۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر غضنفر
’’جو دلت نہیں، وہ دلت ادب کی تخلیق نہیں کرسکتاکیوں کہ دلت خود جس استحصال کا شکار ہوتا ہے، اس استحصال سے پیدا ہونے والے کرب کا بیان دلت ہی پوری شدّت کے ساتھ کرسکتا ہے۔ غیر دلت تخلیق کا ر تو ہمدردی میں اپنی تخلیق پیش کرتا ہے۔ وہ اس شدّت ِ کرب کو کیا جانے جسے دلت نے صدیوں تک محسوس کیا ہے۔‘‘
’دلت ساہتیہ کا سوندر یہ شاستر‘ میں دیا گیا اوم پر کاش بالمیک کا یہ بیان شاید اس لیے شِدّت اختیار کر گیا ہے کہ حاشیہ مرکز کی متواتر مار سے مدّ توں تک سیاہ ہوتا رہا ہے ۔ حاشیے کی سیاہی اور گاڑھی ہوتی جائے اس کے لیے ایسی ایسی سازشیں رچی گئیں اور ایسی ایسی تدبیریں کی گئیں کہ حاشیے پر بسنے والوں کا احساس تک مرگیا ۔ اُن سے ان کے حواس چھن گئے۔ نتھنوں تک خوشبو نہ پہنچے اور دل و دماغ تر وتازہ نہ ہوں اس کے لیے ان کی سماعت میں ایک کہانی ڈال دی گئی کہ پھول سونگھنے سے بھوت پکڑ لیتا ہے۔ عقل کا پوداہرا بھرا نہ ہواور ان میں شعورو ادراک کی کونپلیں نہ پھوٹیں،اس کے لیے ایسا کچھ کردیا گیا کہ وہ اپنے مہین اور ذائقے دار اناجوں کو موٹے جھوٹے اناجوں سے بدلنے لگے، دویہ بانی سن کردانش پاس نہ آجائے ، اس کے لیے کچھ کانوں میں سیسہ ڈال کر باقی سماعتوں کو دہشت زدہ کردیا گیا تاکہ کوئی دویہ بانی کے بول تک جانے کی ہمت نہ کرسکے۔ معاشی حالت کمزور ہو جائے اس کے لیے دھرم کرم اور سنکٹوں سے ندان کے نام پر ا ن سے دچھنا لینے اور ان کی کھاد سامگری کو ہون کنڈ کی آگ میںجلوانے کی پرتھائیں ایجاد کی گئیں اور ان پر تھائوں پر عمل کرنے کے لیے ایسی حکمت عملی اپنائی گئی کہ حاشیے پر بسنے والے خوشی خوشی اپنا سر مایہ آگ میں جھونکنے لگے۔ انجام یہ نکلا کہ وہ دانے دانے کو محتاج ہوگئے اور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے سانپ بچھّو، چوہا بلی یہاں تک کہ مردہ جانوروں کا سڑا ہوا مانس بھی کھانے لگے۔ ان کی بصارت پر ایسا جادو کردیا گیا کہ دوسرے کے گھر آنگن کے کونے کھدروں کی گندگی اور نابدانوں کے کیڑے تودکھائی دینے لگے مگر اپنے آس پاس کی غلاظت اور موری کے پلّو انھیں نظر نہ آسکے۔ مختصر یہ کہ حاشیے کا رشتہ ، رنگ سے، خوشبو سے، لمس سے، ذائقے سے ، صوت سے، شعور سے , احساس سے ,ادراک سے ہر ایک سے ٹوٹتا گیا۔ حواس سے محروم حاشیے کے رنگ روپ اور سیاہ پڑتے گئے اور مرکز میں بیٹھے ادیبوں کی نگاہیں حاشیے کے سیاہ رنگوں سے مسلسل چشم پوشی کرتی رہیں۔ حاشیے کے لب چیختے رہے اور مرکز کے مفکّروں کی سماعتیں بہری بنی بیٹھی رہیں۔ایک طرف کا احساس مرتارہا اور دوسری جانب کا احساس مون دھارن کیے ہوئے موت کا تماشا دیکھتا رہا۔ ایک کے حواس اپنی حرکت و حرارت کھوتے رہے اور دوسرے کے حواس اس جاں کاہ عمل کو سردمہری سے ملاحظہ فرماتے رہے۔ ان سب کے باوجود ’دلت ساہتیہ کا سوندریہ شاستر ‘کے اس بیان کا سچ پورا سچ نہیں ہے۔ اس سچ میں کرودھ اور آکروش کی وہ آگ بھی شامل ہے جو بھڑکتی ہے تو کچھ بھی نہیں دیکھتی ۔ کسی کو نہیں چھوڑتی، سب کو لپیٹ لیتی ہے۔ دراصل یہ بیان غصّے میں مشتعل ہاتھوں کی بندوق سے نکلی ہوئی گولیوں کی مانند ہے جن کی زد میں بے قصور چھاتیاں بھی آجاتی ہیں۔
اس بیان سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ کیا واقعی جو دلت نہیں وہ دلت ادب کی تخلیق نہیں کرسکتا؟ اگر یہ سچ ہے تو ذرا یہ تحریریں ملا خطہ کیجیے:
’’ارے دکھیا! تو سورہا ہے ۔ لکڑی تو ابھی جوں کی توں پڑی ہے۔ اتنی دیر تو کیا کرتا رہا؟ مٹھّی بھر بھوسا اٹھانے میں شام کردی ۔ اس پر سورہا ہے۔ کلہاڑی اٹھالے اور لکڑی پھاڑ ڈال ۔ تجھ سے ذرا بھر لکڑی بھی نہیں پھٹتی۔ پھر ساعت بھی ویسی ہی نکلے گی۔ مجھے دوش مت دینا ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جہاں نیچ کے گھر کھانے کو ہوا اس کی آنکھ بدل جاتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"دکھی نے پھر کلہاڑی اٹھالی ۔ جو باتیں اس نے پہلے سوچ رکھی تھیں وہ سب بھو ل گیا ۔ پیٹ پیٹھ میں دھنسا جاتا تھا۔ آج صبح ناشتہ تک نہ کیا تھا۔ فرصت ہی نہ ملی۔ اٹھنا بیٹھنا تک پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ دل ڈوبا جاتا تھا پر دل کو سمجھا کر اٹھا ۔ پنڈت ہیں ، کہیں ساعت ٹھیک نہ بچاریں تو پھر ستیاناس ہوجائے گا۔ جب ہی تو ان کا دنیا مین اتنا مان ہے۔ ساعت ہی کا تو سب کھیل ہے۔ جسے چاہیں بنا دیں ، جسے چاہیں بگاڑ دیں ۔ پنڈت جی گانٹھ کے پاس آکر کھڑے ہوگئے اور حوصلہ افزائی کرنے لگے۔
’’ہاں مار کس کے اور کس کے مار۔ ایسے زور سے مار ۔ تیرے ہاتھ میں تو جیسے دم ہی نہیں ۔لگا کس کے۔ کھڑا کھڑا سوچنے کیا لگتا ہے۔ ںبس پھٹا ہی چاہتی ہے۔ اس سوراخ میں ۔
دکھی اپنے ہوش میں نہ تھا۔نہ معلوم کوئی غیبی طاقت اس کے ہاتھوں کو چلارہی تھی۔ تکان، بھوک ،پیاس ،کمزوری سب کے سب جیسے ہوا ہوگئی تھیں۔اسے اپنے قوّتِ بازو پر خود تعجّب ہورہاتھا۔ ایک ایک چوٹ پہاڑ کی مانند پڑ تی تھی۔ آدھ گھنٹے تک وہ اسی بے خبری کی حالت میں ہاتھ چلا تارہا، حتیٰ کہ لکڑی بیچ سے پھٹ گئی اور دکھی کے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر گر پڑی ۔ اس کے ساتھ ہی وہ چکّر کھاکر گرپڑا۔ بھوکا ، پیاسا، تکان خوردہ جسم جواب دے گیا ۔ پنڈت جی نے پکارا۔ ’’اٹھ کر دو چار ہاتھ اور لگادے ۔ پتلی پتلی چیلیاں ہوجائیں‘‘۔
دکھی نہ اٹھا پنڈت جی نے اسے دق کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ اندر جاکر بوٹی چھانی۔ حاجاتِ ضروری سے فارغ ہوئے ۔ نہایا اور پنڈتوں کا لباس پہن کر باہر نکلے۔ دکھی ابھی تک وہیں پڑا ہوا تھا۔ زور سے پکارا۔ ارے دکھی ، کیا پڑے ہی رہوگے۔ چلو تمھارے ہی گھر چل رہاہوں سب سامان ٹھیک ہے نا ؟
دکھی پھر بھی نہ اٹھا ۔
اب پنڈت جی کو کچھ فکر ہوئی۔ پاس جاکر دیکھا تو اکڑا ہوا پڑا تھا۔ بدحواس ہو کر بھاگے اور پنڈتانی سے بولے ، دکھیا تو جیسے مرگیا۔
پنڈتانی جی تعجب انگیز لہجے میں بولیں ، ابھی تو لکڑی چیر رہاتھا نا!
’’ہاں لکڑی چیرتے چیرتے مر گیا۔ اب کیا ہوگا؟‘‘
پنڈتانی نے مطمئن ہوکر کہا۔ ’’ہو گا کیا، چمروئے میں کہلا بھیجو ، مردہ اٹھالے جائیں‘‘
_۔
۔
’’بالک کو بالو کے پیچھے چمٹولی کی طرف جاتے دیکھ کر راستے کی نگاہیں چونکنے لگیں ۔ بڑے چھوٹے، عورت، مرد سبھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے ۔ تنگ ، تاریک ، گھنونی ، گوبر اور کیچڑ میں سنی بدبو سے بھری گلیاں بالک کو چکّر میں ڈالنے لگیں ۔۔۔۔۔مکان کے دروازوں کے آگے بندھے بیٹھے ، کھڑے، بیل گائے ،بھینس بھیڑ ، بکری، کتّا ، گدھا سوّر کے ساتھ کھڑے ، بیٹھے ، لوٹتے، ہگتے ، موتتے، ننگ ،دھڑنگ ،میلے کچیلے ، کالے کلوٹے ، ٹیڑھے میڑھے ، بے ڈول، مریل بچّے بھی اس کی آنکھوں میں آنے لگے۔
راہ میں پڑے گو‘ہ، گوبر، چھرا، مینگنی ، لید، مل ، موتر اس کی آنکھوں اور تک پر وار کرنے لگے۔
کیچڑ اور بد بو دار پانی سے لبالب بھری نالیوں میں کلبلاتے ہوئے کیڑے اور نابدانوں کے آس پاس رینگتے ہوئے دُم دار پلو، اس کی آنکھوں کے راستے سے دماغ میں گھسنے لگے۔ بالک کا جی متلانے لگا۔ طبیعت مالش کرنے لگی۔
بالو ایک مکان کے پاس رک کر بولا’’سوامی! یہی ہے میرا گھر۔‘‘
بالک بالو کے ہمراہ جھگرو کے کمرے میں پہنچ گیا۔
جھگڑو ایک کال کو ٹھری کے اوبڑ کھابڑ فرش پر بچھے پیلے ، مٹ میلے پوال کے اوپر کسی قحط زدہ ڈھورڈ انگر کی مانند بے سدھ پڑا تھا۔ بالک کو اچانک اپنے گھرمیں دیکھ کر وہ چکت اور چنتت ہو اٹھا ۔ اس کی پیلی پیشانی لکیروں سے بھر گئی ۔ ہڑ بڑا کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی پر کمزوری کے سبب اس سے اٹھانہ گیا۔ لیٹے لیٹے اس نے بالک کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔
جھگرو کے اوپر سے ہٹ کر بالک کی نگاہیں کوٹھری کے اندر چاروں طرف گھومنے لگیں۔مٹّی کی بونی دیواروں پر پھوس کا چھدرا چھپّرٹنگا تھا جس سے کالے کالے جالے لٹک رہے تھے۔ دیوار یں کھڑ کیوں اور روشن دان سے خالی تھیں ۔ ایک طرف کی دیوار میں کچھ کھونٹیاں گڑی تھیں جن پر میلے کچیلے کپڑے لٹک رہے تھے۔ دوسری اور کی دیواروں میں دو طاق تھے ۔ چھوٹے طاق میں ایک ڈھبری رکھی ہوئی تھی جسے بالو کی ماں نے بالک کے آنے پر جلادیا تھا۔ چربی سے جلنے والی بتّی بد بو دار دھواں چھوڑ رہی تھی۔ بڑے طاق میں کچھ چھوٹے بڑے دبے پچکے بدرنگ برتن تلے اوپر پڑے تھے ۔ دیواروں پر رینٹ چپکی ہوئی تھی جس پر مکھیاں بھنک رہی تھیں ۔ ایک جگہ ایک تازہ بلغم کے پیلے لیس دار لا سے نے مکھیوں کے ایک جھنڈ کو پھنسا رکھا تھا۔
دیواروں سے اتر کر نگاہیں فرش پر رینگنے لگیں۔ کچّے فرش پر جھگرو کے پاس ہی اس کی پتنی من مارے بیٹھی تھی۔ ایک چھوٹا سا مریل بچّہ اس کی پچکی ہوئی چھاتی کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ ذرا سا ہٹ کردواور ننگ دھڑنگ میلے کچیلے بچّے زمین پر لوٹ لگارہے تھے ۔ ایک کی نا ک سے پیلا لسلسا مادہ بہہ رہا تھا اور دوسرے کی آنکھیں کیچ اور ڈھیڈ سے بھری ہوئی تھیں۔ کوٹھری کے ایک کونے میں ایک بکری بندھی تھی جس کے تھنوں کو دومیمنے اچھل اچھل کر کھینچ رہے تھے ۔ بکری کے آس پاس ڈھیر ساری میگنیاں بکھری پڑی تھیں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی تحریر میں دکھی چمارکی زندگی کے ایک عکس کو پیش کیا گیا ہے۔
کیا اس عکس میں معاشرے کے دباو سے پیدادکھی چمارکے سینے کا درد نہیں جھلکتا ؟
کیا اس میں کسی جور کے شکنجے میں کسی بھنچی گئی چھٹپٹا تی ہوئی کوئی زندگی نظر نہیں آتی؟
کیا اس میں کسی دلت کی بے چارگی، بے بسی اور لاچاری نہیں ابھرتی؟
کیا اس عکس میں مرکز کا وہ ستم دکھائی نہیں دیتا جسے حاشیہ خاموشی سے سہہ رہا ہے؟
کیا اس میں ایک طبقے کی بے حسی، دوسرے طبقے کے تئیں اس کا غیر انسانی روّیہ، اس کی جابرانہ نفسیات، موت پر بھی اس کا اطمنان والا روپ منعکس نہیں ہوتا؟
کیا اس تحریر میں حاشیہ کے او‘پر مرکز کا دباو اور اس دباو کا درد محسوس نہیں ہوتا؟
دوسری تحریر میں چمٹولی کے ماحول، اس ماحول کے ایک مکان اور اس مکان کی مکین کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
کیا یہ نقشہ ایسا نہیں ہے کہ جسے دیکھ کر ابکائی آجائے ۔ جی متلا نے لگے؟
کیا یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اس محلّے کے رہنے والوں کے اس احساس کو damageکردیا گیا ہے جس سے گند گی اور صفائی کا فرق معلوم ہوتاہے؟
کیا چمٹولی کی سڑا ندھ اس تحریر میں درنہیں آئی ہے؟
کیا اس نقشے میں وہ کوٹھری نظر نہیں آتی جس میں روشنی اور ہوا کا گزر نہیں ہوتا اور جہاں نسلوں کی نسلیں اپنی زندگی چپ چاپ گزار دیتی ہیں؟
اگر آپ نے معروضی نقطۂ نظر سے ان تحریروں کو دیکھا ہوگا تو ضرور آپ کا جواب اثبات میں ہوگا اور اس دلت حالت اور اس صورتِ حال میں رہنے والے آدمی کے درد کا احساس ضرور ہوا ہوگا مگر یہ تحریریں کسی دلت ادیب بھگوان داس یا اوم پر کاش بالمیک کی نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں تحریریں دوایسے ادیبوں کی ہیں جن کا تعلق دلت طبقے سے نہیں ہے۔ جو حاشیے پر نہیں مرکز میں رہے ہیں یا رہتے ہیں۔ ایک اسکول میں ماسٹری کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اشاعتی ادارہ بھی چلاتا تھا اور بھری پری زندگی گزارتا تھا ۔ دوسرا سرکاری دفتر میں ایک کلاس ون آفیسر ہے۔ ایک بڑے شہر کے پوش علاقے میں رہتا ہے اور افسرانہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزارتاہے۔
ان دونوں غیردلت ادیبوں کی تخلیقات میں آپ کو اگر حاشیے کی زندگی نظر آئی اور دلت درد محسوس ہو اتو سمجھیے کہ یہ ضروری نہیں کہ دلت درد کو صرف دلت دل ہی محسوس کر سکتا ہے۔
ادیب اگر حسّاس ہے تو زندگی چاہے حاشیے پر ہو یا مرکز میں، محسوس ضرو ہوگی اور محسوس کرنے والے کے پاس احساس کی قوت کے ساتھ ساتھ تحئیل اور لفظ کی طاقت بھی ہے تو وہ زند گی ادب کا روپ بھی اختیار کرے گی۔ یہاں اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ادب صرف احساس کے سہارے خلق نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ احساس کسی بھی تخلیق کا اساس ہوتا ہے۔ اس کے بغیر درد و کرب تک پہنچا نہیں جاسکتاہے۔ درد میں مبتلا ہونے والا انسان بھی اپنے درد کو اسی وقت محسوس کرسکتا ہے جب اس کے پاس قوتِ احساس ہو۔ احساس کے بغیر وہ درد کو محسوس کر ہی نہیں سکتا مگر یہ احساس بھی تنِ تنہاکچھ نہیں کرسکتا۔
اکیلا احساس درد کو چیخ میں تو بدل سکتا ہے مگر اسے ادب کا آہنگ نہیں دے سکتا۔ ادب کا آہنگ تو لفط عطا کرتا ہے۔ لفظ اپنے جادو سے درد میں روح پھونکتا ہے۔ درد کو محسوس کرنے والے دل کے پاس اگر لفظ کا جادو نہیں ہے تو محسوس کیا ہوا درد سر چڑھ کر نہیں بول سکتا ۔ لفظ اپنی جادو گری سے اس درد میں وہ صور پھونکتا ہے کہ درد قیامت ڈھانے لگتا ہے۔ حشر اٹھا نے لگتا ہے ۔ یہ لفظ کا ہی جادو ہے جو درد کو تیر بنا تا ہے اور اس تیر سے چھاتی کو چھلنی کرتا ہے۔ یہ اسی جادو کا کمال ہے کہ لفط تلوار بن جاتا ہے اور میان سے نکلتے ہی دلوں کو چیر کر رکھ دیتا ہے اور ان تیر و تلوار پر جو قوت سان چڑھا تی ہے، انھیں آب بخشتی ہے، جلا دیتی ہے وہ تحئیل کی قوت ہے۔ لفظ کی جادوگری میں جو قوت منتر پھونکتی ہے وہ تخئیل ہے ۔ تخئیل لفظ کو محاکاتی انداز عطا کرتا ہے۔ اسے تجسیمی شان بخشتا ہے۔ یہ تخئیل ہی ہے جو رسی کو سانپ بنا دیتا ہے۔ خیال کو پیکر میں ڈھال دیتا ہے۔ ابرو کو خنجر میں بدل دیتا ہے۔تل کو تاڑ کردیتا ہے۔ رائی کو پہاڑ بنادیتا ہے۔لفظ کو شیشے میں اور شیشے کو آب گینے میں ڈھال دیتا ہے۔گویا درد کو تخلیق میں ڈھالنے کے لیے احساس کے ساتھ لفط کی قوت اور تخئیل کی طاقت بھی ضروری ہے۔ اگر یہ قوتیں کسی کے پاس ہیں تو وہ دور رہ کر بھی درد کے پاس جاسکتا ہے۔ کنارے کھڑے ہوکر بھی درد کے مدو جزر کو دیکھ سکتا ہے۔ ہلچلوں کو محسوس کرسکتا ہے۔ کراہ کے شور کو سن سکتاہے ۔ طغیانیوں کے زیروبم پر ہچکولے کھاسکتاہے ۔ اور اس درد کو لفظ اور تخئیل کی مدد سے ادب کا روپ دے کر دوسروں کو بھی اس درد میں شریک کرسکتا ہے۔ دوسرے کو بھی ہچکولے کھلوا سکتا ہے۔ اور اگر یہ قوتیں نہیں ہیں تو کوئی لاکھ درد میں مبتلا ہو، مصائب و آلام میں گھرا ہو، دکھ بھوگ رہاہو، درد سہہ رہا ہو, ظلم و جور کی مار کھارہو، شدّت کرب سے چھٹپٹا رہا ہو، وہ اپنے درد و کرب کا ادبی عکّاس نہیں بن سکتا۔ اسے تخلیق میں نہیں ڈھال سکتا ، اسے ادب کا روپ نہیں دے سکتا ۔
سچ تو یہ ہے کہ ادب ادیب کے اس احساس سے جنم لیتاہے جس کی مثال ایک ایسے شیشے کی ہوتی ہے جو دور تک کی روشنی کو بھی اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ وہ احساس ایک ایسا مقناطیس ہوتا ہے جو دور دراز کی چیزوں کو بھی اپنے پاس کھینچ لیتا ہے۔ وہ ایک سورج کی مانند ہے جو زمین پر آئے بغیر ہی زمین کو گرمی اور روشنی سے بھردیتاہے۔ وہ ایک ایسا چاند ہے جو رہتا تو ہے آسمان پر مگر اپنی چاندنی زمین پر بکھیر تا ہے۔ ادیب کا یہ احساس جب جادوئی لفظ کا قالب اختیار کرتا ہے اور اور اس پر تخئیل کا رنگ چڑھتا ہے تو وہ فن پارہ بن جاتا ہے ۔یعنی فن، فن کارکے اس تخئیل آمیز احساس سے پیدا ہوتا ہے جورسی کو سانپ بنا دیتا ہے، گال کو گلاب میں بدل دیتا ہے ۔ چہرے کو چاند کردیتا ہے اور لب کو لعلِ بد خشا ں میں تبدیل کردیتاہے۔
کسی ادب کے اندر اگر یہ تینوں قوتیں موجود ہیں اور وہ ادیب ادب کے تئیں سنجیدہ ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ انسانی درد تک پہنچے گا ۔اس درد کو اپنے اندر جذب کر کے اسے مناسب اظہار کا روپ دے گا بلکہ اس درد کے اسباب کا بھی پتا لگائے گا اور اس کے مداوے کی فکر بھی کرے گا اور اس کے لیے چارہ گری کی تدبیریں بھی تلاش کرے گا۔ مذکورہ بالا دوسری تحریر جس کتاب سے اخذ کی گئی ہے ، اس کتاب کی ان مختصر تحریروں پر بھی ذرا نظر ڈالیے:
’’اس رات جب بالیشور بندیا سے ملنے گیا تواس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا ایک تازہ گلاب تھا۔ بالیشور اس پھول کو بندیا کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ،
’’یہ تمھارے لیے ہے‘‘
’’میرے لیے؟‘‘ بندیا چونکی۔ اس کے چہرے پر تعجب کے ساتھ مسرت کی جھلک بھی ابھر آئی ۔
’’اسے سونگھو‘‘
نبدیا بالیشور کے کہنے کے باوجود پھول کو اپنی ناک تک لے جانے میں ہچکچا رہی تھی۔
’’سونگھونا، ‘‘ بالیشورنے ضدکی،
ہچکچا تے ہوئے بندیا پھول کو اپنی ناک کے پاس لے گئی مگر جلد ہی اس نے اسے الگ کردیا۔اس کے چہرے پر خوف کی لکیریں پھیل گئیں۔
’’کیا بات ہے ؟ تم نے پھول سونگھے بنا ناک سے ہٹا کیوں دیا؟‘‘
بندیا چپ رہی۔
بولونا، کیا بات ہے؟ اچانک تمھارے چہرے کا رنگ بدل کیوں گیا؟ بالیشور نے پریشان ہوکر پوچھا
’’بات یہ ہے کہ پھول سونگھنے سے بھوت پکڑ لیتا ہے۔‘‘
’’پھول سونگھنے سے بھوت پکڑ لیتا ہے؟ بالیشور کی حیرت بڑھ گئی۔
’’ہاں، بھوت پکڑ لیتا ہے۔ آپ بھی اسے مت سونگھیے گا۔‘‘
’’یہ کس نے کہا؟‘‘
’’میری دادی کہتی تھی۔ میری ماں بھی کہتی ہے۔‘‘
’’نہیں، یہ سچ نہیں ہے۔ پھول سونگھنے سے کوئی بھوت وو‘ت نہیں پکڑتا۔‘‘
’’نہیں، جی پکڑ لیتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے‘‘
’’تم نے دیکھا ہے! کہاں؟‘‘
’’اپنی نانی کے گھر۔ میرے ماما کی بیٹی اپنی سکھیوں کے ساتھ کھیت سے گھر آرہی تھی ۔ کہیں پر اس نے گراہوا پھول پایا اور اسے اٹھا کر اپنی ناک سے لگا لیا۔ پھر کیا تھا ، اس کا ماتھا گھومنے لگا، گھر آتے آتے وہ کھیلنے لگی۔‘‘
کیسے پتا چلا کہ یہ سب پھول سونگھنے سے ہوا ؟‘‘
’’اوجھا نے بتایا۔‘‘
اس اوجھا کو کس نے بتایا کہ اس نے پھول سونگھا تھا۔‘‘
’’اس کی سکھیوں نے بتایا تھا۔‘‘
’’اوہ ، بالیشور چپ ہوگیا۔
’’آپ کیا سوچنے لگے؟‘‘
’’یہی کہ تمھاری بہن کو بھوت نے نہیں پکڑا ہوگا، اسے کوئی روگ لگ گیا ہوگا۔‘‘
’’کیا اسے بھوت نہیں پکڑ سکتا؟‘‘
’’پکڑ سکتا ہے ، پر پھول سونگھنے سے نہیں پکڑ سکتا ہے۔ یدی پھول سونگھنے سے بھوت پکڑ تا تو مجھے کیوں نہیں پکڑتا ہے ۔ میں تو روز سونگھتا ہوں۔‘‘
آپ روز سونگھتے ہو ؟ ‘‘
’’ہاں روز سونگھتا ہوں ؟ ‘‘
’’اور بھوت نے کبھی نہیں پکڑا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
کبھی پاس بھی نہیں آیا؟۔‘‘
’’نہیں ، اس میں چکت ہونے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ آج سے تم اپنے من سے یہ بات نکال دو کہ پھول سونگھنے سے بھوت پکڑ لیتا ہے اور بے خوف ہوکر یہ پھول سونگھواور اس کا آنند اٹھائو۔‘‘
بالیشور کے سمجھانے پر بندیا نے پھول کو اپنی ناک کے نتھنو ں کے نزدیک کرلیا ، خوشبو نے اس کے دل و دماغ کو معطّر کردیا۔
’’کیسالگا؟‘‘
’’بہت اچھا‘‘
’’اس کی سُگندھ سے آنند ملا ؟‘‘
’’ہاں ، ملا ۔بہت ملا ۔ من مگدھ ہو ا ٹھا۔ ‘‘ اس نے پھول کو پھر ناک سے لگالیا ۔وہ بار بار اسے سونگھنے لگی۔پھول کی خوشبو اس کی پیشانی پر چمکتی رہی۔ بالیشور اسے دیکھ کر خوش ہوتارہا۔
بالیشور کی بند آنکھوں میں ہون کا ایک منظر سمٹ آیا ، آگ دہکنے لگی۔دیکھتے ہی دیکھتے منوں اناج اور گھی تیل راکھ اور دھوئیں میں تبدیل ہوگئے۔ اناج کی یہ راکھ پہلے بھی اس کے ذہن میں چبھتی رہی تھی۔ گھی تیل کا یہ دھواں دماغ میں گھس کر اسے بے چین کرتارہا تھا۔
اناجوں کا جلنا اسے اچھا نہیں لگا تھا ۔ گھی تیل کا دھویں میں بدلنا اسے کچھ عجیب سامحسوس ہوا تھا۔
کیا سچ مچ یہ سب دیوتا کے لیے جلایا جا رہا تھا؟ کیا دیوتا اتنے بھوکے ہیں کہ انھیں منوں اناج چاہیے، کیا دیوتا کی پیاس ایسی ہے کہ بنا گھی تیل پیے نہیں مٹتی؟ یا پھر اس انّ دہن اور تلہن داہ کے پیچھے کوئی اور بات ہے ؟ کوئی بھید ہے؟ کوئی رہسیہ ہے؟ کھاد سامگری کا مول کا ریہ کیا ہے؟ جواب ملا شریر میں ارجا اتپن کرنا تتھا گتی پردان کرنا، میرے شریر کو کھاد سامگری کم ملے تو کیا ہوگا؟
اُرجا کم بنے گی۔ گتی دھیمی ہوجائے گی۔
سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اُرجا کم اور گتی دھیمی ہونے پر کیا ہوگا؟
شریر دربل ہوجائے گا۔ دماغ کام کرنا بند کردے گا
ایک کمزور جسم اور بے دماغ آدمی اسکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا
دیر تک بالیشور کی نگاہیں اس پر ٹکی رہیں۔
اگر شریر کی مانگ کے برابر کھاد سامگری دی جائے تو؟
اُرجا ادھیک بنے گی۔ گتی بڑھ جائے گی
تو کیا ہوگا؟
شریر ہشٹ پُشٹ اور دماغ وکسِت
ایسا ہونے سے کیا ہوگا؟
منشیہ کسی دبائو میں نہیں آئے گا، کوئی اس پر اپنی اچھا نہیں تھوپ سکے گا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ اُرجا کم اور گتی کو دھیما کرنے کے ادیشہ سے ہون کا آوِشکا ر ہو اہو؟‘‘
پرنتو کیوں؟
تاکہ منشیہ کو دبایا اور جھکایا جاسکے ۔ اس پر اپنی اچھّا تھوپی جاسکے۔ اسے اپنے بس میں کیا جاسکے ۔
بالیشور کا ذہن آخر ی جواب پر مرکوز ہوگیا۔ اسکی آنکھوں میں انسانی استحصال کے کسی پراسرار ساز منصوبے کے تانے بانے ابھر نے لگے۔ خود غرضی کی تکمیل کے لیے رچی گئی کسی جادوئی سازش کے خط و خال دکھائی دینے لگے۔ انسانی استحصال کا اتنا بڑا منصوبہ خود غرضی کی ایسی سازش؟ بالیشور اس منصوبے پر حیران تھا کہ اس کی آنکھوں میں ایک اور منظر ابھر آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تحریروں سے کیا یہ اندازہ نہیں لگتا کہ مصنف نے نہ صرف یہ کہ دلت صورتِ حال کی ترجمانی کی ہے بلکہ اس صورت کو پیدا کرنے والے اسباب تک رسائی بھی حاصل کی ہے اور اس سازش کو بھی بے نقاب کیا ہے جس نے انسانوں کے ایک بڑے گروہ کو جانوروں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ساتھ ہی ایسی ترکیبیں بھی استعمال کی ہیں جن کے ذریعے ان کے مرے ہوئے حواس پھر سے زندہ ہوا ٹھیں۔ وہ خوشبو اور بدبو میں تمیز کرسکیں۔ گندے پانی سے نکل سکیں اور پھولوں کی خوشبو سے اپنے دل و دماغ کو ترو تازہ کرسکیں۔
مرکز میں بیٹھے دیگر ادیبوں کو بھی چاہیے کہ وہ حاشیے پر بھی نگاہ ڈالیں ۔حاشیے پر انھیں مرکز سے زیادہ مواد مل سکتا ہے۔ حاشیے کی سیاہیاں انھیں زیادہ ایسی سوئیاں فراہم کر سکتی ہیں جنھیں چبھوکر بے حس جسموں میں درد کا احساس جگایا جاسکتا ہے۔
اگر ایسا کیا گیا تو اوم پر کاش بالمیک ایک اور بیان دینے پر مجبور ہوجائیں گے اور ان کا وہ بیان کچھ اس طرح کا ہوگا:
’’فن کا ر کے پاس اگر احساس ہے اور اس احساس کے اظہار کے لیے لفظ ہے اور اس لفظ میں رنگ بھرنے کے لیے تخئیل ہے تو غیر دلت بھی نہ صرف یہ کہ دلت درد کو محسوس کرسکتا ہے بلکہ اس درد کو بہتر اظہار دے سکتا ہے اور دلت زندگی پر نجات جیسی ایک نہیں بلکہ درجنوں کہانیاں لکھ سکتا ہے اور دویہ بانی کے ایسے ایسے بول سناسکتا ہے جو ایک نہیں بے شمار بالوؤں کے دل میں دانشوری کی جوت جگا سکتاہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں