ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
کل ایک ادبی سیمینار سے دیر رات گھر لوٹا تھا۔موضوع تھا ‘اردو ادب کے مرحومین’ مقالہ خواں حضرات نے وہ سماں باندھا کہ سامعین کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔ تاہم عشائیہ کی دھکا مکی میں ہر ایک کی آبدیدہ آنکھوں سے”شعلہ سا لپک جائے ہے ” کا منظر قابل دید تھا۔ وجہ تھی عشائیہ کی خوشبو ۔سب کی زبان پر بس ایک ہی جملہ تھا "ایسی خوشبو کا اردو زبان و ادب کے سیمیناروں میں اپنا ہی جلوہ ہوتا ہے”۔اس تعلق سے راوی کا بیان ہے کہ سیمیناروں میں عشائیہ یا ظہرانے میں خورد ونوش کا معقول انتظام ہے یا نہیں ہے، دونوں ہی خبر بالکل فطری طور پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ ‘ ہے’ کے معاملے میں واقعی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ لیکن’ نہیں ہے ‘ یہ خطرناک مرحلہ ہوتا ہے۔ اول جو کوئی بھی سنتا ہے اس کے قدموں کے تلے کی زمین تو نکل ہی جاتی ہے۔ اور دوسرے سامعین کا طبقہ خاص اپنا سارا غصہ منتظمین پرضرور اتارتا ہے۔ نتیجتاً دوسرے یا تیسرے اجلاس میں خالی کرسیاں سامعین کا فرض کفایہ ادا کرتی ہیں۔ حال ہی میں اردو کے ایک بھلے مانش نے بڑا خوبصورت دعویٰ کیا ہے کہ وہ دن قریب ہے جب اردو کے سیمیناروں اور مشاعرے میں سامعین کو نذرانے پیش کئے جائیں گے۔ بہر کیف یہ قصہ طولانی ہے۔ مختصر یوں کہ حسب روایت جیسے ہی عشائیہ کے اعلان کا اہتمام ہوا، بلا تفریق عمر و جنس سب ایک صف میں کھڑے ہو گئے۔ یعنی” نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز "۔ سب کے سب انداز شائستگی میں کچھ دیر تو کھڑے رہے لیکن ایک جذباتی محب اردو نے "جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے” کا عملی نمونہ جیسے ہی پیش کیا اوروں نے بھی اسی نسخے کو آزمانا مناسب سمجھا۔ لامحالہ مجھے بھی اس میدان میں اترنا پڑا ۔ انجام کار وہ عمل مکمل ہوا جس کے لئے قطار میں لگا تھا ۔ شاد عظیم آبادی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور وہاں سے رخصت ہوا۔ اب ایک جانب آسودگی کا اثر اور دوسری طرف ذہنی و جسمانی تھکاوٹ کا ریلا۔ بستر پر گرنا تھا کہ آنکھ لگ گئی۔ واللہ ایسا خواب دیکھا کہ اپنے آپ پر رشک ہونے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اردو کے چند مرحومین ایک باغ میں سیر و تفریح کر رہے ہیں۔ رشک کی کیفیت تب اور دوبالا ہو گئ جب ایک زمانے کے قدآور محب اردو سر سید احمد خاں کو زندہ دیکھا۔ بالکل وہی صورت وہی شباہت جیسے وہ اردو کی درسی کتابوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ سر پر سرخ رنگ کی ترکی ٹوپی، سینے تک پھیلی ہوئی لمبی اور گھنی داڑھی۔ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر بڑے اطمینان اور یکسوئی سے ‘ آثار الصنادید’ کا مطالعہ کرنے میں محو تھے ۔ تبھی ایک درمیانہ قد کے شخص نے نزدیک آکرانہہں سلام عرض کیا۔ ایک اجنبی اور غیر شناسا کو سامنے دیکھ کر سر سید احمد خاں نے پوچھ لیا ۔ معاف کرنا برخوردار! میں نے تمھیں پہچانا نہیں۔ جی میں شمش الرحمان فاروقی ہوں۔ سر سید احمد خاں نے شمس الرحمن فاروقی کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ آؤ بیٹھو برخوردار۔ جب شمس الرحمن فاروقی بیٹھے تو سر سید نے کہا۔ کچھ روز قبل اسی جگہ بیٹھا تھا تو میر تقی میر سےملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بعد آداب و تسلیمات میں نے خیریت دریافت کی۔ مسکرا کر کہنے لگے شمس الرحمن فاروقی جو محکمہ ڈاک کا ایک افسر اعلیٰ ہے، شعر فہمی میں بڑا نام پیدا کر رہا ہے۔ خیر عزیزم! یہ بتاؤ دنیائے لہو ولہب سے کب سفر باندھا۔ بس کچھ ہی دن پہلے۔ شمس الرحمن فاروقی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔لیکن سر سید آبدیدہ ہو گئے۔ کچھ دن اور رہ جاتے تو کتنا اچھا ہوتا کہ شعبہ شعرفہمی میں چار چاند لگ جاتا۔ وہ لگ چکا۔شمش الرحمان فاروقی نے چہک کر کہا اور شعر شور انگیز کی چاروں جلد سرسید کو پیش کرتے ہوئے کہا۔ اس کا مطالعہ کریں۔ بے شک۔ کیوں نہیں۔ سر سید احمد خاں نے جلد اول کا ایک صفحہ پلٹ کر دیکھا اور بڑے اشتیاق سے پوچھا۔ برخوردار اس میں کیا شور مچایا ہے۔ میر تو بڑے نیک انسان تھے۔ انہیں اپنی تقدیر سے کوئی شکایت نہ تھی۔ البتہ ایسا کیونکر ہوا کہ اس خدا کے بندے کی ہر تدبیر الٹی ہو جاتی تھی ۔ اللہ مغفرت کرے۔ بڑی مضطربانہ حیات پائی ۔ لیکن ہاں کمال کا جگر پایا تھا مرحوم نے ۔ سنا ہے انہیں اب خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ یہ تو بڑے مرتبے کی بات ہوئی۔ جہاں تک مجھے خیال آتا ہے غالب نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ "کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا”۔ لیکن برخوردار ” کہتے ہیں "کہنے کا مدعا کیا ہے؟ ۔ یہ تو میر اور میر کی شاعرانہ عظمت پر غالب کا اعتراف شبہات کا شاعرانہ اظہار ہے۔ غالب کو اس انداز بیاں سے پرہیز لازم تھا۔ جی بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ میں نے بھی غالب کی اسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اورشعر شور انگیز میں میر کی شاعری کا ایسا شور مچایا ہے کہ سارے ناقدین اردو ادب شعر شور انگیز کی چاروں جلدیں خرید کر پڑھ رہے ہیں۔اردو والے کتابیں خرید کر پڑھ رہے ہیں۔ سبحان اللہ۔ یہ سن کر دل کوواقعی قرار آیا۔ اللہ اردو اور خدام اردو کو آباد رکھے۔ سر سید نے شمس الرحمن کے سر پر ہاتھ رکھ کر نہایت مشفقانہ لہجہ میں کہا۔ پھر یہ دونوں حضرت ایکدم غائب از نظر ہوگئے۔ لیکن خواب کا سلسلہ جاری رہا۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ ہی دوری پرایک درخت کے نیچے سیاہ شیروانی زیب تن کئے ہوئے اور آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے ڈاکٹر ذاکر حسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرحومین بوائز کو اپنی مشہور کہانی ‘ابو خاں کی بکری’ سنانے میں مشغول ہیں ۔ کہانی ختم ہونے پر انہوں نے طلبا سے پوچھا۔ اچھا تو میرے عزیزو، بتاؤ کون جیتا اور کس کی شکست ہوئی ؟ سبھی بغلیں جھانکنے لگے۔ کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔لیکن آخر میں ایک نوجوان اٹھا۔ اور بولا ۔ معاف کیجئے گا حضور! خان بکریاں نہیں پالتے۔ وہ حکومت کرتے ہیں، میدان جنگ میں تلوار بازی کے جوہر دکھاتے ہیں ۔جناب وہ بکری دراصل ابو خان کے پڑوسی کی تھی ۔ ہاں وہ بہادر بکری ضرور تھی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے ایک نظر اس نوجوان کی طرف دیکھا، اپنی چھڑی اٹھائی اور درخت کی ٹہنیوں پر بیٹھے چڑیوں کے غول میں اس بزرگ چڑیا کو تلاش کرنے میں منہمک ہو گئے جسے ابو خاں کی بکری بہت پسند تھی۔ڈاکٹرذاکر حسین ابھی نظر سے اوجھل بھی نہیں ہوئے تھے کہ بکھرے ہوئے بال لیکن شیروانی میں ملبوس اور ہاتھ میں ایک سیاہ مائل بوتل لئے ہوئے اسرار الحق مجاز اپنے کچھ ہم خیال دوستوں کے ساتھ ‘ اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں’ گاتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ واقعی ان کی حالت کچھ بہتر نہیں تھی۔ مجاز اور ان کے ہم پیالہ دوستوں کے دل کا غم کیا تھا یہ تو خواب میں نظر نہیں آیا۔ تاہم ان سب کے ہاتھوں میں سگریٹ،ان کے بکھرے بال اور ان کی وحشتناک کیفیت کو دیکھ کر میرے اندر ایک وحشت سی پیدا ہو گئی۔ نتیجتاً خواب کا زاویہ ہی بدل گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے ہم خیال بزرگ مجتبٰی حسین گردن جھکائے ہری ہری گھاس پر خالی پیر چہل قدمی کا لطف لے رہے ہیں۔ دوسری جانب پطرس بخاری منھ میں سگریٹ دبائے جوناتھن سوئفٹ سے پستو زبان میں بات کر رہے ہیں ۔تبھی ایک دبلا پتلا کتا انہیں دیکھ کر بھونکنے لگا۔ پطرس بخاری تھوڑا گھبرائے لیکن جوناتھن سوئفٹ نے حوصلہ دیا اور کہا۔ "ڈاںٹ وری۔ بارکنگ ڈاگس نیور بائٹ "۔ لیکن نہیں جناب۔ ان کتوں کا کیا بھروسہ۔ کب بھونکنا بند کر دے اور کاٹ لے۔ میں اپنے ایک مضمون’ کتے’ میں کتوں کے بھونکنے کے متعلق یہ اندیشہ ظاہر کر چکا ہوں۔ اور جناب آپ یقین کریں میرا یہ اندیشہ یقین کی حدود میں داخل ہو چکا ہے ۔بھونکنے والے کتوں کی خوش نصیبی کا عالم یہ ہے کہ برصغیر کے بیشتر یونیورسٹی کے امتحانات میں سوال پوچھا جاتا ہے کہ” بھونکنے والے کتے کاٹا نہیں کرتے” ۔اس کی وضاحت کریں۔ جو ناتھن سوئفٹ ایکدم لاجواب ہو گئے۔ پطرس بخاری نے سگریٹ کا کش لیا اورفاتحانہ انداز میں دھوئیں کا ایک مرغولہ بنا کر اسے دیکھنے لگ گئے۔ ابھی مرغولہ غائب بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک لمبے قد اور چھریرے جسم کا ایک شخص ان کے نزدیک آ کر رکا۔ آداب بجا لایا۔ لیکن پطرس بخاری نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑی۔ اپنے چہرے پر مختصر سی مسکراہٹ لئے وہ حضرت بالکل میرے قریب آکر کھڑے ہو گئے ۔ میں نے تپاک سے پوچھا۔
حضرت! آپ کی تعریف؟
مجھے نہیں پہچانا۔ وہ مسکرا کر بولے۔ کیسے پروفیسر ہو برخوردار۔ اردو کی کتاب تو کبھی پڑھتے نہیں۔ ارے نادان میں کنہیا لال کپور ہوں۔
اوہ معاف کیجئے۔ گستاخی ہو گئ جناب۔ ۔دراصل اردو کی کتابوں میں آپ پاسپورٹ سائزفوٹومیں ہی موجود ہیں۔ اور اسی وجہ سےآپ کو پہچاننے میں دھوکہ کھا گیا۔
کیا مطلب میاں؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ وہ استفہامیہ لہجے میں بولے۔
قبلہ! در اصل میں یہ کہہ رہا ہوں کہ غالباً آپ جواس وقت مجھے دکھائی دے رہے ہیں وہ میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں اور حقیقتاً جسے میں ہمیشہ ہی دیکھتا رہا ہوں وہ آپ اس وقت دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔میں نے انہیں نہ پہچاننے کا اپنا عذر پیش کیا۔ اوہ ہو! یہ بات ہے۔ ایک بہترین مسکراہٹ ان کے مونچھوں سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے ان کے لبوں پر آ کر ٹھہر گئ۔ اور اسی کیفیت میں بولے۔ بہت دور تک جاؤگے برخوردار۔ مشق گشتاخی جاری رکھو۔ شاید تمہیں معلوم ہو یا نہ ہو ، ادب کے پروفیسروں کی گستاخی دعائیہ کلمات ہوتے ہیں اور ان پر دھوکے کا نزول تحقیق کے نئے وژن کی آمد ہوتی ہے۔ کیا باتیں ہو رہی ہیں میاں۔ پیچھے سے آواز آئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو آنکھوں پر عینک لگائے شیروانی زیب تن کئے ہوئے پروفیسر رشید احمد صدیقی کھڑے تھے۔ ان کے پیچھے کندن کچھ کتابیں لئے کھڑا تھا۔ پہلے تو کنہیا لال کپور سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ میاں کمال کرتے ہو۔ کبھی کبھی ملاقات کر لیا کرو ۔ کیا ہوا جو میں شیروانی میں ملبوس ہوں اور کیا ہوا جو تم نے کوٹ اور پتلون زیب تن کر رکھا ہے ۔ تم بھی وہی ٹھہرے جو میں ٹھرا۔ ‘غالب جدید شعرا کی مجلس میں’ لکھ کر اگر تم نے دھوم مچا دی تو میں نے ‘ارہر کا کھیت’ لکھ کر پڑھنے والے کو ایسا دیوانہ کیا کہ سب ارہر کے کھیتوں میں اپنی آنکھیں گڑائے بیٹھے ہیں۔ بس بھی کیجئے حضور! کنہیا لال کپور نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ وہ زمانہ لد گیا۔ نہ اب ارہر کا کھیت ہے اور نہ مشاعرے کی وہ رونق۔ ابھی کچھ دن قبل آحمد جمال پاشا فرما رہے تھے طنز و مزاح شوسل میڈیا کے نرغے میں ہے۔ البتہ ناول کی فصل لہا لہا رہی ہے۔ اور تنقید کا تو اور برا حال ہے۔ میں نے ہمت کرکے اعتراض کیا۔ نہیں جناب۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ شوسل میڈیا نے ادب کا ایک جمہوری نظام قائم کیا ہے۔ جمہوری نظام؟ دونوں نے اس قدر چونک کر کہا کہ میں بھی چونک گیا کہ میں نے کوئی غلط لفظ تو استعمال نہیں کیا۔ میں مزید تفصیل بیان کرتا اس سے قبل رشید احمد صدیقی نے کندن کی طرف دیکھا اور وہاں سے رخصت ہو گئے ۔ لیکن کنہیا لال کپور جامد رہے۔ میاں چھوڑو جمہوری اور جمہوریت کی باتوں کو۔ تمھیں کچھ راز کی بات بتاتا ہوں۔ جی بتائیں۔ میں نے پراشتیاق لہجے میں کہا۔ کہنے لگے۔ دیکھو میاں! یہ باغ عالم ارواح ہے اور اس باغ میں یوں تو سیر و تفریح کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن شعرا اور ادبا کبھی کبھی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ کل کی بات ہے۔ الطاف حسین حالی ‘مسدس حالی’ کو سینے سے لگائے گھوم رہے تھے ۔ اتفاق کچھ یوں ہوا کہ سامنے سے غالب "رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے” گنگناتے ہوئے وارد ہوگئے ۔ شاگرد نے استاد کو دیکھا تو بےتحاشا دوڑ کر ان کے پاس گئے اور گلے لگ کر زار و قطار رونے لگے۔ غالب نے اپنے شاگرد عزیز کی ایسی کیفیت دیکھی تو وہ بھی آبدیدہ ہو گئے۔ کچھ روندھی آواز میں بولے۔ عزیزم! تم کو کیا غم ہے ۔ اور اس گریہ وزاری کا سبب کیا ہے۔ اور تم نے سینے سے یہ کیا لگا رکھا ہے؟ پے در پے تین سوال سن کر حالی پریشان ہو گئے ۔ لیکن فوراً اپنے آپ کو قابو میں کیا اور سنبھل کر بڑے ادب سے جواب دیا۔ ‘مسدس حالی’ ہے۔ اور’ یاد گار غالب’ کا نسخہ کہاں بھول آئے؟غالب نے اتنے تعجب اور معنی خیز انداز میں پوچھا کہ حالی آب خجالت میں شرابور ہو گئے ۔ ندامت کے بوجھ سے ان کی گردن جھک گئ۔ لیکن ‘مسدس حالی’ نے ان کو زیادہ جھکنے نہیں دیا۔ کچھ لمحے گردن جھکائے یا یوں کہیں کہ’ مسدس حالی’ پر ٹکائے خاموش رہے۔ جب کچھ جواب نہیں بن پڑا تو’ مسدس حالی’ کو ہتھیلی پر رکھا اور آبدیدہ ہوکر بولے۔ مجھے اس کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا اس کی شہرت پر مجھے رشک ہوتا تھا۔ اتنا کہ میں اسےشہرت کا خزانہ عامرہ سمجھتا تھا۔ لیکن جس دن سر سید احمد خاں نے یہ شگوفہ چھوڑا کہ”بےشک میں اس کا محرک ہوا ہوں اوراس کو میں اپنے اعمال حسنہ میں سے سمجھتا ہوں کہ جب خدا پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لایا۔ میں کہوں گا کہ حالی سے مسدس حالی لکھوا کر لایا ہوں۔ ” وہ دن اور یہ دن مجھے کسی پہلو چین نہیں پڑتا۔ دل کی کیفیت یہ ہے کہ گھبراہٹ اور بے چینی پورے جسم کو پسینے میں سرابور کر دیتی ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ اس کا تعلق قلب کے عارضہ سے ہے جو نہایت موذی مرض ہے ۔ ہر چند کہ سر سید احمد خاں نےمیری محبت میں یہ بات کہی تھی لیکن مجھے اس کا قطعی اندازہ کہاں تھا کہ سر سید احمد خاں کے اس شگوفے کی زد میں آکر میں حاشیے پر منہنی تحریر کے مانند ہو جاؤنگا ۔ کیا مجال کہ مسدس کا ورق بھی کوئی الٹ کر دیکھے۔سب اسی جملے پر اکتفا کئیے بیٹھے ہیں۔ اتنا کچھ بیان کرنے کے بعد کپور جی خاموش ہو گئے۔ میں نے سوچا دم لے رہے ہیں۔ لیکن میں غلط تھا۔ انہوں نے مجھ سے برجستہ پوچھ لیا۔ باولے مسدس پڑھی ہے کیا۔؟ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ تو تم بھی سر سید کے اسی تاریخی تبصرے پر اکتفا کئے بیٹھے ہو۔ خیر میرا مشورہ ہے کہ مسدس کو حفظ کر لو۔ تمھاری قوم کو اس کی سخت ضرورت ہے۔ خیر جانے بھی دو۔ آگے کا واقعہ سناتا ہوں۔ مولانا حالی نے یادگار غالب کی بجائے سر سید احمد خاں کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے کہا۔ ایک ہفتہ قبل یعنی سترہ اکتوبر کی بات ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان کا’ ڈے ‘منایا جا رہا تھا۔ غالب جو ابھی تک پوری یکسوئی سے حالی کی آپ بیتی سن رہے تھے۔ اچانک بول پڑے۔ کیا منایا جا رہا تھا برخوردار؟ حالی بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے اور مکرر وہی جملہ دہرا دیا۔ سر سید ڈے منایا جا رہا تھا۔یہ ڈے کس پرندے کے چوزے کا نام ہے؟ حضرت گستاخی معاف یہ کسی پرندے یا اس کے چوزے کا نام نہیں ہے بلکہ جس دن سر سید پیدا ہوئے تھے اسی دن کو ان کے بہی خواہان ڈے کے طور پر مناتے ہیں۔حالی نے وضاحت کی۔ غالب انگشت بدنداں کی کیفیت میں پہنچ گئے اور بے ساختہ لا حول ولا قوۃ کا ورد کرتے ہوئے فرمایا۔ برخوردار سب کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ سر سید انگریزی اور انگریز دونوں پر جان چھڑکتے تھے۔ بس اسی کا انہیں صلا مل رہا ہے کہ سر سید ڈے منایا جاتا ہے۔ مجھے دیکھو۔ ایک بار میں نے "نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا” کا ذکر کیا چھیڑا ۔ سب ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئے۔ عیش دہلوی کو نہ معلوم مجھ سے کیا رقابت تھی میری شاعری کے متعلق کہتا پھرتا تھا۔
مزا کہنے کا جب ہے ایک کہے اور دوسرا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھے یا خدا سمجھے
وہ کج فہمی کا مریض تھا۔ اللہ بھلا کرے عبدالرحمن بجنوری کا۔ اس نے نہ صرف میرے سبھی معترضین کا منھ بند کر دیا بلکہ میرے سارے گلے شکوے کا بھی ازالہ اس انداز میں کیا کہ وہ ہمیشہ میری دعائیں لیتا ہے۔ اس نے دیوان غالب کو الہامی کتاب کی سند دے دی۔ آج میں سوچتا ہوں کہ مومن کو اس کے ایک شعر کے بدلے میں اپنا پورا دیوان دینے کا آفر واقعی میرا جذباتی فیصلہ تھا۔ لیکن برخوردار تم سے اپنے احوال کیا بتاؤں۔ اور تم سے بھلا میری کون سی بات پوشیدہ ہے۔ مدت ہوئی جب یہ سب باتیں ہوئیں۔ حیرانی تو یہ ہے کہ آج بھی میری شاعری کے مطالب و مفاہیم سے زیادہ میری مئے نوشی پر فوکس کیا جاتا ہے۔ کون ایسا اردو کا ناقد ہے جس نے میرے جلے پر نمک نہیں چھڑکا ہے۔ میری قرض خواہی کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ میری شخصیت اور شاعری پر تحریر کردہ مقالے کا مطالعہ کرو۔ بس میری اسی دونوں صفت عالیہ کے ارد گرد ہر مقالہ نگار چکر لگاتا ہےاور بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ ۔ جب تک زندہ رہا میں یہ نہیں سمجھ پایا کہ میری مے نوشی اور قرض خواہی سے لوگوں کو کیا بیر ہے۔ شچ کہتا ہوں برخوردار بڑے بڑے سیمناروں میں بھی جب کوئی میری قرض خواہی پر لنترانیاں کرتا ہے تو میرا جی کرتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے اس کا منھ نوچ لوں۔حضرت غصہ نہ کریں ۔ کیوں نہ کروں برخوردار ۔ ایرانی نزاد ہوں۔ غصہ ہماری ناک پر رہتا ہے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مرزا غالب کی نظر مجھ پر پڑ گئ۔ آواز دی میاں کنھیا! ادھر آنا برخوردار ۔ میں ان کے قریب پہنچا تو تپاک سے گلے لگایا۔ بولے۔ بڑی آرزو تھی تیرے دید کی برخوردار ۔ آج نظر آیا۔ مجھے عالم ارواح میں منتقل ہوئے ایک زمانہ ہوا۔ لیکن یہی چند ماہ قبل ایک دن کسی مالک رام نے تمھارا ذکر کیا اور اسی نے بتایا کہ تم نے مجھ کو جدید شعرا کی مجلس میں بڑی عزت بخشی ہے۔ واللہ جب بھی عزت کی بات ہوتی ہے میاں میں خون کے آنسو روتا ہوں کہ جیتے جی مرتبہ نہ ملا۔ اب دل کو کچھ اطمینان تو ضرور ہے۔ اللہ تمھیں شاد و آباد رکھے۔ اچھا میرے بچے ایک بات تو بتانا کوئی کلیم الدین احمد ہے جو ادیبوں اور شاعروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا رہتا ہے ۔اور یہ بھی سنا ہے کہ اس کے پاس ایک عجیب و غریب قسم کا عینک ہے جس سے اردو کا ہر شاعر و ادیب خوف کھاتا ہے۔جی حضور! وہ بھی یہاں منتقل ہو چکے ہیں۔ لیکن کبھی اس پر نظر نہیں پڑی۔ غالب نے متعجب ہو کر کہا۔ میں منتظر تھا کہ کنھیا لال کپور کوئی معقول جواب دینگے۔ لیکن برا ہو مچھڑوں کا۔ ایسا یلغار کیا کہ کروٹ لینی پڑی۔ اور میرا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ آنکھ کھلی تودیکھا وہ سخت چیز کچھ اور نہیں ایک کتاب تھی جسکے کور پیج پر جلی حروف میں لکھا تھا ‘ اردو تنقید پر ایک نظر’۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں