ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
شعبہ اردو، ملت کالج – دربھنگہ (بہار)
اردو افسانے کی تاریخ میں پریم چند کا فنی ارتقا اپنے وقت کے ہندوستان کے فکری ارتقا کی فنکارانہ تصویر ہے۔ کیونکہ ان کے عہد کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں جسے انہوں نے افسانوں میں پیش نہیں کیا۔ موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے عام طور سے کسانوں، مزدوروں کے مسائل، درجہ فہرست ذات کی دگر گوں حالت، بے جوڑ شادی، بیوہ کا مسئلہ، تحریک آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کو اپنے افسانوں کا موضوع بطور خاص بنایا ہے۔
جہاں تک ان کے افسانے میں سیکولر نظریہ حیات کا سوال ہےتو ان کے افسانوں سے جھلکنے والی انسان دوستی، سماجی اصلاح، معاشی مساوات اور مذاہب سے بلند تر وسیع المشربی سے ان کے سیکولر زاویہ نگاہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ دراصل پریم چند ایک ادیب کی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف تھے۔ کیونکہ وہ صرف فنکار ہی نہیں تھے، ایک عظیم انسان بھی تھے اور انسانی درد مندی کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ خود انہوں نے کہا ہے کہ "ادب میں ہم ہندو نہیں ہیں، مسلمان نہیں ہیں، سکھ نہیں ہیں، عیسائی نہیں ہیں بلکہ انسان ہیں اور وہ انسانیت ہمیں اور آپ کو قریب کرتی ہے۔ یہی انسانی درد مندی اور مذہبی رواداری کا جذبہ انہیں ایک عظیم فنکار بناتا ہے۔
پریم چند کے افسانوں میں کچھ افسانے تو ایسے ہیں جن میں انہوں نے مذکورہ خیال کو بطور خاص مختلف کرداروں کے توسط سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً عفو، عید گاہ ،پنچایت، دیر و حرم، دینداری۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے افسانے میں بھی ان کا سیکولر نظریہ پورے آب و تاب کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے۔افسانہ ‘عفو’ میں پریم چند نے دو متعصب کرداروں دادو اور جمال کے متضاد مذہبی خیالات کو پیش کرتے ہوئے ایک ضعیف العمر کردار شیخ حسن کو نہایت سیکولر انداز میں پیش کیا ہے۔
اس افسانے کا تانا بانا جس عہد سے تعلق رکھتا ہے، یہ وہ زمانہ ہےجبکہ مسلمانوں کا عروج اپنے شباب پر تھا اور اسپین پر مسلمانوں کی حکومت تھی اور وہاں اسلامی تہذیب کا سبز پرچم شان شوکت کے ساتھ لہرا رہا تھا۔ تاہم بعض عیسائی ایسے تھے جو مسلمانوں سےحد درجہ نفرت کرتے تھے۔ داود نام کا ایک نوجوان ایسے ہی عیسائیوں میں شمار تھا۔ ایک دن اسلامی دارالسلطنت غرناطہ میں داود کی ملاقات جمال سے ہوئی اور دونوں کے مابین ایک دوسرے کے مذہب کے متعلق نہایت تلخ و تند گفتگو ہوئی۔ حتیٰ کہ دونوں ایک دوسرے کی جان لینے پر آمادہ پیکار ہو گئے۔ اتفاق کچھ ایسا ہوا کہ جمال داود کے تلوار کی زد میں آ کر اپنی جان گنوا بیٹھا۔ جمال کی موت سے وہاں پر موجود مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ داود کی جان لینے کے درپے ہو گئے۔ داؤد وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور ایک ضعیف مسلمان کے گھر میں پناہ لی۔ یہ ضعیف کوئی اور نہیں بلکہ مقتول جمال کا باپ شیخ حسن تھا۔ شیخ حسن کو جب یہ پتہ چلا کہ کہ داؤد اس کے اکلوتے بیٹے کو قتل کر کے یہاں پناہ لی ہے تو پہلے آپے سے باہر ہوا لیکن پھر اپنے جذبات پر قابو پا کر بولا – "مگر نہیں تم نے میری پناہ لی ہے۔ فرض میرے ہاتھوں کو باندھے ہوئے ہے۔ ضبط مشکل ہے مگر ضبط کروں گا۔” شیخ حسن کی اس گفتگو اور اس کے سلوک سے داؤد اس قدر متاثر ہوا کہ وہ خود اس بات کی التجا کرتا ہے کہ شیخ حسن اسے قتل کر کے اپنے جوان بیٹے کے خون کا بدلہ چکا لے۔ لیکن داؤد کی اس التجا کو شیخ حسن یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیتا ہے کہ” داؤد میں نے تمھیں معاف کیا…… میں اسلام کو بٹہ نہ لگاؤں گا۔میری اونٹنی لے لو اور راتوں رات جہاں تک بھاگ سکو بھاگو۔ جاؤ تمھیں خدا پاک گھر پہنچا دے۔‘‘
داؤد اسی رات وہاں سے نکل پڑا اور گھر بھی بخیر و عافیت پہنچ گیا۔ لیکن اب داؤد وہ متعصب عیسائی نہ تھا جو مسلمانوں پر ذرا بھی یقین نہیں کرتا تھا۔ شیخ حسن نے اسلام کے اصل تعلیم کا جو عملی نمونہ پیش کیا تھا اس سے اس سے داؤد کی دنیا بدل گئی تھی اور وہ مسلمانوں کی قدر کرنے لگا۔ اب وہی داؤد اسلام کا نام عزت سے لینے لگا۔
اس افسانے میں پریم چند نے مذہب کے جس آدرش اور اصول کو پیش کیا ہے اس سے بلاشبہ جہاں ایک طرف خود پریم چند کےسیکولر ذہن کا اندازہ ہوتا ہے وہیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ مذہب کا اصول، اس کے ضابطے انسانوں کو انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ تعصب، کینہ پروری اور عداوت کسی مذہب نے نہیں سکھایا ہے۔ لہٰذا پریم چند نے اسلام کے اس آدرش کو اس افسانے میں پیش کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ اسلام سے سچی عقیدت رکھنے والے اور اس کے اصول و و قوانین کے سچے پیرو دوسرے مذہب کی حق تلفی نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ پریم چند نے اس افسانے میں دکھایا بھی ہے کہ شیخ حسن کے حسن سلوک نے داؤد کو کس قدر متاثر کیا۔ دراصل پریم چند نے اس افسانے کے توسط سے یہ درس دینے کی کوشش کی ہے کہ ایک سچا مذہبی انسان کسی سے بغض اور عداوت نہیں رکھتا۔ بلکہ ہر مذہب کا کھلے دل سے احترام کرتا ہے۔
پریم چند نے اپنے دوسرے افسانے مثلاً پنچایت، دیر و حرم اور دینداری میں مذہبی رواداری اور باہمی اتحاد و اتفاق جیسے سیکولر نظریے کومزید واضح طور پر پیش کیا ہے۔ ان افسانوں کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پریم چند کے نزدیک مذہب کی کسوٹی صرف اور صرف انسانی زندگی کی وہ اعلیٰ قدریں تھیں جو انسان کے دلوں میں محبت پیدا کرتی ہیں۔ انہوں نے ان افسانوں میں جگہ جگہ اس کا اظہار بھی کیا کہ جس مذہب میں انسانیت کو افضلیت دی گئی ہے وہی مذہب سچا مذہب ہے۔ محض عقیدے کی بنا پر انسانی سماج کو فکر و عمل کی سطح پر دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ اگر کوئی مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسانیت، ہمدردی اور بھائی چارہ سب کچھ اپنے ہی مذہب والوں کے لئے ہے اور اس دائرے کے باہر جتنے لوگ ہیں سبھی غیر ہیں اور انہیں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے تو اس مذہب سے الگ ہو کر بے دین کہلانا زیادہ بہتر ہے۔ کہنا چاہیے کہ پریم چند نے اپنے افسانوں میں مذہب کے انہیں پہلوؤں پر زیادہ زور دیا جو انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب کرتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ایک نہایت سیکولر رویے کے تحت کہیں ہندوؤں، کہیں مسلمانوں اور کہیں عیسائیوں کی مذہبی رواداری اور اخوت و بھائی چارگی کی تعلیمات کو پیش کرنے کا متوازن رحجان پایا جاتا ہے۔
افسانہ ‘پنچایت ‘کے الگو چودھری اور جمن شیخ کی گہری دوستی مذہبی رواداری کے اصول اور ضابطے کی بنیادوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ مذہب ان کے آڑے نہیں آتا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کے پاس حق اور انصاف کو پہچاننے والی نظریں بھی ہیں۔ اور جہاں یہ صفات موجود ہوں وہاں تعصب اور نفرت کا گزر ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے جمن شیخ کی خالہ نے پنچایت بٹھایا اور الگو چودھری سرپنچ مقرر ہوئے تو انہوں نے حق اور انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور دوستی کی پرواہ کئے بغیر سچائی اور حقیقت کی بنا پر خالہ کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔ ہر چند کہ اس فیصلے سے دونوں دوستوں میں نا اتفاقی تو ضرور پیدا ہو گئی لیکن الگو چودھری کے ایک مقدمہ میں جمن شیخ سرپنچ مقرر ہوئے تب انہیں یہ احساس ہوا کہ پنچایت کی مسند پر بیٹھنے کے بعد کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا اور نہ دشمن ہوتا ہے۔ لہٰذا جمن شیخ گزشتہ واقعات کی قطعی پرواہ نہ کرتے ہوئے انصاف سے کام لیا اور فیصلہ الگو چودھری کے حق میں سنایا۔ اور اس طرح حق اور انصاف اور ذمہ داریوں کے احساس نے دونوں دوستوں کی دلی رنجش کو دور کر دیا۔
دو مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والے دو کرداروں کی آپسی دوستی اور اس کے نشیب و فراز کے بیان سے قطع نظر ہندوستان کی تحریک آزادی کے سیاق و سباق میں اس افسانے کا جائزہ لیا جائے تو اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ واضح ہو کہ جس عہد (1916) میں یہ افسانہ لکھا گیا تھا اس عہد میں ہندوستان کی تحریک آزادی کا سب سے بڑا سنگین مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ مذہبی تعصب اور منافرت کا وہ زہر تھا جو انگریزوں کی ‘پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو’ کی پالیسی کے تحت پورے ملک میں پھیل چکا تھا۔ 1906 میں مسلم لیگ کا قیام اور برطانوی حکومت کی طرف سے اسے خاص مراعات دینے کا اعلان اس کا بین ثبوت ہے۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اس حقیقت کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط اور مستحکم کئے بغیر آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ مذہبی گروہ بندی کی بنا پر پیدا ہونے والی آپسی نا اتفاقی اور ناچاکی کو کسی صورت سے دور کیا جائے۔ بالآخر 1916 میں مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان اتحاد و اشتراک کی فضا قائم ہو سکی۔ اس سیاسی پس منظر میں اگر ہم ‘پنچایت "پر غور کریں تو یہ اعتراف کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ اگر ایک طرف سیاسی رہنما ہندو مسلم اتحاد نیز سیکولر رویے کو مضبوط بنانے میں پیش پیش تھے وہیں ادبی سطح پر پریم چند اپنی کہانیوں کے ذریعے سیاسی راہنماؤں کے لئے راستے ہموار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
دراصل پریم چند یہ سمجھ رہے تھے کہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور اس کی شاندار روایت کو باد مخالف سے بچانا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہندو اور مسلمان اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پریم چند کے فکر و احساس میں سیکولرازم کا تصور کس قدر رچا بسا تھا۔ حق بات تو یہ ہے کہ وہ پورے ہندوستانی معاشرے کو سیکولر قدروں کی بنیاد پر ایک ایسا رخ عطا کرنا چاہتے تھے جس میں حب الوطنی ہو، مساوات ہو اور اتحاد و اتفاق ہو۔
1925 میں پریم چند نے ایک افسانہ ‘دیر و حرم’ لکھا۔ یہ وہ دور تھا جبکہ ملک کی پوری فضا فرقہ واریت سے بری طرح مکدر تھی۔ انہوں نے’ دیر و حرم’ میں چودھری عشرت علی جیسے سیکولر کردار کو پیش کر امید کی شمع روشن کرنے کی کوشش کی۔ اس افسانے میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ جو واقعی سچا مذہبی ہوتا ہے اس کے نزدیک کسی دوسرے مذہب کی توہین کرنا خود اپنے مذہبی اصولوں سے انحراف کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ چودھری عشرت علی ایک ایسے ہی سچے مذہبی انسان تھے جو مذہب اسلام کے علاوہ ہندو مذہب کو قابل احترام سمجھتے تھے۔ وہ جہاں صوم وصلواۃ کے پابند تھےوہیں ہندو رسم و روایات سے بھی ان کو گہری عقیدت تھی۔ وہ مندر اور مسجد دونوں کو ایک ہی تصور کرتے تھے۔ مذہبی جنون میں آ کر کوئی مندر یا مسجد کی بےحرمتی کرے یہ بات ان کے مذہبی اصولوں کے خلاف تھی۔ لہٰذا ایک بار جب مسلمانوں نے ایک مندر میں گھس کر توڑ پھوڑ کیا تو چودھری صاحب نے اپنے چپراسی بھجن سنگھ کو مدافعت کے لئے بھیجا۔ اتفاق سے اس مندر میں چودھری صاحب کا داماد شاہد، بھجن سنگھ کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ چودھری صاحب کو اپنے داماد کی موت کا صدمہ تو ضرور ہوا لیکن بھجن سنگھ کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اسکے مقدمہ کی پیروی کی اور پھانسی کے تختے سے بھی اتار لیا۔ بقول عشرت علی ’’کسی کے دین کی توہین کرنے سے بڑا اور کوئی گناہ نہیں۔‘‘
افسانہ ‘دینداری’ میں پریم چند نے نام نہاد ہندو اور مسلم مذہب پرستوں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ اور یہ دکھایا ہے کہ کس طرح فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے مذہب کو غلط معنوں میں استعمال کر کے سماج میں نفرت اور عداوت کا زہر گھولتے ہیں۔ حتیٰ کہ جامد جیسا سیکولر نوجوان بھی ان کی ریاکاری کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔
جامد ایک ایسا نوجوان ہے جو مندر کے چبوترے کی گندگی کو بھی صاف کرتا ہے اور مسجد میں بھی جھاڑو دیتا ہے۔ وہ قرآن اور پران دونوں پڑھتا ہے۔ لیکن اس کے اس سیکولر عقیدت کو نہ ہندو ٹھیک ڈھنگ سے سمجھ پاتے ہیں اور نہ مسلمان۔ لہٰذا وہ دونوں ہی مذہب کے رہنماؤں کی ریاکاری کا شکار ہو کر مسلمان سےہندواور ہندو سے مسلمان بنتا رہتا ہے۔ بالآخر اس گھناونی سازش اور مذہبی ریاکاری سے تنگ اور دل برداشتہ ہو کر اپنے گاؤں واپس چلا جاتا ہے۔ جہاں شہروں جیسی ریاکاری اور مذہبی تنگ نظری نہ تھی بلکہ مذہب کا دوسرا نام ہمدردی، محبت اور بھائی چارگی تھا۔ افسانے میں جامد کا کردار صلح کل کی علامت ہےجس کے نزدیک رامائن، پران اور قرآن سب ایک ہیں۔ شدھی اور تبلیغ کیا ہے؟ جامد کو نہیں معلوم۔ چنانچہ پریم چند نے جامد کو ہندو مسلم بھید بھاؤ سے دور ایک ایسے انسان کی شکل میں پیش کیا ہے جو دراصل مذہب کو وہیں تک اچھا سمجھتا ہے، جہاں تک وہ امن، محبت اور آپسی بھائی چارگی قائم کرے۔ اگر کوئی مذہب ایسا نہیں کرتا تو وہ بے کار ہے۔
مذکورہ افسانوں کے جائزے سے اس امر کی توضیح ہوتی ہے کہ پریم چند سیکولر قدروں کے کس قدر مبلغ تھے۔ ان کے یہاں نہ تو مذہب کی نفی ہے اور نہ کسی مذہب کی تحقیر۔ وہ ہر ایک مذہب کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ انہیں جہاں کہیں بھی یہ احساس ہوا کہ مذہب کا غلط استعمال کر کے انسانی قدروں کو کو پائمال کیا جا رہا ہے، وہاں انہوں نے نام نہاد مذہب پرستوں پر ضرور طنز کیا ہے۔ کیونکہ وہ یہ مانتے تھے کہ اگر مذہب انسانیت اور انسانی قدروں کے تحفظ اور بقا کے بجائے تعصب اور منافرت کو ہوا دے اور جس کے سبب خون خرابہ ہو تو وہ سچا مذہب نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے نہایت غیر جانبداری کے ساتھ اپنے افسانوں کے ذریعے قارئین پر یہ حقیقت واضح کیا کہ ہر مذہب باہمی محبت کی دعوت دیتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ انہوں نے اس تعلق سے جہاں کہیں بھی مذہب پر چوٹ کیا وہیں اس کے بالمقابل ایسے کرداروں کو بھی پیش کیا ہے جو انسانی عظمت کا بلند مینارہ ہوتا ہے اور جس کے قول و فعل سے سیکولر قدروں کی شعائیں پھوٹتی ہیں۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کے توسط سے اس حقیقت کو بھی واضح کیا کہ سماجی، مذہبی، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے یہاں کے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور سب کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ ایسا قطعی نہیں ہے کہ محض مذہب کی بنا پر ان کے مسائل ایک دوسرے سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ باور کرایا کہ ان کے اندر جو رنجش پائی جاتی ہے وہ دراصل اسی غلط فہمی کی بنا پر ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کا حل صرف یہ ہوسکتا ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والے باہمی اتفاق و اتحاد کے جذبے کو فروغ دیں۔ گویا پریم چند کے افسانے ایک ایسی فضا تیار کرتے ہیں جس میں ہندو اور مسلمان الگ الگ فرقہ پرست جماعت نہ رہ کر خالص انسانیت کی شکل میں اجاگر ہوتے ہیں۔ جہاں دوستی ہے، محبت ہے، اتفاق ہے، اتحاد ہےرواداری ہے۔ بقول پروفیسر قمر رئیس –
’’پریم چند نے صرف یہی نہیں کیا کہ ایک واضح سیکولر اور ترقی پسند نقطہ نگاہ سے ہندوستانی سماج کے ہر طبقہ، ہر پیشہ اور ہر عقیدہ کے انسانوں کی زندگی کے جاندار مرقع پیش کئے بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعہ انہوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ ہندو مسلمان ذہنی اور جذباتی طور پر ایک دوسرے کے زیادہ قریب آئیں۔ ایک دوسرے کے عقائد اور مذہبی روایات کو سمجھیں۔‘‘
(اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب – مرتبہ کامل قریشی، اردو اکادمی دہلی – 1987،صفحہ 197،98)
الغرض پریم چند نے ارادی طور پر یہ کوشش کی کہ کہانیوں کے ذریعہ ایک ایسا ماحول تیار کیا جائے جس کے تحت ہندو اور مسلمان اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر اعلیٰ انسانی اوصاف کو زندگی کا ایک حصہ تسلیم کر سکیں۔ نسلی، علاقائی اور مذہبی حدبندیوں کو توڑ کر ایک سیکولر فضا قائم کر سکیں۔ بلاشبہ پریم چند مذہب اور تہذیب کا جو عرفان رکھتے تھے اور اس کے تحفظ کے لئے اپنے افسانوں میں جو درس دیا وہ آج بھی قابل عمل ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں