ڈاکٹر منور حسن کمال
ہندستان جو گنگا جمنی تہذیب کا امین ہے، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں اور سبھی اپنے اپنے عقیدے، مذہب اور دھرم کے اعتبار سے عید، دیوالی، بقرعید اور ہولی بڑی دھوم دھام سے مناتے آئے ہیں۔ دراصل انسانی زندگی میں تہواروں کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے، اس لیے کہ تہوار جہاں خوشی کا ذریعہ ہیں، وہیں اخوت اور بھائی چارے کے فروغ میں بھی ان کا بڑا حصہ رہا ہے۔ اردو شاعری میں ہولی کی روایت بہت پرانی ہے۔ آج بھی ہولی کے گیت اسی شان سے گائے جاتے ہیں۔
ہندستان کی تمام مروّجہ زبانوں میں یہاں کے تہواروں سے متعلق نغمے اور گیت بھی خوب خوب گائے گئے ہیں، خاص طور پر ہولی پر نغمہ و سرود کی محفلیں اپنا الگ ہی سماں اور مزاج رکھتی ہیں۔ اردو شاعری بھی اس سے اچھوتی نہیں رہی۔ اردو شاعری میں ہولی کے نغمے اپنی بھرپور نغمگی کی وجہ سے راگ و رنگ کی محفلوں میں بڑے اہتمام سے گائے جاتے رہے ہیں۔ میر و غالب کے ساتھ ساتھ بہادر شاہ ظفر کے کلام میں بھی ہولی گیت اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔
میر تقی میر اگرچہ شہنشاہ تغزل کہلاتے ہیں، لیکن انھوں نے مثنوی میں بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ مثنوی ’’شعلہ عشق‘‘ ان کی کامیاب مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی طرح میر کی ایک مثنوی ’’دربیانِ ہولی‘‘ ہے، جس میں میر نے ہندستانی رسم و رواج کے مطابق آپسی بھائی چارے کے فروغ کے لیے نواب آصف الدولہ اور ان کے مصاحبوں کو بھی ہولی میں شریک گردانا ہے۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ کریں:
ہولی کھیلا آصف الدولہ وزیر
رنگ صحبت سے عجب ہیں خرد و پیر
شیشہ شیشہ رنگ بزم دوستاں
صحن دولت خانہ رشک بوستاں
دستہ دستہ رنگ میں بھیگے جواں
جیسے گلدستہ تھے جوون پر رواں
قمقمے جو مارتے بھرکر گلال
جس کو لگتا اس کا پھر منھ ہے لال
میرؔ ہولی کے جشن پر ہولی کی خوشیوں کا ذکر یوں کرتے ہیں:
آئو ساقی شراب نوشی کریں
شور سا ہے جہاں میں گوش کریں
قمقمے جو غلاں کے مارے
مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے
خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں
گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں
جشن نوروز ہند ہولی ہے
راگ و رنگ اور بولی ٹھولی ہے
مرزا غالب کے زمانے میں ایک مرتبہ عید، نوروز اور ہولی ایک ساتھ آگئے۔ اس موقع پر انھوں نے شہر کے گلزار بن جانے کا تذکرہ اس طرح کیا ہے:
سو اس اکیس دن میں ہولی کی
جا بہ جا مجلسیں ہوئیں رنگیں
شہر میں کو بہ کو عبیر و گلال
باغ میں سو بہ سو گل و نسریں
شہر گویا نمونۂ گلزار
باغ گویا نگار خانہ چیں
تین تہوار اور ایسے خوب
جمع ہرگز نہ ہوں گے کبھی
بہادر شاہ ظفر اردو کے ساتھ ساتھ برج بھاشا میں بھی شاعری کرتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کا برج بھاشا میں تخلص ’’شوخ رنگ‘‘ تھا۔ ان کی لکھی ہوئی ’’ہوری‘‘ ہندستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی بڑے شوق سے گائی جاتی ہے اور سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے:
کیوں مو پہ ماری رنگ کی پچکاری
دیکھو کنور جی دوں گی میں گاری
———
بہت دنن میں ہاتھ لگے ہو کیسے جانے دوں
آج میں بھگوتوسوں کاں ہاتھ پکڑکے لوں
شوخ رنگ ایسے ڈیٹھ کہ ان سے کھیلے کون ہوری
مکھ موڑے اور ہاتھ مروڑے کرکے وہ برجوری
بہادر شاہ ظفر کے ان اشعار میں جہاں شوخی اور رنگینی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، وہیں اس بات کے بھی اشارے ملتے ہیں کہ وہ محض رنج و غم کی شاعری کے ہی دلدادہ نہیں تھے۔
ہولی کی روایت جب نظیر اکبرآبادی تک پہنچی تو انھوں نے ہولی سے متعلق اشعار میں مزید چار چاند لگادیے۔ انھوں نے ہولی پر تقریباً دس نظمیں کہی ہیں۔ ہر نظم میں ہولی کے رنگ، ہولی کھیلنے والوں کا سراپا اور ہولی کی بہاریں اپنی مثال آپ ہیں۔ نظیر نے ہولی کو ہر زاویۂ نگاہ سے دیکھا ہے اور بڑی مہارت کے ساتھ جزئیات نگاری کی خوب صورت مثالیں پیش کرکے ایسی منظرکشی کی ہے کہ اس زمانے کی ہولی کا پورا منظرنامہ سامنے آجاتا ہے۔ انھوں نے اپنی بیشتر نظموں کی طرح ہولی میں بھی مسرت اور ہنسی خوشی کے خزانے ڈھونڈے ہیں اور ہولی کو سماجی جشن کی طرح پیش کیا ہے۔ وہ ہولی کے ثقافتی اور تہذیبی پہلو سے پوری طرح آگاہ تھے، اس لیے انھوں نے اپنی نظموں میں انھی تمام پہلوئوں کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا ہے:
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور ساغر مئے کے چھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
محبوب نشے میں جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
نظیر اکبرآبادی ہندو -مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی کا ایک تناور درخت تھے۔ وہ عید اور ہولی میں ایک جیسی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ان کی نظر میں ہولی مشترکہ سماج کا مشترکہ تہوار تھا۔ ان کے ہاں ہولی کے دن بادل، بجلی، ہوا سب پر سحر طاری ہے اور سب مل کر ماحول کا ایک حصہ نظر آتے ہیں:
جو گھِر کے ابر کبھی اس مزے میں آتا ہے
تو بادلوں میں وہ کیا کیا ہی رنگ لاتا ہے
خوشی سے رعد بھی ڈھولک کے گیت گاتا ہے
ہوا کو ہولیاں گا گا کے کیا سناتا ہے
تمام رنگ سے پر ہے بہار ہولی میں
رام بابو سکسینہ نے تاریخ ادب اردو میں لکھا ہے کہ ان کے مزاج میں چوں کہ مذہبی تعصب اور ناروا داری نہ تھی، بلکہ کٹرپن کو وہ نہایت نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس وجہ سے وہ ہندوئوں سے بہت رسم و راہ رکھتے تھے اور ان کے رسم و رواج، ان کی زبان، ان کے خیالات، ان کے تہوار اور ان کے معتقدات تک کو ایسے دلچسپ طریقے سے اور اس قدر صحت کے ساتھ بیان کرگئے ہیں کہ ہم کو ان کی ہمہ دانی پر تعجب ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ حسرت موہانی اور فائز دہلوی نے بھی ہولی پر اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں۔
حسرت موہانی کا یہ انداز دیکھئے:
مو پہ رنگ نہ ڈال مراری
بنتی کرت ہوں تھاری
پنیا بھرن کاہے جائے نہ دے
شیام بھرے پچکاری
تھر تھر کانپت لاجت حسرت
دیکھت ہیں نر ناری
اور فائز دہلوی اس طرح عبیر اور گلال چھڑکتے ہیں:
لے عبیر اور ارگجہ بھرکر رومال
چھڑکتے ہیں اور اڑاتے ہیں گلال
آج ہے روز بسنت اک دوستاں
سربلند ہے دوستوں کے درمیاں
ہر چھبیلی از لباسِ کیسری
تازہ کرتی ہے بہار جعفری
جیوں چھڑی ہر سو رے پچکاری کی دھار
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کی سار
سیماب اکبرآبادی نے بھی اس میدان میں طبع آزمائی کی اور شری کرشن کی گوپیوں کے ساتھ منائی جانے والی ہولی کے منظر کا نقشہ اس طرح کھینچا:
کرشن کی اب یاد رفتہ محفلیں زندہ کرو
برج گوگل کی بھی شمعوں کو تابندہ کرو
خوشبوئے گنگ و جمن کی آب یاری کے لیے
دعوتیں دو گوپیوں کو رنگ باری کے لیے
شمیم کرہانی ہولی جیسے خوشی اور مسرت کے تہوار پر نفرت پھیلانے والوں کو سبق سکھانے کا یوں اعلان کرتے ہیں:
ترے چمن میں ہر دم اترے رنگ و بو کی ڈولی
رہے بسنتی آنچل تیرا، بھرے گلوں سے جھولی
جیون رس برسائے، پھاگن رنگ اڑائے
جو نفرت کی آنکھ سے دیکھے ماردے اس کو گولی
جوش ملیح آبادی جو ہر وقت حسینائوں کا دم بھرتے تھے، خوشی میں بے خود اور کیف و سرور میں کھوئی ہوئی حسینائوں کی حالت ایک جگہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
آرائشوں کی فکر نہ زیبائشوں کا ہوش
وارفتگی لالہ رخاں دیدنی ہے آج
ہولی کے گیت اور نغمے آج بھی لکھے جارہے ہیں۔ ان میں بھی وہی رنگ ہے، وہی مستی ہے اور وہی عبیر و گلال ہیں۔ شباب للت کے ہولی کے رنگوں میں ڈوبے یہ اشعار دیکھئے:
پھر آج ارض ہند پہ ہولی کی دھوم ہے
المست رنگ پاشوں کا ہرسو ہجوم ہے
ہر سمت رنگ و نور کی برسات دیکھئے
آلودہ ہے گلال سے ہر بات دیکھئے
فضا ابن فیضیؔ ہولی پر اس طرح مخاطب ہوتے ہیں:
یہ وہ موسم ہے کہ اس موسمِ رنگیں کے لیے
پھولوں سے بادِ صبا رنگ و لطافت مانگے
تسنیم فاروقی نے ہندی کی طرز پر ’’ہولی‘‘ پر گیت اس طرح لکھا ہے کہ ہولی کے ساتھ کھیلنے کا مزہ دوگنا ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ہل مل کھیلیں پھاگ/ سکھی ری! ہل مل کھیلیں پھاگ/ رنگ رنگیلی ہولی آئی/ ساتھ عبیر اور گلال لائی/ رنگ بھری ماروں پچکاری/ دیکھ سکھی میں دوں گی گاری / ہولی میں دوں گی آگ / سکھی ری! ہل مل کھیلیں پھاگ
مصباح خیامی ہولی پر اس پیغام کے ساتھ سامنے آتے ہیں:
خطا معاف کریں، سب کی بانٹ لیں خوشیاں
کسی کا دل نہ دکھائیں کہ آج ہولی ہے
رئیس رام پوری سپنوں کو رنگین بناتے ہوئے، دھوم مچاتے ہوئے اس طرح خطاب کرتے ہیں:
دل کی مانیں، سپنوں کو رنگین بنائیں ہولی ہے
اچھلیں، کودیں، ناچیں گائیں، دھوم مچائیں ہولی ہے
رحمت الٰہی برق اعظمی مستانہ وار آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کے دن غم و الم کا کوئی نشان باقی نہیں رہنا چاہیے:
بسا ہے باس سے پھولوں کی گلشن عالم
نسیم پھرتی ہے مستانہ وار ہولی میں
غم و الم کا نشاں تک نہ رہ گیا باقی
خوشی سے سب نے کیا سب کو پیار ہولی میں
گویا ہماری شاعری ہندستانی تہواروں کی بھی اسی طرح تصویر پیش کرتی ہے کہ ہندستانی ماحول، یہاں کی معاشرت اور موسموں کے ساتھ ساتھ تہواروں کی پرکیف ساعتیں ہرسو جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں