خلیق الزماں نصرت
اٹھارہ سو ستاون کے غدر کی ناکامی کے بعد ہندوستان کی عوام مایوس ہوگئی۔ سیکڑوں برس کی انگریزی حکومت نے لوگوں کا جینا مشکل کردیا تھا۔ انگریزوں نے ہندوستانیوں پر وہ ظلم ڈھائے کہ اس کی مثال آج تک کوئی دے نہ سکا۔ ہندو اور مسلمان کو لڑا کر حکومت کرنے کا فیصلہ کیا لیکن یہاں کے لوگ جانتے تھے کہ انگریزوں کی حکومت اگر رہ گئی تو لوگ ان کی تہذیب کو اپنانے لگیں گے جو خداپرستی کی بجائے خدا سے بغاوت اور مادیت کی بنیاد پر استوار کی گئی تھی۔ خدا کی بستی تجارتی نہیں نہ انبوہ تاجراں ہے۔ اسے تو اسی اصولوں پر چلایا جانا چاہیے جو اس کا خالق و مالک اور حکمراں ہے۔ اس دنیا کا مال خدا ہے یا بھگوان۔ اس نے ہم کو متحد ہوکر جینے کا سبق دیا ہے کیونکہ جب مختلف عناصر کو ہم آہنگ کرنے کا جوہر باقی نہ رہے تو اکائی برقرار رکھنے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ قومی آہنگی لانے کے لئے ہر سطح پر کوشش کی جانی چاہیے تھی اور فنکاروں نے بھی مل جل کر آپسی تعلقات کی بہتری کے لیے خوب کوششیں کیں۔ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے ایک طرف ڈراموں ، ناٹکوں اور اخباروں کے ذریعہ صحافیوں اور ہندوستانیوں نے مل کر کوشش کی تو دوسری جانب ۱۹۱۳ء سے فلموں کے ذریعہ یہ پیغام عوام تک پہنچایا گیا۔
انیس سو اکتیس سے بولتی فلمیں بننے لگیں۔ قومی یکجہتی اور تحریک آزادی کے فروغ کے لیے پہلی فلم انیس سو پینتیس میں ’’آزادی‘‘ بنی۔ انیس سو چالیس میں ایک فلم پھر ’آزادی‘ کے نام سے بنی، مگر مکمل نہیں ہوسکی۔ انیس سو چوالیس میں ’’چل چل رہے نوجوان‘‘ بنی۔ انیس سو سینتالیس میں ’’اہنسا‘‘ اور ’’چھین لے آزادی‘‘ دکھائی گئی۔ ہندوستان کو آزادی ملی۔ اس کے فوراً بعد ’’آزاد ہندوستان‘‘ بنی۔ آگے آزادی کے بعد ’’۲۶؍جنوری‘‘ اور ’’آزادی کی آواز‘‘ وغیرہ فلمیں بنیں۔ جن کے ذریعہ عوام کو یہ بتایا گیا کہ ہندو مسلمان آزاد ہوکر ایک ساتھ کیسے جئیں۔ اس طرح کی چند فلموں کے نغموں کو مختصراً پڑھتے چلیں۔ بہت سی فلموں میں جوانوں کو جوش دلانے کے لیے کردار سے بھی یہ کام کرایا گیا۔ طوالت کے خوف سے پورے نغمیں نہیں لکھ رہا ہوں، اسی پر اکفتا کررہا ہوں۔ چل چل رے نوجوان، چل رے نوجوان، چل رے نوجوان / چاہتوں کے قافلے تجھ سے پیچھے جو چلے / وہ گئے وہاں نکل میری جاں نہ رہے میری جاں نہ رہے شمع نہ رہے نہ وہ ساز رہے / فقط ہند ہمارا آزاد رہے، میری ماتا کے سر پر تاج رہے / سکھ ، ہندو ، مسلمان ایک رہیں بھائی بھائی سا سارے رسم و رواج رہے / گروہ گرنتھ ، قرآن ، پران میری پوجا رہے اور نماز رہے، میری جان رہے __ اس گیت میں چست الفاظ نہیں ہیں پھر بھی لوگوں نے خوب سراہا تھا۔ اس ضمن میں ’’مجھے جینے دو‘‘ کا یہ مشہور نغمہ جسے ساحرؔلدھیانوی نے لکھا تھا ۱۵؍اگست اور ۲۶؍جنوری کو لاؤڈاسپیکر سے اکثر سنایا جاتا تھا۔ محمد رفیع نے بڑے جوشیلے انداز سے اسے گایا تھا ؎
اب کوئی گلشن نہ اجڑے اب وطن آزادی ہے
روح گنگا کی ہمالہ کا بدن آزاد ہے
اب کوئی …
مندروں میں سنکھ باجے مسجدوں میں ہوں اذاں
شیخ کا دھرم اور دینِ برہمن آزاد ہے
دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی اور حب الوطنی کے جذبے ہندوستانی عوام میں پیدا ہوچکے تھے۔ حب الوطنی کے لیے یہ چند مشہور فلمیں ہیں۔
بھارتی ماتا (انیس سو تینتیس) ، وطن پرست ، دختر ہند (انیس سو چونتیس) ، دیش واسی ، دیش دیپک ، بھارت بھوشہ ، رنگ بھومی (انیس سو پینتیس) ، شان ہند ، بھارت کے لعل ، اعلان جنگ ، فدائے وطن ، جے بھارت اور جنم بھومی (انیس سو چھتیس)۔ اس طرح کے ملے جلے نام والی فلمیں خوب بنیں۔ آزادی کے بعدسولجر (انیس سو اڑتالیس) ، جے ہند ، ہم ہندوستانی ، گوا کی آزادی کے تعلق سے اور انیس سو باسٹھ میں چین اور ہندوستان کی جنگ کے بعد ’’حقیقت‘‘ فلم بنی۔کیفی اعظمی کے اس گیت نے پچھلے سب ریکارڈ توڑ دیئے۔ گلی گلی ، محلوں محلوں میں گایا جانے لگا۔ ایک فوجی موت پر :
کرچلیں ہم فدا جان و تن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو
سانس تھمتی گئی نبض جمتی گئی
پھر بھی بڑھتے قدم کو نہ رکنے دیا
سر ہمالہ کا ہم نے نہ جھکنے دیا
مرتے دم تک رہا بانک پن ساتھیوں
پریم دھون کا یہ جوشیلا نغمہ کون بھلا سکتا ہے۔ فلم تھی قابلی والا ،۱۹۶۱ء
اے مرے پیارے وطن اے مرے بجھڑے چمن
تجھ پہ دل قربان ہے۔
تو ہی میری آرزو تو ہی میری آبرو تو ہی میری جان
ان نغموں نے ہندستانیوں کے دل میں وطن کی محبت اس طرح جگا دی کہ جوانو ں میں جوش پیدا ہوا۔سچ کہوں ایسی فلمیں دیکھنے کے بعد جب ہم ہال سے باہر نکلتے تھے تو یہی نغمہ گاتے نکلتے تھے اگرکوئی چینی وہاں نظر آ جاتا تو ہم سب اس پر توٹ پڑتے۔ فلم اپکار میں گلشن باورا کا لکھا نغمہ بہترین نغموں میں شمار کیا جاتا ہے:
مرے دیش کی دھرتی سونا اگلے ہیرے موتی
مرے دیش لی دھرتی
بیلوں کے گلے میں جب گھنگرو جیون کا راگ سناتے ہیں
غم کوس دور ہو جاتا ہے خوشیوں کے کنول مسکاتے ہیں
سن کے رہٹ کی آوازیںیوں لگے کہیں شہنائی بجے
آتے ہی مست بہاروں کے دلہن کی طرح ہر کھیت سجے
مرے دیش کی دھرتی۔۔۔۔۔۔
پریم دھون نے ’’ہم ہندوستانی‘‘ میں یہ نغمہ لکھا :
چھوڑو کل کی باتیں کل کی بات پرانی
نئے دور میں لکھیں گے مل کر نئی کہانی
ہم ہندوستانی ہم ہندوستانی
ان جیسی فلموں سے لوگوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ اسی زمانے میں آنندبخشی نے ایک نغمہ جو جنگ کے دوران لکھا تھا وہ فلم تھی ’’پھول بنے انگارے‘‘
ہمالہ کی بلندی سے سنو آواز آئی ہے
کہو ماؤں سے دے بیٹے کہو بہنوں سے دے بھائی
وطن پر جو فدا ہوگا امر وہ نوجواں ہوگا …
یہ نغمہ بڑا طویل ہے اسے آج بھی پڑھا جائے تو ویسا ہی جوش پیدا ہوگا۔ اپنے وطن کی تعریف میں ہر زمانے میں نغمے لکھے گئے ہیں۔ سب سے مقبول نغمہ علامہ اقبالؔ کی نظم ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ ہوا جو تقریباً ۱۷؍فلموں میں استعمال ہوا۔ راجندرکرشن کا لکھا ہوا نغمہ ہندی آمیز گیتوں میں بڑا اہم ہے جبکہ راجندر کرشن کیا سبھی نغمہ نگار اردو والے ہی ہوا کرتے تھے۔ سکندراعظم کا یہ نغمہ محمدرفیع نے گایا تھا :
جہاں ڈال ڈال پر سونے کی چڑیا کرتی ہے بسیرا
وہ بھارت دیش ہے میرا
جہاں ستیہ ، اہنسا اور دھرم کا پگ پگ پر ہے ڈیرہ
وہ بھارت دیش ہے میرا
اور فلم جگریتی۱۹۵۴ٗ ء کایہ گیت جس کو پردیپ نے لکھا تھابہت مقبول ہوا۔ اس طویل گیت کا یہ مکھڑا
آؤ بچے تمھیں دکھائیںجھانکی ہندستان کی
اس مٹی سے تلک کرو یہ دھرتی ہے بلیدان کی
وندے ماترم وندے ماترم
وندے ماترم وندے ماترم
راجہ مہدی علی خان جو مزاحیہ اشعار لکھنے میں اپنا مقام بنا چکے تھے فلموں میں آئے تو کہانی کے مطابق سنجیدہ شعر کہے اور فلم شہید میں جوانوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے نغمہ لکھا :
وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں
پکارتی ہیں یہ زمیں و آسماں شہید ہوں
شکیل بدایونی نے بھی حب الوطنی اور آزادی کی تحریک کے لیے کئی نغمے لکھے۔ اس ضمن میں ان کی فلم ’’لیڈر‘‘ کا یہ مکھڑا بڑا مشہور ہوا اور عوام میں برمحل ہوگیا:
اپنی آزادی کو ہم ہرگز مٹا سکتے نہیں
سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں
اس نغمے کے بقیہ بند بھی قابل مطالعہ ہیں۔ پہلے نغمے بہت طویل ہوا کرتے تھے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں ہندوستان کی زیادہ تر فلموں کے نغمات اردو میں ہواکرتے تھے۔ یہ فلمیں اردو میں بنتی تھیں اور دکھائی جاتی تھی۔ نغمے ، گیت ، موسیقی ، مکالمے اور غزلیں بالعموم اردو لب و لہجہ اور آہنگ رکھتے تھے۔ ہندوستان کے ہندو ،مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر قوموں نے ساتھ مل کر حریت و آزادی اور غیرملکی استعمار سے گلوخاصی کے لئے انگنت جانیں دیں۔ ان میں سے بیشتر لوگوں نے اپنے لہو سے زنداںکی تاریکیوں میں شمع روشن کی تھی تب جا کے ہمارا ملک آزاد ہوا تھا۔ اس بات کا اظہار کئی فلموں میں کیا گیا ہے۔ ’’ہم ایک ہیں‘‘ کا یہ نغمہ اندیور کا لکھا تھا زیادہ مشہور تو نہیںہوا مگر اس تعلق سے قابل ذکر ہے :
ہندو کی نہیں ہے کسی مسلم کی نہیں ہے
ہے ہند جس کا نام شہیدوں کی زمیں ہے
ہم ایک ہیں __
اسی طرح کا ایک اور نغمہ اس فلم میں ہے :
ہم پنجابی ، ہم بنگالی ، ہم ہیں مراٹھی ، ہم مدراسی
بعد میں ہیں کچھ اور مگرہم پہلے ہیں بھارت واسی
آزادی کی جنگ میں رام پرشاد بسملؔ ، اشفاق اللہ خان اور بھگت سنگھ جیسے ہزاروں سورماؤں نے اپنی جانیں قربانی کردیں تو دوسری جانب گاندھی ، نہرو ، محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی ، حسرت موہانی ، راجندر پرشاد جیسے جانبازوں نے بھی دیش کی آزادی کے لئے کافی تکلیفیں اٹھائیں۔ مذکورہ نظم نما گیت میں اس کی جھلک ملتی ہے کہ یہ ملک سب کاہے‘‘ آنند بخشی نے ’’ہم ایک ہیں‘‘ فلم میں اس کی وضاحت کی ہے :
مذہب جدا سہی وطن تو ایک ہے
ہیں پھول رنگ رنگ کے چمن تو ایک ہے
ایک فلم ’’بھارت کے شہید‘‘ میں پریم دھون نے ایک طویل نغمہ لکھا تھا ۔ شاید فلموں میں اس سے طویل نغمہ کبھی شامل نہیں ہوا ہوگا۔ عموماً فلموں میں دو یا تین بند کے نغمے ہی شامل ہوتے ہیں۔ یہ گیت آزادی کی مکمل تاریخ ہے۔ گیت یہاں سے شروع ہوتا ہے :
ادھر سرحد پہ بہتا ہے لہو اپنے جوانوں کا
ادھر ڈوبے ہوئے ہم شرابوں اور جاموں میں
’’نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘
پریم دھون نے علامہ اقبالؔ کے دو مصرعوں کا چربہ کیا ہے۔ ’’آزاد ہوگیا ، ہندوستان ہمارا دیش‘‘ (انیس سو اڑتالیس) میں بنی۔ اس میں یہ گیت شامل ہے۔
وطن کی آبرو خطرے میں ہے ہوشیار ہو جائو اوروطن پر جو فدا ہوگا امر وہ نوجواں ہوگا۔رہے گی جب تلک دنیا یہ افسانہ بیاں ہوگا اس طرح کی شاعری سے عوام کے جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ہم نے وہ زمانہ دیکھا ہے کہ نوجوانوں کے لبوںپہ اس طرح کے اشعار عام تھے۔ایسی فلمیں دیکھ کر ہم ہندستانی جوش میں آ جاتے تھے۔
آزادی کے فوراً بعد ’’کشمیر ہمارا ہے‘‘ میں یہ نغمہ :
حملہ آور خبردار ہم کشمیری ہیں تیار بٹوارے میں کشمیر ہندوستان کے حصے میں آیا۔ انیس سو پچاس میں ہی ’’کشمیر ہمارا ہے‘‘ کہ نام کی فلمی بنی۔ ادھر ۲۰۰۱ ء میں بھی ایک فلم بنی اس کا بھی نام ’’کشمیر ہمارا ہے‘‘ تھا۔ ایک فلم ’’بارڈرکشمیر‘‘ ۲۰۰۲ء میں بنی۔ اسی طرح دوسری کئی فلموں میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے تعلق سے کئی باتیں بتائی گئی۔ جیسے بوڈر ۱۹۹۷ء ، بارڈر ہندوستان کا ۲۰۰۳ء ، ایل او سی کارگل وغیرہ۔ فلم ’’آنکھیں‘‘ جس میں بھارت دیش کے لیے ساحرؔ نے یہ نغمہ لکھ کر اس موضوع کو جاوداں بنا دیا : اس ملک کی سرحد کو کوئی چھو نہیں سکتا جس ملک کی سرحد کی نگہبان ہیں آنکھیں آنکھیں لفظ کو ردیف بنا کر اسے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں ابہام ہونے کے باوجود عوام میں مقبول ہوا۔ آزادی کے شہیدوں کے نام سے بھی فلمیں بنیں، اس میں ان شہیدوں کا کیسا رول تھا یہ بتایا گیا۔ فلم ’’شہید‘‘ رام پرشاد بسملؔ کے بارے میں تھی۔ مندرجہ ذیل غزل رام پرشاد بسملؔ کے نام سے منسوب کی گئی ہے جبکہ یہ رام پرساد بسمل کی نہیں ہے شاہ محمد بسمل عظیم آبادی کی ہے۔ اس غزل کو رام پرشاد بسملؔ پڑھا کرتے تھے : سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسماں ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
فلم ’’نیتاجی سبھاش چندربوس‘‘ میں پردیپ کا لکھا ہوایہ نغمہ :
سنو رے سنو دیش کے ہندو مسلمان سنو بہن سنو بھائی سنو سنو نوجوان اس نغمے میں سبھاش چندر بوس کی پوری داستان نظم کی گئی ہے۔ منگل سنگھ پانڈے کے نام سے دو فلمیں ایک ۱۹۸۲ء اور دوسری ۲۰۰۶ء میں بنیں۔ بھگت سنگھ کے کردار پر انیس سو چون سے اب تک چھ فلمیں بن چکی۔ ان میں مکمل شہید بھگت سنگھ کی کہانیاں ہیں۔ چندرشیکھر آزادکے نام سے انیس سو اڑتالیں اورانیس سو پینسٹھ میں دو فلمیں بنیں۔ ان میں مکمل شہید بھگت سنگھ کی کہانی ہے۔ مہاتماگاندھی کی زندگی پر کئی فلمیں بنیں۔ پہلی فلم جس پر انگریزوں نے اعتراض کیا تو اس کا نام بدل کر ’’خدا کا بندہ ‘‘رکھ دیاگیا۔ فلم کا نام ’’لاسٹ مسیج‘‘ (انیس سو انچاس) کا پہلا نام ’’مہاتماگاندھی‘‘ تھا۔ بے نظیر بیگم نے لکھا ہے : ’’یہ بات سچ ہے کہ قومی یکجہتی اور سا لمیت کی بات کرنے والے نغمے آج بھی صحیح راہ دکھاتے ہیں۔ اسکرین پر یہ ترانے جب بھی ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں تو دل کو چھولیتے ہیں۔‘‘ دوسری کئی فلموں میں قومی یکجہتی کے نغمے لکھے گئے تھے۔ دونوں قوموں کومل جل کر رہنے کا پیغام دیا گیا ہے۔ آج اس کی بڑی ضرورت ہے۔ فلم ’’بڑھے چلو‘‘ (انیس سو سینتیس) مسلمانوں کا ہے خدا اور ہندوؤں کا رام ہے ایک ہی مالک ہے وہ فلم ’’بھائی‘‘(انیس سو چوالیس) ’’ہندومسلم ،سکھ عیسائی ،آپس میں ہیں بھائی بھائی‘‘ یہ مصرع آج تک برمحل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ قومی یکجہتی کی نیو پر مبنی ہے۔ محمد رفیع کا یہ نغمہ اس کی ایک کڑی ہے : پیار کی راہ دکھا دنیا کو روکے جو نفرت کی آندھی ہے تم میں ہی کوئی گوتم ہوگاتم میں ہی ہوگا گاندھی (فلم ’’لمبے ہاتھ‘‘) ترقی پسندی کے زمانے کا شاعر ساحرؔلدھیانوی نے اپنے عزم کو انسانی بھائی چارے کے لئے وقف کردیا۔ ان کا یہ نغمہ ہندوستان میں بہت مشہور ہوا : تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا۔ (فلم ’’دھول کا پھول‘‘) یہ مسجد ہے وہ بت خانہ چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو (فلم ’’دھرم پتر‘‘) فلم ’’دھرم پتر‘‘ (۱۹۶۱ء) میں ساحرؔ نے پھر اپنی ترقی پسندی کا پرچار کیا۔ ان کا دل بٹوارے سے تو ٹوٹا ہوا تھا یہاں پر ان کی جھنجھلاہٹ پڑھنے اور سننے کے لائق ہے۔ یہ بند آپسی میل جول کے نہ ہونے پر ایک طنز ہے ؎ یہ جلتے ہوئے گھر کس کے ہیں یہ کٹتے ہوئے تن کس کے ہیں تقسیم کے اندھے طوفان میں لٹتے ہوئے گلشن کس کے ہیں بدبخت فضائیں کس کی ہیں برباد نشیمن کس کے ہیں یہ کس کا لہو ہے …
فلم ’’رانی روپ متی‘‘ میں اوشامنگیشکر اور کورس میں ٹیپ کا ایک مصرع بار بار استعمال کیا گیا ہے :
ہرہر مہادیو ، اللہ اکبر کس کام کے ہیں یہ دین دھرم جو شرم کے دامن چاک کریں کس طرح کے ہیں یہ دیش بھگت جو بستے گھروں کو خاک کریں یہ روح کیسی روحیں ہیں جو دھرتی کو ناپاک کریں یہ ساحرؔ کی مشہور نظم بھی ہے۔ ساحرؔ نے اپنی تقریباً تمام اچھی تخلیقات کو فلموں میں جھونک دیا۔ پتہ نہیںکیوں ناقدوں نے ایسے شاعروں کو فلم والے کہہ کر الگ کردیا تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے کئی بڑے بڑے ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم لوگ ذات پات ، اونچ نیچ سے جوجھ رہے ہیں۔ پریم دھون نے ’’اپناگھر‘‘ میں یہ بند لکھ کر یکجہتی کو فروغ دیا ہے : ذات پات کا بندھن توڑو ، اونچ نیچ کو چھوڑو نئے سمے سے نئے جگت سے اپنا ناطہ جوڑو بدلو یہ ڈھنگ پرانا، آیا ہے نیا زمانہ اس دیش کو پریم کا درس دینے والوںمیں راجہ ہریش چندر ، بودھ، جین اور خواجہ اجمیری جیسے سبھی دھرم کے ماننے والوں کا نام لیا جاتا ہے۔ پھر یہ بھیدبھاؤ کیوں۔ آنند بخشی نے فلم ’’آکرمن‘‘ کا یہ نغمہ : ہم پہلے بھارت واسی پھر ہندو مسلم سکھ عیسائی ، نام جدا ہیں تو کیا بھارت ماں کے سب بیٹے ہی عبداللہ اس کے بچے کو پالے وہ گھر واپس رام نے آیے دیکھو …
اور فلم کرما کا یہ وطن پرستی کا نغمہ کون بھول سکتا ہے ۔اس دھنوں کو اس طرح سجایا گیا تھا کہ آج بھی کانوں کو بھلا معلوم ہوتا۔
ہر کرم اپناکریںگے اے وطن تیرے لئے
دل دیا ہے جاں بھی دیں گے اے وطن تیرے لئے۔
۔۔۔
تو میر ا کرما تو میرا دھرماتو مرا ابھیمان ہے
اے وطن محبوب میرے تجھ پہ دل قربان ہے
ہم جئیں گے اور مریں گے اے وطن تیرے لئے
جب مغربی تہذیب کا اثر معاشرے میں پڑنا شروع ہونے لگا تو ہندوستانی فلم بنانے والوں کو بھی احساس ہوا کہ مغرب والے کہیں اپنے سانچے میں ڈھال کر ہماری روایت کو بدل نہ دیں، اس لئے فلموںمیں قومی یکجہتی کو فروغ دینے، قوموںکو یکجا کرنے کے لئے فلمیں بنیںتاکہ آزادی کی جدوجہد میں لگے ملک کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے، ایسی فلمیں بنائی گئیں اور ملک سے محبت کا جذبہ بڑھانے پر زور دیا ۔
کتب مآخذ نغمیں :
راشٹریہ گیت دھیرج پاکٹ بکس
جہاںفلم ۔ رشیدانجم بھوپال
ہندوستانی فلم کا ارتقاء ۔ الف انصاری
فلم اور اردو۔ امام اعظم
شعرائے مہاراشٹر اردو۔ خلیق الزماں نصرت
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں