ڈاکٹر منور حسن کمال
یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ تمام تجربے کیفیات سے گزرکر شاعر کے لیے واردات بنتے ہیں اور واردات ذات کی گہرائی میں پیوست ہوکر نئے نئے شگوفے کھلاتی ہے، نئے نئے شگوفے شخصیتوں کو نرالاپن عطا کرتے ہیں۔ شخصیتوں کا نرالاپن جذبہ اور خیال کا لباس پہن کر نگارشات کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ نگارشات کہیں شخصیت کی نفی کرتی ہیں اور کہیں اثبات قرار پاتی ہیں۔ کہیں رنگ و آہنگ شعر کا لازمی جزو قرار پاتا ہے اور کہیں سادہ اور سپاٹ شاعری بھی دلوں میں گھر کرجاتی ہے۔ کہیں روایت پرستی جھلکتی ہے اور کہیں روایت سے بغاوت ابھرتی نظر آتی ہے۔ اگر شاعری اور ذات کے تعلق کو آسانی سے سمجھ لیا گیا تو ساری منزلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر نواز دیوبندی کا نام ایسی شخصیتوں میں آتا ہے، جنھوں نے شاعری اور ذات کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، نہ صرف کوشش کی ہے، بلکہ اس کو اپنی شاعری میں برتا بھی ہے اور اس خوبی کے ساتھ برتا ہے کہ ان کے ہم عصر بساطِ غزل کے مہروں میں الجھتے نظر آتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر ان کے بہت سے اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں، مثلاً:
ایک جگنو بھی دیوں کے ساتھ روشن تھا، مگر
جب اندھیرا ہوگیا تب لوگ پہچانے گئے
————
پتھر سے کہو دن کو نہ ہم رات کہیں گے
ہم شیشہ صفت لوگ ہیں حق بات کہیں گے
————
نیند آتی ہے سن کر انھیں اخبار کی خبریں
بچے مرے پریوں کی کہانی نہیں سنتے
————
زندگی ایسی جیو تم، دشمنوں کو رشک ہو
موت ہو ایسی کہ دنیا دیر تک ماتم کرے
————
او شہر جانے والے یہ بوڑھے شجر نہ بیچ
ممکن ہے لوٹنا پڑے گاؤں کا گھر نہ بیچ
————
عاجزی گاؤں میں مناسب تھی
شہر میں سر جھکا کے مت چلنا
آئیے ان اشعار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ جگنو جو زندگی کی علامت ہے، اس سے نواز دیوبندی نے اندھیرے میں لوگوں کی شناخت کا جو کام لیا ہے، وہ ان کی شاعری کے ٹانڈے ’ایلیٹ‘ کے اس قول سے ملادیتا ہے:
’’جدید تہذیب بہت سی پیچیدگی اور تنوع کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہ پیچیدگی اور تنوع جب منجھے ہوئے شعور پر اثرانداز ہوتے ہیں تو اس کے اثرات بھی اتنے ہی پیچیدہ اور متنوع ہوں گے۔‘‘
اسی طرح پتھر سے شیشہ صفت لوگوں کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا، حق بات برسردار کہنے کی علامت ہے۔ جدید دور کے بچوں کے حالات سے باخبر رہنے کی جانب خوب صورت اشارہ ہے۔ نواز کی زمانہ شناسی کی مثال زندگی کے اس طرح جینے میں واضح ہے کہ دشمن رشک کریں اور جانے کے بعد دنیا ماتم کناں ہو۔ شہر جانے والوں کو گاؤں کے گھر، آنگن نہ بیچنے کا مشورہ بھی ان کے حالاتِ زمانہ سے باخبر ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اسی بات کو نواز نے اپنے ایک دوسرے شعر میں مزید وسعت دی ہے:
شہروں میں کرایے کے مکاں ڈھونڈ رہے ہو
یہ گاؤں کا گھر چھوڑ کے آنے کی سزا ہے
اور شہر کے حالات سے دیہات اور قصبات سے آنے والے لوگوں کو یہ انتباہ کہ عاجزی اور انکساری جو قدیم روایات اور تہذیب کی نشانی ہے، شہر میں ان چیزوں کا نہ کوئی کام ہے اور نہ مول۔ یہ تو کلاسیکی انداز میں عصر حاضر کے ایک شاعر کا وہ درس پیغام ہے جو شاعر آنے والی نسلوں کو پہنچانا چاہتا ہے اور یہ ترسیل اس شعر میں زیادہ واضح ہوجاتی ہے:
گاؤں کی تہذیب کی اب پاسداری چھوڑ دی
شہر میں رتبے کی خاطر خاکساری چھوڑ دی
نواز اپنے دور کے سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی تقاضوں سے آشنا ہیں، اسی لیے وہ نئے نئے جذبوں کے ساتھ عصری حسیت میں ڈوبی ہوئی شاعری صفحۂ قرطاس پر اتارتے ہیں:
ملادے خاک میں گر راستے کی میں رکاوٹ ہوں
پتا منزل کا جو دے ایسا پتھر بن کے رہنے دے
————
میں نے دیں جس کو بلندی کی دعائیں رات دن
اب وہی دیوار روکے گی مرے حصے کی دھوپ
————
اس کا کتنا بوجھ اتارا، در پر آکر سائل نے
اور سخی یہ سوچ رہا ہے، سائل پر احسان کیا
نواز دیوبندی شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں، ان کی شاعری میں زندگی میں رونما ہونے والے واقعات، حادثات اور زندگی کی ان نیرنگیوں اور رعنائیوں کا ذکر ملتا ہے، جن سے حیات ہائے روزگار میں حرارت آجاتی ہے۔ وہ مشرقی روایات کے بھی امین ہیں۔ انھیں اپنی اخلاقی قدروں سے بڑا پیار ہے، ایسا پیار جس پر ناز کرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ اگر معاشرہ کی جانب اشارہ کرتے ہیں تو معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی اپنا موقف واضح کردیتے ہیں۔ انسان اور انسانیت کے تئیں بے پناہ درد رکھنے والے نواز اس درد کا مداوا بھی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں وہ معاشرہ پسند نہیں جہاں انسانیت دم توڑرہی ہو۔ درج بالا اشعار میرے خیالات کی تصدیق کے لیے کافی ہیں۔
وزیر آغا نے لکھا ہے: ’’مصوری کے کسی حسین شاہ کار سے لطف اندوز ہونا ہو تو لازم ہے کہ اسے ’موزوں‘ فاصلے سے دیکھا جائے، کیوں کہ اگر فاصلہ زیادہ ہوا تو تصویر کے خطوط اور قوسوں کا حسن نگاہوں سے اوجھل رہے گا اور اگر فاصلہ کم ہوا تو تصویر میں سلوٹیں، رنگوں کا غدر اور قوسوں کا ازدحام دکھائی دینے لگے گا۔‘‘
نواز دیوبندی کے یہاں دیکھنے کا یہ سلسلہ اپنی جانب متوجہ کرتا نظر آتا ہے، اس لیے کہ ان کے قلم سے ایسے اشعار نکلنے لگتے ہیں:
نہ دیکھوں تو مجھے ہی دیکھتے رہتے ہیں پہروں تک
اگر ان کی طرف دیکھوں تو نظریں پھیر لیتے ہیں
————
ہر اک نظر سے نظر کو بچاکے دیکھا ہے
نظر کو ہم نے تماشا بناکے دیکھا ہے
نواز کے یہاں ایک خوبی یہ بھی ابھرکر سامنے آتی ہے کہ وہ بعض لفظوں کی جب تکرار کرتے ہیں تو وہ بے وجہ نہیں ہوتی، لفظ وہی ہوتا ہے، لیکن ہر جگہ نئے انداز، نئے قالب میں ڈھل کر سامنے آتا ہے۔ مثلاً سامنے کا لفظ ’’پتھر‘‘ ہے۔ پتھر نواز نے جتنی مرتبہ استعمال کیا ہے، وہ نئے پیراہن میں سامنے آیا ہے:
پتھر سے کہو دن کو نہ ہم رات کہیں گے
ہم شیشہ صفت لوگ ہیں حق بات کہیں گے
————
نیند شیشے کی خواب پتھر کا
رات اترا عذاب پتھر کا
————
ستم گر وقت کا تیور بدل جائے تو کیا ہوگا
مرا سر اور ترا پتھر بدل جائے تو کیا ہوگا
————
یہ جلتے مکانوں کے پتھر تو روئے
نہ رویا کوئی آدمی، آدمی کو
مسکراکر دوستوں سے زخم دل کھانے پڑے
ہم کو پتھر کے عوض بھی پھول برسانے پڑے
————
کیا کریں پتھروں کی قیمت بھی
آئینوں کی دکاں سے ملتی ہے
————
آئینوں سے بزدلی ملی
پتھروں سے حوصلہ ملا
————
میرے آنسو تمہارے دامن پر
آئینے پتھروں سے ٹکرائے
————
روکے ہم دوستوں سے کیا کہتے
اپنا غم پتھروں سے کیا کہتے
کبھی پتھر کی ضد شیشہ ہے تو کبھی ستم گر کے ہاتھ میں پتھر ستم آرائی کو ظاہر کررہا ہے۔ کہیں جلتے مکانوں میں پتھر رو رہے ہیں، کبھی پتھر کے عوض پھول برسائے جارہے ہیں، کہیں پتھروں اور آئینے کی قیمت کا موازنہ ہے، کہیں پتھروں سے حوصلہ حاصل کیا جارہا ہے، کہیں آئینے پتھروں سے ٹکرارہے ہیں اور کہیں دوستوں کو پتھروں سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ یہی وہ تلمیحات، استعارات اور تشبیہات ہیں جو نواز کو اپنے ہم عصر شعرا میں ممتاز کرتی ہیں۔ ان کا شعری سفر ہنوز جاری ہے اور بڑی آن بان کے ساتھ جاری ہے۔ یقین کرنا چاہیے کہ وہ اپنی شاعری کی مزید منزلیں سر کریں گے، قدیم و جدید کے مطالعے اور مشاہدوں سے وہ اپنی شاعری کو مزید نکھاریں گے اور شعر و ادب کی دنیا کے نئے آسمان سر کریں گے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں