پروفیسرکوثرمظہری
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
Cell.: 9818718524
آل احمد سرور نے شعر و ادب کے مختلف گوشے پر خامہ فرسائی کی لیکن اگر انھوں نے کسی ایک موضوع پر سب سے زیادہ لکھا تو وہ ہے ’اقبالیات‘۔ اس سے اقبال کے افکار اور فن شاعری سے ان کے گہرے شغف کا پتہ چلتا ہے۔ اردو کے نقادوں نے ہمیشہ اقبال کے فکر و فلسفے پر زیادہ توجہ کی۔ یہ بھی ہوا کہ ان کی شاعری کے محاسن پر کم گفتگو ہونے کی شکایتیں بھی کی گئیں۔ آل احمد سرور نے بھی اس بحث میں دل چسپی لی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اقبال ایک اہم فلسفی ہیں مگر انھیں بڑا مفکر نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن بلاشبہ وہ بڑے شاعر ہیں اور ان کی جگہ میر اور غالب کی صف میں ہے۔‘‘ (ابتدائیہ، دانشور اقبال، ص 8)
سرور صاحب اقبال کو اہم فلسفی مانتے ہیں مگر بڑے مفکر نہیں۔ ساتھ ہی ان کی جگہ وہ میر اور غالب کی صف میں متعین کرتے ہیں۔ اگر میر، غالب اور اقبال کا موازنہ کرنے کی کوشش کی گئی تو کئی طرح کی پیچیدگیاں اور مشکلیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ تینوں کے زمانے الگ، تینوں کے افکار اور تحفظات الگ۔ البتہ زبردستی کھینچ تان کر تقابل و تسابق کرنا چاہیں تو اور بات ہے۔ میرے خیال سے یہ صف بندی نامناسب بات ہوگی۔
آل احمد سرور نے اقبال شناسی کے باب میں کئی طرح کے اضافے کیے ہیں۔ انھوں نے اقبال کے فکر و فلسفے کے ساتھ ساتھ شاعرانہ عظمت کو بھی نشان زد کرنے کی کوشش کی ہے۔ چوں کہ اقبال کا اپنا ایک سیاسی نظریہ بھی تھا اس لیے سرور صاحب نے اقبال کی سیاسی فکر کو بھی پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے فیض اور فانی سے تقابل بھی کیا ہے۔ اقبال کی معنویت سے بھی ہمیں روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ وہ خود بھی ترقی پسند تھے مگر انھوں نے اقبال سے ایک طرح کا عشق روا رکھا اور ساتھ ہی اقبال کے تئیں ترقی پسندوں کے غلط رویے کو رد بھی کیا۔ انھوں نے ترقی پسندوں کے اس رویے پر طنز کرنے کے لیے ایڈیسن سے متعلق پوپ کی شاعری کا نمونہ بھی پیش کیا جو کہ دل چسپ بھی ہے اور غور طلب بھی۔ نظم کا یہ ٹکڑا دیکھیے:
Dawn with faint praise, assent with civil leer
And without sneering, teach the rest to sneer
Willing to wound and yet afraid to strike
Just hint a fault and hesitate dislike
Alike reserved to blame, or to command
A timerous foe and a suspicious friend
ترجمہ: (اپنے مصرعوں میں دبی زبان سے تعریف کرکے مردود کردینا
شائستہ دزدیدہ نظروں سے اقرار اور خود استہزانہ کرتے ہوئے دوسروں کو
استہزا پر مائل کرنا
زخمی کرنے کو آمادہ مگر وار کرنے سے خائف
کسی خامی کی طرف ہلکا سا اشارہ مگر صاف صاف ناپسندیدگی میں پس و پیش
اعتراض اور تعریف دونوں میں احتیاط
ایک خائف دشمن اور مشتبہ دوست)
اس مثال سے سرور صاحب نے اقبال کے فکر و فن کے تئیں ترقی پسندوں کی دزدیدہ نگاہی پر ایک ضرب سی لگائی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سرور صاحب بڑے فنکار کی تخلیقی قوت اور جودت طبع کے قائل ہیں اور یہ بھی کہ ان کے یہاں کسی بھی نظریے کو لے کر ادعائیت قطعی نہیں۔ انھوں نے اقبال کے حوالے سے لکھا ہے کہ بیشتر نقادوں نے اقبال کے فکر و فلسفے کو اہمیت دی اور شعری حسن کو پس پشت ڈال دیا۔ لیکن خود انھوں نے بھی زیادہ مضامین اقبال کے فکر و فلسفے کے حوالے سے ہی لکھے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کے لیے کسی طرح کی معذرت خواہی کی ضرورت ہے۔ جہاں فکر و فلسفے کی عظمت شاعری پر حاوی ہوگی وہاں گفتگو بھی اسی کی ہوگی اور اس میں حرج بھی نہیں۔ فلسفہ و شاعری کے حوالے سے اقبال نے اپنی ڈائری ’بکھرے خیالات‘ میں لکھا ہے:
’’فلسفہ انسانی تعقل کی برفیلی رات میں کانپتا ہوا جوہر ہے۔ شاعر نمودار ہوتا ہے اور ان کو معروضیت کی حرارت بخش دیتا ہے۔‘‘(بکھرے خیالات، مترجم: عبدالحق، ص 101)
سرور صاحب نے کلیم الدین احمد کی کتاب ’اقبال ایک مطالعہ‘ کی تعریف کی ہے کہ ان کی نظر اقبال کے فن پر مرکوز رہی ہے۔ حالاں کہ مذکورہ کتاب میں بھی جہاں دانتے اور اقبال کا ذکر چھڑ گیا ہے وہاں سو صفحات سے زیادہ فکر و فلسفے پر ہی گفتگو ہوتی گئی ہے۔ دراصل اقبال کے افکار عالیہ سے بچنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔ وہ سلیم ہو کہ کلیم، خلیفہ ہو کہ سرور۔
شاعری اقبال کے نزدیک حکمت و دانائی ہے۔ ان کی نثر یا شاعری کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح اسلامی افکار کی تشریح و تعبیر ہی کرتی ہے۔ ہاں ان کی حکمت و دانائی اور تخلیقی وجدان دونوں مل کر اسلامی افکار کو سبک اور رواں انداز میں پیش کرتے ہیں۔ سرور صاحب لکھتے ہیں:
’’اس کا جادو ہر کس و ناکس پر چل گیا… مگر دانشور اقبال جس کے افکار نے اس کی شاعری کو بلندی، برگزیدگی، گہرائی اور گیرائی عطا کی ان کے ذہن کو روشن نہ کرسکا۔‘‘ (دانشور اقبال، ص 1)
آل احمد سرور نے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر لکھا ہے کہ اقبال دراصل سرسید تحریک کی پیداوار ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ سرسید اور حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے (ص 19، دانشور اقبال) اب یہ مطلع صاف ہوجاتا ہے کہ سرسید تحریک جو ہندوستان اور بالخصوص مسلم معاشرے کے لیے نشأۃ ثانیہ کا درجہ رکھتی ہے، آخرکار اس سے اقبال کا رشتہ پیدا ہوجاتا ہے۔ تفصیل اور جزیات کے ساتھ اگر دیکھنا اور سمجھنا ہو تو پھر اقبال کے قومی اور تعلیمی نظریے کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ سرور صاحب نے لکھا ہے:
’’اقبال کی نئی مشرقیت نے اس ذہنی غلامی سے آزاد ہونا سکھایا۔ یہ نئی مشرقیت مغرب کی بھی مرہون منت ہے مگر مغربیت زدگی سے دور ہے۔ اقبال نے مغرب کے سائنس سے شغف کو اسلامی کاوشوں کی توسیع قرار دے کر اُسے مستحسن قرار دیا۔ مگر اس کی مادیت، اس کے سرمایہ دارانہ استحصال اس کے جارحانہ قومیت کے نظریوں پر تنقید کی۔‘‘ (دانشور اقبال، ص 20، 21)
آل احمد سرور نے اقبال اور مغرب کی ہم آہنگی کا تجزیہ جس خوبصورتی سے کیا ہے وہ انھی کا حصہ تھا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اقبال اور سرور کے افکار پر مغربی علوم و فنون کا گہرا اثر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اردو میں انھوں نے کسی ایک شاعر یا ادیب پر سب سے زیادہ لکھا تو شاعر مشرق علامہ اقبال ہیں۔ گیان چند جین نے انھیں ’اقبالی‘ کہا ہے اور خود سرور صاحب نے سردار جعفری کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا:
سرور اس واسطے سردار سے مجھ کو محبت ہے
کہ ہم دونوں ہیں گو مجرم، مگر مجرم ہیں اقبالی
سرور کی اقبال سے ذہنی ہم آہنگی پر روشنی ڈالتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’دونوں نے مغربی افکار، تصورات اور خیالات براہِ راست حاصل کیے… مغرب سے استفادے کے باوجود دونوں کی آنکھ مغربی تہذیب اور فکر کی چمک دمک کے سامنے جھپکی نہیں۔ ہماری تہذیب میں اقبال پہلے شخص ہیں جو مغرب سے مرعوب نہیں تھے اور اس کے اندھے نکتہ چیں بھی نہ تھے۔ تنقید کی حد تک یہ کام آل احمد سرور نے انجام دیا۔‘‘
(بحوالہ تحفۃ السرور، عرض مرتب، ص 5، 1985، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ)
یہاں اس بات کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے کہ اقبال کی نگاہِ تیز قدیم و جدید کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سمجھتی تھی۔ سرور صاحب بھی کم و بیش اسی ڈگر پر چلتے رہے۔ انھیں فکر اقبال کی تشریح و تعبیر میں اس لیے کامیابی حاصل ہوئی۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’اقبال عقل کو ادب خوردۂ دل بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمالِ ترک آب و گل سے مہجوری نہیں تسخیر خاکی و نوری ہے۔ وہ سوز آرزو سے عقل کو سرگرم عمل رکھنا چاہتے ہیں… اقبال کے الفاظ سے بعض اوقات یہ شبہ ہوتا ہے کہ ان کا میلان قدیم کی طرف زیادہ ہے مگر ان کی ساری تصانیف کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ نکتہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ کارنادر، جدید کاری، تغیر، انقلاب کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘‘ (دانشور اقبال، ص 20)
اقبال فہمی کے لیے سرور صاحب اقبال کی دانشوری (Intellectualism) کو سمجھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یعنی یہ کہ اقبال کی فکریات کے بغیر شاعری کی عظمت سامنے نہیں آسکتی۔ میرے خیال میں جو لوگ اقبال کو زبردستی شاعر سمجھنے یا سمجھانے کی دھن میں پڑے رہتے ہیں، انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ شاعری کی عظمت کی تلاش وہاں کی جاتی ہے جہاں افکار پست ہوتے ہیں۔ اقبال جیسے عظیم شاعر کی فکر ہی سے اس کی عظمتِ شاعری بھی قائم ہوتی ہے۔ سرور لکھتے ہیں:
’’اقبال کی عظمت بھی اس وقت پوری طرح واضح ہوگی جب ہم دانشور اقبال کو ملحوظ رکھیں گے۔ ان کی دانشوری اس نکتے میں پوشیدہ ہے کہ وہ زندگی کی نت نئی تعبیروں کی گنجائش رکھتے ہیں اور ان پر آزادانہ اور تنقیدی نظر کو ہر حال میں ضروری سمجھتے ہیں۔‘‘ (بحوالہ دانشور اقبال، ص 24)
اقبال کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے اور ان کی دانش وحکمت پر غور بھی کیجیے:
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
آل احمد سرور جہاں اقبال کی دانشوری کو تسلیم کرتے ہیں وہاں کلیم الدین احمد کو اقبال کے یہاں صرف لفاظی نظر آتی ہے جیسا کہ ابلیس کی مجلس شوریٰ کا تقابل ملٹن کی نظم شیطان کی مجلس شوریٰ سے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال کی نظم میں صرف الفاظ الفاظ الفاظ ہیں۔ (اقبال ایک مطالعہ، 1979، ص 416)۔ دراصل کلیم الدین نے اردو کے جس شاعر کو بھی ہدف تنقید بنایا، اس کے لیے پہلے ہی سے منفی تصورات قائم کرلیے۔ ان کے بیشتر کام میں ’’ایک نظر‘‘ یا ایک ہی کی اہمیت رہی ہے۔ اردو شاعری پر ایک نظر، اردو تنقید پر ایک نظر، اقبال ایک مطالعہ وغیرہ۔ اگر وہ اردو شعرا اور ان کے متون پر دو نظر یا دوسری نظر بھی ڈال لینے کی زحمت کرلیتے تو شاید انھیں اس قدر مایوسی کا سامنا کرنا نہ پڑتا۔ خیر اس برسبیل تذکرہ آنے والی گفتگو کو یہیں چھوڑتا ہوں۔ میں نے اوپر یہ لکھا ہے کہ اقبال کی فکر کے حوالے سے شاعری کی عظمت واضح کرنے کے لیے کسی طرح کی معذرت خواہی کی قطعی ضرورت نہیں۔ سرور صاحب نے اقبال کے فکر و فلسفے اور ان کی صحت مند دانشوری کو اہمیت دی ہے۔ انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اقبال کے شعر اور فلسفے میں گہرا ربط ہے اور یہ کہ ان کے اشعار کو ان کے مضامین اور ان کے مضامین کو ان کے اشعار کی مدد سے سمجھنا ضروری ہے۔ (دانشور اقبال، ص 48) سرور صاحب نے اقبال کی تمام تر شعری اور نثری تحریروں کو جس طرح سمجھا ہے، اس کی مثال اردو نقادوں میں کم نظر آتی ہے۔ انھوں نے اقبال پر گاہے گاہے مختلف نوع کے لگائے جانے والے الزامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت سے سوالات قائم کیے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’اقبال کو کچھ حلقوں میں ماضی پرست، مذہب کے نام پر رجعت پسند، طاقت پر زور دینے کی وجہ سے اور نپولین اور مسولینی کی تعریف کرنے کی وجہ سے یا شاہین کی علامت کو برتنے کی وجہ سے نیم فاشسٹ… آفاقیت پر زور دینے کے باوجود ایک مخصوص اخلاقی نظام یعنی اسلام کی نئی تغیر و تفسیر کی وجہ سے محدود اور سائنس اور ٹکنالوجی کی برکتوں کے ساتھ اس کی لعنتوں پر بھی نظر کی وجہ سے ترقی سے منحرف کیوں سمجھا جاتا ہے۔‘‘
اسی میں آگے لکھتے ہیں:
’’میرے نزدیک اس کی اصل وجہ وہ مغرب زدگی اور نوآبادیاتی دور کی مسلط کی ہوئی وہ ذہنیت ہے جو مادے کی پرستش کی وجہ سے مذہب اور روحانیت کے نام سے بھڑکتی ہے، جو سائنس اور ٹکنالوجی کی اندھی پرستش کرتی ہے… جو تاریخ کو صرف طبقاتی کشمکش کی عینک سے دیکھتی ہے اور مذہب کو مارکس کے الفاظ میں افیون سمجھتی ہے۔‘‘ (دانشور اقبال، ص 51)
مذکورہ بالا اقتباس سے آل احمد سرور کے مذہب اور روحانیت کے تئیں مثبت اور مستحکم رویے کا بھی اندازہ ہوتا ہے نیز یہ بھی کہ وہ اقبال کو انھی عوامل کے سبب ایک بڑا شاعر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مذہب کو مارکس یا مارکسیوں کے ذریعہ افیون کہنے یا تاریخ کو طبقاتی کشمکش (Class Struggle) کی عینک سے دیکھنے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ انھوں نے اقبال کی نئی مشرقیت کو اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں Explore کرنے کی کوشش کی۔ ان کی نظر میں اقبال مغرب و مشرق کے مثبت اور منفی اقدار و عوامل کو بخوبی سمجھتے تھے۔ انھوں نے جدید کاری (Modernization) اور مغربیت یعنی Westernization کے فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ دنیا میں سوشلزم کا پرچار بہت کیا گیا۔ آل احمد سرور اقبال کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اقبال کی نئی مشرقیت سوشلزم کے انسانی چہرے (Socialism with a Human face) کی علم بردار ہے۔ مارکس سے بے جا مرعوبیت اور فیشن پرستی سے قطع نظر اقبال کا یہ کہنا کہ اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے جس پر ابھی پوری توجہ نہیں ہوئی ہے، اپنے اندر ایک ایسی معنویت رکھتا ہے جس پر آج کے آشوب آگہی میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ (مضمون: اقبال اور نئی مشرقیت، دانشور اقبال، ص 55)
سرور صاحب نے بار بار اقبال کے ذہنی ارتقا میں مشرق و مغرب کے افکار کی کارفرمائی کا اعادہ کیا ہے۔ ان کی نظر میں اقبال کی مشرقیت جدید مغربی افکار سے ہم آمیز ہوکر تشکیل پاتی ہے۔ ’جدید اور مشرقی اقبال‘ میں بھی کچھ ایسا ہی تاثر ملتا ہے۔ سرور صاحب نے لکھا ہے کہ:
’’انسان کی عظمت ان کے (اقبال) نزدیک ایک آسمانی جنت حاصل کرنے میں نہیں دنیا کو جنت بنانے میں ہے۔‘‘ (دانشور اقبال، ص 87)
سرور صاحب نے اقبال کی وسعتِ مطالعہ اور مشاہدۂ کائنات سے تشکیل پانے والے ذہن رسا کو سمجھنے کی مثبت کوششیں کی ہیں۔ وہ اقبال کے اس شعر کو ان کی ذہنی ساخت اور ارتقا کی تصویر سمجھتے ہیں:
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اقبال کے فکر و فلسفے کے حوالے سے عمیق حنفی نے ایک دل چسپ بات کہی ہے:
’’مسجد قرطبہ اور مسجد قوت الاسلام کی علامات اس کے خون کی رو کو تیز تر کردیتی ہیں۔ دماغ مذہبی اور فلسفیانہ ہے مگر قلب عاشقانہ اور صوفیانہ جب کہ اس کا تخلیقی رویہ اسطوری (Mythic) ہے۔ ان سب متضاد اور باہم برسرپیکار عناصر کو اپنے تخلیقی عوامل کے ذریعے وحدت میں منسلک کرنا شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلانے سے کم نہیں۔‘‘ (مضمون: معجزۂ فن ماخوذ از کتاب: تحفۃ السرور، مرتب: شمس الرحمن فاروقی، 1985، ص 100)
اقبال کے ذہن و دل کا تجزیہ میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بہتر کیا جاسکتا ہے۔ شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلانے کا مطلب ہے مرنجان مرنج کی صفت کا ہونا اور ظاہر ہے کہ یہ صفت ذہن کو تصوف کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق اور تصوف جس کا تعلق قلب سے ہے، اقبال کے یہاں کس طرح ملتا ہے، آل احمد سرور کے تصورات کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ سرور صاحب نے لکھا ہے کہ شروع کی شاعری پر وحدت الوجود کا اثر ملتا ہے لیکن ’اسرار خودی‘ اور ’رموزِ بیخودی‘ تک آکر اقبال اس کے مخالف ہوجاتے ہیں لیکن زبور عجم، جاوید نامہ اور ارمغان حجاز میں پھر وحدت الوجود کا عکس نظر آجاتا ہے۔ ’اقبال اور تصوف‘ کے عنوان سے سرور صاحب نے جو مضمون تحریر کیا ہے، اس میں انھوں نے علامہ کے افکار سے نو نکات پیش کیے ہیں، پھر ان کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ان نکات میں سے صرف دو یہاں پیش کیے جاتے ہیں:
1- میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلا ن اور قوی ہوگیا تھا کیوں کہ فلسفۂ یورپ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی۔ (اسرار خودی پر اعتراض کا جواب)
2- ’’معرفت کو علم پر ترجیح دینا مذہبی اعتبار سے ہر قسم کی رہبانیت کی جڑ ہے اور علمی اعتبار سے ان تمام علوم حسیہ عقلیہ کی ناسخ ہے جن کی وساطت سے انسان نظام عالم کے قویٰ کو مسخر کرکے اس زمان و مکان کی دنیا پر حکومت کرنا سیکھتا ہے۔‘‘
(علم ظاہر و باطن)
اقبال کی پوری شاعری میں نام نہاد تصوف کے افکار سے انحراف کا رویہ ملتا ہے۔ دراصل تصوف اور خانقاہی میں انھیں رہبانیت اور جوش و ولولے میں ایک طرح کا ضعف نظر آیا، جس کے سبب وہ اس روش کے مخالف ہوگئے ورنہ خود ان کی دل چسپی اسلامی تصوف میں تھی۔ حضرت پیر رومی سے ان کی عقیدت اسی باعث تھی۔ آل احمد سرور کا تجزیہ کچھ یوں سامنے آتا ہے:
’’انھوں نے خطبات میں صوفیائے کرام کی اس خدمت کو سراہا ہے جو انھوں نے اسلامی فکر کے فروغ میں انجام دی، اس لیے اقبال کو تصوف کا مخالف سمجھنا صحیح نہ ہوگا بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بعض صوفیوں کی تاویلوں اور بعض غیرذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے کیوں کہ اسلامی طرزِ زندگی میں ضعف آیا اور بعض احکام کی تاویل میں تساہل ہوا، اس لیے اقبال نے ان کی نکتہ چینی ضروری سمجھی۔‘‘ (دانشور ا قبال، ص 99)
جس ضعف، تساہل یا پھر کم کوشی کا ذکر آتا ہے، اقبال اسی کے شاکی رہے۔ جس تصوف اور فقر کو اقبال فروغ دینا چاہتے تھے دراصل اس کی شکل و صورت ہی الگ تھی۔ جس میں عظمت آدم بھی تھی اور شان بندگی کی تمکنت بھی۔ سرور صاحب نے جن نکات کا یہاں ذکر کیا ہے، یقینا ان کے سامنے اقبال کے یہ اشعار ہوں گے:
سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام بادشاہی
اسی کشمکش میں گذری مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
تو بھی ہے اُسی قافلہ شوق میں اقبال
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی
اصل عارف خودی کا عارف ہوتا جس کے حصول کے لیے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ چوں کہ اقبال رومی کے تصور عشق سے واقف تھے، اسی لیے انھیں وہ پیر رومی یا راہ شوق میں چلنے والے قافلے کا سالار سمجھتے تھے۔ اسی خودی اور عشق سے سرشار تصوف میں سکون کے بجائے تلاطم و طوفان اور ضعف کے بجائے قوت جلال ہوتی ہے۔ خلیفہ عبدالحکم نے اسی لیے لکھا ہے:
’’اقبال اس تصوف کو بے اثر سمجھتا ہے جو حق بینی اور عشق آفرینی کے بعد انسانوں کی زندگی میں انقلاب پیدا نہ کرے۔‘‘ (فکر اقبال، ص 279)
اپنے زمانے میں اقبال نے بھی رومی کی طرح عقلیات یا تعقل پسندی کی شرانگیزیوں کو اپنے افکار سے Subvert کرنے کی کوشش کی جس کا احساس خود اقبال کو بھی ہے، ملاحظہ کیجیے:
چوں رومی در حرم دارم اذاں من
ازو آموختم اسرار جاں من
بہ دور فتنۂ عصر کہن او
بہ دور فتنۂ عصر راوں من
آل احمد سرور نے اقبال کے تصوف کے اصل روپ کو پیش کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ تصوف کے مخالف نہیں تھے، البتہ تصوف کے اس تصور سے منحرف تھے جس سے اسلامی فکر میں ضعف پیدا ہو۔ ان کے نزدیک قرآنی تعلیمات اور عشق رسول کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ سرور صاحب اقبال اور تصوف والے مضمون کے آخری حصے میں لکھتے ہیں:
’’رومی نے کہا تھا کہ قرآن سے مغز لیتا ہوں اور ہڈیاں کتوں کے آگے ڈال دیتا ہوں۔ اس تلازمے میں اقبال نے تصوف کے مغز کو لے لیا ہے اور اس کی ہڈیوں کو علاحدہ کردیا ہے۔‘‘ (دانشور اقبال، ص 102)
تصوف کا ایک وصف فقر و قلندری بھی ہے لیکن اقبال جس ’فقر‘ کی بات کرتے ہیں، اس کا انداز ہی جداگانہ ہے۔ یہاں مفلسی اور گدائی کے بجائے شان تمکنت ہے۔ یہ چند اشعار ملاحظہ کرلیں جن سے اقبال کے رمز تصوف کا بھی اندازہ ہوجائے گا:
مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے وہ آئینہ سازی
(محبت، بال جبریل)
اک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری
اک فقر سے کھُلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
(بال جبریل، فقر)
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولی
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسداللّہٰی
(غزل34، بال جبریل)
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
(بانگ درا، غزل)
اور آخرکار علامہ کا تصوف خالص اسلامی اس طرح ہوجاتا ہے، جب وہ کہتے ہیں:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کُشا ہے نہ راہی نہ صاحب کشّاف
وحدانیت پر مبنی تصوف یا پھر یہ کہہ لیں کہ اقبال کا تصوف خودی کی پاسداری چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں:
یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(تصوف: ضربِ کلیم)
اقبال نے جہاں عقل و عشق، تصوف، حرکت و عمل، مشرقیت وغیرہ کو موضوعِ سخن بنایا ہے، وہیں ابلیس کو بھی اپنے فکر و فلسفے کا حصہ بنایا ہے۔ آل احمد سرور نے بارہ صفحے کا ایک مضمون ’اقبال اور ابلیس‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ انھوں نے اقبال کے اس تصورِ ابلیس کا تجزیہ فارسی شاعری کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے اقبال کی رومانیت اور علامت نگاری اور فارسی میں شاعری کرنے کی توجیہات وغیرہ پر چار صفحات صرف کردئیے ہیں۔ سرور صاحب نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اقبال کے یہاں لالۂ صحرا اور شاہین کی طرح ابلیس بھی بطور سمبل کے آیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اقبال کے یہاں ابلیس بھی ایک علامت ہے یا سمبل ہے۔ سمبل کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ لغوی معنی سے آزاد ہو، ابلیس کا سمبل بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہے مگر یہ خاصا پہلودار ہے اور اسی وجہ سے اس کی اہمیت ہے۔‘‘
(دانشور اقبال، ص 131)
اس کے علاوہ انھوں نے پروفیسر شمل کا حوالہ بھی پیش کیا ہے کہ اقبال کے یہاں اسلامی اور مسیحی دونوں سرچشموں کے اثرات نے تصور ابلیس میں ایک طرح کی بوقلمونی پیدا کردی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے پروفیسر بوسانی کے اطالوی زبان میں لکھے گئے مضمون کا بھی ذکر کیا ہے جس میں اقبال کے تصور ابلیس کے پانچ مختلف جہتوں کا ذکر ہے۔ ’ابلیس‘ کا تصور آخر اقبال کے نزدیک اتنا اہم کیوں ہے؟ اردو اور فارسی میں انھوں نے اپنے اس تصور کو پیش کرنا کیوں ضروری سمجھا؟ شاید اقبال کو ابلیس کی برگزیدگی اور انکار دونوں نے متاثرکیا۔ اس میں محبوبیت بھی ہے اور انانیت بھی۔ اقبال کو یہ دونوں خوبیاں پسند ہیں۔ اقبال طاقت اور جلال کو اہمیت دیتے ہیں۔ اپنی ڈائری ’بکھرے خیالات‘ میں لکھتے ہیں:
’’طاقت جھوٹ کو مَس کرتا ہے تو یہ سچائی میں بدل جاتا ہے‘‘۔
’’تہذیب ایک طاقتور انسان کی فکر ہے‘‘۔
’’طاقت ور انسان ماحول کی تخلیق کرتا ہے اور ناتواں خود کو اس ماحول میں ڈھالتا ہے‘‘۔
’’شیطان کا خیال کرو، وہ یقینا ظاہر ہوگا۔ یہ خدا کے لیے بھی اتنا ہی صحیح ہے۔‘‘
سرور صاحب نے اقبال کے تین فارسی مجموعہ ہائے کلام پیام مشرق، زبور عجم، اور جاوید نامہ کا ذکر خصوصی طور پر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
چوں کہ ابلیس انسان کو آزمانے کے لیے اور اس کے حقیقی جوہر کو نمایاں کرنے کے لیے ایک طاقت ہے، اس لیے نالۂ ابلیس کے یہ اشعار بامعنی ہوجاتے ہیں۔‘‘ (ص 136)
سرور صاحب نے فارسی کے جو اشعار پیش کیے ہیں ان میں سے چند ایک یہاں پیش کیے جاتے ہیں:
من ز تنک مائیگاں گریہ نہ کردم سجود
قاہر بے دوزخم داورِ بے محشرم
آدم خاکی نہاد، دوں نظر و کم سواد
زاد در آغوش تو پیر شود در برم
(انکار ابلیس: پیام مشرق)
پیام مشرق میں تسخیر فطرت کے عنوان سے جو پانچ نظمیں ہیں ان میں سے تیسری نظم ’اغوائے آدم‘ میں بقول ’آل احمد سرور ابلیسیت، آدمیت کی تکمیل کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے، نشاط عمل اور لذت کردار، سکون دوام، کوثر و تسنیم اور سرِگردوں سے بہتر ہیں۔‘‘ (ص132) سرور صاحب نے پانچ اشعار پیش کیے ہیں۔ یہاں صرف ایک شعر ملاحظہ کیجیے جو ابلیس کے وجود کو مثبت انداز میں پیش کرتا ہے:
تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل
چیست حیاتِ دوام سوختنِ ناتمام
سرور صاحب اس کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’ابلیس یہاں وہ عاشق ہے جو وصل نہیں چاہتا بلکہ آتش جدائی میں جلنا پسند کرتا ہے کیوں کہ آرزو اور سوز و ساز ہی اُسے سرگرم عمل رکھ سکتے ہیں۔‘‘ (ص 33)
ابلیس اپنے مدمقابل انسان کو کمزور سمجھتا ہے بلکہ اُسے کم ہمت، کم کوش اور حقیر جانتا ہے۔ تبھی تو ابلیس کی زبانی اقبال کہتے ہیں:
اے خداوندِ صواب و ناصواب
من شدم از صحبت آدم خراب
ہیچ گہہ از حکم من سر برنتافت
چشم از خود بست و خودرا درنیافت
بندہ صاحب نظر باید مرا
یک حریفِ پختہ تر باید مرا
(جاویدنامہ)
ابلیس کا مسلک واضح کرنے کے لیے سرور صاحب نے کئی اشعار پیش کیے ہیں۔ دو شعر ملاحظہ کیجیے:
در جہاں باہمت مردانہ زی
غم گسارِ من زمن بیگانہ زی
صاحبِ پرواز را افتاد نیست
صید اگر زیرک شود صیاد نیست
(جاویدنامہ)
یعنی یہ کہ اگر شکار (صید) چالاک ہے تو اس کے لیے صیاد (شکاری) کا وجود بے معنی ہے یعنی اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ درپردہ آدم کو ابلیس پرواز اور زیرکی کا درس بھی دے رہا ہے۔ اقبال نے ابلیس کی زبانی انسان کی پست ہمتی کا نوحہ پیش کیا ہے۔ خدا سے ابلیس اپنے شکار بشکل آدم سے آزادی چاہتا ہے:
از چنیں صیدے مرا ٓازاد کن
طاعت دیروزۂ من یاد کن
پست از و آں ہمت والائے من
وائے من اے وائے من اے وائے من
(نالۂ ابلیس: جاویدنامہ)
دراصل ابلیس جس ذوق نمو، حرکت و عمل اور لذت فراق کا نمائندہ ہے، اقبال نے اُسی کے سبب اس کی کردار سازی کی ہے۔ آل احمد سرور لکھتے ہیں:
’’جاویدنامہ میں ابلیس شکوہ کرتا ہے کہ آدمی آسانی سے اس کے دام میں اسیر ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ آدمی سے توقع یہ تھی کہ وہ اس سے مقابلہ کرے اور اس پر غالب آنے کی کوشش کرے گویا اقبال کو ابلیس اس منزل پر ایک ایسی طاقت نظر آتا ہے جو آدمی اور اس کی دنیا کی ترقی میں مدد دیتا ہے‘‘۔
(دانشور اقبال، ص 134)
——
’’اقبال عظمت آدم کے لیے ابلیس کو بھی معنی خیز اور پہلودار سمبل کے طو رپر پیش کرتے ہیں… اقبال بھی ایک تمدن اور ایک تہذیب ہے، وہ کثیرالابعاد ہے، اسی لیے اس کا ابلیس بھی کثیرالابعاد ہے۔ وہ زاہد و ملا و حکیم بھی ہے، خواجہ اہل فراق بھی، حریف پختہ تر کا جویا بھی، نہیں کے پردے میں ہاں کہنے والا بھی اور دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والا بھی۔‘‘
(ایضاً، ص 138)
——
’’ابلیس بھی اقبال کے لیے عرفان کا ایک ذریعہ ہے اور اس کی اہمیت شاہین سے زیادہ ہے۔‘‘ (ص 138)
آل احمد سرور نے مذکورہ بالا اقتباسات میں بڑی اہم نکات پیش کیے ہیں۔ یعنی یہ کہ اقبال کو ابلیس اس منزل پر ایک ایسی طاقت نظر آتا ہے جو آدمی اور اس کی دنیا کی ترقی میں مدد دیتا ہے۔ اس طرح سرور صاحب نے خود اقبال ہی کو ایک تمدن اور تہذیب کہا ہے جو کثیرالابعاد ہے اور اسی لیے اس کا ابلیس بھی کثیرالابعاد ہے۔ اقبال کو تمدن اور کثیرالابعاد قرار دینا مطالعاتِ اقبال میں ایک نئے ویژن کا اشاریہ ہے۔ اسی طرح سرور صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ ابلیس بھی اقبال کے لیے عرفان کا ایک ذریعہ ہے اور اس کی اہمیت شاہین سے زیادہ ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ شاہین کا تصور دھندلا ہوگیا۔ ابلیس کے کبر و نخوت اور بے جا غرور کو سرور نے ایک طرح سے اقبال کے حوالے سے عرفان کا ذریعہ تصور کیا ہے۔ چوں کہ یہ صفات ابلیس ہی سے وابستہ ہیں۔ پھر یہ کہ 1936 میں جب ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ (ارمغانِ حجاز) جیسی نظم کہتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اب ابلیس نے اپنا کام پورا کرلیا اور اُسے مزید تگ و دو کی ضرورت نہیں رہی۔ یعنی اس نے گویا ابلیسیت کی ترویج کا کام مکمل کرلیا۔ ابلیس کہتا ہے:
ہے مرے دستِ تصرّف میں جہان رنگ و بو
کیا زمیں کیا مہر و مہ کیا آسمانِ نو بہ نو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا شرق و غرب
میں نے جب گرما دیا اقوامِ عالم کا لہو
کیا امامانِ سیاست کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہوٗ
سرور نے بیشتر مضامین میں اس بات کی وکالت کی ہے کہ اقبال بجا طور پر وجود ابلیس کو محفل ہستی کی ہنگامہ آرائی اور دنیا کی رونق کا سبب تصور کرتے ہیں، لیکن وہ یہ بھی لکھتے ہیں:
’’گوئٹے کی طرح اقبال شیطنت کو بھی انسان کے لیے مفید سمجھتے ہیں مگر گوئٹے ابلیس کو کہیں فخر کرتے اور اکڑتے نہیں دکھاتا۔ وہ تو یہی کہتا ہے کہ اسے فخر کرنے اور اکڑنے کی اجازت ملے۔ اقبال کا ابلیس تو اپنے آپ کو جبریل سے بلند اور دل یزداں کا کانٹا سمجھتا ہے۔ یہ محض شاعرانہ شوخی ہے‘‘۔
(نئے اور پرانے چراغ، ص 77، اشاعت چہارم، 1963)
اب تک تو باتیں ٹھیک ہی تھیں، لیکن جیسے ہی سرور صاحب نے کہا کہ ’’یہ محض شاعرانہ شوخی ہے‘‘ اقبال کے تئیں ان کے کئی نکات مشکوک ہوگئے۔ جیسے ان کا کہنا کہ اقبال کا ابلیس بھی عرفان کا ایک ذریعہ ہے، ابلیس بھی کثیرالابعاد ہے، اس کی اہمیت شاہین سے زیادہ ہے وغیرہ۔ دراصل کلیم الدین احمد نے جس طرح اقبال کو رد بلکہ مسخ کرنے کی کوشش کی اور بنیاد بنائی خالص مغربی شاعری جس کی اساس مغربی تہذیب و ثقافت ہے۔ اس کا بھی اثر کئی نقادوں پر پڑا۔ کاش کلیم صاحب اقبال کے فکری نظام کو سمجھ پاتے۔ اگر وہ واقعہ معراج ہی کو سمجھ لیتے جس کی کوئی نظیر مغرب میں نہیں پھر وہ دانتے اور اقبال یا ملٹن اور اقبال کے تقابل میںڈنڈی نہ مارتے۔ یہاں ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ Miguel Asin کی کتاب اسلام اینڈ ڈوائن کامیڈی 1919میں شائع ہوئی جس میں دانتے کے بہت سے اکتسابات کا ذکر ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی کے بقول:
’’اس کتاب کی یہ بات تحقیقی طور پر ثابت ہوگئی ہے کہ دانتے کے پیش نظر ابن العربی کی کتاب الاسرار اور الفتوحات المکیہ کے ترجمے تھے، ان میں روح کے سفر کی تمثیل معراج نبوی کے نمونے پر بڑی تفصیل سے درج ہے۔ دانتے نے ڈوائن کامیڈی میں جس طرح درجات قائم کیے ہیں ان کی کلید ابن عربی کی نگارشات ہیں‘‘۔
(مضمون: اقبال کا عہد اور ان کی رومانیت ماخوذ از حرف حرف آشنا، 19994، ص 69)
اگر ممکن ہو تو Asin کی کتاب پڑھ لی جائے۔ میں یہاں اس کے Preface سے یہ اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں:
One closer study of Ibn Arabi’s quasi-Dantesque allegory I found that it was itself no more than a mystical adaptation of another ascension, already famous in the theological literature of Islam : the Meraj or ascension, of Mahomet (Mohammad P.B.U.H.) from Jerusalem to the throne of God. As this Meraj was preceded by an Isra, or Nocturnal Journey, during which Mahomet (Mohammad) visited some of that infernal regions, the Moslem tradition at once struck me as a prototype of Dante’s Conception
(Islam and the Divine Comedy P.xiii, 1997, Qausain, Lahore)
کبھی کبھی اور کہیں کہیں تو پڑھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ کلیم الدین کھُلّم کھُلّا مغربی ادیبوں کا پلڑا بھاری کردیتے ہیں اس کے لیے وہ ردی خریدنے والے کباڑی کی طرح ترازو کے پلڑے کے نیچے Magnet کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ میں ان کے چھوٹے چھوٹے دو تین اقتباسات یہاں پیش کرتا ہوں، مطلع صاف ہوجائے گا:
’’عموماً شعرا استعارے کو تشبیہ پر ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ استعاروں میں مختصر لیکن جامع اور پراثر طور پر وہ اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں۔ لیکن دانتے نے تشبیہ کو استعارہ پر ترجیح دی‘‘۔
(اقبال ایک مطالعہ، جولائی 1979، ص 100)
’’بخلاف دانتے، شیکسپیئر میں استعاروں کی کثرت ہے اور اسی سے اس کی شاعری میں پیچیدگی، رنگینی اور زرّینی آگئی ہے۔
(ایضاً، ص 111)
’’اقبال میں تشبیہیں، استعارے، کنائے وغیرہ ملتے ہیں، لیکن ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔‘‘
(ایضاً، ص 112)
کسی کے پاس وقت ہو تو کلیم صاحب کی اس نوع کی متضاد اور متعصباتی تحریروں کا جائزہ لے سکتا ہے۔ میں فی الوقت اس بحث کو یہیں چھوڑتا ہوں۔
دراصل اقبال کی شاعری میں شاہین، ابلیس یا دوسرے کردار اپنے پنے طور پر انسانی خودی کو مستحکم کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو اقبال کا فلسفہ صرف ’خودی‘ ہے۔ بقیہ عقل و عشق، حرکت و عمل، تصوف وغیرہ اسی فلسفۂ خودی کے امدادی عوامل ہیں۔ سرور صاحب نے مذکورہ تصورات کے علاوہ اقبال اور جمہوریت، اقبال کی سیاسی فکر، خطابت شاعری اور اقبال، اقبال اور فانی، اقبال، فیض اور ہم، تشخص کا مسئلہ۔ اقبال مولانا آزاد کی نظر میں، عصر حاضر میں قدروں کا بحران اور اقبال، خضرراہ، اقبال ہمارے، شعاع امید تک، اقبال کا فن ایک عمومی جائزہ، اقبال اور مغرب، اقبال اور اس کے نکتہ چیں جیسے موضوعات پر بھی کھُل کر روشنی ڈالی ہے۔
آخر میں اقبال کے فن پر گفتگو ضروری ہے جس پر سرور صاحب نے ایک دل چسپ مضمون ’اقبال کا فن ایک عمومی جائزہ‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ جو لوگ اقبال کو محض ایک پیغام دینے والا اور مقصدی شاعری کرنے والا شاعر کہہ کر ٹال دیتے ہیں، انھیں اس مضمون کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے اردو میں کلیم الدین احمد نے زیادہ شد و مد کے ساتھ اقبال کے فن پر ضرب لگائی ہے۔ ایسے میں آل احمد سرور کا یہ مضمون اقبال کے فن کو پرجلال اور پُرقوت بناتا ہے۔ اقبال کی زبان پر اعتراض کرنے والوں کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’اعتراض کرنے والو ں کے پاس زبان کا ایک جامد تصور تھا۔ وہ زبان کی حفاظت کے علم بردار تھے، اقبال زبان کی ترقی کے، اس کے امکانات کے نقیب تھے۔ ان لوگوں کا زبان کا تصور ایک جوئے نرم خرام کا تھا، اقبال کا ایک جوئے کہستاں کا۔‘‘
(دانشور اقبال، ص 267)
کسی بھی شاعر یا ادیب کا فن جب زیربحث آتا ہے تو زبان اور اسلوب کا ذکر ناگزیر ہوجاتا ہے۔ سرور صاحب نے بجا طور پر اقبال ہی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ میں جو اردو لکھتا ہوں وہ میری تہذیب کی ترجمانی کرتی ہے۔ میرے الفاظ کا ذخیرہ عرب سے اور پھر سمرقند و بخارا سے ماخوذ ہے۔
دراصل اقبال کے فن شعر کے لیے جس نوع کی لفظیات (Diction) کی ضرورت تھی، اقبال نے اُسی کو اپنایا۔ جس فکر و فلسفے کو وہ پیش کرنا چاہتے تھے اس کے لیے میر و سودا یا پھر مصحفی و آتش یا پھر کسی دوسرے کلاسکی شاعر کی لفظیات ناکافی تھی۔ اقبال نے تمام اہم فلسفوں اور فکری دھارو ںکا مطالعہ کرکے خود اپنا فلسفۂ خودی تشکیل دیا اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے انھوں نے اپنی تراکیب بھی وضع کیں۔ سرور صاحب اقبال کے فکر و فلسفے اور لفظیات و اسلوب کا بغور تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’مسئلہ صرف حدیث دلبری کا نہیں، صحیفۂ کائنات کا ہے۔ اسی صحیفۂ کائنات کے لیے اقبال کو وہ اسلوب اختیار کرنا پڑا جو میرے نزدیک Grand Style سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور جس میں خطابت، غنائیت، فکری صلابت تینوں سما گئے ہیں۔‘‘
(دانشور اقبال، ص 269)
سرور صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’طلوع اسلام کی خطابت پر کلیم الدین نے اعتراض کیا ہے مگر اس میں مرصع زبان، مروجہ اصطلاحات اور رموز کی معنویت کی توسیع، تغزل سبھی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 26 )
کلیم الدین احمد کی تو خیر بات ہی جانے دیجیے۔ ان کے لیے تو اقبال کے جو استعارے یا علامتیں ہیں وہ سب بے محل اور ازکار ہیں۔ اقبال کی شاعری اپنا الگ ہی جادو رکھتی ہے۔ وہ جس قیمتی اور اعلا و ارفع افکار کی پیش کش چاہتے تھے، اُن کے مناسب حال الفاظ و تراکیب استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ان کے لہجے میں جو خطابت ہے، دراصل وہی ان کے فن شاعری کا کمال ہے یا ان کے کمال فن کا شعری اظہار ہے۔ جی میں آتا ہے کہ نظم ’گورستان شاہی‘ سے صرف دو شعر پیش کروں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ ان میں تشبیہ و استعارے کی سطح کیسی بلند ہے جس سے اقبال کا فن شعر بھی بلند ہوجاتا ہے:
آسماں بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے
کچھ مکدّر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے
پتیاں شاخوں سے گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دستِ طفل خفتہ سے رنگیں کھِلونے جس طرح
محض ان دو شعروں کی فنی اور تخلیقی ہنرمندی پر اگر صراحت سے بات کی جائے تو صفحے دو صفحے تک رواں ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ سلیم اختر نے اقبال کے فن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے:
’’اقبال کے نزدیک آرٹ یا فن کی غایت یہ ہے کہ وہ حیات انسانی کے لیے مسرت بخش اور حوصلہ خیزہو… فن اور فنکار کی حیات ابدی کے لیے ضروری ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے لیے دائماً روح پرور اور حیات خیز ہو‘‘۔
(اقبال کا ادبی نصب العین: سلیم اختر، 2002، ص 121)
اقبال کا آرٹ ’دلبری باقاہری‘ کا آرٹ ہے لیکن وہ جس پُرخلوص جذبے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں وہ بھی ان کے اشعار سے واضح ہے۔ یہ اشعار:
رنگ ہو یا سنگ و خشت چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرۂ خون جگر سِل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے سدا سوز و سرور و سرود
(مسجد قرطبہ)
یا پھر یہ اشعار:
نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
جو اقبال کی شاعری کو محض مقصد یا پیغام کی شاعری سمجھتے ہیں ان کے لیے اقبال کا یہ نظریہ فن کافی ہے:
برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی ست
حدیثِ خلوتیاں جُز بہ رمز و ایمانیست
دراصل اقبال نے چوں کہ اپنے فن شعر کو خود ہی رد کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے بہت سے لوگوں کو موقع مل گیا۔ نثر اور شاعری دونوں میں مثالیں موجود ہیں۔
اب آخر میں سرور کے چند جملے پیش کرنا چاہتا ہوں جن سے اندازہ ہوگا کہ وہ اقبال کے فن شعر کو کس طرح دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں:
1- اقبال کے یہاں بلاغت ایسی تراکیب میں ملتی ہیں جو معنی آفرینی، حسن آفرینی اور اختصار تینوں کے لحاظ سے قابل قدر ہیں۔
2- اردو شاعری کا لسانی اسلوب غالب سے پہلے محدودیت کا شکار تھا۔ غالب کے اثر سے اقبال نے اس راز کو سمجھا اور فلسفیانہ استفسارات کے لیے سادہ اور پُرپیچ بلاغت کے گُر فارسی سے سیکھے۔
3- اقبال کی خطابت پر تو بہت لکھا گیا مگر ان کی غنائیت پر کما حقّہٗ توجہ نہیں ہوئی ہے۔
4- یہ دید و دانش کا، بصیرت و معرفت کا وژن ہے، جس میں عقل پُرسوز اور ادب خوردۂ دل ہے یہ عالمیت کے لیے ایک نئی مشرقیت کا وژن ہے جس کے بیان کے لیے فارسی تراکیب کی بلاغت، استعارے کی طرح داری اور علامت کی پہلوداری کو اقبال نے اس طرح سمو لیا ہے کہ شاعری حیات و کائنات کے سارے مسائل اپنے طور پر اظہار پر قادر ہوگئی۔
5- ان کی علامت نگاری ابلاغ کی ضرورتوں کی وجہ سے اپنے مذہبی اور تہذیبی سرمائے سے جانی پہچانی علامات لیتی ہیں اور ان میں اپنے سوز نفس سے ایک نئی زندگی، ایک نئی معنویت اور ایک نیا جادو بھردیتی ہیں۔
6- کیا ہوا اگر اقبال نے غالبؔ یا شیکسپیئر کی طرح زندگی کی کثرت پر نظر جمانے کے بجائے اس میں ایک وحدت کی تلاش کی۔ انھوں نے اس تلاش کو بھی فن بنا دیا۔ اردو شاعری اب دوسرا اقبال پیدا نہ کرسکے گی مگر اقبال کا فن موجود اور آنے والے فن کاروں کے لیے روشنی کا ایک مینار رہے گا۔ (دانشور اقبال، ص 296 تا 274)
اس کے علاوہ سرور صاحب نے اقبال کے فن شاعری پر اپنے مضمون ’خطابت، شاعری اور اقبال‘ میں بھی شرح و بسط کے ساتھ ایک نوع کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں