پروفیسرکوثرمظہری
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
Cell.: 9818718524
ہر عہدمیں معاشرہ کثافتوں اورآلودگیوں سے معمور رہا ہے۔نوعیت بھلے ہی بدلتی رہی ہو مگر سماج میں طبقاتی کشمکش اور تفریق کی فضا ہر زمانے میں قایم رہی ہے۔ترقی پسندوں نے اسی کشمکش اور آلودگی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ساحرلد ھیانوی بھی اسی ترقی پسندتحریک کاایک اہم نام ہے۔
ساحر کی بصیرت کھوکھلی تہذیب وثقافت کو Penetrateکرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اپنے سچے تجربات کو پرخلو ص جذبے کے ساتھ انھوں نے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ؎
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحر سماج کی سچائی بیان کر نے میں لرزہ براندام نہیں ہوتے، ساتھ ہی دوسرے کئی بلندآہنگ ترقی پسندوں کی طرح نعرہ بازی بھی نہیں کر تے۔مدھم لہجے میں وہ اپنی باتیں پیش کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انھوں نے سماج کی کثافت اور کھولی انسانی تہذیب کو اپنی شاعری کاحصہ بنایاہے۔ساحرکاکمال یہ ہے کہ مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نوع کی شاعری کی ہے جو احساس اور جذبہ کو چھوتی ہے اورانگیخت کرتی ہے۔انھوں نے پاکیزہ محبت، نشاط وکرب اور حزن و ملال کی کیفیت کومعصومانہ اندازمیں پیش کیاہے۔ان کے یہاں فکر اوررومان کاسفرمتوازی میلان کے ساتھ طے ہوتا ہے۔کچھ یہی طرز شاعری اور طرزفکر فیض احمد فیض کارہا ہے۔ساحر نے اپنی فکر کی آنچ تیز رکھی ہے مگر بوقت اظہار ہوش مندی اورفنی بصیرت سے کام لے کر آہستہ رو اور خرام پا ہونے کو ہی اہم اورناگزیر تصور کیاہے۔انقلاب اور استحصال کا کھل کراظہار کیاہے مگر ان کے اندر فنکارانہ شعور پر نری جذباتیت غالب نہیں آسکی ہے۔نظم’’ بنگال‘‘سے دوبند ملاحظہ کیجیے جس میں عوام اورمزدوروں کے استحصال کانقشہ پیش کیاگیاہے:
جہان کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظام نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کا رن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم وحوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیربنتی ہیں
کہ دختران وطن تارتارکو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا ہے
کہ اس کی اپنی نگاہیںبہارکوترسیں
زمیں کی قوت تخلیق کے خداوندو!
ملوں کے منتظمو!سلطنت کے فرزندوں
بنگال : تلخیاں(بنجارے کے خواب سے ماخوذ، ص 163)
اسی طرح آزادی کی امید لیے’’شعاع فردا ‘‘ ساحرنے ایک اچھی نظم کہی اس میں وہی احسا س ہے جو فیض کی اس نظم میں ہے ؎
چند روزاور مری جان فقط چند ہی روز
ظلم کی چھانومیںدم لینے پہ مجبور ہیںہم
مذکورہ ساحرکی نظم کا ایک بندملاحظہ کیجیے:
اور کچھ دیربھٹک لے مرے درماندہ ندیم
اور کچھ دن ابھی زہراب کے ساغرپی لے
نورافشاں چلی آتی ہے عروس فردا
حال تاریک وسم افشاں سہی، لیکن جی لے
(شعاع فردا۔۔۔۔ بنجارے کے خواب، ص 162)
ساحر کوامید ہے کہ صعوبتوں کے بعد ’’عروس فردا ‘‘ کرنیںبکھیرتی نمودارہوگی۔ یہاں یاس کی جگہ امید اور ایک طرح سے تیرہ وتارفضا میں ضیاپاشی کا اشاریہ بھی ہے۔وہ محض۱شتراکی عناصر کو محدود کینوس پرنہیں بکھیرتے بلکہ ان کی فکر کو انسانی تہذیب کاانتشاراورکھوکھلا پن ہمیشہ مہمیز کرتارہتاہے۔ان کی نظرمیں نسل آدم کی بقااورانسانی تہذیب کے تحفظ کے لیے امن عالم ناگزیرہے۔جنگ کہیں ہواورکسی نسل، یا ذات کاخون بہے،آخرتو نسل آدم ہی کاخو ن ضائع ہوتاہے۔یہ جوتنازع للبقا یعنی Struggle for existenceکا سلسلہ ہے وہ انسانی اورتہذیبی اقدارکے لیے ناموزوں ہے۔ساحرنے ہندوستان اورپاکستان کی جنگ کے پس منظرمیں ایک نظم ’’اے شریف انسانو‘‘کہی تھی جسے تاشقندمعاہدہ کی سالگرہ پرنشر بھی کیاگیاتھا۔اس نظم میںکھوکھلی تہذیب اورانسانیت کے کھوکھلے دعووں کی قلعی کھولی گئی ہے۔یہ نظم ترقی پسند تحریک کا پروپیگنڈہ نہیں بلکہ جذبہ انسانیت سے سرشار ایک دل کانوحہ ہے۔یہاں دو بند پیش کیے جاتے ہیں:
خون ہویاپرایا ہو
نسل آدم کاخون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہوکہ مغرب میں
امن عالم کاخون ہے آخر
………………
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن، تہذیب وارتقا کے لیے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے
امن ا نسان کی بقا کے لیے
(اے شریف انسانو!:بنجارے کے خواب۔۔ ص 314)
ساحرکایہ نظریہ درست ہے کہ بموں سے دھرتی کی کو کھ با نجھ ہوتی ہے۔ایک ملک سوگ مناتاہے تودوسرا مسرت اور فتح کاجشن، مگر مستقبل میں احتیاجات سب کے سامنے منہ کھولے کھڑی ہوتی ہیں۔یعنی یہ بات ساحرنے کھلے طور پر اعلانیہ کہا ؎
جنگ توخود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کاحل دے گی
ساحرنے اخوت اور آفاقی ہمدردی اورمحبت کی شمع روشن کرنے کی کوشش بھی کی اورتلقین بھی۔انھوں نے ترقی پسندوں کے ساتھررہتے ہوئے بھی اپنے ہی احساس کواپنی فکر کارہنما سمجھا نہ کہ ترقی پسندتحریک کے فارمولے اورمنشور کو۔جاںنثار اختر نے بڑی سچی بات لکھی ہے:
’’اس نے خودکودھوکا دیانہ اپنے فن کو نہ ترقی پسند تحریک کو نہ عوام کو۔۔۔۔ اس نے وہ کیا جوبہ حیثیت ایک بیدار شاعراس کافرض تھا۔‘‘ 1؎
ایک سیدھے سچے آدمی، ایک ایمانداراورسادہ لوح فنکارکی نگاہ ہمیشہ ہی انسانیت کی معراج پر مرکوز رہتی ہے۔مصلحت پسندی اورریاکاری اس سے دور ہی رہتی ہے۔ساحرکی شاعری میں feudalism کاعنصرنہیں ملتا۔بنگال کے قحط پرکہی گئی نظم ’’بنگال ‘‘ ہویاروس کے Sputnikبھیجے جانے پر کہی گئی نظم’’مرے عہد کے حسینو!‘‘سچی محبت کے کرب آگیں احساس میں ڈوبی ہوئی نظم ’’تاج محل‘‘ہویاپھر 1946 میں کہی گئی نظم ’’یہ کس کالہوہے‘‘ یانظم ’’آج‘‘ہو۔۔۔ ہرجگہ ان کااحساس دل پرکچوکے لگاتاہے۔یہ نظمیں ہماری مردہ تہذیب کی زندہ علامتیں ہیں۔ نظم ’’آج ‘‘ کا پس منظر 47 ء کا انتشار ہے جس کی تخلیق ۱۱؍ ستمبر 1947 کو دہلی میں ہوئی تھی۔غم اور کرب کی فضا ہے۔ شاعر اپنے سماج کے ٹھیکے داروں سے در در د امن پسارے امن اور تہذیب خستہ کی بھیک مانگ رہا ہے۔ اس وحشت اور بر بریت کے ماحول میں فنکار کا احساس مجروح ہو چکا ہے، گیتوں کے سُر ہچکیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ساحرؔ کا احساس دیکھیے:
عصمتیں سر برہنہ پریشان ہیں
ہر طرف شور آہ و بکا ہے
اور میں اس تباہی کے طوفان میں
آگ اور خوں کے ہیجان میں
سرنگوں اور شکستہ مکانوں کے ملبے سے پرُ راستوں پر
اپنے نغمے کی جھولی پسارے
در بہ در پھر رہا ہوں
مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دو
یہ نظم ٹوٹتی پھوٹتی تہذیب اور انسانوں کی حیوانی جبلّت کا آئینہ ہے۔ انسانی قدروں، ہمدردی اور ہمہ گیر محبت و اخوت کو ساحرؔ نے سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ساحر کا ذہن سعادت حسن منٹو کی طرح حساس ہے۔ساحرکوبھی ’’چکلے‘‘ کی کثافت سے گھن نہیں آتی ہے۔ ساحر کی نظم ’’ـچکلے‘‘ کامطالعہ کر تے وقت سماج کے بڑے بوڑھوں کے چہرے سے شرافت کے نقاب سرکنے لگتے ہیں۔دس بند پر مشتمل یہ نظم کھو کھلی تہذیب او رمجروح اقدار کی عکاسی کر تی ہے۔’’چکلہ ‘‘وہ جگہ ہے جہاں بیٹابھی آتا ہے او رباپ بھی، ایک ہی عورت بیوی بھی ہے اور ماں بھی،وہی عورت محبوبہ بھی ہے اوربہن بھی گویاایک ایسا ماحول ہے جہاں تہذیب آخری ہچکی لے رہی ہے اورسماج کا کریہہ چہرہ نظر آرہا ہے۔نظم ’’چکلے ‘‘سے تین بند ملاحظہ کیجیے:
یہ پر پیچ گلیاں، یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی، یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے، یہ سودوں پہ تکرار
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
………………………
یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پانو زینوں کی جانب
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
………………………
یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنو مند بیٹے بھی، اباّ میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے، اور بہن بھی ہے، ماںبھی
ثناخوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
(’’چکلے ‘‘تلخیاں سے ماخوذ 1971)
’’ثناخوان تقدیس مشرق‘‘کی ترکیب گہری معنویت سے متصف ہے۔جو لوگ مشرقی تہذیب وثقافت کی بات کر تے ہیں یا مشرقی اقدار، مشرقی رویوں اور مشرقی آداب واطوار پر سینہ پھلا ئے پھرتے ہیں، ساحرکی یہ نظم ایسے لوگوںکے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔گویا یہاں نام نہاد مشرقیت کی قلعی کھل گئی ہے۔ثقافت جو ایک شعور ی عمل ہے اور جس کے اثرات انسانی شعور پر اخلاق وعادات،رویوں اوراطوار کے ذریعہ مرتسم ہوتے ہیں،ساحرکی اس نظم میں وہ ثقافت ٹوٹتی بکھرتی معلوم ہوتی ہے۔اس نظم ’’چکلے‘‘ کے ضمن میں کیفی اعظمی کاخیال ہے:
’’ساحرنے ثناخوان تقدیس مشرق کوجس شدت جس نفرت ا و ر جس خلوص سے جھنجھوڑ اہے اس کی مثال مجھے کسی دوسرے فن پارے میں نہیں ملتی۔ ’’چکلے ‘‘میںساحر کی غیرت، اس کی روح، اس کے احساس کی تلملاہٹ بلندی کے انتہائی نقطے پرنظر آتی ہے۔‘‘ 2؎
ساحر کو کچھ نقادوں نے فلمی شاعرکہہ کرٹال دینے کی کوشش کی جب کہ انھوں نے فلموں میں بھی ایک معیارقایم رکھا ہے اور سماجی اورتہذیبی شعورکو بروئے کار لاکر ہی فلمی نغمے لکھے ہیں وہ لکھتے ہیں:
’’فلم ہمارے دورکاسب سے موثر اورکارآمدحربہ ہے۔ جسے اگر تعمیری اورتبلیغی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے توعوامی شعور کی نشوونما اورسماجی ترقی کی رفتاربہت تیز کی جاسکتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک فلم کے اس پہلو پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی کیوں کہ دیگر تہذیبی شعبوں کی طرح ہمارا یہ شعبہ بھی ابھی زیادہ تر ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ذاتی منافع کو سماجی خدمت پر ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میری یہ ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو فلمی نغموں کو تخلیقی شاعر ی کے قریب لاسکوں اوراس صنف کے ذریعہ جدید سماجی اور سیاسی نظریے عوام تک پہنچاسکوں۔‘‘ 3؎
ساحر نے ظلم و جبر کے خلاف فلمی گیتوں میں بھی آواز بلند کی ہے۔عزم وہمت کاپیغام بھی ان کے گیتوں میں ملتا ہے۔سماجی کشمکش اورفکر ی کوبے حد پیار ہے لہذا وہ ان کے استحصال سے تڑپ اٹھتے ہیں۔
ساحر کی نظم ’’تاج محل ‘‘ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی علامت ہے۔اس نظم میں عہد مغلیہ کاعکس بھی ہے۔ جاہ وچشم اور تہذیب وتمدن پر ساحرنے طنزبھی کیاہے۔نظم کایہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتاہے کہ صادق نہ تھے ان کے جذبے
لیکن ان کے لیے تشہیر کاسامان نہیں
کیوں کہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
میری محبوب انھیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام ونمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
(تاج محل :بنجارے کے خواب)
ساحر کاتعلق تہذیبی وثقافتی اقدارسے بھی ہے اور فنّی وجمالیاتی اقدار سے بھی۔ساحر نے اپنی شاعری کوآلہ کار نہیں بننے دیا جب کہ کئی دوسرے ترقی پسند لینن کے نظریہ کے اثر میں آگئے۔ترقی پسندوں کی بنیاد مارکس اوراینگلز کی تحریریں تھیں حالاں کہ ان مذکورہ دو ترقی پسند مفکروں کے یہاں ادب کو’’آلہ کاریاحربہ ‘‘ بنانے کاتصور نہیں ملتاالبتہ لینن نے شعر وادب کو ’’حربہ ‘‘ کے بطور استعمال کرنے کاتصور پیش کیا۔ 4؎
لینن نے گرچہ اپنی پالیسی میںقدرے احتیاط سے کام لیامگر حکومت کی پہلی پنج سالہ منصوبہ بند ی(1923تا 1928) کے وقت ہی سے شاعر اورادیب کااستعمال آلہ کار کی حیثیت سے کیاجانے لگا۔ادیبوں اور شاعروں نے احکامات (ادبی) جاری کرنا شروع کردیے۔ مایاکوفسکی نے سب سے پہلے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کوپروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا۔پروفیسر مسعود حسین خان نے مضمون میں اس کایہ قول پیش کیاہے:
’’شاعر کایہ منصب نہیں کہ وہ گھنگھرو یالے بالوں والے میمنے کی طرح عشقیہ موضاعات پر ممیاتا رہے۔اس کافرض یہ ہے کہ وہ اپنا قلم پر ولتا ریت کے سلاخ خانے کے لیے وقف کردے۔کسی قسم کے فریضہ اورمحنت سے آنکھیں نہ چرائے۔اسے انقلاب کے ہرموضوع پر نظمیں لکھنا چاہیے چاہے ان کاتعلق زراعت کے انتظامی امور سے ہو یادوسرے قسم کے پروپیگنڈ ہ سے۔‘‘ 5؎
ساحر ترقی پسندہ ہونے باوجود صرف انسانی تہذ یب اورآفاقی محبت کے علم بردار رہے۔کئی احباب نے مایاکوفسکی کے فرمان کی تابع داری میں اپنی شعری صلاحیتوں کوتباہ کرلیا۔پر ولتا ریت نے شعری مذاق پر کومتارکاکام کیا اورسیاہی نے روشنی پر قبضہ کرلیا۔مگر ساحرنے اپنا دامن بچائے ر کھا۔ان کے نزدیک انسانیت کی معراج کا انحصارکسی فرقے پر نہیں، کسی ذات یامعاشرے کی معاشی شناخت یالسانی اورذاتی تفاخر پر نہیں ہے۔ساحرنے امن اور صلح کے پیغام کوفلمی اورغیرفلمی دونوں ذرائع سے عوام تک پہنچایا۔امن وصلح سے ہی معاشرتی تہذیب انسانی زندگی سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔بے جانہ ہوگا اگر ساحر کے ایک فلمی گیت سے دوبنداس ضمن میں پیش کردیے جائیں۔
مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا
ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا
قدرت نے توبخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی
ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
……………………………
نفرت جو سکھائے وہ دھرم تیرا نہیں ہے
انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے
قرآن نہ ہو جس میں وہ مندر نہیں تیرا
گیتانہ ہو جس میں وہ حرم تیرا نہیں ہے
توامن اور صلح کا ارمان بنے گا
انسان کی اولاد سے انسان بنے گا
(گیت :کلیات ساحر،ص 371)
اس نظم میں انسانی اخوت اور قومی یکجہتی دونوں طر ح کے خیالات ہیں۔ اس کا مرکزی خیال بلکہ قرآن کی اس آیت سے مستعار ہے۔ (پہلے بند کے پس منظر میں) جس میں کہا گیا ہے:
یَااَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَا کُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاُنْثٰی وَ جَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْ: (سورۃالحجرات۔پارہ26)
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تم کو بنایا ایک مرد اور ایک عورت سے اور رکھیں تمہاری ذاتیں اور قبیلے تاکہ آپس کی پہچان ہو۔
حالاں کہ بنیادی طورپر ساحر کو مذہبی افکار سے سروکار نہیں۔ان کاذہن اس ضمن میں باغیانہ رویہ رکھتا ہے۔ ؎
عقاید وہم ہیں مذہب خیال خام ہے ساقی
ازل سے ذہن انساں بستہ اوہام ہے ساقی
ایسا لگتاہے کہ ساحر و حدانیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس طر ح جوش اللہ کو وحدانیت او راس کے وجود پر پوری عمر شبہ کر تے رہ گئے۔
اگر پور ی دنیا ایک سماج ہے تو جو تہذیبی اور اخلاقی قدریں ہمارے لیے اہم ہیں وہ پوری دنیا کے لیے بھی ہوںگی۔نظم’’ پرچھائیاں ‘‘ ایک اہم تخلیق ہے جس میں رومان کاتصور بھی ہے مگر اس میںجبرو ظلم اوراستبدادو استحصال کے تصورات و واقعات کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے۔اے شریف انسانو! کا حوالہ آچکا ہے۔یہاں پر چھائیاں سے یہ ٹکڑے ملاحظہ کیجیے:
ناگاہ لہکتے کھیتوں سے ٹاپوں کی صدائیں آنے لگیں
بارودکی بوجھل بولے کر پچھم سے ہوائیں آنے لگیں
تعمیر کے روشن چہرے پر تخریب کابادل پھیل گیا
ہر گانومیں وحشت ناچ اٹھی ہر شہر میں جنگل پھیل گیا
مغرب کے مہذب ملکوں سے کچھ خاکی وردی پوش آئے
فوجوں کے بھیانک بینڈتلے چرخوں کی صدائیں ڈوب گئیں
جیپوں کی سلگتی دھول تلے پھولوں کی قبائیں ڈوب گئیں
دھیرے دھیرے یہاں جوان فوج میں داخل ہونے لگے۔چوپال کی رونق ختم ہوگئی جو گانو کی تہذیبی میرا ث کاحصہ تھی۔اس کے علاوہ اور بھی جو تغیر پیدا ہوااس کاذکر سنیے:
چرواہیاں رستہ بھول گئیں، پنہاریاں پنگھٹ چھوڑگئیں
کتنی ہی کنواری ابلائیں،ماں باپ کی چوکھٹ چھوڑ گئیں
افلاس زدہ دہقاں کے ہل بیل بکے، کھلیان بکے
جینے کی تمنا کے ہاتھوں جینے ہی کے سب سامان بکے
اس عہدنے جس تہذیب وثقافت کوفروغ دیا و ہ آلودہ ہوگئی۔ایک طوفان بلا آیا اورانسانیت او راس کے التزامات کوکچلتا چلاگیا۔بارود کی بوجھل بومیں کھیتوں کی فصلوں کااٹ جانا اورفوجی بینڈتلے چرخوں کی صداؤں کا ڈوب جانا، گویاسماج کاچہرہ پزمردہ ہوگیا۔ جبر اوراستحصال پر جس معاشرے کی بنیادہوگی وہاںہمہ گیر محبت اورآفاقی اعلا اقدار پر مبنی تہذیب وثقافت کوفروغ حاصل نہیں ہوسکتا۔ساحر کی شاعری محض تفنن طبع کاذریعہ نہیں ہے۔بلکہ ایک بامقصدمشن ہے جہاں تہذیب وثقافت کی روح سانس لیتی ہے۔انھیں اس کی آگہی حاصل ہے کہ ایٹمی کلچرزمیں وآسماں(آسمان سے مراد فضا اور ماحول بھی ہوسکتا ہے )کو تباہ کردے گا۔نظم ’’پرچھائیاں ‘‘ سے ہی یہ بند ملاحظہ کیجیے:
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دہکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں
(’’ پرچھائیاں ‘‘ سے ماخوذ)
ساحرکسانوں اورمزدوروں،مفلسوں اورغریبوں کو ظلمت کدہ سے نکال کرلمعات نور سے ہم کنار کرانا چاہتے ہیں۔ان کے انقلابی آہنگ میں محض گھن گرج نہیں بلکہ مقصد اورمشن کے تئیں پرخلوص پیغام رسانی کاجذبہ کارفرماہے۔ساحر نے ثقافت پر مادی مظاہرکے اثرات کواپنی نظموں اورگیتوں کے ذریعہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔معاشرے کی تلخیوں اورزہرناکیوں کواپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ایک نر م روشعلہ ہے جو ساحرکی نظموں کی زیریں تہوں میں رقصاں ہے۔ساحرکا کمال یہ ہے کہ اس شعلے کو ’’شعلہ جوالہ ‘‘نہیں بننے دیا ہے۔ایک بات کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ نغمہ نگار ساحراورادب کاساحردوالگ الگ شخصیتیں نہیں۔ اگرایساکرکے تجربہ کیا جائے گاتو ہمیں دھوکا بھی ہوسکتا ہے۔ساحرکی شاعری میںابھی جس میانہ روی اورسبک خرامی کا ذکر ہورہا تھا، اس ضمن میںجناب ظ۔انصاری کایہ موقف دیکھیے:
’’ساحرکے یہاں شور پکارنہیں۔ احتجاج ہے، شان وشکوہ نہیں،ڈرامائی تناؤ ہے، طمطراق نہیں، ہر ایک مظہر اورمنظر اپنی اذیت یا مسرت کا اظہار ہے۔وہ کسی سیاسی جلوس میں آگے آگے نعرہ لگاتے نہیں چلتے، البتہ نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ 6؎
ساحر انسانی عظمت کا شاعر ہے۔ اس شاعر کی نظر میں دنیا کی آسائشوں سے زیادہ اہم ناداروں او رغریبوں کی زندگی ہے۔فاقہ کش لوگوں اوربچوں کودیکھ کر اس کا دل تڑ پ اٹھتا ہے۔اس شاعر کو محض نغمہ سرائی یاشعلہ نوائی سے دل چسپی نہیں اس کے سامنے سماج اوراس کی تہذیب کی برہنگی ہے۔’’ مرے گیت ‘‘ کے یہ ٹکڑے ملاحظہ کیجیے:
میں شاعرہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مرادل دشمن نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا۔
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیں سکتا
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں، مفلسوں کوبے کسوں کو بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کوتڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کوامارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تودل تاب نشاط بزم عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی توخواب آورترانے گانہیں سکتا
ساحرکے لیے یہ متضادصورتحال گوارہ نہیں کہ ؎
مرے ساغر مے سے ہے اور ترے ہاتھوں میں بربط ہے
وطن کی سرزمیں میں بھوک سے کہرام ہے ساقی!
ساحر کی نگاہ تیز وہاں بھی پڑتی ہے جہاں اجنبی دیس کا گرانڈیل جوان اپنی جیب میں نقرئی سکوں کوکھنکھنا تے ہوئے مجبور دوشیزہ کی عصمت سے کھیلتا ہے۔منہ میںسگریٹ اورہاتھوں میں برانڈی کاگلاس لیے جب مغربی لوگ فلک بوس عمارتوں اورہوٹلوں سے قہقہے اچھالتے ہیں، اس وقت بھوکی اورللچائی انسانیت منتظر ہوتی ہے کہ اجنبی دیس کا جوان کوئی سکہ اچھالے گا یا پھر بچے ہوئے کیک کا ٹکرا ہی پھینک دے گا۔ساحرنے اس تہذیب پرپڑی گردہٹانے کی کوشش کی ہے۔معاشرے کا کریہہ چہرہ ساحرکی نظموں میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ساحر نے کبھی امیر طبقہ سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ایک رخ ملاحظہ کیجیے:
یہ اونچے اونچے مکانوںکے ڈیوڑھیوں کے تلے
ہرایک گام پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
ہر ایک گھر میں یہ افلاس اوربھوک کا شور
ہر ایک سمت یہ انسانیت کی آہ و بکا
یہ مال روڈپہ کاروں کی ریل پیل کاشور
یہ پٹریوں پہ غریبوں کے زرد رو بچے
معاشرے کی کثافتوں کوساحرنے موضوع سخن بنایا ہے۔وہ محبت اورنفرت کے جذبوں سے اپنی فکرکوغیر متوازن نہیں ہونے دیتے۔ساحرکی مزاج شناسی کے لیے سعادت سعید کے مضمون کایہ اقتباس دیکھیے:
’’انھوں نے نفرت کی محبت کش اداروں سے، عورت کے خریداروں سے، انسانوں کوبے شعور رکھنے والے زر داروں سے، عورت کو جاگیرسمجھتے جاگیرداروں سے، دہقانوں کی بیٹیاں بیچتے بدکاروں سے، خاندانوں، فرقوں، نسلوں او رطبقوں کے ٹھیکیداروں سے۔ محبت کی عورت سے، سماج کی آدھی آبادی سے، عورتوں کو اپنی نظموں کے وسیلے سے وہ شعو ر عطا کیا کہ وہ اپنے مرتبے اور مقام کے لیے استحقاق جنگ پر آمادہ ہوئیں۔‘‘ 7؎
ساحر کی شعری بصیرت میں اتنی تیزی ہے کہ تہذیب ثقافت پر پڑی دبیز پرت کو Penetrate کرسکتی ہے۔ان کی فکرکاکینوس وسیع ہے۔افق پر لہو کا جام چھلکنا، فضامیںگرم بگولوں کا رقصاں ہونا، بنت حوا کی چادر عصمت کاچاک ہونا، بے روح کمرے میں کھانسی کی ٹھن ٹھن، ڈھلکے بدن اور مدقوق چہرے، ایک ہی عورت سے باپ اوربیٹے کا ناجائز رشتہ ہونا، ملک وقوم کی خاطر خوں ریزی، فاقہ کشی مزدوروں اور کسانوں کاحال زبوں ۔۔۔۔۔۔ گویا ساحرکی شاعری کے یہ سب تلازمے ہیں۔ساحرکواپنے دیش کی مٹی، اس کی خوشبو او رفصلوں سے انس ہے۔کبھی کبھی ان پر جھلاہٹ کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔وہ غدر کو ساعت ناپاک سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔غدر دراصل پہلی جنگ آزادی تھی جومنظم حکمت عملی کے فقدان کے سبب ناکام رہی اورہندوستانیوں کا بڑا خسارہ ہوا۔
ہندوستان کی مٹی اوریہاںکی اشیا سے ساحر کوکس قدر جذباتی لگاؤ ہے،اس کا اندازہ نظم ’’ جاگیر ‘‘کے اس ایک بند سے ہوجائے گا۔ ملاحظہ کیجیے:
یہ لہکتے ہوئے پودے،یہ دمکتے ہوئے کھیت
پہلے اجداد کی جاگیر تھے، اب میرے ہیں
یہ چراگاہ، یہ ریوڑ، یہ مویشی، یہ کسان
سب کے سب میرے ہیں، سب میرے ہیں سب میرے ہیں
(جاگیر :تلخیاں)
ساحرکے نزدیک بھوک اورافلاس ایسے عوامل ہیں جوتہذیب و تمدن اور حس لطیف کومجروح کر تے ہیں بلکہ پنپنے نہیں دیتے۔نظم ’’ما دام‘‘ کا یہ حصہ دیکھیے:
نور سرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حس لطافت کومٹادیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
ساحر جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے غلبے نے مشرقی تہذیب کو مسخ کردیا ہے۔انھیں جمہوری نظام اورقومی یکجہتی کابھی پاس ہے۔مگر ان کے نزدیک انسانیت اورصلح وامن پر قائم شدہ سماج زیادہ پسند تھا کیوں کہ یہی وہ معیار انسانیت ہے جوتہذیب انسانی کواساسی ستون مہیا کرتاہے۔انھیں اگر ہندوستانی سماج اوریہاں کی سیاست میں ڈھونگ اورطمع کاری نظر آتی ہے تو اس پربھی قدغن لگاتے ہیں۔ان کی نطم’’ جشن غالب‘‘ اور’’ گاندھی ہویاغالب ہو‘‘ میں ایسے ہی خیالات کی پیش کش ہوئی ہے۔دونوں سے کچھ حصے پیش کیے جاتے ہیں:
یہ جشن یہ ہنگامے، دل چسپ کھلونے ہیں
کچھ لوگوں کی کوشش ہے، کچھ لوگ بہل جائیں
جو وعدہ فردا پر اب ٹل نہیں سکتے ہیں
ممکن ہے کہ کچھ عرصہ اس جشن پہ ٹل جائیں
یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے
ہم لوگ حقیقت کے احساس سے عاری ہیں
گاندھی ہوکہ غالب ہو انصاف کی نظروں میں
ہم دونوں کے قاتل ہیں،دونوں کے پجاری ہیں
(’’جشن غالب‘‘ :آؤ کہ خواب بنیں)
گاندھی ہو یا غالب ہو
ختم ہوادونوں کا جشن
آؤ کہ انھیں اب کردیں دفن
ختم کرو تہذیب کی بات بند کر و کلچر کا شور
ستیہ اہنسا سب بکواس تم بھی قاتل ہم بھی چور
(’’گاندھی ہو یا غالب ہو ‘‘ آئو کہ خواب بنیں)
ساحر نے دو سرے ترقی پسندوں کی طرح فارمولہ بند شاعری کو اپنا شعار نہیں بنایا بلکہ ’’امن او رتہذیب ‘‘ کو ازسرنو معاشرے میں بحال کرنے کو ترجیح دی۔دکھے دلوں کا مداوا تلاش کیا۔فن کی پختگی اور موضوع کو پر خلوص جذبے کے ساتھ پیش کرنے کے اسی عمل نے ساحر کو انفرادیت بخشی۔
حواشی
1- دیباچہ، گاتا جائے بنجارہ۔ (دیباچہ از جاں نثار اختر)
2- فن اور شخصیت ، ساحر نمبر : مدیر صابر وت،1984، ص304
3- بنجارے کے خواب ، مضمون از یونس احمر۔ مرتب تاج سعید ، لاہور، 1989
4- مسعود حسین خان: شعرو زبان (1966)، ص 40
5- ایضاً ، ص 43
6- بحوالہ فن اور شخصیت ، ساحر نمبر۔ مدیر صابروت شمارہ 18،17 (1984) ص 155
7- بنجارے کے خواب، تاج سعید:لاہور 1989، ص94،93
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں