پروفیسر ظہیر رحمتی
شعبۂ اُردو ,ذاکر حسین دہلی کالج ایوننگ
دہلی یونیورسٹی ،دہلی
اظہر عنایتی دبستان رام پور کے ایسے باوقار شاعر ہیں جنہوں نے جدیدیت کے دور میں مابعد جدید غزل اور شاعری کو ایسی پختگی اور صلابت بخشی کہ بعد کے دور میں مابعد جدید غزل نے اسی روش پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دبستان رام پور کے چار شعراء داغ دہلوی، محمد علی جوہر، شاد عارفی اور اظہر عنایتی نے اپنی طرز فکر، طرز بیان اور اسلوب سے اردو شاعری بالخصوص اردو غزل پر ایسے اثرات مرتب کیے کہ ایک عہد اور ایک نسل نے انہی کے زیر سایہ پرورش پائی۔ داغ نے جہاں اردو غزل کو بے تکلف لہجہ اور زبان کی صفائی عطا کی، وہیں جوہر نے غزل کو معرکۂ کرب و بلا کے استعارے سے روشناس کیا۔ شاد عارفی نے جدید غزل کو برجستہ طنز اور تیکھے لہجے سے ہم کنار کیا، وہیں اظہر عنایتی نے غزل کو معصومانہ لہجے اور سادگی کے ساتھ تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری، وجودی تفکر اور طنز کے بجائے تعریض کے پیرایۂ ادا میں ایک شان پیدا کی ہے۔ ما بعد جدید غزل کی حاوی خصوصیات سماجی سروکار، تہذیبی شناخت اور ذات و کائنات کی انفرادی صداقتیں، احساس زیاں اور فوری ترسیل و ابلاغ اظہر عنایتی جیسے معدودے چند شعراء کی دین ہیں۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو مذکورہ تمام اوصاف دبستان رام پور کی بنیادی خصوصیت سے جدا نہیں ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ داغ، جوہر، شاد عارفی اور اظہر عنایتی اگر دبستان رام پور سے وابستہ نہیں ہوتے تو ان کی شاعری ان اوصاف کی حامل نہیں ہوتی۔ اظہر عنایتی کا رنگ، ان کا اسلوب اپنے تمام پیش روٗں سے جدا اور منفرد ہے۔ ان کی آواز دور سے پہچانی جانے والی ہے۔ اظہر عنایتی کا یہ منفرد آہنگ اور انداز جہاں ایک طرف فطری اور وہبی ہے وہیں دوسری طرف یہ آہنگ ان کی فکر اور شعور کا نتیجہ بھی ہے۔ ’’میں اور میری آواز‘‘ میں وہ اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ ’’کئی سال اپنے استاد محشر عنایتی کے مخصوص انداز سخن کی زد سے بچنے میں گزرے‘‘ (مشمولہ اظہر عنایتی ایک سخنور مرتبہ پروفیسر شہزاد انجم صفحہ 238) دراصل ایک فنکار کے لیے جتنا ضروری یہ ہے کہ اسے کیا کہنا ہے، اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کو کیا نہیں کہنا ہے۔ آوازوں کے شور میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنا ایک بڑا جہاد ہے جس کے لیے بڑی پریشانیاں اور مصیبتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ اظہر عنایتی ایک صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ وہ اسلوب نگار نہیں ہے جس میں تصنع اور کاریگری شامل ہوتی ہے۔ اس لیے اسلوب نگار شعراء کے یہاں ہیئت اور اصناف کی تبدیلی انہیں ست رنگی بنا دیتی ہے۔ ست رنگی کی اپنی اہمیت ہو سکتی ہے لیکن اسلوب کی یک رنگی شاعری کی فکر اور اظہار کی لزومیت کی بین دلیل ہوتی ہے۔ وہ چہرہ پس چہرہ کا حامل نہیں ہوتا۔ اظہر عنایتی کی تمام شاعری غزل، نظم، حمد، نعت، منقبت، سلام وغیرہ جو بھی ہے، ان کے منفرد اسلوب اور رنگ کی حامل ہے۔ ان کی نظمیہ شاعری کمزور ہو سکتی ہے لیکن ان کے اسلوب سے یقیناً جدا نہیں ہے۔ اظہر عنایتی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ شاعری کی دوسری اصناف پر انہوں نے خال خال ہی توجہ کی ہے۔ انہوں نے مذہبی شاعری یعنی نعت، منقبت، سلام وغیرہ پر آرزوئے نجات ،عقیدت اور ضرورت کے تحت کی ہے اس لیے ان کی مذہبی شاعری ان کی غزل گوئی سے یکسر جدا نہیں ہے۔ اظہر عنایتی کے قلب و روح میں بھی اقبال کی طرح دین فطرت آئینہ ہے۔اظہر عنایتی کی غزل میں تہذیبی و ثقافتی اقدار کی پاسداری اور عہد حاضر میں ان کی شکست و ریخت کا کرب وغیرہ اسی احساس کی دین ہیں۔ اقدار کا تصور اور معیار بغیر کسی نظریے اور مذہبی ایقان کے پیدا نہیں ہو سکتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے اظہر عنایتی کی غزل میں یہ فطری لے ضمیر کی آواز اور احساس کا روپ اختیار کر لیتی ہے جب کہ مذہبی شاعری میں وہ عین دین فطرت ہے۔ اظہر عنایتی کی مذہبی شاعری بالخصوص ان کی بیشتر نعتیں طرح میں کہی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ نعت گوئی اظہر عنایتی کا خاص میدان نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے نعت گوئی میں جن امور کو شامل کیا ہے اس نے جدید اردو نعت گوئی میں مزید وسعت اور امتیازی خصوصیات پیدا کی ہیں۔
عربی زبان میں نعت کے لغوی معنی وصف کے ہیں۔ پروفیسر ریاض مجید (اردو میں نعت گوئی) کے مطابق کسی چیز کے وصف میں مبالغے سے کام لیں تو اس وقت نعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ابن اثیر کے مطابق نعت اور وصف میں فرق یہ ہے کہ نعت صرف اور صرف اچھائیوں کے بیان سے عبارت ہے جب کہ وصف حسن و قبح دونوں پر محمول ہے۔ ریاض مجید کے مطابق عربی فارسی زبانوں میں نعت کا لفظ عام معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اردو زبان و ادب میں نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف مدحت سے عبارت ہے۔ نعت عربی زبان سے شروع ہو کر فارسی زبان میں ہوتے ہوئے اردو زبان و ادب کا حصہ بنی ہے۔ اردو نعت گوئی پر پوری طرح فارسی نعت گوئی کے اثرات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اردو کی نعتیہ شاعری میں ہندوستانی تصورات صنمیات اور اس کا آب و رنگ بھی موجود ہے۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ نعت گوئی انتہائی مشکل فن ہے۔ یہ پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ ایک معمولی سی لغزش ایمان کے لیے مضرت ہو جاتی ہے۔ عام طور پر اردو میں نعت گوئی کا اصل مقصد نبیؐ کی مدح سرائی کے عوض بخشش اور نجات حاصل کرنا ہے۔ اردو زبان و ادب میں نعت گوئی ابتدا ہی سے رہی ہے اور فارسی کی طرح اردو میں بھی نعت گوئی صوفیائے کرام کے ذریعے عہد بہ عہد ارتقا کی منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھی۔ اردو زبان کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہوگا جس نے ایک آدھ نعت نہ کہی ہو۔ اردو کی روایتی نعتیہ شاعری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، سیرت، حلیۂ اقدس، معجزات، واقعۂ معراج، معمولات، عبادات، اخلاق وغیرہ سے بھی بڑھ کر آپؐ سے والہانہ عشق و محبت، وصل و ہجر کی کیفیات، دیدار مدینہ کے مضامین نظم کیے گئے ہیں۔ حالی، اقبال اور مولانا ظفر علی خاں کے عہد میں نعت میں مدح و ثنا کے ساتھ سیاسی و سماجی امور بھی بیان کیے جانے لگے۔ اردو کی جدید نعت حالی سے شروع ہو کر آج تک جاری و ساری ہے۔ جدید نعت گوئی کے باوصف نعت کے موضوعات کا دامن وسیع ہوا لیکن آج بھی اردو نعت کا بڑا ذخیرہ روایتی مضامین سے بھرا ہوا ہے، البتہ اسالیب بیان اور طرز احساس میں ایک نیا پن ضرور ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ عربی فارسی کے مقابلے میں اردو نعت کا ذخیرہ کہیں زیادہ ہے۔ نعت ایک موضوع ہے یا ایسی صنف سخن ہے جس کی ہیئت مخصوص نہیں ہے۔ بقول ممتاز حسین ’’ہر وہ شے نعت ہے جس کا تأثر ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے قریب لائے‘‘، اس لیے نعت کے لئے نظم و نثر کی بھی قید نہیں ہے۔ ابو اللیث صدیقی کے مطابق ’’نعت کے موضوع سے عہدہ بر آ ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جس ہستی پر خدا خود درود بھیجتا ہے انسان کی کیا مجال کہ اس کی تعریف کا احاطہ کر سکے‘‘۔ نعت کے اولین ماخذ قرآن و حدیث اور سیرت کی کتب ہیں۔ اس لیے نعت میں عقیدت کے جوش میں عبد و معبود کی تفریق ختم ہو جانا یا قرآن و احادیث کے برخلاف کسی مضمون کا بیان راہ نجات کے بجائے عذاب کا موجب ہو جاتا ہے۔ عربی فارسی نعتیہ ادب کے مقابلے میں اردو نعت پر صنمیات کے اثرات نے اس فن کو بڑامشکل اور پرخطر بنا دیا ہے۔ اس سے بچ کر نکلنا اردو نعت گو کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ڈاکٹر شمس بدایونی نے ’’اردو نعت کا شرعی محاسبہ‘‘ میں نعت کے ان غیر شرعی موضوعات کی نشاندہی کی ہے جن سے اردو کا نعتیہ ادب بھرا ہوا ہے:
۱۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مختار کل ہونا ۲۔قاب قوسین کا تصور۳۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہونا ۴۔سایۂ مبارک کا نہ ہونا ۵۔حضورؐ کا سبب تخلیق کائنات ہونا ۶۔عرش اعظم کا تصور ۷۔حضورؐ کا تقابل دیگر انبیاء سے ۸۔جسم کا پردہ ۹۔جبریل امین کا در رسول کا دربان ہونا ۱۰۔دیدار خداوندی ۱۱۔حضورؐ کا عالم الغیب ہونا ۲۱۔حضورؐ کی محبوبیت
ڈاکٹر شمس بدایونی کے بیان کردہ مذکورہ نکات پر محمد شمشاد حسین رضوی بریلوی نے ’’اردو نعت کا شرعی محاسبہ: حقیقت یا صرف افسانہ‘‘ میں شمس بدایونی کے اعتراضات کا مدلل جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال اس بحث سے قطع نظر شمشاد حسین رضوی کی یہ بات صحیح ہے کہ نعت عقیدت کا اظہار ہے اور جب عقیدت و محبت میں شدت پیدا ہو جاتی ہے تو اس سے عقیدے وجود پذیر ہوتے ہیں، اس لیے عقیدہ عقیدت کے ہی ذیل میں ہے۔ عقیدوں کے اختلاف نے ہی دراصل نعت گوئی کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ نعت میں حد ادب کا لحاظ اور تشبیہ و استعارے کے معنوی رخ اور باریکی کو حد درجہ ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے جس میں پھسلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
اردو کی نعتیہ شاعری کو چار زمروں میں رکھا جا سکتا ہے:
۱۔شرعی حدود میں کہی جانے والی علماء کی نعت ۲۔خانقاہی نعت جس میں صوفیانہ اسرار، استعارے اور اصطلاحات کے ساتھ عشق رسولؐ کی شدت ہوتی ہے۔ جس میںآپؐ کی زلف، رخ، خال و خد وغیرہ کا بیان اور ہجر و وصال کی کیفیات کے اظہار سے پراسرار جہان معنی کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۳۔میلاد اور سیرت النبی کے جلسوں میں پڑھی جانے والی عمومی نعت جس میں عمومی عشق اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ ۴۔ادبی نعت جس میں شاعرانہ اوصاف اور پیرایہ? بیان کی خوبصورتی کے ساتھ فکر انگیزی ہوتی ہے۔ ادبی نعت کی دو مزید قسمیں ہیں: ۱۔ایسے شعراء کی نعتیں، نعت گوئی جن کا خاص میدان ہے ۲۔ ایسے شعراء کی نعتیں جنہوں نے تبرکاً نعتیں کہی ہیں۔ نعت گوئی ان کا خاص میدان نہیں ہے۔ اردو شاعری کے ہر مجموعے کا آغاز حمد، نعت اور منقبت سے ہوتا ہے، اس لیے ایسے تمام شعراء اسی زمرے میں شامل ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ نعت ایک موضوعی صنف سخن ہے۔ اس کی ہیئت مخصوص نہیں ہے۔ فارسی کے بعد اردو میں غزل کی ہیئت میں پہلی بار نعت کہنے کا سہرا فدوی خاں فدوی، میر محمد شریف مفتوں کا ہے ۔ جس کو مومن خاں مومن نے فنی اعتبار سے چابک دستی بخشی۔ 60 کے بعد کی اردو نعت عام طور پر غزل کی ہیئت میں کہی گئی ہے۔
۱۹۶۰ ء کے بعد کی ادبی نعت کے مطالعے سے یہ بات ظاہر ہے کہ اس عہد کی نعت گوئی میں موضوعات، فضا، لب و لہجے میں بڑی تازگی ہے۔ نعت کے کینوس میں بھی وسعت پیدا ہوئی۔ نعت میں روایتی موضوعات کو نئے احساس کے ساتھ برتنے کے علاوہ دلی کیفیات اور عشق و محبت کے جذبات کو نئے انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قومی، سیاسی، سماجی مسائل، ملت کی زبوں حالی، عصری معاملات اور ذاتی و کائناتی الجھنوں کو بھی آپؐ کی ایک کریمانہ نظر کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ لفظیات، مضامین کی بافت اور نئی علامات و استعارات اور احساسات نے جدید نعت کو ماقبل نعت سے ممیز و ممتاز کر دیا ہے۔
یاں مشرق و مغرب کا تفاوت نہیں کشفیی
دامان رسالت کی ہوا سب کے لیے ہے (ابو الخیر کشفی)
زمین ثابت قدم ہے اور آسمان روشن
گزر رہی ہے ابھی جو ساعت، ظہور کی ہے (توصیف تبسم)
بستی بستی، قریہ قریہ، صحرا صحرا خون
امت والے امت کا ہے کتنا سستا خون (نعیم صدیقی)
وہ فکر نو کہ جسے آپؐ سے نہیں نسبت
ہے اس کا سود بھی دل کے لیے زیاں کی طرح (حفیظ احسن)
انسان مال و زر کے جنوں میں ہے مبتلا
اس حشر میں ندیمؔ کو درکار آپؐ ہیں (احمد ندیم قاسمی)
صدیاں طلوع ہوتی ہیں اس رخ کو دیکھ کر
کہتے ہیں جس کو وقت، ہے صدقہ حضورؐ کا (ریاض مجید)
جو دیکھ پاتے انہیں ہم تو حال کیا ہوتا
نہ دیکھنے پہ یہ عالم کہ جیسے دیکھا ہے (امید فاضلی)
مذکورہ بالا مثالیں باقاعدہ نعت گو شعراء کی ہیں جن کا خاص میدان نعت ہے لیکن 60 کے بعد کے وہ شعراء جنہوں نے تبرکاً دو چار یا دس بیس نعتیں کہی ہیں ان شعراء کے یہاں نسبتاً زیادہ تازگی اور لہجے اور اسلوب کی پراثر انفرادیت ہے۔ چند شعر ملاحظہ کریں:
غیب و ظاہر کے کناروں کو ملایا جس نے
تو وہ معراج کا رستہ ہے مدینے والے (یاسمین حمید)
جس طرح ملتے ہیں لب نام محمد کے سبب
کاش مل جائیں یوں سب نام محمد کے سبب (یعقوب پرواز)
معراج مصطفی کی حقیقت سمجھ کے آج
تسخیر کائنات کی خواہش ہو ئی مجھے (رشید امین)
ورنہ سورج تو زمی پر اتر آتا کب کا
آپؐ کے نقش قدم بیچ میں آئے ہوئے ہیں (سلیم کوثر)
کعبے میں اٹھیں جھوم کے رحمت کی گھٹائیں
مقبول ہوئیں تشنہ نصیبوں کی دعائیں (اقبال عظیم)
پاک فضاؤں کو آلودہ مت کرنا
ان گلیوں میں میرا چرچا مت کرنا (زیب غوری)
مجھے ایسی جنت نہیں چاہیے
جہاںسے مدینہ دکھائی نہ دے (بشیر بدر)
شگفتہ اسم محمد کا وقت ہے دل میں
یہاں نسیم سحر احترام سے آئے (عرفان صدیقی)
پھر کہاں معجزہء حق کا ظہو ر آپؐ کے بعد
چپ ہے جبریل تو خاموش ہے طور آپؐ کے بعد (احمد فراز)
نسیم ہوتی ہوئی آئی ہے مدینے سے
چمک رہے ہیں گلِ روح پر نگینے سے (پروین شاکر)
میں کہ اک برباد ہوں، آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمد ؐ شاد رکھتا ہے مجھے(منیر نیازی)
بنام روح محمد ؐ اب آسرا دے دے
ہمارے نامہء اعمال کی طرف مت دیکھ(امجد اسلام امجد)
مدینے جا کے درِ سیدہ پہ بیٹھا ہوں
کہ دیکھ لیں مجھے سرکار آتے جاتے ہوئے (افتخار عارف)
نام در نام مٹی جاتی ہے امت مددے
اے قریشی لقب و ہاشمی نسبت مددے (لیاقت علی عاصم)
ایک لمحے کو بھی چھٹی نہ مدینے میں ملے
قید ہو جاؤں تو کنجی نہ مدینے میں ملے (منور رانا)
جہاں سے چاہیں مدینے کو جا نکلتے ہیں
میں زمیں پہ سفر کی اجازت ایسی ہے(شاہین عباس)
مذکورہ نعتیہ اشعار کے مطالعے سے یہ واضح ہے کہ نئی لفظیات، نئے طرز احساس کے ساتھ نعت کے روایتی مضامین میں نزاکت اور خوش اسلوبی پیدا کی گئی ہے اور ان مضامین کو قلبی کیفیات اور ذاتی تجربے کا رنگ دیا گیا ہے لیکن نعت میں جس گہرائی کی ضرورت ہے وہ مفقود ہے۔
اردو ادب میں نعت کی تنقید میں بھی اس قدر ادب و احترام کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ اس کے فنی حسن و قبح پر گفتگو کرنا بھی بے ادبی سمجھا جاتا ہے۔ ہر نعت بہترین ہے چنانچہ پاکستان میں ہر برس نعت کے سینکڑوں مجموعے شائع ہو رہے ہیں اور عقیدے اور کمیت کے لحاظ سے شعراء کی عظمتیں قائم ہو رہی ہیں۔ ان پر ادبی نقطہء نظر سے گفتگو نہیں ہو رہی ہے جو ہونا چاہیے۔
60کے بعد کی جدید ادبی نعت گوئی میں اظہر عنایتی کی نعتیہ غزل سب سے ممیز و ممتاز ہے۔ اظہرعنایتی نے اپنے معصومانہ لہجے، سادگی و صفائی، غزل کے پر اثر دھیمے آہنگ و نغمگی کے ساتھ اپنی نعتیہ غزل کا رشتہ حالی اور اقبال سے استوار کیا۔ ان کا عشق محمدی ایک صوفی کا نہیں ایک مومن کا ہے جو جذبۂ عشق سے بھی سرشار ہے اور عقل و شعور کا بھی حامل ہے۔ اظہر عنایتی کی نعتیہ غزل مقصدی ہے۔ وہ ایک طرف نعت کو اپنی نجات کا ذریعہ بناتے ہیں اور دوسری طرف دین اسلام کے آفاقی پیغام کو اسوۂ رسولؐ اور عشق رسولؐ کے وسیلے سے دنیا کو پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس لیے جدید نعت گویوں میں اظہر عنایتی نے سیرت رسولؐ پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ اظہر عنایتی کی نعت کا رشتہ عربی کی اس ابتدائی نعت سے بھی قائم ہوتا ہے جو کفار شعراء کی ہجو کے رد میں لکھی گئی تھی۔ اس لیے اظہر عنایتی کی نعتیہ غزل کی زیریں لہر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دنیا کی محاذ آرائیوں کا جواب بھی پوشیدہ ہے۔ مقصدی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہی ہوتا ہے کہ اس میں سارا زور بات کی ترسیل پر ہوتا ہے۔ تشبیہ و استعارے یا شاعرانہ پیرایۂ ادا کی ندرت ضمنی ہوتی ہے۔ اظہر عنایتی کی تمام شاعری بالخصوص ان کی نعتیہ غزل سادگی میں پرکاری کی دلیل ہے۔ ان کے لہجے اور اسلوب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ سہل زبان کے ساتھ مضمون کو سادہ طور پر ایسے بیان کرتے ہیں کہ پورا شعر علامت بن جاتا ہے اور وہ علامت ایک دم قاری و سامع پر منکشف ہو جاتی ہے۔ اسلوب کی یہ نادر کاری دراصل ان کی فکر کی نادر کاری ہے۔ فکر کی نادر کاری کے بغیر سادگی میں پرکاری پیدا نہیں ہو سکتی۔ اظہر عنایتی کے اسلوب کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ واقعات کی طرف صریح اشارہ کرتے ہیں اور واقعے کے روشن ہونے کے بعد وہ پورا واقعہ ایک علامت بن جاتا ہے۔ اظہر عنایتی واقعات کی رو کے شاعر ہیں۔ وہ مشہور اور رائج امور کے وسیلے سے اپنی فکر اور تاثر کو قائم کرتے ہیں جس میں ان کا زاویۂ نظر حاوی ہوتا ہے۔ اظہر عنایتی کی فکر سلجھی ہوئی اور حتمی نتائج کی حامل ہے، اس لیے ان کے اسلوب میں کسی طرح کی الجھن اور مشکل نہیں ہے۔ اظہر عنایتی کے پاس کہنے کے لئے کچھ ہے۔ ان کا ایک نظریۂ حیات و کائنات ہے جو ان کی پوری شاعری پر حاوی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اظہر عنایتی کی نعتیہ غزل میں عقیدت کی تو بھرپور جلوہ گری ہے مگر عقیدے کی تخصیص نہیں ہے۔ ان کی نعت ہر عقیدے کے شخص کے لیے متاثر کن ہے۔ اظہر عنایتی نے سیرت محمدی کے جن پہلوؤں کو اپنی نعت میں اجاگر کیا ہے وہ پہلو جدید نعت گویوں کے یہاں بہت کم ہے۔ اس لحاظ سے اظہر عنایتی نے جدید نعت کے دامن کو وسعت بخشی ہے اور سیرت محمدی کو نئے پہلو عطا کیے ہیں۔ اظہر عنایتی نبیؐ کی سیرت و کردار کو ایک اعلی انسان کے بطور دیکھتے ہیں، ما فوق البشر کے طور پر نہیں۔ اس لیے ہر مقام پر آپؐ کی سیرت و کردار اظہر عنایتی کو حیران و ششدر کرتا ہے۔
وہ پیار دے دیا لڑتے ہوئے قبیلوں کو
سہیلیوں کی رفاقت ہو جیسے جھولوں میں
نبیؐ کریم نے صدیوں سے چلی آ رہی عرب کی قبیلہ جاتی دشمنیوں کو ایک آن میں جس طرح ختم کر دیا اور آپسی اختلافات جھولوں میںسہیلیوں کی چھیڑ چھاڑ کی طرح ہو گئے۔ یہ نبیؐ کی سیرت کا سب سے بڑا کمال ہے۔ اس شعر میں جھولوں میں سہیلیوں کی رفاقت کی تشبیہ اظہر عنایتی کی نادر کاری کی دلیل ہے۔ عورت محبت کی علامت ہے۔ رقیق القلبی اس کی فطرت ہے۔ عرب کے سنگ دل جنگجوؤں کا اس درجہ رقیق القلب ہو جانا آپؐ کی سیرت کی ایک مثال ہے۔
اس رخ سے انقلاب کو رحمت کے دیکھیے
اتنا تو کم لہو کہیں اب تک بہا نہیں
اظہر عنایتی نے نعت کے ان دو مصرعوں میں تمام عالمی انقلابات کی تاریخ اور نبیؐ کریم کے عہد کی تاریخ کا تقابل و موازنہ اور اسلامی انقلاب کی تمام خوبیاں صرف چند الفاظ اور اشاروں میں بیان کر دی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسلام پر الزام تراشنے والے منافقین اور کٹ حجتی کرنے والے لوگوں کا رد بھی کیا ہے اور ان کو دعوت فکر بھی دی ہے۔ اس طرح کے اشعار محض جوش عقیدت میں نہیں کہے جا سکتے بلکہ گہرے، وسیع مطالعے، مشاہدے اور عقل و شعور کے تجزیے کے بعد ہی معرض اظہار میں آ سکتے ہیں۔
ہر ایک گوشۂ افکار کر دیا روشن
ضیائے فکر رسالت ترا جواب نہیں
اظہر عنایتی کی نعت کا یہ شعر بھی اسی نوع کا ہے۔ قرآن و احادیث اور دنیا کے تمام تر فلسفیانہ اور سائنسی افکار و خیالات کا تقابل و تجزیہ صرف دو مصرعوں میں اس تاثر کے ساتھ کر دیا گیا جس کی تفصیل کے لیے ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔ افکار انسانی عقل کی انتہائی کاوشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ قرآن و احادیث قیامت تک کے لیے انسانی عقل کا نور ہیں لیکن اس کے لیے عقلی کاوش لازمی ہے۔ ہر عہد کے مفکرین نے اس نور سے استفادہ کیا ہے اور فیض اٹھایا ہے۔ اس سے انکار کرنے والوں نے بھی پہلے اس کا اقرار کیا ہے۔ اس شعر میں ’’ترا جواب نہیں‘‘ نے محاوراتی اور لغوی معنی کو بیک وقت جس طرح اپنے اندر سمویا ہے اس نے شعر کے لطف کو اور دو بالا کر دیا ہے۔
حکمتیں بھی حیراں ہیں، فلسفے بھی ششدر ہیں
یوں نبی نے سلجھا دیں گتھیاں مدینے میں
اظہر عنایتی کا یہ شعر بھی ما قبل شعر کی ہی قبیل کا ہے۔ اس شعر میں پہلے مصرع کی بلاغت اظہر عنایتی کے شعری بیان کا اعجاز ہے۔ حکمت اور فلسفے کا نقطۂ آغاز ہی حیرانی ہے۔ شعر میں گتھیاں سلجھانے کی وجہ سے حکمت و فلسفے کی حقیقت سے حیرانی کا جو ربط پیدا کیا گیا ہے اس کا لطف بیان سے باہر ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک حیرانی کا خاتمہ نئی حیرانی کا آغاز ہے یعنی اس کے بعد اسلامی حکمت اور فلسفے کا آغاز ہو گیا اور پھر نئی گتھیاں تیار ہو گئیں۔
آپؐ سے پہلے بصیرت ہی کہاں دنیا میں تھی
کچھ نظر آتا نہ تھا اہل نظر ہوتے ہوئے
اس شعر میں اہل نظر کو لغوی اور اصطلاحی دونوں معنوں میں ایک ساتھ برتا گیا ہے۔ آپؐ سے قبل کا دور دور جاہلیت اس لیے نہیں تھا کہ لوگ ناخواندہ یا بالکل عقل و شعور سے عاری تھے بلکہ اس لیے تھا کہ ان کی عقل اور شعور کی جولانی مخالف سمت میں تھی جس کا نتیجہ حقیقت سے محرومی تھی۔
منور ہو جہاں پر دین و دنیا
یہ سیرت ہے وہی آئینہ خانہ
ان کی سیرت سے جو افکار سجائے ہوئے ہیں
زندگی تجھ کو طرح دار بنائے ہوئے ہیں
کردار کا دنیا میں نمونہ ہی کہاں تھا
انساں کے لیے سیرت سرکار سے پہلے
ایک ہی رنگ ہے افکار سے کردار تلک
اب یہ قرآن کھلا ہے کہ ہے سیرت تیری
اظہر عنایتی نے اپنے نعتیہ اشعار میں نبیؐ کریم کی سیرت کو جس منفرد پیرائے اور زاویے سے بیان کیا ہے اس کے دو رخ ہیں: اول پیروی رسولؐ اور اطاعت رسولؐ پر زور دینا، دوم یہ کہ اظہر عنایتی مخفی طور پر دین اسلام کا دیگر ادیان اور افکار و فلسفیانہ تصورات سے مستقل طور پر تقابل و موازنہ میں مصروف ہیں۔ وہ اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ موجود دیگر الہامی کتب اور رسول و انبیاء سے منسوب قصص میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن سیرتِ محمدیؐ قرآن کا آئینہ ہے۔ اظہر عنایتی اپنی نعت گوئی میں جذبۂ عقیدت کی فراوانی میں کہیں بھی عقل و شعور کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں بلکہ ان کی عقیدت عقل و شعور کے تابع ہے، اس لیے دیگر جدید نعت گو شعراء کے مقابلے میں اظہر عنایتی کے یہاں جذب اور وجدانی کیفیات کا بیان مفقود ہے۔ ان کے یہاں نبی کی محبت ہے، عشق نہیں۔ ان کی نعت دل کو گرماتی نہیں بلکہ فکر کو مہمیز کر کے محبت کا احساس دلاتی ہے۔
تم کو آ جائیں گے خود عشق نبیؐ کے آداب
اک ذرا دیکھنا تم عشقِ صحابہ کی طرف
عظیم لوگ تھے، لائے تھے وہ بھی کیا آنکھیں
جنہوں نے آپ کی دیکھی تھیں حق نما آنکھیں
عظمت ،عمل اور عقل و شعور سے قائم ہوتی ہے، عقیدہ اور معجزے سے نہیں۔ اس لیے اظہر عنایتی کے لیے سیرت محمدیؐ کے ساتھ سیرت صحابہ بھی اہم ہے اور یہ سیرت تمام تر علم اور مطالعے پر مبنی ہے۔
سینے کلامِ حق کے محافظ بنا دیے
اللہ رے احتیاط رسالت مآبؐ کی
رونا، دعائیں مانگنا امت کے واسطے
حالت تمام رات وہ اک اضطراب کی
آج بھی سب رعونتوں کا جواب
آپؐ کا طرز انکساری ہے
سب بارِ جہاں، بارِ رسالت بھی اسی پر
اور تیغ لیے بر سرِ میداں بھی وہی ہے
اظہر عنایتی کی نعتیہ شاعری میں ایک شعر بھی ایسا نہیں ہے جو کسی بھی عقیدے کے شخص کے لیے ناگوار ہو۔ انہوں نے اپنی نعت میں وہی مضامین بیان کیے ہیں جن پر اجماعِ امت ہے۔ اظہر عنایتی نے اپنی نعت میں عصری صورتِ حال کی بھی عکاسی کی ہے۔ موجودہ دور میں امت مسلمہ کی زبوں حالی، اس کی خرابیوں کے باوجود ملک میں ہونے والی سیاسی سازشوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ عوامی عشق محمدیؐ کو بھی ایمان کی بڑی طاقت سمجھتے ہیں:
یہ الگ بات کہ پہلا سا وہ کردار نہیں
جذبۂ عشق تو ہے امتِ سرکارؐ کے پاس
جو حضورؐ اپنے حریف ہیں، وہ تو متحد ہیں سبھی مگر
ہمیں انتشار کی زد پہ ہیں، ہمیں اک لڑی میں بہم نہیں
اظہر عنایتی عصر حاضر میں اربابِ اقتدار کی مسلم خواتین کی خیر خواہی کی سازش کو بھی نعت کا موضوع بناتے ہیں:
آج تک اپنی خواتین نے دیکھا ہی نہیں
عائشہ بن کے، کبھی فاطمہ زہرا ہو کر
بحیثیت مجموعی اظہر عنایتی کی نعت کا محور و مرکز سیرت نبی، سیرت صحابہ، سیرت اہل بیت ہے۔ ان کی نعت کا سفر روح اور وجدان کی گہرائیوں کی طرف نہیں ہے۔ وہ اپنی نعت گوئی میں ایک ایسے مصلح اور مولوی ہیں جس کے دل میں محبت رسول کی دھڑکن ہے اور جس کے دماغ میں سیرت رسول کی روشنی ہے۔ اس لحاظ سے اردو کی جدید ادبی نعت گوئی میں اظہر عنایتی کا مقام منفرد و ممتاز ہیں۔ انہوں نے جدید نعت گوئی کو ایک نئی سمت عطا کی ہے اور نعت میں نئے مضامین اور پہلوؤں کا اضافہ کیا ہے۔ جدید نعت گوئی میں اظہر عنایتی کا اسلوب اپنی شناخت آپ ہے۔اللہ ہم سب کو سیرت محمدی کا عکس ہونے کی توفیق عطا کرے۔آمین
اس قدر ڈوب کے آئینہ سیرت دیکھوں
ان کے کردار کی خود ایک ادا ہو جاؤں
کتابیات
(۱) اردو میں نعتیہ شاعری ۔پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق اردو اکیڈمی، سندھ، کراچی 1976
(یہ مقالہ 1955 میں مکمل ہوا پی ایچ ڈی کے لیے ناگپور یونیورسٹی میں، چھپا 1976 میں)
(۲) اردو کی نعتیہ شاعری فرحان فتحپوری (حلقۂ نیاز و نگار، کراچی 1974ص 210)
(۳) اردو شاعری میں نعت ۔اسمٰعیل آزاد فتح پوری
(۴) اردو نعت کی شعری روایت: تعریف، تاریخ، رجحانات، تقاضے۔ صبیح رحمانی (پاکستان)
(۵) اردو نعت کے جدید رجحانات۔ شوکت چغتائی
(۶) اردو نعت پاکستان میں۔ ڈاکٹر شہزاد احمد
(۷) اردو نعت کے سات رنگ۔شاہ اجمل ندوی
(۸) اردو نعت میں تعظیمی بیانیہ ۔طارق ہاشمی
(۹) ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعراء۔ڈاکٹر شہزاد احمد
(۱۰) پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر۔ڈاکٹر عزیز احسن(نعت ریسرچ سینٹر، کراچی 2014)
(۱۱) نعتیہ ادب: مسائل و مباحث ۔ترتیب: ڈاکٹر ابرار عبد السلام
(۱۲) اردو میں نعت گوئی۔ ڈاکٹر ریاض مجید(اقبال اکیڈمی پاکستان 1990دائرہ کار 1980 تک)
(۱۳) مطالعات حمد و نعت۔نسیم سحر
(۱۴) تخلیق حمد و نعت کی تعمیری تنقید۔ رانا خالد محمود قیصر
(۱۵) حمد و نعت کے معنیاتی زاویے ۔ڈاکٹر عزیز احسن
(۱۶) اردو نعت کا شرعی محاسبہ ۔ڈاکٹر شمس بدایونی، علی گڑھ 1988
(۱۷) اردونعت کا شرعی محاسبہ: حقیقت یا صرف افسانہ ۔(محمدشمشاد حسین رضوی اردو الیکٹرک پریس، بریلی 1995)
(۱۸) اردو کی نعتیہ شاعری۔ڈاکٹر طلحہ رضوی برق
(۱۹) اردو نعت کے جدید رجحانات۔ڈاکٹر شوکت زریں چغتائی (دانش اکیڈمی، آرہ، بہار 1974
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں