محمد اشرف یاسین
غضنفر (جائے پیدائش، چوراؤں، تھاوے، سن 1953، گوپال گنج، بہار) کا اصلی اور مکمل نام غضنفر علی ہے۔ جبکہ قلمی نام صرف "غضنفر” ہے۔ اُردو ادب میں ان کی شناخت ایک زود نویس کی ہے۔ فاروق ارگلی(1940- باحیات)، ساحل احمد (1938-2024)، علیم صبا نویدی (1942-2024) اور مناظر عاشق ہرگانوی (1948-2021)، وغیرہ اُردو میں اپنی بسیار نویسی کی وجہ سے بھی جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ غضنفر صاحب نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے ‘اکادمی برائے فروغِ استعداد اُردو میڈیم، اساتذہ’ کے علمی و ادبی ترجمان، رسالہ "تدریس نامہ” کی کامیاب ادارت کی، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے فکشن (ناول اور افسانے) بھی تحریر کیے اور شاعری بھی کی، خاکے بھی لکھے، پانچ تنقیدی کتابیں و متعدد مضامین اور دو مثنویاں بھی لکھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں عوام میں بڑی مقبولیت ملی۔ یہاں ان کے ایک افسانہ ڈگڈگی پر گفتگو کی جارہی ہے۔
جامعہ ملّیہ اسلامیہ(نئی دہلی) کے مذکورہ شعبے سے وابستگی کے دنوں تک میں انہیں ان کے دونوں افسانوی مجموعوں "حیرت فروش”(2005) اور "پارکنگ ایریا” (2015) کے علاوہ ان کے متعدد نالوں، جیسے "پانی”(1989)، "کینچلی”(1993)، "کہانی انکل”(1997)، "دویہ بانی”(2000)، "فسوں”(2003)، "وِش مَنتھَن”(2004)، "مم”(2007)، "شور آب”(2009) اور "مانجھی” (2012) وغیرہ کی وجہ سے بطورِ فکشن رائٹر ہی جانتا تھا۔ لیکن جامعہ ملّیہ اسلامیہ سے سبک دوش ہونے اور علی گڑھ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد، میں ان کے ایڈوکیٹ عبدالرحمٰن اور پروفیسر صفدر امام قادری پر لکھے خاکوں کو پڑھ کر ان کی خاکہ نگاری کا صدق دل سے معترف ہوگیا۔ بعد از آں ان کی دونوں مثنویاں "کربِ جاں”،(2016)، "قمر نامہ”(2022) اور تینوں شعری مجموعوں "آنکھ میں لکنت” (2015)، "سخن غنچہ” بچوں کی نظمیں، (2017) پر سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر تبصرہ دیکھا اور پڑھا، تو مجھے بھی ان کی شعری صلاحیت کا خاطر خواہ علم ہوا۔ ان کے ڈراموں کے مجموعے کا نام "کوئلے سے ہیرا تک”(1971) ہے۔ جبکہ ان کی خود نوشت سوانح حیات کا نام "دیکھ لی دنیا ہم نے”(2021) ہے۔ یہ نام پروفیسر شہر یار (1936ء- 2012ء) کے اس شعر سے ماخوذ ہے۔
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ ایک قلم کار اپنی زندگی کا اچھا خاصہ حصّہ کسی ایک صنف کے گیسو سجانے، سنوارنے اور بنانے میں لگا دیتا اور اسے اس صنف سے خصوصی شغف کی وجہ سے اچھی خاصی شہرت و مقبولیت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن قلم کار اپنی ذاتی دلچسپی اور تشفی کے لیے کسی دوسری صنف کی طرف بھی مائل ہو جاتا اور اس میں بھی کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس زمرے میں ہم کرشن چندر(1914-1977) اور مشرف عالم ذوقی (1962-2021) کو شامل کرسکتے ہیں۔ کرشن چندر نے بھی ایک زمانے تک فکشن تحریر کیا پھر بعد میں وہ طنز و مزاح اور ادبِ اطفال کے تراجم کی طرف ملتفت ہوئے اور مشرف عالم ذوقی نے بھی ایک لمبے عرصے تک خود کو فکشن سے وابستہ رکھا، پھر بعد میں یا یوں کہیں کہ اپنی زندگی کے آخری چند مہینوں میں شعوری طور پر یہ خاکہ نگاری کی طرف منتقل ہوگئے تھے اور "قصّۂ شب و روز”(مرتب احتشام الحق آفاقی) جیسا ادبی خاکوں کا مجموعہ ہم اُردو قارئین کو دیا۔
انیسویں صدی میں مرزا سنگین بیگ نے اپنی کتاب "سیر المنازل” میں (مترجم ڈاکٹر شریف حسین قاسمی) ڈگڈگی شاہ کلن، کھڑکی پنچکی، کھڑکی فراش خانہ اور کھڑکی میر خاں کا ذکر کیا ہے۔ ڈگڈگی پرانی ہندی یعنی اردو بلکہ یوں کہیے کہ دلّی کی زبان میں کھڑکی کو کہتے ہیں۔ فصیل کا سب سے پہلا اور سب سے قدیم دروازہ نگم بودھ دروازہ تھا اور اس کے قریب کلکتہ دروازے کا بھی بیان ہے۔ جہاں 1852 میں یادگار کے طور پر ایک تختی لگا دی گئی تھی، اب ان دروازوں کی کیا صورت ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہاں "ڈگڈگی” ڈمرو کے معنیٰ میں ہے، جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
"ڈگڈگی” نامی یہ افسانہ غضنفر کے دوسری افسانوی مجموعے "پارکنگ ایریا”(اشاعت 2015) میں شامل ہے۔ اس افسانے کے ابتدائی پیراگراف میں ڈگڈگی والے کی شکل وصورت اور اس کے لباس و پیراہن کے ساتھ اس کی نشست و برخاست کا جس عمدہ انداز میں بیان ہوا ہے وہ غضنفر ہی کا خاصہ ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
"ڈُگڈُگی بجانے والا سر سے پیر تک ایک مخصوص قسم کے لباس میں ملبوس ایک لحیم شحیم آدمی تھا۔ اس کے سر اور داڑھی کے بال تماشائیوں کے بال سے مختلف تھے۔ رنگ برنگ کے گول گول پتھروں سے بنی ایک لمبی مالا اس کے گلے میں لٹک رہی تھی۔ تقریباً سبھی اُنگلیوں میں رنگین پتھروں کے نگ کی انگوٹھیاں تھیں۔ ایک ہاتھ میں ایک پرکشش ڈُگڈُگی تھی جو مسلسل رقص کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ میں چمچاتی ہوئی بانسری جس کے منھ والے سوراخ کے ذرا نیچے سرخ رنگ کے پھندنے لٹک رہے تھے۔” (افسانہ، ڈگڈگی : غضنفر)
اس پیراگراف سے نہ صرف ڈگڈگی والے کے حلیے اور لباس کا علم ہوتا ہے، بلکہ اس کی جملہ صفات کو افسانہ نگار نے اس خوب صورتی سے پیش کردیا کہ اس کی پوری قلمی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے کھینچ کر رکھ دی ہے۔ دراصل کسی بھی شخص کی قلمی تصویر (اسکیچ : Sketch) بنانے میں غضنفر صاحب اتنے زیادہ مَشَّاق ہیں کہ وہ اپنے قارئین کو ابتدائی سطور سے ہی باندھے رکھنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں، جبکہ یہ اپنے ممدوح کے نام کا انکشاف عموماً اپنے خاکوں کے آخری جملے میں ہی کیا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ غضنفر کے تین تین خاکوں کے مجموعے "سُرخ رو” (2010)، "روئے خوش رنگ”( 2014) اور "خوش رنگ چہرے”(2018) ہیں۔
غضنفر صاحب کہانی کہنے کے طریقے سے پوری طرح واقف ہیں۔ اسی وجہ سے یہ اپنی تمام طرح کی تحریروں میں اپنے مسحور کن اسلوبِ بیان سے قارئین کو سحر زده کرلیتے ہیں اور قارئین رفتہ رفتہ ان کا گرویدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
غضنفر نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ لکھا کہ ایک لڑکی کی طرف سے یہ اس کے عاشق کو خطوط لکھا کرتے تھے اور پھر اسی عاشق کی طرف سے اس کے معشوق کو جوابی خطوط بھی یہی لکھتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں سلاست اور روانی کے ساتھ ساتھ قارئین کی دلچسپی و دل بستگی کا مکمل سامان موجود ہوتا ہے۔ اُردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایسا ایک دوسرا واقعہ بھی ملتا ہے جو سریندر پرکاش (1930-2002) سے متعلق ہے۔ سریندر پرکاش کی تحریروں میں پختگی باری علیگ(1906-1949) کے چھوٹے بھائی نذیر طالب کی وجہ سے آئی تھی، جس کا مکمل واقعہ یہ ہے کہ ایک روز نذیر طالب نے سریندر پرکاش کو نجمہ نامی ایک لڑکی کا محبت نامہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کا جواب لکھو۔ پھر یہ خطوط کا سلسلہ ایسا چلا کہ سریندر پرکاش نے ساڑھے نو سو خطوط(950) کے جوابات لکھ مارے، تب یہ راز کھلا کہ نجمہ کی طرف سے نذیر طالب خطوط لکھا کرتے تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ سریندر پرکاش کی تحریر میں پختگی کا آجائے۔
افسانے میں ڈگڈگی والا شخص ہندو بھائی سے پراتھنا کرتا ہے کہ وہ پریم سے شنکر بھگوان کی جے بولیں اور مسلمان بھائی سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ایک بار دل سے نعرۂ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللّٰه اکبر کہیں۔ ہندو شنکر بھگوان ہی کی جے کیوں کہیں؟ کیوں کہ شنکر بھگوان کی ڈگڈگی اور سانپ سے ایک بہت ہی خاص مماثلت پائی جاتی ہے۔ ‘شنکر بھگوان کی ڈگڈگی’ اور کرشن بھگوان کی ‘بانسری’ شنکر بھگتوں اور کرشن بھگتوں میں بہت مقبول ہے۔ شنکر بھگوان نے وِش مَنتھَن کیا تھا اور سمندر سے حاصل ہونے والے زہر کو خود نوش کرلیا تھا، جس کی وجہ سے ان کا جسم نیلا پڑ گیا تھا۔ اسی نیلے پن کی وجہ سے ان کا ایک نام ‘نیل کنٹھ’ بھی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ "وِش مَنتھَن” کے نام سے غضنفر کا ایک ناول بھی ہے، جو 2004 میں شائع ہوا تھا۔
ہندو، مسلم دونوں قوموں سے ایک ساتھ نعرے لگوانے سے ہندو، مسلم یک جہتی، یا یوں کہہ لیجیے کہ قومی یک جہتی، یگانگت اور وحدت و محبت کا سبق اور پیغام جاتا ہے۔ عموماً قومی تہواروں میں بھی اسی وجہ ان نعروں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہندوستانی فلموں میں بھی عرصے سے اس کا چلن عام ہے۔ شنکر بھگوان کی زندگی کا ایک مثبت عکس اکشے کمار کی اداکاری پر مبنی حالیہ دنوں میں ریلیز ہونے والی فلم OMG 2 میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
اُردو افسانوں میں "سانپ” کو علامت کی حیثیت سے بہت سارے افسانہ نگاروں نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ جس دور میں علامتی اور تجریدی افسانے لکھے جارہے تھے۔ اس دورانیے میں نئی نئی علامتوں کو پیش کرنے کا ایک فیشن بن گیا تھا۔ ان علامتوں کے بہت زیادہ مبہم ہونے کی وجہ سے اس کی تفہیم مشکل ہوجایا کرتی تھی اور مجموعی طور پر اس طرح کے افسانوں کو خاطر خواہ مقبولیت نہیں مل سکی۔ سانپ اور سنپیرے کے ہی موضوع پر پریم چند(1880-1936) کا ایک بہترین افسانہ "منتر” ہے۔ اس کی معنویت اور مقبولیت آج بھی وہی ہے جو آج سے سَتَّر (70) اَسِّی (80) سال پہلے تھی۔ بنیادی طور پر اس افسانے میں انسان اور انسانیت کے لیے بہترین پیغام مضمر ہے۔ واضح رہے کہ یہ افسانہ پریم چند کے افسانوی مجموعے "میرے بہترین افسانے” (1992) میں شامل ہے۔ شعر و شاعری میں بھی سانپ کا بہت تذکرہ ملتا ہے۔ سرِ دست کلاسیکی شعراء میں سے شاہ نصیر (1756-1838)، مرزا اسد اللّٰه خاں غالب (1797-1869) اور جدید شعراء میں سے عرفان صدیقی (1939-2004) کے صرف ایک ایک اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔
خیال زلف دوتا میں، نصیرؔ پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل، تو لکیر پیٹا کر
(شاہ نصیر)
کٹے تو شب، کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے
(مرزا اسداللّٰه خاں غالب)
دونوں اپنے کام کے ماہر، دونوں بڑے ذہین
سانپ ہمیشہ پھن لہرائے اور سپیرا بین
فتنۂ شب نے ختم کیا، سب آنکھوں کا آزار
سارے خواب حقیقت بن گئے، سارے وہم یقین
(عرفان صدیقی)
نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ، نئی دہلی (NCERT) کی تیار کردہ پانچویں جماعت کی (EVS) Environmental Studies کے مطابق عموماً ہندوستان میں چار قسم کے زہریلے سانپ پائے جاتے ہیں۔ (1) AFAA، افعیٰ، (2) KOBRA، ناگ (3) KRAIT، کریت (4) DUBOLYA، دبوئیا وغیرہ
اس افسانے میں ڈگڈگی والے کی جملہ صفات سمٹ کر آگئی ہیں۔ ڈگڈگی بجانے والے یا مداری دکھانے والے اپنے سامعین و ناظرین کے تجسّس کو بالکل آخر تک برقرار رکھنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی زبان پر پوری قدرت اور ملکہ حاصل ہوتا ہے اور یہ لوگ عوام کی نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ اپنی طلاقتِ لسانی اور زبان پر پوری طرح سے عبور رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ گنجے شخص کو بھی کنکھا بیچ دیتے ہیں۔ ہندوستان کی ٹرینوں اور بسوں میں سامان بیچنے والے لوگ بھی غضب کے نبض شناس ہوتے ہیں، جو مسافروں کو اپنی زور بیانی سے قائل کرکے اپنا سامان فروخت کرنے میں طاق ہوتے ہیں۔
اس افسانے میں "ڈگڈگی” والے یعنی مداری اور سپیرے(CALBALIYA) کی شخصیتیں آپس میں اس طرح مدغم ہوگئی ہیں کہ انہیں علاحدہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج بھی ہندوستان کے دور افتادہ علاقوں، گاؤں اور دیہات میں مداری والے اپنی مخصوص ‘ڈگڈگی’ کے ساتھ بندر، بندریا، بھالو یا سانپ وغیرہ جیسے مختلف جانوروں کی مدد سے دیہاتی عوام اور بچوں کو تفریح بہم پہنچاتے ہیں۔ گاؤں، دیہات میں پائی جانے والی ‘نٹ’ برادری مداریوں کی طرح چرب زبان نہیں ہوتی ہے۔ عموماً ان کا پیشہ ہی سانپ پکڑنا ہوتا ہے۔ بسا اوقات معمولی سی غفلت کی وجہ سے سانپ انہیں ڈس لیتا ہے اور وقت پر علاج و معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔
حوالہ جات :
1- "پارکنگ ایرایا”، صفحہ نمبر 181 سے 187 تک، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 06، 2015ء
2- "غضنفر کی دنیا” : ڈاکٹر ہارون رشید، مشمولہ مضمون، قندیل (آن لائن)، 15/فروری 2022ء، (مضمون کا لنک
(https://qindeelonline.com/dekh-li-dunya-mai-ne-review/
3- "غضنفر فن اور شخصیت ": عمران جمیل، مشمولہ "اشتراک ڈاٹ کام” 20/اگست 2023ء، (مضمون کا لنک
https://ishtiraak.com/index.php/2023/08/20/ghazanfar-fun-aur-shakhsiyat/?fbclid IwAR1bGEtJnV0HywIb2cGOuSlhMLdy3FwN2ogPzsSjqTMnQjqHjbF-7bdPeCY)
4- غضنفر کی خود نوشت ‘ دیکھ لی دنیا ہم نے’ : اجتماعی زندگی کا عجائب گھر، مضمون نگار، صفدر امام قادری، مشمولہ مضمون اشتراک ڈاٹ کام، 22/ نومبر 2021ء، مضمون کا لنک( https://m.facebook.com/groups/urdu.fiction/permalink/4930718813607794/?mibextid=Nif5oz)
5- مشمولہ مضمون، رسالہ "کائنات”، (آن لائن) ایڈیٹر : ڈاکٹر خورشید اقبال، شمارہ نمبر 87، اپریل 2023، صفحہ نمبر 21 سے 29
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں