خالد فتح محمد
سخی محمد کو اپنی ذات پر لگے زخموں سے زیادہ اُن زخموں کی فکر تھی جو اُس کی زندگی پر لگے تھے۔وہ ایک ایسے گرداب میں چکر کاٹے جا رہا تھاجس میں سے نکلنااُس کے بس میں نہیں تھا۔ حالات اُس کی خواہشوں اور سوچ کے مطابق تھے اور وہ اپنی خوشیوں میں کسی کو شریک کیے بغیراپنے ہی آپ میں خوش تھا۔وہ ابھی چھوٹا ہی تھا،اتنا چھوٹابھی نہیں کہ اُسے چھوٹے اور بڑے میں فرق نا ہو کہ اُسے رنگ اچھے لگنے لگے۔ وہ ہر طرف رنگوں کا متلاشی تھا،اُن رنگوں کا جو اُس کے سامنے کئی اشکال میں بکھرے ہوئے تھے اور ایسے رنگ بھی جو اُس کی نظر سے اوجھل تھے۔ وہ ساری شام شہر کے پارکوں میں پھرتا،سورج کو طلوع اور غروب ہوتے دیکھتا،خزاں میں پتوں کے رنگ تبدیل ہوتے دیکھتااور درختوںکی اُن اُجڑے ہوئے رنگوں میں اُداسی کے ساتھ شامل ہوتا،بہار میں اُن اُداس رنگوں کی جگہ شوخ اور دمکتے ہوئے رنگ لہکتے ہوئے دیکھتااوراُن لہکتے ہوئے رنگوں میں اپنی خوشی بھرنے کی کوشش کرتا،گرمیوں کی جھلسا دینے والی گرمی میں ہر طرف آگ کے رنگوں میں سے ٹھنڈک کشید کرنے کی کوشش کرتااور پھر برسات کے سبزوں میں درختوں اورزمینوں کو ہری چادرمیںلپٹے ہوئے دیکھتا۔
سخی محمد کے گرد رنگ تھے:سُرخ،آتشیں،گلابی،عنابی،کالے،خاکستری،سلیٹی،بھورے،بادامی،سفید،کافوری،دھاتی،سُرخی دھاتی مایل بھورے، زرد،پیلے،کھٹے،ہرے، زہر مہرے،سبز،نیلے،ا ٓسمانی،لاجوردی اور کئی رنگوں کی آمیزش سے وجود دیے ہوئے رنگ جو اصلی نا ہوتے ہوئے اصلی تھے اور اصلی ہوتے ہوئے نااصلی تھے۔وہ پوری دنیا میں صرف رنگ دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھاتھاکہ جدھر دیکھے اُسے رنگ ہی رنگ نظر آئیں۔ اُس کی نظریں رنگ تو دیکھتی تھیں لیکن یہ رنگ بوسیدہ اور پامال شدہ تھے۔ رنگ چاہے اُداس ہی کیوں نا ہوں وہ اُن میں ایک تازگی دیکھنا چاہتا تھا۔ اُسے کسی نے بتایاکہ دیہات میںرنگوں کی اصل شکل نظر آتی ہے اور اُس نے دیہات میں رہنے والوں کے ساتھ تعلقات بنائے اور پھر اُن سے ملنے جانا شروع کردیا۔وہ دیہات کے کچے راستوں پر غیر آرام دہ سفر کرتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچتااور شام کو سورج کے غروب ہونے سے پہلے کسی مناسب جگہ پر بیٹھ کے سورج کے باقی ماندہ سفر کو دیکھتے ہوئے بدلتے ہوئے رنگوں کو اپنی سوچ کی زنبیل میں بھرتے جاتا۔سردی کی پروا کیے بغیر وہ سورج کے طلوع ہونے تک آسمان کے رنگوں کو دیکھتارہتا۔ اُسے محسوس ہوتاکہ بظاہر ایک ہی رنگ لیے رات کئی رنگوں کا مجموعہ ہے۔آسمان میں ستارے اُسے بے لباس نظر آتے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھاکہ شہر میں یہی بے لباس ستارے اُسے اپنے ستر ڈھانپے ہوئے کیوں محسوس ہوتے؟یہاں گاؤں میں اُسے اُنہی ستاروں کی برہنگی میں ایک پاکیزگی نظر آتی۔ہر ستارے کا ایک جداگانہ رنگ تھااور وہی رنگ اُسے کائنات کا رنگ لگتا۔ وہ خود کو اُس رات کے ہر لمحے میں کائنات کا اٹوٹ حصہ محسوس کرتااور ہر ستارے کو بے ستر دیکھتے ہوئے فیصلہ کرتاکہ زندگی میں کبھی وہ گاؤںآن کے آباد ہو گا۔
سخی محمد ایک اُلجھن کا شکار تھا۔یہ اُلجھن اُسے کبھی اصلی اور کبھی خود ساختہ لگتی۔وہ سوچتاکہ وہ اپنی اِس اُلجھن کی حقیقت کا کیسے پتا چلائے؟بعض اوقات وہ باغوں کے چکر لگانے کے بجائے اپنے گھر کے پچھلے صحن میں بیٹھ کے سوچتا رہتا۔ اُسے اپنے گھر کا وہ حصہ پسند نہیں تھاکیوں کہ وہاں بھٹے کی اینٹوں کا غیر ہموار فرش تھاجس کے رنگ کی یکسانیت اُسے ایک اُفسردگی کا شکار کر دیتی۔وہ تو رنگوں کی رنگینیوں کا طلب گار تھااور کہاں یہ یک رنگی !لیکن وہ وہیں بیٹھ کے سوچتااور اپنی اُس اُلجھن کا حل تلاشتا۔جب اُسے کوئی راستہ نظر نا آتاتو وہ کسی باغ میں رنگوں سے اپنی آنکھوں کو بھرنے کے لیے نکل جاتااور اُس فرار سے تکمیل نا پاکے واپس گھر کے پچھلے صحن میں پناہ ڈھونڈتا۔
سخی محمد کو اکثر محسوس ہوتاکہ اُس کی زندگی ایک طرح کی یکسانیت کا شکار ہے۔وہ ہر روز وہی کررہاتھاجو اُس نے گزرے ہوئے کل میں کیا تھااور اُسے یقین تھاکہ اُس نے آنے والے کل میں بھی یہی کرنا ہے۔بہت سوچ بچار کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچاکہ جو اُس کے ساتھ ہو رہاہے اُس میں کوئی شک نہیں اور اُسے ایک وقفے کی ضرورت تھی۔وہ رنگ جنھیں دیکھنااُس کی زندگی کا حاصل تھا اب اُن نوعیت بدل گئی تھی۔ وہ اُسے کبھی ویسے ہی نظر آتے جیسے وہ اُنھیں دیکھنا چاہتا تھااور کبھی وہ سکڑتے ہوئے نظر آتے،کچھ اِس طرح کہ وہ اپنے وجود سے کہیں زیادہ مختصر محسوس ہوتے اور کبھی اِس کے برعکس اُن کے نقوش کہیں زیادہ پھیلے ہوئے نظر آتے۔جو بات اُس کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی ،وہ اُس کے متعلق سوچنے سے خائف تھا:کبھی اُسے کوئی رنگ نظر نا آتے؛بس ہر سو پھیلی ہوئی ایک سفیدی۔۔۔۔۔چاندنی راتوں میں دور تک پھیلی ہوئی برف سی ویرانی۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دِن سب رنگ جاتے رہے: ہرطرف بکھری ہوئی ایک سفید چادر تھی جس میں سے باوجود کوشش کے وہ کوئی رنگ بھی نا نکال سکا۔ اُس کی کاپی پر کوئی لکیر نہیں تھی اور اُس کے لیے سیدھی قطار میں لکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ وہ ہمیشہ کالی روشنائی استعمال کرتا تھا،اب وہ سفید کاغذ پر سفید روشنائی سے لکھتاجو اُسے کبھی نظر آجاتی اور کبھی نا آتی۔
سخی محمد نے اِسے اپنے حالات کا وار جانا اور اُس نے طے کرلیاکہ اُسے اُن کے ساتھ سمجھوتاکرنا ہو گاکیوں کہ اُس کے پاس ایسے حالات کا مقابلہ کرنے والے اوزار نہیں تھے اور یہ بھی اُس کے علم میں نہیں تھاکہ اُسے کن ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔اُس نے اپنے ساتھ ہونے والے المیے کے متعلق کسی کو نہیں بتایااور اپنی تمام تر توجہ تعلیم پرمرکوز رکھی۔ وہ ہمیشہ ہر جماعت میں بہترین طالب ِ علم ہوتا۔وہ جان گیا تھاکہ اُس کے رنگ جاتے رہے تھے اوراُن رنگوں کی نظر نا آنے والی لہروں پروہ آگے بڑھے چلاجارہا تھا۔اُنہیں دنوں میں اُسے ایک شدید احساس ہونے لگا۔ وہ محسوس کرتاکہ اُس کا بدن ہر وقت ایک تناؤمیں رہنے لگا تھااور بعض اوقات یہ تناؤاتنا شدید ہو جاتاکہ وہ دروازوں،دیواروں اور درختوں سے ٹکرانا چاہتا۔ وہ اپنی اِس کیفیت سے نالاں بھی ہوتااور اِس میں اُسے ایک مخفی لذت بھی ملتی۔اُس کا جی کرتاکہ وہ کسی کے ساتھ جھگڑا مول لے،کسی کے چہرے پر کس کے مکامارے اور مکے کی شدت کی وجہ سے وہاں کسی ہڈی کے ٹوٹنے کی آواز سنے یاکوئی اُسے مار مار کر اتنا بے حال کردے کہ وہ زمین پر بے خود پڑا اپنے ہی درد میں کراہتا رہے۔ یہ کیفیت کئی دِن جاری رہتی۔ اُن دِنوں میں وہ گھر سے نکل جاتااور دیر تک سڑکوں اور پارکوں میں پھرتا رہتا۔ اب وہ رنگوں کا متلاشی نہیں تھا،اُسے کچھ بھی نہیں چاہیے ہوتا تھا۔۔۔۔۔وہ تو بس چلے جانا چاہتا تھا۔ اُسے عورتوں کو دیکھنے میں ایک طرح کا سکون ملتا۔اُسے عورتوں کے رنگ اورپیرہن بے رنگ نظر آتے لیکن اُن میں ایک ایسی دل کشی تھی جو اُس کی کیفیت کو مزید والہانہ پن دیتی۔ وہ ہر چیز سے ٹکراجانے کا خواہاں تھا،اِسی طرح ہر عورت اُسے اپنی طرف اشارہ کرکے بلاتی ہوئی محسوس ہوتی۔ اُس نے اپنی فینٹسی میں ایک ایسا محلول تیار کر لیا تھاجسے پینے سے وہ آدمی کسی کو نظر نہیں آتااور وہ خود ہر کسی کو بے لباس دیکھ سکتا تھا۔اُسے ایک پرانی کہاوت یاد تھی جس میں بادشاہ ننگا تھاجب کہ اُسے بتایا گیاتھاکہ اُس کا لباس کسی کو نظر نہیں آئے گااور پھر ایک بچے نے یہ کہہ کہ بادشاہ ننگا ہے پورا کھیل بگاڑ دیا۔ سخی محمدچاہتا تھاکہ وہ خود تو کسی کونظر نا آئے لیکن وہ ہر عورت کو بے لباس دیکھے۔ وہ سوچتاکہ جب وہ عورتوں کو بے لباس دیکھ رہاہو اُس وقت پورے شہر یااُس علاقے کے سب بچے سکولوں میں ہوں تاکہ کوئی اُسے عورتوں کو تاڑنے والانا کہہ سکے۔ عورتوں کو دیکھنے سے جہاں اُس کادیوانہ پن ِ ایک ناقابل ِ بیاں شدت اختیار کر جاتاوہاں اُسے گہرے سکون کا احساس بھی ہوتا۔اُسے ہر وہ عورت اپنی طرف متوجہ کرتی جس کی چال میں ایک مستانہ قسم کی لچک ہوتی ،جس کے چہرے سے بے چینی چھلک رہی ہوتی ،جس کے جسم میں ابھی عمر رسیدگی کا خمیر نا ہوتاقطع نظر کہ وہ اُس کی طرف مائل تھی کہ نہیں!سخی محمد کا اپنے دیہات کے رہنے والے چند ہم جماعتوں کے ساتھ ابھی تک رابطہ تھا۔ پہلے وہ رنگوں کی تلاش میں اُنھیں ملنے جایا کرتا تھااور اب وہ اُن کے پاس عورتوں کو دیکھنے جاتا۔ اُسے اُن دیہات میں رنگ شہر کے رنگوں سے قدرے صاف، گہرے اور واضح نظر آیا کرتے تھے اور اب وہیں جو عورتیں اُسے نظر آتیں وہ شہر کی عورتوں سے مختلف تھیں۔ اُسے اُن کے رنگوں میں گندمی مائل سفیدی یا گہری ہونے سے پہلے والی شام کا سانولا پن نظرتو نہیں آیا کرتا تھالیکن وہ ایسا فرض ضرور کرتا اور وہاں کی عورتوں کے جسم لباس میں ڈھکے ہونے کے باوجود بغیر لباس کے دیکھنے کی اہلیت حاصل کر چکا تھا۔اُسے اُن کے بدنوں میں کسرت کا گدراپن نظر آتااور وہ اُن کی چال میں ایسی لاتعلقی محسوس کرتاکہ اُس کا جی چاہتاکہ وہ چلتے ہی چلی جائیں اور وہ اُن کے پیچھے چلتے ہوئے اُن کی ٹانگوں کے پٹھوں کی سختی کو محسوس کرتا جائے۔
سخی محمدکی یہ کیفیت چند دِن رہتی۔ جیسے یہ کیفیت شدت اختیار کرنے لگتی وہ اپنی تعلیم سے بھی بے گانہ ہو جاتا۔اُسے محسوس ہوتاکہ اُس کے حواس قابو میں نہیں رہے اور پھر ایک رات وہ ایسے طوفان کی زد پر آجاتاجو اُسے لذت کی اُن بلندیوں تک لے جاتاجہاں سے واپس آنے سے وہ خوف زدہ ہوتا۔جہاں یہ ایک تسکین بخش احساس تھاوہاں وہ اُس کیفیت میں داخل ہونے سے خائف تھاجو اُسے اِس مقام تک پہنچا دیتی اور ساتھ ہی وہ اُس میں داخل ہونا بھی چاہتا تھا۔سخی محمد اب یہ طے کرچکا تھاکہ رنگ تو دماغ کی کسی نس میں بگاڑ کی وجہ سے چھن چکے تھے وہ اپنے اِس شوق کو کسی طرح بھی کھونا نہیں چاہتا تھااور اُس نے تہیہ کرلیاکہ وہ محنت کرکے کسی اچھی ملازمت تک رسائی حاصل کرے گااور عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلق میں اپنی اِس بھوک،کمی اورجنون کو ڈبو دے گا۔ اُسے اکثر خیال آتاکہ کیا ایک عورت اُس کی اتنی شدید خواہشات کی تکمیل کے لیے کافی ہوگی َ؟ وہ ہر بار اِسی نتیجے پر پہنچتاکہ تعداد کے بجائے اُسے تکمیل کے بارے میں سوچنا چاہیے؛ اُسے عورتیں یا بیویاں تبدیل کرنے میں کوئی جھجک یا پرہیز نہیں ہونا چاہیے۔
سخی محمد کو ایک قابلِ رشک سرکاری ملازمت مل گئی۔وہ ضلع کے چند اہم افسروں میں سے ایک تھااور اُس نے اپنے والدین پر شادی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔ جس رات وہ بیوی لے کے گھر آیاوہ اُس کے جنون کی آخری حد والے چند دن تھے۔ خواب گاہ میں جانے سے پیشتر والی چند فضول لیکن ثقافتی طور پر اہم رسوم اُس کے لیے ناقابل ِ بردشت ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ اپنے نزدیک بیٹھی خوش شکل جوان عورت کے بدن کی خواہش میں اپنے حواس پر قابو رکھنے کی کوشش میں تھاکہ قہقہوں،مسکراہٹوں، معنی خیز چست فقروں ،چٹکیوں،دھکوں اور ہمدردی کے مصنوعی اظہار کے ساتھ اُسے اور اُس کی بیوی کو خواب گاہ تک پہنچا دیا گیا۔اب وہ کئی سالوں کی محرومی کو ختم کر کے اپنی تکمیل کرنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھاتھاکہ اب اُن دونوں کے درمیان میں کوئی بھی ناقابل ِعبور رکاوٹ تو نہیں تھی لیکن پھر بھی چند رکاوٹیں اُسے پار کرنا تھیں۔ اُس نے جب وہ تمام رکاوٹیں پار کر لیں تو وہ مسہری پر اوندھے منہ ایسے گراکہ اُس کی بیوی کو بھی اُس کے ساتھ ہمدردی نہیں تھی۔ سب کچھ ایک سرعت کا شکار ہو گیا۔ اب رنگ نہیں تھے اور وہ خالی،ادھ مواسا اوندھا لیٹا ہوا سوچ رہا تھاکہ شاید لذت کی بلندیوں تک لے جانے والے طوفان ہی بہتر تھے ؟پھر اُسے خیال آیا کہ ناکامی تو کامیابی کا آغاز ہوتی ہے لیکن ہر بار ایسے ہی ہوتااور اِس ہونے اور ناہونے کے عمل میں تین سال نکل گئے اور اُس کی بیوی علیحدہ ہونے کا سوچنے لگی۔
’’میںتمھاری بے بسی،محرومی،غصہ،پریشانی اورتلخ فیصلے کی وجوہات سے انکار نہیں کرتا۔ مجھے ایک موقع دو اور اگر میں ناکام ہو گیاتو تمھیں روکوں گا نہیں،تمھیں جانے کے لیے کھلا راستہ مہیا کروں گا۔‘‘اُس نے ایک شام کی چائے پر بیوی سے کہااوراُس نے اپنے تحفظات کا اظہار کیے بغیر خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔سخی محمد نے اب ماہرین ِ نفسیات اور جنسیات سے رابطہ کیا جنھوں نے اُسے مشورے اور ادویات دیں،وہ ننگ دھڑنگ بابوں کے پاس گیاجنھوں نے گالیوں میں لپٹی دعایں دیں، وہ بزرگوں کے پاس گیاجنھوں نے پھونکے مار مار کے پانی دیااور سنیاسیوں کے پا س گیاجنھوں نے جڑی بوٹیوں سے کشید کی گئی ایسی ادویات دیں جو گیدڑ کو بھی شیر بنا سکتی تھیں لیکن اُس کی سرعت کا کسی کے پاس حل نہیں تھا۔اب وہ مایوس نہیں ہوا۔اُس نے سوچاکہ شاید ایسے ہی ہوتا ہے۔ اُسے رنگ پسند تھے اور اب وہ ہر طرف ایک سفید چادر دیکھتا تھا،اُسے عورت کے جسم کی چڑھائیاں اور اُترائیاں پسند تھیں جن پر وہ کوہ پیمائی کی ہر کوشش کے آغاز میں ہی پھسل جاتا تھا۔ اُس نے بغیر کسی پچھتاوے یا احساس ِشکست کے اپنی بیوی کو آزاد کر دیا۔
سخی محمد اپنی نوکری کی سیڑھی پر ایک پائدان اوپر چڑھ چکا تھااور اُسے آخری سرا اتنا دور نظر نہیں آرہا تھالیکن اب اُس کے اندر وہاں تک پہنچنے کی اُمنگ نہیں رہی تھی۔وہ جہاں تھااب وہاں بھی نہیں رہنا چاہتا تھا۔وہ اکثر سوچتاکہ کیا وہ ایسے رتبے یا مقام کا ایل تھا؟ جس شخص کی شب وروز میں سکون اور طمانیت نا ہوں اُسے ترقی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اُس نے ایک طویل سوچ بچار کے بعد فیصلہ کر لیاکہ وہ موجودہ نوکری چھوڑ کر محکمہ تعلیم میں اپنا تبادلہ کرواکے کسی دور اُفتادہ گاؤں کے پرائمری سکول میں ماسٹر لگ جائے گا۔اُسے ایسا کرنے سے بہت سے لوگوں نے روکاجس میں اُس کے والدین،بہن بھائی،افسران ِ بالا،ماتحتین، دوست اور اُس کی سابقہ بیوی تک شامل تھے۔ وہ اپنے فیصلے پر قائم رہااور ہر دفتر سے اُس کی درخواست پر چند خدشات کے بعد منظوری ملتی رہی اور وہ جہاں جانا چاہتا تھا،ایک دِن پہنچ گیا۔ اُسے اُس سکول میں خوش آمدید نہیں کیا گیا۔ جس اُستاد کی جگہ اُس کی تعیناتی ہوئی وہ مقامی تھااور اکثریت کا رویہ جارہانہ تھااور سخی محمد کو ایسے حالات کی توقع تھی۔ اُس نے جارہانہ اور منفی رویوں کو محسوس کیے بغیر اپنے کام کا آغاز کر دیا۔ اُس نے چند دنوں میں ہی کسی کی بیٹھک کرائے پر لے کے وہاں سکونت اختیار کر لی۔ وہ جلد ہی اپنی نئی زندگی کے کھانچے میں چکر کھاتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔لوگوں میں اُس کا اعتماد بحال ہوگیااور وہ بھی اب بغیر کسی جھجک کے گاؤں کا حصہ بن گیا۔ بعض لوگوں نے اُسے گاؤں کے سربراہ کا رتبہ بھی دینا شروع کردیا۔وہ صبح اور شام چلتے ہوئے دور تک نکل جاتااور اب اُسے نا تو ارد گرد پھیلی سفید چادر نظر آتی اور نا ہی وہ عورتیں جو اُس کے پاس سے کبھی لاتعلقی اور کبھی ایک اُمید کے ساتھ گزر جاتیں۔وہ اپنی ذات کے سمیت ہر قسم کی دل چسپی سے علیحدہ ہو چکا تھا۔اُس نے سوچاکہ چوں کہ اب اُس نے اپنے آخیر تک یہیں رہنا ہے تو کیوں نا اپنا مکان بنا لیا جائے؟گاؤں سے کچھ فاصلے پر اُس نے زمین کا ایک چھوٹا سا قطعہ خرید کے اُس پر دوکمروں کا گھر بنا لیا۔ یہ گھر گاؤں سے اتنے فاصلے پر تھاکہ گاؤں چاہے جتنا بھی پھیل جاتااُس نے گاؤں سے باہر ہی ہونا تھا۔ ایک چار دیواری کے اندر دوکمرے ،ایک باورچی خانہ اور ایک غسل خانہ تھے۔ دونوں کمرے اُس کی بیٹھک اور خواب گاہ تھے،وہ جہاں چاہتا سو جاتا۔ چھت پر اُس نے ایک بے ڈھنگالیکن اونچا چوبارہ تعمیر کیا جو چوبارہ بھی تھااور ایک مینار نما ڈھانچا بھی جہاں سے وہ دور تک دیکھ سکتا۔ جس دِن وہ باہر گھومنے نا جاتا وہاں بیٹھ کے دور تک دیکھتا رہتا۔ چوبارے سے اُسے تا حدِنظر پھیلی ہوئی سفید چادر نظر آتی اور وہ اُس میں سے مختلف رنگ نکالتا رہتا۔اُس کے ذہن میں اب رنگ جاگنا شروع ہو گئے تھے۔ وہ سوچتاکہ شاید یہ گاؤں میں گزارے پچیس سالوں کی تنہائی کا اثر تھاکہ اُسے رنگ یاد آنے لگے جب کہ وہ باقی سب بھول چکا تھا۔جب سے وہ اپنے گھر میں آیا تھاایک عورت اُس کے کام کرتی تھی۔ وہ عورت بھی سخی محمد کی ہمت اور حوصلے سے متاثر تھی اور اُسے یہ بتانا بھی چاہتی تھی لیکن اُن دونوں میں کبھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔ بس ایک خاموشی ہی دونوں کے درمیان میںزبان تھی۔سخی محمد چوبارے سے دور تک سفید چادر میں دیکھتے ہوئے کبھی کبھار چکرا جاتا۔ اُسے محسوس ہوتاکہ اُس کی آنکھیں چادر پر سے پھسل پھسل جا رہی ہیں۔جب بھی چکر آتا،وہ دیر تک آنکھیں بند کرکے ساکت بیٹھا رہتا۔ اِن چکروں میں اُسے متلی کا بھی احساس ہوتااور جب وہ آنکھیں کھول کر دور تک پھیلے ہوئے اُفق کی طرف چکر کے انتظار میں دیکھتاتو اُسے چکر نہیں آتا تھا۔ چکر نا آنا جہاں اُس کے لیے باعث اطمینان تھاوہاں اُسے پریشانی بھی ہوتی۔وہ سوچتاکہ چکر آنے کے بعد اُسے چکر کیوں نہیں آتے اور جب آجاتے ہیں تو پھر دوبارہ کیوں نہیں آتے۔ وہ کسی ڈاکٹر سے ملے،کسی ماہر ِنفسیات سے مشورہ کرے لیکن پھراُسے خیال آتاکہ وہ سب اُس کی سرعت کی نا تو وجہ جان سکے اور نا ہی مداوا۔اُس نے اپنی محرومی اور بے بسی کو اپنے طور ہی جھیلنے کا فیصلہ کیا جیسا کہ وہ پہلے کرتا آیا تھا۔
سخی محمد سوچتاکہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ کیا کرے گا ؟ یہ تو طے تھاکہ اُس نے اپنی زندگی اِسی گاؤں اور گھر میں گزارنا تھی۔اُس نے سوچاکہ وہ ملازمت میں توسیع کے لیے کوشش کرے گاجس کی اُسے اُمید بھی تھی کیوں کہ اُس کے تعلق دار ابھی تک ملازمت میں تھے اور کوئی نا کوئی اُس پر یہ مہربانی کر ہی دے گا۔اگر ایسے نا ہوسکا تو وہ اپنی پینشن پر ہی زندگی گزارے گا اور گاؤں والوں سے درخواست کرکے بغیر تنخواہ کے سکول میں تعلیم دینے کا عمل جاری رکھے گا۔
سخی محمد شاموں کو جب چوبارے پر بیٹھتاتو اپنے ارد گرد دیکھتے ہوئے اُسے ایک عجیب قسم کا احساس ہوتا۔ اُس کے سامنے پھیلی ہوئی سفید چادر سفید ہونے کے باوجود اب سفید نہیں تھی ۔ وہ اُسے اب کسی حد تک میلی نظر آتی اور وہ سوچتاکہ گاؤں میں بھی ماحولیاتی آلودگی نے اُس سفید رنگ کو جس کے علاوہ کوئی رنگ دیکھ ہی نہیں سکتاتھااب اتنا میلا کر دیا تھاکہ وہ اُس میلے پن کو دیکھ سکتا تھا۔اُسے خوشی بھی ہوتی اور وہ ایک گہری پریشانی میں ڈوب جاتا۔ وہ سوچتا: پہلے اُس سے رنگ چھیننے کے بعد ایک سفید چادر حوالے کر دی گئی اور اب وہی چادر کو اتنی میلی کردی گئی کہ وہ رنگ کور ہونے کے باوجود اُس میل کو دیکھ سکتا تھا۔کبھی اُسے یہ تبدیلی ایک خوش گواری میں مبتلا کر جاتی کہ وہ سفید رنگ کے علاوہ کوئی اور رنگ بھی دیکھ سکتا تھا۔ وہ جب بھی اِس میلی یا کبھی کبھار سفید چادر کو دیکھتاتو اُسے اپنی آنکھوں پر ایک بوجھ محسوس ہوتااور اِس بوجھ کو دور کرنے کے لیے وہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتااور آنکھیں کھولنے پر اُسے چادرکبھی زیادہ سفید یا زیادہ میلی نظر آتی اور وہ پھر اپنی آنکھیں بند کر لیتا۔ یہ عمل اُس وقت تک جاری رہتاجب تک اندھیرا ہر چیز کو ڈھانپ لیتااوروہ اپنے سامنے کچھ بھی نا دیکھ رہا ہوتا۔
سخی محمد کو کام کرنے والی عورت رات کا کھانا دے کر اپنے گھر چلی جاتی تھی۔ ایک رات وہ کھانا لے کے آئی تو سخی محمد نے اُسے غور سے دیکھا اور وہ اُسے کشش سے خالی نظر نا آئی۔ اُسے ایک انوکھااحساس ہوا۔ اُسے اپنے مثانے میں ایک کیچوے کی سی سست حرکت محسوس ہوئی۔ اُس نے جلدی سے عورت کی طرف دیکھاکہ وہ اُس کی کیفیت کہیں بھانپ تو نہیں رہی ؟ اُسے تسلی ہوئی کہ وہ رکابی،پونا،گلا س اور جگ رکھنے میں اتنی محو تھی کہ سخی محمد پر اُس کی نظر نہیں پڑی۔
’’کیا یہاں دھول کی مقدار میں اضافہ ہو گیا ہے کہ سب کچھ میلا نظر آتا ہے ؟‘‘ سخی محمد کو اپنی آواز پھٹ کر گلے میں سے نکلتے ہوئے محسوس ہوئی۔بچوں کو پڑھاتے ہوئے وہ اونچی آواز میں بولنے کا عادی ہو گیا تھالیکن اُس وقت اُسے اپنی آواز خود کو بمشکل سنائی دی۔ اُس عورت نے چونک کے اُس کی طرف دیکھاجیسے سخی محمد نے اُس کے کانوں کے پردے پھاڑ دیے ہوں۔
’’نہیں ماشر جی! ایسا تو کچھ نہیں ۔ دودِن پہلے تو ابھی بارش نے سب کچھ صاف کر دیا تھا۔‘‘ اُسے عورت کا جواب سُن کے اپنے مشاہدے اور سوچ پر غصہ تو آیا ہی لیکن عورت کی آواز کی مٹھاس نے اُس کیچوے کی رفتار کو تھوڑاسا ہلکورا دیا۔سخی محمد کو لگا کہ اُس کی آواز میں مٹھاس کے بجائے ایک دعویٰ تھاکہ وہ ایک عرصے سے وہاں تھی اور اُس کی آواز میں ہمیشہ سے ہی ایسی مٹھاس تھی۔اپنی سوچ کا ڑُخ موڑنے کے لیے اُس نے جلدی سے سالن کی طرف دیکھاتو اُسے پھولوں والی رکابی میں سالن کی سرخی نظر آئی اور چپاتیوں کی طرف دیکھاتو وہ عنابی رنگ کے پونے میں لپیٹی ہوئی تھیں۔سخی محمد چکرا گیا اور وہاں بیٹھے رہنے کے بجائے خوف زدہ اُٹھ کھڑا ہوا۔وہ کھڑے کھڑے لڑکھڑا تے ہوئے اپنے آپ کو سنبھال رہاتھاکہ عورت نے ’’ماشر جی‘‘ کی چیخ لگاکر اُسے پکڑ لیا۔ سخی محمد کو عورت کی زرد قمیص میں سرخ پھول نظر آئے ۔ اُس نے اپنے دیکھے کو صحیح یاغلط ثابت کرنے کے لیے آسمان کی طرف دیکھاتو وہاں ستاروں کی کہکشاؤں میں سے وہ رنگ بہہ رہے تھے جنھیں وہ کبھی دیکھا کرتا تھا۔ اب وہ اپنے آپ کو سنبھال چکا تھااور عورت بھی اُسے اپنی بانہوں میں لے کے سنبھالے ہوئے تھی!
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں