کنہیا لال کپور
پطرس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انٹرویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ پروفیسر ڈکنسن (صدرشعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔ گھر سے خوب تیار ہو کر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے، مگر بخاری صاحب نے ایسے سوال کئے کہ پسینے چھوٹنے لگے۔ جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجا لائے انہوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟‘‘ لاجواب ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔
’’آپ شاعر ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’دیکھنے میں تو آپ مجنوں گورکھپووریؔ نظر آتے ہیں۔‘‘
پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’بہ خدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوںؔ گورکھپوری سےملتی ہے۔‘‘ پھر میری جانب متوجہ ہوئے۔ ’’آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملےہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’ضرور ملئے۔ وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔‘‘
پھر پوچھا۔ ’’یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں، جانتے ہو کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔ جو شخص ہروقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔‘‘
’’کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے، جو کتاب کے بجائے قاری کو کھا جاتا ہے۔‘‘
پروفیسر ڈکنسن نے بخاری صاحب سے دریافت کیا۔ ’’ان کے بی اے میں کتنے نمبر آئے تھے؟‘‘
انھوں نے میرا ایک سرٹیفیکیٹ پڑھتے ہوئےجواب دیا۔ ۳۲۹ فرسٹ ڈویژن۔
’’توپھرکیا خیال ہے؟‘‘ پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔
بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’داخل کرنا ہی پڑےگا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہوسکا وہ انہوں نے کردیا۔‘‘
پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون سا کام بخاری صاحب؟‘‘
سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا۔ ’’یہی بی اے میں فرسٹ ڈویژن لینےکا۔‘‘
دوسرے دن کلاس روم میں گئے۔ بخاری صاحب کا ان دنوں عالم شباب تھا پینتیس سال کے قریب عمر ہوگی، دراز قد، گھنی بھنویں، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبوترا چہرہ، شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرانی دکھائی دیتے تھے۔ ریشمی گاؤن پہن کر کلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لئے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے، عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی مشہور ہندوستانی اداکار، ان کا عزیزترین شاگرد تھا۔ اکثرایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے۔’’ کیا بات ہےساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو۔ جانتےہوجب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں یا وہ عشق فرمانےکی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘‘
لیکچر کسی کتاب یا نوٹس کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگریزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روائتی انداز بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سےبھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سےنہیں نکلتا تھا۔ ’’ڈرامہ‘‘ پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ ’’ہملیٹ‘‘ پڑھا رہے ہیں تو چہرے پر وہی تاثرات پیدا کرلیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ کنگ لیر پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفانوں میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرا رہا ہے۔ شیکسپیئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھیں انہیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آجاتی۔
حافظہ غضب کا پایا تھا، اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انہوں نےنہیں ہم نے پڑھی ہے۔
ایک بار فرانسیسی فلسفی برگساں کی کتاب’’مزاح ‘‘ کی وضاحت فرماتے وقت انہوں نے طنز و مزاح سے متعلق بہت دلچسپ باتیں بتائیں فرمایا۔ ’’انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔‘‘
میں نےکہا۔ ’’جناب بندر بھی ہنستا ہے۔‘‘
ہنس کر فرمایا۔ ’’کیونکہ وہ انسان کا جد امجد ہے۔‘‘
بیان کوجاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ’’ہنسنے کے لئے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیع اوقات ہے۔ اگرایک آدمی کیلئے کے چھلکے سے پھسل پڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں لیکن اگر ایک بھینس کیلئے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی، کیونکہ بھینس کےپاس عقل نہیں ہوتی تبھی تویہ محاورہ ایجاد ہوا۔ عقل بڑی یا بھینس۔۔۔ ہمدردی یا ترحم کا جذبہ ہنسی کے لئے زہر قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص سائیکل چلاتے وقت گر پڑے تو آپ اس پر ہنسیں گے لیکن اگر اسے سخت چوٹ آئی ہو تو آپ کبھی نہیں ہنس سکیں گے۔ اگر ایک ریلوے گارڈ گاڑی چلنے سے پہلے ہر مسافر کو سخت سست کہے، کھڑکی سے باہر جھانکنے والے ہر بچے کو سرزنش کرے، ہر بوڑھے کو فہمائش کرے کہ اسےڈبے میں فوراً داخل ہونا چاہئے اورخود چلتی گاڑی میں سوار ہوتے وقت گر پڑے تو تمام مسافر قہقہے لگا کر اس کی بے بسی کا مذاق اڑائیں گے کیونکہ ان میں سے کسی کو اس کےساتھ ہمدردی نہیں ہوگی۔
ایک ہی چیز المیہ اور طربیہ ہوسکتی ہے، سوال صرف ہمدردی کا ہے۔ فرض کیجئے بھرے میلے میں کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ میری بیوی کھو گئی ہے، کچھ لوگ اس پر ضرور ہنسیں گے۔ یہ بات دوسروں کےنقطۂ نگاہ سے طربیہ اور خود اس شخص کے نقطہ نظر سے المیہ ہے۔ مزاح بالکل اسی طرح تیار کیا جا سکتا ہے۔ جیسے صابن یا خوشبودار تیل۔ فارمولا یہ ہے کہ دونوں چیزوں میں نامطابقت پیدا کردیجئے۔ مثال کےطور پر یہ کہنےکے بجائے ’’ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں۔‘‘ یہ کہیۓ، ’’ہم طرفدار ہیں غالب کےسخن فہم نہیں۔‘‘ مزاح پیدا ہوجائے گا۔‘‘
بخاری صاحب مزاحیہ تقریر کرنے کے فن میں امام کادرجہ رکھتے تھے۔ یہ سر عبد القادر کا دور زرّین تھا۔ ہر ادبی مجلس میں کرسیٔ صدارت اور سر عبد القادر لازم و ملزوم تھے۔ یونیورسٹی ہال میں ایک ادبی مباحثہ ہورہا تھا۔ موضوع زیربحث تھا (The Proper Study of mankind Is Women، صنف نازک ہی انسانی مطالعہ کا صحیح موضوع ہے۔) جب پروفیسر دیوان چند شرما، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین تقاریر کر چکے تو سر عبد القادر نے بخاری صاحب کو اسٹیج پرتشریف لانے کو کہا۔ سامعین ہمہ تن گوش ہوگئے، کہ انھیں پوری توقع تھی اب ہنسی مذاق کےفوارے چھوٹیں گے۔
بخاری صاحب جھومتے جھامتے اسٹیج پر آئے۔ صاحب صدر کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ سامعین پرایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور فرمایا۔ ’’صاحب صدر! میں بدقسمتی سے پروفیسر واقع ہوا ہوں جس کالج میں پڑھاتا ہوں وہاں مخلوط تعلیم کارواج ہے۔ میرا تجربہ ہےکہ کلاس روم میں طلباء کی توجہ کا مرکز صنف نازک ہی ہوتی ہے۔ کوشش کے باوجود میں طلباء کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتا اور بسا اوقات مجھے صنف نازک پر رشک آنے لگتا ہے، صاف ظاہر ہے طلباء یہ نکتہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ صنف نازک ہی مطالعہ کا اصل موضوع ہے۔
صاحب صدر! صنف نازک کے مطالعہ کے بغیر سائنس کا مطالعہ ناممکن ہے۔ کیا آپ مقناطیسیت کا مطالعہ صنف نازک کے بغیر مکمل سمجھیں گے، جب کہ آپ جانتے ہیں کہ عورت سے زیادہ پرکشش ہستی خداوند تعالیٰ نے پیدا نہیں کی۔ کیا آپ حرارت کا مطالعہ کرنے میں عورت کو نظرانداز کرسکتے ہیں جب آپ جانتے ہیں کہ محفلوں کی گرمی عورت کی موجودگی کی مرہون منت ہے۔ کیا آپ برقیات کا مطالعہ کرتے وقت عورت کو نظر انداز کر سکتے ہیں جب آپ کو معلوم ہے کہ حوّا کی بیٹیاں بادل کے بغیر بجلیاں گرا سکتی ہیں۔
صاحب صدر! صنف نازک آرٹ کے مطالعے کے لئے ناگزیر ہے۔ اگر لیو نارڈو، رافیل اور مائیکل اینجلو نے عورت کے خط و خال کو قریب سے نہ دیکھا ہوتا تو کیا وہ ان لافانی تصاویراورمجسموں کی تخلیق کر سکتے جن کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا ہے۔ کیا کالی داس، شکنتلا کا، شیکسپیئر، روزالنڈ کا اور داتنے، بیتریس کا تصور بھی ذہن میں لاسکتے اگر انہوں نے صنف نازک کے مطالعے میں شب و روز نہ گزارے ہوتے۔ صاحب صدر! صنف نازک نے موسیقاروں سےٹھمریوں اور دادروں ، شاعروں سے مثنویوں اور غزلوں اور رقاصوں سے کتھک اور کتھا کلی کی تخلیق کرائی۔ اگر آج فنون لطیفہ ختم ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مطالعہ کے اصلی موضوع سے بھٹک گئے ہیں۔ ہم ان چیزوں کا مطالعہ کر رہے ہیں جن سے بجلی کے پنکھے، سستی دیسی فلمیں، اور اکثیر چنبل تو معرض وجود میں آسکتی ہے لیکن ’’میگھ دوت‘‘، ’’تائیس‘‘ اور ’’منی پوررقص‘‘ کی توقع کرنا بیکار ہے۔‘‘
مرحوم تقریر نہیں، سحر کیا کرتے تھے۔ ان کی ساحری کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ ۱۹۳۲ء میں انہوں نے اپنے ایک عزیز شاگرد پروفیسر آر۔ایل مہتہ کے اصرار پر ڈی اے وی کالج لاہور میں گالزور دی کے ناول A Man of Propertyپر لیکر دیا۔ پروفیسر مہتہ ان دنوں ڈی اے وی کالج میں ملازم تھے۔ مارچ کا مہینہ تھا، مطلع ابرآلود تھا ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ لاہور کے کالجوں کے سینکڑوں طلباء و طالبات لکچر سننے کے لئے ڈی اے وی کالج کے سائنس تھیٹر میں اکٹھے ہوئے۔ بخاری صاحب نے لکچر کی تمہید اس فقرے سے کی’’خواتین و حضرات! ڈی اے وی کالج میں یہ میرا پہلا اور آخری لکچر ہے وجہ یہ ہے کہ اس کالج کے طلباء کا انگریزی کا تلفظ اتنا عجیب واقع ہوا ہے کہ جب وہ مجھےانگریزی میں بولتے ہوئے سنیں گے تو یہ سمجھیں گے میں انگریزی کی بجائے فرانسیسی یا جرمن میں تقریر کررہا ہوں۔‘‘
مرحوم کو انگریزی فکشن پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ جب وہ گالزوردی کے ناول کی وضاحت کر رہے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ خود مصنف اپنی تخلیق کا تجزیہ کر رہا ہے۔ طلباء ان کےلکچر کے نوٹس لے رہے تھے۔ بخاری صاحب کی فصاحت اور بلاغت کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک خوب صورت فقرے کے بعد دوسرا وضع کرتے چلے تھے اور طلباء تذبذب میں پڑ جاتےکہ کون سا فقرہ نوٹ کریں اورکون سا نظر انداز کریں۔
یک لخت باہر بارش تیز ہوگئی، بجلی ایک دم جو زور سے کڑکی تو کمرے کی تمام بتیاں گل ہوگئیں۔ بخاری صاحب نے سلسلہ تقریر منقطع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ گھپ اندھیرے میں اپنےاسی شگفتہ انداز میں تقریر کرتے رہے، اور طلباء اندھیرے میں ان کے فقرے نوٹ کرنےکی کوشش میں محور ہے۔ کہیں سے شور و غل، چیخ و پکار کی آواز نہیں آئی، کمرے میں مکمل سناٹا تھا۔ کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد بتیاں پھر روشن ہوئیں۔ بخاری صاحب نے ایک خفیف مسکراہٹ کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا اور تقریر جاری رکھی۔ اس تقریر کے سننے کے بعد اکثر طلباء کا یہ رد عمل تھا کہ جو باتیں ان کے اپنے پروفیسر دوسال میں نہیں بتا سکے وہ بخاری صاحب نے ایک گھنٹہ کے دوران میں بتادیں۔ اسی تقریر سے متعلق مجھے ان کا ایک فقرہ یاد ہے۔ فرمایا، ’’مشہور انگریز نقاد ڈاکٹر بیکر نے انگریزی ناول پر آٹھ جلدیں لکھی ہیں جن کا مجموعی وزن کوئی چار سیر ہوگا۔ ایک اور انگریزی نقاد جے بی پریسٹلے نے ناول پر ایک کتابچہ لکھا جس کا وزن چار تولے ہوگا میری رائے میں اگر بیکر کی تمام جلدیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور پرلسٹلیے کا کتابچہ دوسرے میں تویقیناً پرلسٹلیے کا پلڑا بھاری رہےگا۔‘‘
سناتن دھرم کالج میں ایک ادبی مباحثہ ہوا۔ بخاری صاحب وہاں صاحب صدر کی حیثیت سے موجود تھے۔ موضوع زیر بحث تھا، ’’عورت تیرا نام کمزوری ہے۔‘‘ لاہور کے بہترین مقرر اس مباحثے میں حصہ لے رہے تھے۔ ان میں سے اکثر یورپ کی سیر کر چکے تھے، انہوں نے اپنی تقاریر میں یورپین عورتوں کو خاص طور پر آڑے ہاتھوں لیا۔ کچھ نے ہندوستان کی تاریخ سے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ عورت نے ہرگام پر مرد کو دھوکا دیا ہے۔ سکھ مہارانی ’’جنداں‘‘ کا ذکر کیا گیا، حوّا کی کمزوری کی طرف بھی بار بار اشارے کئےگئے۔ بحث کےاختتام پربخاری صاحب نےفرمایا۔ ’’میں نے مخالفین کے دلائل بڑے غور سے سنے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کے دلائل صحیح اور نتائج غلط ہیں۔ اگر یہ ٹھیک ہے کہ عورت مرد کو ہمیشہ گمراہ کرتی رہی ہے تو میرے خیال میں یہ مرد کی کمزوری اور عورت کی شہ زوری ہے۔ حالانکہ میں نے بھی یورپ کی سیر کی ہے لیکن عورتوں سے متعلق میرا تجربہ اتنا وسیع نہیں جتنا میرےچند دوستوں کا جنہوں نے یورپین عورتوں کی کمزوری کا بیان چٹخارے لے لے کر کیا۔ کہا گیا ہےکہ یورپ میں عورت شکاری اور مرد شکار ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہمیں ہر شیر اور ہر عقاب کو کمزور سمجھنا چاہئے۔ در اصل بات یہ ہےخدا پنج انگشت یکساں نہ کردے۔ نہ عورت کانچ کی چوڑی ہےاور نہ مرد فولاد کا پنجہ۔
بخاری صاحب اپنےطلباء میں تنقیدی شعور پیدا کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ رٹے رٹائے فقروں سے انہیں بہت نفرت تھی۔ ادھر کسی طالب علم نے کسی مشہور نقاد کے قول کا حوالہ دیا ادھر جھٹ انہوں نے پھپتی کسی’’منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے۔ اجی حضرت یہ فرمان تواے۔ سی بریڈ لےکا ہے۔ خاکسار بریڈلے کی نہیں آپ کی رائے دریافت کرنا چاہتا ہے۔’’ جب ہمارا پہلا امتحان ہوا تو میں نے اپنے پرچے میں متعدد مشہور نقادوں کے فقرے نقل کردیئے۔ بخاری صاحب نےمجھے۔ ’’صفر‘‘ نمبر عطا کرتے ہوئے پرچے کے سرورق پر لکھا۔ ’’آپکا سارا پرچہ واوین میں ہونا چاہئے۔ آپ نےجگہ جگہ ایف ایل لوکس اور پروفیسر کلر کوچ کے اقوال نقل کردیئے ہیں۔ یہ دونوں کیمبرج میں میرے استاد تھے۔ یقیناً میں اس قابل نہیں کہ اپنے استادوں کا ممتحن بن سکوں، مجھے تو آپ کا امتحان لینا ہے۔‘‘
کلاس روم میں کبھی کبھی جان بوجھ کر الٹی بات کہہ دیتے۔ ساری کلاس پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ جاتی۔ وہ ہر معترض کو ایسا دنداں شکن جواب دیتے کہ بے چارہ بغلیں جھانکنے لگتا۔ سارا پیریڈ بحث مباحثہ میں گزرجاتا۔ سب کو قائل کرنے کے بعد فرماتے۔ ’’یہ بات میں نےصرف اشتعال دلانے کے لئے کہی تھی ورنہ اس میں کون کافر شک کر سکتا ہے کہ شیکسپیئر بہت بڑا فنکار ہے۔ ‘‘
بحث مباحثہ کے پیریڈ میں جہاں طلباء کی تعداد تھوڑی ہوتی تھی، وہ ہر طالب علم پر جرح کیا کرتے تھے۔ ایسی کڑی جرح کہ طلباء کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتیں۔ خون خشک ہو جاتا۔ ایک دفعہ مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ نے اپنے جواب مضمون میں لکھا کہ ٹینی سن کے کلام میں موسیقیت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ موسیقیت سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘
’’موسیقیت سے میرا مطلب یہ ہےکہ ٹینی سن کا کلام پڑھتے وقت ایک دل کش لے یا تال کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
’’لے یا تال کیا چیز ہے۔‘‘
’’آواز کا اتار چڑھاؤ۔‘‘
’’ٹینی سن کےکسی مصرعہ کا حوالہ دے کر بتائیے۔‘‘
میں نے گھبراہٹ کے عالم میں یونہی ایک مصرع پڑھ دیا۔ فرمانے لگے۔ ’’یہ تو اتنا کرخت ہے کہ اس کے مقابلے میں کوّے کی آواز زیادہ سریلی معلوم ہوگی۔ کہیں یہ بات تو نہیں کہ آپ موسیقی اور شور و غل کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔‘‘
اس پیریڈ میں اکثر ہندوستانیوں کی عادات پر دلچسپ تبصرہ کیا کرتے تھے۔ ’’ہم ہندوستانی بھی تین لوک سے نیارے ہیں۔ انگلینڈ میں اگر کسی کے گھر موت واقع ہو جائے تو کانوں کان خبر نہیں ہوتی، یہاں کسی کا دور دراز کا رشتہ دار اللہ کو پیارا ہو جائے تو ساری رات دھاڑیں مار مار کر ہمسایوں کے علاوہ گلی محلہ والوں کی نیند حرام کر دیتا ہے۔‘‘
’’شور و غل کا ہماری زندگی میں کتنا دخل ہے۔ انگلینڈ اورفرانس میں سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اتنی دھیمی آواز میں باتیں کرتے ہیں گویا کانا پھوسی کر رہے ہوں۔ ہم ہندوستانی ’’مدہم ‘‘ کی بجائے’’پنجم‘‘ میں باتیں کرنے کے عادی ہیں بخدا ہم بولتےنہیں چلاتے ہیں۔‘‘
’’ہم ہندوستانی جب تقریر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہےجیسے گھر والوں سے لڑکر آئے ہیں اور سامعین پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہےکہ ماتمی قرارداد بھی ہم اس انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے ہمسایہ ملک سے اعلان جنگ کر رہے ہوں۔‘‘
’’مبالغہ آمیزی ہماری طبیعت کا شعار بن چکی ہے۔ یہاں ہر کانفرنس ’’آل انڈیا‘‘ یا ’’ بین الاقوامی‘‘ ہوتی ہے چاہے شرکت کرنے والوں کی تعداد ایک درجن کیوں نہ ہو۔ چند دن ہوئے میں نے موچی دروازے کے اندر ایک دکان دیکھی جس میں ایک ٹوٹا ہوا ہارمونیم اور خستہ حال طبلہ پڑا تھا۔ سائن بورڈ پر لکھا تھا۔ ’’انٹرنیشنل اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈانسنگ۔‘‘
’’ہندوستانی موسیقی میں سوز ہے جوش نہیں۔ کیمبرج میں ایک بار میں نے اپنے استاد کلر کوچ کو پکے گانوں کے چھ سات ریکارڈ سنوائے اس کے بعد ان کی ہندوستانی موسیقی کے بارے میں رائے دریافت کی۔ نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے، ’’بور کرنے کے لئے ایک ہی ریکارڈ کافی تھا آپ نے چھ سات سنوانے کا خواہ مخواہ تکلف کیا۔‘‘
بخاری صاحب سے آخری ملاقات جون ۱۹۴۷ء میں ہوئی۔ تب وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوکر گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہو چکے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے فرمانے لگے۔ ’’آپ ڈی اے وی کالج میں یونہی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ غیر ادبی ماحول میں رہنا ذہنی خود کشی کے مترادف ہے۔ میں جلد ہی آپ کو گورنمنٹ کالج میں لانے کی کوشش کروں گا۔‘‘ ان دنوں تحریک پاکستان اپنے شباب پر تھی۔ کسی پروفیسر نے کہا اگر پاکستان بن گیا تو ہم کپور کو ہندوستان نہیں جانے دیں گے۔ البتہ انھیں مشرف بہ اسلام ہونا پڑےگا۔ بخاری صاحب نے چونک کر فرمایا۔ ’’حضرت پہلے ہم اور آپ تو مشرف بہ اسلام ہولیں اس غریب کی باری تو بعد میں آئےگی۔ آخر ہم اور آپ میں کون سی مسلمانی رہ گئی ہے۔‘‘
آل انڈیا ریڈیو کا تذکرہ چھڑا کہنے لگے۔ ’’ایک بار میرے متعلق پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ میں دوست پرور ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو میں میں نے اپنے دوست اور شاگرد اکٹھے کر رکھے ہیں۔ میں نے اخبارات میں ایک بیان دیا جس میں کہا کہ یہ الزام سو فیصد درست ہے، مگر اب اس کا کیا کیا جائے کہ بدقسمتی سے میرے تمام شاگرد اور احباب قابل ترین اشخاص واقع ہوئے ہیں اور قابل دوست یا شاگرد جاہل دشمن سے ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔
بخاری صاحب ساٹھ اکسٹھ برس کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کا مقبرہ دیار غیر میں بنا۔ ہندوستان اور پاکستان سے اتنی دور کہ ان کے شاگرد اور عقیدت مند اس پر آنسو بہانے یا شمع جلانے کی سعادت بھی حاصل نہیں کرسکتے، لیکن فہم و فراست کی شمعیں جو وہ خود جلاگئے ان کی روشنی ابدی ہے۔ ان کی دین صرف مضامینِ پطرس نہیں، ان کی اصل دین ان کے وہ مایۂ ناز شاگرد ہیں جنہوں نےادب اور فن میں نئی راہیں نکالیں اور جنہیں اپنے ’’پیر و مرشد‘‘ پر جسد خاکی کی آخری سانس تک فخررہےگا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں