ڈاکٹر عادل حیات
اردو کی ادبی روایت میں 80کے بعد تحریکات و رجحانات کا زورختم ہونے لگا اور تخلیق کار کسی مخصوص نظریے کے پابند ہوئے بغیراپنے تجربے اور احساسات و خیالات کا اظہار نثر و نظم کی مختلف اصناف میں تخلیقی تقاضوں کے ساتھ کرنے لگے۔ یہ ایک فطری عمل تھا کہ اردو کی ادبی روایت میں تحریکات و رجحانات کی مسلسل تکرار نے شاعر و ادیب کی آزادی پر پہرہ بٹھا رکھا تھا۔ وہ اپنی آنکھوں پر مختلف نظریات کا چشمہ لگاکر چیزوں کو دیکھتے اور انہیں نظریات کے تحت اپنے تجربہ و احساس کو شعر و ادب کا حصہ بناتے تھے، چنانچہ 80 سے پہلے ادب کا بیشتر حصہ طے شدہ فارمولے اور بنے بنائے سانچے میں ڈھلا ہے۔ 80 کے بعد تغیر و تبدل کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا نئی صدی میں اور بھی تیز ہوگیا۔ عالمی منظر نامے سے سرحدوں کی لکیریں مٹا دی گئیں، سائبر اور انٹرنیٹ کا بول بالا ہوا۔ ایک چھوٹے سے ڈیوائس کے ذریعے دنیا انسانی مٹھی میں قید ہوکر رہ گئی۔ نئے زمانے کا انسان اپنی انگلیوں کی ذرا سی حرکت سے جہانِ رنگ و بو میں رونما ہونے والے تمام واقعات و حادثات سے باخبر ہونے لگا۔ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ دوتین دہائیوں کے مقابلے میں عصری منظر نامے پر سماجی، سیاسی، معاشی اور فکری اعتبار سے نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے جینے کا ڈھنگ، چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ اور سوچنے کا انداز بدل گیا ہے۔ ان تبدیلیوں سے ادب و شعر کا متاثر ہونا فطری ہے، چنانچہ ادب کا نیا منظر نامہ فکر و خیال کی سطح پر عالمی رویوں اور نت نئی تبدیلیوں سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا مثبت و منفی پہلو یہ نکلا کہ پیش روؤں کی طرح ادب کے عصری گلدستے میں ایک ہی شکل، رنگ اور خوشبو کے پھول نہیں بلکہ بھانت بھانت کی کلیاں مسکراتی ہیں، جن کی شکل، رنگت اور خوشبو ایک دوسرے سے کافی الگ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض تخلیق کاروں نے فیشن پرستی اور انفرادیت کے شوق میں ماضی سے اپنا رشتہ منقطع لیا ہے،چنانچہ ان کے گلدستوں میں چمک دمک اور مسحور کردینے والی خوشبو نہیں ہوتی۔ البتہ جن شاعروں نے عصری موضوعات کو کلاسیکی ضبط اور رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے، ان کے گلدستے کا نکھرا نکھرا رنگ اور ان کی خوشبومسحور کن ضرور ہے۔ نئے تخلیق کاروں میں نوید انجم بھی شامل ہیں، انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا، لیکن دھیرے دھیرے نظم نگاری کی طرف آگئے۔ ان کی تخلیقات رسائل و جرائد کے ذریعے نظروں سے گزرتی رہی ہیں اور اب ان کا شعری مجموعہ’’نقشِ رائیگا ں ‘‘ شائع ہونے والا ہے۔ اس مجموعے کو پڑھ کر نوید انجم اور ان کی شاعری کے حوالے سے مثبت تاثر ذہن پر مرتب ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نویدانجم کی ادب کے عالمی منظر نامے پر گہری نظر ہے۔ وہ گلوبل ولیج میں رونما ہونے والے موضوعات کی نت نئی شکلوں سے واقف ہیں اور انہیں تخلیقی تقاضوں اور کلاسیکی رنگ و آہنگ کے ساتھ شعر و ادب کا حصہ بنانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ وہ زبان کے مزاج سے واقف ہیں۔ فکر وہ خیال کے عین مطابق لفظوں کو ان کی صحت کے ساتھ برتتے ہیں، چنانچہ ان کی شاعری بالخصوص غزلوں میں ادبی شان پیدا ہوگئی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
کئی دنوں سے بہت خشک ہیں مری آنکھیں
فسانہ درد کا چھیڑو ذرا رلاؤ مجھے
مجھ میں کہیں شعور ہے مدفون ان دنوں
ہوش و ہواس و پیکرِ افہام منتشر
اداسی چیختی رہتی ہے اکثر دیر راتوں تک
مجھے ہستی کا ہر رنج و الم سونے نہیں دیتا
جھولتی ہے ہوا کے جھونکے سے
اب مری شاخ کو ثبات کہاں
وہ سمندر ہوں، جس میں روز و شب
ہر گھڑی اک ابال رہتا ہے
یہ مری زندگی کہ صحرا ہے
دھول اڑنے لگی ہے آنکھوں میں
ان اشعار میں شاعر نے اپنے تخلیقی عہد کی سچائیوں کے جبر سے پیدا ہونے والی صورتوں کی عکاسی کلاسیکی رنگ و آہنگ میں کی ہے، جس سے شعر میں گہرائی و گیرائی اور اثرانگیزی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ نوید انجم کی تخلیقی کائنات میں شعر بنانے اور چونکانے کا عمل نہیں ملتا۔ وہ اپنے تجربہ و احساس کو فنی اور فکری تقاضوں کے ساتھ شعر کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ ان کے اشعار میں بھی فکروخیال کی یکسانیت نہیں بلکہ ان میں لمحہ بہ لمحہ رونما ہونے والے واقعات و حادثات اور پل پل بدلتی زندگی کی سچائیوں کی طرح موضوعات کی گوناگونی ہے۔ نوید انجم کی شاعری میں کسی خاص موضوع و مواد اور فکر و خیال کی نشاندنہیں کی جاسکتی بلکہ ان کی شاعری میں نت نئے موضوعات کے اثرات کی عکاسی ہوئی ہے، جو شاعر کے تجربہ و احساس کے طور پر اشعار میں گھل مل گئے ہیں:
یہاں کے شور میں گھٹنے لگا ہے دم میرا
تم اپنے ہونٹوں کی خاموشیاں مجھے دے دو
اک حادثے میں سایہ ہی سر سے اجڑ گیا
میرا بھی اک مکاں تھا، ابھی کل کی بات ہے
میں ایک شور ہوں احساس کے تلاطم میں
کبھی بلائے خموشی نہ اپنے پاس مجھے
ہونٹ سوکھے ہوئے، نم آنکھیں ہیں، دل ڈوبا ہے
مجھ میں آباد ہیں کیا جا نے بیاباں کتنے
شور میں اپنا دم گھٹتا دیکھ کر محبوب سے اس کے ہونٹوں کی خاموشیاں مانگنا، حادثے میں سر سے سایہ اجڑ جانے کے بعد ماضی میں اپنے مکان کے ہونے کا احساس، خود کو احساسِ تلاطم میں برپا شور تصور کرکے خموشی کو دور رہنے کی باتیں اور ہونٹ کے سوکھے پن، نم آنکھیں اور دل کے ڈوبے ہونے کو بیابان کی مختلف صورتوں سے تشبیہ دینا دراصل عصری واقعات و حادثات کے اثرات کی تخلیقی عکاسی ہے۔
نوید انجم کی غزلوں میں تخلیقی عہد کی سماجی و سیاسی، معاشی و معاشرتی اور بدلتی ہوئی تہذیبی و ثقافتی سچائیاں ہیں۔ نئے معاشرے پر سیاست کی مضبوط گرفت سے کراہتی ہوئی زندگی، جھوٹ کی بالادستی، فسادات کی طغیانی میں ہر ایک بات سے ڈرلگنا، خوف و ہراس کے اندھیرے کو نور اور دل دکھانے والے کلمات کو کسی اندیکھے جبر کے تحت اچھا کہنا دراصل عہدِ حاضر کے موضوعات ہیں، جن سے نبرد آما ہوئے بغیر زندگی کرنا محال ہے۔ ملک گیر سطح پر جو اتھل پتھل مچی ہوئی ہے، اس میں حکمراں اور سیاسی رہنماؤں کا عمل دخل ہے۔ یہ لوگ ملک کی ہر چیز پر قابض ہیں اور ریشم و اطلس و کمخواب کو بھی اپنا سمجھتے ہیں:
ہزار بار جو بولوگے جھوٹ، سچ ہوگا
ہے ظالموں کا یہ ایمان،لکھ رہا ہوں میں
نت نئے روز فسادات سے ڈر لگتا ہے
بات ایسی ہے کہ ہر بات سے ڈر لگتا ہے
جو اندھیرا ہے ہر اک سمت انہیں نور کہو
دل دکھاتے ہیں جو کلمات کہو اچھے ہیں
حکمراں بھی تو ہے عریاں یہ کہے پھرتا ہے
ریشم و اطلس و کمخواب سبھی میرے ہیں
سیاست داں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اقتصادی، معاشی، نسلی اور مذہبی بنیاد پر لوگوں کے درمیان لکیریں کھینچتے ہیں،تاکہ ان کے خلاف کوئی بھی سر نہ اٹھا سکے اور ان کی دکان ہمیشہ چلتی رہے۔ شاعر کی نظر میں ایسے لوگ سیاست داں نہیں بلکہ فتنہ گر ہیں:
کھینچتا ہے لکیر وہ ہر سو
فتنہ گر ہوگیا فقیر یہاں
اس شعر میں ’’ فقیر ‘‘ استعارے کے طور پر آیا ہے، جو حکمراں طبقے کی ایک خاص شخصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاعر نے عصری موضوعات کو فنی اور فکری تقاضوں کے ساتھ اپنے اشعار میں پیش کیا ہے، چنانچہ ان کی غزلوں میں تخلیقی حسن اور اثر انگیزی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔سائنس اور ٹکنالوجی کی مقبولت نےمختلف طرح کی صنعتوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس کا چلن گذشتہ ایک صدی میں انتہا کو پہنچ گیا اور کمپوٹر اور انٹرنیت کی ایجاد نے اسے گھروں کے اندر پہنچا دیا ہے۔ ’’کرونا ‘‘ آنے کے بعد پچھلے دوتین سالوں میں ’’ورک فرام ہوم ‘‘کا چلن فیشن کے طور پر ایسا بڑھا ہے کہ بچے کھچے گھروں کا نقشہ بھی دفتروں میں تبدیل ہوگیا ہے، جس کی طرف نوید انجم نے اپنے ایک شعر میں اشارہ کیا ہے:
صنعت میں سارے شہر کا نقشہ بدل دیا
جتنے بھی تھے مکان مکیں کے نہیں رہے
اردو کے کلاسیکی شعرا حسن و عشق کے مختلف تجربوں کو غزل میں پیش کرتے تھے، لیکن زمانے کے ساتھ دوسرے موضوعات بھی غزلوں میں پیش کیے جانے لگے۔ حالی کی ’’غزل اصلاح ‘‘ کی کوششوں کے بعد دیگر موضوعات کا بول بالا ہوا اور غزل فکری سطح پر اپنے تخلیقی حسن سے دور ہوتی چلی گئی، لیکن بعض شعرا ایسے بھی تھے، جنہوں نے کلاسیکی غزل سے ہم آہنگی بنائے رکھی اور عصری موضوعات کو بھی غزل کے فکری تقاضوں کے تحت اپنے اشعار کا حصہ بنایا۔ ان شعرا میں فیض احمد فیض، مجروح سلطانپوری، فراق گورکھپوری، وزیرآغا، احمد ندیم قاسمی، عرفان صدیقی، شجاع خاور، سلطان اختر اور ادب کے عصری منظر نامے پر ظفرمجیبی، شہپررسول، فرحت احساس، عالم خورشید اور کوثرمظہری وغیرہ شامل ہیں۔ یہ لوگ غزل کی تہذیب سے واقف ہیں، چنانچہ ان کی غزلوں میں کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ غزل کی فنی و فکری خوبیاں بدرجہئ اتم پائی جاتی ہیں۔نوید انجم بھی غزل کی تہذیب، کلاسیکی روایت اور اس کے فنی و فکری تقاضوں سے نہ صرف آشنا ہیں بلکہ غزل کہتے وقت ان چیزوں کا خاص خیال بھی رکھتے ہیں۔ عصرِ حاضر کے دیگر شعرا کی طرح ان کی غزلیں محض چونکانے کا کام نہیں کرتیں بلکہ قارئین سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا تقاضہ کرتی ہیں۔ ان کی غزل بساط پر عصری موضوعات اور حسن عشق کی دلکشی شاعر کے تجربہ و احساس کے طور نظر آتی ہیں:
نرگسی رات ترے در کا اجالا مانگے
چاند سے بھیگ مری راہ کا تارا مانگے
ریت پر نام میرا برسوں سے
لکھ رہا ہے، مٹا رہا ہے کوئی
حائل جو مرحلے تھے مری راہ میں کبھی
تم ساتھ تھے سارے ہی رستے سے ہٹ گئے
کچھ اس ادا سے نظر پھیر لی تھی اس نے کبھی
جہاں بھی جائیں اسی کی نظر کو دیکھتے ہیں
ان اشعار میں محبوب کے در سے اجالا مانگتی نرگسی رات، چاند سے بھیک مانگتا راہ کا تارا، ریت پر نام لکھنا اور مٹانا اور محبوب کے ساتھ ہونے پر راہ میں حائل مرحلوں کا ہٹ جانا شاعر کی یادوں کے سہارے شعر کا حصہ بنتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ شاعر کا محبوب بھی عام معشوقوں کی طرح ہرجائی نکلا اور ایک دن نظر پھیر کر ایسا گیا کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ اس کی بس یادیں رہ گئیں، جو خوابوں کی مانند شاعر کے سینے سے چمٹی رہتی ہیں۔ یہ یادیں شاعر کی روح ہیں کہ اس کے جدا ہونے کے بعد خواب کو بھی شاعر کا نام و نشاں ڈھونڈنا پڑے گا:
میں نے خوابوں کو جو سینے سے لگا رکھا ہے
خواب ڈھونڈیں گے مرا نام و نشاں میرے بعد
نوید انجم کے مجموعہ کلام ’’نقشِ رائیگاں ‘‘میں غزلوں کے علاوہ اچھی خاصی تعداد میں نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں موضوعات کی گوناگونی، فنی باریکیاں اور بلا کی روانی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر اپنے فکر و خیال کی دنیا میں غوطہ زن ہوکر اچانک گنگنانے لگا ہے۔ اس کا گنگنانا نظموں کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جن میں فکر و فن کی بلندی، نغمگی اور دریا کی سی روانی ہوتی ہے۔’’نقشِ رائیگاں ‘‘کے شاعر نے اپنی نظموں میں احساسِ زیاں کے طور پر خاموشی کے ساتھ دربدری کے مناظر کو پینٹ کیا ہے۔ اس میں یار یعنی دوست سے مخاطب ہوکر سیاہ رات کے رہزن ہونے کی داستان سنائی گئی ہے۔ رات میں ماتیں ہوتی ہیں اور خوف سے چیخیں نکل آتی ہیں۔ رات کی مسافت طے کرنا دراصل اس سے فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے، جس کے بعد نیا سویرا کی حکمرانی کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ سحر خواب کی تاجر شب گزیدہ سحر ہے، جس کے چاروں طرف خزاں رسیدہ بہارکے سائے میں وہم، اداسی اور افسردگی کی پرچھائیاں رقص کرتی ہیں۔ امید کی صورت بھی نکلتی ہے، لیکن نادیدہ قاتل رخصت ہوتے یاد کے لمحوں میں ماتم کا ایک جہاں آباد کردیتا ہے۔ اس کے بعد ماں کے لیے خواب، اندھیرا ہے ہر ایک سو، میری حیات کے لمحے مقبرے تیرے جیسی نظمیں آنکھوں کو پرآب کردیتی ہیں۔ قرآنِ سخن میں گلزار کا سراپا اور مجھ سے پہلی سی محبت میں فیض احمد فیض کا چہرہ نظر آتا ہے۔ اس موڑ پر آکر شاعر کا تخیل مختلف دشاؤں میں بھٹکنے لگتا ہے، جس کے نتیجے میں تروینی، آپریشن گرین ہنٹ اول اور دوم، تپش، دائرہ اداسی کا فسوں،زندگی بھاگتی سی رہتی ہے، حاصل، خاموشی، فاتح، ارداہ، ایک اداس لمحہ، زندگی: ایک نغمہ، نیند، رات، لمحے سلامت ہیں، خواب، راہ، مسیحا، مجھے مت روکو، ایک آوارہ آرزو، بے بسی اور وہ میرا تھا لیکن جیسی خوبصورت اور رواں دواں نظمیں سحرانگیز کردیتی ہیں۔ ’’نقشِ رائیگاں ‘‘ سے ایک نظم ’’احساسِ زیاں‘‘ پیش ہے:
اب مرے ذہن رسا پر کوئی تصویر نہیں
تیرہ بختی نے کیا وقت کی سب کچھ معدوم
مٹ گئے رنگِ چمن اور نقوشِ ماضی
اب نہ شوریدہ سری اور نہ سودا، نہ جنوں
اب خیالوں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
گمشدہ خوابوں کے پیوند ہیں آنکھوں پہ لگے
بیکراں لمحوں کا بے نور تسلسل ہے حیات
رائیگاں ساری تگ و دو، سبھی جہدِ پیہم
پر اب داماندگئیِ زیست کا صدمہ بھی نہیں
جس جگہ جاتا ہوں فقدان نظر آتا ہے
اک تنزل ہے میری زیست کا حاصل جیسے
اب نہیں ملتے ہیں ان راہوں کی منزل کے نشاں گوشے گوشے سے جہاں بوئے چمن آتی ہے
ذہن رہتا تھا کبھی جن کے تصور میں اسیر
اب نہ چشمے، نہ وہ ساغر، نہ وہ مینا، نہ ایاغ
اب نہ خوابوں میں ہیں وہ رنگ، نہ نغمے، نہ سرود
اب نہ وہ شورشِ ارماں، نہ امیدوں کا ہجوم
اب نہ وارفتگیِ عشق، نہ حرماں کا فسوں
ولولہ اب نہ وہ پہلے سا، نہ سرمستی ِ شوق
سازِ ہستی کا ہے مضراب بھی اب یاس انگیز
مضمحل ساعتِ امروز ہے، فردا مغموم
چند سانسوں کا سفر ہے جو گزر جائے گا
پھر تو اچھا ہے کہ احساسِ زیاں بھی نہ رہے
نوید انجم کو فن کی باریکیوں اور زبان و بیان پر دسترس حاصل ہے۔ وہ کسی بھی موضوع کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ اپنی نظموں میں پیش کرتے ہیں کہ اس میں تسلسل اور اثرانگیزی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔’’نقشِ رائیگاں ‘‘ کے شاعر نے چونکہ کلاسیکی شاعری سے اپنا رشتہ بنائے رکھا اور ترقی پسند شعر و ادب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے، اس لیے ان کی شعری کائنات میں کلاسیکی ضبط اور ترقی پسندشاعری کا آہنگ بالخصوص فیض احمد فیض، ساحرلدھیانوی، مجروع سلطانپوری اور مخدوم محی الدین کا رنگ صاف طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض اوقات تو انہوں نے فیض احمد فیض کے مصرعوں پر گرہ لگاکر ان کے ہی رنگ و آہنگ میں نظمیں کہی ہیں۔ کلاسیکی شعرا سے متاثر ہونا اچھی بات ہے، لیکن اسلوب کی سطح پر کسی بھی شاعر کی پیروی کرنا ایک خطرناک عمل ہے۔ اس سے مقتدی کی اپنی انفرادی شناخت قائم نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ کے لیے پیروکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ نوید انجم کے انفرادی موضوعات، زبان و بیان پر دسترس اور فن پر ان کی پکڑ کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ تقلیدی رویے سے الگ ہوکر شاعری کو اپنا شیوہ بنائیں تو یقیناً اپنی ایک الگ راہ نکالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میں اس یقین کے ساتھ انہیں ’’نقشِ رائیگاں ‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ادب کی بستیوں میں اس مجموعے کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور اس پر بحث و مباحثے کے دروازے کھلیں گے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں