محمد اشرف یاسین
(ریسرچ اسکالر، دہلی یونیورسٹی)
ڈاکٹر سید عینین علی الحق محنتی، جفا کش، سلجھے ہوئے صحافی اور ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اُردو اخبارات سے کیا۔ کئی برسوں تک روزنامہ "صحافت” (دہلی) سے منسلک رہے۔ پھر ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد میں بھی رہے۔ فی الحال اُردو نیوز چینل عالمی سہارا کے ایسوسی ایٹ پروڈیوسر ہیں۔
زیرِ نظر کتاب میں کل تیس(30) علمی و ادبی اور سیاسی شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں۔ پہلا انٹرویو منور رانا کا ہے جو 2012 میں روزنامہ "سیاسی تقدیر”(دہلی) کے لیے کیا گیا تھا۔ اکثر و بیشتر انٹرویوز 2014 سے 2016 کے دوران روزنامہ "صحافت” میں شائع ہو چکے تھے، جبکہ حسن ضیاء، خالد جاوید اور پروفیسر شہزاد انجم کے انٹرویو 2022 میں کتاب میں شامل کرنے کی غرض سے لیے گئے ہیں۔ گویا یہ تینوں انٹرویو بالکل نئے ہیں، جو پہلی مرتبہ اسی کتاب میں شائع ہوئے ہیں۔
سبھی انٹرویوز جامع اور معلومات افزاء ہیں۔ کتاب میں انہیں حروفِ تہجی کی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ انٹرویوز میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ خانہ پوری والے سوالات سے گریز کیا جائے۔ باقاعدہ انٹرویو سے قبل انٹرویو دینے والوں کا تعارف درج کردینے سے کتاب کی اہمیت افادیت اور معنویت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ حقانی القاسمی کی شاملِ کتاب تحریر "درونِ ذات کا عکس نامہ” پڑھنے سے انٹرویو نگاری کی روایت پر روشنی پڑتی ہے اور اس میں تقریباً تیس(30) کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اطہر فاروقی کتاب "گفتگو” اور ڈاکٹر رمیشا قمر کی کتاب "بات کرکے دیکھتے ہیں” اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ مالک اشتر کا مضمون "انٹرویو کا فن اور سید عینین علی حق” عینین بھائی کی انٹرویو نگاری کی انفرادیت کو بیان کرتا ہے۔ "پیشِ گفتار” کے تحت عینین بھائی نے سولہ (16) صفحات پر مشتمل انٹرویو نگاری کی تاریخ، اس کے اصول و ضوابط پر عمدہ گفتگو کی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
کتاب میں جن اصحابِ علم وفن کے انٹرویو شامل ہیں ان کی بنیاد پر ہم ان انٹرویوز کو کئی زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ جیسے پروفیسر ابن کنول، پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر انور پاشا، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر صادق، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر علی جاوید، پروفیسر محمد کاظم وغیرہ کی گفتگو کو ہم اکیڈمک انٹرویو کہہ سکتے ہیں، جبکہ اسلم پرویز، اطہر فاروقی، حسن ضیاء وغیرہ سے بات چیت کو صحافتی انٹرویو کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح سے ترنم ریاض، خالد جاوید اور فہمیدہ ریاض کے انٹرویو کو فکشن پر مبنی انٹرویو کی فہرست میں شامل کرسکتے ہیں، گلزار دہلوی، ماجد دیوبندی اور منور رانا کی باتوں کو ہم شاعری کے انٹرویوز کہہ سکتے ہیں۔ نجمہ ہپت اللّٰه کا انٹرویو خالص سیاسی نوعیت کا ہے۔ اس طرح کا متنوع اور رنگارنگ انٹرویوز کا نگار خانہ سجانا اپنے آپ میں بہت دلچسپ عمل ہے، جو لکھنے اور پڑھنے والے دونوں لوگوں کو یکساں حظ بہم پہنچاتا ہے۔
اس کتاب کو ایم آر پبلیکیشن(عبد الصمد دہلوی) نے شائع کیا ہے۔ کتاب کا ٹائٹل وسیم احمد(خطاط) نے تیار کیا ہے۔ یہ بہت ہی خوبصورت اور دلکش و دیدہ زیب ہے۔ اس کتاب کے لیے عینین بھائی کو ڈھیروں مبارک
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں