ڈاکٹر مشیراحمد
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
ڈاکٹر اختر بستوی پورا نام محمد اختر علی صدیقی(۱۹۳۸۔۱۹۹۸) کا شمار اردو و فارسی زبان وادب کی نامور شخصیات میں کیا جاتا ہے ان کی ادبی خدمات مختلف جہتیں رکھتی ہیں۔ وہ عظیم شاعر ہونے کے علاوہ بلند پایہ نثر نگار بھی ہیں ۔شاعری کے میدان میں انھوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے جن میں بطورخاص طویل نظم نگاری،مختصر نظم نگاری اور غز ل گوئی وغیرہ وہ اصناف سخن ہیں ،جن میں انھوں نے اپنی فن کاری اور جادوئی انداز بیان کے ذریعہ اپنی انفرادیت قائم کی ہے ۔ ان کی دو طویل نظمیں ’’نغمۂ شب‘‘ اور ’’بحر بیکراں‘‘الگ الگ کتابی صورت میں زیور طبع سے آراستہ ہوکر اہل علم ودانش سے دادو تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔ اس کے علاوہ مختصر نظموں کا ایک مجموعہ ’’اپنے سائے کے سوا‘‘اور قطعات پر مشتمل مجموعہ ’’پیکر خیال ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کی غز لیں بھی بڑی تعدا د میں ہیں جو ادبی رسائل وجرائد میں مسلسل شائع ہوتی رہی ہیں ۔نثر نگار ی کی جہا ں تک بات ہے تو انھوں نے تحقیق و تنقید کے میدان میں قابل قدر کارنامے انجام دیے ہیں ۔ان کے بیش قیمتی مقالات مختلف رسائل ؍میگزین کی زینت رہے ہیں۔اختربستوی نے کئی کتابوں کو مرتب بھی کیا ہے جن میں ’’سخن جو ہر ‘‘ ،’’کردا ر کے غازی قاضی محمد عدیل عباسی ‘‘ اور’’ انتخاب حالی‘‘ اہمیت کی حامل کتابیں ہیں ۔ان کتابوں میں ان کی جوتحریریں تالیفات اورمقدمے اور تنقید نگاری کی شکل میںموجودہیں ،ان سے اختربستوی کی انشاپردازی کااندازہ ہوتاہے ۔
ڈاکٹر اختر بستوی کی تخلیقات میں افسانے بھی شامل ہیں اور اس حوالے سے ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں میں تکنیکی طور پر دو اہم تجر بے بھی کیے ہیں ۔اول مونو لاگ کی تکنیک اور دوسرے کورس کمنٹری کی تکنیک ۔افسانوں کے علاوہ نثری دنیا میں ان کی تخلیقات میں طنزیہ اور مزاحیہ تحریروں کی بھی کثرت ہے۔جو ان کی کتاب’ ٹیڑھے نشان‘کی زینت ہیں۔افسانہ نگاراورمزاح نگارکے علاوہ ان کی ایک حیثیت ترجمہ نگارکی بھی ہے۔ترجمہ نگاری میں وہ ایک اعلیٰ مقام پرفائز ہیں۔ان کی ترجمہ نگاری کابہترین نمونہ’شہر سے دور‘نامی ترجمہ کردہ کتاب میں موجود ہے۔ان کی کتاب انگریزی کے نامورڈرامہ نگارشیکسپئرکے مشہور ڈرامے As you like it کاترجمہ ہے۔
مذکورہ بالا تمہیدی گفتگو کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختر بستوی کی شعری تخلیقات؍ نگارشات کاتنقیدی مطالعہ پیش کیا جائے۔ یہی اس مضمون کی افادیت بھی ہے۔ڈاکٹر اختر بستوی کی تخلیقات کا بغور مطالعہ کیاجائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بعض ایسے انوکھے اور نادر موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ،جن پر کم لکھاگیا ہے ۔مثال کے طور اردو میں طویل نظمیں کم کہی گئی ہیں ۔اختر بستوی نے دو طویل نظمیں لکھ کر اس صنف کو روشن و منور کیا ہے۔اسی طرح قطعات کے مجموعے بھی اردو زبان وادب میں کم ملتے ہیں ۔ان کے قطعات پر مشتمل ایک مجموعہ’پیکرخیال‘ نے قطعات کے خزانے میں اضافہ کیاہے۔
ان کی نظموں کی جانب جب ہم دیکھتے ہیں تو ان کی دوطویل نظمیں اہل علم کواپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔اولاََ ’’نغمۂ شب‘‘اورثانیاََ’’بحربیکراں‘‘۔ان دونوں نظموں کی خاص بات یہ ہے کہ الگ الگ کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔’’نغمۂ شب‘‘،اختربستوی کی ایک طویل نظم کا مجموعہ ہے جوشب خون کتاب گھر،رانی منڈی الٰہ آبادسے پہلی بار ۱۹۶۹ میں شائع ہواہے۔یہ نظم دلکش ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دلچسپ بھی ہے۔اس نظم میںرات ایک شخص کے روپ میں نظر آتی ہے اور اسے کردار کا جامہ پہنا کراختربستوی نے اپنے خیالات کی ترجمانی کی ہے۔انھوں نے زندگی کے کرب اور روزگار کے مسائل کا خوب صورت تجزیہ پیش کیا ہے۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ کوئی شخص جو حالات کا ماراہواہے،ستم رسیدہ ہے،مظلوم ہے،وہ اپنی زندگی کی روداد سنا رہا ہے۔صفحہ نمبر۹ سے صفحہ۶۴تک پھیلی اس طویل نظم میںروانی اور برجستگی کے علاوہ موسیقیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ نظم کایہ حصہ ملاحظہ فرمائیں:
اس خفتہ آبادی میں اک دیوانہ شاعر اب تک
جاگ رہا تھااپنے ادھورے سپنوں کا سنسار لیے
نظروں میں الجھنیں ہزاروں ،ماتھے پر شکنوں کا جال
ذہن میں نامعلوم مسائل کے صدہا افکار لیے
دن بھر دنیاداروں کی مانند نہ وہ مشغول رہا
کام کیا بس اتنا ہی بجھ جائے جس سے پیٹ کی آ گ
تھکن مشینی دورکی اس پراسی لیے حاوی نہ ہوئی
بڑھا نہ اس کی جانب پھن پھیلاکربے حس نیند کا ناگ
بیداری کی نعمت اس کے پاس ابھی تک تھی محفوظ
غفلت کس کو کہتے ہیںیہ بات نہ تھی اس کو معلوم
ہوش و حواس بھی تھے قابو میں،آنکھیں بھی تھیں کھلی ہوئی
قلب بھی اس کا ،ہوا نہ تھااحساس کی دولت سے محروم
ایک پرانے پُل کے نیچے کھڑاتھا وہ گم صم،چپ چاپ
دیکھ رہاتھا دور خلا کی تاریکی میں جانے کیا
چشم تمنا شاید کہتی تھیــ’’دیکھو فطرت کے روپ‘‘
نظرمگر حیراں تھی اندھیرے میں آخر پہچانے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم کا یہ حصہ پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ شاعر دنیا کے طبقاتی نظام اور دولت کے حصول میں رواں دواں دنیا میں ایک ایسے منظر کی تصویرکشی کررہا ہے،جہاں کوئی محبوس شخص فکردوراں کے جال میں پھنس کردنیاکی چمک دمک ،مشینی و صنعتی زندگی کی محرومیوں کاشکارہوکربھی اپنے فکری اعصاب پر قابورکھتا ہے اوررات کی تاریکی میں ’فطرت کے روپ‘کودیکھ کرجس طرح انسان چمکتے ستاروں کوتودیکھتاہے،لیکن ستاروں کی چمک کے علاوہ اسے کچھ نظر نہیں آتااسی طرح جدید دورمیں دنیاکی چمک تونظرآتی ہے،لیکن اس چمک دمک کاانجام کیا ہوگااس تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔
ڈاکٹراختربستوی کی یہ نظم اس قدراہم ہے کہ اس حوالے سے اردوادب کے اہم ناقدین نے اس کی عظمت کو سراہا ہے۔ڈاکٹرسیداعجازحسین اس نظم کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’اخترصاحب کی طویل نظم’نغمۂ شب‘اقبال کی نظم ’خضرراہ‘کی یاددلاتی ہے۔طوالت بیان واندازفکرکے لحاظ سے بھی ایک بڑی حدتک مماثلت ہے۔اقبال نے حضرت خضرکی زبان سے دنیاواہل دنیاکے اہم مسائل پرروشنی ڈالی ہے اوراخترصاحب نے رات کو’شخص‘بناکراپنے خیالات کا آئینہ دار کیا ہے۔یہ تقلید یاتخلیق باعث مسرت ہے۔۔۔اخترصاحب کی نظم کئی لحاظ سے قابل قدر ہے،حیات وممات کے ضروری پہلوئوں پر موصوف نے ناقدانہ نظرڈالی ہے۔زندگی کے کرب اورپراگندگی روزگار کے اسباب کابڑے سلیقے سے تجزیہ کیا ہے،کیونکہ انسان مجبور ہوجاتاہے اور کس طرح لوٹ مارسے سرمایہ دار خوش حال بنتاہے،یہ آج کی زندگی کے اہم ترین مسائل ہیں ،جوان کے اشعار میں ہم کوہرقدم پرنظرآتے ہیں۔ ‘‘۱؎
پروفیسراحتشام حسین ’نغمۂ شب ‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نظم کااصل موضوع زندگی ہے ،جوحسین بھی ہے اور بدصورت بھی۔جس میں نغمہ بھی ہے،فریادبھی ہے،جسے اپنے فکری لمحوں میں ہرصاحب دل محسوس کرتا ہے۔اختربستوی نے انھی خیالات کوزبان دے دی ہے اوربڑے خلوص سے اپنی بصیرت کے مطابق زندگی کے مختلف مناظرکوشاعرانہ انداز میں پیش کردیاہے۔رات شاعر کی زبان سے اپنے دامن میں چھپی ہوئی عریانیوں،بے عنوانیوں اوررنگینیوںکی صورت گری موثرانداز میں کرتی ہے۔اس لیے شروع سے آخرتک تاثرکی فضاقائم رہتی ہے۔۔۔نغمۂ شب اس حیثیت سے ایک اہم نظم ہے کہ شاعررات جیسی محبوبہ کاپرستار ہونے کے باوجودقنوطی نہیں ہواہے۔ ‘‘۲؎
پروفیسرمحمدحسن لکھتے ہیں:
’’پوری نظم میں نے ایک ہی نششت میں پڑھ ڈالی۔آپ کی سعی قابل داد ہے۔سب سے پہلے تواس بناپر کہ آپ نے رومانی موضوع یامحض فیشن اورفارمولے کی شاعری سے دامن بچایا ہے اور ایک بڑے مسئلے کولیا ہے۔زیست کاصدمہ،موت کی بے دردی کاالم،حالات کاغم،اردومیں ابھی تک ایسے عمیق مسائل اجنبی سے ہیں۔پھران کابیان بھی شاعرانہ ہے اور آپ کی کوشش واقعی لائق ستائش ہے۔‘‘۳؎
پروفیسراسلوب احمدانصاری نے ’نغمۂ شب‘کے بارے میں لکھا ہے:
’’آپ نے جس طرح رات کوجیتاجاگتاشعری کرداربنادیاہے اس سے آپ کی تخئیل کی بے باکی،اس کی گیرائی اورپرواز کااندازہ بخوبی کیاجاسکتاہے۔رات کومرکزومحورقراردے کرآپ نے جس طرح انسانی زندگی کے جتنے مختلف رخ،جتنے مختلف زاویوں سے پیش کیے ہیں،اسے ذہن میں رکھتے ہوئے یہ نظم ایک کارنامہ ہے۔‘‘۴؎
نظم کے مذکورہ بالااشعار میں اختربستوی نے مکالمہ کاجو لہجہ اختیارکیا ہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان میں یقیناایک ایسی نظم لکھنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے،جوعلامہ اقبال کی نظم’خضرراہ‘کے مقابلے میں پیش کی جا سکے۔
اختربستوی کی دوسری طویل نظم ’’بحربیکراں‘‘ہے،جوکتابی شکل میں مکتبۂ دین وادب، لاٹوش روڈ،لکھنئوسے۱۹۷۴میں شائع ہوئی ہے۔پروفیسرمحمودالٰہی نے اس نظم کوزندگی اور انسانیت کارزمیہ کہا ہے۔بحربیکراں کا موضوع بھی کم وبیش وہی ہے جو’نغمۂ شب ‘کا ہے۔ موجودہ زمانے میں معاشرے کی صورت حال کااگرجائزہ لیا جائے،تو ہمیں بے روزگاری،نوجوانوں کا استحصال،ان کی زندگی کومشکل اورپیچیدہ کردینے کارویہ اوران کے حقوق سلب کرلینے کارجحان عام نظرآتاہے۔اس پس منظر میں اگر اختربستوی کی نظم ’بحربیکراں‘کا مطالعہ کیاجائے تو یہ نظم موجودہ دور کی بہترین ترجمانی کرتی نظرآتی ہے۔بعض اشعار ملاحظہ ہوں:
میں کہ اک فنکار ناآسودہ و آشفتہ سر
مثلِ دودِشمع ِکشتہ پھرتا ہوں دیوانہ وار
دل میں بے چینی،خیال وفکر میں شورش لیے
روح کے تاریک گوشوں میں چھپائے ا ضطرار
مجھ کوسرگرم سفررکھتی ہے بے تابی مری
رہ نوردی کامجھے رہتاہے سوداصبح وشام
جادہ ومنزل کی جانب ذہن جاتاہی نہیں
میرے مشرب میں نہیں ہے کوئی شے قیدمقام
دوڑتی رہتی ہیںنظریںبھی ہمیشہ چارسو
دیکھتی ہے صحن عالم میں ہر اک منظر نگاہ
دشت ودریا کے مناظر،کوہ وصحراکاسماں
چشم بیناسب سے رکھتی ہے مسلسل رسم وراہ
اختربستوی کی نظموں میں حالات وواقعات کی جوتصویرنظرآتی ہے وہ کسی زمانے یا فرد تک محدود نہیں ہے،ان اشعار میں انھوں نے اس کشمکش کوالفاظ کاجامہ پہنایاہے،جوایک ہنرمند،باصلاحیت انسان اور اعلیٰ عہدوں پر فائزکم فہم اورموقع پرست منافقین کے مابین مسلسل جاری ہے۔
پروفیسرمحمودالٰہی لکھتے ہیں:
’’مجھے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اختربستوی نے اقبال کاعمیق مطالعہ کیا ہے اور ان سے نظم نگاری کا سلیقہ سیکھا ہے۔حسن ترتیب،حسن تسلسل اقبال کی نظموں کی جان ہیں۔کچھ ایسا ہی انداز’بحربیکراں‘میں بھی ملتاہے۔لیکن اختربستوی نے اقبال کااثر قبول کیاہے،ان کی تقلید نہیں کی ہے اوریہ نہ بھولنا چاہیے کہ تقلیداوراثرپذیری میں بڑافرق ہے۔اورپھرسب سے بڑی بات یہ ہے کہ اختربستوی اثرپذیری کو انفرادیت میں تحلیل کرلینے کاسلیقہ بھی جانتے ہیں۔اردومیں طویل نظموں کی بڑی کمی ہے۔میں اختربستوی کی اس کوشش کو ایک اہم اور جرأت مندانہ قدم سے تعبیرکرتاہوں۔‘‘۵؎
اختربستوی کی مختصرنظموں کا ایک مجموعہ’اپنے سائے کے سوا‘بھی کتابی شکل میں شائع ہوا ہے۔یہ شعری مجموعہ آواز پبلیکیشنز،ریتی کاپُل،گورکھپور سے۱۹۸۹ میں منظرعام پرآیا۔یہ شعری مجموعہ۱۰۱ مختصرنظموں پرمشتمل ہے۔بعض نظموں کے عنوانات درج ذیل ہیں:
ظلمت انا،سمندرکی پیاس،جلن باہرجلن اندر،سردوگرم،اندھاکنواں،اکائی کا نروان، کلنڈر کاخوف،بت شکن کابت،گناہ کاماتم،سفیدپوشی،افعال کاحاصل،احساس برتری،چہروں کی بے چہرگی،کچی سڑک،زہرمرااورامرت سب کاوغیرہ۔
ڈاکٹراختربستوی کی مختصر نظموں میں خیال کی نادرہ کاری اورانوکھا پن نظرآتاہے،کہیں کوئی تکرار،پیچیدگی یاالجھائو ہے اورنہ ہی غیرضروری الفاظ کی کثرت اور تراکیب کی بھرمار۔ان نظموں کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کامطالعہ اور مشاہدہ کس قدروسیع اور گہراہے۔ اختربستوی انھیں عناصرکی بنیاد پر اپنی تخلیقات میں خیالات کی نئی نئی دنیاآباد کرتے ہیں۔ان کی نظم’خواہش نمود‘ پیش خدمت ہے:
وہ سنگ جس سے میں نے تراشاہے اک صنم
کہتا ہے’’تم نے مجھ کو ادھورا کیاہے کیوں؟
تخفیف کرکے میرے مکمل وجود میں
خوداپنے فن کے نقش کوپوراکیا ہے کیوں؟‘‘
کیونکر بتائوں اس کو کہ فن کار فطرتاََ
رکھتاہے اپنے قلب میں اک خواہش نمود
لازم ہے یہ کہ اس کاوسیلہ بھی ہو کوئی
لاتا ہے اس لیے وہ تصرف میں اک وجود
………
طویل نظموں کے علاوہ اختربستوی نے مختصرنظموںکے حوالے سے خوب نام پیداکیاان کی مختصر نظموں پر اظہارخیال کرتے ہوئے کیفی اعظمی لکھتے ہیں:
’’آج کل ہماری زبان میں نظم کے نام سے جوچیزیں لکھی جارہی ہیںوہ یاتومختصرمثنویاں ہوتی ہیںیاغزلِ مسلسل۔وہ نظمیں نہیں ہوتی ہیں۔اخترصاحب کی یہ نظمیں خیال کی اکائیاں ہیں۔آپ کوکسی بھی نظم میں نہ خیال کی تکرارملے گی نہ لفظوںاورترکیبوں کی غیرضروری کثرت۔آپ جس نظم کوغورسے پڑھیں،آپ کواندازہ ہوگا کہ شاعرکے ذہن میں سب سے پہلے ایک خیال ابھرا،پھراس خیال کوکامیابی کے ساتھ اداکرنے کے لیے شاعر نے بحراورامیجری کاانتخاب کیااور جہاں شاعر نے محسوس کیاکہ بات پوری ہوگئی،شاعر نے نظم وہیں ختم کر دی۔‘‘۶؎
’پیکرخیال‘کے نام سے اختربستوی کاایک شعری مجموعہ’مجموعۂ قطعات‘ مکتبہ دین و ادب ،لکھنؤ سے۱۹۷۰میں شائع ہوا ہے۔اختربستوی کا بیش ترکلام ،زندگی کی گہما گہمی اورمتنوع جہات کااحاطہ کیے ہوئے ہے۔یہاںزندگی کے مختلف رنگ وروپ مختلف شکل و صورت میں نظر آتے ہیں۔بہ الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری زندگی اورموت کابہترین استعارہ ہے۔
اختربستوی کے قطعات میں جو معنویت اورفکری پختگی ہے وہ انھیں قطعات نگاری میں اہم مقام عطاکرتی ہے۔بطورنمونہ بعض قطعات ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں ؎
آدمی زیست کے ویران نہاں خانوں میں
گھومتا پھرتا ہے یوں لے کے سہارا دل کا
اجنبی شہر میں جیسے کوئی راہی شب کو
پوچھتا پھرتا ہو بچوں سے پتہ منزل کا
مل سکا رہروِ ہستی کو نہ اک پَل بھی سکوں
موت ہرلمحہ نگاہوں میں کھٹکتی ہی رہی
مشعلِ عقل بہ ہرگام تھی موجود مگر
زندگی وقت کے صحرا میں بھٹکتی ہی رہی
زیست کے واسطے غم زہرِہلاہل ہے مگر
غم اگر غم ہوتو ہرزخم کامرہم بن جائے
غم کااحساس ہوانساں کوتوکھودے وہ حواس
غم کاعرفاں ہوتوسدّھارتھ سے گوتم بن جائے
ان قطعات میں اختربستوی نے جس فنی چابکدستی کامظاہرہ کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔درج بالاقطعات میں پہلے قطعہ میں انسان کی اس حالت کا نقشہ کھینچاہے جب انسان زندگی کے تگ ودو میں کامیابی کی امید لے کر در در بھٹکتاہے،لیکن اسے کہیں کامیابی نظرنہیں آتی،پھربھی وہ اپنی منزل کی تلاش میں مسلسل جدوجہدکرتارہتاہے۔اس صورت حال کواختربستوی نے’زیست کے ویران نہاں خانوں ‘ ’اجنبی شہر‘اور’راہی شب‘جیسی علامتوں سے تشبیہ دے کرجوبامعنی کیفیت پیداکی ہے وہ شعر کی عظمت کوآسمان کی بلندی عطاکرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسرے قطعہ میں اختربستوی نے زندگی کی صحرانوردی اورتمام فہم وادراک کے باوجود انسان زندگی کی بھول بھلیا میںجس طرح گم ہوجاتاہے،اس کی تصویر پیش کی ہے۔اس قطعہ میں الفاظ کے انتخاب میں انھوں نے بہت مہارت کامظاہرہ کیا ہے۔’رہروہستی‘’مشعل عقل‘ اور ’زندگی کاصحرا میں بھٹکنا‘ایسے استعاراتی الفاظ کااستعمال اس قطعے کی بلندی میں یقینا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تیسراقطعہ بھی اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں زندگی اور غم جیسے دو لازم وملزوم عناصر کابیان بہت ہی حکیمانہ انداز میں ہواہے۔زندگی کا غم سے یقینا مضبوط رشتہ ہے،یہی رشتہ جب مثبت پہلواختیار کرتا ہے توزندگی کے لیے غم مرہم ہوجاتا ہے۔لیکن جب یہی غم اگرانسان کی زندگی میں منفی کرداراداکرتا ہے،توزندگی سے زیادہ انسان کو موت عزیزہوجاتی ہے۔مذکورہ قطعہ میں شاعر نے غم کے مثبت پہلو کابیان جس خوبصورتی سے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اختربستوی کے قطعات پر اظہارخیال کرتے ہوئے کیفی اعظمی نے لکھا ہے:
’’اخترانصاری اورنریش کمار شاد کے بعدسب سے اچھے قطعات ڈاکٹراختربستوی نے لکھے ہیں‘‘۷؎
تمہیدی گفتگو میں اس بات کا ذکرکیاجاچکاہے کہ اختربستوی کی غزلیں بڑی تعداد میں ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں۔اس ضمن میں ان کی غزلوں کا مجموعہ’’غزالاں تم تو واقف ہو۔۔۔۔۔۔‘‘بہت اہمیت کا حامل ہے۔یہ مجموعہ اختربستوی کے انتقال کے آٹھ سال بعد محمدعلی صدیقی(شیدابستوی) نے مرتب کیا ہے۔اس کی طباعت غازی آفسیٹ پریس محلہ پچپڑیا،ضلع بستی سے۲۰۰۶میں عمل میں آئی ہے۔
ڈاکٹراختربستوی کی غزلوں میں معاملات حسن وعشق کے علاوہ دنیاجہان کے موضوعات کی ترجمانی ملتی ہے۔ان کے یہاں فکروفلسفہ بھی ہے اورتاریخی،سماجی ،معاشرتی اور تہذیبی مضامین و موضوعات کی فراوانی بھی ہے۔اختربستوی کے کلام پراپنی رائے پیش کرتے ہوئے پروفیسرافغان اللہ خاںلکھتے ہیں:
’’بحیثیت شاعروہ صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک بھی جانے اور پہچانے گئے۔دراصل اختر کی شاعری اکتسابی یا ان کے وسیع مطالعے کا نتیجہ نہیں تھی ،بلکہ ز ندگی کے حادثات اورتجربات نے ان کی شاعری کوغذا دی ۔اختر نے اپنی ذات اور اپنے عہد کے مسائل کونہ صرف سمجھااورپرکھا،بلکہ اسے اپنی شاعری میں اس طرح سمودیا کہ وہ صرف حالات حاضرہ پربیانstatementہوکرنہیں رہ گئے ،بلکہ وہ شاعری کے بہترین نمونہ بن کرسامنے آئے۔اختر کی شاعری میں کسی حدتک غصّے اوراحتجاج کاجورویّہ ہے وہ ان کی پوری شاعری کے تہ نشین میں جاری وساری ہے۔‘‘۸؎
پروفیسرسیدمحمد امین لکھتے ہیں:
’’اختربستوی کے اس مجموعہ میں فلسفیانہ حقائق کی گہرائی،سماجی اورمعاشرتی تقاضوں کااحساس،تاریخی واقعات کے ساتھ ماحول کی عکاسی اورجمالیاتی پہلو ہے۔انتخاب الفاظ میں مہارت،اسلوب میں جدت اورطرزادامیں ندرت ہے۔۔۔غزل کے موضوعات زندگی کی طرح وسیع،ہمہ گیر اور متنوع ہیں۔اس نے صوفیوں کے حلقوں میں وجدوکیف کی بارش کی ہے تورندوں کی محفلوں میں غزل نے نشاط و طرب کارنگ جمایا ہے۔اس کے علاوہ ان کے اشعار میں سائنسی اورآفاقی حقیقتوں کااعتراف بھی ہے اوریہ سب کچھ غزل بلکہ تغزل کے پیرائے میں ہے۔‘‘۹؎
غزالاںتم توواقف ہو۔۔۔کے مرتب محمدعلی صدیقی (اختر بستوی کے بچپن کے دوست) نے لکھا ہے:
’’ان کی زندگی شعروادب کے مطالعے میں گزری،لیکن ان کی ذاتی زندگی زبردست کشمکش کاایک سلسلہ تھی۔دونوں باتوں کااثران کی شاعری پرپڑااوراسی لیے ان کی غزلیں بھی اپنے مزاج کے اعتبارسے فکریہ ہیں،جن میں حادثات زمانہ اورحالات کے اتارچڑھائوکاعکس نمایاں ہے۔کہاجاتاہے کہ موضوع وخیال اپنی زبان خود بنالیتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اختربستوی کی غزلوں کی زبان ولہجے میں روایتی لوچ و نرمی کے بجائے ایک پرشکوہ ٹھہرائواوروقار ہے۔وہ زبان وادب کے اسکالر تھے،ان کااندازبیان بہت پختہ ہے اورکچھ اشعار تواتنے بلندپایہ اورسانچے میں ڈھلے ہیں کہ فن کا بیش بہا نمونہ بن گئے ہیں۔‘‘۱۰؎
اختر بستوی کی شاعری کوسمجھنے کے لیے ان کی غزلوں کا مطالعہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں ان کا شعری ذوق بڑی آب و تاب کے ساتھ روشن نظر آتا ہے،اس لیے ان کی شاعری کو مزیدواضح انداز میں پیش کرنے اور ان کی فنی خوبیوں سے پردہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری کا بھی مطالعہ کیاجائے۔آئندہ صفحات میں ہم اختر بستوی کے بعض اشعار نقل کریں گے جس کی روشنی میں قارئین اندازہ لگاسکیں گے کہ موجودہ زمانے میں ان کے کلام کی افادیت اوراہمیت کس قدر ہم آہنگ ہے ۔اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
اختر مجھے بھائے گا کبھی شہر نہ دن کا
وحشت مری ڈھونڈھے ہے سدارات کا جنگل
کیوں میں نے سجارکھاہے آئینوں کابازار
اس سمت نہ آئے گا کبھی کوئی خریدار
ہوں میں اپنی ذات کے گھیرے میں پابندمقام
آسکوں اس سے اگر باہرتو عالم گیر ہوں
نالۂ اقبال سمجھے ہیں مجھے اہل ادب
میں مگراختر جوسچ پوچھو تو آہ میر ہوں
خوف حالات کواس کاسمجھوں سبب یا اسے مصلحت کا نتیجہ کہوں!
کون جانے ہوئی کیوں یہ صورت عیاں لوگ دیکھا کیے شہرجلتارہا
پا سکے گا چین دل کا،وہ زمانے میں کہاں
ہو نہ جس کے واسطے جائے سکوں گھر رات میں
مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیاجاسکتاہے کہ اختر بستوی کاشمار ہمارے عہد کے نمائندہ شعرا کی فہرست میں ہوتاہے ۔ان کی معنویت ہرزمانے میں قائم رہے گی۔شعری کارناموں کے علاوہ اختربستوی نے دیگر میدان میں جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں ،انھیں بھی منظرعام پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ اہل علم ان کی قدرومنزلت کابخوبی اندازہ لگاسکیںاورحسب ضرورت استفادہ کرسکیں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں