کامران غنی صبا
صدر شعبۂ اردو
نتیشور کالج، مظفرپور
سارے جہاں کا درد سمیٹ لینے کا دعویٰ تو کوئی بھی کر سکتا ہے لیکن احساسِ درد کو ہو بہ ہو ایک دل سے دوسرے دل میں منتقل کر دینا فنکار کا ہی خاصہ ہے۔یہی احساسِ درد، ادب بالخصوص افسانوی ادب کی اثاث بھی ہے اور میراث بھی۔ احساسِ ذات سے احساسِ کائنات کا سفر اتنا ہی مشکل ہے جتناخود سے خودی کا سفر۔ ایک طبیب مریض کے دل کا حال سمجھ سکتا ہے، اس سے ہمدردی کر سکتا ہے لیکن مریض کے دل پر کیا گزر رہی ہے اس کیفیت کا ادراک وہ کسی کو کروا نہیں سکتا۔ ایک ماہر نفسیات، نفسیاتی مسائل کو سمجھ سکتا ہے، سمجھا سکتا ہے لیکن مختلف نفسیاتی مسائل کو ہو بہ ہو کسی کی روح میں داخل کروانااس کے بس کا روگ نہیں۔ یہ وہ ملکہ ہے جو فنکارِ ازل کسی کسی کو عطا کرتا ہے۔ جسے یہ ملکہ عطا ہوتا ہے وہ مصوری، موسیقی، شاعری، رقص اور سنگتراشی کے ذریعہ احساس کو مجسم کرتا ہے۔ افسانہ بھی ایک قسم کی مصوری ہی ہے، جہاں احساس کو مجسم کیا جاتا ہے۔ یہ احساسات ذاتی بھی ہو سکتے ہیں اور کائناتی بھی۔معمولی بھی ہو سکتے ہیں، غیر معمولی بھی۔ یہاں غور کرنےکی بات بس اتنی ہے کہ احساس کی مصوری کتنی اوریجنل ہے؟ اس سوال کا جواب "قطرہ قطرہ احساس” کا قاری باآسانی دے سکتا ہے۔
"قطرہ قطرہ احساس” معروف افسانہ نگار اور سہ ماہی "ثالث” کے مدیر اقبال حسن آزاد کا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس افسانوی مجموعہ کی اشاعت 1987میں ہوئی تھی۔ 2024 میں اس کا دوسرا ایڈیشن ترمیم و اضافہ کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے۔ اِس افسانوی مجموعہ میں کل 30 افسانے شامل ہیں۔ ہر افسانے کے بطن میں "احساس” کے اتنے قطرے ہیںکہ انہیں یکجا کر دیا جائے تو احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جذبات کے نہ جانے کتنے جزیروں کو بہا لے جائے۔
"قطرہ قطرہ احساس”اس افسانوی مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے۔ "ڈاکٹر صاحب” اس افسانے کا مرکزی کردار ہیں۔ اقبال حسن آزاد کا کمال ہے کہ وہ کرداروں کے نام کے ذریعہ ،اورکبھی مختصر مکالموں اور انتہائی مختصر بیانیوں میں وہ باتیں بھی بتا جاتےہیں جو متن میں کہیں براہ راست طور پر نہیں آتیں اور یہی کمال اُن کے افسانوں کا حُسن بن جاتا ہے۔ مذکورہ افسانہ میں ڈاکٹر کا کردار کہیں اپنے ماضی کو نہیں کھولتا لیکن یہ بات از خود واضح ہے کہ ایک ڈاکٹر جو اپنی عمر کی آخری منزلوں میں داخل ہو چکا ہے ،اُس نے نہ جانے کتنےمریضوں کےدکھ درد کا مداوا کیا ہوگا ۔ کتنے مایوس لبوں پر تبسم بکھیرے ہوں گے لیکن آج عمر کے آخری حصے میں وہ خود ایک مہلک مرض کا شکار ہے۔اور وہ مرض ہے "مرضِ تنہائی”۔یہ افسانہ اپنے موضوع کے اعتبار سے نیا نہیں ہے۔ شفیع جاوید کا افسانہ "بھولے بسرے گیت” بھی اسی نوعیت کا افسانہ ہےلیکن احساس کی شدت اقبال حسن آزاد کے یہاں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
افسانہ "آگہی”ایک کم عمر بچے کے احساس کی درد بھری کہانی ہے۔ "بابو” کی عمر کوئی آٹھ نو سال کی ہے۔ غربت کی وجہ سے”بابو”کی ماں اُسے اپنی بہن مسز جاوید کے یہاں چھوڑ دیتی ہیں۔مسز جاوید بچے کا کس طرح استحصال کرتی ہیں اس کا اندازہ درج ذیل عبارت سے لگایا جا سکتا ہے:
"کہاں تھے لاٹ صاحب! یہ وقت ہے چائے لانے کا؟مسز جاوید نے اُسے خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔
جی وہ بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔
بات کے بچے کان کھول کر سن لو۔ اگر آئندہ کبھی دیر ہوئی تو چمڑی اُدھیڑ کر رکھ دی جائے گی، سمجھے؟”
بابوؔ پر کام کا اس قدر بوجھ ڈالاگیا تھا کہ رات کو سوتے سوتے اچانک وہ چونک کراٹھ بیٹھتا تھا۔صبح ہونے کا خوف اُس کبھی چین کی نیند نہیں سونے دیتا تھا ۔ اپنی خالہ کے یہاں اذیت کے دن گزارنے کے باوجود ننھی سی عمر میں ہی وہ اتنا باشعور ہو چکا تھا کہ اسے اپنی ماں کی مجبوریاں سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ چنانچہ ایک دن جب اس کی ماں اپنی بہن کے گھر آئی اور اُس نے اپنے بیٹے کی حالت دیکھی تواُس کے کچھ بولے بغیر ہی وہ سب کچھ سمجھ گئی۔جب اُس نےاپنے بیٹے سے واپس گھر چلنے کو کہا تو بیٹے نے صاف جھوٹ بول دیا۔
"نہیں ماں میں تو بہت مزے میں ہوں،میں نہیں جاؤں گا۔”
نو سال کے کم سن بچے کی اِس آگہی کا ماں پر کیا اثر ہوا، اس کا اندازہ افسانے کی اختتامی عبارت سے لگایا جا سکتا ہے:
"ماں مجھے یہیں رہنے دو نا۔” اور اس کی ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل کر تکیے میں جذب ہونے لگے۔ اُس کی ماں کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کا بابو اب بچہ نہیں رہا، بڑا ہو گیا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے، سب کچھ سمجھتا ہے۔ اور رات کے اندھیرے میں ماں بیٹے کی سسکیاں گونجتی رہیں۔”
افسانہ "فوجی” میں ڈاکو اور فوجی کے کردار کی یکسانیت کو بہت ہی ہنرمندی سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈھائی صفحے کے اِس مختصر سے افسانے کو پڑھنے کے بعد قاری یہ سوچنے پرمجبور ہوتاہے کہ جس طرح ایک فوجی اعزازات وانعامات کے لیے دشمنوں کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرتاہے، اُن کی ماں بہنوں کی عزت سے کھیلتا ہے، اُسی طرح ایک ڈاکو چند پیسوں کی لالچ میں انسانیت کو تار تار کر دیتا ہے۔ فوجی کی سفاکیت ملک کے نام پر ہوتی ہے،اس لیے اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےجبکہ ایک ڈاکو سماج کے کسی بھی طبقے میں قابلِ قبول نہیں ہوتا۔
بھوک کو موضوع بنا کر بے شمار افسانے لکھے گئے۔ بھوک کو تمام برائیوں کی ماں تک کہا گیا ۔ پریم چند کے کردار گھیسوؔ اور مادھوؔ کسے یاد نہیں جو ایک عورت کو دردِ زہ سے تڑپتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں لیکن اِن میں سے کوئی ایک اُسے صرف اِس وجہ سے دیکھنے نہیں جاتا کہ اگر کوئی ایک چلا گیا تو دوسرا بھنے ہوئے آلو کھا جائے گا۔ گھیسوؔاور مادھوؔ پسماندہ اور ٹھکرائے ہوئے سماج کی نمائندگی کرتے ہیں شاید اسی لیے ان کا کردار بھی اسی طرح تخلیق کیاجاتا ہے جو مرنے والے کے نام پرپیسے جمع کرے، ان پیسوں سے عیاشی کرے اور مرنے والے کی روح کو دعائیں دے کر چلتا بنے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پریم چند نے اپنے افسانے "کفن” میں سماج کے اُس رویے پر بھی طنز کیا ہے جو گھیسوؔ اور مادھوؔ پیدا کرتے ہیں ۔ اقبال حسن آزاد کا افسانہ "کارِ جہاں دراز ہے” اس لحاظ سے منفرد افسانہ ہے کہ یہاں انھوں نے واحد متکلم کے طور پر ایلیٹ کلاس کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔
اکیسویں صدی کی برق رفتار ترقی نے جہاں انسان کو بہت ساری سہولتیں عطا کی ہیں وہیں انسان سے اُس کی انسانیت چھین لی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی سے قتل و خون، فسادات، گروہی اور ملکی تصادم اور دہشت گردانہ واقعات کے اندوہناک مناظر اتنے عام ہو چکے ہیں کہ ہمارا احساس مفلوج ہو چکا ہے۔ نوجوان اور کم عمر بچوں پر اس کے جو منفی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اُس کی بھرپور عکاسی افسانہ "ہتیا” میں کی گئی ہے۔ پانچ سالہ وکرم کے گھر میں جب اُس کے والد کے دوست کی فیملی کچھ دن کے لیے قیام کرتی ہے تو وکرم کے معصوم ذہن میں اُن کے تئیں کس قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اس کا اندازہ افسانے کے اختتامی مکالمے سے لگایا جا سکتا ہے:
ہاں بیٹے!
اور آنٹی اور پنکی، پپو بھی؟
ہاں، مگر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟
"ممی! مگر یہ گھر تو ہم لوگوں کا ہے نا؟
ہاں۔ میں نے مختصر سا جواب دیا۔
وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر میرے کان کے قریب اپنا منھ لاکر دھیرے سے بولا۔
ممی ان سب کی ہتیا کر دو۔ نہیں تو یہ ہمارے گھر پر قبضہ کر لیں گے۔
ایسا کہتے وقت وکی کی آنکھیں بڑی معصوم دکھائی دے رہی تھیں۔”
"نروان” ایک ایسا افسانہ ہے جس کا اختتامی جملہ دیر تک ہمیں اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ پارو اور شنکر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دونوں کی شادی بھی ہو جاتی ہے۔ شنکر کو کسی جرم کی سزا کے طور پر چھ مہینے جیل کی سزا ہو جاتی ہے۔ جیل سے آنے کے بعد اُسے کہیں کوئی کام نہیں ملتا ہے۔ تنگ آ کر پاروؔ کو گھر سے باہر قدم نکالنا پڑتا ہے۔ وہ شوہراور بچوں کے لیے ملازمت کرتی ہے، اسےایسا محسوس ہوتا ہےکہ اُسے ہر جگہ ہوس ناک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے اور جب ایک دن اس کی عصمت پر حملہ ہو ہی جاتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ جب عزت ہی گنوانی ہے تو شوہر کو کیوں ناراض کیا جائے۔ پنکی جو پارو اور شنکر کی بیٹی ہے اُسے صرف اس وجہ سے اسکول میں داخل کروا دیا جاتا ہے کہ اُس کی موجودگی میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام انجام نہ دیا جائے لیکن یہ راز پنکی پر اس دن فاش ہو ہی جاتا ہے جب وہ اچانک اسکول سے قبل از وقت گھر چلی آتی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ آنگن میں اس کا باپ لیٹا دھوپ سینک رہا ہے اور اُس کی ماں کے کمرے کا دروازہ اندر سے بند ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک اجنبی کمرے کے اندر سے برآمد ہوتا ہے۔ پنکی کم عمر ضرور ہے لیکن اتنی بھی معصوم نہیں ہے کہ حقیقت حال سے ناواقف رہ جائے۔ ایک دن جب پنکی کو شدید بھوک لگتی ہے اور وہ کھانے کے لیے اپنی ماں سے اصرار کرتی ہے تو اسی کی ماں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہتی ہے "بیٹی! آج گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔” ماں کی اِس وضاحت پر پنکی کے اس جبھتے ہوئے سوال پر افسانہ ختم ہو جاتا ہے "کیوں؟ آج کوئی انکل نہیں آئے کیا؟”
"کھوئے ہوئے سال”ایک ناسٹلیجک افسانہ ہے۔ اس افسانہ کو پڑھنے کے بعد کرشن چندر کا افسانہ "پورے چاند کی رات” یاد آتا ہے۔دونوں افسانے کی کہانی تقریباً ایک ہے۔ "کھوئے ہوئے سال ” میں دو محبت کرنے والے جوڑے پچاس برس بعد ایک دوسرے سے ملتے ہیں جبکہ "پورے چاند کی رات میں” اڑتالیس برس بعد ۔ اقبال حسن آزاد کے افسانے میں” نظریے” کا مغالطہ جدائی کی وجہ بنتا ہے جبکہ کرشن چندر کے افسانے میں "نظر” کا مغالطہ ٹوٹ کر محبت کرنے والے دو دلوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتا ہے۔ اقبال حسن آزاد نے اپنے افسانہ "کھوئے ہوئے سال” میں اُس عورت کی آخری عمر کی بے بسی کو دکھایا ہے جس نے دولت و ثروت کی لالچ میں اپنی محبت کا از خود گلا گھونٹ دیا۔ آخر عمر میں اُس کے پاس سب کچھ ہے ، کمی ہے تو محبت کرنے والے ایک شخص کی جو آخری عمر میں اُس کی تنہائیوں کا سہارا بن سکے۔
مذکورہ افسانوں کے علاوہ "قطرہ قطرہ احساس” کے دوسرے افسانے بھی احساس کی سطح کو اس طرح چھوتے ہیںکہ قاری افسانہ پڑھتے پڑھتے ان میں گم ہو جاتا ہے۔ ان افسانوں میں احساسات کو اتنی ہنرمندی سے جگہ دی گئی ہے کہ کہیں افسانہ نگار کا نظریہ جارحانہ یا جانبدارنہ بنتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ اقبالؔ حسن آزاد کے افسانوں کے موضوعات چونکہ بہت ہی گھریلو قسم کے ہیں اس لیے عموماً ان میں کوئی پیچدگی نہیں پائی جاتی ہے۔ ادب کا ایک عام قاری بھی ان افسانوں کی مدد سے زندگی کی گتھیوں تک پہنچ سکتا ہے۔
"قطرہ قطرہ احساس” کے دوسرے ایڈیشن میں کچھ ایسے افسانے بھی شامل ہیں جو پہلے ایڈیشن میں شامل نہیں تھے تاہم وہ افسانے کون سے ہیں اس کی نشاندہی کہیں نہیں کی گئی ہے۔ کچھ افسانے اقبال حسن آزاد کے معیار سے کمتر بھی ہیں۔مثلاً انقلاب، لامکاں، جیل،چھوٹا آدمی وغیرہ۔ ممکن ہے یہ افسانے اقبال حسن آزاد کے ابتدائی زمانے کے ہوں۔ "قطرہ قطرہ احساس” کا پہلا ایڈیشن میری طرح جن قارئین کی نظر سے نہیں گزرا ہوگا اُن کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کون سا افسانہ نیا ہے اور کون پرانا۔
کتاب کا سروق دیدہ زیب ہے۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے اسے شائع کیا ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 250 روپے ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں