبی مورخین جب صرف انفرادی ادبیوں کے کام پر ہی رُک جائیں تو تاریخ کی حرکت رُک جائے گی اور جب حرکت رُک گئی تو تاریخ ، تاریخ کہاں رہے گی۔
ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہم نے ادبی مورخ کا کردار صحیح طور پر متعین کرنے میں کوئی سعی نہیں کی اور جب ادبی مورخ کا کردار ہی متعین نہ ہو سکا ہو تو ہم اس سے کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں۔ ادبی مورخ کے کردار پر غور کیجئے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ادبی مورخ کا کام صرف واقعات اور حقائق تک محدود نہیں ہے۔ وہ واقعات اور حقائق سے آگے بڑھ کر ایک اور اہم فریضہ انجام دیتا ہے۔ واقعات و حقائق اور تاریخ کے مطالعہ سے ادبی تاریخ کے کسی دور ، رجحان ، نظریے یا کسی شخصیت کے بارے میں ایک وژن (Vision) مہیا کرتا ہے۔ ادب کی تاریخ کو جو قوت ادبی تاریخ بناتی ہے وہ ادبی مورخ کا وژن ہے۔ تاریخ کے خاموش اور تاریک گوشوں کو اس کی ذاتی بصیرت روشن کر دیتی ہے۔ بکھرے ہوئے مواد اور غیر مرتب تصورات کو ایک مربوط معنی دے کر وہ کسی عہد کو با معنی بنا دیتا ہے۔ وہ چیزیں جو پہلے محسوس نہ ہوتی تھیں اب میں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ ادبی مورخ کے مشاہدے کے ذریعے ہم سیاسی تاریخ کی دھڑکنیں سننے لگتے ہیں اور تاریخ کا منظر نامہ متحرک ہو کر سامنے سے گزرنے لگتا ہے اور بالآخر ہم اس عہد کی عصری حساسیت کا مشاہدہ کرنے لگتے ہیں مگر یہ سب کچھ ادبی مورخ کے ہمہ گیر علم ہی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ فلسفہ ، نفسیات دیو مالا ، سیاست ، تہذیب اور ثقافت میں غواصی کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ادبی مورخ ہمیں کسی عہد کے وژن سے آشنا کرے۔
ادبی تاریخ میں وژن کس طرح اپنا کردار ادا کرتا ہے اور کس طرح سے ماضی کے دھندلکوں سے حقائق کے پس منظر کی روشنی کو استعمال کر کے تاریخ کے گم گشتہ ابواب کو نمایاں کرتا ہے۔ اس کی مثال کے لیے حیات غالب کے ایک دور کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کیا اپنی ادبی زندگی کا نصف دور مکمل کرنے کے بعد غالب نے اردو کی جگہ فارسی زبان کو اپنی تخلیقی زبان کیوں بنا لیا تھا؟ اور وہ کون سے حالات تھے جن سے دل برداشتہ ہو کر غالب نے اپنے ادبی کردار کو ایک نئی سمت میں ڈال دیا تھا۔
آئیے ہم اس سوال کا جواب عہد غالب پر تاریخی حوالوں میں تلاش کر کے دیکھتے ہیں کہ وژن کس طرح اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ ذوق اور ان کے گروہ کے دیگر شاعر شمالی ہند میں مقبولیت کے اعلیٰ ترین گراف پر نظر آتے تھے اور وہ اپنے دور کی آواز بن چکے تھے ؟ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ذوق کے شعری قبیلے کے شاعر شمالی ہند کے ادبی مزاج کو وہی کچھ دے رہے تھے جس کا مطالبہ ان کا ادبی مزاج کرتا تھا ، چنانچہ ذوق اور قبیلۂ ذوق کی برتری اس مانوس مطالبے کو پورا کرنے میں تھی۔ انھیں اس سے دل چسپی نہ تھی کہ یہ مطالبہ شاعری کے اعلیٰ معیارات کو پورا بھی کرتا ہے یا نہیں۔ اس کے بر خلاف غالب کی شاعری، جو اعلیٰ معیارات کی حامل تھی مقبولیت کے اعتبار سے نیچے درجے کے گراف پر رہی۔ غالب اپنے عہد سے مفاہمت کی اس سطح تک نہیں آسکتے تھے جس تک ان کا ادبی دور اور اس کے سکہ بند شاعر آ چکے تھے۔ غالب اس ماحول سے ہمیشہ دور رہا۔
ادبی دنیا میں غالب کو تادیر مناسب قبولیت حاصل نہ ہوسکی تھی حتیٰ کہ ظلم یہ تھا کہ ان کو بے معنی شاعر کہا جاتا رہا اور ان کے فکر و کمال کے شاہ کاروں پر بے معنویت کی چھاپ لگائی گئی۔ ان کے مقابلے میں دہلی کے اوسط درجے کے شعرا اپنی روایتی ذہانت کے ساتھ زیادہ قدر و منزلت کے مستحق سمجھے جاتے تھے۔ ناقدری اور سخن ناشناسی کے ادبی ماحول میں رہتے ہوئے غالب ذہنی بحران کی تکلیف دہ منزلوں سے گزرتے رہے۔ انہوں نے معاشی عذاب کے ساتھ ساتھ ذہنی عذاب کا یہ زمانہ بھی طویل مدت تک برداشت کیا۔ وہ لال قلعے کی دیواروں سے قبولیت کا شرف چاہتے تھے۔ اس کے باوجود کہ اس دور میں لال قلعے کی دیواروں اور ایوانوں کا شکوہ معدوم ہو چکا تھا۔ یہ دیوار یں مغلوں کی روایتی قوت سے محروم ہو چکی تھیں مگر پھر بھی غالب کے عہد میں روایتی قویت کا شرف انہی دیواروں کے سائے سے حاصل ہوتا تھا۔ ہم یہاں بہادر شاہ ظفر کی مدح میں لکھے گئے ایک قصیدے کے اشعار درج کریں گے جن میں خستہ حال اور شکستہ دل غالب اپنے مصائب اور محرومی کی کیفیت بیان کرتا ہے:
شہنشاہ ز غمِ دوریِ درت، کارم
بداں رسیدہ کہ بے مرگ جاں وہم ناگاہ
نہ جویم ار بہ درت راہ، رحم کن، نہ عتاب
دریں کہ طالعِ من بد بود، مراچہ گناہ
کجاست ارزش آنم کہ بر بساط قبول
بہ لب نوا دہم از پاے بوس شاہنشاہ
ز نقش پاے توام بوسہ بس بود، آرے
دریں ہوس چو گدایاں گرفتہ ام سر راہ
بہ بارگہ نہ رسم خانۂ سپہر خراب
ندیم شہ نہ شوم روے روزگار سیاہ
ز شاہ بہرۂ من سوختن بہ داغ فراق
ز دہر حاصل من زیستن بحال تباہ
چہ دل نیم بہ گہر پاشی سخن چو مرا
ہزار آبلہ بر دل بود ز گرمی آہ
چہ سر کنم روش مدح گستری چو مرا
بہ بزم خسرو گیتی ستاں نہ باشد راہ
زکار رفتہ دل و دست من چنانکہ مرا
نہ ماندہ شادیِ پاداش و رنج باہ افراہ
نہ از تو لطف و نہ از حق مدد، زہے حرماں
نہ تاب شکوہ ، نہ جاے سخن ، معاذ اللہ
نباشدم صلہ مقصود ، مدح خوانِ توام
کہ می رسد زنمِ ابر تازگی بہ گیاہ
بہ چشم کم منگر ، گرچہ خاک راہ توام
کہ آبروے دیارم دریں خلافت گاہ
غالب کے اس قصیدے میں ایک ٹوٹا پھوٹا، شکست خوردہ اور مایوس شاعر نظر آتا ہے جو شدید نا امیدی کے عالم میں بہادر شاہ کے حضور میں رسائی کا طالب ہے۔ یہ قصیدے کا روایتی اسلوب نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت پسندانہ اظہار ہے۔ یہ قصیدہ غالب کی نفسیاتی شکست خوردگی کا ترجمان ہے اور یہ نفسیاتی شکست خوردگی، دربار شاہی اور دلی کے اس شعری ماحول کی پیدا کردہ ہے جس کی رہنمائی ذوق کر رہے تھے۔ غالب عجز کی حالت میں قلعہ معلی سے اپنے فن کی داد چاہتے تھے مگر قلعہ معلیٰ تھا کہ شان وشکوہ سے گرنے کے بعد اب فکر و تخیل کی بلندیوں سے بھی نیچے گر چکا تھا۔ وہاں اب زبان اور محاورے اور اوسط درجے کی شہری دانش کا دور دورہ تھا۔ شاعری کا مقصد محض ذہنی تفریح اور مسرت رہ گیا تھا۔ غالب جیسا شاعر، جو فکر تخیل کی دنیا ئیں آباد کر سکتا تھا اور جس کی جولائی طبع سے شاعری کا ایک جہان نو پیدا ہور ہا تھا، قلعۂ معلی کے سائے سے محروم رہا۔ اس کی حیرت و یاس میں ان تہذیبی محرومیوں کا بہت حصہ تھا اور ان کی وجہ سے اس کے ذہن میں داخلی بحران کی اذیت مسلسل جاری رہی۔ ان حوادث کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ غالب وقفے وقفے سے اپنے آپ کو مغائرت (Alienation) کی دنیا میں دیکھتا رہا۔ جب کبھی خارجی حالات کا دباؤ پڑھتا، وہ مغائرت کی اس دنیا میں اْترنے پر مجبور ہو جاتا۔ ان ہی حوادث کی کسی ساعت میں اس نے بالآخر یہ سمجھ لیا کہ وہ عندلیب گلشن نا آفریدہ ہے۔ غالب کی یہ سوچ اسے مغائرت کی انتہائی سطح تک لے جاتی ہے۔ اس سے زیادہ مغائرت کا گمان کرنا بھی مشکل معلوم ہوتا ہے اور اسی ایک مصرعے سے اس کی ذہنی اذیت کا گماں کیا جاسکتا ہے۔ وہ غالب، جو مقبولیت کی سند کے لیے لال قلعے کی فصیلوں کا سایہ چاہتا تھا، اب بے بس اور مایوس ہو کر اپنے آپ کو نا آفریدہ گلشن کا عندلیب سمجھنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ غالب کا المیہ یہ تھا کہ اپنے عہد کے ساتھ اس کا مکالمہ ممکن نہ ہوسکا تھا اور یہی سبب تھا کہ وہ خود کو عندلیب گلشن نا آفریدہ کہہ کراپنی تخلیقی دنیا میں سمٹ کر رہ گیا تھا۔ اس مقالے کے آخر میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے نئے دور کے ادبی مورخین تاریخ ادب لکھتے ہوئے اگر ادبی تاریخ کے مندرجہ بالا تصورات کو پیش نظر رکھیں گے تو وہ ایک بہتر تاریخ لکھ سکیں گے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ایک اچھی ادبی تاریخ ادب سے متعلقہ علوم و فنون تحقیق اور جدید تنقید پر گہری گرفت رکھنے والا ادبی مورخ ہی لکھ سکتا ہے۔ اگر تحقیق یا تنقید پر بیک وقت قدرت نہ رکھنے والا شخص یہ کام کرے گا تو وہ کبھی بھی ایک اچھی ادبی تاریخ نہ لکھ سکے گا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں