صابر
تاریخی فکشن ایک مقبول ترین اور وسیع پیمانے پر پڑھی جانے والی صنفِ ادب ہے۔ اگرچہ بعض اہلِ علم ”تاریخی فکشن” کی اصطلاح کو قبول نہیں کرتے۔ دراصل فکشن کی یہ تعریف ان کے پیش نظر ہوتی ہے:
.A litrerary work based on the imagination and not fact
اور ”تاریخی فکشن” کی اس تعریف کو وہ نظر انداز کر جاتے ہیں:
.Historical fiction is a literary genre that reconstructs past events in fictional stories
ہر سال عموماً سبھی زبانوں کے پاپولر ادب میں تاریخی افسانوں، ناولوں اور ڈراموں کے نئے انبار کھڑے ہو جاتے ہیں جو تاریخی حقائق میں افسانوی آمیزش کی بھرمار کے ذریعے مخصوص ادوار یا شخصیات کے بارے میں انتہائی پرلطف بیانیے ترتیب دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ادبی، فنی اور لسانی اسفل سطح کے سبب پاپولر ادب کو سنجیدہ ادبی حلقوں میں اعتبار حاصل نہیں ہوتا لیکن ادبِ عالیہ میں بھی جب تاریخ پر مبنی کوئی افسانہ، ناول یا ڈراما منظرِ عام پر آتا ہے تو جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے وہیں نئے تضادات اور تنازعات بھی پیدا ہوجاتے ہیں کیونکہ ایسی تخلیقات قاری اس امید کے ساتھ پڑھتا ہے کہ اس میں تخلیقی زبان کے لوازمات کے ساتھ تخیل کی کار گزاری اور افسانویت و ڈرامائیت کی رنگا رنگی میں بھی تاریخی حقائق کا خیال رکھا گیا ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے قابل ترین محققین نے امتیاز علی تاج کی انارکلی اور منٹو کی ڈومنی کے ساتھ ساتھ رسوا کی امراؤ جان ادا کے بھی مقبرے ڈھونڈ نکالے ہیں۔
صادق کا ڈراما ”اس شکل سے گزری غالب” غالب ڈراموں کی فہرست میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ پیش لفظ میں صادق نے تاریخی فلموں اور سیریلوں میں تاریخی حقائق سے روگردانی اور واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی روایت سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
” مرزا غالب بنیادی طور پر ایک تفریحی فلم تھی ۔ اسے دلچسپ اور عام پسند بنانے کے لیے غالب کی حقیقی زندگی سے صرفِ نظر کرنا مجبوری تھا لہٰذا زیبِ داستاں کے لیے جو کچھ شامل کیا گیا اس میں ڈومنی کے کردار کو ہیروئن کا درجہ ملا۔ اس طرح رائی کو پربت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ حقیقت خرافات میں کھو گئی۔ نصف صدی کے بعد ایسا ہی کچھ غالب پر بنائے گئے ایک ٹی وی سیریل میں مزید فنکارانہ اضافوں کے ساتھ دہرا دیا گیا۔ اس طور غالب کی زندگی کے اہم ترین واقعات و کردار دھندلکوں کی نذر ہو گئے۔ ڈومنی کا ذکر غالب کے ایک خط میں صرف ڈھائی یا تین سطروں میں ملتا ہے۔ اس کی بنیاد پر منٹو کے افسانہ طراز ذہن نے فلم مرزا غالب کے لیے ہیروئن فراہم کر دی تھی۔”
پتا نہیں صادق ٹی وی سیریل ”مرزا غالب” (1988) کے ضمن میں گلزار کا نام لینے سے کیوں جھجکے ہیں جبکہ ہدایت کے علاوہ کہانی، اسکرین پلے اور مکالمے سب انھی کے لکھے ہوئے تھے۔ کیفی اعظمی کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ریسرچ ورک میں وہ گلزار کے معاون رہے تھے۔ فلم ”مرزا غالب” (1954) کی کہانی منٹو نے ضرور لکھی تھی لیکن اسکرین پلے اور مکالمے بالترتیب جے کے نندا اور راجندر سنگھ بیدی نے تحریر کیے تھے۔ دو ڈھائی سطر کی حیثیت رکھنے والی مجہول الاحوال ستم پیشہ ڈومنی کے کردار کو مرزا غالب کی زندگی میں مرکزی اہمیت دلانے کا سہرا ان سبھی نامی گرامی ادیبوں کے سر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر غالب کی زندگی کے معتبر تاریخی حوالوں اور ان کے خطوط یا ان کے نام لکھے گئے خطوط کو اس تناظر میں کھنگالا جائے تو یہ ڈومنی بذات خود غالب کا اختراع کردہ فرضی کردار محسوس ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
صادق نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا ہے کہ غالب پر لکھے گئے ڈراموں میں تاریخی اعتبار کو مجروح کرنے کی مثالیں نہیں ملتیں۔ خود صادق نے اپنے ڈرامے میں اس کا خیال رکھنے کی حتی المقدور سعی کی ہے۔ پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”اس شکل سے گزری غالب میں جو واقعات پیش کیے گئے ہیں وہ بھی حقیقت سے بعید نہیں ہیں۔ میں نے ڈرامائی ضرورتوں کے تحت حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے یا محض دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کچھ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس ڈرامے میں کوئی ہیروئن نہیں۔ یہ مرتبہ امراؤ بیگم ہی کو حاصل ہے۔ البتہ مرزا افضل بیگ کی شکل میں ایک ولین ضرور موجود ہے جو غیر حقیقی نہیں۔ اسی طرح سوئن ٹن اور ہنری کے کردار بھی غیرحقیقی نہیں ہیں۔ یہاں یہ لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ زیر نظر ڈرامے کی تشکیل میں غالب سے متعلق ان دستاویز سے بھی مدد لی گئی ہے جو نیشنل آرکائیوز، نئی دہلی میں محفوظ ہیں۔”
”اس شکل سے گزری غالب” کو دہلی اردو اکادمی کے ڈراما فیسٹول میں اسٹیج ہونے کے ساتھ ہی قبولیت عام حاصل ہو گئی تھی۔ کتابی شکل میں چھپنے سے پہلے ڈرامے کے چند ابواب ہندوستان کے کئی موقر ادبی پرچوں میں شائع ہو کر قارئین سے داد و تحسین بٹور چکے تھے۔ کتاب کے شائع ہوجانے کے بعدجہاں اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا وہیں ناقدین و مبصرین نے بھی اسے خوب سراہا۔ انتخاب حمید اپنی تازہ ترین کتاب ”اصنافِ ادب اور صادق” میں لکھتے ہیں:
”ڈراما ‘اس شکل سے گزری غالب’ صادق کی کثیر جہتی تخلیقیت کی ایسی مثال ہے جو ڈرامے کے فارم اور اس کی پیش کش سے ان کی واقفیت اور اس صنف کے تئیں ان کے خالص فنی اور non-compromising رویے کی تصدیق فراہم کرتی ہے۔ ڈرامے کو قبولیت سے ہم کنار کرنے کے لیے انھوں نے تاریخی حقائق اور کرداروں کی تعمیر و تصویر کشی میں کہیں کوئی مصالحت نہیں کی۔ ”
”اس شکل سے گزری غالب” میں ہمزاد کے سوا سارے کردار اپنا تاریخی وجود رکھتے ہیں جن کی تفصیل صادق نے اس طرح درج کی ہے:
مرزا غالب: عمر 29 برس (بعد کے منظروں میں کچھ بڑھتی عمر، اخیر میں 70 سے زیادہ)
مرزا یوسف: غالب کا چھوٹا بھائی جو دیوانہ ہو چکا ہے ۔
ہمزاد: غالب کا ہم عمر۔ حلیہ بھی غالب جیسا لیکن چغہ آدھا سیاہ اور آدھا سفید
رائے چھجمل: غالب کا ہم عمر دوست، سر پر پگڑی
سبحان علی خاں: پچاس سالہ لکھنوی بزرگ
نیاز حسین: چالیس بیالیس سالہ ایک لکھنوی شخص
امراؤ بیگم: مرزا غالب کی بیوی، عمر27 برس (آخری منظر میں 70 کے قریب)
سائمن فریزر: انگریز افسر، عمر پچاس برس کے قریب
غالب کی والدہ: ایک باوقار خاتون، سر کے بال اور کپڑے سفید
مرزا افضل بیگ: ادھیڑ عمر ایک گھاگ آدمی ۔ چہرے پر بڑی مونچھیں
عبدالکریم: ادھیڑ عمر کا ایک شخص
سوئن ٹن: برٹش حکومت کا چیف سکریٹری، عمر پچاس پچپن برس
ہنری: سوئن ٹن کا ماتحت انگریز افسر، عمر پچاس برس
مداری خان اور نصیب خاں: غالب کے خادم، عمر چالیس کے اوپر
دیگر: صرف پہلے منظر میں دس بارہ افراد
پہلے منظر میں دکھائی دینے والے دس بارہ افراد کا تعلق غالب کے خواب سے ہے۔ ہمزاد ایک اختراعی کردار ہونے کے باوجود ان معنوں میں حقیقی ہے کہ اس کے امکانی وجود کی تصدیق نصوصِ شرعیہ سے ہوجاتی ہے۔ مثلاً صحیح مسلم کی ایک روایت میں منقول ہے:
مامنکم من احد، الاوقد وکل بہ قرینہ من الجن وقرینہ من الملائکة
ترجمہ:تم میں سے ہر شخص پر ایک ساتھی جنوں میں سے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے مقرر کردیا گیا ہے۔
شارحین نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ اس کے دو ہمزاد پیدا ہوتے ہیں؛ ایک ہمزاد جنوں میں سے جس کا نام ”وسواس” ہے اور یہ انسان کو برائی کی ترغیب دیتا رہتاہے۔ دوسرا ہمزاد فرشتوں میں سے، جس کا نام ”ملہم” ہے اور یہ انسان کو بھلائی کی ترغیب دیتا ہے۔ صادق نے ملہم کو ڈرامے کا کردار بنا کر پیش کیا ہے اور کیا خوب پیش کیا ہے۔ فلمی اصطلاح میں آپ اسے ہیرو کے ڈبل رول کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
غالب کے خطوط میں، ایاز، کلیان (کہار)، مداری خان، نیاز علی (پسر مداری خان)، وفادار اور کالے خان (عرف کلو داروغہ) کا ذکر تو ملتا ہے البتہ نصیب خان نام کے کسی خادم کے بارے میں مَیں نے نہیں پڑھا لیکن صادق نے اسے کرداروں کی فہرست میں شامل کیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس نام کا کوئی خادم ضرور رہا ہو گا۔
”اس شکل سے گزری غالب” میں کرداروں کی پیشکش، مکالموں کی برجستگی، اسٹیج کی منظر کشی، مناظر اور واقعات کی مربوط ترتیب و ترقی متاثر کن ہے لیکن ان اجزائے ترکیبی کے علاوہ تاریخی ڈرامہ نگار کو تحقیق و تدقیق کے جن مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صادق نے انھیں بھی بخوبی طے کیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ انھوں نے ماضی کے جن ادوار اور مقامات کو منتخب کیا ہے، وہاں کی ثقافت، سیاست، معاشرتی معمولات، اہم تاریخی واقعات و تصادمات وغیرہ کے بارے میں بہت باریک بینی سے تحقیق کی ہے۔ حقیقی تاریخی شخصیات کے علاوہ خود اختراعی کردار یا حقیقی تاریخی واقعات کے علاوہ خود اختراعی واقعات کو اس سلیقے سے برتا ہے کہ اصل تاریخی حقائق مسخ نہیں ہوئے ہیں۔ مکالموں کی زبان منتخب تاریخی دور کے مطابق استعمال کی ہے لیکن ایسی بھی پرانی نہیں ہے کہ جدید سماعتوں پر دشوار گزرے۔ کرداروں کے لباس اور وضع قطع کا بیان منتخب تاریخی ماحول کی واضح تصویر بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ ہمزاد کے چغے کو آدھا سیاہ اور آدھا سفید دکھایا گیا ہے تاکہ غالب کے کردار سے الگ پہچانا جا سکے۔ ایک ڈرامہ نگار کے طور پر صادق کی کامیابی ان کی شاندار کہانی گوئی اور کرداروں کی بھرپور نشوونما میں مضمر ہے۔ اگرچہ ڈرامہ” پڑھاؤ نہیں بلکہ دکھاؤ” کے اصول پر لکھا جاتا ہے پھر بھی ہے تو narrative fiction ہی اس لیے اس میں فصاحتِ زبان کی اپنی اہمیت ہے اور صادق نے اس کا خاص خیال رکھا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس ڈرامے کا ان لفظوں میں اعتراف حق بجانب ہے کہ ”صادق کا یہ جاں گداز ڈرامہ یونانی المیے کی عظمت کو مس کر رہا ہے۔”
البتہ اس ڈرامے کو پڑھتے ہوئے مجھے کچھ باتیں خلافِ واقعہ محسوس ہوئیں جو زیرِ نظر تحریر کے معرضِ وجود میں آنے کا باعث بنی ہیں۔
(1) ڈرامے کے پہلے منظر میں (صفحہ 5) مرزا غالب فیروز پور جِھرکہ میں نواب احمد بخش کے گھر مہمان ہیں اور اپنے ہمزاد سے محوِگفتگو ہیں۔ ہمزاد کی نصیحت آمیز باتوں سے ناراض ہو کر کہتے ہیں: تم جیسے دوستوں کے لیے ہی تو میں نے کہا ہے،
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
مرزا غالب کا فیروز پور جِھرکہ میں اس قیام کا زمانہ 1825 کے وسط سے 1826 کے اوائل کا ہے جبکہ نسخۂ رضا میں اس شعر (غزل: یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا) کا سالِ فکر ”بعد از 1847) درج ہے۔
(2) دوسرے منظر میں (صفحہ 11) فیروز پور جِھرکہ کے اسی مکان میں مرزا غالب اپنے دوست رائے چھجمل سے گفتگو کے دوران کئی مرتبہ اپنے چچا مرزا نصر اللہ بیگ خاں کو والیِ فیروز پور جِھرکہ، جاگیردار لوہارو نواب احمد بخش خاں کا داماد بتاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ نواب صاحب کے بہنوئی تھے۔ میرا خیال ہے کہ صادق کے مد نظر مرزا غالب کی اُس عرضداشت کا انگریزی ترجمہ رہا ہے جو غالب نے 28 اپریل 1828 کو گورنر جنرل کے نام در زبانِ فارسی پیش کی تھی۔ کونسل کے عہدیداروں نے فارسی میں لکھی اس عرضداشت کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بعد 2 مئی 1828 کو داخل دفتر کیا تھا۔ اس انگریزی ترجمے میں مترجم نے سہوا ًمرزا نصر اللہ بیگ خاں کو نواب احمد بخش خاں کا داماد (son-in-law) لکھا ہے۔ مالک رام نے یہ انگریزی عرضداشت انڈیا آفس لائبریری، لندن سے حاصل کی تھی اور پھر اردو میں ترجمہ کر کے ماہنامہ ”آجکل”، نئی دہلی کے فروری 1963 کے شمارے میں شائع کروائی تھی۔ یہی ترجمہ ”افکار”، کراچی کے غالب نمبر (فروری-مارچ 1969) میں بھی ڈائجسٹ ہوا تھا۔ پھر جنوری 1977 میں مالک رام نے اسے اپنی کتاب ”فسانۂ غالب” میں شامل کرلیا تھا۔ مالک رام نے حاشیے میں وضاحت کر دی تھی کہ انگریزی عبارت میں ”بہنوئی ”کے بجائے ”داماد” تحریر ہے جو ظاہر ہے کہ ترجمے کی غلطی ہے۔ نیشنل ڈاکومنٹیشن سینٹر، پاکستان کے انچارج میاں محمد سعد اللہ نے 1973 سے 1978 کے درمیان پنجاب آرکائیوز ڈیپارٹمنٹ آف لاہور، نیشنل آرکائیوز آف نئی دہلی اور انڈیا آفس لائبریری آف لندن کے ذخائر سے مرزا غالب کی خاندانی پنشن سے متعلق 156 انگریزی و فارسی اسناد و دستاویزات جمع کی تھیں۔ اس وقت یہی 28 اپریل 1828 کی عرضداشت (در زبان انگریزی) انھیں نیشنل آرکائیو آف نئی دہلی سے حاصل ہوئی تھی۔ مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد نے نیشنل ڈاکومنٹیشن سینٹر کے اشتراک سے 1997 میں ان سبھی اسناد و دستاویزات کو مع اردو ترجمہ کتابی شکل میں ”غالب کی خاندانی پنشن اور دیگر امور : سرکاری اسناد و دستاویزات (1805 تا 1869)” نام سے شائع کیا تھا۔ مالک رام کے اردو ترجمے کے مقابلے میں اس کتاب میں شامل ترجمہ زیادہ سلیس ہے جو سید محمد عارف نے انجام دیا ہے اور انھوں نے بھی حاشیے میں مذکورہ غلطی کی وضاحت کر دی ہے۔
(3) ڈرامے کے تیسرے منظر میں (صفحہ 17) بادشاہ اودھ کی مدح میں قصیدہ لکھنے سے انکار کرتے ہوئے مرزا غالب کا یہ مکالمہ ادا کرنا خلافِ واقعہ ہے کہ ”اپنی غرض کے لیے اہلِ اقتدار کی جھوٹی تعریفیں کرنی مجھے پسند نہیں۔ میں یہ نہیں کروں گا۔” ہم سبھی واقف ہیں کہ مرزا غالب اپنے مفادات کی خاطر تمام عمر صاحبِ اقتدار اور صاحبِ اثر افراد کی شان میں قصیدے لکھتے رہے۔ یہ اس زمانے کے شعرا کا عام چلن تھا اس لیے اس قباحت سے ڈرامے کے ہیرو کو بچانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اکثر قصیدوں میں تشبیب کے اشعار کی تعداد مدح کے اشعار کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی پنشن کے معاملے کو سلجھانے کے لیے اسی سفر کلکتہ کے دوران مرزا غالب نے کونسل کے ایک اعلیٰ عہدیدار اینڈریو اسٹرلنگ (Andrew Sterling) کی مدح میں پچپن اشعار پر مشتمل ایک قصیدہ لکھا تھا جس کے آخری اشعار میں اپنی غرض بھی بیان کر دی تھی۔ ڈرامے کے موضوع سے متعلق ہونے کے باوجود صادق اس قصیدے کے ذکر سے صرفِ نظر کر گئے ہیں۔ مرزا غالب نے اپنی زندگی میں ساٹھ سے زائد قصیدے لکھے تھے۔ ان کا آخری مطبوعہ قصیدہ بہادر شاہ ظفر کی مدح میں ہے۔
(4) لکھنو کے اسی منظر میں (صفحہ 19) مرزا غالب دو لکھنوی دوستوں سے گفتگو کرتے ہوئے معتمد الدولہ آغا میر کی مدح میں لکھے ہوئے قصیدے کے تین اشعار سناتے ہیں:
لکھنو آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوسِ سیر و تماشا ، سو وہ کم ہے ہم کو
مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو
لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
یہ قصیدے کے اشعار نہیں ہیں بلکہ لکھنو میں لکھی ایک غزل کے ہیں۔ یہ غزل دیوانِ غالب کے نسخۂ شیرانی میں صفحہ 56 الف کے حاشیے پر درج ہے۔ نسخۂ شیرانی 1826 میں تیار ہو گیا تھا لیکن سفر کلکتہ کے دوران جو غزلیں مرزا غالب بھیجتے رہے، انھیں بعد کے زمانوں میں کاتب حاشیوں میں درج کرتا رہا۔ نسخۂ شیرانی میں اس غزل کے آخری تین اشعار کو ”قطعہ” بناکر تخصیص کی گئی ہے جس کا پہلا اور تیسرا شعر تو وہی ہیں جو مذکورہ بالا قطعے کے ہیں لیکن دوسرا شعر مختلف ہے:
طاقتِ رنجِ سفر بھی نہیں پاتے اتنی
ہجرِ یارانِ وطن کا بھی الم ہے ہم کو
یہ بھی واضح ہو کہ دیوانِ غالب جدید (المعروف بہ نسخۂ حمیدیہ، مرتبہ مفتی محمد انوار الحق) میں آخری شعر ترمیم شدہ ہے:
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
(5) لکھنو کے اسی منظر میں (صفحہ 21) لکھنوی دوستوں سے گفتگو کرتے ہوئے مرزا غالب ایک غزل کے دو اشعار (مطلع و مقطع) سناتے ہیں:
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
ہے گریباں ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں
تھی وطن میں شان کیا غالب کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلف ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں
اور حقیقت یہ ہے کہ مرزا غالب نے یہ غزل اسی سفر میں لیکن لکھنو سے آگے کے پڑاؤ یعنی باندہ میں کہی تھی۔ یہ غزل بھی نسخۂ شیرانی کے صفحہ 43 الف کے حاشیے پر ”از باندہ رسید” کے زیرِ عنوان درج ہے یعنی 1827 میں باندہ سے موصول ہونے کے بعد اس غزل کو اصل نسخے کے حاشیے میں درج کیا گیا تھا۔ صغیر افراہیم نے اپنی قابل قدر تحقیقی کتاب ”غالب، باندہ اور دیوانِ محمد علی” کے ایک مضمون ”باندہ کے تعلق سے غالب کا شعری سرمایہ” میں اس غزل کو نقل کیا ہے۔ صالحہ بیگم قریشی نے اپنی کتاب ”غالب اور باندہ” میں اس مطلع کا تجزیہ کرتے ہوئے غالب کے مرض بوالدم (بول الدم؟/ پیشاب میں خون کا آنا، hematuria) کا ذکر کیا ہے۔
(6) ڈرامے کے پانچویں منظر میں (صفحہ 33) دکھایا گیا ہے کہ کلکتہ میں مرزا غالب کو دو خطوط موصول ہوتے ہیں۔ ایک ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف بیگ خاں کا اور دوسرا ان کی والدہ عزت النسا بیگم کا۔ اسی منظر میں جستِ ماضی (flashback) تکنیک کے ذریعے غالب کی والدہ کو دِلی کے ایک پرانے کمرے میں خط لکھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان دو خطوط کی تفصیل مرزا غالب نے محمد علی خان کے نام ایک فارسی خط میں لکھی ہے۔ یہ خط سید اکبر علی ترمذی کی مرتب کردہ کتاب ”نامہ ہائے فارسی غالب” میں شامل ہے۔ فارسی عبارت پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ خط مرزا غالب کی والدہ نے نہیں بلکہ ان کی بیوی امراؤ بیگم نے لکھا تھا۔ فارسی عبارت اس طرح ہے: ”چوں بہ خود آمدم، خود را گرد آوردم و بہ دیدن خطِ خانگی پرداختم”۔ یہاں مترجم حضرات نے ”خطِ خانگی” سے مراد مرزا غالب کی بیوی امراؤ بیگم کا خط ہی لیا ہے۔ مثلاً پرتو روہیلہ اس عبارت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں: ”جب ذرا ہوش میں آیا تو میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنی خانم کے خط کی طرف توجہ دی۔”
(7) چھٹے منظر میں (صفحہ 38) عبد الکریم کا ایک مکالمہ ہے کہ ”اسد اللہ جیت پور علاقے (کذا؟) میں رہتا ہے جہاں انگریز یا اونچے طبقے کے ہندوستانی ہی بستے ہیں۔” یہاں بھی ڈرامہ نگار سے کچھ تسامح ہوا ہے۔ مرزا غالب کے خطوط میں کلکتہ میں قیام کے دو مختلف پتے ملتے ہیں۔ ایک ”نزِد شِملہ بازار و تالاب گرو” اور دوسرا ”نزِد چِت پور بازار” (Chitpur Bazar )۔ مکانوں کے کرایے بھی بعض خطوط میں چھ روپے ماہانہ اور بعض میں دس روپے ماہانہ تحریر ہیں۔ شملہ بازار کا نام کلکتہ کے حالیہ نقشے میں شِملہ اسٹریٹ ہے۔ شِملہ اسٹریٹ کے قریب ہی تالاب گرو ہے جس کا نام بدل کر اب آزاد ہند باغ کر دیا گیا ہے۔ شملہ اسٹریٹ سے تقریبا دو کلو میٹر کے فاصلے پر چِت پور علاقے میں چِت پور بازار آج بھی موجود ہے۔ غالب کے محققین کے مطابق شملہ اسٹریٹ کے قریب بیتھون رو (Bethune Row) میں واقع گھر نمبر 133 ہی مرزا علی سوداگر کی وہ عالیشان حویلی ہے جہاں مرزا غالب دس روپے ماہانہ کرایہ ادا کرتے تھے۔ ممکن ہے قیام کے آخری دنوں میں مالی تنگدستی کے سبب چِت پور علاقے میں چھ روپے ماہانہ کرایے والے کسی چھوٹے مکان میں منتقل ہوئے ہوں لیکن اب تک اس دوسرے مکان کی کوئی نشاندہی نہیں ہو پائی ہے۔ صادق بھی ڈرامے میں کئی بار دکھاتے ہیں کہ کلکتہ قیام کے آخری دنوں میں مالی پریشانیوں کی وجہ سے مرزا غالب کا جینا دشوار ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ گھوڑا بھی فروخت کرنا پڑا اور اس سے جو روپے ملے تھے وہ بھی رفتہ رفتہ ختم ہونے لگے تھے۔ آج کلکتہ میں مرزا غالب اسٹریٹ بھی ہے لیکن مرزا غالب کے دورہ ٔکلکتہ سے اس کا کوئی راست تعلق نہیں ہے۔
(8) صفحہ 38 پر ہی منشی عبدالکریم کے ایک مکالمے سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ مرزا غالب کے کلکتہ دورے کے زمانے میں یعنی 1828 میں مرزا افضل بیگ، شاہ عالم ثانی کے وکیل کی حیثیت سے کلکتہ میں مقیم تھے لیکن یہ کیسے ممکن ہے جبکہ شاہ عالم ثانی 1806 میں وفات پا گئے تھے اور 1828 میں ان کے بیٹے اکبر شاہ ثانی تخت نشین تھے۔
(9) ڈرامے میں مرزا افضل بیگ اور منشی عبد الکریم کو ہمیشہ شراب نوشی میں مگن دکھایا گیا ہے جبکہ ان صاحبان کا شرابی ہونا مصدقہ بھی نہیں ہے۔ یہ کچھ اٹ پٹا سا لگتا ہے، بالی ووڈ کی پرانی فلموں کی طرح، جن میں وِلین ہمیشہ شرابی کبابی ہوتے ہیں اور ہیرو فرشتہ صفت۔ مزے کی بات یہ کہ پورے ڈرامے میں یا یوں کہیے کہ پورے دورۂ کلکتہ میں مرزا غالب نے شراب چکھی تو کیا سونگھی بھی نہیں ہے۔
تو یہ ہیں وہ چند معروضات جن کا اظہار مجھے اس لیے ضروری محسوس ہواکہ اگر ان میں سے ایک دو بھی درست نکل آتے ہیں تو ”اس شکل سے گزری غالب” کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت کے وقت زیرِ غور رکھے جاسکتے ہیں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں